افادات: حضرت مفتی رِضاء الحق،شیخ الحدیث ومفتی دار العلوم زکریا، جنوبی افریقہ
ترتیب وتخریج: اویس گودھروی، استاذ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل، گجرات
محققین کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو(۹) ربیع الاول کی صبح کو پیدا ہوئے، جو شمسی لحاظ سے ۲۰/اپریل ۵۷۱ء کا دن تھا۔
تحقیقِ تاریخِ ولادت
سال: یہ بات مسلّم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں ہوئی تھی ، اس پر سب ہی موٴرخین وسیرت نگار متفق ہیں۔(البدایة والنہایة ۲/۳۲۱، صفة الصفوة ۱/۵۱․ وینظر: الروض الأنف ۱/۲۷۶)
واقعہٴ فیل کے کتنے دنوں بعد آپ کی ولادت ہوئی؟ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں؛مگر مشہور قول ۵۰/دن کا ہے۔
ولد عام الفیل ․․․ فقیل: بعدہ بشھر ․․․ وقیل: بخمسین یوما، وھو أشھر․ (البدایة والنھایة ۲/۳۲۱)
مہینہ: اس سلسلہ میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تعالی (م۹۲۳ھ)نے چھ اقوال نقل فرمائے ہیں: (۱) محرم(۲) صفر (۳)ربیع الاول(۴) ربیع الآخر(۵) رجب(۶) رمضان؛ مگر جمہور اس بات پرمتفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ماہ ِربیع الاول میں ہوئی۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ثم الجمھور علی أنہ کان في شھر ربیع الأول․ (البدایة والنھایة ۲/۳۲۰)
مشہورمحقق عالم علامہ محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ تعالی (م۱۳۷۱ھ)نے تاریخ ولادت پر اچھی تحقیق فرمائی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ربیع الاول کے علاوہ کسی اور مہینہ کا قول علمائے ناقدین کے نزدیک سبقت ِقلم کے قبیل سے ہے۔ (مقالات الکوثري، ص۴۰۵)
دن: اس بات پر بھی ارباب ِسیر وتاریخ کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت پیر کے دن ہوئی۔
وفي الحدیث: وسئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن یوم الاثنین؟ قال: ذاک یوم ولدت فیہ، ویوم بعثت․․․ (صحیح مسلم، رقم:۱۱۶۲، باب استحباب ثلاثة أیام من کل شھر) (البدایة والنھایة ۲/۳۱۹)
تاریخ: ماہِ ربیع الاول کی کونسی تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تھی؟ اس کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی؛ مگر تاریخ کا تعین نہ ہوسکا؛جب کہ جمہور فرماتے ہیں کہ تاریخ متعین ہے۔ پھر وہ کونسی تاریخ تھی؟
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تعالی(م۹۲۳ھ) نے اس سلسلہ میں کل سات اقوال نقل فرمائے ہیں: (۱) ربیع الاول کی دوسری(۲)آٹھویں (۳) دسویں (۴)بارھویں (۵)سترھویں (۶)اٹھارھویں (۷) بائیسویں ۔ (المواہب اللَّدُنِّیَّة ۱/۱۴۰-۱۴۲)
علامہ کوثری فرماتے ہیں کہ:(۱) آٹھویں تاریخ ختم ہونے کے بعد یعنی نویں تاریخ (۲)دسویں تاریخ(۳) بارھویں تاریخ۔ان تین اقوال کے علاوہ دیگر چار اقوال قابل التفات نہیں۔ تواب کل بحث کامحور انھیں تین روایات میں سے راجح کی ترجیح ہے۔
دسویں تاریخ کی روایت
اس روایت کو ابن سعد (م۱۶۸ھ)نے محمد باقر (م۱۱۴ھ)کی طرف منسوب کیا ہے؛لیکن اس کی سند میں تین رُوات متکلَّم فیہ ہیں؛ اس لیے دس تاریخ والی روایت قابلِ ترجیح نہیں ہے۔ اس روایت کی طرف علامہ کوثری رحمہ اللہ تعالی نے اشارہ فرمایا ہے۔ وہ روایت طبقات سے نقل کی جاتی ہے:
