بہ قلم: حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی
استاذحدیث دارالعلوم دیوبند
اللہ کے نبی کی نظر میں احادیث کی آئینی حیثیت
اب آیندہ سطور میں موضوع زیربحث سے متعلق چند احادیث نقل کی جارہی ہیں، جس سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ خود اللہ کے نبی پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں اپنی احادیث وسنن کی قانونی وآئینی حیثیت کیا ہے؟
(۱) عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما قال: کنت اکتب کل شيء اسمعہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ارید حفظہ فنہتنی قریش، فقالوا: انک تکتب کل شيء تسمعہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورسول اللہ بشر، یتکلم فی الغضب والرضاء! فاسکتّ عن الکتاب، فذکرت ذلک لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقال: اکتب فوالذی نفسی بیدہ ما خرج منہ الا حق واشار الی شفتیہ صلی اللہ علیہ وسلم (اخرجہ الامام احمد وابوداوٴد وغیرہما وہو حدیث صحیح)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں ہر وہ حدیث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا اسے لکھ لیا کرتا تھا، اس سے میرا مقصد احادیث کی حفاظت تھی، تو قریش (کے بعض افراد) نے مجھے اس سے روکا اورکہا کہ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہر حدیث لکھ لیتا ہے حالانکہ رسول اللہ ایک بشر اور انسان ہیں غصے اور رضامندی کی حالتوں میں گفتگو فرماتے ہیں، تو میں لکھنے سے رک گیا اور یہ پوری بات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، تو آپ نے فرمایا : لکھتے رہو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اس سے حق ہی صادر ہوتا ہے اور اپنے مبارک ہونٹوں کی طرف اشارہ فرمایا۔
اس حدیث پاک میں کسی استثناء کے بغیر ہر اس حدیث کے لکھنے کا حکم ہے جو آپ کی زبان وحی ترجمان سے صادر ہوئی اوراس صراحت کے ساتھ کہ خوشی وناخوشی ہرحال میں آپ کے منھ سے حق بات ہی نکلتی ہے۔ حالانکہ ایک بشر سے بحالت خفگی احتیاط کے باوجود نامناسب ونادرست کلمات نکل جاتے ہیں، لیکن اللہ کے رسول کا معاملہ اس سے بالاتر ہے، حفاظت خداوندی حالت رضاء کی طرح عالم غضب میں بھی آپ کو جادئہ حق پر قائم ودائم رکھتی ہے، لہٰذا آپ سے حق وصواب ہی کا صدور ہوگا۔
(۲) عن المقدام بن معدی کرب الکندی قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الا انّی اوتیت الکتاب ومثلہ معہ، الا یوشک رجلٌ شبعان علی اریکتہ یقول: علیکم بہذا القرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فاحلّوہ، وما وجدتم فیہ من حرام فحرّموہ، الحدیث (سنن ابی داوٴد کتاب الاطعمہ فی باب النہی عن اکل السباع)
بغور سنو! بیشک مجھے (اللہ کی جانب سے ”الکتاب“ دی گئی ہے اور الکتاب کے ساتھ اسی جیسی (واجب العمل حدیث وسنت بھی دی گئی ہے) خبردار رہو! قریب ہے کہ آسودہ حال شخص اپنی آراستہ سیج پر (ٹیک لگاے) کہے گا کہ اسی قرآن کو لازم پکڑو پس اس میں جو چیز حلال سے پاؤ اسے حلال مانو، اور جو چیز اس میں از قبیل حرام پاؤ اسے حرام جانو الخ۔
