از: مولانا ندیم احمد انصاری
ڈایریکٹر الفلاح اسلام فاؤنڈیشن، انڈیا
ماہِ ربیع الثانی قمری سال کا چوتھا مہینہ ہے۔ اس مہینہ سے متعلق اسلام نے کوئی خاص حکم نہیں دیا ہے؛ البتہ اس مہینہ میں برصغیر میں ایک عمل بہت رواج پاگیا ہے، جسے شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی جانب منسوب کیا جاتا ہے اور وہ ہے: ’گیارھویں شریف‘۔
گیارہویں شریف
ہر قمری مہینے کی گیارہویں رات شیخ عبد القادر جیلانی کے نام جو کھانا بنایا جاتا ہے،وہ ’گیارہویں شریف ‘کے نام سے مشہور ہے۔(دیوبندی بریلوی اختلافات:۴۶)گویا ہر مہینے کی گیارہ تاریخ کو چھوٹی گیارہویں اور سالانہ، ربیع الثانی کی گیارہ تاریخ کو بڑی گیارہویں شریف منائی جاتی ہے۔
گیارہویں کی ابتداء
گیارہویں کی ابتداء کے متعلق مطالعہٴ بریلویت میں ہے:
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ گیارھویں چلی کہاں سے ہے؟ اور ہندوستان میں انگریز کی آمد سے پہلے کیا کبھی گیارہویں کا عمل کسی جگہ ہوا تھا؟
شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ چھٹی صدی میں پیدا ہوئے۔ ظاہر ہے کہ اس سے پہلے اسلام کی پانچ صدیوں میں ”گیارہویں شریف“ کی رسم یا تقریب کہیں نہ تھی، آپ کے بعد یہ کب جاری ہوئی؟ اس کی تاریخی تحقیق نہایت ضروری ہے۔ جب ہم اس کی جستجو کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تیرہویں صدی کے نصف اول تک اہل السنة والجماعة میں گیارھویں کے نام سے کوئی دینی تقریب یا مذہبی رسم قائم نہ ہوئی تھی․․․․ہم تو اس کی تلاش کرتے کرتے تھک گئے؛ مگر افسوس! کہ ہمارے ان صاحبوں نے بھی جو کہ اسے بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں، اس سلسلہ میں ہماری کوئی مدد نہیں کی اور اس باب میں کوئی مستند حوالہ ہمیں نہیں دکھاسکے۔(مطالعہٴ بریلویت: ۶/۳۱۵-۳۱۳)
صرف شیخ جیلانی کی ہی گیارہویں
بے شک حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ ایک بڑے بزرگ ہیں، جن کی عظمت مسلَّم ہے، ان کی شان میں بے ادبی وگستاخی گمراہی کی علامت ہے؛ لیکن اہل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے کہ تمام مخلوق میں انبیاء علیہم السلام کا مرتبہ سب سے بڑا ہے، اور انبیاء میں سب سے افضل آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پھر خلفاءِ راشدین اور ان کے بعد عشرہٴ مبشرہ وباقی ماندہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا درجہ بدرجہ مقام ہے۔ بہ غور سوچئے کہ انبیاء اور صحابہ جیسی مقدس ہستیوں کا ’یومِ وفات‘ منانے کی شریعت نے کوئی تاکید نہیں کی تو شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ جیسے ایک ولی کا یومِ وفات منانے کا کیا مطلب؟
ویسے بھی دن منانا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں؛ کیوں کہ مراتب ودرجات کا لحاظ کرکے سب سے پہلے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین-ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور سال کے کل ایام تین سو چون یا تین سو ساٹھ ہیں، تو سب کے ایام وفات منانے کے لیے مزید دن کہاں سے لائیں گے؟ اور انبیاء کرام وصحابہٴ کرام کو چھوڑ کر ان سے کم اور نیچے کے درجے والے بزرگوں کے دن منائے جائیں تو یہ انبیا علیہم السلام و صحابہٴ کرام کے مراتب میں رخنہ اندازی ہے۔
اس کے علاوہ واقعہ یہ ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی تاریخِ وفات میں بڑا اختلاف ہے۔ ’تفریح الخاطر فی مناقب شیخ عبدالقادر‘ میں آٹھ اقوال بیان کیے گئے ہیں: ساتویں، آٹھویں، نویں، دسویں، گیارہویں اور سترہویں ربیع الاول اور اس کے بعد لکھا ہے کہ صحیح دسویں ربیع الاول ہے۔اس اختلاف سے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ کے خلفاء ومریدین ومتبعین نے بھی آپ کی تاریخِ وفات اور دن وماہ کی تعیین کے ساتھ برسی اور یومِ وفات منانے کا اہتمام نہیں کیا ہے، ورنہ تاریخِ وفات میں اتنا شدید اختلاف نہ ہوتا۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ بزبانِ خود فرماتے ہیں:
اپنے آقا کی خوشنودی سے محروم ہے وہ شخص جو اس پر تو عمل نہ کرے جس کااسے حکم دیا گیاہے اور اس میں مشغول رہے، جس کا حکم نہیں دیا گیا، یہی اصل محرومی ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ جدیدترتیب : ۲/۷۷-۷۶ بتصرف)
یہ سب متأخرین کی خود کاریاں ہیں
شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، میرے استفسار پر میرے استاذ شیخ عبدالوہاب متقی علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا :
بعض متأخرین نے بعض مغربی مشائخ کی زبانی بیان کیا کہ جس دن حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ نے وصالِ الٰہی فرمایا،اس دن کو لوگوں نے از خود دیگر دنوں کی بہ نسبت زیادہ خیر وبرکت اور نورانیت کا دن بنالیا ہے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر سر جھکائے رہے، پھر سر اٹھا کر ارشاد فرمایا کہ زمانہٴ ماضی میں یہ سب التزامات کچھ نہ تھے، یہ سب تو صرف متأخرین کی اختیار کی ہوئی باتیں اورخود کاریاں ہیں۔ (ما ثبت بالسنة:۶۹)
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان سے باہر عراق (جہاں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کا مزار ہے) اور مصر وشام بلکہ ملیشیا اور انڈونیشیا تک کہیں یہ بات نہیں ملتی کہ کسی مسجد یا مدرسہ یا کسی قبرستان میں کوئی تقریب ’گیارہویں شریف‘ کے نام سے منعقدکی گئی ہو۔ (مطالعہٴ بریلویت: ۶/۳۱۳)
اس کا سرا ہندوانہ رسوم سے ملتا ہے
’تحفة الہند‘ میں مولانا عبیداللہ رقمطراز ہیں :
” ہندوٴوں کے ہاں میت کو کھانے کا ثواب پہنچانے کا نام ’سرادھ‘ ہے اور جب سرادھ کا کھانا تیار ہو جائے تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ ’بید ‘ پڑھواتے ہیں اور مُردوں کے لیے ثواب پہنچانے کے لیے ان کے ہاں خاص دن مقرَّر ہیں ، خصوصاً جس دن (وہ ) فوت ہو ، ہر سال اسی دن ختم دلانا یعنی برسی یا موت کے تیرھویں دن ، بعض کے نزدیک پندرھویں دن اور بعض کے نزدیک تیسویں یا اکتیسویں دن ، ثواب پہنچانے کے لیے مقرر ہیں ۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی تیجہ ، ساتواں ، چالیسواں اور برسی مقرر کر لیے اور کھانا تیار کرواکر اس پر ختم پڑھوانا شروع کر دیا ؛ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان میں سے کوئی رسم بھی ثابت نہیں“۔(مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج : ۲۳ ، دارالاندلس)
گیارہویں شریف اور اس کے کھانے کا حکم
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
”غر یبوں کو کھانا کھلانا،اور قراء تِ قرآن کے ذریعے مُردوں کو ثواب پہنچانے کو کسی نے منع نہیں کیا،اس باب میں جو منع ہے تو (وہ)اس طرح مخصوص ہےئت سے ایصال(ثواب کرنے)کو منع کرتے ہیں،جس میں تشبہ بکفّار لازم آجاوے،یا تقییدِمطلق کی آجاوے کہ یہ دونوں (امور؛ تشبہ بالکفار اورمطلق کو مقید کرنا لازم آئے؛ کیوں کہ)تمام امت کے نزدیک (یہ دونوں باتیں) حرام وبدعت ہیں۔(البراہین القاطعہ:۱۷)
حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی فرماتے ہیں:
