از:مولانامیرزاہد قاسمی مکھیالوی
جامعہ فلاحِ دارین الاسلامیہ بلاسپور
اسلامی اخلاق میں صداقت وامانت دو ایسے جامع اوصاف ہیں جن کو اختیار کرنے سے انسانی اخلاق کی تکمیل ہوتی ہے۔
سچائی و امانت داری کی صفت سے عاری انسان ناتمام اور ادھورا شمار ہوتا ہے،سچ بولنے سے معاشرے میں عزت ملتی ہے،لوگوں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے،سچ کی بدولت انسان راحت واطمینان کی زندگی جیتا ہے،سچائی کواختیار کرنے سے چہرہ پُر رونق رہتا ہے،سچ انسان کو نجات دلاتا ہے،جھوٹ ہلاک و برباد کرتاہے،سچائی کو آدمی مضبوطی سے تھام لیتا ہے اور ہمیشہ سچ بولتا ہے تو رفتہ رفتہ مقامِ صدیقیت حاصل کرلیتا ہے؛جب کہ کذب اور دروغ گوئی انسان کو تباہ وبرباد کردیتی ہے ،جھوٹ کی وجہ سے انسان کا اعتبار ختم ہو جاتاہے،جھوٹا شخص لوگوں کی نظروں سے گر جاتاہے،جھوٹ بولنے کی وجہ سے قلبی سکون و اطمینان سے انسان محروم رہتا ہے،رحمت کے فرشتے اس سے کوسوں دور رہتے ہیں اور شیطان اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور جھوٹ بولنے کی عادت پختہ ہو نے کے باعث اللہ کے یہاں اس کو کذّاب لکھ دیا جاتاہے۔
مشہور صحابی حضر ت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سچائی کو لازم پکڑ لو؛کیوں کہ سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بے شک نیکی جنت میں پہونچا دیتی ہے اور آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کا قصد کرتارہتا ہے؛ یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتاہے،اور تم جھوٹ سے بچو؛کیوں کہ جھوٹ نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نافرمانی دوزخ میں لے جاتی ہے،اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے؛یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتاہے(ترمذی:ص۱۸؍ج۱)
بہرحال!جھوٹ ایک گناہ نہیں؛بلکہ بہت سے گناہوں کی جڑ اور بنیاد ہے؛اسی لیے اس کو امّ الامراض کہا جاتا ہے۔
انسانی زندگی کا دوسرا اہم وصف امانت داری ہے جس کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالتے ہوے نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جامع انداز میں فرمایا کہ اس شخص کا ایمان مکمل نہیں جس میں امانت ودیانتداری کی صفت نہیں۔(بیہقی)
عام طور سے لوگ امانت کامطلب یہ سمجھتے ہیں کہ کسی شخص نے کچھ پیسے یا اپنی کوئی چیز ہمارے پاس لاکر رکھ دی اور ہم نے اس کو حفاظت سے رکھ دیا ،اس کو خود استعمال نہیں کیا ،کوئی خیانت اس میں نہیں کی،جوں کی توں واپس کردی تو حق امانت ادا ہوگیا۔
بلا شبہ امانت کا ایک پہلو یہ بھی ہے؛لیکن قرآن وحدیث میں جہاں امانت کا لفظ آیا ہے اس کے معنی اور مفہوم میں وسعت ہے، اس کے اندر بڑی کشادگی ہے بہت ساری چیزیں اس کے دائرے میں آجاتی ہیں۔
سب سے پہلی چیز جو امانت کے اندر داخل ہے وہ ہماری زندگی ہے جو ہمیں ملی ہے ،اسی طرح ہمارا پورا جسم سر سے لے کر پاؤں تک امانت ہے ،ہم اس کے مالک نہیں یہ آنکھیں جن سے ہم دیکھتے ہیں،یہ زبان جس سے ہم بولتے ہیں،یہ کان جن سے سماعت کا کام لیتے ہیں،یہ ناک جس سے سونگھتے ہیں،یہ ہاتھ جن کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں،یہ پیر جن سے چلنے کا کام لیا جاتا ہے،یہ سب امانت ہیں جو اللہ رب العزت نے بلا کسی محنت ومشقت محض اپنے فضل سے عطا کیے ہیں،دینی ودنیوی منافع کی خاطر انھیں استعمال کرنا اور ان قوتوں سے فائدہ اُٹھانا یہ امانت ہے اور ان اعضا کو ایسے مواقع پر استعمال کرنا جس سے اللہ کی نافرمانی لازم آئے یہ خیانت ہوگی۔
اسی طرح زندگی کے یہ لمحات جو گذر رہے ہیں ان کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، ان لمحات وساعات کو ایسے کام میں صرف کرنا جو دنیا وآخرت کے لحاظ سے فائدہ مند ہویہ امانت داری ہے، اور اللہ کی نافرمانی اور ناراض کرنے والے کاموں میں زندگی گذارنا یہ امانت میں خیانت ہوگی۔
مقصد عرض کرنے کا یہ ہے کہ امانت ودیانت کا تعلق صرف کسی چیز سے یا پیسوں سے نہیں؛بلکہ امانت میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کے ساتھ کسی کا حق متعلق ہو ،اور جس کی حفاظت اور مالک کی طرف ادائے گی انسان پر لازم ہو،اس بنا پرکہا جائے گا کہ عالم کے پاس علم امانت ہے،کسی مسجد ومدرسہ کے متولی ومہتمم کے پاس مسجد ومدرسہ امانت ہے،حاکم اور فرماں رواں کے پاس ا قتدار امانت ہے،صاحبِ ثروت اور متمول لوگوں کے پاس دولت امانت ہے،مکتب ومدرسہ کے معلم، اُستاذ کے پاس شاگرد امانت ہیں،باپ کے پاس اولاد امانت ہے،بیوی کے پاس عزت وآبرو امانت ہے،ہر انسان کے پاس اس کی جان اور اس کے اعضا امانت ہیں،ہماری زندگی اور اس کا ایک ایک لمحہ امانت ہے۔
پیارے آقانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی میں یہ دونوں صفت نمایاں طور پر تھیں،بچپن سے ہی آپ صداقت وامانت کے پیکر تھے،نبوت سے پہلے بھی پورے مکہ میں آپ ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کے لقب سے مشہور تھے یعنی آپ… سچے تھے،آپ کی زبان پر کبھی جھوٹ نہیں آتا تھا ،آپ… امانت دار تھے،جو لوگ آپ …کے پاس امانت رکھواتے تھے اُن کو پورا بھروسہ تھا کہ آپ… اس امانت کا حق اداکریں گے؛چناںچہ ہجرت کے موقع پر صورتِ حال یہ تھی کہ کفار نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہوے تھے،آپ… کے خلاف قتل کے منصوبے بنا رہے تھے،اس حالت میں اللہ کے حکم سے آپ کو رات کے وقت اپنے شہر مکہ مکرمہ سے نکلنا پڑا،ایسے حساس اور نازک ماحول میں جب کہ لوگوں کی امانتیں آپ کے پاس تھیں،آپ کو یہ فکر تھی کہ میرے پاس جو لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں ان کو اگر پہونچاؤں گا تو راز کھل جائے گا کہ میں یہاں سے جارہا ہوں ،اس وقت پیارے نبی… نے ایک ایک فرد کی امانت اس کے مالک تک پہونچانے کا اس قدراہتمام فرمایا کہ اپنا امین ومعتمد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنایا اور پابند کیا کہ وہ تمام امانتیں کو واپس کردیں،اس کے بعد ہی ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئیں۔
وہ امانتیں صرف مسلمانوں کی ہی نہیں تھی؛بلکہ کافروں کی بھی تھیں،جو آپ کے خون کے پیاسے اور آپ کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کر رہے تھے،ان کی امانتوں کو بھی ان تک واپس پہونچانے کا آپ… نے انتظام فرمایا،امانت داری اور سچائی کے معاملہ میں یہ تھی ہمارے نبی … کی پاکیزہ اور تابناک سیرت۔
آج مسلم معاشرہ کا المیہ یہ ہے کہ جھوٹ ،خیانت،مکروفریب اور دھوکہ جیسی خبیث اور رذیل عادتوں کی قباحت وبرائی ذہنوں سے نکلتی جا رہی ہے اور ان چیزوں کو ہنر،عقل مندی وہوشیاری کا نام دیا جانے لگا،ظاہر ہے کہ یہ انتہائی افسوس ناک پہلو ہے کہ معصیت اور گناہ کی برائی اور قباحت ہی دل سے نکل جائے۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نہ صرف مسلمان کے لیے ؛بلکہ ہرفردِ بشر کے لیے ایک کھلی کتاب ہے، جن قوموں اورجن خطہ کے لوگوں نے اسلامی عادات واخلاق کو اپنایا اور ان کو عملی زندگی کا حصہ بنایا، وہ مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے لگے اورمسلمان نے اپنے دین ِ فطرت کی پاکیزہ تعلیمات سے رو گردانی کی وہ پسماندگی اورپست حالی کا شکار ہوگئے۔
اگر واقعی ہم اسلام کے سچے نام لیوا ہیں اور ایک اچھے مہذب انسان کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بھولے اور چھوڑے ہوے سبق کو پھر سے دوہرانا ہوگااور اسلامی تعلیمات وہدایات کو اختیار کرنا ہوگا،جن پر عمل کرکے یقینا ہمیں دنیا وآخرت کی فلاح وبہبودی حاصل ہوگی،اور معاشرے میں بھی قدر کی نگا ہوں سے دیکھے جائیں گے۔ان شاء اللہ
* * *
————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ: 11، جلد:101، صفر -ربیع الاول 1439ہجری مطابق نومبر 2017ء