یہ حدیث پاک اس بارے میں نص ہے کہ سنت نبوی علی صاحبہا الصلاة والسلام بھی قرآن کے مثل ہے، یعنی جس طرح قرآن عزیز منزل من اللہ اور واجب العمل ہے، اسی طرح احادیث رسول بھی وحی الٰہی اور واجب الامتثال ہیں، لہٰذا سنت رسول سے نظر پھیر کر صرف قرآن مقدس پر عمل کا دعویٰ بایں دلیل کہ شریعت اسلامی پر عمل درآمد کے لیے قرآن کافی ہے حدیث کی ضرورت نہیں، دعویٰ باطل ہے جو بلادت وجہالت کی پیداوار ہے، کیونکہ ہم بندوں کے لیے احادیث رسول کی تشریحات و توضیحات کے بغیر براہ راست قرآن پر مکمل طور سے عمل ممکن ہی نہیں ہے۔
حدیث کی حجیت پر اجماع ہے
پوری علمی ذمہ داری سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کے عہد خیر وصلاح سے عصرحاضر تک اکابرمحدثین، ائمہٴ مجتہدین اور علماء حق کی صف میں ایک فرد کی بھی نشاندہی نہیں کی جاسکتی ہے جس نے حدیث رسول کو حدیث مانتے ہوئے اس کی حجیت کا انکار کیا ہو، چنانچہ امام شافعی متوفی ۲۰۴ھ فرماتے ہیں:
(۱) ولا اعلم من الصحابة، ولا من التابعین احدًا اُخبر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا قبل خبرہ وانتہی الیہ واثبتا ذلک سنة․․․ وقال الشافعی: وصنع ذلک الذین بعد التابعین․ والذین لقیناہم، کلہم یثبت الاخبار ویجعلہا سنة، یُحمد من تبعہا ویُعاب من خالفہا، فمن فارق ہذا المذہب کان عندنا مفارق سبیل اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، واہل العلم بعدہم الی الیوم، وکان من اہل الجہالة (مفتاح الجنة للسیوطی ص ۳۲، ۴۲)
حضرات صحابہ وتابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہر ایک کے بارے میں میری معلومات یہی ہے کہ جب بھی انھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی خبر دی گئی تو اسے قبول کیا، اسی پر جم گئے اور اسے اپنا طریقہ بنالیا۔
آگے فرماتے ہیں:
یہی طرز عمل تبع تابعین اور ان علماء کا تھا جن سے میری ملاقات ہوئی ہے، یہ سارے کے سارے حضرات اخبار رسول پر قائم رہتے اور اسے اپنا طریقہ بنالیا کرتے تھے، اور جو حدیث کی پیروی کرتا اس کی مدح وستائش کی جاتی اور جو اس کی مخالفت کرتا اسے معیوب سمجھا جاتا تھا، لہٰذا جو شخص اس مذہب سے الگ ہوگا وہ ہمارے نزدیک اصحاب رسول اور ان کے بعد کے آج تک کے علماء دین کے راستہ کو چھوڑنے والا اور اہل جہالت سے ہوگا۔
(۲) امام ابن حزم ظاہری متوفی ۴۵۶ھ مراتب اجماع میں لکھتے ہیں:
واتفقوا ان کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صحّ انہ کلامہ بیقین فواجب اتباعہ․․․ واتفقوا انہ لا یحل ترک ما صح من الکتاب والسنة ص۱۷۵ (بحوالہ اضاء ات بحثیة فی علوم السنة النبویہ ص۵۰)
علماء کا اتفاق ہے کہ جب صحیح طور پر ثابت ہوجائے کہ یہ بالیقین کلام رسول (علی صاحبہا الصلاة والسلام) ہے تو اس کی اتباع واجب ہے․․․ اور علماء کا اتفاق ہے کہ کتاب وسنت سے جس چیز کا ثبوت صحیح طور پر ثابت ہوجائے اس کا ترک حلال وجائز نہیں ہے۔
(۳) حافظ، محقق کمال الدین ابن ہمام متوفی ۸۶۱ صراحت کرتے ہیں کہ
