حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری                                             

            آج کی گذارشات کا عنوان، دارالعلوم دیوبند کے شہرئہ آفاق ترانے کا پہلا فقرہ (قدرے ترمیم کے ساتھ) ہے۔ ترانہٴ دارالعلوم میں جو لفظ دارالعلوم دیوبند کے لیے استعمال کیاگیا ہے ہم نے اسی کو تمام مدارس اسلامیہ کے لیے استعمال کرلیاہے، جس کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ علم ودانش اور ایمان ویقین کی یہ کارگاہیں جو مدارس کے نام سے متعارف ہیں، یہ سب اپنے مقصد ومنہاج اور نصب العین کے اعتبار سے دارالعلوم دیوبند کا عکس جمیل اور اپنے فکری، علمی اور عملی سفر میں دارالعلوم دیوبند کی رفیق وشریک ہیں اور قدرتاً ان کی نافعیت ومعنویت اسی مزاج ومذاق اور منہج وکردار پر کاربند رہنے میں ہے جو دارالعلوم دیوبند کا امتیاز رہا ہے۔

            اس وقت دارالعلوم دیوبند یا مدارس اسلامیہ کی تاریخ بیان کرنا یا مدح سرائی کرنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ دوحقیقی امور کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنی تمام ترکمزوریوں اور قابلِ اصلاح معاملات کے باوجود اور اس کے باوجود کہ ہمارے مدارس اپنے ماضی کے مقابلے عمومی طورپر انحطاط کا شکار ہیں، بہرحال ان مدارس کا کردار آج بھی وہی اہمیت رکھتا ہے جو اس کو پہلے حاصل تھی اور مسلمانوں کی متاعِ ایمان وعمل اور شریعت کے علمی ورثہ کے تحفظ کے لیے ان مدارس کی ضرورت آج ماضی سے بھی زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ جب ان مدارس کو اپنا کردار مسلسل ادا کرنا ہے اور اُن کی ضرورت باقی ہے تو ان کے لیے اپنی اصلاح وترقی کے عمل سے ایک لمحہ غافل رہنا بھی سنگین جرم کے مرادف ہوگا۔

            جہاں تک موجودہ دور میں بھی مدارس کی ضرورت واہمیت کا معاملہ ہے تو یہ صرف دعویٰ نہیں ہے؛ بلکہ جو شخص بھی دنیا کے حالات سے واقف ہے وہ ہماری اس رائے سے اتفاق پر مجبور ہوگا، دنیا میں تعلیم کی راہ سے جو الحاد و تشلیک اور دین بیزاری کا زہر پھیلایا جارہا ہے وہ کوئی راز نہیں ہے اس کا تریاق مدارس ہی سے مل سکتا ہے، پھر تمام ہی مسلمانوں کے لیے دین اسلام اوراس کے احکام پر مکمل اطمینان اور بھرپور یقین کی جو کیفیت مطلوب ہے اس سے ہٹانے کے لیے دنیا میں سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے ذریعہ جو مذموم کوششیں مسلسل جاری ہیں اوراس کے لیے خاص طورپر تعلیمی اداروں کو جس طرح استعمال کیا جارہاہے یہاں تک کہ مسلم ممالک میں بھی تعلیمی نصاب کے اسلامی کردار کو محدود سے محدودتر کرنے کی جو کارروائیاں ہوئی ہیں اورمسلسل جاری ہیں، ان خطرناک سازشوں کا مقابلہ مدارس کی تعلیم وتربیت کے علاوہ اور کس چیز سے ہوسکتا ہے؟ ایک اور پہلو جو اِن تمام معاملات سے بڑھ کر ہے وہ افکار وعقائد کا ہے۔ امت کو جس جس انداز سے باطل افکار میں مبتلا کیاگیا ہے اور کہیں اتحاد کے عنوان سے اور کہیں کسی اور طریقہ سے، ان باطل تحریکات پر پردہ ڈالنے اور اُن کے لیے میدان صاف کرنے کی جو سازشیں جاری ہیں، ان کا مقابلہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے ہم فکر وہم مذاق مدارس کے علاوہ اور کون کرسکتا ہے یاکرنا چاہتا ہے؟

            ان تمام حقائق کا تقاضا ہے کہ مدارس اسلامیہ اپنے آپ کو فکری اور عملی دونوں پہلوؤں سے صحیح بنیادوں پر استوار رکھیں اور اس سلسلے میں کسی کسل مندی یا غیرذمہ داری کو راہ نہ دیں۔

            جہاں تک فکری پہلو سے ان مدارس کے صحیح مقام کا تعین ہے، اس کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن نوراللہ مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے خطبات صدارت سے ایک اقتباس پیش کردیا جائے جو اگرچہ براہ راست دارالعلوم دیوبند سے متعلق ہے؛ لیکن اسی سے اہل حق کے تمام اداروں کے فکرومنہج کی تعیین اور وضاحت ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں:

”اختصار کے ساتھ یہ سمجھنا چاہیے کہ دارالعلوم دیوبند اپنے قیام کے روز اول سے آج تک الحمدللہ اسی علمی، عملی اور تہذیبی وراثت کا امین ہے جو اسے عہد خیرالقرون سے قرناً بعد قرنٍ پہنچی ہے، ملتِ اسلامیہ کی توجہات کا یہ مرکز، علم وعمل کے لحاظ سے عہد خیرالقرون کا نمونہ ہے، یہاں سب سے زیادہ باکمال وہ ہے جو زمان ومکان کے فاصلوں کو طے کرکے مجلس نبوت میں حاضر ہوجائے، جس سے حضراتِ صحابہ نے استفادہ کیا تھا، دارالعلوم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے کبھی وہ رنگ قبول نہیں کیا جو صبغۃ اللہ نہیں تھا، اسی لیے مکمل یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے امت کے فرقہٴ ناجیہ کی جو علامت ما أنا علیہ و أصحابي (میرے اور میرے صحابہ کے عقیدہ وعمل کے مطابق) بیان فرمائی تھی وہ الحمدللہ دارالعلوم کے مسلک پر پوری طرح منطبق ہے، دارالعلوم گویا اس صراط مستقیم کا محافظ اور پہرے دار ہے جو حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام کو اور صحابہٴ کرام سے تابعین کو اور صحابہ و تابعین سے ائمہٴ مجتہدین کو پہنچتی رہی ہے، پھر ائمہ مجتہدین سے امت کو ہر عہد میں یہ امانت ایسے انتخاب روزگار بزرگوں کے ذریعہ منتقل ہوتی رہی جو اگرچہ انفرادی طور پر تو معصوم نہیں ہیں؛ لیکن ان کا مجموعی موقف یقینا معصوم ہے، اس طرح الحمدللہ دین کی ابدی حفاظت ہوئی اور خدا وند قادر وقیوم کا وعدئہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُون پورا ہوتا رہا اور اسی لیے دارالعلوم کے مسلکِ حق کے مطابق قرآن کریم اور دین مبین کی صرف وہی تعبیر درست ہے جس کے حال کا رشتہ ماضی سے منقطع نہ ہوا ہو۔ چنانچہ دارالعلوم نے روز اول ہی سے قرآن کریم کو سینہ سے لگائے رکھنے کے ساتھ سنت کی اہمیت پر پورا پورا زور دیا اور قرآن وسنت کی حامل اولین جماعت یعنی حضرات صحابہٴ کرام کی توقیر وعظمت، ان سے محبت اور بحیثیت طبقہ ان کے مقدس اور عدول ہونے کے عقیدے کو اپنایا۔ الغرض دارالعلوم اسی صراط مستقیم کا پاسبان ہے جو صحابہٴ کرام سے نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتی رہی ہے اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خداوند عالم نے اکابر دارالعلوم کے ذریعہ گزشتہ زمانہ میں جو خدمت لی ہے وہ بے مثال ہے، بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ہدایت کا کوئی رخ ایسا نہیں ہے جہاں باری تعالیٰ نے دارالعلوم کے ذریعہ منارے اور مشعلیں قائم نہ فرمادی ہوں، اسی طرح ضلالت وگمراہی کاکوئی پیچ وخم ایسا نہیں ہے جہاں باری تعالیٰ نے اس کے ذریعہ صحیح رہنمائی کے اسباب فراہم نہ کردیے ہوں، اس لیے کہ دارالعلوم کا قیام جن حالات میں عمل میں آیا تھا ان میں علماء کرام کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی تھیں اور یہ محض اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اکابر دارلعلوم کے ذریعہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرایا، فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ“․

