بہ قلم: مولاناعتیق الرحمن اعظمی

آزادول جنوبی افریقہ

            نام: ظفراحمد بن لطیف احمد بن نہال احمدہے۔

            ولادت: ۱۳/ربیع الاوّل ۱۳۱۰ھ دیوبند میں ہوئی، ننھیال نے ظریف احمد نام رکھا اور تاریخی نام مرغوب نبی ہے، حضرت تھانوی کے بھانجے اورہم زلف تھے، ۱۳۲۸ھ میں شادی ہوئی۔

            دیوبند، تھانہ بھون، کانپور اور سہارنپور میں تعلیم حاصل کی، ۱۳۴۴ھ میں تمام مصروفیات کے باوجود چھ ماہ کی مدت میں تھانہ بھون میں قرآن پاک حفظ کیا۔

            اساتذہ: حافظ نامدار، حافظ غلام رسول، مولانا نذیراحمد سے ناظرہ پڑھا، حضرت مولانا محمد یاسین (والد محترم حضرت مفتی محمدشفیع عثمانی) سے فارسی پڑھی، منشی منظوراحمد دیوبندی سے حساب، مولانا عبداللہ گنگوہی صاحب تیسیر المنطق سے ابتدائی عربی، حضرت مولانا شاہ لطف رسول سے ترجمہٴ قرآن، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے موقوف علیہ سے پہلے کی عربی کتابیں، مولانا محمدرشید کانپوری سے ہدایہ ومشکوٰة وغیرہ پڑھی اور حضرت مولانا عبداللطیف ناظم مظاہرعلوم سہارنپور اور مولانا عبدالقادر سہارنپوری سے ریاضی، منطق وفلسفہ وغیرہ اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری سے بخاری کے کچھ حصے اور دیگرکتابیں پڑھیں، فراغت ۱۳۲۹ھ میں ہوئی۔ (دیکھیے چالیس بڑے مسلمان ۶۶۹، بیس علماء حق ۲۳۰، تذکرہ اولیاء دیوبند ۴۸۷)

            حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حضرت تھانوی اور حضرت علامہ کشمیری سے اجازت حدیث حاصل کی۔ (علماء مظاہرعلوم․․․ الخ ۲/۱۵۹، از مولانا شاہد مدظلہ)

            خلافت: حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی، حضرت سہارنپوری، حضرت تھانوی سے ملی۔

            تدریس وخدمات: مظاہر علوم سہارنپور میں فراغت کے بعد ۷-۸سال تک شرح وقایہ، نورالانوار، ہدایہ وشرح عقائد اورمتنبی وغیرہ کتابیں پڑھائیں، پھر تھانہ بھون کے قریب ارشاد العلوم گڑھی پختہ میں اکثر کتابیں از ابتداء تا بخاری شریف پڑھائیں اور خانقاہ امدادیہ میں ۱۳۳۸ھ میں ایک شعبہ قائم ہوا جس میں تلخیص بیان القرآن اوراعلاء السنن وغیرہ کتابیں تصنیف کیں، رنگون میں بھی مختلف اوقات میں دینی خدمات انجام دیں، تبلیغ کاکام بھی کرتے تھے، رنگون کی ایک پوری بستی کے لوگ مرتد ہوگئے تھے، ایک سال میں محنت کرکے سب کو دوبارہ کلمہ پڑھایا، پھر تھانہ بھون آکر تصنیفی کاممیں مصروف ہوگئے، ۱۳۵۸ھ میں ڈھاکہ تشریف لے گئے اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہدایہ وصحیحین کا درس دیا۱۳۶۷ھ تک، اسی دوران اشرف العلوم ڈھاکہ میں موطا اور بیضاوی اور مثنوی اور کبھی کبھار بخاری شریف کا درس بھی دیتے رہے، نیز گرمی کی تعطیلات میں جامعہ ڈابھیل میں بھی مسلم اور ترمذی شریف کا درس دیا ہے (تاریخ جامعہ ڈابھیل میں جمادی الاخری ۱۳۶۴ھ میںآ پ کے ورود مسعود کا ذکر ملتا ہے، دیکھیے ص۱۴۴ و ۴۶۹ پاکستانی)، پھر یونیورسٹی کو چھوڑ کر مدرسہ عالیہ ڈھاکہ میں ۱۳۶۷-/۱۹۴۸- تا۱۳۷۴ھ/ ۱۹۵۴/ صدر مدرس رہے اور بخاری شریف، الاشباہ والنظائر اور اصول بزدوی وغیرہ کتابوں کا درس بھی دیا، نیز جامعہ قرآنیہ لال باغ ڈھاکہ میں ۱۵سال بخاری شریف کا درس دیا اور تقسیم پاکستان کے بعد تک اس کی سرپرستی فرماتے رہے۔

