از: مفتی اشتیاق احمد قاسمی
استاذ حدیث جامعہ نورالعلوم، بہرائچ
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
د یو ا نہ مر گیا آخر تو و یرانے پہ کیا گذری
مدارس اسلامیہ کی چہل پہل اپنی سالانہ میعادپر پہنچ کر تھم چکی تھی، قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں ایک محدود وقت کے لیے ٹھہرچکی تھیں، طالبان علوم کے قافلے اپنا سالانہ سفر پورا کرکے مدارس سے اپنے وطن مالوف اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہوچکے تھے، خیروبرکت والے مہینہ کی آمد آمد تھی، ایسے میں ام المدارس ازہرالہند دارلعلوم دیوبند کا ایک قابلِ فخر سپوت، مایہ ناز فرزند، جلیل القدر محدث، صاحبِ طرز ادیب عالم فانی سے منھ موڑ کر اس عالم جاودانی کی طرف روانہ ہوگیا جہاں سے کسی کی واپسی ممکن نہیں۔
۲۳/شعبان ۱۴۳۸ھ کی صبح یہ اندوہناک خبر بڑی حسرت ویاس کے ساتھ سنی گئی کہ دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ اور بے نظیر ترانہ دارالعلوم دیوبند کے تخلیق کار حضرت مولانا ریاست علی بجنوری اپنے ربِ حقیقی سے جاملے (انا للہ وانا الیہ راجعون) اس خبر نے علمی دنیا کو اور بالخصوص قاسمی برادری کو سخت افسردہ اور سوگوار کیا، موصوف ایک بلند پایہ عالم، صاحب طرز ادیب، فکرارجمند اور ذہن اخّاذ کے مالک انسان تھے، خالق کائنات کی طرف سے ان کو قلب سلیم اور دل دردمند سے وافر حصہ عطا کیاگیا تھا، وہ نہایت صائب الرائے، انتہائی منکسرالمزاج، ہر دلعزیز اور باوقار شخصیت کے مالک تھے، زندگی کا بیشتر حصہ دارالعلوم اور دیوبند کی علمی وروحانی فضاؤں میں گذرا تھا، جو آدم گری اور مردم سازی کا روئے زمین پر ایک نایاب کارخانہ ہے، جہاں سے علم وفن کے ہیرے وموتی ماہرِ فن رجالِ کار، دعوت وارشاد اور تزکیہٴ قلوب کے شیوخ اور مزکی پیدا ہوئے اور جس سرزمین کو عالم اسلام کی نابغہٴ روزگار شخصیتوں اور عبقری ذوات قدسیہ کی قدم بوسی کا شرف حاصل رہا ایسے علم پرور شخصیت ساز اور کثافتوں سے پاک اور پاکیزہ ماحول میں جب ایک مبدأ فیاض کی بارگاہ سے عقل ودانش کا وافر حصہ وصول کرنے والے کی علمی پرداخت ہوگی تو ظاہر ہے کہ وہ علم وعمل کی کن بلندیوں پر فائز ہوگا اور اس کا ستارہٴ اقبال کتنا بلند ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، دارالعلوم دیوبند ہی میں آپ کی پوری تعلیم ہوئی ۱۳۷۸ھ میں آپ کو دارالعلوم دیوبند سے امتیازی نمبرات سے کامیابی ملی اس کے بعد اپنے استاذ فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب کے درس بخاری میں بالالتزام دوبارہ شرکت فرماکر درس کو تحریراً ضبط کیا، جب کہ پہلے سال میں بھی استاذ محترم کے مکمل درس بخاری کو ضبط فرماچکے تھے، پھر بعدمیں تہذیب وتبویب اورتحقیق وتفصیل کرکے ایضاح البخاری کے نام سے اس کی اشاعت شروع کی، جو اپنے بسط وجامعیت کے سبب بہت سی شروح بخاری پر بھاری ہے؛ بلکہ بعض اہل علم کی زبان میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ کتاب فتح الباری شرح بخاری کو اردو قالب میں ڈھال دیاگیا ہو اور اس میں علماء دیوبند کے افادات کا اضافہ کردیا گیا ہو، الحمدللہ اس کی دس جلدیں منظرعام پر آکر علماء اور اہل علم کے طبقہ میں کافی مقبولیت وداد وتحسین حاصل کرچکی ہیں اور جس کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے، اللہ اپنے فضل سے اس کی تکمیل کی راہ آسان فرمائے (آمین)، ۱۹۷۲/ میں آپ کا دارالعلوم دیوبند میں عربی مدرس کی حیثیت سے تقرر ہوا، اپنی خداداد صلاحیت، انداز تدریس وتفہیم اور فہم وفراست سے اساتذہٴ دارالعلوم میں ایک امتیازی شان پیدا کی، پھر جب ۱۴۰۲ھ میں دارالعلوم میں انقلاب آیا اور دارالعلوم ایک سخت آزمائش کے دور سے گذرا تو منصبِ تعلیمات کی عظیم ذمہ داری سپرد کی گئی، آپ نے اپنی زیرکی وعقل مندی سے نظامِ تعلیم کو فعال اور نہایت مضبوط ومستحکم کیا، امتحانات کے نظام کو نئے انداز سے درست کیا جس کے نتیجے میں تعلیمی وتربیتی ہر اعتبار سے دارالعلوم کو مرکزیت کا مقام حاصل ہوا اور ایک بار پھر اس کی علمی بہاریں لوٹ آئیں اور دارالعلوم نے قدیم