از: ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو، شعبہ سنی دینیات، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دستاویزات ہرقسم کے منفی رجحان سے ماورا خالص مثبت رویّے اوراصولی تعلیمات کا مظہر ہیں۔اسلام جس دعوت وتعلیم کاداعی ہے اس کا عملی نمونہ تواس زمین پرجیتے جاگتے انسانوں کے درمیان پہلے ہی قائم کیاجاچکاتھا؛البتہ اتمامِ حجت کی خاطر اورابلاغِ حق کی تکمیل کے لیے ضروری تھاکہ اس وقت سے ۲۳/سال پہلے صفاکے پہاڑی وعظ سے جس عالمی دعوت کاآغا ز کیاگیاتھا۔اس لیے اسے اتمام واکمال کی منزل پرپہنچاتے ہوئے چند فقروں، چند باتوں کی صورت میں اسی سرزمین سے لوگوں تک پہنچایا جائے اوراس دین کی مبادیات واساسیات کااحاطہ کردیاجائے جس کی تبلیغ واشاعت کے آپ مکلف بنائے گئے تھے۔یہ رعایت بھی تھی کہ اسلام کے سیاسی، سماجی، مذہبی، معاشی اورثقافتی نظام کی ان اقدار کوواضح کردیاجائے جوآئندہ آنے والے زمانوں میں کارفرمائی کی مستحق تھیں اورجن کی تعمیل میں ہی انسانیت کی نجات مضمر تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دستاویزات جوکچھ ارشاد ہوااس کے بارے میں ا س حقیقت کاادراک بہت ضروری ہے کہ وہ محض منصوبہ،خیالی باتیں، واعظانہ موشگافیاں،آئندہ کاپروگرام، یاخواہشات وتوقعات یاصرف تجاویزیاسفارشات قسم کی چیزیں نہ تھیں؛بلکہ دینِ الٰہی کاعملی،تاریخی،تعبیری خاکہ اوردین وشریعت کی تکمیل کاجز ہیں۔
اس نکتہ کی اہمیت ومعنویت ان لوگوں کے ذہنوں میں زیادہ اجاگر ہوسکے گی جو یہ جانتے ہیں کہ عصرِحاضر کی وہ دستاویز جوحقوقِ انسانی کی نقیب سمجھی جاتی ہے اورجسے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰/دسمبر ۱۹۴۸ء کومنظور کیاتھا تجویز وسفارش سے زیادہ اہمیت نہیں تھی اورکسی مملکت کے لیے حقوقِ انسانی کے عالمی ضابطے (Universal Declaration of Human Rights) کاتسلیم کرنالازمی اور ضروری نہیں ہے۔ ایک مصنف کے بہ قول ”یہ منشورتحفظِ حقوق انسانی کے معاملے میں بالکل ناکارہ اورناقابلِ اعتماد دستاویز ہے(۱)۔اس منشور کی حیثیت سراسر اخلاقی ہے،قانونی نقطئہ نظر سے اس کاکوئی وزن ومقام نہیں(۲)۔اس منشور کی روسے جومعاشی اورسماجی حقوق منظور کیے گئے ہیں، وہ ایک بالغ نظر مبصر کے مطابق، اس اصطلاح کے تسلیم شدہ مفہوم کی روسے حقوق ہی نہیں ہیں،یہ توسماجی اورمعاشی پالیسیوں کے محض اصول ہیں(۳)؛بلکہ کمیشن برائے انسانی حقوق میں ۱۹۴۷ء کوطے کیے جانے والے اصول کی روشنی میں گویا منشور کے اعلان سے ایک سال قبل ہی یہ طے ہوگیا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی کوئی ملک چاہے تو اس منشور پراز خودرضا کارانہ طورپر عملدار آمد کرسکتاہے اورچاہے تواٹھاکر ردی کی ٹوکری میں بھی پھینک سکتاہے۔