(خطبات صدارت حضرت مولانا مرغوب الرحمن رحمہ اللہ، مرتبہ مولانا شوکت علی صاحب قاسمی بستوی، ص:۱۵۴-۱۵۵)

            اس جگہ موقع کی مناسبت سے دو شعر یاد آگئے جو صاحبِ ترانہٴ دارالعلوم حضرت مولانا ریاست علی ظفر#بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے ایک نعت کی تضمین میں سامنے آئے اور جن سے دارالعلوم دیوبند اور ان مدارس اسلامیہ کے وجود کا حقیقی پس منظر اور اُن کا شجرئہ نسب واضح ہوجاتا ہے۔ فرمایا۔

یہ اہلِ دل کا جو دارالعلوم مرکز ہے

ملا ہے سب کو یہاں کا پتہ مدینے سے

اُسی کے دم سے ہے دارالعلوم میں رونق

چلاتھا علم کا جو قافلہ مدینے سے

            اس اقتباس میں دارالعلوم دیوبند اورہمارے مدارس اسلامیہ کے فکر وعمل کے جس رُخ کی تعیین کی گئی ہے اس پر پوری بصیرت کے ساتھ کاربند رہنا اور اس کو امت میں عام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ عام مسلمانوں تک یہ فکر اس طرح پہنچائی جائے کہ وہ کسی غیراسلامی فکر کا شکار نہ ہوں؛ بلکہ اُن میں کچھ ایسی فہم وبصیرت وجود میں آجائے کہ اگر کوئی شخص جادئہ مستقیم سے ہٹ کر باتیں کرے تو مسلمانوں کا ذہن اس کو قبول نہ کرے اور وہ صحیح غلط کے فیصلے کے لیے انہی مراکز علم وعمل کی طرف لوٹیں اورانہی کو اپنا اصل راہنما سمجھیں۔

            اس علمی وفکری منہاج کی پابندی کے ساتھ، مدارس کے قیام وانتظام سے متعلق عملی معاملات ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس پہلو سے بھی مدارس اسلامیہ کے لیے حضرات اکابر رحمہم اللہ نے نہایت واضح رہنماخطوط متعین کیے ہیں اور بڑے خوبصورت عملی نمونے چھوڑے ہیں، جن کی پابندی کرکے ہی اس نظام کو صحیح رُخ پر چلایا جاسکتا ہے، ان رہنما خطوط اور عملی نمونوں کا تعلق مدارس کی تاسیس وقیام سے لے کر، نظم وانتظام، تعلیم وتربیت اور فراہمی مالیات تک کے معاملات سے ہے اور اس کی ذمہ داری مدارس کے تینوں ترکیبی عناصر (انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ) پر اپنے اپنے دائرئہ کار کے اعتبار سے آتی ہے۔ اس سلسلے میں چند گذارشات اس امید کے ساتھ پیش خدمت ہیں کہ رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے اجلاس کی مناسبت سے یہ گذارشات مدارس کے حلقہ تک زیادہ بہتر طریقہ پر پہنچ سکیں گی اور مستحق توجہ قرار پائیں گی۔

