مولانا شاہ عالم گورکھپوری
shahdbd@rediffmail.com
چاند و سورج کی دو رفتاریں ہیں ایک ہے طول میں اوردوسری ہے عرض میں،چاند اور سورج روزانہ جو مسافت طے کرتے ہیں وہ طول ہے اور سال میں جو مسافت طے کرتے ہیں وہ عرض ہے۔ چاند جو اپنی مسافت عرض میں طے کرتا ہے اُس کی اس گردش کو اسلامی کیلنڈر سے ایک سال میں۳۵۴ دن اور ۹ گھنٹہ مانا گیا ہے ۔یعنی چاند کو عرض کی طرف سے اپنی جگہ آنے میں ۳۵۴دن ۹گھنٹے لگ جاتے ہیں،تب ایک سال ہجری کا بنتا ہے۔ سورج جو اپنی مسافت عرض میں طے کرتا ہے اُس کی گردش کو ایک سال میں۳۶۵ دن اور ۶گھنٹہ مانا گیا ہے ۔ یعنی سورج کو عرض کی طرف سے اپنی جگہ آنے میں ۳۶۵ دن ۶گھنٹے لگ جاتے ہیں، تب ایک سال عیسوی کا بنتا ہے ۔ گویا ایک سال میں ہجری اور عیسوی کے درمیان دس دن اکیس گھنٹے کا فرق رہتا ہے ۔یہ فرق تو سال میں ہے لیکن عیسوی اور ہجری دونوں کے دن برابر چلتے رہیں گے ایک دن کے مقابل ایک ہی دن رہے گا،۔ البتہ دس دن اکیس گھنٹے کا یہ فرق عیسوی کے سوسال کو ہجری کے حساب سے ایک سو تین سال پچیس دن بنا دے گا ۔لیکن دنوں میں دونوں کی تعداد برابررہے گی ۔ اس وجہ سے تطبیق میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔مثلاً عیسوی کے سو سال میں ۳۶۵۲۵ دن بنتے ہیں تو ہجری کے ایک سو تین سال پچیس دن کے بھی ۳۶۵۲۵ہی دن بنتے ہیں ۔
ایک اہم اصول ہے کہ کسی بھی عیسوی تاریخ کے لیے جو دن پڑے گا اس کے سو سال کے بعد پھر وہی تاریخ اس سے ایک دن پہلے پڑے گی۔ مثلاً یکم جنوری۲۰۱۵ء میں جمعرات کا دن پڑا ہے تو اس سے ایک سو سال کے بعد وہی تاریخ( یکم جنوری۲۱۱۵ء ) بدھ کے دن پڑے گی ۔اگر ماقبل کی تاریخیں دیکھی جائیں تو یہی اصول کام کرے گا یعنی ایک سو سال قبل وہی تاریخ ایک دن کے بعد پڑے گی ۔ مثلاً یکم جنوری ۱۹۱۵ء میں جمعہ کے دن پڑی ہوگی کیوں کہ یکم جنوری ۲۰۱۵ء میں جمعرات کے دن پڑی ہے۔
سوال یہ ہے کہ سو سال کے بعد پھر وہی تاریخ ایک دن پہلے کیوں آتی ہے ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ سو سال میں کل۳۶۵۲۵دن بنتے ہیں ، اس میں کچھ گھنٹہ یا منٹ بچا ہوا نہیں رہتا ہے۔ اگر اس عدد کو ہفتہ میں تبدیل کیا جائے توایک دن کم۵۲۱۸ ہفتہ بنتے ہیں یعنی۵۲۱۷ ہفتہ اورچھ دن۔ اگر مکمل ۵۲۱۸ ہفتے بنتے تو دوسری صدی پھر اسی دن سے شروع ہوتی جو دن پہلی تاریخ میں پڑا تھا؛ لیکن چونکہ ایک دن کم ہے؛ اس لیے دوسری صدی ایک دن پہلے سے شروع ہوگی ۔
ا س اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر صدی کے بعد دوسری صدی شروع ہونے میں صرف ایک دن کا فرق رہے گا ۔ جن جنتریوں میں دو دن ، تین دن یا چار دن کا فرق دکھایاگیا ہے، وہ یقینی طور پر غلط ہوں گی۔ ایسی جنتریوں میں غلطی عموماً اس وجہ سے واقع ہوتی ہے کہ یا تو ان میں کسی غلط مفروضہ پر اعتماد کیاگیا ہوگا یا پھر صرف سو سال یا دو سوسال پر مشتمل وہ جنتریاں ہوتی ہیں اور اس میں غلط تاریخ پر اعتماد کر لیا جاتا ہے ۔ بسا اوقات حساب کی غلطی بھی اس کا سبب بن جاتی ہے ، مثال کے طور پرمارکیٹ میں دستیاب اور کمپوٹرائزڈتین جنتریوں کو منتخب کرکے دس صدیوں کا تقابل پیش کیاجاتا ہے جس سے ہمارے قارئین کو نہ صرف یہ کہ صحیح اصول کی پہچان ہو جائے گی؛ بلکہ بہت سی رائج جنتریوں میں پائے جانے والے غلط حساب کا بھی بخوبی اندازہ ہوجائے گا ۔
