از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
ایشیا کی عظیم یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذِ حدیث وادب حضرت اقدس مولانا ریاست علی ظفرؔبجنوری رحمۃ اللہ علیہ کو کون نہیں جانتا، حضرت کی مثال کوہِ نور کی سی ہے کہ جس کا ہر پہلو روشن اور درخشاں ہے، قرآن وسنت، فقہ اصولِ فقہ اور دیگر علوم شرعیہ کی طرح زبان وبیان میں بھی حضرت بے نظیر و بے مثال تھے، نثری ادب میں جہاں آپ کا قلم بلندی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا، وہیں شعری ادب میں بھی اساتذئہ فن کے زمرے میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے، آپ نے شاعری کو محنت کا میدان نہیں بنایا، آپ کی توجہ علومِ شرعیہ، قرآن مجید اور سنتِ نبویہ پر مرکوز رہی، کبھی کبھی اتفاقی طور پر آپ نے متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی، آپ نے قصیدہ اور نظم میں بھی طبع آزمائی کی؛ مگر غزل میں آپ کی شاعری کے بام ودر کھلے نظر آتے ہیں مختصر تعبیر میں معانی کا سمند سمایا ہوا نظر آتا ہے، غالب کی تہہ داری اور اقبال کاشکُوہ ہر بند میں نمایاں نظر آتا ہے۔ یہی حال آپ کے ترانوں کا ہے۔ ترانہ اپنی صنف کے لحاظ سے ’’قصیدہ‘‘ سے بہت زیادہ قریب ہے، اجزائے ترکیبی وغیرہ کے اعتبار سے اگرچہ ترانے میں قصیدہ نظر نہیں آتا؛ مگر خوبو وہی ہوتی ہے جو قصیدہ میں نظر آتی ہے۔ حضرت استاذِ محترم کی شاعری کا ایک انتخاب ’’نغمۂ سحر‘‘ کے نام سے طبع ہوا ہے، اس میں متعدد اصناف کی منتخب شاعری کو قارئین ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار قصائد، شادی کی تقاریب کے موقع سے ’’تہنیت نامے‘‘، بچیوں کی رخصتی کے موقع سے ’’رخصتی نامے‘‘ آپ نے لکھے ہیں، ان کی صحیح تعداد حضرت الاستاذ کو بھی یاد نہیں تھی؛ بلاشبہ سیکڑوں ہوںگے، ان کی نقل اپنے پاس رکھنے کا اہتمام بھی نہیں تھا، بعض ہیں بھی؛ لیکن طباعت واشاعت سے مایوس، ترتیب واشاعت کی پیش کش بھی ہوتو لطیف انداز سے ٹال دیتے تھے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ علماء کے لیے شاعری ذریعۂ عزت نہیں، وہ تو اپنے مقاصدِ جلیل کے لیے پیدا ہوے ہیں اور انھیں میں رضاے الٰہی کی نیت کرکے لگے رہتے ہیں، یہی ان کا طغرائے امتیاز ہے۔
غرض یہ کہ حضرت الاستاذؒ نے ’’نغمۂ سحر‘‘ میں اپنے تین شاہ کار ترانوں کو شاملِ اشاعت فرمایا ہے ایک ’’مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند‘‘ کا ترانہ ہے، دوسرا ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ کا اور تیسرا ’’مدرسۃ البنات‘‘ کا، یہ تینوں ترانے ارکانِ بحر، صنفِ سخن اور مضمون ومواد کے لحاظ سے قدرے مشترک ہیں، پہلا اور تیسرا ترانہ شانِ ورود کے لحاظ سے بھی ایک ہے، یعنی حضرت نے اپنے شاگردِ رشید جناب مولانا جمیل الرحمن پرتاب گڈھی زیدمجدہ کی فرمائش اور ان کے التماس پر موزون کیا ہے، یہ بات اور ہے کہ اولاً دارالعلوم دیوبند کے ترانے کے چند ہی اشعار موزون کیے گئے تھے، حسبِ موقع اس میں اضافے ہوتے رہے، اجلاس صد سالہ کے موقع سے اِسے شہرت ملی؛ چنانچہ اس کے دلکش اسلوب اوراس کی پرجوش گونج نے پورے برصغیر کو اپنے جلو میں لے لیا، دینی مدارس کی محفلیں اس کی عطر بیزیوں سے گمک اٹھیں، آج بھی بہت سے مدارس میں جوش وخروش سے یہ ترانہ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ راقم الحروف کا موضوعِ سخن ’’ترانۂ دارالعلوم ‘‘ ہے، آئیے سب سے پہلے وزن وبحر پرنظر ڈالتے ہیں۔
وزن وبحر
ترانے میں حضرت نے نہایت ہی مترنم اورمقبول عام بحر ’’متدارک مقطوع‘‘ کا انتخاب کیا ہے، متدارک میں وزن ’’فاعِلُن‘‘ آٹھ بار تھا، اخیر سے ساکن کو حذف کرکے اس سے پہلے والے کو ساکن کردیا ’’فاعِلْ‘‘ ہوگیا پھر اس کو منتقل کرکے ’’فَعْلَن‘‘ کرلیا (محیط الدائرہ) یہ کبھی ہر مصرع میں چار چار بار اور کبھی ہر مصرع میں آٹھ آٹھ بار استعمال ہوتا ہے، اِسے عرب شعراء ’’قطرُالمیزاب‘‘ اور ’’ضربُ الناقوس‘‘ بھی کہتے ہیں (حاشیہ محیط الدائرہ) آسانی سے سمجھنے کے لیے اردو زبان میں ’’چھُک چھک، تھم تھم، ڈَم ڈم‘‘ وغیرہ الفاظ کی طرح اس وزن کو سمجھنا چاہیے، میرؔ اور مولوی اسماعیل میرٹھی وغیرہ نے اس وزن کو خوب اختیار کیا ہے، ’’ادب اطفال‘‘ کی نظمیں اس وزن پر زیادہ لکھی جاتی ہیں، ارکان کی کمی بیشی حسبِ موقع ہوتی رہتی ہے؛ غرض یہ کہ تینوں ترانے اسی بحر میں ہیں، اس کے ارکانِ بحر میں سولہ بار ’’فَعَلْنَ‘‘ ہے، ہرمصرع میں آٹھ آٹھ ارکان اختیار کیے گئے ہیں، ردیف وقافیہ میں مثنوی کا طرز اپنایا گیا ہے، ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ وہم ردیف ہیں، صرف ایک مصرع میں ’’زحاف‘‘ ہے اور وہ مصرع ہے: ’’اس وادی کا سارا دامن سیراب ہے جوئے یثرب سے‘‘ لیکن یہ قابلِ تحمل ہے، جیسا کہ علم عَروض کے شناور ڈاکٹر زارؔعلّامی نے ملاحظے کے بعد اظہار فرمایا تھا، وہ اس ترانے کو پڑھ کر سخنور سے اتنا متأثر ہوئے کہ دیوبند ملاقات کے لیے تشریف لے آئے، یہ سیدالقلم سحرؔ عشق آبادی کے شاگرد اور جانشیں تھے، ان کا پورا نام ڈاکٹر اوم پرکاش زارؔعلّامی ہے، موصوف کی کتاب: ’’کلیدِ عَروض‘‘ سے اہلِ ذوق واقف ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ زحاف معمولی اور قابلِ تحمل ہے، یہ کوئی ایسا عیب نہیں ہے جو کلام کی فنی حیثیت کو مجروح کرے، یا اس سے معیار میں کمی اور گراوٹ آتی ہو، ایسے زحاف سے تو بڑے بڑے کلاسیکی شعراء کے اشعار بھی خالی نہیں ہیں، میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے اشعار میں بھی زحاف ہے، علمِ عَروض سے واقف اہلِ فن پر یہ بات بالکل مخفی نہیں ہے، مثالوں کی چنداں ضرورت نہیں۔
