حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            ۲۰۱۱/ سے ملک شام اور عالم اسلام کی صورت حال ہردردمند مسلمان کے لیے موضوع فکر بنی ہوئی ہے، اس مدت میں ملک شام کے اندر خوں ریزی اور قتل وغارت کی وہ تاریخ وجود میں آئی جس نے دنیا کے بڑے بڑے ظالموں کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک عام انسان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک ملک کی قیادت خود اپنے شہریوں کے لیے قیامت کس طرح برپا کرسکتی ہے؟ اور اگر وہ ایسا کرتی ہے تو پھر وہ اپنا وجود برقرار رکھنے میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہے؟ لیکن ملک شام میں یہی ہوا ہے اور مسلسل ہورہا ہے۔

            ملک شام میں گذشتہ سات برسوں میں جتنے لوگ قتل وغارت کا شکار ہوئے یا بے گھر ہوئے یا بے روز گار ہوئے، جتنی خواتین کی عزتیں پامال ہوئیں، جتنے معصوم بچے یتیم ہوئے اور جتنے لوگ اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پرمجبور ہوئے، اُن کے اعداد وشمار کسی بھی انسان کا ہوش اڑانے کے لیے کافی ہیں اور اُن کی کوئی مثال کسی ایک ملک کی حد تک پوری بیسیویں صدی کی جنگی تاریخ میں ملنا مشکل ہے، جب کہ زمینی حقائق سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اعداد وشمار بھی حقیقت کی پوری عکاسی نہیں کرتے اور حقیقی صورت حال اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ پھر جیلوں میں قید بے قصور لوگوں کے ساتھ ظلم اور حیوانیت کے بدترین واقعات کاسلسلہ اس پر مستزاد ہے۔

            ایسے میں یہ سوال فطری ہے کہ ایسی ظالم حکومت اب تک اپنا وجود برقرار رکھنے میں کس طرح کامیاب ہے اور دنیا کی بڑی طاقتیں اُس پر قدغن لگانے میں کیوں ناکام ہیں؟ درحقیقت اس سوال کا جواب، شام کے حکمراں خاندان کے مذہبی پس منظر اور سقوط خلافت کے بعد عالم اسلام اور خصوصاً شام کی تقسیم کے حادثات میں مضمر ہے۔

            اس حقیقت کو تاریخ کا ایک معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ۳/مارچ ۱۹۲۴/ کو ہونے والاخلافت عثمانیہ کے سقوط اور خاتمہ کا اعلان، گذشتہ ایک صدی میں مسلمانوں کے مصائب کا نقطئہ آغاز تھا، عثمانی خلافت جو عالم اسلام کے اتحاد کا مظہر تھی، اسے بظاہر اپنوں ہی کے ہاتھوں ختم کراکے دشمنانِ اسلام نے عالم اسلام کو تقسیم کرنے کے اپنے منصوبہ میں رنگ بھرنا شروع کیا۔ اس کی تفصیلات تو ایک پوری تاریخ کا موضوع ہیں، ہم صرف شام کی بات کریں تو خلاصہ یہ ہے کہ ملک شام جو اسلامی خلافت کا ایک عظیم صوبہ تھا، اس کی تقسیم بھی ان کے منصوبہ کا حصہ تھی، چنانچہ اس کے چار حصے کیے گئے سیریا، لبنان، اردن اور فلسطین۔ ان میں سے سیریا اور لبنان پر اُس وقت فرانس قابض ہوا اور فلسطین اور اردن پر برطانیہ۔ اس کے بعد منصوبہ کے اگلے حصے کے طورپر اردن تو عثمانی خلافت کے خلاف برطانیہ کے کام آنے والے شریف حسین کی اولاد کو دے دیاگیا، فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کی راہیں ہموار کی گئیں، لبنان عیسائی اور شیعی طاقتوں کے حوالے کیاگیا اور سیریا میں ایسے حالات بنائے گئے کہ وہ فرانس کے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد بدترین اور غالی شیعیت کی شاخ نصیری فرقہ کے قبضے میں آگیا۔

            بدقسمتی سے ہمارے یہاں اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے ہر طبقہ کو سچا مسلمان سمجھ لیا جاتا ہے اور باطل فرقوں کے خطرناک کردار پر بات کرنے کو فرقہ بندی کہہ کر اتحاد کی راہ میں رکاوٹ سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ سچی بات یہ ہے کہ اگر ہم مذہبی حوالے سے صرف نظر کرکے صرف تاریخی حقائق کی بات کریں تو بھی اس بات کو ثابت کرنا نہایت آسان ہے کہ عالم اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور اسلام دشمن طاقتوں کے مقاصد، اُن کی امیدوں سے بڑھ کر پورا کرنے کا کام انہی باطل فرقوں کے نام نہاد مسلمانوں نے کیاہے۔ اس جملہ کی تفصیل بھی دوسری فرصت کی متقاضی ہے، سردست شام تک بات کو محدود رکھا جائے تو نصیری فرقہ نے اقتدار پر قابض ہوکر ظلم وستم کے جو نئے ریکارڈ بنائے ہیں وہ بھی حددرجہ بھیانک ہیں۔

            اس طبقہ کو بڑھاوا تو فرانس کے دوراقتدار ہی میں مل گیا تھا؛ لیکن فرانس کے جانے کے بعد ان لوگوں نے مشہور صلیبی عیسائی میشل عفلق کی قائم کردہ بعث پارٹی کا دامن تھاما، موجودہ صدر کے باپ حافظ الاسد نے اس پارٹی کے توسط سے اقتدار میں حصہ پالیا، جب بعث پارٹی ۱۹۶۳/ کے انقلاب کے ذریعہ برسراقتدارآئی تو حافظ الاسد اس کا وزیر دفاع بنا اور اسی کی سازش سے ۱۹۶۷/ کی عرب اسرائیل جنگ کا نتیجہ اسرائیل کے حق میں رہا اور اسرائیل خطہٴ گولان پر قابض ہوا۔ پھر ایک انقلاب کے ذریعے ۱۹۷۱/ میں حافظ الاسد باقاعدہ صدر بننے میں کامیاب ہوگیا۔

            باقاعدہ حکومت پر قابض ہونے کے بعد انھوں نے ملک کا دستور بدلا، دینی سرگرمیوں پر پابندی لگائی، تعلیمی اداروں میں اسلامی مواد کو خارج کیا، فوج میں نماز پڑھنے کو ممنوع قرار دیا، پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی اور ظلم وستم کا وہ بازار گرم کیا کہ جس کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کردیتی ہیں، بطور مثال ۲۶/جون ۱۹۸۰/ میں ”تدمرجیل“ میں بیک وقت اٹھارہ سو پچاس تعلیم یافتہ اور قائدانہ صفات کے حامل سنی مسلمانوں کا قتل اور ۱۹۸۲/ میں ”حماة“ شہر میں ۲۷ دن جاری رہنے والا قتل عام پیش کیا جاسکتا ہے، جس میں چالیس ہزار سے زائد لوگ موت کے گھاٹ اتاردیے تھے۔ یہ ایک جھلک ہے اس خاندان کی حکومت کے پہلے مرحلہ کی، جس کا خاتمہ جون ۲۰۰۰/ میں حافظ الاسد کی موت پر ہوا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیں ڈاکٹر علی جریشہ کی کتاب ”حاضر العالم الاسلامی، ص۱۹۷تا ۲۱۵)