حجیة السنة ضروریة (التقریر والتحبیر شرح التحریر ج۲ ص۲۳۵، حدیث کی حجیت دین میں (بدرجہ) بدیہی ہے۔
(۴) اور حافظ ابن ہمام سے پہلے علامہ سعد الدین تفتازانی متوفی ۷۹۲ھ نے بھی یہی تصریح کی ہے، چنانچہ التلویح ج۱ ص ۱۳۸ میں لکھتے ہیں: کون الکتاب والسنة حجة بمنزلة البدیہی (بواسطہ حجیة السنہ ص۲۴۸، از ڈاکٹر عبدالغنی مصری متوفی ۱۴۰۳ھ) قرآن وحدیث کا حجت ہونا بدرجہٴ بدیہی ہے۔
حدیث کی حجیت چونکہ بمنزلہٴ بدیہی ہے اور باتفاق فقہاء دین کے بدیہی احکام کے انکار سے منکر دائرئہ اسلام سے نکل جاتا ہے اس لیے امام جلال الدین سیوطی متوفی ۹۱۱ھ لکھتے ہیں:
ان من انکر کون حدیث النبی ﷺ قولاً کان او فعلاً․ بشروطة المعروفہ فی الاصول حجة کفر وخرج عن دائرة الاسلام، وحشر مع الیہود والنصاریٰ او مع من شاء اللہ من فرق الکفرة․ (مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة ص۲)
بلا شبہ جس نے حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواہ وہ قولی ہو یا فعلی انکار کیا جبکہ اس میں اصول حدیث میں مذکور معروف شرطیں موجود ہیں (یعنی وہ حدیث مقبول ومعمول بہ ہے) تو وہ کافر اور دائرئہ اسلام سے خارج ہوگیا، اس کا حشر یہود ونصاریٰ یا مشیت الٰہی کے مطابق کسی کافر فرقے کے ساتھ ہوگا۔
ایک اشکال اور اس کا حل
جمہور علماء دین کے نزدیک یہ امر مسلّم ہے کہ بعض ان پیش آمدہ مسائل ومعاملات میں جن میں منجانب اللہ آپ کو کوئی ہدایت نہیں ملی تھی بوقت ضرورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے حکم صادر فرمائے ہیں اور اجتہاد میں صواب وخطا دونوں کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے سنت رسول علی صاحبہا الصلاة والسلام کو علی الاطلاق اور عمومی طور پر وحی قرار دینا جو ہر طرح کی غلطی سے بری اورپاک ہوتی ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے؟
اس بارے میں عرض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشتر احکام ہدایت ربانی کے تحت ہی صادر ہوا کرتے تھے، سنن رسول کا غالب اور اکثر سے زائد حصہ وحی الٰہی پر ہی مشتمل ہے، رہے دین ودنیا کے وہ معاملے جن میں آپ نے اپنے اجتہاد سے فیصلہ فرمایا ہے اس میں یہ تفصیل ہے کہ رب علیم وخبیر نے آپ کے جس اجتہادی حکم کو بحالہ برقرار وثابت رکھا ہے (آپ کے اجتہادی احکام اکثر ایسے ہی ہیں) تو اس تقریر سے اس کا منشائے ربانی کے مطابق ہونا ظاہر ہے، اور اگر وحی الٰہی (خواہ وہ متلو ہو یا غیرمتلو) کے ذریعہ آپ پر یہ حقیقت منکشف کردی گئی کہ اس حکم اجتہادی میں مراد ربانی تک آپ کے فکر واجتہاد کی رسائی نہیں ہوسکی ہے، اس کے بجائے حکم الٰہی یہ ہے، اس تنبیہ وتصویب کے بعد ا سی تصویبی اور اصلاح شدہ حکم کو آپ نے بیان کیاہے، تو اس صورت کا بھی رضائے خداوندی کے مطابق ہونا واضح ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اجتہادات انھیں دو صورتوں میں دائر ہیں کہ یا تو احکم الحاکمین نے اپنی تقریر کے ذریعہ اس کی تصویب فرمادی ہے، یا اس کی اصلاح فرمادی ہے اور آپ نے اسی درست شدہ حکم کو امت تک پہنچایا ہے، لہٰذا رسولِ خدا کے اجتہادی فرمودات بھی بہرصورت رضائے الٰہی کے عین مطابق ہیں، کیونکہ یہ اجتہادی احکام اپنے ابتدائی مرحلہ میں اگرچہ وحی ربانی سے متصف وموٴید نہیں ہیں، لیکن اپنے مآل وانتہاء میں یقینی طور پر رب کریم کی وحی سے فیض یاب ہیں، اس لیے سنت نبوی علی صاحبہا الصلاة والسلام پورے طور پر ایسی بات سے محفوظ ہے جس سے اس کی تصدیق وتعمیل میں کسی نوع کا تردد وشبہ کیاجاسکے۔
اس وضاحت سے یہ حقیقت صبح روشن کی طرح آشکارا ہوگئی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اقوال وافعال بطریق وحی غیرمتلو صادر ہوئے ہیں، یا جن اخبار واحکام کو آپ نے بطور اجتہاد بیان فرمائے ہیں یہ سب اپنی ابتداء یا انتہاء میں ثابت بالوحی ہیں، اور تصدیق و تعمیل کے لحاظ سے سب یکساں ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے، اوپر مذکور قرآنی نصوص کے عمومات سے بھی یہی ثابت ہورہا ہے کہ سنت نبوی علی صاحبہا الصلاة والسلام علی الاطلاق بغیر کسی تخصیص کے واجب التعمیل ہیں، اور بحیثیت ایک مسلمان کے ہم پر اس کی تشریعی وآئینی حیثیت کو تسلیم کرنا لازم ہے، علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ونبی تسلیم کرنے کا بھی تقاضا ہے کہ آپ کی ہر خبر جازم کی صداقت کا اعتراف اور ہر صریح امر ونہی کا امتثال اور فرمانبرداری کی جائے، البتہ جو حکم آپ نے بطور ظن وگمان یا بطریق مشورہ وغیرہ بیان کیے ہیں وہ خود آپ ہی کے حکم کے مطابق واجب التعمیل نہیں ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
ایک ضروری تنبیہ
جب علماء حق یہ کہتے ہیں کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی علی الاطلاق واجب ہے، تو اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہر حدیث پر عمل بدرجہٴ وجوب لازم ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث پاک جس امر پر دلالت کررہی ہے اس امر کی بجاآوری کسی نہ کسی درجہ میں لازم اور ضروری ہے، لہٰذا اگر بقواعد اصول حدیث وفقہ حدیث کے الفاظ وجوب کو بیان کررہے ہیں تو اس کا کرنا واجب ہوگا، اگر حرمت کے معنی پر دلالت کررہے ہیں تو اس امر کا ترک لازم ہوگا، اگر اس سے سنت واستحباب کا ثبوت ہورہا ہے تو اس کا کرنا سنت ومستحب ہوگا، اگر الفاظ حدیث کراہت کے معنی پر دلالت کرتے ہیں تو اس کا کرنا مکروہ ہوگا، اوراگر اباحت کا اثبات ہورہا ہے تو اس امر کا کرنا مباح ہوگا، بہرصورت کسی نہ کسی درجہ میں اس پر عمل ضروری ہوگا، ”تدبّر“۔
سرسیداحمد خاں کا خودتراشیدہ نظریہ
اوپر مذکور قرآنی آیات اور احادیث رسول علی صاحبہا الصلاة والسلام وغیرہ کی بناء پر علماء اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث (بشرطیکہ منسوخ یا دیگر احادیث کے معارض نہ ہوں) مطلقاً واجب العمل اور اسلامی احکام میں حجت ہیں۔
اس کے برخلاف سرسید احمد خاں مدعی ہیں کہ دنیاوی امور ومعاملات سے متعلق پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث وسنن کی اتباع و پیروی لازم نہیں ہے؛ بلکہ ان امور میں اصل اعتبار دنیوی مصالح اور منافع کا ہے، جن سے کاروبار دنیوی کا علم و تجربہ رکھنے والے ہی واقف ہوتے ہیں، لہٰذا دنیاوی امور میں وہ احادیث کی پیروی کے بجائے اپنے علم وتجربہ پر عمل کریں گے، وہ اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں حدیث پاک ”انتم اعلم بامور دنیاکم“ پیش کرتے ہیں، (یعنی تم لوگ اپنے دنیاوی کاموں کو زیادہ جانتے ہو)
