نام کتاب : (۱) تعلَّموا العربیةَ؛ فانَّہا مِن دینکم
(۲) متی تکون الکتابات موٴثرةً ؟
مصنف : حضرت اقدس مولانا نور عالم خلیل امینی مدظلہ العالی
مدیراعلیٰ ماہ نامہ ”الداعی“ و استاذ ادب عربی دارالعلوم دیوبند
ناشر : ادارہ علم وادب، افریقی منزل قدیم، نزد چھتہ مسجد، دیوبند
تبصرہ نگار : اشتیاق احمد قاسمی
(۱)
عربی زبان ایک زندہ وجاوید زبان ہے، یہ نبی اوّل اور نبی آخر علیہما السلام کی زبان ہے، جنت سے چلی اور جنت تک باقی رہے گی، سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے جنت میں عربی زبان میں تکلم فرمایا (ابن عساکر)، پھر اس دُنیا میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زبان پر چودہ سال کی عمر میں یہ زبان جاری ہوئی (حاکم) اور قبیلہٴ جُرہم کے ذریعہ پورے عرب میں پھیلی، اس کا دائرہ بہت وسیع ہوا، دھیرے دھیرے اس کی اصلی اور حقیقی رعنائی وزیبائی میں کمی آنے لگی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باضابطہ اس کی حقیقی خوبیاں یاد کرائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اس کی صراحت فرمائی جب کسی صحابی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ تو کہیں باہر نہیں گئے، ہمیشہ ہمارے درمیان ہی رہے، پھر کیوں کر آپ کی زبان ہم سب لوگوں سے زیادہ فصیح وبلیغ ہوگئی؟ (روح المعانی) یہ سوال اس لیے کیاگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فصیح ترین ادباء اور شعراء کے درمیان ان سے زیادہ فصاحت وبلاغت سے تکلم فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا قادر الکلام روئے زمین پر پیدا ہی نہیں ہوا، قرآنِ کریم بھی اسی زبان میں نازل ہوا اور قیامت تک باقی رہے گا (حجر۹)۔
عربی زبان کے علاوہ دنیا کی کسی زبان کو قیامت تک باقی رہنے کی وبشارت حاصل نہیں، قرآن پاک کے لیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا انتخاب فرمایا، اس سے بھی اس کی فضیلت عیاں ہوتی ہے۔ مکہ مکرمہ کی مرکزیت کی وجہ سے سارے قبائل کے مفردات، محاورات، اَمثال، استعارات وکتابات سب لغتِ قریش میں جمع تھے؛ اس لیے لغتِ قریش کی ریاست وقیادت، فوقیت وآفاقیت کو سارے قبائل تسلیم کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں خالص ادب کی چاشنی معجزہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ علمائے اسلام نے تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، اصولِ حدیث، فقہ اور اصولِ فقہ سب کو عربی زبان میں تصنیف فرمایا؛ اس لیے عربی زبان سے وابستگی اور اس میں معتدبہ گہرائی وگیرائی کے بغیر علمِ دین میں درک حاصل کرلینے کا خیال، خام خیالی؛ بلکہ جنون ہے۔
حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی زیدمجدہ عربی زبان وادب کے حوالے سے عالم اسلام کے ادباء میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں، حضرت کو عربی زبان وادب سے والہانہ شغف اور خالص عربی اسلامی تہذیب وثقافت سے بے پناہ عشق ہے، جس طرح آپ کوثروتسنیم سے دُھلی ہوئی تعبیرات سے قارئین کے دلوں کو موہ لیتے ہیں، اسی طرح عقیدہ وعمل میں بھی اپنا موقف افراط وتفریط کے درمیان اس طرح متعین کرتے ہیں، جیسے وہ بال سے باریک پل صراط پر چل رہے ہوں۔ خیرالقرون کے بعد تاریخ ادب میں اگر ایسی شخصیت تلاشی جائے تو خال خال ہی ملے گی، زندہ ادباء میں تو یقینا آپ کی نظیر نہیں ہے۔
مولانا جیسے نستعلیق ہیں ویسے ہی طلبہ کو دیکھنا چاہتے ہیں کہ طلبہ کے ذہن ودماغ پر عربی زبان وادب کی محبت وشیفتگی چھاجائے؛ وہ اپنے کو اس کی خدمت کے لیے وقف کردیں؛ وہ عربی زبان کی خدمت کو (بالواسطہ) محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت تصور کریں؛ اور اسے واجب شرعی کی ادائیگی تصور کریں۔ طلبہ عربی زبان کی داخلی خوبیوں سے اس طرح واقف ہوجائیں کہ دوسری زبان ان کے سامنے ہیچ نظر آئے، حضرت نے اسی غرض کے لیے زیر تبصرہ کتاب تصنیف فرمائی ہے، اس میں سترہ مقالات کے جواہر پارے شاملِ اشاعت ہیں۔ اس کو پڑھنے والا مصنف کی جادوبیانی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، ایک طرف تعبیرات کی دل فریبی اور دوسری طرف دل کی گہرائیوں میں کھدکتا اور کھولتا ہوا سوزِ دروں جو از دل خیزد بردل ریزد کا مصداق ہے۔
کتاب کو گلدستہ کہیے یا خوانِ یغما، یا ایسا ہیرا جس کا ہر پہلو درخشندہ ہے، تبصرہ نگار درج ذیل عناوین کو پڑھ کر بہت محظوظ ہوا: اللغة العربیة – حبُّھا وتعلمھا جزء من الایمان․ یہ عنوان عربی زبان کے تئیں بے پناہ تعلق کی روشن تصویر ہے۔ کیفیة تنمیة المھارات اللغویة العربیة یہ جامعہ ملیہ دہلی میں عربی زبان کے اہلِ ذوق کے درمیان پیش کیاگیا محاضرہ ہے، الفرق بین متعلمي اللغة العربیة في الماضي ومتعلمیھا الیوم، اللغة العربیة تتطلب الیوم اھتماماً أکثر من العرب، وغیرہ۔
کتاب پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جس طرح ایک سچے داعیِ اسلام کے دل میں، اس کے جسم وجان میں سوز، ہمدردی اور خیرخواہی ہوتی ہے وہ چاہتا ہے کہ ہر ایک غافل جنت میں داخل ہوجائے، ہر ایک کو بہشت کی خوشبو، رعنائی وزیبائی نصیب ہوجائے؛ بالکل اسی طرح مصنف ہر اس طالب علم کو جو عربی زبان وادب سے دور ہے کھینچ کھینچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان وبیان کی کیاریوں میں لارہے ہیں اور ان کی کمر پکڑپکڑ کر جہنم سے بچارہے ہیں، کاش! مصنف کے اس درد کو کوئی سمجھے!