قال ابن سعد : أنا محمد بن عمر بن واقد الأسلمي قال: ثني أبو بکر بن عبد اللہ بن أبي سبرة عن إسحاق بن عبد اللہ بن أبي فروة عن أبی جعفر محمد بن علي (ویعرف بمحمد الباقر) قال: ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لِعشرٍ خَلَون من شہر ربیع الأول․․․، فبین الفیل وبین مولد النبي صلی اللہ علیہ وسلم خمس وخمسون لیلة․ (الطبقات الکبری لابن سعد ۱/۱۰۰ ذکر مولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
بارہویں تاریخ کی روایت
اس قول کو محمد بن اسحاق (م۱۵۱ھ)نے نقل کیا ہے؛ مگراس کی کوئی سندبیان نہیں کی ، اگرچہ یہ قول سب سے زیادہ مشہور ہے اور اہلِ مکہ کی مجالس ِمولود پرانے زمانے سے اسی تاریخ میں ہوتی رہی ہیں، نیز دنیا بھر میں محافل ِمولود اور جلسے اسی دن کیے جاتے ہیں؛ مگرروایت سے اس دن ولادت ہونے کا ثبوت نہیں۔ملاحظہ فرمائیں: مستدرک ِ حاکم (م۴۰۵ھ)میں ہے:
أخبرنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن شبویہ بمرو، ثنا جعفر بن محمد النیسابوري، ثنا علي بن مھران، ثنا سلمة بن الفضل عن محمد بن إسحاق قال: ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاثنتي عشرة لیلة مضت من شھر ربیع الأول․ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، رقم: ۴۱۸۳)
یہ روایت بھی سندِ متصل نہ ہونے کی وجہ سے قابلِ التفات نہیں اور اس کا حال بھی ان روایات کی طرح ہے جن کی سند نہ ہو۔
نویں تاریخ کا قول
عقلاً اور نقلا ًاس بات کو ترجیح حاصل ہے کہ آپ کی ولادت آٹھویں تاریخ کے ختم پر نویں تاریخ کو ہوئی۔
روایتاً:( ۱)علامہ ابن عبد البر (م۴۶۳ھ)نے اس بارے میں اختلاف نقل کرتے ہوئے اس قول کو سب سے پہلے ذکرکیا ہے۔
قال أبو عمر: وقد قیل: لثمان خلون منہ ، وقیل ․․․، وقیل․․․ (الاستیعاب لابن عبد البر ۱/۳۰)
(۲)حافظ ابن ِکثیرفرماتے ہیں : وقیل: لثمان خلون منہ، حکاہ الحمیدي عن ابن حزم، ورواہ مالک وعقیل ویونس بن یزید وغیرھم عن الزھري عن محمد بن جبیر بن مطعم، ونقل ابن عبد البر عن أصحاب التاریخ أنھم صحَّحوہ، وقطع بہ الحافظ الکبیر محمد بن موسی الخوارزمي، ورجَّحہ الحافظُ أبو الخطاب بن دحیة في کتابہ ”التنویر في مولد البشیر النذیر“․(البدایة والنھایة ۲/۳۲۰)
(۳) حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب (م۱۳۸۲ھ) تحریر فرماتے ہیں: عوام میں تو مشہور قول یہ ہے کہ ۱۲/ ربیع الاول تھی، اور بعض کمزور روایات اس کی پشت پر ہیں، اور اکثر علماء ۸/ ربیع الاول کہتے ہیں؛ لیکن صحیح اور مستند قول یہ ہے کہ ۹/ربیع الاول تاریح ِولادت ہے، اور مشاہیر علمائے تاریخ اور حدیث اور جلیل المرتبت ائمہٴ دین اسی تاریخ کو صحیح اور اثبت کہتے ہیں؛ چنانچہ حمیدی ، عقیل، یونس بن یزید، ابن عبد اللہ، ابن حزم، محمد بن موسی خوارزمی، ابو الخطاب ابن دحیہ، ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن حجرعسقلانی،شیخ بدر الدین عینی رحمہم اللہ اجمعین جیسے مقتدر علماء کی یہی رائے ہے۔ (قصص القران ۴/۲۵۳)
(۴)علامہ سید سلیمان ندوی نے بھی نو(۹) تاریخ کو ولادت ہوناراجح قراردیا ہے۔ (رحمةٌ للعالمین۱/۳۸-۳۹)
درایتاً /عقلاً:
( ۱) محمد بن موسی خوارزمی (م۲۳۵ھ)فلکیات کے بہت بڑے امام ہیں، ان کا حوالہ ابھی اوپر کی عبارت میں ذکر کیا گیا۔
(۲) فن ریاضی کے بہت بڑے عالم علامہ محمود پاشا فلکی مصری (م۱۳۰۲ھ)نے فرانسیسی زبان میں” تقویم العرب قبل الإسلام “کے موضوع پر ایک بے مثال کتاب تالیف فرمائی ہے، اور علامہ احمد ذکی پاشا (م۱۳۵۳ھ)نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے ،جس کانام ”نتائج الأفھام في تقویم العرب قبل الإسلام وفي تحقیق مولد النبي وعمرہ علیہ الصلاة والسلام“ہے۔ اس کتاب میں مشرق اورمغرب کے کئی ایک فلکی ماہرین کے اقوال کو مد نظر رکھ کر کی گئی تحقیق سے بھی نو(۹) تاریخ ہونا واضح ہے۔ (نتائج الأفہام ص۲۸-۳۵)
ان کی بیان کردہ وجوہات میں سے ایک وجہ کچھ اس طرح ہے :
رسول اللہ اکے عہد ِمبارک میں سنہ۱۰ھ ماہ ِشوال کی آخری تاریخ کو سورج گہن ہواتھا، اُسی دن آپ کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہواتھا۔
قال الحافظ (م۸۵۲ھ): یوم مات إبراھیم یعني ابنَ النبي صلی اللہ علیہ وسلم، وقد ذکر جمھور أھل السیر أنہ مات في السنة العاشرة من الھجرة، فقیل: ․․․ والأکثر علی أنھا وقعت في عاشر الشھر․ (فتح الباري ۲/۵۲۹)
اس حساب سے اگر پیچھے شمار کیا جائے تو ربیع الاول کی نویں تاریخ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بابرکت ہونا ثابت ہوگا؛اس لیے کہ پیر کا دن یومِ پیدائش ہونا تو متفق علیہ ہے،اور وہ عام الفیل کے ربیع الاول میں نو (۹)تاریخ ہی کوآتاہے۔علامہ محمود پاشافرماتے ہیں:
وقد اتفقوا جمیعا علی أن الولادة کانت في یوم الإثنین، وحیث إنہ لا یوجد بین الثامن والثاني عشر من ھذا الشھر یوم إثنین سوی الیوم التاسع منہ، فلا یمکن أن نعتبر یوم الولادة خلاف ھذا الیوم․
حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب تحریر فرماتے ہیں:
محمود پاشا فلکی نے (جو قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت داں اور منجم گذراہے) ہیئت کے مطابق جو زائچہ اس غرض سے مرتب کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اپنے زمانے تک کے کسوف اور خسوف کا صحیح حساب معلوم کرے، پوری تحقیق کے ساتھ یہ ثابت کیاہے کہ سن ِولادت باسعادت میں کسی حساب سے بھی دو شنبہ کا دن ۱۲/ ربیع الاول کو نہیں آتا؛ بلکہ ۹ ربیع الاول ہی کو آتاہے، اس لیے بلحاظِ قوت وصحت ِروایات اور باعتبار ِحساب ِہیئت ونجوم ولادت ِمبارکہ کی مستند تاریخ ۹ /ربیع الاول ہے۔ (قصص القران ۴/۲۵۳)
(۳) مذکورہ بالا کتاب ”نتائج الأفھام في تقویم العرب قبل الإسلام وفي تحقیق مولد النبي وعمرہ علیہ الصلاة والسلام“کے ایک ایڈیشن پراپنے زمانے کے عظیم ونامور موٴرخ وادیب شیخ علی طنطاوی (م۱۴۲۰ھ)نے مقدمہ لکھا ہے، جس میں آپ نے نو(۹) ربیع الاول کوولادت با سعادت کادن قراردینے پر موٴلف ِکتاب کی پرزور تائید فرمائی ہے۔ (مقدمات الطنطاوي ۸۳)
(۴) محدث ِعظیم ومحقق ِبے نظیر شیخ احمد شاکر ( احمد بن محمد عبدالقادرم ۱۳۷۷ھ)نے بھی شیخ محمود پاشا فلکی کی تحقیق کواختیار کرکے اس سے کسوفِ شمس کی تعیین میں مدد لی ہے۔ (حاشیة الشیخ أحمد شاکر علی”المحلّٰی بالآثار“ ۵/۱۱۴-۱۱۵ لابن حزم الظاھري م ۴۵۶ھ)
(۵) سعودی عرب کے ایک محقق وماہرِفلکیات عالم عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم (م۱۴۱۶ھ) اپنی کتاب ”تقویم الأزمان“میں تحریرفرماتے ہیں:
وقد ثبت بما لا یحتمل الشک من النقل الصحیح أن ولادتہ -صلی اللہ علیہ وسلم- کانت في ۲۰/ نیسان ابریل سنة ۵۷۱ عام الفیل ․․․ فبالإمکان معرفة یوم ولادتہ ویوم وفاتہ بالدقة ․․․ وعلی ھذا فتکون ولادتہ -صلی اللہ علیہ وسلم- یوم الإثنین، الموافق ۹ ربیع الأول سنة ۵۳ قبل الھجرة ویوافق ۲۰ / نیسان ابریل سنة ۵۷۱ء نقلا وحساباً․ (تقویم الأزمان لإرشاد ذوی الألباب لمعرفة مبادئ السنین والشھور من طریق الحساب ص ۱۴۳، الطبعة الأولی)․
مزید دیکھیے: (۱) ایک مفصل مضمون بعنوان ”تحدید میلادہ الشریف“ہمارے یہاں موجود کتاب ”ماشاع ولم یثبت فی السیرة النبویة“ تألیف: محمد بن عبد اللہ العوشن، ط: دار طیبة، الریاض“ میں بھی مذکور ہے، جس میں شیخ عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم کی مذکورہ عبارت کے علاوہ دیگر علمائے کرام کے اقوال کی روشنی میں ۹/تاریخ ہونا راجح قراردیاہے۔
(۲) علامہ محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ تعالی (م۱۳۷۱ھ)کا ایک مختصر اورمحقق مقالہ بعنوان ”المولد الشریف النبوي“ اس موضوع پر شائع ہواہے۔ انہوں نے بھی محمود پاشا فلکی کی مذکورہ کتاب سے استفادہ کیا ہے اورموٴلف کے بارے میں اونچے کلمات تحریر فرمائے ہیں۔
دیکھیے: (مقالات الکوثري ص۴۰۵ تا۴۰۸، ط: مطبعة الأنوار بالقاہرة)․
(۳) حضرت مولانا مفتی عمر فاروق لوہاروی دامت برکاتہم، شیخ الحدیث دارالعلوم لندن (یو -کے )کاایک مضمون بعنوان”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت“ ان کے بیش قیمت محقق ومدلل رسائل ”فقہی جواہر“(ج ۱/ص۶۸/تا/۷۱) میں موجودہے۔ان رسائل پراکابر علماء کی تقریظات ہیں، جن میں ایک دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری دامت برکاتہم بھی ہیں۔
تنبیہ
بعض علماء نے آٹھویں تاریخ کا قول اختیار کیا ہے،تویاد رہے کہ آٹھویں اور نویں تاریخ کے دو اقوال میں ترجیح دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک تطبیق حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحبکی ہے، وہ یہ ہے کہ آٹھ(۸) اورنو( ۹)ربیع الاول کا اختلاف حقیقی نہیں۔مولانا تحریر فرماتے ہیں:
”۸ اور ۹ کا اختلاف حقیقی اختلاف نہیں؛ بلکہ مہینے کے ۲۹ /اور ۳۰ کے حساب پر مبنی ہے، حساب سے جب یہ ثابت ہوگیا کہ صحیح تاریخ ۲۱/ اپریل تھی تو آٹھ(۸) کے متعلق تمام اقوال دراصل نو(۹) کی تائید میں پیش ہو سکتے ہیں۔“ (قصص القران ۴/۲۵۴)
وقت
کتب ِسیرت میں اس بات کی صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت صبح صادق کے وقت ہوئی، اور مکہ مکرمہ میں ۲۰ /اپریل کو (۳۹:۴) پر صبح صادق ہوتی ہے؛ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۹ ربیع الاول عام الفیل، ۲۰/ اپریل ۵۷۱ء بہ روز پیر ،بہ وقتِ صبح تقریباً ۴ بج کر ۴۰ منٹ پر اس دنیا میں تشریف لائے ۔
خلاصہ
مذکورہ بالا تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ نقلا ً وعقلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی معتمد تاریخ نو(۹) ربیع الاول ہے۔
ویتلخص من ھذا أن سیدنا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم ولد یوم الإثنین ۹/ من ربیع الأول، الموافق العشرین من إبریل سنة ۵۷۱ مسیحیة، فاحرص علی ھذا التحقیق، ولا تکن أثیراً للتقلید․ (نتائج الأفھام في تقویم العرب قبل الإسلام ص ۳۵)
مکانِ ولادت
جمہور کے نزدیک مکہ مکرمہ میں ولادت ہوئی۔پھر جگہ کی تعیین میں تین اقوال ہیں۔مشہور قول یہ ہے کہ آپ اکی ولادت شعب ِبنی ہاشم میں ہوئی۔یہ مشہور جگہ ہے اور چند سال پہلے تک لوگ اس کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ چند سال پہلے سعودی حکومت نے اسے بند کردیا اور اس کی جگہ مکتبہ بنادیا۔
فی الدار التي فی الزقاق المعروف بزقاق المولد في شعب مشھور بشعب بني ھاشم․ (سبل الھدی والرشاد ۱/۳۳۸)․
من الطرف الشرقي لمکة، تزار ویتبرک بھا إلی الآن․ (تاریخ الخمیس في أحوال أنفس النفیس ۱/۱۹۸)․
——————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد:100 ، ربیع الاول 1438 ہجری مطابق دسمبر 2016ء