            (۱) سب سے پہلی بات تو مدارس کے قیام سے متعلق ہے، عام طو رپر ہمارے نئے فضلاء مدارس قائم کررہے ہیں یا پھر قدیم مدارس سے علیحدہ ہونے والے اساتذہ یہ کام کرتے ہیں، اس عمل میں جو چیز اس کی روح کی حیثیت رکھتی ہے وہ نظر انداز ہورہی ہے اور وہ ہے تصحیح نیت۔ کیا یہ بات علماء کو بھی سمجھانی پڑے گی کہ ہر دینی عمل کی روح اخلاص نیت ہے، پھر مدارس قائم کرنے جیسا اہم اور عظیم الشان عمل اس کے بغیر کیسے مفید و بارآور ہوسکتا ہے؟ اس پہلو پر خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ مدرسہ قائم کرنے کا محرک صرف اور صرف دینی ضرورت کی تکمیل اور علاقہ کا تقاضا ہو۔اپنے اساتذہ اور بڑوں سے اور علاقہ کے سنجیدہ وسربرآوردہ محبان دین سے بھرپور مشورہ اور تمام قانونی کارروائیوں کی تکمیل کا اہتمام کیا جائے اور اپنی آخرت سمجھ کر مدرسہ کا کام شروع کیا جائے۔

            (۲)یہ ذہن سے نکال دیا جائے کہ مدرسہ کی کامیابی، بہت جلدطلبہ کی کثرت اور علاقہ میں شہرت سے ہوتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اخلاص نیت اور اعلیٰ معیار پر خدمت شروع کی جائے تو یہ تمام چیزیں خود بخود حاصل ہوتی ہیں۔

            (۳) کچھ لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تعلیم وتربیت میں اگر اصول کی پابندی اور ضروری سختی سے کام لیا جائے تو طلبہ ٹھہرتے نہیں ہیں اس لیے بے جا رعایت سے کام لیا جاتا ہے، یہ سوچ قطعاً غلط ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مدرسہ میں محنتی اساتذہ اورمعیاری تعلیم آج بھی طلبہ کے رجوع کا اصل محرک ہے اور اس کی مثالیں ہر علاقہ میں موجود ہیں اور اگر بالفرض معیاری تعلیمی نظام سے پریشان ہوکر کوئی طالب علم جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں، مدرسہ کو تو اپنے اصل نصب العین پر قائم رہنا ہے۔

            (۴) مالیات کا مسئلہ مدارس میں بڑا اہم ہے اور اس سلسلے میں تمام اہل مدارس کو نہایت سنجیدگی سے صورت حال کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے فراہمی مالیات کامسئلہ ہے، اس کے لیے اصول شریعت کی پابندی کے ساتھ آبرومندانہ طرز عمل اختیار کیا جائے۔ اساتذئہ مدرسہ سے یہ کام اُسی حد تک لیا جائے جس سے اُن کی تعلیمی و تدریسی ذمہ داریاں متاثر نہ ہوں، مدرسہ میں اساتذہ وکارکنان کی اہمیت کا معیار فراہمی مالیات میں ان کی کارگذاری کو نہ بنایا جائے؛ بلکہ ہر شخص کا جو اصل فرض منصبی ہے اس میں اس کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ فراہمی مالیات کے بعد خرچ میں بھی پوری دیانت وامانت اور ذمہ داری ملحوظ رکھی جائے۔

            (۵) آج کل مدارس کے لیے جس قسم کے منفی حالات ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے کوشش کی جائے کہ ہمارے نظام میں کوئی خامی باقی نہ رہے کہ کسی کو انگلی رکھنے کا موقع ملے۔ مدارس کی زمین جائیداد اور تمام معاملات سے متعلق ضروری قانونی کارروائیوں کی تکمیل کی جائے۔ حساب کتاب کی شفافیت کو بہت زیادہ اہمیت دی جائے۔ مدارس میں آنے جانے والے لوگوں پر نظر رکھی جائے، اگر کوئی نیا آدمی تعاون کی پیشکش کرے تو اس کی بھی پوری تحقیق کرلی جائے۔

            (۶) مدرسہ کا اصل مقصد تعلیم وتربیت اور افراد سازی ہے، اس کو ہر وقت پیش نظر رکھا جائے۔ تعلیمی نظام کے استحکام کے لیے امتحانات پر خاص توجہ دی جائے۔ امتحان کو رسمی کارروائی نہ بنادیا جائے، امتحانات پر طلبہ کی ترقی وتنزل کا مدار رکھا جائے۔ طلبہ کی حاضری کا اہتمام کیاجائے۔ سال میں لازمی حاضری کا فی صد طے کیا جائے اوراس کا جائزہ لے کر امتحان میں شرکت کی اجازت دی جائے۔ اساتذئہ کرام بھی طلبہ کے تئیں پوری ذمہ داری، اخلاص اور شفقت ومحبت کا معاملہ کریں اور اُن کو اپنے پاس، امانت سمجھیں۔

            (۷) تربیت کے نظام کو بھی حددرجہ مستحکم بنایا جائے، آج کل کے حالات میں بہتر تو یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو طلبہ کو ہروقت مدرسہ کے اندر رہنے کا پابند بنایاجائے، اگر کسی ضرورت یا تفریح کے لیے نکلنا ناگزیر ہوتو مقررہ وقت پر واپسی کی نگرانی کی جائے، شناختی کارڈ ساتھ رکھنے کا پابند کیا جائے، نمازوں کے سلسلے میں کسی رعایت سے کام نہ لیا جائے، موبائل کے استعمال کو محدود کیا جائے اور اس کی نگرانی کی جائے۔ موقع بہ موقع تذکیر ونصیحت کا اہتمام کیا جائے۔

            (۸) مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران، آپسی روابط کو بھی مخلصانہ بنیادوں پر استوار کریں، ایک دوسرے کو حریف نہ سمجھیں، سب کا مشن خدمت دین ہے۔ اس میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ضروری ہے، اگر تعاون بھی نہ ہوسکے تو تصادم یا عدم تعاون کی تو ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے۔

            (۹) ہرمدرسہ اپنا نصاب الگ بنانے کی فکر نہ کرے، حتی الامکان کوشش کی جائے کہ دارالعلوم دیوبند کے نصاب کے مطابق تعلیم ہو، اگر اپنی کوئی رائے ہے تو اس کو براہ راست یا بالواسطہ رابطہ مدارس اسلامیہ کے پلیٹ فارم پر پیش کیا جائے۔

            (۱۰) آج کل کے حالات کے تحت بہت سے مدارس، ضروری عصری تعلیم کو مدارس کا حصہ بنارہے ہیں، ضرورت کی حد تک اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ اس کے نتیجے میں مدرسہ اسکول نہ بن جائے۔ بیشک ہمیں اپنے اسکولوں کی بھی شدید ضرورت ہے؛ لیکن اس کے لیے مدارس کو قربان نہ کیاجائے، مدرسہ کا نہج اور اس کا نظام اپنا ایک مخصوص انداز رکھتا ہے اوراس کی اپنی روایات واقدار ہیں، ان کو متاثر نہ ہونے دیا جائے۔

            یہ چند گذارشات نوک قلم پر آگئیں، ان میں کوئی استیعاب مقصود نہیں ہے؛ بلکہ چند اہم امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، تاکہ ہمارے مدارس ازسر نو اپنا مقام حاصل کرسکیں اور یہ امت دوبارہ اپنے ان حقیقی مراکز سے وابستہ ہوجائے جن کا کردار یہ ہے کہ۔#

کوئی بزم ہو کوئی انجمن، یہ شعار اپنا قدیم ہے

جہاں روشنی کی کمی ملی، وہیں اِک چراغ جلا دیا

————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:102‏،  جمادی الآخرہ-رجب ۱۴۳۹ھ مطابق مارچ ۲۰۱۸ء

●        ●        ●

Related Posts