حرفِ آغاز

مولانا محمد سلمان بجنوری

زیر نظر شمارہ پر ماہ نامہ ”دارالعلوم“ کی جلدنمبر100 مکمل ہورہی ہے۔ اس مناسبت سے سطور ذیل میں دارالعلوم دیوبند کی اُن خدمات پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے، جو تحریر وصحافت کی راہ سے وجود میں آئی ہیں، اس ضمن میں دارالعلوم سے شائع ہونے والے رسائل ومجلات بالخصوص ماہ نامہ دارالعلوم کی مختصر تاریخ کے ساتھ، ان رسائل کے مقاصد پر بھی مختصر معروضات پیش کی گئی ہیں۔

رندانِ قناعت پیشہ نے رکھی تھی بنائے مے خانہ

جھکتا ہے انہی کے قدموں پر، چلتا ہے جو کوئی پیمانہ

دارالعلوم دیوبند کے مقاصدِ تاسیس جواس کے قدیم دستورِاساسی میں بیان کیے گئے ہیں، ان میں تیسرا نمبر اس طرح ہے:

”اسلام کی تبلیغ واشاعت اور دین کا تحفظ ودفاع اور اشاعت اسلام کی خدمت بذریعہ تحریر و تقریر بجالانا اور مسلمانوں میں تعلیم وتبلیغ کے ذریعے سے خیرالقرون اور سلف صالحین، جیسے اخلاق واعمال اور جذبات پیدا کرنا۔“

اس دفعہ کی روشنی میں اسلام کی تحریری خدمت انجام دینا، اس مرکز علم وعمل کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ اپنے بنیادی مقاصد کی تکمیل اس ادارے نے کس انداز سے کی ہے، یہ ایک ضخیم تاریخ کا موضوع ہے، گذشتہ ڈیڑھ صدی اس بات کی گواہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کو اللہ رب العزت نے، اس کے مقاصدِ قیام میں، اس کے بانیانِ عالی مقام کے عزائم وتصورات سے کہیں زیادہ کامیابی عطا فرمائی ہے، ان مقاصد میں سے جہاں تک تحریر کی راہ سے اسلام کی خدمت انجام دینے کا تعلق ہے، اس کے بھی دو حصے ہیں: ایک تصنیف وتالیف ، دوسرے تحریر وصحافت۔ تصنیف و تالیف کی راہ سے انجام پانے والی خدمات اس وقت زیربحث نہیں ہیں؛ کیوں کہ دارالعلوم دیوبند کے اکابر وفرزندان اور وابستگان کے ہاتھوں دینِ اسلام کی تشریح وتعبیر اور علومِ اسلامیہ کی تنقیح وتوضیح کے لیے وقت کا سب سے معتمد اورنمایندہ کتب خانہ وجود میں آیا ہے، جس کے تعارف کے لیے ہزاروں صفحات درکارہوں گے۔

پھر تحریر وصحافت کے ذریعہ وجود میں آنے والی خدمات کے بھی دو پہلو ہیں: ایک براہ راست دارالعلوم کی خدمات دوسرے فرزندان اور وابستگان کی خدمات۔ اگر اس دوسرے پہلو سے جائزہ لیا جائے تویہ بھی ایک طویل تاریخ کا موضوع ہے؛ کیوں کہ اس کے لیے آپ کو گذشتہ سو ڈیڑھ سو برس میں علماء وفضلائے دیوبند کے ذریعہ وجود میں آنے والے یا ان کی ادارت میں شائع ہونے والے رسائل ومجلات اور اخبارات کاجائزہ لینا ہوگا، پھر اسی سے ایک گوشہ اردو زبان وادب کی خدمت کا نکل آئے گا، اس موضوع پر بعض حضرات نے کام کیا بھی ہے، تاریخ دارالعلوم دیوبند مرتبہ جناب سید محبوب رضوی صاحب اور خاص طور پر دارالعلوم دیوبند کی جامع ومختصر تاریخ مرتبہ مولانا محمد اللہ صاحب قاسمی میں، اس پر اختصار وجامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ (اردو زبان کی خدمت سے متعلق ایک مضمون اس اشاعت میں بھی شامل ہے) اس لیے ان تمام تفصیلات کو کسی دوسری فرصت ومناسبت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور سرِدست براہِ راست دارالعلوم دیوبند سے جاری ہونے والے رسائل وجرائد پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