            ۱۹۵۴/ میں پاکستان چھوڑ کر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں قیام کا ارادہ کرلیا حج کرکے ڈھاکہ واپس ہوئے تو حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی کی دعوت پر ٹنڈولہ یار پاکستان میں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے اور تدریس وافتاء اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ تقریباً ۲۰سال (تاوفات) خدمات انجام دیتے رہے۔

            اخیر وقت تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے، فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے مرض اور کمزوری کا احساس ہونے لگتا ہے تو میں صحیح بخاری کا درس شروع کردیتاہوں اور اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے صحت وقوت عطا فرمادیتے ہیں۔ (علماء مظاہر:۱۵۹)

            تلامذہ: حضرت مولانا محمدادریس کاندھلوی، مولانا عبدالرحمن کامل پوری، مولانا بدرعالم میرٹھی، شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا، مولانا اسعد اللہ ناظم مظاہرعلوم سہارنپور، حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا عابدالرحمن کاندھلوی، حضرت مولانا عمراحمد سورتی اور حضرت مولانا عبدالرزاق افریقی وغیرہم آپ کے نام ور تلامذہ ہیں۔ (۴۰ بڑے مسلمان)

            خلفاء: تیرہ اشخاص کو خلافت عطا فرمائی: جن میں مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا عبدالشکور ترمذی زیادہ مشہور ہیں۔

            تصانیف: تحذیر المسلمین عن موالاة المشرکین، امداد الاحکام، احکام القرآن (دلائل القرآن علی مسائل النعمان)، تلخیص بیان القرآن، الشفا (تفسیر سے متعلق سوال وجواب)، القول الماضی فی نصب القاضی، کشف الدجی عن وجہ الربا، فتح الظفر، البنیان المشید ترجمہ البرہان المشید لسید احمد الرفاعی، انکشاف الحقیقة عن استخلاف الطریقة، القول المنصور فی ابن المنصورؒ، حقیقت معرفت، براة عثمانؓ، تردید پرویزیت، رد منکرین حدیث، فاتحة الکلام فی القرائة خلف الامام، شق الغین عن حق رفع الیدین، القول المتین فی الجہر والاخفاء بآمین، کف اللسان عن معاویہ ابن ابی سفیان، فضائل القرآن، تعلیم نبوت، انوار النظر فی آثار الظفر، اعلاء السنن اوراس کا مقدمہ انہاء السکن لمن یطالع اعلاء السنن (قواعد فی علوم الحدیث)، انجاء الوطن عن الازدراء بامام الزمن، الظفر الجلی باشرف العلی، رحمة القدوس ترجمہ بہجة النفوس لابن ابی جمرة، اسباب المحمودیہ ترجمہ آداب المعبودیة للشعرانی، روح تصوف مع عطر تصوف، مرام الخاص، الدر المنضود ترجمہ البحر المورود لعبد الوہاب الشعرانی، فضائل الجہاد، فضائل سید المرسلین اور ولادت محمدیہ کا راز، علماء ہند کی خدمت حدیث، مسلمانوں کے زوال کے اسباب، دینی مدارس کے انحطاط کے اسباب وغیرہ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے علماء مظاہرعلوم ۲/۱۶۰ تا ۱۷۳ ، و۴۰ بڑے مسلمان ۱/۶۶۳)

            چار مرتبہ حج کی سعادت سے مشرف ہوئے: ۱۳۲۸ھ، ۱۳۳۸ھ، ۱۳۴۸ھ، ۱۳۷۴ھ۔

            قیام پاکستان کے لیے حضرت تھانوی اور علامہ شبیراحمد عثمانی کے ساتھ رہ کر بڑی محنت کی۔ (۴۰بڑے مسلمان )

            وفات: ۲۳/۱۱/۱۳۹۴ھ= ۸/۱۲/۱۹۷۴/ بروز اتوار اانتقال ہوا اور مفتی محمد شفیع دیوبندی جنازہ کی نماز پڑھائی۔