یوں تو سرسید احمد خاں دین کی فہم و تشریح میں احادیث پرمشکل ہی سے اعتماد کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک حدیث کے ثبوت میں بہت سارے خدشات وشبہات ہیں، جنھیں انھوں نے اپنی تحریروں میں تفصیل سے ذکر کیے ہیں، ان کا اس موقع پرذکر باعث طوالت ہوگا، اگرچہ یہ وہی فرسودہ اشکالات ہیں جو ان کے پیش رو مستشرقین اوران سے بہت پہلے فرقہٴ معتزلہ سے وابستہ بعض فریب خوردئہ عقل وہَوَس بیان کرچکے ہیں اور علمائے حق کی طرف سے ان کے مدلل ومسکت جوابات دیے جاچکے ہیں۔
علاوہ ازیں احادیث کی اقسام متواتر، مشہور اور احاد میں سے احادیث متواترہ کو تو وہ بے چون وچرا لائق قبول سمجھتے ہیں اور احادیث مشہورہ میں جو ان کی اپنی خودساختہ تحقیق کی رو سے قابل اعتماد ہیں (جو اقل قلیل ہی ہیں) انھیں بھی قبول کرنے سے ان کو اِبا وانکار نہیں ہے، لیکن احادیث آحاد کو (جو احادیث کی اقسام میں سب سے زیادہ ہیں اور بالعموم احکام شرعیہ کا مدار انھیں پر ہے) قبول کرنے کی طرف ان کا میلان نہیں ہے، پھر اس طرح ان کے تیشہٴ تنقیدو تحقیق سے جو حدیثیں محفوظ بچ گئی ہیں انھیں بھی دو خانوں میں بانٹ دیا ہے: (۱) دینی معاملات ومسائل جن کے بارے میں وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات واحکامات کی تشریعی حیثیت تسلیم کرتے ہیں، (۲)دنیاوی امور ومعاملات، ان میں سنت رسول کا آئینی مقام ومرتبہ ان کے نزدیک مسلم نہیں ہے، کاروبار دنیا میں شرعی احکام کی بجا آوری کے بجاے اپنے علم وتجربہ کے مطابق عمل میں وہ اپنے آپ کو مجاز اور آزاد باور کرتے ہیں، اس تقسیم سے انھوں نے اپنے فکر وعمل کو اطاعت رسول کی قید سے بڑی حد تک آزادی حاصل کرلی ہے، جس سے انھیں دین اسلام کی اپنی من مانی جدید تشریح وتفہیم کی بڑی گنجائش مل گئی ہے اور اس گنجائش سے انھوں نے بڑا کام لیا ہے، جو ان کی تصنیف کردہ کتابوں سے واضح ہے۔
سرسید کے اس نظریہ پر بحث ونظر
اوپر مذکور نظریہ چونکہ امور دین ودنیا کی تقسیم پر قائم ہے، ساری گفتگو کا محور درحقیقت یہی تقسیم ہے، اس لیے اولین مرحلہ میں اس امر کی تحقیق ضروری ہے کہ امور دین اور امور دنیا میں فرق وامتیاز کا معیار کیا ہے۔ (سرسید احمد خاں جو اس تقسیم کے اولین موجد ہیں یہ ان کی ذمہ داری تھی مگر انھوں نے غالباً بعض ذہنی تحفظات کے تحت اسے واضح نہیں کیا ہے)
یہ بات تو ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ دین اور دنیا دو مختلف حقیقتیں ہیں، دونوں اپنے اپنے افعال واثرات اور نتائج وثمرات کے اعتبار سے بھی جدا ہیں، پھر بھی ایسا تو نہیں ہے کہ جسے عوام دین کہیں وہ دین اور جسے دنیا سمجھیں وہ دنیا ہے؛ بلکہ اس کا ایک معیار اور کسوٹی ہے، جس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا کہ دین کیا ہے اور دنیا کسے کہا جاسکتا ہے۔
دین اسلام ایک ایسی ضروری وبدیہی حقیقت ہے جسے ہر مسلمان بلکہ ہر انسان اسی طرح سے جانتا اور پہچانتا ہے جس طرح سے اسے روشن دن اور تاریک رات کا علم وفہم ہے، معمولی پڑھا لکھا بھی جانتاہے کہ دین اسلام زندگی بسر کرنے کا وہ منہج وطریقہ ہے جس کی تعلیم اللہ رب العزت کے رسول نے وحی ربانی کی ہدایت کے مطابق بندگانِ خدا کو دی ہے، بالفاظ دیگر دین وحی ربانی سے ماخوذ وہ دستور حیات ہے جس کو اللہ کے رسول نے نوع انسانی کو بتایا اور سکھایا ہے۔
پھر ہدایت ربانی دونوع پر مشتمل ہے: (۱) ”امر“ یعنی وحی الٰہی نے بذریعہ حکم بعض امور کو بجا لانے اور انھیں زندگی میں نافذ اور جاری کرنے کو فرمایا ہے۔ (۲) نہی یعنی بذریعہ وحی الٰہی بعض کاموں کے ترک اور انھیں چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے، لہٰذا جن امور ومعاملات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وہدایت بذریعہ امر ونہی ثابت و موجود ہوگی وہ لازمی طور پر امور دین ہی ہوں گے، اور جن امور اور کاموں کے بارے میں بارگاہ نبوت سے کوئی حکم وہدایت ثابت نہ ہو وہ امور دنیا میں شمار ہوں گے، دینی و دنیاوی امور میں فرق وامتیاز کا صحیح معیار یہی ہے۔
خودسرسید احمد خاں کا یہ قول تہذیب الاخلاق کے حوالہ سے ابتدائی صفحہ میں گذرچکا ہے کہ ”سچا مذہب امور دنیاوی سے تعلق نہیں رکھتا“ سرسید کے عقیدت کیش ہی نہیں؛ بلکہ ان سے سوءِ ظن رکھنے والوں کو بھی شاید اس سے انکار نہیں ہوگا کہ وہ دین اسلام کو ایک سچا دین کہتے تھے، لہٰذا خود ان کے اس قول کے مطابق بھی وہی کاروبار امور دنیا میں شامل ہوں گے جن کے بارے میں شارع نے سکوت اختیار کیا ہے، یا صراحتاً بتادیا ہے کہ فلاں کام امر دنیا ہے شریعت کا اس سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ اور جو امور ومعاملات شارع کے دائرئہ احکام میں داخل ہیں وہ سب کے سب دینی امور ہی ہوں گے، مثلاً ٹرین، جہاز وغیرہ کی سواری، زراعت، باغبانی، درزی کا کام، باورچی کا کام، نجّاری، آہنگری، قدیم وجدید صنعت وحرفت وغیرہ ایسے کاروبار ہیں جن سے شریعت یعنی الٰہی قوانین ساکت وخاموش ہیں، لہٰذا یہ سب کام امور دنیا میں داخل ہوں گے،اور ”الاصل فی الاشیاء ہو الاباحة“ کی رُو سے ہم ان میں اپنے علم و تجربہ اور عقل وفہم کے مطابق عمل میں آزاد ہوں گے۔ اس کے برخلاف مثلاً دیوانی وفوجداری کے قوانین، عائلی احکام، معاشی قوانین اور اجتماعی زندگی وسیاسی زندگی کے معاملات وغیرہ کے بارے میں احکام کتاب الٰہی وسنت نبوی میں اجمالاً وتفصیلاً مذکور ہیں اس لیے یہ سب امور دین کے دائرہ میں داخل ہیں، انھیں دین کے زمرہ سے خارج کرکے امور دنیا قرار دینا اور ان سے متعلق قرآن وحدیث کے احکام کو نظر انداز کرکے انھیں اپنی منشا ومرضی کے مطابق انجام دینا، دین سے بے خبری یا دانستہ کج روی ہے، ایک موٴمن کامل اور عقل سلیم کا حامل کیا لمحہ بھر کے لیے بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ مالک کائنات اوراس کے فرستادہ معلم انسانیت کے یہ احکام وفرامین چونکہ اس کی نظر میں امور دنیا سے متعلق ہیں، اس لیے ان پر عمل کا وہ مخاطب یاپابند نہیں ہے؛ بلکہ ان امور کو اپنی منشا کے مطابق انجام دینے میں مختار اور آزاد ہے۔
اس صحیح اور علمائے اسلام کے معمول بہ معیار کو سرسید احمد خاں نے خلاف مقصد سمجھتے ہوئے اور اپنے مذکورہ پہلے قول سے گویا انحراف کرتے ہوئے ایک دوسرے موقع پر یوں گویا ہیں ”دنیاوی امور کا قرآن میں ذکر اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ دنیاوی معاملات بھی مذہب میں داخل ہیں“ (مقالات سرسید(۵) ص۹)
آخر ان سے کون پوچھے کہ قرآن مبین کو دین ومذہب ہی کے احکام اور دلائل وشواہد بیان کرنے کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور قرآنی حقائق وہدایات تک بندوں کی رسائی کے لیے اس کی تشریح و توضیح کی عظیم ذمہ داری بھی آپ کو سپرد کی گئی، لہٰذا بقول ان کے وہ دنیاوی امور ومعاملات جو قرآن میں مذکور ہیں، دین ومذہب سے ان کا تعلق نہیں ہے تو قرآن ان کا ذکر کیوں کررہا ہے؟ بہرحال اس طرح کے بے سروپا دعووں سے علمی حقائق بدلا نہیں کرتے ہیں۔
کہہ رہا ہوں جنون میں کیا کیا کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
سرسیداحمد خاں کی مطبوعہ تحریریں بتارہی ہیں کہ وہ دنیاوی امور کو اس قدر وسیع تر معنی میں لیتے ہیں کہ باب عقاید، وعبادات وغیرہ کے علاوہ شعبہ ہائے زندگی کے اکثر معاملات ان کے نزدیک دنیاوی امور ہی سے متعلق ہیں، جن میں وہ قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی سے بے نیازہوکر اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق تصرفات کرتے ہیں، اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ وہ اپنی ان تحریفات کے ثبوت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ”انتم اعلم بامور دنیاکم“ کو پیش کرتے ہیں۔
آیندہ سطور میں ان کے اس استدلال بیجا پر نقد و تبصرہ ملاحظہ کیجیے:
استدلال سرسید کی حقیقت
سرسید احمد خاں جب سارے دلائل و شواہد کو نظر انداز کرکے ”انتم اعلم بامور دنیاکم“ کی رو سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو تشریعی، وغیرتشریعی دو قسموں میں تقسیم کررہے تھے تو علمی وفقہی ضابطہ کے مطابق ان کی علمی امانت ودیانت کا تقاضا تھا کہ پہلے اس امر کی بحث وتحقیق کرتے کہ اس حدیث سے جو حکم وہ اخذ کررہے ہیں، کیا تلامذئہ رسول صحابہٴ کرام، تابعین عظام، فقہائے مجتہدین اور ائمہ محدثین کی جماعت میں سے کسی سے اس کا یہ معنی ومطلب منقول ہے، سلف صالحین اور اسلام میں قابل اتباع شخصیتوں کے قول سے اگر ان کے فہم کو تائید حاصل ہوجاتی تو وہ اپنے اس استدلال میں حق بجانب ہوتے، بصورت دیگر دنیائے علم و دین میں ان کی یہ رائے از قبیل ابتداع ہی قرار پائے گی، جس کا شرعی حکم معلوم ہے ”عیاں را چہ بیاں“۔
آخر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ قافلہ اسلام کے ہراول دستے کے علم وفہم کی رسائی ایک ایسے اصولی مسئلہ تک نہیں ہوسکی جو حدیث سے ثابت شدہ تھا اور دس گیارہ سو سال گزرجانے کے بعد غلام ملک کی غلام قوم کے ایک فرد پر اس کا انکشاف ہوگیا۔