اس سلسلے کا باضابطہ آغاز ماہ نامہ” القاسم“ سے ہوا۔ سب سے پہلے نمونہ کا ایک رسالہ تیار کرکے، دارالعلوم کی تاریخ کے نہایت اہم جلسہٴ دستار بندی منعقدہ ۶،۷،۸/ربیع الثانی ۱۳۲۸ھ کے موقع پر شائع کیاگیا، اس کے ٹائٹل کی عبارت اس طرح تھی: القاسم یعنی اس علمی، ادبی، مذہبی، اخلاقی، تمدنی، تاریخی رسالہ کا نمونہ اور اشتہار، جو مولانا اشرف علی صاحب ومولانا حبیب الرحمن صاحب اور دیگر مقدس ومقتدر علماء کی سرپرستی میں ان شاء اللہ تعالیٰ عنقریب مدسہ اسلامیہ عربیہ دیوبند سے شائع ہوگا۔ اس رسالہ کے مرتب حضرت مولانا سید اصغرحسین میاں محدث دیوبندی رحمة اللہ علیہ تھے، انھوں نے رسالہ کی ضرورت پر مختصر اظہارِ خیال کے بعد، چند انتظامی امور کی وضاحت کی، جن میں دو باتیں قابلِ ذکر ہیں: ایک یہ کہ ”اس قسم کا رسالہ بزرگانِ مدرسہ کی سرپرستی میں شائع ہوگا؛ لیکن اس کے مصارف کا تعلق مدرسہ سے نہ ہوگا“ دوسرے یہ کہ ”مدیر اور ناظم اس کے حضرت مولانا حبیب الرحمن اور جناب مولانا حکیم جمیل الدین صاحب نگینوی ہوں گے“۔ اسی کے ساتھ یہ ارادہ بھی ظاہر کیاگیا ہے کہ” الرشید“ کے نام سے ایک دوسرا رسالہ بھی شروع کیا جائے گا۔

اس کے بعد حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی قدس سرہ کے قلم سے پانچ چھ صفحات کا ایک تمہیدی مضمون ہے، جس میں نہایت بلاغت کے ساتھ رسالہ کے اجراء کی ضرورت اور مقصد کو واضح کیاگیا ہے، شروع میں ایک فارسی نظم کی شکل میں رسالہ کے اجراء پر گفتگو کی گئی ہے، دس اشعار کی یہ نظم بھی اپنی سلاست ولطافت میں ایک ادبی شاہ کار ہے۔

نظم کے بعد عنوان ہے: ”ضرورت ہی کیا تھی“ اس کے تحت حضرت مولانا عثمانی نے اخبارات ورسائل کی کثرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ سب کچھ صحیح ہے؛ لیکن کچھ ضرورتیں دینی، مذہبی اور تمدنی ایسی بھی تھیں، جن کو خیال کرتے ہوئے، نہ صرف مستحسن؛ بلکہ نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے تدین و تمدن میں عام غلط فہمی وگمراہی سے بچانے، سیدھی اور سچی راہ چلانے، اسلام کے اصلی ذائقہ سے واقف کرنے، قوتِ روحانی کو ترقی دینے کے لیے ایسا سامان کردیا جائے جو اُن کے لیے سچا رہنما، افراط وتفریط میں مبتلا ہونے سے بچانے والا ہو۔“

اس کے بعد مسلمانوں کے حالات کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اب جن لوگوں میں دینی امور کی طلب بھی ہے، ان کا طریقہٴ طلب بھی بدل چکا ہے، اب وہ بھی گھر بیٹھے معلومات چاہتے ہیں، عام ذوق اخباروں کے مطالعہ کا ہوگیا ہے۔ یا مخربِ اخلاق ناولوں کا، نیز علماء کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اور اسلام کے بے مثال اصولِ تمدن ومعاشرت کو بیان نہیں کیا جارہا ہے، اس کے بعد فرمایا:

”یہ ضرورتیں تھیں جو ایک طرف تو خود علماء کے مقدس طبقہ کو اس طرف مائل کرتی تھیں۔ دوسری طرف تجربہ کار حضرات مجبور کرتے تھے کہ علماء کی طرف سے قوم کی ایسی عام خدمت ہونی چاہیے، جس سے ہر طبقہ کا شخص نفع اٹھا سکے، اسلام کے صحیح قواعد، قدیم اصول، علمِ کلام کے مسائل، سلف کے حالات بلا رنگ آمیزی شائع ہوتے رہیں، جوشِ محبت رکھنے والے طالبانِ صادق کو سچے اور سادہ طریقہ سے اسلام کے سہل اور مشکل مسائل کی تعلیم دی جائے۔ تاریخی صحیح حالات ایسے بے کم وکاست بیان کیے جاویں کہ دل بستگی اور ترقی معلومات کا ذریعہ بنیں، جدید اعتراضات، فلسفیانہ اصول، پیچیدہ صورتوں کے جوابات اصولِ اسلام کو ملحوظ رکھ کر ایسے صاف اور واضح دیے جائیں کہ جس سے مسلمانوں کا اطمینان بڑھے اور اسلام کی خوبیاں ذہن نشین ہوتی جائیں۔“

حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی کی تحریر کا یہ خلاصہ اس لیے پیش کیاگیا کہ اس سے ان دینی رسائل وجرائد کے مقاصد پر بڑی جامعیت کے ساتھ روشنی پڑتی ہے۔ بہرحال اس طرح ماہ نامہ” القاسم“ کی اشاعت شروع ہوئی اور دو تین سال تک وہ مصارف کے اعتبار سے مولانا عثمانی کی ذات سے وابستہ رہا، اگرچہ ترجمان وہ دارالعلوم ہی کا تھا، پھر جب پرچہ کی مالی حالت قابلِ اطمینان ہوگئی تو ۱۳۳۱ھ میں اس کے مصارف کا تعلق بھی دارالعلوم سے کردیاگیا۔ یہ رسالہ ابتدائی سالوں میں مطبع احمدی علی گڈھ میں چھپتا تھا، جس کے مالک حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری (انبیٹھوی) قدس سرہ کے حقیقی بھائی مولانا رشید احمد تھے۔

اس کے ایک سال بعد حسبِ اعلان دوسرا ماہ نامہ ”الرشید“ کے نام سے شروع کردیاگیا۔ ادارت اس کی بھی حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی سے متعلق رہی۔ ان کے معاون کے طور پر حضرت مولانا سید اصغر حسین میاں صاحب کے علاوہ حضرت مولانا سراج احمد رشیدی نے بھی کام کیا۔ القاسم اور الرشید دونوں رسائل میں وقت کے اکابر علماء حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، فخرالمحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری وغیرہ کے مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ بعض شماروں میں حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے افادات بھی ملتے ہیں، ان کے علاوہ دیگرعلماء جیسے خود مدیر محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی قدس سرہ، حضرت مولانا اصغرحسین میاں صاحب، شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب اور حضرت علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہم اللہ جیسے حضرات مستقل مضمون نگاروں میں شامل تھے۔ انہی دونوں رسائل سے حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی کی تحریری خدمت کا آغاز ہوا، جس کا تذکرہ بڑے دلچسپ انداز میں انھوں نے اپنی کتاب ”احاطہٴ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن“ میں کیاہے۔

القاسم اور الرشید دونوں رسائل نے اپنے بلند پایہ علمی محققانہ مضامین ومقالات سے علمی دنیا میں بڑی اہمیت حاصل کی؛ مگر تقدیری بات کہ ۱۳۴۱ھ میں ان دونوں رسائل کا سلسلہ بند ہوگیا اور تقریباً بیس سال تک کسی رسالہ کا اجراء نہ ہوسکا؛ جب کہ ضرورت کا احساس مسلسل باقی رہا۔

آخر کار ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹۴۱ء میں ”ماہ نامہ دارالعلوم“ کے نام سے ایک رسالہ کا آغاز کیاگیا جس کے مقاصد اس طرح بیان کیے گئے:

(۱) دارالعلوم کے حالات وکوائف سے معاونین و متوسلین دارالعلوم کو باخبر رکھنا۔

(۲) اسلام کی تعلیمات کو سہل ودل نشیں پیرایے میں پیش کرکے مسلمانوں میں صحیح ذہنیت پیدا کرنا۔

(۳) علمی مسائل کے متعلق علمائے دیوبند کے محققانہ مقالات اور حالاتِ حاضرہ پر دارالعلوم کا موقف پیش کرنا۔

(۴) مخالفینِ اسلام کے حملوں کی سنجیدگی کے ساتھ مدافعت کرنا۔

ان بلند پایہ مقاصد کے تحت اس رسالہ نے اپنا سفر شروع کیا جو الحمدللہ آج تک جاری ہے۔

ماہ نامہ دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داری سب سے پہلے مولانا عبدالوحید صدیقی غازی پوری کے حوالے ہوئی جنھوں نے بعد میں ”نئی دنیا“ کے بانی ومدیر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔

ان کے بعد قاضی خلیق احمد صدیقی سردھنوی، مدیر مقرر ہوئے جن کی ادارت میں نومبر ۱۹۴۸ء تک رسالہ نکلتا رہا۔ ان کی نگارشات پر نظر ڈالنے سے ان کی سلاستِ قلم کا اندازہ ہوتا ہے۔

دسمبر ۱۹۴۸ء سے ادارت کی ذمہ داری ابوالفضل مولانا عبدالحفیظ بلیاوی کے حوالے ہوئی، جو اپنی مشہور کتاب ”مصباح اللغات“ کی نسبت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں؛ مگر ان کی مدتِ ادارت بہت مختصر ہے، دسمبر ۱۹۴۸ء تا جون ۱۹۴۹ء ان کی ادارت میں ماہ نامہ دارالعلوم شائع ہوا، اور اسی جون والے شمارے میں مالی مشکلات اور بعض دیگر اسباب کی بنا پر ماہ نامہ دارالعلوم کو بند کرکے سہ ماہی کرنے کا اعلان کیاگیا اور یہ بھی کہ آئندہ یہ سہ ماہی رسالہ صرف کوائفِ دارالعلوم پر مشتمل ہوا کرے گا؛ چنانچہ اس کے بعد ماہ شوال، ذیقعدہ، ذی الحجہ ۱۳۶۸ھ کا شمارہ کوائفِ دارالعلوم دیوبند کے نام سے مولانا سید ازہرشاہ قیصر کی ادارت میں شائع ہوا۔ یہ خاتم المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ کے صاحبزادے تھے اور قلم کے بادشاہ تھے، ماہ نامہ دارالعلوم کے مدیر کی حیثیت سے ان کی بڑی شہرت ہوئی ان کی ادارت میں بہت جلد رسالہ سہ ماہی سے دوبارہ ماہ نامہ ہوگیا اور اس کا معیار بلند ہوگیا۔ اسی دور میں ماہ نامہ دارالعلوم کی جلدوں کی ترتیب میں کچھ تبدیلی ہوئی اور کسی انتظامی مصلحت سے کچھ عرصہ تک چھ ماہ کی ایک جلد شمار کی گئی۔ مولانا سید ازہر شاہ قیصر کی ادارت کا زمانہ بہت طویل ہے ۱۹۴۹ء سے ۱۹۸۱ء تک مسلسل وہ مدیر رہے،درمیان میں سترہ سال اداریہ لکھنے کی ذمہ داری مولانا مفتی محمد ظفیرالدین رحمة اللہ علیہ نے پوری کی؛ لیکن حکیم الاسلام مولانا قاری محمدطیب قدس سرہ کے اخیر زمانہٴ اہتمام تک مدیر مولانا سید ازہر شاہ قیصر ہی رہے۔

اس کے بعد انتظامیہ کی تبدیلی ہوئی اور حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمہ اللہ منصبِ اہتمام پر فائز ہوئے تو ان غیریقینی اور مشکل حالات میں ماہ نامہ دارالعلوم کی ذمہ داری حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری مدظلہ، استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند کے حوالے ہوئی۔ ان کی ادبی حیثیت، تحریری سلیقہ اور حسنِ تعبیر کا فطری ملکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، ”ایضاح البخاری“ اور ”شوریٰ کی شرعی حیثیت“ ان کے علمی کارنامے اور ترانہٴ دارالعلوم ان کا ادبی شاہ کار ہے۔ حضرت موصوف نے ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۴ء تک ادارت کی ذمہ داریاں پوری کیں۔ اس کے بعد جب ان کی انتظامی مصروفیات بہت زیادہ ہوگئیں تو ادارت کی ذمہ داری حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدظلہ کے حوالہ کردی گئی۔

حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب کی ادارت ماہ نامہ دارالعلوم کی تاریخ میں مولانا سیدازہر شاہ قیصر کی طرح بہت طویل ہے، وہ ۱۹۸۴ء میں مدیر بنائے گئے اور ابھی گذشتہ ماہ نومبر ۲۰۱۶ء میں اپنی بڑھتی عمر اور بلند پایہ تدریسی اور علمی مصروفیات کی بناء پر اس خدمت سے معذرت کی۔ اس طویل مدت میں ان کے رواں قلم سے اداریوں کے علاوہ بھی بے شمار مضامین صادر ہوئے۔ ان کے علمی مضامین کا مجموعہ ”مقالاتِ حبیب“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ عربی اور اردو میں تقریباً تیس کتابیں یا رسائل ان کے قلم سے وجود میں آچکے ہیں۔ حضرت موصوف کے دور ادارت میں متعدد خاص نمبر بھی شائع ہوئے، جن میں ”ختمِ نبوت نمبر“ اور ”الاحسان نمبر“ خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔

اسی دور میں پندرہ روزہ ”آئینہٴ دارالعلوم“ کا اجراء عمل میں آیا، جو مولانا کفیل احمد صاحب علوی مدظلہ کی ادارت میں ۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۹ء تک جاری رہا، ان اردو رسائل کے علاوہ دارالعلوم دیوبند سے عربی رسائل بھی جاری ہوئے، سب سے پہلے ۱۳۸۵ھ میں عربی سہ ماہی ”دعوة الحق“ کا اجراء ہوا، جس کے رئیس التحریر، شیخ الادب واللغہ حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی رحمہ اللہ تھے، اس کے بعد مجلہ ”الداعی“ کا آغاز ہوا، جو پہلے پندرہ روزہ تھا، پھر ۱۹۹۳ء سے ماہ نامہ ہوگیا، اس کی ادارت کے فرائض ابتدائی چند سالوں میں حضرت مولانا بدرالحسن قاسمی مدظلہ نے بحسن وخوبی انجام دیے، اس کے بعد سے یہ مجلہ حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی مدظلہ کی ادارت میں نکلنے لگا اور مسلسل ترقی اور مقبولیت کے مدارج طے کرتا رہا اور آج حضرت مولانا کی انتھک محنت اور عربی انشاء وادب میں ان کے بلند مقام کی وجہ سے عربی کے موقر رسائل میں ممتاز مقام کا حامل ہے۔ اب حضرت مولانا کے ساتھ کچھ مدت سے مولانا عارف جمیل مبارکپوری استاذ تفسیر وادب دارالعلوم دیوبند، مجلہ ”الداعی“ کے مدیر التحریرکی حیثیت سے مصروف عمل ہیں۔

یہ ایک سرسری جائزہ ہے دارالعلوم سے صادر ہونے والے مختلف جرائد بالخصوص ماہ نامہ دارالعلوم کا، جو اپنے سفر کے موجودہ مرحلے میں ایک بندئہ عاجز و ناتواں کے حوالے ہوا ہے۔ اللہ رب العزت سرخ رو فرمائے! آمین۔

===============================

آہ حلب/ شام

مصر کے معروف ادیب مصطفی لطفی منفلوطی نے اپنی مشہور کتاب ”العبرات“ کے ابتدائیہ کے طور پر ایک مختصر سی عبارت لکھی تھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”دنیا میں پریشان حال لوگ بہت ہیں اور میرے جیسے کسی بدحال شخص کی یہ طاقت نہیں ہے کہ ان کی بدحالی وسیہ بختی کا کچھ حصہ بھی مٹاسکے، تو کم ازکم اتنا تو کروں کہ ان کے سامنے یہ چند آنسو بہالوں، ہوسکتا ہے وہ میرے اس گریہ میں اپنے لیے قدرے تسلی اور سکون کا سامان پالیں۔“

اس وقت حلب کے حالات پڑھ کر اور سُن کر منفلوطی کی یہ عبارت یاد آرہی ہے، اس تبدیلی کے ساتھ کہ ہم شاید اپنے بدحال بھائیوں پر آنسو بہانے کے لائق بھی نہیں رہے اور خود وہ بھی اس مرحلے سے گذرچکے ہیں کہ کسی کے آنسو، ان کے لیے سامانِ تسلی بن سکیں۔

اور یہ صورتِ حال صرف حلب شہر کی نہیں، صرف ملکِ شام کی نہیں؛ بلکہ عالمِ اسلام کے متعدد ممالک میں مسلمان اسی قسم کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اقبال مرحوم نے تو صقلیہ کو مخاطب کرکے کہا تھا۔#

نا لہ کش  شیراز  کا  بلبل ہوا  بغداد پر             داغ رویا خون کے آنسو جہان آباد پر

آسماں نے دولتِ غرناطہ جب برباد  کی                     ابن بدروں کے دلِ ناشاد نے فریاد کی

غم  نصیب  اقبال کو بخشا گیا  ماتم  تر ا              چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا

لیکن آج ایک بغداد، ایک جہان آباد، ایک غرناطہ، یا ایک صقلیہ کا مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ ”تن ہمہ داغ داغ شد، پُنبہ کجا کجا نہم“ والا معاملہ درپیش ہے؛ بلکہ مرہم رکھنے کی بات بھی کہیں زیرغور نہیں ہے، ایسے حالات میں سوائے اس کے کیا کہیں کہ ع

اے خاصہٴ خاصانِ رسل وقت دعاہے

————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد:100 ‏، ربیع الاول 1438 ہجری مطابق دسمبر 2016ء

Related Posts