کتاب اپنی ظاہری وباطنی، صوری ومعنوی خوبیوں سے لبریز ہے، مواد، تحقیق، کتابت طباعت، کاغذ اور ٹائٹل سب عمدہ ہیں اور دل ودماغ کو اپنی طرف مائل کررہے ہیں۔
(۲)
”متی تکونُ الکتاباتُ موٴثرةً؟“ یہ دوسری تصنیف ہے اس میں مصنف نے لکھنے کا شوق رکھنے والے طلبہٴ کرام کو قلم پکڑنے کی کامیاب رہنمائی فرمائی ہے کہ طلبہ الفاظ کا انتخاب کس طرح کریں؟ طلبہ کو سوچنے، لکھنے اور بولنے والے الفاظ کے درمیان فرق ملحوظ رکھنا چاہیے! اچھا قلم کار بننے کے لیے الفاظ کا صحیح انتخاب کرنا اولین شرط ہے۔ جملہ کس طرح بنتا ہے؟ چھوٹے جملے بڑے اور بڑے جملے چھوٹے کس طرح بنائے جاتے ہیں؟ پیراگراف کو کتنے جملوں پر مشتمل ہونا چاہیے؟ پھر چند پیراگراف کس طرح مضمون اور مقالہ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں؟ مقالہ کی کتنی قسمیں ہیں؟ کس طرح کے مقالے کا کیا اسلوب ہونا چاہیے؟
اس کتاب کے دوسرے باب میں بڑے موٴثر اور زور دار انداز میں اس حقیقت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ الفاظ وحروف کی حیثیت جسم کی ہے اصل روح قلم کار کا سوزِ دروں ہے۔ تحریر میں اگر یہ بات نہ ہوتو ہرگز وہ کامیاب نہیں ہوسکتی، اسی طرح قلم کار میں خلوص وللہیت کا ہونا بھی ضروری ہے، اسی سے فن پارے کی وقعت بڑھتی ہے، اسے قبولیت اور خلود نصیب ہوتا ہے، لوگ زمانہٴ دراز تک استفادہ کرتے رہتے ہیں، وہ أمّا ما ینفعُ الناسَ فیمکثُ في الأرض(رعد۱۷) کی روشن تفسیر بن جاتا ہے، جو تحریر خون کے بجائے سیاہی سے لکھی جاتی ہے وہ أمّا الزَّبَدُ فیذہبُ جُفاءً ا (رعد۱۷) کا مصداق بن جاتی ہے۔ تیسرے اور آخری باب میں نئے اور پُرانے بہت سے اہلِ قلم، ان کی نگارشات، ان کے مزاج ومذاق ان کے اسلوب اور طرزِ تحریر کا تعارف کرایاگیا ہے؛ یہ دراصل اس سوال کا جواب ہے جو ہر باذوق طالب علم پوچھتا ہے کہ کس قلم کار کو پڑھا جائے اور کیوں؟ کتاب پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف باذوق طالب علم کو اپنے سامنے بٹھائے ہوے ہیں اور نہایت ہی خلوص وہمدردی سے اس کو مقالہ نگاری کی رہنمائی فرمارہے ہیں، اس کتاب میں مصنف نے اپنے دیرینہ تجربات بھی خوب تحریر فرمائے ہیں۔ جب کوئی شخصیت کسی ایک کام میں اپنی زندگی کھپاتی ہے تو اسے بہت سے نشیب و فراز سے سابقہ بڑتا ہے، ان مراحل کا ذکر بڑاہی قیمتی ہوتا ہے، آج طلبہٴ کرام اور وہ بھی غیرعربی طلبہ کو عربی زبان سکھانا پہاڑ کھود کر دودھ کی نہربہانے کے مرادف ہے، مصنف مدظلہ نے اسی سنگلاخ وادی میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کیا ہے، ان کو اس میدان کے سارے نشیب وفراز معلوم ہیں، ان سے استفادہ کا ایک اور فائدہ ہوگا کہ کم وقت میں آدمی زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔
یہ دونوں کتابیں ہر طالب علم کی ضرورت ہیں، وہ طلبہ جن کو مصنف سے براہ راست استفادے کا موقع نہیں ملا، ان کو تو ضرور ان کتابوں سے استفادہ کرنا چاہیے! وباللہ التوفیق!
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد: 99 ، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء