از: مولانا عمر فاروق لوہاروی

دارالعلوم لندن

            جدید سائنس اسلام کی ایک ادنیٰ دست بستہ خادمہ ہے۔ اس سے اسلام کو خواہی نخواہی فائدہ پہنچ رہا ہے اوراسلامیات کو سمجھنے اور سمجھانے میں اس سے بڑی مددملتی ہے؛ چناں چہ استبعاد عقلی کی بیساکھی کے سہارے مادہ پرستوں نے اسلامیات کی متعدد چیزوں کا انکار کیا تھا؛ لیکن جدید سائنس کی نت نئی ایجادات واکتشافات سے ان میں سے کئی چیزیں محسوس ومشاہدہ کا درجہ حاصل کررہی ہیں اور ان کا استبعاد عقلی ختم ہورہا ہے؛ اسی لیے محدث العصر علامہ انورشاہ کشمیری قدس سرہ جدید سائنس کو اقرب الی الاسلام قرار دیتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند (وقف) کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

            ”ایک بار آپ (محدث العصر علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ) سے پوچھا گیا کہ فلسفہٴ قدیم اسلام سے زیادہ قریب ہے یا جدید سائنس؟ فرمایا کہ ”سائنس جدید اقرب الی الاسلام ہے۔“

            اور واقعہ بھی یہی ہے کہ نئی تحقیقات سے اسلام کو سمجھنے میں جس قدر مدد ملتی ہے، اس کے پیش نظر آپ کا یہ ارشاد صرف توسع پر مبنی نہیں؛ بل کہ اس میں اصابت رائے کی پوری روشنی بھی موجود ہے۔

            جاننے والے جانتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ معراج کو سمجھنے کے لیے کس قدر موشگافیاں کرناپڑتی تھیں؛ مگر عصرحاضر میں جب انسان ایک کُرہ سے دوسرے کُرہ میں بے تکلف سفر کررہا ہے، تو معراج کو سمجھنا اور سمجھانا لاینحل مسئلہ نہیں رہا۔

            اعمال کے وزن کی اطلاع جو حدیث و قرآن میں مسلسل ملتی رہی۔ ”مقیاس الحرارة“ (تھرمامیٹر) کی موجودگی میں بقائمی ہوش وحواس وزن اعمال کا انکار کون کرسکتا ہے؟

            اقوال کی حفاظت کے لیے موجودہ وقت کا ٹیپ ریکارڈر ایک بہترین ثبوت ہے۔“ (نقش دوام، ص:۱۱۷-۱۱۸)

            حضرت مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری رحمة اللہ علیہ، علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ کا ملفوظ نقل فرماتے ہیں:

            ”قرآن مجید میں ہے کہ اہل جنت واہل جہنم آپس میں ایک دوسرے کو دیکھیں گے، پہچانیں گے اور باتیں کریں گے؛ حالاں کہ ان کے درمیان بہت غیرمعمولی فاصلہ ہوگا، تو اب ٹیلیفون، لاسلکی تلغراف، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی ایجادات نے اس کو بھی قریب عقل ومشاہدہ کردیا ہے۔

            اصوات واعمال کا ریکارڈ مستبعد سمجھا جاتاتھا؛ مگر گراموفون کی ایجاد نے اس سے بھی مانوس کردیا کہ حق تعالیٰ نے زمین اوراس کے متعلقات میں بھی اخذ وریکارڈ کا مادہ ودیعت فرمادیا تھا، جس کو ہم یورپ کی ان ایجادات سے پہلے عقل ومشاہدہ کی روسے نہ سمجھ سکتے تھے۔ (ملفوظات محدث کشمیری، ص:۹۴-۹۵)

            حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں:

            ”روزانہ نئی ایجادیں نکلتی ہیں، جن سے بہت سے مستبعد کا مشاہدہ ہونے لگا، یہ اللہ کی رحمت ہے کہ ایسے لوگوں سے تائید دین کا کام لیا ہے، جو کافر ہیں کہ وہ نئی نئی ایجادیں کردیں، جن سے بہت سے شبہات حل ہوگئے۔

            چناں چہ لوگوں کو شبہ تھا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا﴾ (الزلزال:۴) ”اس روز زمین اپنی سب (اچھی بری) خبریں بیان کرنے لگے گی۔“) زمین کیسے بولے گی؛ کیوں کہ وہ جمادات میں سے ہے؟ اللہ نے اس کی نظیر گراموفون (آلہٴ صوت نگار) ایجاد کرادیا کہ یہ نہ انسان ہے نہ حیوان اور نہ نباتات اور پھر بولتا ہے۔ اب اس کو کس قسم میں داخل کروگے، جو اس کے لیے نطق کو جائز رکھوگے؟

            ․․․․ ظاہر ہے کہ جمادات ہی میں سے ہے، تو جمادات کے بولنے کا استبعاد بھی ختم ہوگیا۔ (خطبات حکیم الامت، ص:۱۷۵-۱۷۶، ج:۷)

            ”صحیح بخاری“ میں ہے:

․․․․ عَنْ اَبِيْ ہُرَیْرَةَ – رضی اللّٰہ عنہ – أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: ہَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِیْ ہٰہُنَا؟ فَوَاللّٰہِ مَا یَخْفیٰ (لَا یَخْفیٰ) عَلَیَّ خُشُوْعُکُمْ وَلَا رُکُوْعُکُمْ، اِنِيْ لَأَرَاکُمْ مِنْ وَوَاءِ ظَہْرِيْ․ (صحیح بخاری، کتاب الصلاة، باب عظة الامام الناس فی اتمام الصلاة وذکر القبلة، ص:۵۹، ج:۱، قدیمی: کراچی)

            ”․․․․ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا قبلہ ادھر ہے؟ (یعنی کیاتم یہ سمجھتے ہو کہ میں قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا رہا ہوں؛ اس لیے مجھے صرف اسی جہت میں نظر آتا ہے اور مجھے تمہاری کچھ خبر نہیں؟) اللہ کی قسم! مجھ پر نہ (سب ارکان میں) تمہارا خشوع (یا تمہارے سجدے) مخفی ہیں اور نہ تمہارا رکوع۔ یقینا میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتاہوں۔“

            حدیث بالا میں مذکور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیٹھ کے پیچھے سے دیکھنے کو عقل پرستوں نے بعید سمجھا تھا؛ حالاں کہ اس میں عقلاً کوئی استبعاد نہ تھا؛ چناں چہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں:

            ”آئینہ میں صورت تب تک نظر آتی ہے؛ جب تک کہ آنکھ کسی دیکھنے والے کی کھلی ہوئی ہو؛ کیوں کہ نظر آنے کی حقیقت یہ ہے کہ شعاع آنکھ سے نکل کر آئینہ پر پڑکر پھر رائی (دیکھنے والے) کی طرف لوٹتی ہے؛ اس لیے صورت نظر پڑتی ہے۔ جب نگاہ نہ کی تو شعاع نہ نکلی، تو پھر نظر آنے کا کوئی سبب نہیں۔ غرض آئینہ میں جو نظر آتا ہے، وہ کوئی مبائن چیز نہیں؛ بل کہ اس چہرے پر نگاہ لوٹ کر پڑتی ہے۔

            جب مرئی (جس چیز کو دیکھا جائے) سے اپنی شعاعوں کا تعلق علت ہے رویت کی، پس اگر کسی شخص کو یہ قوت حاصل ہو کہ سیدھی شعاعوں کو مقوس کرسکے (کمان کی طرح موڑسکے)، تو اس کو پیچھے سے بھی مثل سامنے کے نظر آئے گا؛ چناں چہ صوفیہ کے بعض اشغال میں سر نظر آنے لگتا ہے اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پیچھے سے بھی دیکھتے تھے اوراس کی وجہ میں بعض علماء کہتے ہیں کہ آپ کے پیچھے سر میں دو سوراخ تھے، ان سے نظر آتا تھا، تو اس کی کوئی ضرورت نہیں؛ بل کہ ممکن ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے شعاعوں کے مقوس بنانے کی قوت مرحمت فرمائی تھی۔ جب آپ قصد فرماتے، دیکھ لیتے۔ آگے کا قصد فرماتے، آگے دیکھ لیتے اور پیچھے کا قصد کرتے، پیچھے نظر فرمالیتے۔ ہرشخص میں یہ قوت نہیں؛ اس لیے نظر نہیں آتا۔“

            اور(حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ) اس توجیہ کو حضرت مولانا یعقوب صاحب (نانوتوی) رحمة اللہ علیہ سے نقل فرماتے تھے۔ (ملفوظات حکیم الامت، ص:۱۹۸-۱۹۹، ج:۱۲)

            محدث العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

            ”یہ دیکھنا بہ طور معجزہ تھا، ایسا ہی ثابت ہے امام احمد رحمة اللہ علیہ سے اور فلسفہٴ جدیدہ نے ثابت کردیا ہے کہ قوتِ باصرہ تمام اعضاءِ انسانی میں ہے۔“ (ملفوظات محدث کشمیری، ص:۳۴۲-۳۴۳)

            علامہٴ موصوف نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:

واعلم أن المتنورین الذین لا یوٴمنون بآیات اللّٰہ، وہم بہفوات اوربا یوٴمنون، قد استبعدوا منطق الأعضاء في المحشر، مع أن زعمائہم قد أقروا الیوم بسریان البصر في سائر الجسد، فلا یستبعد منہم أن یقروا بسریان النطق أیضًا، ولو بعد حین․ (فیض الباری، کتاب التفسیر، سورة الفرقان، باب قولہ: ﴿اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ﴾، ص:۲۱۸، ج:۴، ط: المجلس العلمی، ڈابھیل)

            ”جان لو! وہ روشن خیال لوگ جو اللہ کی آیات کا یقین نہیں کرتے اور یورپ کی بیہودہ باتوں کا یقین کرلیتے ہیں، انھوں نے محشر میں اعضاءِ انسانی کے بولنے کو بعید خیال کیا؛ حالاں کہ ان کے زعماء اور لیڈروں نے (آنکھ کے علاوہ) بقیہ اعضاء میں قوت باصرہ کے نفوذ وسرایت کرنے کا فی زماننا اعتراف کیاہے، تو ان سے بعید نہیں کہ وہ (زبان کے علاوہ) بقیہ اعضاءِ انسانی میں قوت گویائی کے سرایت کرنے کا اعتراف بھی کرلیں؛ اگرچہ ایک عرصہ بعد سہی۔“

            لیورپول کے رہائشی برطانوی فوجی کریگ لوندبرگ (Craig Lundberg) کی بہ عمر ۲۱ سال ۲۰۰۷/ میں عراق میں اپنی خدمات کے دوران گرینیڈ لگنے کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی۔ اس کے متعلق آج سے تقریباً آٹھ سال قبل ایک خبر ملکی وغیرملکی اخبارات وغیرہ ذرائع ابلاغ کی زینت بنی تھی کہ اب وہ اپنی زبان کی مدد سے دیکھنے کی ٹیکنالوجی استعمال کرے گا۔ روزنامہ ”جنگ“ لندن بابت: ۱۶/رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ بروز اتوار مطابق ۶/ستمبر۲۰۰۹/ کے شمارے میں یہ خبر کچھ اس طرح شائع ہوئی تھی:

نابینا برطانوی فوجی زبان کی مدد سے دیکھنے کی ٹیکنالوجی استعمال کرے گا

            اس ٹیکنالوجی پرمبنی آلہ برین پورٹ ویژن کہلاتاہے اور اسے ایک امریکی کمپنی نے تیار کیا ہے۔

            ”لندن (پی اے) ایک نابینا برطانوی فوجی ملک میں پہلا شخص ہے، جو زبان کی مدد سے دیکھنے کی ٹیکنالوجی استعمال کرسکے گا۔ اس ٹیکنالوجی پر مبنی آلہ برین پورٹ ویژن کہلاتا ہے اور اسے ایک امریکی کمپنی نے تیار کیا ہے۔ یہ برطانوی فوجی جو اپنی خدمات کے دوران دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوگیا تھا، اس آلہ کی مدد سے اپنی روز مرہ کی زندگی آسانی سے گزارسکے گا۔ علم بصارت پر دفاعی مشیرونگ کمانڈر روب شکاٹ نے بتایا کہ نابینا فوجیوں اور شہریوں کے لیے یہ بڑی اہم ٹیکنالوجی ہے اور انھوں نے خود یونیورسٹی آف پیٹس برگ میڈیکل کے ایک دورے میں اس کا مشاہدہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس میں ایک کیمرہ عینک کے دوشیشوں پر رکھا ہے؛ تاکہ بیرونی ماحول کو سکین کرسکے۔ یہ الیکروڈز سے منسلک ہے، جنھیں زبان پر رکھا جاتا ہے اور زبان بیرونی ماحول کو محسوس کرتی ہے۔ اگر کوئی مکمل نابینا آدمی کمرے میں آئے، تو وہ اس آلے کی مدد سے فرنیچر اور دوسری چیزوں کو دیکھ اور محسوس کرسکتا ہے۔“