کس صاحب عقل وہوش کو اس سے انکار ہوگا کہ بعد کی نسلوں کا دین اور تعلیمات دین کا تمام تر سرمایہ علم وہدایت کے انھیں میناروں سے مستفید ومستنیر ہے، علوم اسلام انھیں کے طریق سے ہم تک پہنچے ہیں، یہی پیشوانِ علم ودین ہماری سند اولین ہیں، لہٰذا کسی نص شرعی کا وہ مفہوم جس کاان کے علمی دائرہ سے تعلق نہیں، اس کے جاننے کا ہمارے پاس آخر دوسرا ذریعہ کیا ہے؟
چنانچہ معروف امام حافظ شمس الدین محمد بن احمدالمعروف بہ ابن الہادی المتوفی ۷۴۴ھ لکھتے ہیں:
ولا یجوز احداث تاویل فی آیة وسنة لم یکن علی عہد السلف، ولا عرفوہ، ولا بینوہ للامة، فان ہذا یتضمن انہم جہلوا الحق فی ہذا، وضلّوا عنہ، واہتدیٰ إلیہ ہذا المعترض المستأخر، فکیف إذا کان التاویل یخالف تاویلہم و یناقضہ، وبطلانہ اظہر من ان یطنب فی ردہ، الخ (الصارم المنکی ص۲۷۴ طبع مصر)
”جائز نہیں کسی آیت یا سنت کی ایسی نوپید تاویل کرنا جس کا عہد سلف میں وجود نہیں تھا، انھوں نے نہ تو یہ تاویل سمجھی اور نہ ہی امت سے اس کو بیان کیا، کیونکہ (یہ جدید تاویل) اس بات کو متضمن ہے کہ سلف اس بارے میں حق سے جاہل رہ گئے اور بہک گئے اور یہ بعد میں آنے والا اس تک پہنچ گیا، پھر جب اس پیچھے آنے والے کی تاویل سلف کی تاویل کے مخالف ومناقض ہو تو اس نوپید تاویل کا باطل ہونا اس قدر ظاہر و باہر ہے کہ اس کی تردید میں اطناب و تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں“
لہٰذا سرسید خاں اس حدیث کا جو مفہوم ومراد بیان کررہے ہیں، چونکہ اس میں ان کا کوئی سلف نہیں ہے اس لیے ظاہر ہے کہ یہ ان کے ذہن فاسد اور فہم کاسد کی پیداوار ہے، جس کی سرے سے کوئی سند نہیں ہے، تو ایسی بے سند بات کی علم وعقل کی دنیا میں یہی حیثیت ہے کہ اسے باہر گلی میں پھینک دیا جائے۔
علاوہ ازیں سرسید خاں کی تعلیم وتحصیل کی تاریخ سے ظاہر ہے کہ ان کا علمی سرمایہ (جو انھوں نے اپنے اساتذہ سے حاصل کیا تھا) ناقص تھا، ان کے مشہور سوانح نگار (جوسرسید کے ہواخواہوں میں سے تھے) مولانا الطاف حسین حالی کا بیان ہے:
”سرسید نے قدیم یا جدید کسی طریقہ میں پوری تعلیم نہیں پائی“ (حیات جاوید ج۲ ص۴) اور خود سرسید اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: ”میری نسبت لکھ دینا کہ بہت ذی علم وفاضل اکمل ہیں کیسی غلط بات ہے“ (مکتوب سرسید جلد۲ ص۱۷۵) ظاہر ہے ایسا ادھورے علم کا حامل، جب اپنی کم علمی کے باوجود قرآن وحدیث کی نصوص میں دخل اندازی کرے گا تو اس کے فکر وقلم سے کیسے کیسے افسوسناک عجائب وغرائب رونما ہوں گے ان کی تحریروں سے، اس کا اندازہ ہر صاحب علم وفہم کو ہوسکتا ہے۔
اس اصولی گفتگو کے بعد آئیے سرسید خاں کے استدلال واستنباط پر نظر ڈالیں، لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان کے استدلال کو علمی قواعد واصول کے معیار پر پرکھیں، ایک اہم نکتہ کا ذکر ضروری ہے جس سے زیربحث مسئلہ کی تفہیم میں انشاء اللہ سہولت وآسانی ہوگی۔
(باقی آئندہ)
————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 3، جلد:102، جمادی الآخرہ-رجب ۱۴۳۹ھ مطابق مارچ ۲۰۱۸ء
# # #