گیارہویں کی نیاز سے اگر مقصود ایصال ِ ثواب ہے تو، اس کے لیے گیارہویں تاریخ کی تعیین شرعی نہیں ۔ نیز حضرت غوث الاعظم کی(کوئی) تخصیص نہیں۔تمام اولیاء ِکرام اور صحابہٴ عظام اس کے مستحق ہیں ۔ سال کے جن دنوں میں میسر ہو اور جو کچھ میسر ہو، اور جو کچھ صدقہ کر دیا جائے ، اور اس کا ثواب بزرگان ِ دین اور اموات ِ مسلمین کو بخش دیا جائے ۔ فقراء اس کھانے کو کھا سکتے ہیں ، امراء اور صاحب ِ نصاب نہیں کھا سکتے؛ کیوں کہ یہ ایصال ِ ثواب کے لیے بطور ِ صدقہ ہے ۔( کفایت المفتی : ۱ / ۱۶۶)
مولانااحمد رضا خاں صاحب بھی اسی کے قائل ہیں:
جو عامی شخص اس تعیینِ عادی کو توقیتِ شرعی جانے اور گمان کرے کہ ان کے علاوہ دنوں میں ایصالِ ثواب ہوگا ہی نہیں،یا جائز نہیں،یا ان ایام میں ثواب دیگر ایام سے زیادہ کامل ووافر ہے،تو بلا شبہ وہ شخص غلط کار اور جاہل ہے اور اس گمان میں خطاکار اور صاحبِ باطل ہے۔(فتاویٰ رضویہ جدید:۹/۹۵۱)
گیارھویں شریف میں چراغاں کرنا
”گیارہ ربیع الاول کو چراغاں یا روشنی کرنا․․․․․ بالکل ناجائز اور بدعت ہے اور دیوالی کی پوری نقل ہے۔ مساجد میں بھی نمازیوں کی ضرورت سے زیادہ رسماً ورواجاً روشنی کرنا اسراف وحرام ہے۔ اگر متولی مسجد کے مال میں سے ایسا کرے گا تو اس کو اس کا تاوان دینا ہوگا“۔ (فتاویٰ رحیمیہ جدید ترتیب : ۲/۷۷)
گیارہویں شریف: ’اہلِ حدیث ‘کی نظر میں
مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
”ختمِ گیارہویں کا رواج نہ زمانہٴ رسالت میں تھا نہ عہدِ خلافت میں؛اس لیے بدعت ہے۔ حدیث میں ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کام ہم نے نہ بتایا ہو ،نہ کیا ہو․․․․وہ مردود ہے؛اس لیے ایسی بدعت کی مجلس میں شریک ہونا یا اس چیزکاکھاناگناہ ہے،خدا کے واسطے دینا منع نہیں؛ لیکن گیارہویں کے نام سے کرنا شرک یا کم سے کم بدعت ہے۔ایسے افعال سے خود حضرت پیر صاحب نے منع فرمایا ہواہے“۔(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۳۵۸)
مولانا مودودی صاحب کا موقف
جناب مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب فرماتے ہیں:
”اگر کوئی مالی یا بدنی عبادت اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائے اور بزرگانِ دین میں سے کسی کو اس غرض کے لیے اس کا ثواب ایصال کیا جائے کہ وہ بزرگ اس ہدیے سے خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہدیہ بھیجنے والے کے سفارشی بن جائیں،تو یہ ایک ایسا مشتبہ فعل ہے، جس میں جواز وعدمِ جواز؛ بلکہ گناہ اور فتنے کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہو جاتی ہیں اور میں کسی پرہیزگار آدمی کو یہ مشورہ نہ دونگا کہ وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں ڈالے۔
رہے وہ کھانے جو صریحاً کسی بزرگ کے نام پر پکائے جاتے ہیں اورجن کے متعلق بالفاظِ صریح یہ کہا جاتا ہے: یہ فلاں بزرگ کی نیاز ہے اورجن کے متعلق پکانے والے کی نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ یہ ایک نذرانہ ہے،جو کسی بزرگ کی روح کو بھیجا جارہا ہے اور جن سے متعلق ہمارے یہاں طرح طرح کے آداب مقرر ہیں اور بے حرمتی،کی مختلف شکلیں ممنوع قرار پاتے ہیں اور ان نیازوں کی برکات اور فوائد کے متعلق گہرے عقائد پائے جاتے ہیں،تو مجھے ان کے حرام اورگناہ ہونے؛ بلکہ عقیدہٴ توحید کے خلاف ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے“۔(رسائل ومسائل:۲/۲۰۸)
——————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2، جلد: 99 ، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015ء