حقوق کاتصور
اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی،سیاسی اورقانونی دستاویزوات و فرمودات عملی ترغیب اورحکم کادرجہ رکھتے ہیں اوران سے سرتابی،ان کی نافرمانی نہ صرف یہ کہ صلاح وفلاح آدمیت وانسانیت میں حارج ہے؛ بلکہ دین ودنیا دونوں میں نقصان وخسران کاباعث ہے۔ان میں زندگی کے ان اصولوں کادوٹوک بیان ہے جن پرتعمیرِ حیات کااصل مدارہے۔اورجن کے بغیر شعوری زندگی کاکوئی نقشہ مرتب نہیں ہوسکتا۔دستاویزات میں ان تعلیمات کاخلاصہ موجودہے جو دراصل پورے دین حق کی زندگی وتابندگی کاثبوت ہیں اورجن کوروبہ عمل لائے بغیر کسی کامیاب انسانی معاشرہ کی تشکیل ممکن نہیں ۔
یہ دستاویزات بنیادی انسانی حقوق کی علمبردار ہیں،جوپیغمبرِ انسانیت محسنِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جاری کی گئی ہیں، کسی سیاسی مصلحت کانتیجہ تھیں نہ کسی وقتی جذبے کی پیدوار،یہ نہ کسی طبقہ یاگروہ کی طرف سے دباؤ یادھونس،دھاندلی سے متاثرہوکر جاری کی گئیں۔یہ دراصل وہ انقلاب تھاجوہرقسم کی انسانی، حکومتی،سیاسی،معاشرتی،معاشی یامعاہداتی منظوری سے بے نیاز وقت کی آواز بن کر گونجیں اورتمام انسانوں کے حقوق کے محافظ ونگراں کی حیثیت سے تمام زمانوں کے لیے قیامت تک کے لیے شرفِ آدمیت واحترامِ انسانیت کاچراغ روشن کرگئیں۔
ہمارایہ بیان محض لفاظی یاعبارت آرائی قرار نہیں دیاجاسکتا اگرہمارے سامنے عہد جدید میں بہت شہرت پانے والے اعلانات،معاہدات، دستاویزات اورنوشتہ ہائے حقوق کی حقیقت وماہیت آشکارا ہوجائے۔مثلاًآج کل انسانی حقوق اورآزادیوں کی بحث کانقطئہ آغاز بالعموم ”میگنا کارٹا“ کوقرار دیاجاتاہے؛جب کہ یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ اس منشور کااجرا شہنشاہِ انگلستان (ہنری دوم کے بیٹے اوررچرڈشیردل کے بھائی) جان(۱۱۹۹ء تا۱۲۱۶ء) نے تیرھویں صدی عیسوی (جون ۱۲۱۵ء) میں کیاتھا(۴)اوروہ بھی کس طرح؟صریحاً سیاسی مصلحت کے تحت(۵)۔امراکی بغاوت کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے اورحالات کے وقتی حل کے لیے ”میگنا کارٹا“ جاری کیاگیا۔ مطلب بالکل صاف ہے کہ اس میں کسی لحاظ سے ابدی،آفاقی،انسانی، عالمی پہلوؤں کی کارفرمائی موجودنہ تھی اورچونکہ اس منشور کااجرابرطانوی تاریخ کے ایک مخصوص زمانے، مخصوص حالات میں، مخصوص مقاصدکے پیش نظر،محدود عرصے کے لیے ہواتھا؛ اس لیے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کی افادیت محدود،عارضی، وقتی اورمقامی تھی۔
علاوہ ازیں جس زمانے (جون ۱۲۱۵ء/۱۳ویں صدی عیسوی) میں میگنا کارٹا کوجاری کیاگیا اس وقت تک مسلمانوں کی تاریخ سیکڑوں نشیب وفراز دیکھ چکی تھی اوراسلام کے عطاکردہ حقوق اورآزادیوں کاشہرہ چاردانگ عالم میں ہوچکا تھااوردنیا کے مختلف حصوں میں درج ذیل مسلمان حکمراں انسانی آزادیوں اورحقوق کی پاسداری کررہے تھے(۶)۔
(۱) خلافت عباسیہ بغداد: خلیفہ ابوالعباس احمد بن مستفی(ناصرالدین اللہ) ۵۷۵ تا ۶۲۲ھ/ ۱۱۷۹ء تا۱۲۲۵ء)
(۲) ایوبیہ مصر:ملک عادل سیف الدین ابوبکر بن ایوب(۵۹۶تا۶۱۵ھ/۱۲۰۰تا۱۲۱۸ء)
(۳) موحدین اندلس:ابوعبداللہ محمدالملقب بہ ناصر (۵۹۵تا ۶۱۰ھ/۱۱۹۹تا۱۲۱۴ء)سلطان ابویعقوب الملقب بہ مستنصر (۶۱۰تا ۶۲۰ھ/۱۲۱۴تا ۱۲۲۳ء)
(۴) ہندوستان میں سلطان شمس الدین التمش (۶۰۷تا ۶۲۳ھ)
ان حقائق کے پیش نظر بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ میگناکارٹاکی اولیت عالمی تاریخی پس منظر اورانسانی حقوق اورآزادیوں کے حوالے سے میزانِ عدل پرکیاوقعت رکھتی ہے؟
میگنا کارٹا کے اجراپرپانچ سوسال سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد فرانس کے اعلانِ حقوق انسانی وباشندگان (۱۷۸۹ء) نے بھی شہرت پائی۔یہ اعلان ان تصورات کا نمایاں عکاس ہے جو انقلاب فرانس کے پس پشت کارفرماتھے کہاجاتاہے کہ یہ اپنی نوعیت کاپہلا اعلان تھاجس نے آزادی کی شمع روشن کی۔عہد جدید کی ایک اوراہم دستاویز امریکی نوشتہٴ حقوق(Bill of Rights) مُجریہ ۱۷۹۱ء ہے(۷)۔جوفرانس کے اعلانِ حقوق انسانی کی طرح دستوریت اورقانونیت کی اعلیٰ مثال خیال کی جاتی ہے ۔
اس تفصیل سے یہ مدعا واضح ہوجاتاہے کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور ہونے کی اصل مصداق اگرکوئی دستاویز ہوسکتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دستاویز ہیں۔اوراگر کوئی اعلان،منشور،دستور،نوشتہ بہ درجہٴ آفاقیت،انسانی حقوق اورآزادیوں کی ضمانت بن سکتاہے تووہ بجز خطبہٴ انقلاب، خطبہٴ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نہیں اورعرصہٴ تاریخ میں اولیت کاتاج صرف خطبہٴ حجة الوداع کوہی پہنا یاجاسکتاہے۔
برابری کاتصور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی سیاسی دستاویزات میں دیے گئے حقوق،ضمانتیں اورآزادیاں کسی مرد، ادارہ،کسی اجتماع،گروہ یاحکومت وسلطنت کی منظوری تائید وتجویزسے مشروط نہ تھیں؛ بلکہ اللہ رب العالمین کی حاکمیت کے تحت حاصل کردہ اختیارات سے کام لیتے ہوئے ہادیِ اعظم سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم جن منشورات انسانیت کااجراء فرمارہے تھے وہ اسی لمحے نافذ العمل ہوگیا اورقیامت تک کے لیے ساری انسانیت کے لیے واجب الاذعان قرارپایا۔
ساتویں صدی عیسوی میں ظلم وجبر کے وسیع تناظر کودیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں ظلم وجبر کی مختلف سطحیں تھیں؛ تاہم ظالمانہ اورجابرانہ نظام کااثر سب سے زیادہ معاشی سطح پرتھا۔اوراس معاملے میں ا یران وروم،چین وہندوستان، عرب وعجم کی تخصیص نہ تھی؛کیوں کہ ظلم وجبر، دراصل عیش پرستانہ طرز حیات اوراجارہ دارانہ وسرمایہ دارانہ ذہنیت کی پیداوار ہوتاہے۔اوراس زندگی کے نمائندے اورنمونے متمدن وغیر متمدن تمام معاشروں میں پائے جاتے تھے،بہرحال معاشی سطح پرجوادارے اس وقت انسانیت کالہو چوس رہے تھے،ان میں سرفہرست سودتھا جونہ صرف یہ کہ معاشی ظلم کی ایک موٴثر صورت ہے؛ بلکہ تحفظِ مال کی نفی اورعدلِ اجتماعی کی راہ کاسب سے بڑا پتھر ہے۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تحفظِ مال وملکیت کے لیے جومختلف احکام نافذ فرمائے اورجنہیں عدلِ اجتماعی کے نفاذ کے لیے محرک بنایا،ان کاخلاصہ حجة الوداع کے موقع پراپنے خطبہٴ جلیلہ میں بھی ارشاد فرمایا،اسی سلسلے میں فرمانِ رسالت یہ تھاکہ
جان لو!کہ جاہلیت کاتمام سودی کاروبار،اب باطل ہے؛البتہ اپنی اصل رقم لینے کاتمہیں حق ہے کہ جس میں نہ تو اوروں پرظلم ہواور نہ تم پرظلم (نقصان) ہو اوراللہ نے یہ بات طے کردی ہے کہ سود(کی کوئی گنجائش نہیں)(۸)
اسی خطبہ میں ارشاد فرمایا:
دیکھو میں نے حق پہنچادیاہے،پس اگرکسی کے پاس امانت ہوتووہ اس بات کاپابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کوامانت پہنچادے۔(۹)
یہ بھی فرمایا:
لوگو! اللہ نے میراث میں سے ہروارث کاجداگانہ حصہ مقررکردیاہے؛اس لیے اب وارث کے حق میں (ایک تہائی سے زائد میں ) کوئی وصیت جائز نہیں )(۱۰)۔
پھرکہا:
قرض قابل ادائیگی ہے(۱۱)عاریتاًلی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے(۱۲)۔
یہ بھی ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تھا:
لوگو! میری بات سن لو! ہرمسلمان دوسرے مسلمان کابھائی اورتمام مسلمان باہم رشتہٴ اخوت میں منسلک ہیں۔پس کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کامال لے؛ مگر یہ کہ وہ برضاورغبت دینا پسند کرے(۱۳)۔
سماجی انصاف
سیدالاولین والآخرین کے کارہائے نمایاں میں سے یہ کارنامہ یقینا عظیم ترین متصور ہوگا کہ ان ہی کی تشریف آواری کی برکت سے انسان،معراجِ انسانیت پرفائز ہوا،آپ ہی کے سبب انسانی فضیلت واحترام اورتکریم وشرفِ آدمیت کی قندیل روشن ہوئی اورآپ ہی کے فیضِ کرم سے دنیا کوحقوقِ انسانی کی سوغات ملی،اورتاریخ میں پہلی مرتبہ انسان کے وقار واحترام کی حقیقی ضمانت دی گئی۔انسان کے بحیثیت انسان حقوق وفرائض متعین ہوئے اورتمام انسانوں کوایک ہی رشتہٴ مُوَدَّت ومحبت میں یوں پیوست کردیاگیا کہ تقویٰ کے سوا،رنگ ونسل،زبان ووطن،ذات پات، اعلیٰ وادنیٰ کاہرامتیاز بے وقعت ٹھہرااور خون وخاندان،دولت وسامان عہدہ ومنصب، قومیت وقبائلیت کاہرفرق بے معنی قرار پایااوریہ طے کردیاگیا کہ سب کے سب انسان بحیثیت انسان برابر ہیں،ایک ہیں کہ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں اور ان میں سے ہرایک برابر کی عزت ووقعت اوراعزاز واحترام کاسزا وار ہے۔
عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ زریں میں انسان درجہٴ تذلل کی انتہائی پستیوں سے نکل کرآبرو مندانہ زندگی گذارنے کے قابل بنا،اوراسے اس مثالی معاشرہ وریاست میں وہ تمام سیاسی وسماجی اورقانونی وثقافتی حقوق عملاً حاصل ہوئے۔جن کا اس زمانہ میں تصور بھی محال تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پاکیزہ الہامی تعلیمات کے ذریعے ذہن وفکر کے سانچے بدلے گئے اورایسے انتظامات کیے گئے کہ قتل وغارت گری،خونریزی وسفاکی اورعداوت وشقاوت کاہردروازہ بندہوجائے اورمعاشرہ کاہرفرد دوسرے فرد کی جان ومال،عزت وآبرو اورنجی وشخصی زندگی کامحافظ بن جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ کارنامے اپنے خاص تاریخی پس منظر کے سبب اورزیادہ وقیع اس لیے نظر آتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی کی معلوم دنیا میں انسان ہرشرف سے محروم، پستی وذلت کی آخری انتہاپہ کھڑا تھا،دنیا کے جوعلاقے تہذیب وتمدن سے عاری مشہور ہیں،اس وقت انسانیت وآدمیت کے لیے موجبِ ننگ وعارتھے،انسانی اخوت بربنائے انسانیت اورمساوات بربنائے وحدت آدمیت کاچلن اس عہد میں نہ تھا،دنیا میں ہرجگہ، ہرخطہ ہرعلاقے میں انسان طبقوں میں بٹا ہواتھا،سماجی تقسیم کہاں نہیں تھی،اونچ نیچ ذات پات،آقا وغلام، ادنیٰ واعلیٰ کے پیمانے الگ،ان کی حیثیت ومرتبہ جداان سے سلوک مختلف، سب جگہ تھا،روم، ہندوستان، ایران وعرب، ہرملک ہرخطہ میں اخوت ومساوات بے معنی الفاظ تھے،اور اقتدار واختیار دولت وثروت کے آگے ہرشرف ہیچ تھا،خود غرضی وعیاشی، بغض وانتقام اورانانیت وشیطانیت کے عفریت،انسانیت کو ہرسَمت سے ڈس رہے تھے،ایسی کرب ناک ذلتوں سے آدمی کونکالنے والے آقا،اورحیاتِ نوکاپیغام سنانے والے، مزمل ومدثر نے ان دستاویزات خصوصاً حجة الوداع میں ارشاد فرمایا:
لوگو! تمہارارب ایک ہے،تمہارا باپ ایک ہے،تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو،اور آدم مٹی سے بنے تھے(۱۴)۔تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز ومحترم وہ ہے جوزیادہ تقویٰ شعار ہے۔پس کسی عربی کوکسی عجمی پراورکسی عجمی کوکسی عربی پرکوئی برتری حاصل نہیں اور کسی کالے کوکسی سرخ پراورکسی سرخ کوکسی کالے پرکوئی فضیلت حاصل نہیں،ہاں! مگر تقویٰ کے سبب(۱۵)۔
پیغمبرِانسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پراعلان فرمایا:
لوگو! تمہارے خون،تمہارے مال اورتمہاری عزت وآبرو،آپس میں ایک دوسرے پرحرام ومحترم ہے(جس طرح یہ دن محترم ہے،یہ مہینہ محترم ہے)قیامت تک کے لیے(۱۶)۔
پھرکہا:
دیکھو! میرے بعد کہیں گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو(۱۷)۔
اورپھرفرمایا:
لوگو! میری بات سنو اورسمجھ لو! ہرمسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے،اورایک مومن دوسرے مومن کے لیے(آج کے دن کی طرح محترم ہے) کہ اس کاگوشت دوسرے مومن پرحرام ہے کہ اسے کھائے،پیٹھ پیچھے، اس کی غیبت کرکے،اوراس کی آبروبھی دوسرے (مومن) پرحرام ہے کہ اس پرہاتھ ڈالے(اوراس کی قبائے عزت کوپھاڑ ڈالے) اوراس کاچہرہ بھی حرام ہے کہ اس پر مارے اوراسے اذیت پہنچانابھی حرام ہے اوریہ بھی (حرام ہے) کہ اسے دھتکارے اورذلیل وخوار کرے(۱۸)۔
آپ کاارشادگرامی تھا:
مجھ سے سن لو! تم زندگی اس طرح گذارناکہ ظلم نہ کرنا،خبردار،ظلم نہ کرنا؛ سنو،ظلم نہ کرنا(۱۹)۔
یہ بھی کہا،پس آپس میں ایک دوسرے کی جانوں پرظلم نہ کرنا(۲۰)۔
فرمان رسالت تھا:
ہاں مجرم اپنے جرم کاآپ ذمہ دارہے(۲۱)۔ہاں باپ کے جرم کاذمہ داربیٹا نہیں اوربیٹے کے جرم کاذمہ دارباپ نہیں،اوربیٹے کے جرم کاجواب دہ باپ نہیں(۲۲)۔
یہ بھی فرمایا:
لوگو! سنو اوراطاعت کرو! اگرچہ تم پرکوئی ایسانکٹا حبشی غلام ہی کیوں نہ امیر بنادیا جائے۔ جوتم میں کتاب اللہ کو قائم کرے(۲۳)۔ (باقی آئندہ)
# # #
مراجع وحواشی:
(۱) ملاحظہ ہوBrownlie,Lan-(Ed)Basic Document on Human Rights elarendon preas oxford.1971/p106
(۲) صلاح الدین، محمد۔بنیادی حقوق، ادارہ ترجمان القرآن،لاہور۔۱۹۷۷ء،ص:۹۶
(۳) نثار احمد،ڈاکٹر،خطبة حجة الوداع، حقوق انسانی کاعالمی منشور،بیت الحکمت لاہور،۲۰۰۰ء،ص:۱۳۵
(۴) Marsh,Henry,Document of Liberty David and Charles New ton abbot,England,1971/P.35.40
(۵) خطبہٴ حجة الوداع حقوق انسانی کاعالمی منشور،ص:۱۳۵
(۶) ایضاً،ص:۱۳۶ (۷) ایضاً،ص:۱۳۷ (۸) صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجة النبی،ص:۲۳۳
(۹) خطبہ حجة الوداع، حقوق انسانی کاعالمی منشور،بحوالہ التیراز (۱۰) ابن کثیر، ج۵،ص:۱۹۸
(۱۱) شبلی نعمانی سیرة النبی،ج۲،ص:۱۵۸ (۱۲) ابن کثیر،ج۵،ص:۱۹۸
(۱۳) ابن ہشام، ج۴،ص:۲۵۲ (۱۴) ایضاً،ص:۲۵۰
(۱۵) خطبة حجة الوداع،حقوق انسانی کاعالمی منشور،ص:۲۳۶،بحوالہ طیران،ص:۴
(۱۶) ابوداؤد،کتاب المناسک،باب حجة الوداع
(۱۷) احمدالامام،المسند،ترتیب احمدمحمدشاکر،دارالمعارف،مصر ۱۹۵۰ء۔ج۶،ص:۲۰۳
(۱۸) خطبةحجة الوداع،حقوق انسانی کاعالمی منشور،ص:۲۳۶
(۱۹) ابن کثیر،ج۵،ص:۲۰۱ (۲۰) ابن ہشام،ج۴،ص:۲۵۲
(۲۱) ابن کثیر،ج۵،ص:۱۹۸ (۲۲) شبلی نعمانی، سیرة النبی،ج۲،ص:۱۹۴
(۲۳) ابن سعد،الطبقات الکبریٰ،ج۲،ص:۱۸۵
——————————————–
دارالعلوم ، شمارہ: 2، جلد:102، جمادی الاولیٰ- جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ مطابق فروری 2018ء
# # #