            واضح ہو کہ اب یہ برطانوی فوجی زبان کی مدد سے دیکھنے اور اپنی روزمرہ کی زندگی گزارنے لگا ہے۔ اس لحاظ سے زبان میں بھی قوت باصرہ ہونے کی یہ ایک زندہ مثال ہے۔ اسی طرح زمانے کے گزرنے کے ساتھ نئے تجربات ہوتے رہیں گے اور بقیہ اعضاء سے دیکھنے کی مثالیں بھی سامنے آتی رہیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

            ”صحیح بخاری“ کتاب الجہاد، کتاب فضائل الصحابة، کتاب اللباس اور کتاب الأدب میں مختلف طرق سے ایک روایت مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں کچھ کپڑے آئے، جن میں خز (ایک خاص قسم کا کپڑا) یا اون کی دھاری دار ایک سیاہ چھوٹی چادر بھی تھی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے دریافت فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، ہم یہ چادر کس کو دیں؟ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ! ان کو (چھوٹی ہونے کی وجہ سے) اٹھاکر لایاگیا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چادر لے کر اپنے دست مبارک سے ام خالد کو پہنایا: اوڑھایا اور (علیٰ اختلاف الروایتین) دویا تین دفعہ فرمایاکہ اسے پرانا اور بوسیدہ کرو (یعنی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا دی کہ تمہاری عمر اس قدر لمبی ہو کہ تم اس کپڑے کو پہن پہن کر پرانا کردو)! اس چادر میں سبز یا زرد رنگ کے پھول تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان پھولوں کو دیکھ کر اپنے دست مبارک سے ام خالد کو اشارہ کرکے فرمانے لگے: یَا أُمَّ خَالِدٍ، ہٰذَا سَنَاہْ! ”اے ام خالد! یہ عمدہ ہے!“ سَنَا حبشی زبان میں الحسن یعنی عمدہ کے معنی میں آتا ہے۔

            اسحاق بن سعید راوی فرماتے ہیں کہ مجھ سے خاندان کی ایک عورت نے بیان کیا کہ اس نے وہ کپڑا ام خالد رضی اللہ عنہا پر دیکھا۔

            عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ کپڑا باقی رہا، یہاں تک کہ راوی نے (طویل زمانہ کا) ذکر کیا۔

            امام بخاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی خاتون نے اتنی لمبی عمر نہیں پائی، جتنی ام خالد رضی اللہ عنہا نے پائی (چناں چہ موسیٰ بن عقبہ کا ام خالد رضی اللہ عنہا کو پانا ان کی طول عمری پر دلالت کرتا ہے؛ اس لیے کہ موسیٰ بن عقبہ نے ام خالد رضی اللہ عنہا کے علاوہ صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو نہیں پایا ہے۔ فتح الباری)

            اس حدیث پاک کے طرق مختلفہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعا کی برکت سے ام خالد رضی اللہ عنہا نے لمبی عمر پائی؛ یہاں تک کہ ان کی درازیِ عمر کا لوگوں میں چرچا ہوا، اسی طرح انکا کپڑا (قمیص یا چادر) طویل عرصہ تک ان کے زیر استعمال رہا۔ اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے محدث العصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قولہ: ﴿فبقیت حتی ذکر) أی: بقیت تلک القمیص، لم یخلقہا مضی اللیالی ومرور الأیام، ولعل تلک القمیص أیضًا تکون تتوسع علیہا بقدر جسدہا فانہا اذا تقصمت کان صبیة، فلا بدّ من الزیادة في القمیص، ومن یوٴمن ببقاء تلک القمیص الی زمن لم تخلق، لم یعجز عن الایمان بسعتہا أیضًا، وأما من لم یجعل اللّٰہ لہ نورًا فما لہ من نور․ (فیض الباری، کتاب الجہاد، باب من تکلم بالفارسیة الخ، ص:۴۵۸، ج:۳، ط: المجلس العلمی، ڈابھیل)

            ”وہ قمیص باقی رہی، مرور ایام کے باوجود وہ بوسیدہ نہیں ہوئی، نہ پھٹی اور بسا ممکن ہے کہ وہ قمیص بھی ام خالد کے جسم کے اعتبار سے بڑھتی اورکشادہ ہوتی رہی ہو؛ اس لیے کہ جب انھوں نے قمیص پہنی تھی، تو وہ بچی تھیں؛ لہٰذا قمیص کا بڑھنا ضروری ہے۔ جو شخص مدت دراز تک اس قمیص کے باقی رہنے کا یقین کرے گا، تووہ اس کے بڑھنے اور کشادہ ہوتے رہنے کو ماننے سے پیچھے نہیں رہے گا؛ لیکن جس کو اللہ ہی نورِ یقین نہ دے، اس کوکہیں سے بھی نور میسر نہیں ہوسکتا۔“

            چند ماہ قبل کی ایک نئی ایجاد نے جسم کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ قمیص کے بڑھنے کو سمجھنا اور سمجھانا نہایت آسان کردیا۔ روزنامہ ”جنگ“ لندن میں شائع ہونے والی حسب ذیل خبر کو پڑھیے اور اپنے ایمان کو تازہ کیجیے:

بچوں کے ساتھ ساتھ بڑھنے والے کپڑے تیار

            والدین بچوں کے لیے ہر چند ماہ بعد کپڑوں کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ ایک جانب تو اس سے وقت ضائع ہوتا ہے، تو دوسری جانب مہنگے کپڑے خریدنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے کپڑے دو مرتبہ دھلنے کے بعد انھیں نہیں آتے؛ کیوں کہ چھوٹے بچے بہت تیزی سے بڑھتے ہیں؛ لیکن اب پیٹٹ پلی (Petit Pli) یہ فرنچ زبان کا لفظ ہے، جس کا تلفظ ”پیٹی پلی“ ہے۔ عمرفاروق) نامی ایک کمپنی نے ایسا اسمارٹ لباس بنایا ہے، جسے ایک مرتبہ خریدنے کے بعد دوسال تک بچوں کے لیے دوسرالباس خریدنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پیٹی پلی کے مطابق پیدائش کے دوسال تک بچے سات مرتبہ جسامت بڑھاتے ہیں اوران کے لیے سات مرتبہ کپڑے خریدنے پڑتے ہیں۔ اس کمپنی نے جو لباس بنایاہے ، وہ ۴ سے ۳۶ ماہ تک کے بچوں کے لیے فٹ بیٹھتا ہے۔ کمپنی کے سربراہ ریان ماریویاسین (Ryan Mario Yasin) پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اورانھوں نے کہا کہ بچے کو بار بار نیا سائز پہناکر ہم زمین کے وسائل خرچ کررہے ہیں اور دوسری جانب آبادی اس پر بڑی رقم خرچ کرتی ہے۔ ان کا تیار کردہ لباس واٹر پروف، ہوا پروف، پائیدار اور بار بار دھونے کے قابل ہے۔ اس لباس کے اندر خاص لچک دار میٹریل شامل کیاگیاہے اور جب اسے کھینچا جاتاہے، تو کپڑا پتلا ہونے کی بجائے موٹا ہوجاتا ہے اور یہ خاصیت بلٹ پروف لباسوں میں پائی جاتی ہے، اس ایجاد کو برطانیہ میں جیمز ڈائسن ایوارڈ دیاگیاہے۔ (روزنامہ ”جنگ“ لندن، بابت: بدھ ۲۲/ذوالحجہ ۱۴۳۸ھ مطابق ۱۳/ستمبر ۲۰۱۷/)

            سائنس کی یہ ایجاد چوں کہ نئی نئی ہے، بہ الفاظ دیگر اس ایجاد میں سائنس خود بچی ہے؛ اس لیے ۴ماہ سے۳ سال تک کے بچوں کے لیے مذکورہ لباس تیار کیا ہے۔ اس شعبہ میں سائنس جب جوان ہوگی، تو جوانی تک اور بوڑھی ہوگی، تو بوڑھاپے تک کارآمد لباس تیار کرے گی۔ اسی طرح دیگر شعبوں پر ہاتھ ڈالتی رہے گی، تو اسلام کی یہ خادمہ اسلامیات کے دوسرے مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے میں مزید سہولت کارثابت ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ․ وَمَا ذٰلِکَ عَلیٰ اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ․

————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ: 2،  جلد:102‏،  جمادی الاولیٰ- جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ مطابق فروری 2018ء

#             #             #

Related Posts