از:مولانا اشرف عباس قاسمی
استاذِ دارالعلوم دیوبند
سُنَن نسائی
مصنفِ کتاب: کنیت: ابو عبدالرحمن، نام: احمد بن شعیب بن یحییٰ بن سنان بن دینار نسائی ہے۔ شہر مرو کے قریب ”نساء“ میں ۲۱۴ھ میں ولادت ہوئی، اسی کی طرف منسوب ہوکر ”نسائی“ اور کبھی ”نسوی“ کہلاتے ہیں۔ اپنے دیار کے شیوخ سے اخذِ علم کے بعد، ۲۳ھ میں قتیبہ بن سعید کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دوسال استفادہ کیا، اس کے علاوہ خراسان، عراق، حجاز، جزیرہ، شام اور مصر وغیرہ مختلف مقامات کا سفر کیا، اس کے بعد مصر میں سکونت اختیار کرلی اور افادہ وتصنیف میں مشغول رہے۔ ذی قعدہ ۳۰۲ھ میں مصر سے دمشق آگئے۔
آپ زہد وتقویٰ میں ضرب المثل تھے، ہمیشہ صوم داؤدی کے پابند رہے، دن ورات کا بیشتر حصہ عبادت میں گزرتا اور اکثر حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے، امراء و حکام کی محفلوں سے ہمیشہ گریزاں رہتے، حسنِ سیرت کے ساتھ حسنِ صورت کے بھی مالک تھے، چہرہ نہایت روشن، رنگ نہایت سرخ وسفید اور بڑھاپے میں بھی تروتازہ نظر آتے، چار بیویاں اور دو باندیاں تھیں۔
علامہ ذہبی فرماتے ہیں: ”امام مسلم، امام ابوداؤد اور امام ترمذی کے مقابلے میں امام نسائی عللِ حدیث اور فنِ اسماء الرجال میں زیادہ ماہر تھے، اور امام بخاری و ابوزرعہ کے ہمسر تھے“ (محدثین عظام/۲۰۴)
وفات: امام نسائی جب مصر سے رملہ اور دمشق پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ بنی امیہ کے زیراثر ہونے کی وجہ سے یہ پورا خطہ خارجی افکار ونظریات کی زد میں ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کی کھلے عام تنقیص کی جاتی ہے، یہ دیکھ کر امام نسائی کو بڑا رنج ہوا اور انھوں نے حضرت علی کے مناقب میں ایک کتاب تصنیف فرمائی، پھر خیال ہوا کہ اس کتاب کو جامعِ دمشق میں سنائیں؛ تاکہ لوگوں کی اصلاح ہو اور خارجیت کے اثرات ختم ہوں۔ ابھی آپ نے کتاب کا کچھ ہی حصہ سنایا تھا کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر اعتراض کیا کہ آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کچھ لکھا ہے؟ آپ نے جواب دیا: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہی کافی ہے کہ ان کو نجات مل جائے، بعض کہتے ہیں یہ جملہ بھی کہا کہ میرے نزدیک ان کے مناقب بیان کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ سن کر لوگ مشتعل ہوگئے، آپ پر تشیع کا الزام عائد کرکے لاتیں مارنا شروع کردیا۔ آخر اتنا ماراکہ آپ نیم جان ہوگئے۔ خادم اٹھاکر گھر لائے، آپ نے ان سے فرمایا: مجھے ابھی مکہ مکرمہ لے چلو، وہاں پہنچ کر مروں یا راستے میں موت آجائے۔ غرض کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر انتقال ہوا اور صفا ومروہ کے درمیان مدفون ہوئے، بعض کا خیال ہے کہ راستے میں ہی انتقال ہوا۔ وہاں سے مکہ مکرمہ لے جاکر تدفین ہوئی، تاریخ وفات ۱۳/صفرالمظفر ۳۰۳ھ ہے۔ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ رحمةً واسعة․ (سیر أعلام النبلاء ۱۱/۱۹۷، بستان المحدثین/۱۸۹)
کتاب کا تعارف
امام ابو عبدالرحمن نسائی کی کتاب کو صحاحِ ستہ میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ امام نسائی نے بھی شیخین کی طرح صرف صحیح الاسناد روایات کو لیا ہے اور نسائی شریف بخاری ومسلم دونوں کے طریقوں کو جامع ہے۔ تنقیدِ رجال اور صحتِ اسناد کے بارے میں نسائی کی شرائط شیخین سے بھی زیادہ سخت ہیں؛ اس لیے مغرب کے بعض محدثین صحیح بخاری پر سنن نسائی کی ترجیح کے قائل ہیں، حافظ سخاوی فرماتے ہیں:
”صرّح بعضُ المغاربة بتفضیل کتاب النسائی علی صحیح البخاری“ (فتح المغیث ۱/۵۴، دارالمنہاج، ریاض)
”بعض مغاربہ نے تصریح کی ہے کہ امام نسائی کی کتاب کو صحیح بخاری پر فضیلت حاصل ہے“۔
فتح المغیث کے محشی کے مطابق بعض المغاربة کا مصداق یونس بن عبداللہ القاضی المعروف بابن الصغار ہیں۔
حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
”ھو أحذق بالحدیث وعللہ ورجالہ من مسلم والترمذي وأبي داوٴد، وھو جاء في مضمار البخاري وأبي زرعة“ (سیر اعلام النبلاء ۱۱/۱۹۷)
”امام مسلم، امام ابوداؤد اور امام ترمذی کے مقابلے میں امام نسائی عللِ حدیث اور فنِ اسماء الرجال میں زیادہ ماہر تھے اور امام بخاری وابوزرعہ کے ہم سر تھے۔“
امام نسائی نے سب سے پہلے حدیث کی ایک ضخیم اور اہم کتاب ”سنن کبریٰ“ لکھی، اور اس کو امیرِ رملہ کی خدمت میں پیش کیا۔ امیر موصوف نے امام ممدوح سے دریافت کیا کہ اس میں جو کچھ ہے سب صحیح ہے؟ امام نے جواب دیا: نہیں۔ اس پر امیر نے فرمائش کی کہ میرے لیے صرف صحیح روایات کو جمع کردیجیے، ان کی اس درخواست پر امام موصوف نے سنن کبریٰ سے احادیث صحیحہ منتخب کی، اس کا خلاصہ تیار کیا جس کا نام ”مجتبیٰ“ رکھا۔ اسی کو سننِ صغریٰ کہا جاتا ہے اور آج کل سنن نسائی کے نام سے مشہور ہے۔ (بستان المحدثین /۱۸۹)
اہم وضاحت
مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ خود امام نسائی نے مجتبیٰ یعنی سنن کبریٰ سے احادیث صحیحہ منتخب کرکے ”مجتبیٰ“ یعنی سنن صغریٰ کوترتیب دیا تھا جو آج کل سننِ نسائی کے نام سے داخلِ درس ہے؛ لیکن مشہور محقق مولانا عبدالرشید نعمانی نے اس کو غلط قرار دیا ہے۔ ان کے بہ قول اختصار کا یہ عمل امام نسائی کے شاگرد حافظ ابوبکر ابن السنی کے ذریعہ انجام پایا ہے؛ چنانچہ مولانا فرماتے ہیں:
”یہ بھی واضح رہے کہ بالفعل جو کتاب ”سنن نسائی“ کے نام سے ہمارے یہاں داخلِ درس ہے، وہ دراصل امام موصوف کی تصنیف نہیں ہے؛ بلکہ ان کی کتاب کا اختصار ہے، جو ان کے نامور شاگرد حافظ ابوبکر ابن السنی کے قلم کا مرہون منت ہے۔ اس مختصر کا نام المجتبیٰ ہے اوراس کو سنن صغریٰ بھی کہا جاتا ہے“ (اس کے بعد مولانا نے امیر رملہ کی خدمت میں پیش کیے جانے کا واقعہ ذکر کرکے اس پر نقد کرتے ہوئے لکھا ہے): ”اس واقعہ کاذکر علامہ ابن الاثیر نے جامع الاصول میں کیا ہے؛ لیکن یہ واقعہ سرے سے غلط ہے؛ چنانچہ حافظ ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں امام نسائی کے ترجمہ میں تصریح کی ہے کہ ”ان ہذہ الروایة لم تصح بل المجتبیٰ اختصار ابن السنی تلمیذ النسائی“ (توضیع الأفکار ۱/۲۲۱) ”بے شبہ یہ روایت صحیح نہیں ہے؛ بلکہ مجتبیٰ، ابن السنی کا اختصار ہے جو نسائی کے شاگرد ہیں۔“ (امام ابن ماجہ اور علم حدیث، ص۲۲۰)
تنبیہ
یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ جب بھی کوئی حدیث نسائی کی طرف منسوب کی جائے یا مطلقاً سنن نسائی کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد سنن صغریٰ ہوتی ہے جو عام طور سے ہمارے دیار میں رائج اور ہمارے نصاب کا حصہ ہے؛ البتہ بعض موٴلفین اس سے سنن کبریٰ بھی مراد لیتے ہیں؛ چنانچہ صاحب عون المعبود نے تنبیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
”واعلم أن قول المنذری فی مختصرہ، وقول المزی في الأطراف: الحدیث أخرجہ النسائی، فالمراد بہ السنن الکبریٰ للسنائي ولیس المراد بہ السنن الصغری الذی ھو مروج الآن في أقطار الأرض من الھند والعرب والعجم، وھذہ السنن الصغریٰ مختصرة من الکبریٰ، وھي لا توجد الا قلیلا․ فالحدیث الذي قال فیہ المنذري والمزي: أخرجہ النسائی، وما وجدتہ فی السنن الصغریٰ، فاعلم أنہ فی الکبریٰ ولا تتحیر لعدم وجدانہ، فان کل حدیث فی الصغریٰ موجود فی الکبریٰ، ولا عکس، ویقول المزي في کثیر من المواضع: أخرجہ النسائی فی التفسیر، ولیس فی السنن الصغریٰ تفسیر“ (الکتب الصحاح الستة محمد ابو سھبة ۱۶۶-۱۶۷)
”آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مختصر میں منذری اور اطراف میں مزی کے اس قول ”الحدیث أخرجہ النسائی“ سے مراد نسائی کی سنن کبریٰ ہے، وہ سنن صغری مراد نہیں ہے جو اس وقت ہند، عرب وعجم اور اطرافِ عالم میں مروج ہے، اور یہ سنن صغریٰ، سنن کبریٰ کا اختصار ہے۔ سنن کبریٰ بہت کم دستیاب ہے، تو جس حدیث کے متعلق منذری اور مزی نسائی کی تخریج کا حوالہ دیں اور وہ حدیث سنن صغریٰ میں آپ کو نہ ملے تو آپ سمجھ لیجیے کہ وہ سنن کبریٰ میں ہے اور سنن صغریٰ میں نہ ملنے پر پریشان نہ ہوں؛ اس لیے کہ صغریٰ کی ہر حدیث سننِ کبریٰ میں موجود ہے اور اس کا عکس نہیں ہے۔ بہت سے مقامات پر مزی یوں کہتے ہیں: أخرجہ النسائی فی التفسیر حالاں کہ سنن صغریٰ میں کتاب التفسیر ہے ہی نہیں (اس سے بھی معلوم ہوا کہ مزی سنن کبریٰ مراد لے رہے ہیں جس میں کتاب التفسیر بھی ہے)“
تعداد روایات
محمد فوٴاد عبدالباقی کی ترقیم کے مطابق سنن نسائی میں کل روایات پانچ ہزار سات سو چوہتر (۵۷۷۴) ہیں؛ جب کہ یہ اکیاون (۵۱) کتب (جلی عناوین) پر مشتمل ہے۔
سنن ابوداؤد
مصنف کتاب: سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الأزدی السجستانی قبیلہ ازد کی طرف منسوب ہوکر ازدی اور خراسان کے شہر سجستان کی طرف نسبت کرتے ہوئے سجستانی کہلاتے ہیں۔ ۲۰۲ھ میں پیدائش ہوئی، کم عمری میں ہی اخذ علم کے لیے سفر شروع کردیا تھا، حجاز، شام، مصر، عراق اور خراسان وغیرہ بلادِ اسلامیہ کا سفر کرکے وہاں کے علماء اور مشائخ کی ایک بڑی جماعت سے حدیثِ پاک کا سماع حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ میں احمد بن حنبل، قعبی اور ابولولید الطیالسی جیسے کبارِ مشائخ شامل ہیں۔ بعض ایسے اساتذہ بھی ہیں، جن سے اخذ علم میں آپ امام بخاری اور امام مسلم کے ساتھ شریک ہیں۔ مثلاً احمد بن حنبل، عثمان بن ابی شیبہ اور قتیبہ بن سعید وغیرہ۔
خلقِ کثیر نے آپ سے سماعِ حدیث کیا، جس میں ابوعبدالرحمن النسائی، ابوعیسیٰ الترمذی، ابوعوانہ، ابوسعید ابن الاعرابی اور آپ کے فرزند ابوبکر بن ابی داؤد وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کی منقبت کے لیے اتنا کافی ہے کہ آپ کے جلیل القدر استاذ امام المسلمین احمد بن حنبل نے بھی آپ سے درج ذیل روایت نقل کی ہے: ”أن رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم سُئِلَ عن العتیرةِ فحَسَّنَھَا“ (البدایة والنہایہ ۱۱/۵۵)
امام ابوداؤد، ورع وتقویٰ اور اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے۔ چال ڈھال اور سیرت وکردار میں مام احمد بن حنبل کے مشابہ قرار دیے جاتے تھے، سادگی پسند اور پرتکلف زندگی سے دور تھے۔ آپ کے کرتے میں دوآستینیں ہوتی تھیں، ایک بہت کشادہ اور ایک تنگ، کسی نے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا: کشادہ آستین تو کتابوں کے لیے ہے، اور دوسری آستین الگ سے کسی کام کے لیے نہیں ہے، لہٰذا اس کی توسیع بے جا اسراف ہے۔ موسیٰ بن ہارون کہتے ہیں: ”خلق ابوداوٴد فی الدنیا للحدیث، وفی الآخرة للجنة، وما رأیت افضل منہ“ ابراہیم حربی فرماتے ہیں: ”ألین لابی داوٴد الحدیث کما ألین لداوٴد الحدید“ امام ابوداؤد کے لیے حدیث کو اس طرح نرم کردیاگیا ہے جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہے کو نرم بنادیاگیا تھا“ مشہور شیخ طریقت سہل بن عبداللہ التستری نے حاضرِ خدمت ہوکر آپ کی اس زبان کو بوسہ دیا جس سے آپ حدیثِ پاک بیان کرتے ہیں: (الکتب الصحاح الستة ۱۳۲-۱۳۳)
کتاب کا تعارف
امام ابوداؤد سے پہلے جو حدیث کی کتابیں جوامع اور مسانید تالیف کی گئیں، ان میں احکام کے علاوہ فضائل، آداب، مواعظ اور تفسیر وغیرہ کے ابواب منتشر ہوتے تھے۔ امام ابوداؤد نے اپنی کتاب کو استقصاء کے ساتھ سنن اور احکام کے ساتھ خاص کیا اور اسے امام احمد بن حنبل کی خدمت میں پیش کیا۔ انھوں نے اس کو بہ نظرِ استحسان دیکھا ۔ امام ابوداؤد نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح روایات کی تخریج کا التزام نہیں کیا جو التزام شیخین نے کررکھا ہے؛ بلکہ وہ صحیح کے علاوہ حسن اور ضعیف روایات بھی لاتے ہیں بشرطیکہ اس کا ضعف شدید نہ ہو اور ائمہ کا اس کے ترک پر اجماع نہ ہو۔ امام ابوداؤد نے اہلِ مکہ کے نام اپنے خط میں اس طرزِ عمل کی وضاحت کررکھی ہے۔ خود ابوداؤد کی تصریح کے مطابق آپ کے سامنے پانچ لاکھ احادیث کا ذخیرہ موجود تھا، اس میں سے چار ہزار آٹھ سو احادیث منتخب فرماکر یہ مجموعہ تیار کیا۔ سنن ابوداؤد کو شروع ہی سے قبولِ عام حاصل رہا ہے، ابوسلیمان الخطابی ”معالم السنن“ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں: ”کتاب السنن لأبی داوٴد کتاب شریف لم یُصنّف فی علم الدین کتاب مثلہ“ ”سنن ابی داؤد ایک باعظمت کتاب ہے، دین وشریعت کے علم میں اس جیسی کوئی اور کتاب نہیں لکھی گئی۔ ابن الاعرابی فرماتے ہیں:
”لو أن رجلا لم یکن عندہ من العلم الا المصحف، ثم کتاب أبی داوٴد لم یحتج معھما الی شيء“
اگر کسی شخص کے پاس علم کی کوئی چیز نہ ہو سوائے قرآن کریم اور ابوداؤد کی کتاب کے، تو ان کے ہوتے ہوئے اسے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔“
امام ابوحامد غزالی فرماتے ہیں:
”انھا تکفی المجتھد فی العلم بأحادیث الأحکام“
”احادیث احکام سے واقفیت کے سلسلے میں مجتہد کے لیے سنن ابی داؤد کافی ہے۔“ (المصدر السابق ۱۴۰-۱۴۱)
حافظ ابوالفرج عبدالرحمن بن الجوزی نے سنن ابی داؤد کی بعض روایات پر کلام کیا ہے اور نو احادیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے؛ لیکن وضع کا حکم لگانے میں ابن الجوزی کا تساہل معروف ہے۔ نیز حافظ جلال الدین سیوطی نے ان تمام احادیث کا جائزہ لے کر ابن الجوزی کے حکم بالوضع کی تردید کی ہے؛ لہٰذا حدیث کے اس عظیم مجموعے کی قدر ومنزلت پر اس طرح کی تنقید سے فرق نہیں پڑتا۔
تعدادِ روایات: سنن ابوداؤد میں عنوان کے طور پر ۳۵ کتب ہیں، جن میں سے تین کتابوں کی مصنف نے تبویب نہیں کی ہے اور ان کتابوں کے تحت جملہ ابواب کی تعداد ۱۸۷۱ ہے۔ جہاں تک تعلق ہے تعداد روایات کا تو خود مصنف کی تصریح گزرچکی ہے کہ اس میں چار ہزار آٹھ سو روایات ہیں جب کہ بعض حضرات کے شمار کے مطابق یہ تعداد پانچ ہزار دو سو چوہتر (۵۲۷۴) ہے۔
جامع ترمذی
مصنف: کنیت: ابوعیسیٰ، نام: محمد بن عیسی بن سَورة بن موسیٰ بن الضحاک، نسبت: ترمذی، بوغی، سُلمی، ۲۰۹ھ میں شہر ترمذ میں پیدا ہوئے۔ ترمذ، ایک قدیم شہر ہے جو دریائے جیحوں کے ساحل پر واقع ہے، وہاں سے چند فرسخ پر بوغ نامی گاؤں ہے۔ آپ اصلاً اسی گاؤں کے باشندے تھے اور قبیلہٴ بنوسُلیم سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے سُلمی، ترمذی اور بوغی کہلاتے ہیں۔
شروع ہی سے علم حدیث کی تحصیل میں غیرمعمولی دلچسپی لی اور اس مقصد کے لیے بصرہ، کوفہ، واسط، رَے، خراسان اور حجاز وغیرہ کا سفر کیا اور وہاں کے مشاہیر سے اخذ علم کیا جن میں امام بخاری اور امام مسلم بھی شامل ہیں۔ امام بخاری نے استاذ ہونے کے باوجود ایک مرتبہ فرمایا: ”انتفعتُ بک أکثر مما انتفعتَ بی“ ”میں نے تم سے اس سے زیادہ فائدہ اٹھایا جتنا فائدہ تم نے مجھ سے اٹھایا“ نیز یہ بھی امام ترمذی کے لیے باعثِ فخر ہے کہ خود امام بخاری نے آپ سے روایت لی ہے۔
انتہائی متقی اور عابد وزاہد تھے، خشیتِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ برسوں روتے رہے جس سے آپ کی بینائی چلی گئی۔ آپ کا انتقال سترسال کی عمر میں ۱۳/رجب المرجب شب دو شنبہ ۲۷۹ھ ترمذ میں ہوا؛ لیکن علامہ سمعانی نے مقامِ رحلت قریہٴ بوغ کو قرار دیا ہے اور سنِ رحلت ۲۷۵ھ ذکر کیا ہے۔
کتاب کا تعارف
سنن ترمذی کو یوں تو کئی مختصر ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے؛ لیکن شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے ”تحقیق اسمی الصحیحین واسم جامع الترمذی“ میں کئی دلائل اور قرائن کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ اس کتاب کا مکمل اصلی نام یہ ہے: ”الجامع المختصر من السنن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ومعرفة الصحیح والمعلول، وما علیہ العمل“
امام ترمذی نے اپنی اس کتاب میں خصوصیت کے ساتھ احادیثِ احکام کا اہتمام کیا ہے جن پر فقہاء کرام کا عمل رہا ہے۔ دوسری طرف اس کو صرف احکام کے لیے مختص نہیں کیا؛ بلکہ امام بخاری کی طرح تمام ابواب کی احادیث لاکر اس کتاب کو جامع بنادیا ہے۔ صحاحِ ستہ میں انہی دو کتابوں پر بالاتفاق جامع کا اطلاق کیا جاتا ہے؛ جب کہ صحیح مسلم کے سلسلے میں دونوں رائیں ہیں۔ بعض نے کہا یہ جامع نہیں ہے ؛ اس لیے کہ اس میں کتاب التفسیر کا بہت مختصر حصہ شامل ہے؛ جب کہ بعض نے کتاب التفسیر کے نفسِ وجود کا لحاظ کرتے ہوئے صحیح مسلم کو بھی جامع مانا ہے․․․ امام ترمذی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ ایک روایت لانے کے بعد ”وفی الباب“ سے دوسری روایات کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔
حافظ ابوالفضل محمد بن طاہر مقدسی لکھتے ہیں کہ ایک بار ہرات میں امام ابواسماعیل عبداللہ بن محمد انصاری کے سامنے امام ترمذی اور ان کی جامع کا تذکرہ آیا تو وہ فرمانے لگے:
”کتابہ عندی أنفع من کتاب البخاری ومسلم، لأن کتابی البخاري ومسلم لا یقف علی الفائدة منھما الا المتبحر العالم، وکتاب أبی عیسی یصل الی فائدتہ کل أحد من الناس“ (شروط الأئمة الستة ص: ۱۶،التقیید ۱/۹۸)
”ابوعیسیٰ ترمذی کی کتاب میرے نزدیک بخاری ومسلم کی کتاب سے زیادہ نافع ہے؛ کیوں کہ بخاری ومسلم کی کتابوں سے تو صرف عالم متبحر ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے؛ لیکن ابوعیسیٰ کی کتاب سے ہر شخص مستفید ہوسکتا ہے۔“
حافظ ابوبکر بن نقطہ بغدادی المتوفی ۶۲۹ھ اپنی مشھور کتاب ”التقیید لمعرفة رُواة السنن والمسانید“ میں خود امام ترمذی کی زبانی ناقل ہیں:
”صنفت ھذا المسند الصحیح وعرضتہ علٰی علماء الحجاز فرضوا بہ وعرضتہ علی علماء العراق فرضوا بہ وعرضتہ علی علماء خراسان فرضوا بہ، ومن کان فی بیتہ ھذا الکتاب فکأنما فی بیتہ نبیٌ ینطق وفي روایة یتکلم“ (التقیید ۱/۹۷)
”میں نے المسند الصحیح یعنی کتاب الجامع کو تصنیف کرکے علماء حجاز کے سامنے پیش کیاتو انھوں نے اس کو پسند کیا اور علماء عراق کے سامنے پیش کیاتو انھوں نے بھی اس کو پسند کیا اور علماء خراسان کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے بھی اس کو پسند کیا اور جس کے گھر میں یہ کتاب موجود ہے تواس کے گھر میں گویا خود پیغمبرعلیہ السلام موجود ہیں جو تکلم فرمارہے ہیں۔“
تعداد روایات: محمد فوٴاد عبدالباقی کی ترقیم کے مطابق ترمذی میں کل ۵۰ کتب ہیں اور جملہ روایات کی تعداد تین ہزار نو سو چون (۳۹۵۴) ہے۔
سنن ابن ماجہ
مصنف کتاب:
کنیت: ابوعبداللہ، نام نامی: محمد بن یزید بن عبداللہ ابن ماجہ القزوینی الربعی ہے۔ عراق کے مشہور شہر قزوین میں ۲۰۹ھ مطابق ۸۲۴/ میں پیدائش ہوئی۔ اسی نسبت سے قزوینی کہلائے اور قبیلہٴ ربیعہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ربعی کہلاتے ہیں۔ ”ماجہ“ کے بارے میں سخت اختلاف ہے۔ بعض اس کو دادا کا نام سمجھتے ہیں جو صحیح نہیں ہے۔ بعض کا قول ہے کہ یہ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام ہے؛ لیکن مولانا عبدالرشید نعمانی فرماتے ہیں:
”اس بحث کو طے کرنے کا حق سب سے زیادہ موٴرخین قزوین کو ہے کہ ”أھل البیت أدریٰ بما فیہ“ اور ان حضرات کے بیانات حسبِ ذیل ہیں: محدث رافعی، تاریخ قزوین میں امام ابن ماجہ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: ان کا نام محمد بن یزید ہے اور ماجہ یزید کا لقب ہے جس پر تشدید نہیں ہے اور حافظ ابن کثیر نے البدایة والنہایة میں حافظ حنبلی کے حوالے سے جو قزوین کے مشہور موٴرخ ہیں، نقل کیا ہے کہ ماجہ یزید کا عرف تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس بارے میں خود امام ابن ماجہ کے مشہور ترین شاگرد حافظ ابوالحسن بن القطان کا بیان موجود ہے جس میں وہ نہایت جزم کے ساتھ تصریح کرتے ہیں کہ ماجہ آپ کے والد کالقب تھا دادا کا نہیں، ظاہر ہے کہ آپ کے والد ماجد ہی کا لقب تھا، اور ماجہ فارسی زبان کا لفظ ہے، جو غالباً ”ماہ“ یا ”ماہجہ“ کا معرب ہے، اس سے ظاہر ہے کہ امام ابن ماجہ عجمی نژاد ہیں عربی النسل نہیں؛ اس لیے ربعی جو آپ کی نسبت ہے یہ نسلی نہیں؛ بلکہ نسبت ولاء ہے۔“ (امام ابن ماجہ اور علم حدیث، ص۲)
کتاب کا تعارف
”سنن ابن ماجہ“ فنِ حدیث کی اہم کتاب ہے اور پہلے تفصیل گزرچکی ہے کہ صحاحِ ستہ میں سادسِ ستہ کی مصداق یہی کتاب ہے۔ حافظ ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں امام ابن ماجہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے اس سنن کو حافظ ابوزرعہ رازی کے سامنے پیش کیا، انھوں نے غور سے دیکھا اور فرمایا:
”أظن ان وقع ھذا في أیدی الناس تعطلت ھذہ الجوامع أو أکثرھا“ (تذکرة الحفاظ ۲/۶۳۶)
”میرا خیال ہے کہ اگر یہ کتاب لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی تو یہ سارے دواوین حدیث یا اکثر بے کار ہوجائیں گے اور ان سے بے نیازی ہوجائے گی۔“
تعداد روایات
حافظ ابن کثیر نے ابن ماجہ کے شاگرد اور سنن کے راوی ابوالحسن القطان سے نقل کیا ہے کہ یہ سنن بتیں کتب پر مشتمل ہے، اس میں پانچ سو ابواب اور چار ہزاراحادیث ہیں، کل کی کل حسن ہیں سوائے چند ایک کے۔“ (البدایہ والنہایہ ۱۱/۵۲) محمد فوٴاد عبدالباقی کی ترقیم کے مطابق سینتیں کتب اورچار ہزار تین سو اکتالیس حدیثیں ہیں اور کتب خمسہ سے زائد روایات کی تعداد ایک ہزار تین سو تیس ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ”کتابہ فی السنن، جامع جید کثیر الأبواب والغرائب، وفیہ أحادیث ضعیفة جدا“ (تہذیب التہذیب، ترجمہ ابن ماجہ)
”ابن ماجہ کی کتاب سنن میں ہے، جو خوب جامع اور بہت سارے ابواب وغرائب پر مشتمل ہے اوراس میں بہت ساری ضعیف روایات ہیں۔“
ابن الجوزی نے سنن ابن ماجہ کی تیس احادیث پر نقد کیا ہے اوران پر وضع کا حکم لگایا ہے، ان کے علاوہ بھی بعض حفاظ نے ابن ماجہ کی بعض روایات پر کلام کیا ہے۔ تاہم ایسی روایات جن پر وضع یا ساقط الاعتبار یا انتہائی ضعیف ہونے کا حکم لگایاگیا ہے ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ان کے علاوہ سنن کی چار ہزار روایات قابلِ اعتبار موجود ہیں۔
——————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 10، جلد: 98 ، ذی الحجہ 1435 ہجری مطابق اكتوبر 2014ء