ترانۂ دارالعلوم اتناشہرہ آفاق ہے کہ بہت سے لوگ اس ترانہ کی وجہ سے ہی حضرت الاستاذؒ کو جانتے ہیں، بعض لوگ ’’ظفرؔبجنوری‘‘ کو تو جانتے ہیں؛ مگر اُن کو یہ نہیں معلوم کہ یہ شخصیت دارالعلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذِ حدیث ہیں؛ دیوبند میں بہت سے مسلمان تاجروں نے کاپی (Note Book) کی پشت پر یہ ترانہ طبع کرا رکھاہے، طلبۂ مدارس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ دارالعلوم کی محبت میں؛ محض اس ترانہ کی وجہ سے کاپی خریدتے ہیں، بعض جگہ اس ترانے کے سارے اشعار مطبوع ہیں اور بعض جگہ منتخبات شائع کیے گئے ہیں۔
یہ ترانہ دارالعلوم دیوبند کے ’’صدسالہ اجلاس‘‘ کے موقع سے پڑھاگیا تھا، اس وقت سے اس کی شہرت میں چار چاند لگ گئے، بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صدسالہ اجلاس کے لیے ہی یہ ترانہ موزون کیاگیا تھا؛ لیکن یہ درست نہیں؛ اس لیے کہ صدسالہ اجلاس کی تاریخ یہ ہے: ۲۱؍۲۲؍۲۳؍مارچ ۱۹۸۰ء مطابق ۳؍۴؍۵؍جمادی الاولیٰ ۱۴۰۰ھ (ارمغانِ صد سالہ: حکیم الاسلامؒ) اور یہ ترانہ اس سے سات آٹھ سال پہلے ہی (۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۶ء میں) لکھا جاچکا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پورا ترانہ بیک وقت نہیں لکھا گیا؛ بلکہ مختلف اوقات میں اشعار کا اضافہ ہوتا رہا ہے، اجلاس کے پندرہ سولہ سال بعد دو شعر کا اضافہ ہوا ہے، جن میں دارالعلوم دیوبند کی نئی تعمیر شدہ ’’مسجدِ رشید‘‘ کے ناظمِ تعمیرات حضرت الاستاذ مولاناعبدالخالق مدراسی مدظلہٗ استاذِ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند اور اُس وقت کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوریؒ نیز مناظرِ اسلام حضرت مولانا محمدمنظور نعمانیؒ رکنِ شوریٰ کے اسمائے گرامی کی تلمیح موجود ہے، اشعار یہ ہیں:
طیبہ کی مئے مرغوبؔ یہاں دیتے ہیں سفالِ ہندی میں
روشن ہے چراغِ نعمانی، اس بزم کمالِ ہندی میں
خالقؔ نے یہاں اک ’’تازہ حرم‘‘ اس درجہ حسین بنوایاہے
دل صاف گواہی دیتا ہے، یہ خلدِ بریں کا سایہ ہے
حضرت الاستاذؒ کے کلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں معانی ومفاہیم کی بڑی وسعت اور تہ داری ہوتی ہے، جیسا کہ ادباء غالبؔ کے اشعار کے سلسلے میں اس خیال کا اظہار کرتے ہیں، مذکورہ اشعار کو شخصی تلمیحات سے الگ کرکے پڑھیے تو ان کا الگ مفہوم پائیں گے اور تلمیحات کے ساتھ تو ایک مفہوم متعین ہے ہی، یہ بات پروازِ تخیل کے ساتھ لفظیات کے انتخاب اور استعارے کی وسعت کو بڑی لطافت کے ساتھ اپنانے پر موقوف ہے، میرے اس دعوے کی دلیل کے لیے ’’نغمۂ سحر‘‘ کے اشعار کافی ہیں، خصوصاً غزل میں بلاکی وسعت اور بلندی ملتی ہے، جیسا کہ ناقدینِ ادب نے اس کا اعتراف کیا ہے اور ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟‘‘ ہر قاری ملاحظہ کرسکتا ہے۔
مذکورہ بالا دونوں اشعار چوںکہ تاریخی لحاظ سے بالکل اخیر کے ہیں اور صدسالہ اجلاس کے بعد نئی مسجد کی تعمیر کے موقع سے کہے گئے ہیں؛ اس لیے ان کی تعیین ضروری سمجھی گئی، دوسرے اشعار کے بارے میں بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ سب صدسالہ سے پہلے کے ہیں، ہر ایک کی زمانی تعیین دوسرے کے لیے تو ناممکن ہے ہی، خود حضرت الاستاذؒ کو بھی یاد نہیں رہ گیا تھا کہ کون سا شعر کس موقع سے؟ کس تاریخ میں بڑھایاگیا؟ غرض یہ کہ ترانہ لکھاتو بہت پہلے جاچکا تھا، اس کو عالمی شہرت اجلاسِ صد سالہ کے موقع سے ہوئی، یہاں یہ واضح کرنا بھی مناسب ہے کہ یہ باتیں راقم حروف نے حضرت استاذؒ سے پوچھ پوچھ کر لکھی ہیں، حضرت کی نقل میں بہت سے مدارس کے ترانے اسی بحر میں کہے گئے ہیں؛ بلکہ بعض ترانوں میں اسی ترانے کے الفاظ، مضمون اور مواد کو ترکیب بدل کر استعمال کیاگیاہے۔ جس کو سرقہ نہیں تو چربہ تو کہا ہی جاسکتا ہے۔
سچ ہے کہ اگر حضرت الاستاذؒ کوئی اور شعر نہ کہتے، تب بھی یہی ترانہ آپ کی شعری اور شعوری آفاقیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتا، اس میں معانی کی گہرائی، فکر کی بالیدگی اور تخیل کی پرواز اتنی زیادہ ہے کہ حضرت مولانا لقمان الحق فاروقیؒ کی زبان میں اسے ’’الہام‘‘ ہی کہاجاسکتا ہے۔
اس نظم میں شکوہِ بیان، شوکتِ لفظی، تشبیہات واستعارات کی کثرت، طرزِ تخاطب کی نزاکت، تخیل کی بلندپروازی، جذبات نگاری، کردار نگاری اور مدحت طرازی وغیرہ اوصاف ایسے ہیں، جن کو پڑھ کر یا سن کرمتأثر ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا، ’’تشبیب ونسیب‘‘ کے سارے اوصاف پائے جاتے ہیں، بَہاریہ اور طربیہ اسلوب میں باغ وراغ، شراب وشباب اورجنون وعشق کے متعلقات بیان ہوئے ہیں، جن سے قاری کو ایک طرف ’’قصیدے کی گونج‘‘ اور دوسری طرف غزل کے نغمے سنائی دینے لگتے ہیں۔
طربیہ ونشاطیہ مضمون باندھنے میں باغ وبہار کے درج ذیل الفاظ منتخب کیے گئے ہیں:
’’گل، گلشن، بلبل، غنچہ، شاخ، گلبانگ، ساون، خوش بو، ضَو، شمع، پروانہ، خورشید، صبح، بزم، ابر، بوند، بادل، برسات، برکھارت، قلزم، دریا، جوے، موج، کہسار، طوفان وغیرہ اور متعلقاتِ شراب وعشق میں سے ساقی، سِفال، چھاگل، مَے، میخانہ، مے نوشی، مے کش، تشنہ لبی، رند، دیوانہ، جنون، زنداں، پیرِ مغاں، صنم خانہ اور حرم وغیرہ الفاظ استعارہ کے لیے منتخب کیے گئے ہیں، علم ومعرفت، جذبۂ اشاعتِ اسلام اور بقائے دین کے استعارات نے اس نظم کو شاہ کار بنادیا ہے، شخصیات کی تلمیحات اور دارالعلوم دیوبند کے کارناموں کی رمزیت وعلامت نگاری اس نظم کے اہم اوصاف ہیں، اس میں بڑے بڑے مفصل حقائق اور واقعات کو ’’دریا بہ کوزہ‘‘ کا مصداق بنایا گیا ہے، دارالعلوم دیوبند کی خصوصیات، حیرت انگیز فیض رسانی، اس کا فکری اعتدال، باطل کے مقابلہ میں صف آرائی، فضلائے دارالعلوم کی عظمت اور قابلِ رشک استعداد وصلاحیت، اشاعتِ دین سے محبت ودلچسپی، اکابر دارالعلوم کا ان کے امتیازی رنگ کے ساتھ تذکرہ وغیرہ کو رَمزی اور تلمیحی انداز میں بیان کیا ہے، تغزل کا رنگ ہر جگہ باقی ہے، اس نظم کا پہلا شعر یہ ہے:
یہ علم و ہنر کا گہوارہ، تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے
ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے ہر سرو یہاں مینارہ ہے
دوسرے شعر میں اس تاریخی خواب کی طرف اشارہ جس کی تفصیل یہ بتائی جاتی ہے کہ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نودرے کی تعمیر کی جگہ نشانات لگائے، اس واقعہ کو تغزل آمیز اسلوب میں ملاحظہ فرمائیے:
خود ساقیِ کوثر نے رکھی میخانے کی بنیاد یہاں
٭
تاریخ مرتب کرتی ہے، دیوانوں کی روداد یہاں
دارالعلوم کی عظمت اور اس کی فیض رسانی کی تعبیر ملاحظہ کیجیے:
کہسار یہاںدب جاتے ہیں طوفان یہاں رک جاتے ہیں
اس کاخِ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں
ہر بوند ہے جس کی امرِت جل یہ بادل ایسا بادل ہے
سو ساگر جس سے بھر جائیں یہ چھاگل ایسا چھاگل ہے
مہتاب یہاں کے ذروں کو ہر رات منانے آتا ہے
خورشید یہاں کے غنچوں کو، ہر صبح جگانے آتا ہے
رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانیہ دعوتِ اسلام کے لیے ’’صفا‘‘ پہاڑی پر چڑھ کر لوگوں کو خطاب فرمایاتھا، اس واقعہ کی تلمیح کے ساتھ مدنی زندگی کے مذہبی حرکت وعمل کو بھی بیان کیا ہے، دارالعلوم دیوبند گویا مکی اور مدنی زندگی کا آمیزہ ہے، درحقیقت یہاں وہی ابر برس رہاہے جو یثرب کے افق پر بلند ہوا تھا:
جو وادیِ فاراں سے اٹھی گونجی ہے وہی تکبیر یہاں
ہستی کے صنم خانوں کے لیے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں
برسا ہے یہاں وہ ابر کرم، اُٹھا تھا جو سوئے یثرب سے
اس وادی کاسارا دامن سیراب ہے جو جوئے یثرب سے
تحریکِ آزادی میں علمائے دیوبند کے حصے کو اور ملک وملت کے لیے فکرمندی کو اس انداز سے بیان کیا ہے:
سوبار سنوارا ہے ہم نے، اس ملک کے گیسوائے برہم کو
یہ اہلِ جنوں بتلائیں گے، کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
اسلام کے اس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی
اس بامِ حرم سے گونجی ہے سو بار اذاں آزادی کی
علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا سیدفخرالدین احمد صاحبؒ کی ہمہ جہت شخصیت اور اوّل الذکر سے استفادہ کا ذکر درج ذیل شعر میں ہے، ترانے کا یہ شعر ’’بیت الغزل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی اگر کوئی سب سے زیادہ پُرمعنی شعر تلاشے تو نگاہ اس شعر پر جاکر رک جائے گی۔
رومیؔ کی غزل رازیؔ کی نظر غزالی کی تلقین یہاں
روشن ہے جمالِ انورؔ سے پیمانۂ فخرالدینؔ یہاں
اس شعر کے بارے میں خود حضرت الاستاذ فرماتے تھے: ’’راقم الحروف ترانہ لکھ رہا تھا اور اپنی فطری محبت کے سبب یہ چاہتاتھا کہ حضرت مولانا فخرالدین احمد صاحب کے نام پر مشتمل شعر اتنا خوب ہونا چاہیے کہ ترانہ کا انتخاب کرنے والا اس شعر سے صرفِ نظر نہ کرسکے؛ اس لیے ذہن میں یہ آیا کہ حضرت الاستاذ کا نام ایک تو حضرت شیخ الہندؒ یا حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے نام کے ساتھ دیا جائے، دوسرے یہ کہ اس شعر کا مضمون دارالعلوم کی امتیازی خصوصیات پرمبنی ہو کہ اگر انتخاب کرنے والا اکابر کے نام کی بنیاد پر انتخاب کررہا ہو تب بھی اور مضمون کی نُدرت اور بلندی کی بنیاد پر انتخاب کررہا ہو تب بھی اس شعر کو نظر انداز نہ کرسکے؛ لیکن حضرت شیخ الہندؒ کے تلامذہ میں متعدد اکابر کو حضرت مولانا فخرالدین احمد رحمۃ اللہ علیہ سے تقدم حاصل ہے؛ اس لیے اُن کے بجائے حضرت علامہ کشمیریؒ کا نام زیادہ موزوں ہے کہ وہ اُن کے علوم کے صرف امین ہی نہیں؛ بلکہ ان کے علوم کی شرح وتسہیل میں بھی نمایاں مقام کے حامل ہیں، نیز یہ کہ دارالعلوم کی فضائوں میں بھی علامہ کشمیریؒ کے نام کی گونج حضرت مولانا فخرالدین احمد صاحبؒ کے درسِ بخاری کے بعد ہوئی ہے؛ چنانچہ راقم نے شعر کہا:
رومیؔ کی غزل میں ڈھلتی ہے غزالیؔ کی تلقین یہاں
روشن ہے جمالِ انور سے پیمانۂ فخرالدین یہاں
حضرت کاشف الہاشمیؒ نے فرمایاکہ اگر ہم پہلے مصرعہ میں دارالعلوم کے ایک اور امتیازی وصف کا اضافہ کردیں اور یوں کہیں:
رومیؔ کی غزل، رازیؔ کی نظر غزالیؔ کی تلقین یہاں
روشن ہے جمالِ انورؔ سے پیمانۂ فخرالدؔین یہاں
تو دارالعلوم کے امتیازات کی شان دار ترجمانی ہوجائے گی اور دوسرے مصرعہ میں یہ اشارہ ہوجائے گا کہ یہ دونوں حضرات اُن امتیازات کے حامل اور ترجمان ہیں اور اُن میں ثانی الذکر اوّل الذکر کے علوم سے فیض یاب رہے ہیں۔‘‘ (کلیات کاشف، ص۲۷)
فضلائے دارالعلوم سے متعلق اشعار ملاحظہ ہوں:
جو صبحِ ازل میں گونجی تھی، فطرت کی وہی آواز ہیں ہم
پروردہٴ خوشبو غنچے ہیں، گلشن کے لیے اعجاز ہیں ہم
اس برقِ تجلی نے سمجھا پروانۂ شمع نور ہمیں
یہ وادیِ ’’ایمن‘‘ دیتی ہے، تعلیم ’’کلیم‘‘ طور ہمیں
دریائے طلب ہوجاتاہے ہر میکش کا پایاب یہاں
ہم تشنہ لبوں نے سیکھے ہیں، مے نوشی کے آداب یہاں
ہر موج یہاں ایک دریا ہے اک ملت ہے ہر فرد یہاں
گونجا ہے، ابدتک گونجے گا آوازئہ اہلِ درد یہاں
اس بزمِ جنوں کے دیوانے، ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے، دیوارِ چمن سے زنداں تک
بائیس شخصیات کی تلمیح
اس ترانے کی جملہ خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں علامہ رومؒ، امام فخرالدین رازیؒ، امام محمد غزالیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے علاوہ، اٹھارہ دیوبندی عبقری شخصیات، ان کے مزاج ومذاق اور ان کے کارناموں کی تلمیحات ذکر کی گئی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
۱- سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۳۳-۱۳۱۷ھ)
۲- حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۳۳-۱۸۸۰ئ)
۳- قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۲۹-۱۹۰۵ئ)
۴- شیخ طریقت حضرت حاجی محمد عابدحسین دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۳۴-۱۹۱۲ئ)
۵- حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۳۴-۱۸۸۵ئ)
۶- شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۵۱-۱۹۲۰ئ)
۷- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۶۳-۱۹۴۳ئ)
۸- شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۷۹-۱۹۵۷ئ)
۹- شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۰۰-۱۳۸۴ھ)
۱۰- حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۰۴-۱۳۸۷ھ)
۱۱- حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۵۸-۱۹۲۹ئ)
۱۲- حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۷۵-۱۹۳۳ئ)
۱۳- حضرت مولانا حافظ محمد احمد رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۹۳-۱۹۲۸ئ)
۱۴- حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۹۸-۱۹۸۳ئ)
۱۵- حضرت مولانا سیدفخرالدین احمد مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۸۹-۱۹۷۲ئ)
۱۶- مناظرِ اسلام حضرت مولانا محمدمنظورنعمانی رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۰۵-۱۹۹۷ئ)
۱۷- حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوری رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۱۴-۲۰۱۰ئ)
۱۸- حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی مدظلہ العالی (ولادت: ۱۹۵۰ئ)
تلمیحی اشعار یہ ہے:
جو شمعِ یقیں روشن ہے یہاں وہ شمعِ حرم کا پروتو ہے
اس بزمِ ولی اللّٰہیؔ میں تنویرِ نبوت کی ضَو ہے
یہ مجلسِ مے، وہ مجلس ہے، خود فطرت جس کی قاسمؔ ہے
اس بزم کا ساقی کیاکہیے جو صبحِ ازل سے قائم ہے
جس وقت کسی یعقوبؔ کی لے اس گلشن میں بڑھ جاتی ہے
ذروں کی ضیا خورشیدِ جہاں کو ایسے میں شرماتی ہے
عابدؔ کے یقیں سے روشن ہے، سادات کا سچا صاف عمل
آنکھوں نے کہاں دیکھا ہوگا اخلاص کا ایسا تاج محل
یہ ایک صنم خانہ ہے جہاں محمودؔ بہت تیار ہوے
اس خاک کے ذرے ذرے سے کس درجہ شرر بیدار ہوئے
ہے عزمِ حسینؔ احمد سے بپا ہنگامۂ گیرودار یہاں
شاخوں کی لچک بن جاتی ہے باطل کے لیے تلوار یہاں
ہر رند ہے ابراہیمؔ یہاں، ہرمیکش ہے اعزازؔ یہاں
رندانِ ہدیٰ پر کھلتے ہیں تقدیس طلب کے راز یہاں
ہیں کتنے عزیزؔ اس محفل کے انفاسِ حیات افروز ہمیں
اس سازِ معانی کے نغمے دیتے ہیں یقیں کا سوز ہمیں
دعائیہ اشعار میں تلمیحات ملاحظہ ہوں:
امدادؔ ورشیدؔ واشرفؔ کا یہ قلزم عرفاں پھیلے گا
یہ شجرئہ طیبؔ پھیلا ہے تا وسعتِ امکاں پھیلے گا
خورشیدؔ یہ دینِ احمدؔ کا، عالم کے افق پر چمکے گا
یہ نورہمیشہ چمکا ہے یہ نور برابر چمکے گا
راقم الحروف کے محدود علم ومطالعہ میں اردو زبان میں، اس طرح کا کوئی شاہ کار ترانہ نہیں ہے، جس میںکسی بھی ادارے کی اتنی خوبیاں بیک وقت جمع ہوں، جتنی اس ترانہ میں ہیں، اخیر میں حضرت مولانا لقمان الحق فاروقیؒ کا تأثر نقل کرنا مناسب سمجھتاہوں فرماتے ہیں:
’’اگر مجھے خوف نہ ہوتا کہ کم سواد مجھے قاسمی عصبیت کا شکار قرار دیںگے، تو میں بجا طور پر یہ کہتا کہ :’’کسی بھی مادرِ علمی کو، اس کے کسی فرزند نے اتنا شان دار، اتنا اثر انگیز، اتنا فصیح وبلیغ اور اتنا جامع خراجِ عقیدت پیش نہیں کیا ہے، جتنا ظفرؔبجنوری نے دارالعلوم کو پیش کیا ہے۔‘‘ (نغمۂ سحر)
* * *
————————————————
ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ: 11، جلد:101، صفر -ربیع الاول 1439ہجری مطابق نومبر 2017ء