واضح رہے کہ ان جنتریوں میں سے ایک مطبوعہ جنتری ” تحفہٴ شاہجہانی دائمی کیلنڈر “ Tohfa-e-shahjahani Daimy Calendar ہے جبکہ ”اسلامک سٹی ڈاٹ کام (Islamicity.com)، اور اسلامک فائنڈر ڈاٹ آرگ“ (Islamicfinder.org) یہ دونوں جنتریاں انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں۔ ان جنتریوں کے مرتبین اور ناشرین پر حرف گیری ہر گزمقصود نہیں؛ بلکہ مقصد اصول اور صحیح حساب کا بیان کرنا ہے۔
اسلامک فائنڈر ڈاٹ آرگ یا اسلامک سٹی ڈاک کام میں آپ غور کریں گے تو عیسوی بعض صدیوں میں تو ایک دن کا فرق ملے گا؛ لیکن بعض میں دو دن کا اور بعض میں چار دن کا بھی فرق ملے گا جو اصول کے حساب سے صحیح نہیں ہے ، اصول کے مطابق ایک صدی سے لے کر دوسری صدی تک صرف ایک ہی دن کا فرق نکلنا چاہیے۔ یہی غلطی ہجری تاریخوں میں بھی ہے کہ تطبیق بھی غلط اور تاریخیں بھی غلط ہیں صرف ۱۹۳۵/اور ۲۰۳۵ء والی دو صدیوں کی تاریخ و تطبیق درست ہے بقیہ نہیں؛کیوں کہ ان جیسی جنتریوں میں تاریخیں یا تو غلط اصول پر مبنی ہیں یا غلط معلومات پر یا پھر غلط حساب پراعتماد کیاگیا ہے ۔ اس کے مقابل ”تحفہٴ شاہجہانی دائمی کیلنڈر“ مرتبہ مولانا عبد المقیت ابن شاہجہاں، میں غور کریں تو پوری دس صدیوں میں ہر جگہ عیسوی میں صرف ایک ہی دن کا فرق ملتا ہے اور ہجری میں پانچ یا چھ دن کا جو صحیح اصول کے عین مطابق ہے۔
بازار میں ایک جنتری ” انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی “سے شائع ہونے والی ” تقویم ہجری و عیسوی ،( مرتبہ ابو النصر محمد خالدی ایم اے عثمانیہ بنظر ثانی مولوی محمد احمد خاں پروفیسر جامعہ عثمانیہ اور زیڈ اے ڈیسائی) بھی د ستیاب ہے ۔ اس جنتری میں جمعہ کا دن ۱۶/جولائی۶۲۲ء میں دکھایاگیا ہے؛ جبکہ انگریزی یعنی عیسوی کیلنڈر سے بھی ۱۶/جولائی ۶۲۲ء میں جمعہ کا دن نہیں آتا ہے؛ بلکہ جمعہ کے دن جولائی کی۱۵تاریخ آتی ہے ۔ آپ موجودہ دن اور تاریخ سے ماقبل کی طرف حساب کرکے دیکھ لیں۔ یا تو ۱۶/جولائی کو ۱۵/جولائی بنانا پڑے گا یا پھر جمعہ کے دن کو سنیچر کے دن سے بدلنا پڑے گا اِن دونوں باتوں میں سے کسی ایک کو ماننا پڑے گا؛ اس لیے کہ انگریزی تاریخیں بالکل طے شدہ ہوتی ہیں۔دن جمعہ کا طے کیا جائے اور اس کی تاریخ ۱۶/جولائی طے کی جائے یہ نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً ؛جبکہ عیسوی کیلنڈر میں دنوں کی تعداد قطعی طور پر متعین ہے تو آپ خود حساب لگا کر دیکھ سکتے ہیں ۔
اسی طرح ہجری تطبیق میں بھی فحش غلطی کی گئی ہے ۔ جیسے کہ پہلی ہجری کی پہلی تاریخ ۱۵/جولائی ۶۲۲ء سے دکھائی جو حقیقت میں۱۸/جولائی میں ہے ۔ پہلی ہجری کی پہلی تاریخ سے لے کرذی الحجہ ۱۴۳۵ھ کی آخری تاریخ تک کل دن بنتے ہیں پانچ لاکھ آٹھ ہزار پانچ سو اٹھائیس (۵۰۸۵۲۸) اب اگر عیسوی تاریخ کے دن بھی اتنے ہی نکلیں تو مطابقت صحیح ہوگی ورنہ غلط ثابت ہوگی؛کیوں کہ اب اگر ۱۵/جولائی۶۲۲ء مطابق یکم محرم پہلی ہجری سے لے کر۲۵/اکتوبر۲۰۱۴ء تک کے دن شمار کیے جائیں جو ذی الحجہ۱۴۳۵ھ کا آخری دن تھا ،تو کل دن نکلے (۵۰۸۵۳۱)پانچ لاکھ آٹھ ہزار پانچ سو اکتیس۔اس سے پتہ چلا کہ ہجری اور عیسوی کے دنوں کی تعداد برابر نہیں رہی بلکہ تین دن کا فرق نکلتا ہے؛ جبکہ مطابقت کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے دن برابر رہیں؛ کیوں کہ ایک دن کے مقابلے میں ایک ہی دن آتا ہے، دنوں میں کمی زیادتی نہیں ہوسکتی ہے، ایک ہفتے میں سات دن عیسوی میں ہیں تو سات ہی دن ایک ہفتے میں ہجری کے بھی ہیں ،گویا دنوں میں کمی زیادتی نہیں؛بلکہ کمی زیادتی سال کے دنوں کی تعداد میں ہوتی ہے ۔اس حساب سے معلوم ہوا کہ انجمن والی جنتری میں تطبیق صحیح نہیں ہے ۔
اسی طرح دیگر کمپوٹرائزڈ جنتریوں میں بھی آپ غور کریں کہ یکم جنوری۱۱۳۵ء کی مطابقت میں ۱۴/ربیع الاوّل۵۲۹ھ دکھایاگیا ہے؛ جبکہ صحیح حساب کے مطابق۷/ربیع الاوّل ۵۲۹ھ ہے اور تحفہٴ شاہجہانی دائمی کیلنڈر میں۷/ربیع الاوّل ہی دکھایاگیا ہے ۔ اسی کی ایک دوسری مثال اور سمجھیں، کمپیوٹرائزڈ دونوں جنتریوں میں یکم جنوری ۱۵۳۵ء کا مطابق دکھاگیا ہے ۲۶/جمادی الثانی ۹۴۱ھ اور اس کے بعد یکم جنوری ۱۶۳۵ء کا مطابق دکھایاگیا ہے ۱۱/رجب ۱۰۴۴ھ ۔ اب حساب لگاکر دیکھاجائے تو عیسوی حساب سے کل دن ۳۶۵۲۵بنتے ہیں؛ لیکن ہجری میں۲۶/جمادی الثانی ۹۴۱ھ سے ۱۱/رجب ۱۰۴۴ تک کل دن صرف۳۶۵۱۵ ہی دن نکلتے ہیں گویا دس دن کافرق نکل رہا ہے ۔ اس کے مقابل تحفہٴ شاہجہانی دائمی کیلنڈر میں جو مطابقت دکھائی گئی اس میں دونوں حساب سے ۳۶۵۲۵ہی نکلتے ہیں ۔
ایک دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ کمپوٹرائز دونوں جنتریوں میں سے ایک میں تو۲۱۰۰ء کی ۲۹/فروری اور یکم مارچ کو ایک ہی دن دوشنبہ میں دکھایاگیا ہے ، آپ غور کریں کہ ایک ہی دن میں دوتاریخیں کیسے ہوسکتی ہیں ؟اور دوسری میں۲۹/فروری کو چھوڑ دیاگیا ہے؛ جبکہ یہ سال leap yearیعنی اس کا فروری کا مہینہ ۲۹ دن والا ہے ؛ کیوں کہ یہ چار پر تقسیم ہوجاتا ہے ۔ اس میں ایک دن گھٹانے کی وجہ سے باقی تمام تاریخیں پیچھے ہوگئی ہیں؛ لیکن تحفہٴ شاہجہانی دائمی کیلنڈراس خرابی سے پاک ہے ۔
اصول کے مطابق عیسوی کی ایک صدی میں ہجری کے ایک سو تین سال پچیس دن ہوتے ہیں؛ لیکن کمپوٹر کی جنتریوں میں ۱۵۳۵ء سے لے کر۱۶۳۵ء تک ایک صدی میں ہجری کی جو تاریخ دکھائی گئی ہے، اس میں صرف ایک سو تین سال اور پندرہ دن ہی بنتے ہیں ۔ مثلاً ۲۶/جمادی الثانی ۹۴۱ھ سے لے کر۲۵/جمادی الثانی۱۰۴۴ھ تک کل ۱۰۳ سال بنتے ہیں اس کے بعد ۱۱/رجب تک کے کل ۱۵ دن ہوتے ہیں؛ جبکہ اصول کے مطابق ۲۵ دن ہونے چاہئیں؛ اس لیے کہ عیسوی کے سو سال میں ۳۶۵۲۵ دن ہوتے ہیں ہجری حساب سے اس تعداد کو پورا کرنے میں ۱۰۳میں کل دن ۳۶۵۰۰ہی بنیں گے، صدی مکمل کرنے کے لیے۲۵ دن کی مزید ضرورت پڑتی ہے؛ تاکہ عیسوی اور ہجری کے دنوں کی تعداد برابر ہوسکے ۔ اگر یہی حساب ” تحفہٴ شاہجہانی دائمی کیلنڈر“ سے جوڑاجائے تو ایک سو تین سال پچیس دن ہی نکلتے ہیں۔
———————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2، جلد: 99 ، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015ء