            حضرت مولانا محمدیوسف بنوری نے فرمایا: مولانا عثمانی کی رحلت سے مسندِ علم وتحقیق، مسندِ تصنیف وتالیف، مسندِ تعلیم و تدریس اور مسندِ بیعت وارشاد بیک وقت خالی ہوگئیں۔

            حضرت مولانا عبداللہ درخواستی نے فرمایا: مولانا عثمانی کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہوگا۔ ( تذکرہ، ص۴۹۴)

علماء کرام کے تأثرات

            حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے فرمایا: مولانا ظفراحمد عثمانی اپنے ماموں حکیم الامت تھانوی کا نمونہ ہیں۔ (بیس علماء حق ۲۵۹)

            حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا: میرے بھانجے مولانا ظفراحمد عثمانی الحمدللہ علوم دینیہ کا سرچشمہ ہیں، طالبانِ خیر کے پیشوا ہیں اوراس دور کے امام محمد ہیں۔ (تذکرہ اولیاء دیوبند ۴۹۳، و۵۰ مثالی شخصیات ۱۸۲)

            حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی فرماتے ہیں: حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی عہد حاضر کے ائمہ فن علماء اولیاء اور اتقیاء کی صف میں ایک بلند اور ممتاز مقام رکھتے تھے، حق تعالیٰ نے ان کو علمی وروحانی مقامات میں ایک خاص امتیاز عطا فرمایا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی جامع علم وعمل باخدا ہستیاں کہیں قرنوں میں پیداہوتی ہیں۔ (تذکرہ ۴۸۸ بیس علماء حق ۲۵۷)

            شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی کا علمی مقام معاصرین میں کیا تھا؟ تو حضرت شیخ الحدیث نے فرمایا کہ میں تو ان کا شاگرد ہوں اور میری طرح سے ان کے بہت سے شاگرد ہیں، حضرت حکیم الامت تھانوی آپ کے علم وفہم پر بہت زیادہ اعتماد فرماتے تھے۔ (تذکرہ ۴۹۲)

            شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا: مولانا عثمانی علوم دینیہ اور قانون شریعت کے متبحرعالم تھے، وہ شریعت کے مزاج کو خوب سمجھتے تھے اور عقل سے تولتے تھے، کوئی بات ذمہ داری اورتحقیق سے خالی نہیں ہوتی تھی اور وہ تمام عالم اسلام کے لیے چراغ ہدایت تھے۔ (تذکرہ ۴۹۱)

اعلاء السنن کے بارے میں اہل علم کے تاثرات

حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی:

            مولانا عثمانی کی تصنیف اعلاء السنن حضرت حکیم الامت تھانوی کے حکم سے لکھی گئی تھی، مولانا عثمانی جب پہلی جلد لکھ کر حضرت حکیم الامت کی خدمت میں لے گئے تو حضرت نے دیکھا اور بہت پسند فرمایا، دوسری جلد لکھنے کا حکم فرمایا، مولانا مرحوم نے دوسری جلد مکمل کی اور وہ بھی حضرت تھانوی کی خدمت میں پیش کی، حضرت نے بے حد پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اتنا خوش ہوئے کہ جو چادر اوڑھے ہوئے تھے وہ اتار کر مولانا عثمانی کو اوڑھادی اور فرمایا: علماء احناف پر امام ابوحنیفہ کا بارہ سوبرس سے قرض چلا آرہا تھا، الحمدللہ آج وہ اداہوگیا۔ (۵۰ مثالی شخصیات ۱۸۱، از مولانا قاری محمد طیب صاحب)

            اسی طرح علامہ شبیراحمد عثمانی نے اپنی بلندپایہ کتاب فتح الملہم شرح صحیح مسلم میں مولانا عثمانی کی مایہ ناز کتاب اعلاء السنن کے جگہ جگہ حوالے دیے ہیں، غرض حضرت عثمانی کی علوم حدیث پر بہت گہری اور وسیع نظر تھی۔ (تذکرہ اولیاء دیوبند ۴۹۰-۴۹۱)

            علامہ محمد زاہدالکوثری: فرماتے ہیں کہ اعلاء السنن کے موٴلف جو حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے بھانجے ہیں یعنی محدث ومحقق، مدبر ومفکر اور زبردست فقیہ حضرت مولانا الشیخ ظفراحمد عثمانی کو اللہ تعالیٰ علمی خدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع مہیا فرمائے، میں تو اس غیرت مند عالم کی علمی قابلیت ومہارت اوراس مجموعہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا جس میں اس قدر مکمل تحقیق وجستجو اور تلاش و تدقیق سے کام لیاگیا ہے کہ ہر حدیث پر فن حدیث کے تقاضوں کے مطابق متن پر بھی اور سند پر بھی اس طریقہ سے کلام کیاگیا ہے کہ اپنے مذہب حنفی کی تائید پیش کرنے میں تکلف کے آثار قطعاً نظر نہیں آتے؛ بلکہ اہل مذہب کی آراء پر گفتگو کرتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ انصاف کا دامن کہیں ہاتھ سے نہیں چھوٹا، مجھے اس کتاب کے مصنف پر انتہائی درجے کا رشک ہونے لگا، مردوں کے ہمت اور بہادروں کی ثابت قدمی، اس قسم کے نتائج فکر پیدا کیا کرتی ہیں، خدا ان کی زندگی کو خیر وعافیت کے ساتھ دراز فرمائے کہ وہ اس قسم کی مزید تصنیفات پیش کرسکیں۔ (تذکرہ ۴۸۹، وبیس علماء حق ۲۵۷)

            حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب فرماتے ہیں: مذہب احناف کے متعلق حدیث کا مجموعہ تیار کرنے کا جب پروگرام بنا تو حضرت حکیم الامت نے اس اہم کام کے لیے مولانا عثمانی کا انتخاب کیا اور آپ نے اس خدمت کو بخوبی پایہ تکمیل تک پہنچایا، اعلاء السنن کے نام سے بیس ضخیم جلدوں میں یہ عظیم الشان تالیف اہل علم میں مشہور ہے اور جن اصحاب بصیرت نے آپ کی اس تالیف کا مطالعہ کیا ہے، وہ گواہی دیں گے کہ حضرت مولانا ظفراحمد صاحب عثمانی نے اس مجموعہ کی تیاری میں کتنی محنت کی ہے اور کتنا عجیب وغریب حدیث کا ذخیرہ جمع فرمادیا ہے․․․ الخ (پھر وہ قصہ ذکر کیا جو ابھی حضرت تھانوی کے تاثرات کے ذیل میں گذرچکا)۔ (۵۰مثالی شخصیات ۱۸۱)

            محدث عصر حضرت مولانا محمدیوسف بنوری فرماتے ہیں: اگر حضرت عثمانی کی تصانیف میں اعلاء السنن کے علاوہ اور کوئی تصنیف نہ ہوتی تو بھی تنہا یہ کتاب ہی علمی کمالات، حدیث وفقہ ورجال کی قابلیت ومہارت، ثبوت وتحقیق کے ذوق کو محنت وعرق ریزی کے سلیقہ کے لیے برہان قاطع ہے، اعلاء السنن نے حدیث وفقہ اور خصوصا مذہب حنفی کی وہ قابل قدر خدمت کی ہے جس کی نظیر مشکل سے ملے گی، یہ کتاب ان کی شاہ کار تصانیف اور فنی وتحقیقی ذوق کا معیار ہے اور وہ قابل قدر کارنامہ ہے جس پر جتنا رشک کیا جائے کم ہے، حضرت مولانا عثمانی نے اس کتاب کے ذریعہ جہاں علم پر احسان کیا ہے؛ وہاں حنفی مذہب پر بھی احسان عظیم کیا ہے، علماء حنفیہ قیامت تک ان کے مرہون منت رہیں گے۔ (تذکرہ ۴۸۹ وغیرہ)

            نیز فرمایا: اعلاء السنن کا مقدمہ ”انہاء السکن“ کے نام سے تالیف فرمایا، یہ مقدمہ اصول حدیث کے نوادر اورنفائس پر مشتمل ہے، تمام کتبِ رجال اور کتبِ حدیث اور کتبِ اصولِ حدیث سے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ وہ نفائس جمع کردیے ہیں کہ عقل حیران ہے، بجائے خود ایک مستقل بے مثال کتاب ہے، حلب کے مایہٴ ناز عالم ربانی اور دنیاء اسلام کے محقق فاضل اور ہمارے مخلص ومحترم کرم فرما الشیخ ابوغدہ عبدالفتاح کو حق تعالیٰ جزاء خیر عطا فرمائے کہ جنھوں نے مصنف سے اجازت لے کر کتاب کا نام ”قواعد التحدیث“ (صحیح: قواعد فی علوم الحدیث) تجویز فرمایا اور اس پر قابل قدر تعلیقات واضافات ومقدمہ لکھ کر علم اوراہل علم پر احسان فرمایا اور نہایت آب وتاب کے ساتھ زیورطبع سے آراستہ کیا کہ جسے دیکھتے ہی دل سے دعاء نکلتی ہے کہ کتاب جس خدمت کی مستحق تھی الشیخ ابوغذہ اطال اللہ بقاء ہ (رحمہ اللہ) نے اس خدمت کو خوش اسلوبی سے انجام دیا کہ قیامت تک آنے والی نسلیں ان کی احسان مند رہیں گی۔ (۴۰ بڑے مسلمان ۶۸۲)

            شمس العلماء حضرت علامہ شمس الحق افغانی فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا عثمانی کو حسن ظاہر اور حسن باطن سے نوازا تھا وہ علم وعمل کے سمندر اور متانت ووقار کے پہاڑ اور اسلاف کی یادگار تھے، ان کے علمی مقام کے لیے صرف ان کی ایک ہی کتاب اعلاء السنن جو اس صدی کا عظیم کارنامہ ہے پکی دلیل اور شاہد عدل ہے۔ (تذکرہ ۴۹۰)

            شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق حقانی اکوڑہ خٹک پشاور فرماتے ہیں: حق تعالیٰ نے حضرت مولانا عثمانی کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت جلیلہ سے نوازا تھا، پھر حضرت حکیم الامت جیسے مرشد وہادی کی رہنمائی اور سرپرستی میں علمی خدمات انجام دینے کا موقع عطا فرمایا اور اپنی ذہانت وتبحرعلمی کی بدولت احادیث مبارکہ سے مذہب حنفی کی تائید و تقویت کا عظیم الشان کارنامہ اعلاء السنن جیسی تصنیف کی شکل میں انجام دیا جس پر حنفی دنیا بالخصوص اور تمام عالم دنیا بالعموم ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ (تذکرہ ۴۹۰)

            حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی فرماتے ہیں: حضرت مولانا عثمانی ایسے زبردست عالم دین اور شیخ کامل تھے جن کی رگ رگ میں دین بھرا ہوا تھا، اس زمانہ میں ان کی مثال مشکل ہی سے ملے گی، دوسری بے شمار تصانیف کے علاوہ ان کی دو کتابیں ان کے علوم و معارف کے تعارف کے لیے زندہ دلیلیں ہیں، ایک احکام القرآن اوّل کی دو منزلیں اور اعلاء السنن اٹھارہ جلدوں میں یہ تو ایسا زبردست شاہ کار ہے کہ گزشتہ ہزار سال سے ایسی کتاب کی ضرورت تھی؛ مگر اب تک وجود میں نہ آسکی۔ (تذکرہ ۴۹۰)

حضرت مولانا کے چند ارشادات

            فرمایا: ایک خیال یہ بھی ہے کہ مشکوٰة میں فصل رابع کا اضافہ کرکے ہر باب میں اعلاء السنن کے متن احادیث موٴیدہ حنفیہ فصل رابع میں بڑھا دی جائیں؛ تاکہ مشکوٰة پڑھنے والوں کو ہر باب میں حنفیہ کے دلائل بھی ساتھ ساتھ معلوم ہوتے رہیں، احادیث متن کی شرح حضرات مدرسین کو اعلاء السنن سے معلوم ہوسکے گی۔ (۲۰ علماء حق ۲۳۸)

            فرمایا: میرے کسی لفظ سے مولانا مودودی کے تبحرعلمی پر استدلال نہیں ہوسکتا، وہ محض صحافی مولانا ہیں جیسے محمد علی جوہر اورمولانا ظفرعلی خاں۔ (ایضاً ۲۳۹)

            فرمایا: اصلاح معاشرہ کے لیے میرے نزدیک جماعت تبلیغ میں شامل ہونا بہت مفید ہے جس کا مرکز پاکستان میں رائے ونڈ ضلع لاہور ہے اور اس کی شاخیں کراچی، حیدرآباد وغیرہ تمام شہروں میں قائم ہیں۔ (علماء مظاہرعلوم ۲/۱۶۰)

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ: 2،  جلد:102‏،  جمادی الاولیٰ- جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ مطابق فروری 2018ء

#         #         #

Related Posts