حضرت مدنیؒ کے آخری خلیفہ کی رحلت

از:مولانا اشرف عباس قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند      

گزشتہ ۳۰/جنوری ۲۰۱۵/ کو اچانک یہ افسوسناک خبر ملی کہ مشہور صاحبِ نسبت بزرگ عالمِ دین، شیخ الاسلام حضرت مدنی کے تلمیذ اور سب سے اخیر میں اجازت وخلافت سے مشرف ہونے والے حضرت مولانا محمد ادریس صاحب اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون․

مولانا کی وفات ۳۰/جنوری ۲۰۱۵/ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب میں ۱۲بج کر ۳۵ منٹ پر حیدرآباد کے ”اویسی ہسپتال“ میں ہوئی۔ نعش کشن گنج لائی گئی اور آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ جنازے میں عوام وخواص کے جم غفیر نے شرکت کی۔

مولانا ملک کی انتہائی بافیض اور مغتنم ہستیوں میں سے تھے۔ بہار وبنگال آپ کی خدمات کے خاص مراکز رہے، جہاں آپنے نامساعد حالات میں بھی جہالت و بدعات کے اندھیاروں کو ختم کرکے علم ومعرفت اور شریعت وطریقت کی شمع روشن کی۔ آپ نہ صرف یہ کہ دارالعلوم دیوبند کے قابلِ فخر فیض یافتگان میں تھے؛ بلکہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے انتہائی معتمد اور تلمیذ ومجاز بیعت بھی تھے۔ علاقے میں آپ کی طرف عام رجوع تھا۔ بڑے بڑے شیوخ حدیث، استاذہٴ مدارس اور متعدد اصحاب فضل وکمال آپ کے کفش برداروں اور فیض صحبت سے مستفید ہونے والوں میں شامل ہیں۔ آپ نے مخلوق کی نفع رسائی کے لیے دعاء تعویذ کا سلسلہ جاری رکھا؛ لیکن اس کو کبھی کسب مال وجاہ کا ذریعہ نہیں بنایا؛ اس لیے اللہ پاک نے آپ سے بڑا کام لیا اور ہزاروں پریشان حال مریضوں کو آپ کے ذریعہ شفا نصیب ہوئی۔

۱۹۳۴/ میں نوکٹہ ضلع کشن گنج (بہار) میں آپ کی ولادت ہوئی۔ علاقے کے مختلف مدارس ومکاتب بالخصوص دارالعلوم لطیفی کٹیہار میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۵۱/ میں دارالعلوم دیوبند پہنچے۔ یہاں چار سال مقیم رہے۔ سہارنپور پہنچ کر شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا مہاجر مدنی سے بخاری شریف کے پانچ پارے پڑھے، باقی پچیس پارے حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادی سے شاہی مراد آباد میں پڑھے، پھر وہیں سے ۱۹۵۶/ کی ابتداء میں دارالعلوم دیوبند آکر شیخ الاسلام حضرت مدنی سے مکمل بخاری کی سماعت کی۔ اسی طرح آپ کو اپنے زمانہ کے تینوں مشہور ومعروف بزرگان دین اور جلیل القدر شیوخ کے علوم سے استفادہ کرنے اور فیضیاب ہونے کا گراں قدر موقع نصیب ہوا۔ اور حضرت مدنی ہی کے ہاتھ پر اصلاح حال کے لیے بیعت ہوگئے۔ پھر حضرت مدنی کے ہمراہ بانس کنڈی میں اعتکاف فرمایا۔ اس کے بعد جب حضرت مدنی دیوبند لوٹے تو آپ کی طبیعت بہت زیادہ ناساز رہنے لگی تھی۔ ایک دن آپ نے فرزندگرامی قدر حضرت مولانا سید اسعد مدنی کو بلاکر فرمایا میں تو مسجد نہیں جاسکتا، تم مسجد میں نماز کے بعد میری طرف سے مولوی محمد ادریس پورنوی کی اجازت کا اعلان کردینا۔ چنانچہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے مدنی مسجد میں اعلان کیا کہ حضرت شیخ بہت زیادہ ضعف ونقاہت کی وجہ سے نماز کے لیے تشریف نہیں لاسکے ہیں۔ آج میں حضرت شیخ کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ مولوی محمد ادریس پورنوی کو حضرت شیخ نے خلافت دے دی ہے۔ اس طرح حضرت مدنی کی طرف سے وفات سے صرف دو ماہ قبل ربیع الثانی ۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۵۷/ میں آپ کو خلعت خلافت عطا ہوئی اور آپ اس شرف سے مشرف ہونے والے آخری فرد تھے؛ کیوں کہ بہ قول حضرت مولانا سید اسعد مدنی: حضرت مدنی نے آپ کے بعد پھر کسی کو خلاف مرحمت نہیں فرمائی۔

آپ کو اپنے علاقے کی جہالت وظلمت کا بڑا احساس تھا اور اس کو دور کرنے کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ وعظ ونصیحت اور مجالسِ ذکر کے علاوہ ۱۹۸۹/ میں اسلام پور اتر دیناجپور (مغربی بنگال) میں اپنے پیر مرشد کے اسم گرامی سے منسوب دارالعلوم حسینیہ کے نام سے ایک دینی ادارے کی بنیاد ڈالی، جہاں تعلیم وتربیت پر خاص توجہ کے ساتھ ہی ہرانگریزی ماہ کی آخری جمعرات کو ذکر وسلوک کی مجلس بھی منعقد ہوتی رہی جس سے خلقِ کثیر کو بڑا فائدہ پہنچا۔ بہار، بنگال، یوپی، حیدرآباد اور آسام کے علاوہ کشمیر اور نیپال میں بھی آپ کے مریدین ہیں۔ کئی حضرات کو آپ نے اجازت وخلافت سے بھی نوازا۔

۱۹۷۱/ میں پہلی زوجہ کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح فرمایا جس سے دو لڑکیاں اور آٹھ لڑکے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک صاحبزادگان ماشاء اللہ اپنے والد گرامی کے پرتو، عالم دین اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں اور مختلف مدارس وجامعات میں دینی وعلمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

آپ انتہائی متواضع اورمنکسرالمزاج شخص تھے۔ احقر کو کئی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جب بھی ملاقات ہوئی آپ کو انتہائی خردنواز، خلیق اور کرم گستر پایا، اپنے شیخ کی طرح فیاضی اور مہمان نوازی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔

ایسی عظیم المرتبت اور صاحب نسبت بزرگ شخصیت کی رحلت ایسا سانحہ ہے جس کا زخم شاید جلد مندمل نہ ہوسکے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا ادریس صاحب کیا گئے؛ سلوک ومعرفت کی بزم سونی ہوگئی۔ وہ پورا خطہ تاریک ہوگیا، جہاں ہر طرف انھوں نے سلوک وطریقت کی روشنی بکھیر رکھی تھی۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی بزم مدنی کا ایک روشن چراغ بجھ گیا اور تاریکی بڑھ گئی۔

      اللہ پاک آپ کو کروٹ کروٹ سکون عطا کریں، اولاد واحفاد ومتعلقین کو آپ کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق ارزانی کریں اور آپ کے لگائے ہوئے پودے مدرسہ حسینیہ کو ہمیشہ سرسبز وشاداب رکھیں، آمین!

————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 99 ‏، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء

Related Posts