            حافظ الاسد کی موت کے فوراً بعدہی عالمی صلیبی طاقتوں نے اس کے بیٹے بشارالاسد کو اقتدار میں لاکر اس بات کا انتظام کردیا کہ اہل حق کے حالات کی تاریک رات کی صبح نہ ہونے پائے۔ بظاہر اس شخص کے اقتدار کے ابتدائی دس سال معمول کے مطابق گذرگئے؛ لیکن اندرونی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، یہاں تک کہ عرب ملکوں میں عرب بہاریہ کے نام سے متعارف ہونے والے انقلاب کا سلسلہ شروع ہوا اور شام کے شہر درعا سے بشار کی حکومت کے خلاف بھی آواز اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شامی مسلمانوں کی آواز بن گئی اور اس کے فوراً بعد نئے دور کی تاریخ کے سب سے بڑے ظلم وستم کا یہ سلسلہ شروع ہوا جس کے کچھ مناظر غوطہ کے حوالے سے گذشتہ ماہ ہرغیرت مند انسان کو جھنجوڑ چکے ہیں، اور تعجب یہ ہے کہ جو عرب بہاریہ، قذافی، بن علی اور حسنی مبارک جیسے ڈکٹیٹروں کی حکومتوں کو بہالے گیا وہ بشار کی حکومت کا بال بیکا نہ کرسکا، جب کہ بظاہر وہاں اس کے خلاف سب سے بڑی عالمی طاقت بھی مصروف جنگ ہے اور اس کی طرف سے بار بار یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ وہ بشار کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

            اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف بظاہر امریکہ اور اس کے حمایت یافتہ گروہ، بشار حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں، دوسری طرف روس اس کا پشت پناہ بن کر سامنے آچکا ہے اور ایران اوراس کی حمایت یافتہ جنگی طاقت حزب اللہ کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اُن کا کردار ایک کھلا ہوا راز ہے۔

            ان حالات میں ایک عام مسلمان کے ہاتھ میں تو دعاء خیر کے سوا کچھ باقی نہیں ہے؛ حالانکہ صرف اس پر اکتفاء اس کی مجبوری ہی کا عنوان ہے؛ لیکن بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہم دعاء خیر کے بھی شاید قائل نہیں ہیں یا اس کے قابل نہیں ہیں۔

            لیکن جہاں تک مسلم حکمرانوں اور قائدین کا سوال ہے تو اُن کے لیے یہ گھڑی عرصہٴ محشر کی حیثیت رکھتی ہے جو اُن سے کسی عمل کا مطالبہ کررہی ہے جو معلوم نہیں اُن کے دفتر میں ہے بھی یا نہیں؟ کیا ایک مسلمان اُن سے یہ امید رکھ سکتا ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں گے یا اگر بیدار ہیں تو اپنے پاؤں کی بیڑیاں کاٹنے میں کامیاب ہوں گے، کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں اسی عطاء کے لونڈے سے دوا لینے کی پالیسی ترک کریں گے؟ بظاہر تو ایسی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی؛ لیکن اس کے باوجود بھی ہم یہی عرض کریں گے کہ      ع

ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے

            اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ مایوس نہ ہوں کتاب وسنت کی تعلیمات سے اپنے کردار کی تعیین کرکے سرگرم عمل رہیں، لایعنی کاموں سے پورا پرہیز کرتے ہوئے اپنے ہرلمحہ کو بامقصد کاموں میں لگائیں، اپنے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت پر توجہ دیں، اپنی ذات کو امت میں کسی معمولی سے اختلاف کا سبب نہ بننے دیں، عقیدہ وعمل میں اہل السنة والجماعة کے موقف ومنہاج سے سرمو انحراف نہ کریں، جھوٹے پروپیگنڈوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں، اپنی صفوں میں چھپے ہوئے دشمنوں سے ہوشیار رہیں میڈیا کے کردار اور مزاج کو پہچانیں اور ذرائع ابلاغ کے جھوٹ سے سچ تک پہنچنا سیکھیں۔ غیرضروری تبصروں سے احتراز کریں، جو کام اپنے کرنے کا نہ ہو اس میں سرگرمی نہ دکھائیں، ملکی قانون کی پابندی کرتے ہوئے باعزت زندگی کے ذرائع اور وسائل کی فکر کریں۔ اپنے دینی کردار کو مضبوط بنائیں اور اپنے اللہ سے اپنا رشتہ استوار کریں کہ یہی ہمارا سب سے بڑا سہارا ہے۔

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  رجب-شعبان ۱۴۳۹ھ مطابق اپریل ۲۰۱۸ء

#             #             #

Related Posts