طریقہ پر اپنی کوکھ سے آفتاب و ماہتاب کے روشن ستارے نکالنا شروع کردیا، دارالعلوم اپنے آزمائش کے دور میں مختلف حالات سے نبردآزما رہا؛ لیکن ان تمام میں یہ مردآہن، میدان میں ڈٹا رہا اور دارالعلوم اور اس کے کاز کو ادنیٰ نقصان پہنچانا گوارا نہ کیا، دارالعلوم پر کوئی نازک حالت پیش آتی یا دارالعلوم کی طرف سے کوئی محفل سجائی جاتی تو دارالعلوم کی ترجمانی کے لیے اور اس کے موقف کو رکھنے کے لیے جس موقر ذات کا انتخاب ہوتا وہ بالعموم حضرت مولانا کی ذات ہوتی، جو دارالعلوم کی اقدار وروایات کی پاسداری کرتے ہوئے، اس کی نزاکتوں کا لحاظ کرتے ہوئے ایسی متوازن گفتگو فرماتے جو دارالعلوم کی ترجمانی کے ساتھ زبان وادب کا شاہکار ہوتی اور ہر ایک سامع سردھننے پر مجبور ہوجاتا، ویسے مولانا کا اصل میدان درس وتدریس کا تھا اور وہ اس میدان کے بڑے شناور اور سرخیل لوگوں میں سے تھے، تقریر و خطابت کے لیے اسفار کم ہوتے تھے جب کسی کا زبردست اصرار ہوتا اسی وقت سفر فرماتے تھے؛ لیکن جہاں جاتے وہاں وہ اپنی علیحدہ شناخت چھوڑ کر آتے، دارالعلوم کی طرف سے منصب تعلیمات کی سپردگی کے ابتدائی دور میں آپ کا سرائے میراعظم گڈھ کے قدیم ومعروف ادارہ بیت العلوم کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانا ہوا، وہاں آپ کا ردّ مودودیت پر ایک فاضلانہ اور محققانہ خطاب ہوا، اجلاس میں معروف عالم دین اور خطیب شہیر مولانا ضمیراحمد صاحب جلال پوری بھی موجود تھے، جو خود ایک بڑے خطیب تھے، مولانا کی تقریر سے کافی متاثر ہوئے اور لوگوں کے سامنے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب میں نے دارالعلوم کی طرف سے یہ فیصلہ سنا کہ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری کو نظامت تعلیمات کا منصب سپرد کیاگیا ہے، تو اس فیصلہ پر بڑا تعجب ہوا کہ یہ دارالعلوم کا بڑا عظیم منصب ہے، اس پر تو بڑے فائق لوگ فائز ہوتے رہے ہیں، یہ منصب ان کو کیسے دے دیاگیا؛ لیکن آج ان کے بیان وخطاب سے شرحِ صدر ہوگیا کہ ”حق بہ حقدار رسید“ کے وہ مصداق ہیں، مدارس کی چہاردیواری میں علمی شغل وانہماک رکھنے والوں کے ساتھ بالعموم یہ صورت پیش آتی ہے کہ خلق خدا ان کے علمی مرتبہ وتفوق سے نابلد ہوتی ہے، مولانا کو تمام عربی علوم وفنون پر کامل دسترس کے ساتھ اردو ادب کا بڑا پاکیزہ ذوق ملا تھا، وہ ایک اچھے ادیب ہونے کے ساتھ بلند پایہ شاعر بھی تھے، شعر وشاعری کو انھوں نے اپنا پیشہ نہیں بنایا تھا؛ لیکن طبیعت کی موزونیت اور عشقِ رسول کی آگ جب سینہ میں شعلہ زن ہوتی تو وہ نظم کا قالب اختیار کرلیتی جو بے پناہ معنویت اور عشق وجذب کی کیفیت لیے ہوتی، اس سلسلہ میں آپ کے کلام کا ایک مجموعہ ”نغمہٴ سحر“ کے نام کے ساتھ شائع ہوچکا ہے، جو فنِ شاعری اور علم وادب کا بہترین مرقع ہے اور بالخصوص چند ترانے، ترانہٴ دارالعلوم، ترانہٴ جمعیة، ترانہٴ معہد البنات اپنے صنف ونوع میں طاق وبے نظیر ہیں، خاص طورپر ترانہٴ دارالعلوم جس کی نظیر بظاہر ممکن نہیں، جس کے ایک ایک لفظ میں اور ایک ایک سطر میں تاریخ کے تابندہ نقوش اور تاریخ کے حسین شہ پاروں کو موتی کی لڑی میں پرویاگیا ہے، جس میں تخیل کی رفعت، لفظوں کی شوکت، تشبیہ کی ندرت، بیان کی لطافت، زبان کی شستگی، بندش کی چستی، اشعار کے سانچوں میں ڈھل کر آگئی ہیں، بڑے سے بڑا ماہرِ فن اس کو دیکھ کر اور سن کر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس سے بہترممکن نہیں، یہ دارالعلوم اور اس کے عظیم ترین اکابرین کے عشق میں ڈوب کر کہے گئے اشعار ہیں جس میں دارالعلوم کے موٴسسین واکابرین کی شوکت وعظمت اور ان کے شاندار کارناموں کی روشن تاریخ کی بہترین نقاب کشائی کی گئی ہے۔ مولانا گوناگوں صفات کے حامل انسان تھے، تواضع وانکساری، ہمدردی وغم گساری اور جادئہ حق پر استقامت میں وہ حددرجہ ممتاز تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور اپنے کرم اور رحمتوں کی بارش فرمائے۔
————————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8-9، جلد:101 ،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء