از: مولانا شاہ عالم گورکھپوری
نائب ناظم مجلس تحفظ ختم نبوت، دارالعلوم دیوبند
حالیہ دنوں میں مسلمان جہاں سیاسی مسائل میں گھرے ہوے ہیں وہیں اُن کے ساتھ ایک سیاسی بازی گری یہ بھی ہورہی ہے کہ غیرمسلم اقوام کو مسلمانوں کے نام سے بڑھا وا دیا جارہا ہے اور سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بسا اوقات نادانستہ طور پر مسلمان ہی اس سازش کا آلہٴ کار بن رہے ہیں ۔ ہندوستان میں شیعوں کے بعد اب قادیانی ہیں جنھیں سیاسی بازیگروں نے مسلمانوں کی جگہ بٹھانا شروع کردیا ہے؛ چنانچہ باوجود اس کے کہ قادیانیت کے بانی مرزا قادیانی نے اپنی حیات میں اپنے متبعین کو مردم شماری کے وقت مسلمانوں سے بالکل الگ ایک مستقل فرقہ کے طور پر شمار کرایا تھا ، اس کے بعد بھی کئی مواقع پر قادیانی سرغنوں نے انگریزی دورحکومت میں اپنا شمار مسلمانوں سے الگ کرایا؛ لیکن ملک کی آزادی کے بعدمسلم دشمنی میں کانگریس حکومت نے پہلی بار ۲۰۱۱ء میں قادیانیوں کی مردم شماری مسلمانوں کے ساتھ کرائی اور اب موجودہ حکمراں بھارتی جنتا پارٹی کا عزم و ارادہ تو یہ لگتا ہے کہ انگریزوں کو جو کام اِن قادیانیوں سے لینا تھااُس میں وہ ناکام رہے ، اس کی تکمیل اب موجودہ سیاست داں کریں گے ۔مسلم دشمنی کی یہ کوئی انوکھی مثال یا اسلام دشمن قوتوں کا یہ کوئی انوکھا عزم و ارادہ نہیں؛ تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اگر اب بھی مسلم زعما اور دانشوروں نے اِن زہرآلود پالیسیوں پر روک نہ لگائی تو خاکم بدہن وہ دن دور نہیں کہ جلد ہی قادیانی بھی مسلمانوں کے درمیان بودوباش میں وہی حیثیت اختیار کرلیں گے جو شیعوں کی ہے ۔
مذہبی ، سیاسی اور سماجی میدانوں میں ناقابلِ تلافی شکست کھانے کے بعد قادیانیوں نے ایک نئی سازش یہ رچی ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی شناخت کے حامل کچھ ایسے افراداوراداروں کی تشکیل کی ہے جو سیکولر ازم اور جمہوریت کی آڑ میں قادیانیوں کے دفاع اور ان کے خصوصی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کررے ہیں ، ان اداروں کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے قادیانیوں کواسلام اور مسلمانوں کی صف میں لاکھڑا کریں ،اپنے اس ناپاک مشن کی تکمیل کے لیے کبھی کبھی تووہ اتنی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ مخلص مسلمان بھی اُن کی اس سازش کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔بعد میں جب انھیں قادیانی سازش سے باخبر کیا جاتا ہے تو بعض تو مخلصانہ طورپر نقصان کی تلافی کی فکرکرتے ہیں؛ لیکن بعض اپنی مونچھوں پر سیکولرازم اور دانشوری کا تاوٴ چڑھاکرکچھ اس طرح میدان میں اترتے ہیں کہ قادیانیوں نے بھی کبھی نہ سوچا ہوگا کہ اُن کے ناپاک مشن کے لیے یہ پاکباز مسلمان اتنے کارگر ہوں گے۔اعاذ نا الله منہ
قادیانیوں کی ایک بہت پرانی کوشش یہ بھی ہے کہ انھیں ” احمدیہ مسلم جماعت “ کے نام سے جانا جائے ۔اگر چہ متفقہ طورپرپوری دنیا کے مسلمانوں نے اور دنیا کی اسلامی یا غیر اسلامی سیکولر چھوٹی بڑی عدالتوں نے بھی ان کے دعویِ اسلام کو مسترد کردیا ہے؛ لیکن دنیا کی تمام اقوام انھیں ” احمدی مسلمان “ سے یاد کریں ، ان کی عبادت گاہ ” مرزاڑا“ کے لیے مسجد کا لفظ استعمال کیاجائے ۔ ان کے ہر زندیقانہ اورغیر اسلامی عمل پر اسلامی اصطلاحات استعمال کی جائیں ۔اس میں پڑوسی ملک کی بعض نیوز ایجنسیاں بھی اسی کو جمہوریت کے نام پراپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئی ہیں اور دیگر ممالک کو اس طرح خبریں سپلائی کرتی ہیں کہ گویا وہ مسلمانوں کی ہمدرد ہیں یا مطلق غیر جانب دارخبر رساں ایجنسی ہیں؛ حالانکہ صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے، ان ایجنسیوں کے قیام کے پیچھے اوّل دن سے قادیانی ہیں جو ان کو اپنے مفاد میں گاہے گاہے استعمال کرتے ہیں یا پھر یہ کہ یہ ایجنسیاں قادیانیت زدہ ہیں جو ان کے مفاد میں استعمال ہونے ہی کو جمہوریت کا اعلی معیار سمجھ رہی ہیں۔
الحمد لله علمائے اسلام اور بالخصوص اکابردار العلوم دیوبندنے اپنی سعی پیہم سے جس طرح انگریزی حکومت کی منصوبہ بندیوں کو ناکام بنادیا ،قادیانی منصوبوں کو بھی اس طرح خاک میں ملا دیا کہ ۱۸۸۹ء سے آج جنوری ۲۰۱۷ء تک ایک سواٹھائیس سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد بھی سوائے چند زر خرید مسلم صحافیوں اور دانشوروں کے کوئی شخص ان کو قادیانی کے بجائے احمدی نہیں کہتا؛ بلکہ اسلام دشمن اقوام کی توبات ہی جانے دیجئے؛ حقیقت سے واقفیت کے بعددنیا کی تمام اقوام، عیسائی،ہندو ،سکھ،آریہ پنڈت وغیرہ دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی شروع سے آج تک ان کو ”قادیانی “ کے لفظ سے ہی یاد کیا اور لکھا ہے ۔قادیانی نسبت سے پیچھا چھڑانے کے لیے انھوں نے اسلام دشمن طاقتوں کی ساری طاقتیں بھی جھونک دیں مگران کے چیف گرو مرزا قادیانی کے مولد و مرگھٹ ” قادیان “کی جانب ان کی نسبت ان کے گلے کا اس طرح طوق بن گئی ہے کہ اب چھڑائے سے کسی بھی طرح نہیں چھوٹتی۔
فتنوں کی دنیا کا ایک عجیب معمہ ہے کہ ایک طرف مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ازالہٴ اوہام میں ”قادیان “ کو دنیا کی سب سے بدترین جگہ بتائی اور اس کے باشندوں کو حد درجہ ناپاک اور پلید قراردیا؛ مگر اس کے پیروکار ، قادیان کو دنیا کی مقدس ترین جگہ منواتے پھرتے اور اس کی تقدیس کے ترانے گاتے ہیں؛ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرتناک یہ بات ہے کہ اس کی جانب نسبت کو اپنے لیے اتنا ہی برا سمجھتے ہیں کہ جتنا اس کا حق ہے ،یعنی نہ انھیں مرزا قادیانی کے فیصلے پر قرار ہے اور نہ اپنے فیصلے پر فیاللعجب! علمائے اسلام نے اس موضوع پر کچھ کتابیں بھی لکھی ہیں اور اخیر میں شہید ختم نبوت حضرت مولانا مفتی محمد یوسف صاحب لدھیانوی رحمة الله علیہ کے فتاویٰ نے تو دستاویزی حیثیت حاصل کر لی ہے شائقین اس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ۔
حالیہ دنوں میں قادیانیوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مداخلت کی کوشش کررہے ہیں، ان کے گماشتے اخباری نمائندوں اور کیمرہ مین کی شکل میں بظاہر غیر جانب دار نظر آتے ہیں؛ لیکن اندرونِ خانہ پورے طور پر قادیانی مفادات کا دفاع اور تحفظ کرنے میں سرگرم عمل ہوتے ہیں ۔ ایسے فتنہ پرور بھی قادیانیوں کے لیے لفظ ”احمدی“ ہی استعمال کرتے ہیں؛ تاکہ ان کے دوسرے ہم پیشہ لوگ بھی اس لفظ کا استعمال کثرت سے کرنے لگیں ۔ ان کاایک خطرناک عمل یہ ہوتا ہے کہ ان کی خبروں کا ہر کوریج قادیانی دنیا کے لیے ہوتا ہے اور خالص اس مفاد کا عکاس ہوتا ہے کہ قادیانیت کی جال میں پھنسے لوگ، مسلمانوں کے درمیان اپنے گماشتوں کو پاکرخود کو قادیانیت کا فریب خوردہ نہ سمجھیں گے بلکہ ارتداد کا شکار ہونے کے باوجود عام مسلمانوں کی طرح خود کو مسلمان ہی سمجھیں گے اور دوسرا نقصاندہ پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی ترسیلی خبروں کا ہر زاویہ ایسا ہوتا ہے جس کی تہوں میں خالص اسلام دشمنی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس سے براہِ راست قادیانی سرغنے اپنے قلعوں میں بیٹھے اسلام اور مسلمانوں پر مزید حملے جاری رکھنے کے امکانی راستے تجویز کرتے رہتے ہیں ۔ خبروں کا مفید و موٴثر وہ زاویہ قادیانیوں یا قادیانی سرغنوں تک کبھی نہیں پہنچتا کہ جس میں اسلام اور مسلمانوں کی خوبیاں ہوتی ہیں کہ مبادا کچھ لوگ اس سے متأثر ہوکر قادیانیت پر چار حرف بھیج کر حلقہ بگوش اسلام نہ ہوجائیں، جیسا کہ حسن محمود عودا ،شیخ راحیل جرمنی،محمد رضوان ، اور بہت سے نیک دل لوگوں نے قادیانیت کا سارا تانا بانا بکھیر کر اسلام قبول کرلیا تھا۔
اس سے بھی بڑھ کرخطرناک ایک نئی سازش قادیانیوں نے یہ رچی ہے کہ رواں مہینے میں ابوظہبی میں منعقد ہونے والی ” تعزیز السلم فی المجتمع المسلم “ کے نام سے ایک کانفرنس بین الاقوامی سطح پر منعقد ہوئی، جس کی قیادت ایک سعودی شیخ عبد الله بن بیّہ نے کی ہے، اس میں بڑی خاموشی سے خدامعلوم کس طرح امریکہ سے اور پاکستان سے قادیانیوں کے دو گماشتوں نے شرکت کی ، عام شیوخ کی صفوں میں بالکل ایک کنارے وہ بھی بیٹھے نظر آرہے ہیں کہ گویا وہ بھی اس اجلاس کے اہم مندوب اور مدعو ہیں ،عربوں کے درمیان کہ جواردو سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں قادیانیوں نے اپنے نشست و برخاست کی خود ہی وڈیو بنائی اور اجلاس میں اپنی اچھل کود کو قادیانی چینلوں پر خوب نشر کیا اور تأثر یہ دیا کہ نعوذ بالله پہلی مرتبہ امریکہ کے دباوٴ میں آکر عربوں نے بحیثیت مسلمان، قادیانیوں کو اپنے اس پروگرام میں شرکت کو قبول کیاہے اور قادیانی گماشتے صرف اسی شرط پر شریک ہورہے ہیں کہ انھیں بحیثیت مسلمان پروگرام میں شامل کیا جارہا ہے ۔ نیز یہ کہ ربوہ ٹائمس (قادیانیوں کا پاکستانی چینل ) اس کو مکمل کور کررہا ہے ۔
ہمارے قارئین کو ایک بار پھر حیرت ہوگی کہ اس کی خبر عام مسلمانوں کو اس وقت لگی جب ایک شیعہ چینل نے عرب دشمنی میں اپنی خبریں نشر کرتے ہوئے shiitenews.org پرخبر کا عنوان یہ لگایا کہ ” سعودی مفتی نے قادیانیوں کو مسلم قرار دیدیا ۔پاکستانی دیوبندی کہاں کھڑے ہوں گے ؟ عبد الله بن بیّہ سعودی عرب کی کنگ عبد ا لله یونیورسٹی قرآن کے استاد ہیں اور سلفیوں کے عالمی رہنما ہیں “۔
تصویروں میں شیخ عبد الله بن بیّہ کے ساتھ مصری اور کویتی اور دیگر عرب امارات کے بڑے بڑے علماء نمایاں نظر آرہے ہیں؛ جبکہ بعض تصاویر میں قادیانی گماشتوں کو نمایاں طور پر دکھایاجارہا ہے۔ قادیانی چینل پر یہ نمایاں خبر دی جارہی ہے کہ "SAUDIS & UAE INVITE AHMADIS TO WORLD MUSLIM CONFERENCE” یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے احمدیوں کو عالمی مسلم کانفرنس کے لیے مدعو کیا ہے۔ اس عنوان کے پیچھے نمایاں طور پر شیخ عبد الله بن بیہّ اور دیگر عرب زعما کو دکھایاجارہا ہے ۔
خبر کوریج کرتے وقت ویڈیو میں قادیانی گماشتہ اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ میں ربوہ ٹائمس کا نمائندہ ہوں، میں ابھی ابو ظہبی میں انٹرنیشنل اسلامک کانفرنس میں شریکہوں ۔ اس کا موضوع ہے ” اسلامی ممالک میں امن کیسے لایا جاسکے؟دوسرے دن کا سکینڈ لاسٹ سیشن ہورہا ہے۔ اس میں خوش آئند بات یہ ہے کہ جتنے بھی مسلم کمیونیٹیز ہیں، ان میں شیعہ مسلمان اور احمدی مسلمان، سب کو دعوت دی گئی ہے۔ پچھلے مقرر نے اپنے خطاب میں کہا کہ تکفیر مسلمانوں کے مابین نہیں ہونی چاہیے۔ اس کانفرنس میں مختلف ممالک سے کافی تعداد میں لوگ آئے ہیں، ایران سے عراق سے ہیں، سنی مسلمانوں کے مابین مختلف طبقات کے لوگ ہیں، اس میں شیعہ مسلمان ہیں، احمدی مسلمان جو ہیں وہ بھی پہلی دفعہ اس انٹر نیشنل اسلامک کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں “۔
ان خبروں کے نیچے لکھاگیا ہے”Rabwah Times: Ahmadiyya Muslims invited to ‘peace in Muslim Societies’ Conference in Abu Dhabi” یعنی قادیانیوں کو ابو ظہبی کے اس بین الاقوامی مسلم کانفرنس میں مدعو کیاگیا ہے ۔
ناظرین ! چینل کی پوری خبر کو من و عن نقل کرنے کا کوئی حاصل بھی نہیں، بنیادی باتوں کو راقم سطور نے نقل کردیا ہے ۔ اس سے نتیجہ آپ خود نکال سکتے ہیں اور اپنی غیرت ایمانی کو مہمیز دے سکتے ہیں کہ قادیانی فتنہ پروروں نے مسلمانوں کی صفوں میں کس طرح مداخلت شروع کردی ہے اور مسلمانوں کو مستقبل میں اس کے کس قدر خطرناک عواقب سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے ۔
ان خبروں سے کئی طرح کے سوالات اٹھتے ہیں۔ قادیانی گماشتوں کو بارہا چیلنج کیاگیا کہ وہ دعوت نامہ پیش کرو جو تمھیں جاری کیاگیا ہے اور تمھیں تمہاری شرط کے موافق دعوت دی گئی ہے ؟ لیکن دعوت نامہ پیش کرنا، ان کے بس میں نہیں ۔اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ ” پس پردہ کوئی چھپا سامری ہے “ دعوت نامہ پیش کرتے ہی ان کی ساری منصوبہ بندی کے خاک میں ملنے کا انھیں بھی اندیشہ ہے؛ اس لیے وہ ہر ذلت برداشت کریں گے؛ مگر اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے اپنا دعوت نامہ پیش نہیں کریں گے ۔ اگر امریکہ بہادر کے دباوٴ میں آکر عرب شیوخ نے ان کو دعوت دی ہے تو کھل کر میدان میں آنے سے ان کا خون پسینہ کیوں خشک ہوجاتا ہے ؟ ۔
بات یہ ہے کہ قادیانیوں نے ”رابطہ عالم اسلامی“ کی تکفیری قرار داد کو بے اثر و باطل بنانے کے لیے پوری دنیا میں ایک مہم چھیڑ رکھی ہے ۔دھوکہ دے کر اسلام دشمن طاقتوں کی جاسوسی کے لیے مسلمانوں کے نام پر حج و عمرے کا سفربھی کرتے ہیں،چوری چھپے ملازمت کے بہانے عربوں کے درمیان جگہ جگہ اپنے اڈے قائم کررکھے ہیں؛لیکن دینِ اسلام کی حفاظت کا وعدہ الله رب العزت نے کر رکھا ہے؛ اس لیے ہمیں یقین کامل ہے کہ وہ ہمیشہ ہی اپنے مکر میں ناکام رہیں گے ۔ یہاں بھی عین ممکن ہے کہ پروگرام کے منتظمین کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر قادیانی خود ہی کیمرہ مین بن کر یا اپنی خبر رساں ایجنسیوں کے بہانے سے بغیر کسی دعوت کے آشریک ہوئے ہوں اور فریب خوردہ قادیانیوں کی تسلی کے لیے چوری چھپے کچھ خبروں کا سرقہ کرلیا ہو اور اسی کو رائی کا پہاڑ بناکر پیش کررہے ہیں اور اپنے بھائی شیعوں کی مدد سے خود کو مسلمان باور کرانے کی لاحاصل کوشش میں لگے ہیں ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ قادیانیوں نے جو بین الاقوامی ایجنسیاں اور ادارے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قائم کیے ہوئے ہیں، یہ ان کی کارستانی ہو کہ عربوں کو دھوکے میں رکھ کر یہ کارنامہ دیا جارہا ہو ۔
علاوہ ازیں یہ بھی تو دیکھیے کہ بڑی کانفرنسوں میں طرح طرح کی خدمات کی بجاآوری کے لیے طرح طرح کے لوگ شریک ہوتے ہیں، کو ئی الیکٹریشین، کوئی خاکروب، کوئی میڈیا انچارج، کوئی نمائندہ، کوئی کیمرہ مین اور کوئی باضابطہ مندوب ہوتا ہے، اس میں بنیادی مندوبین کے علاوہ بہت سے خدام غیرمذاہب سے وابستہ ہوتے ہیں، کوئی نصرانی کوئی شیعہ کوئی ہندواورنہ معلوم کس کس قوم و مذہب سے ہوتا ہے؛ لیکن محض شرکت یا خدمت کو کوئی شخص اپنے مذہب یا خیالات کی حقانیت پر دلیل نہیں بناتا ۔ کیا پتہ کہ قادیانی گماشتوں نے کسی اورنام اور کام سے اس پروگرام میں شرکت کی ہو؛ لیکن ان کی زہریلی پالیسی دیکھیے کہ تمام اقوام کے فکر و مزاج سے ہٹ کر وہ اپنی ایک الگ امیج بنارہے ہیں اور اپنے بیوقوفوں کو یہ باور کرارہے ہیں کہ بحیثیت مسلمان پروگرام میں شریک ہیں ۔اس میں قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ قادیانیت کا یہی وہ زہریلا مزاج ہے جس کے سبب دنیا کی کوئی کمزور سے کمزور قوم بھی ان کو اپنے درمیان جگہ دینے کے لیے تیار نہیں، جیسا کہ آج تک یہودیوں کو کسی قوم نے اپنے درمیان جگہ نہیں دی ۔
بہر کیف قادیانیوں کی زبان بندی کے لیے ہمارے پاس بے شمار دلائل و قرائن موجود ہیں، لیکن اس حادثہ کی وجہ سے اٹھتے سوالات کا جائزہ لینا ہمارادینی اور ایمانی فریضہ ہے اوروہ یہ ہے :
(۱) قادیانیوں کی مکروہ پالیسی سے بطور خاص ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قادیانی فریب کاریوں کے سلسلے میں عربوں کو اپنے ماضی کی تاریخ کو دیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ماضی میں کس کس طرح اور کس کس وقت قادیانیوں نے مصر ، عراق ، اردن ، فلسطین اورخود سعودی عرب میں گھس پیٹھ بنائی اور کس قدر نقصان عالمِ اسلام کو پہنچایا ہے، الامان و الحفیظ !۔ایک صدی پر محیط اگر یہ طویل تاریخ عربوں کی نظر میں ہو تی، شاید تو آج یہ حادثہ رو نما نہ ہوتا اور قادیانی فریب کار عربوں کے گرد پھٹکنے کی بھی جرأت نہ کرپاتے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دہلی میں موجود عرب سفارت خانے اس کا نوٹس لیتے اور قادیانیوں کا منہ توڑ جواب دیتے؛ لیکن لگتا ہے کہ شاید ابھی انھیں خبر بھی نہیں ہے ۔ اے کاش اہل پروگرام تک پہنچ رکھنے والاکوئی ہمدرد قادیانیوں کے ا س پروپیگنڈے سے انھیں واقف کرادیتا اور وہ اس کے خطرناک عواقب نتائج کو بھانپ کر قادیانی منصوبوں کو خاک میں ملادیتے ۔
(۲) مسلمانوں کی جانب سے علاقائی یا بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد ہورہی ہوں جن میں بطورخاص اسلام اور ایمان زیر بحث ہو تو ایسی کانفرنسوں میں چوکسی برتنے کی ضرورت ہے کہ قادیانی اپنی قائم کردہ ایجنسیوں کے سہارے اپنے سازشی منصوبوں کو پورا نہ کرنے پائیں ، کہیں ایسانہ ہو کہ ہماری غفلت کا فائدہ اٹھاکر اپنی ارتدادی سرگرمیوں کے لیے ہماری کانفرنسوں کو دلیل بنائیں اور ہمیں خبر بھی نہ ہو، جیسا کہ مذکورہ واقعہ میں دیکھاجارہا ہے ۔
(۳) قادیانی سازشوں کے تناظر میں پرنٹ میڈیااور الیکٹرانک میڈیا سے جڑے مسلمانوں اور مسلم نمائندوں کو بطور خاص یہ خیال رکھنا ہوگا کہ وہ قادیانیوں کے لیے ” احمدی “ لفظ کا استعمال نہ کریں؛ کیوں کہ اس سے نہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کی سخت دل آزاری ہوتی ہے؛ بلکہ اس مکروہ سیاست کی آڑ میں مسلمانوں کی سخت حق تلفی بھی ہوتی ہے ، اس تعبیر سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر غیر مسلم اقوام ان کو مسلمان سمجھ بیٹھتی ہیں، جس کا نقصان دیر سویر مسلمانوں ہی کو بھگتنا پڑے گا؛ جبکہ قادیانی اپنے ناپاک اور کفریہ خیالات کی وجہ سے نہ کبھی مسلمان تھے اور نہ کبھی آئندہ ہوسکتے ہیں ۔ایسی خبروں کو قادیانی فوری طورپرحاصل کرتے ہیں، جن میں ان کے لیے لفظ ”احمدی“ کا استعمال ہوتا ہے یا اُن کے مرزاڑے ( عبادت گاہ )کے لیے مسجد کی اصطلاح کا یا اور کسی اسلامی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔
(۴) یہ ہندوستان، پاکستان یا صرف عربوں کا مسئلہ نہیں اور نہ ایسامسئلہ ہے کہ کسی نے ان کو اسلام سے نکالا ہے؛ بلکہ ان کے کفریہ و زندیقانہ خیالات کے واضح ہوجانے کے بعد شروع سے ہی دنیا بھر کے مسلمانوں نے ان کو اسلام دشمن قوتوں کا آلہٴ کار اور اسلام سے خارج مانا ہے اور گاہے بگاہے قادیانی خود بھی ان حقائق کا اعتراف کرتے رہے ہیں؛لیکن پھر بھی قادیانیوں کی اس ناجائز سیاست کی سرپرستی اعلانیہ طور پر برطانیہ ،امریکہ اور اسرائیل جیسی جرائم پیشہ اقوام پوری ڈھٹائی کے ساتھ کررہی ہیں، اس تناظر میں صاف ستھرے نظام کے حامل اردو یا ہندی ہندوستانی میڈیا کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
حالیہ دنوں میں دیکھا یہ جارہا ہے کہ بعض اردو اخبارات نے ایجنسیوں سے خبر لینے کی وجہ سے ایسی خبروں کو اپنی اشاعت میں جگہ دی ہے، جن میں قادیانیوں کے لیے ”احمدی“ کا لفظ خوب استعمال کیاگیا ہے ، اسی طرح واقعات کو بھی قادیانی مزعومات کے مطابق نشر کیا گیا ہے؛ جبکہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ حقائق وہ نہیں ہیں جو ایجنسیوں نے ذرائعِ ابلاغ کو ترسیل کی ہیں ۔ایسے موقع سے مخلص مسلمانوں کو چاہیے کہ جس اخبار کو وہ خریدکر پڑھتے ہیں، اگر ان میں اس طرح کی تعبیرات پائی جائیں تو وہ فوراً اس پر احتجاج درج کرائیں؛ بلکہ ایمانی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے اخبارات کو ہاتھ نہ لگائیں ۔
—————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:101 ، جمادی الاخری 1438 ہجری مطابق مارچ 2017ء