از: مفتی محمد راشد ڈَسکوی
رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف واستاذِ جامعہ فاروقیہ، کراچی
بیتے ایام کی ایک یاداشت
دوپہر کے وقت کھانے سے فارغ ہو کر سونے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ ایک طالبِ علم ساتھی نے اعلان کیا ” سب طلبہ جامعہ کے میدان میں جمع ہو جائیں، نمازِ استسقاء ادا کی جائے گی۔“ اس کے اس اعلان سے کچھ تو ناگواری سی ہوئی کہ اب تو سونے کا وقت ہے، اس وقت کیا ہونے لگا! اس لیے کہ دوپہر کا سونا طلباء کے لیے کس قدر مرغوب ہوتا ہے، طلبہ ساتھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کرنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے؛ لیکن اس اعلان کے ساتھ کچھ نیا سا شوق بھی پیدا ہوا کہ زندگی میں پہلی بار یہ نماز ادا کرنے کا موقع مل رہا ہے، یہ کس طرح ادا کی جاتی ہے؟ اس میں کیا ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ، خیر! یہ سوچیں لیے ہوئے میں جلدی سے میدان کی طرف لپکا کہ پہلی صف میں جگہ ملے؛ تا کہ بہ سہولت اور خوب اچھی طرح سب کچھ دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملے۔
سب طلبہ جمع ہو گئے، حضرت مہتمم صاحب (مدرسہ عربیہ اشرف العلوم، اٹھیل پور، ضلع قصور) حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دامت برکاتہم العالیہ تشریف لائے، طلبہ پر نظر ڈالی اور پوچھا ”مکتب والے بچے نہیں آئے؟ انھیں بھی بلاوٴ“؛ چنانچہ وہ بھی پہنچ گئے، استاذِ محترم کھڑے ہوئے، کچھ اہم ترین باتیں ارشاد فرمائیں، اس کے بعد نماز پڑھائی، جو کچھ استاذِ محترم نے فرمایا، اس کا خلاصہ یہ تھا: ”جب بارش نہ ہو اور نہریں ، کنویں وغیرہ بھی نہ ہوں، یا کنویں وغیرہ تو ہوں؛ لیکن ان میں پانی بالکل نہ ہو، یا پانی ہو؛ لیکن لوگوں کے لیے بقدرِ حاجت نہ ہو، یعنی: خود پینے کے لیے، جانوروں کو پلانے کے لیے، کھیتیوں کو سیراب کرنے کے لیے کافی نہ ہو، تو اس وقت صلاةِ استسقاء مشروع ہے اور جب پانی بقدرِ کفایت موجود ہو، تو مشروع نہیں ہے۔ “(ردالمحتار ، کتاب الصلاة، باب الاستسقاء: ۲/۱۸۴، سعید)
ہمیں تو حکم ہے، حکم پورا کرنے کا
پھر فرمایا: ”یاد رکھو کہ ہمیں حکم ہے، حکم پورا کرنے کا، کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ ایسے حالات جن میں امت پانی کی کمی کی وجہ سے پریشان ہو، تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ سب مسلمان مرد جوان، بوڑھے اور بچے شہر سے باہر کسی میدان میں جمع ہوں، توبہ و استغفار کریں، دلوں میں ندامت و شرمندگی ہو اور اللہ کی رحمت کے امید وار ہوں اور اپنی دعاوٴں کی قبولیت کا یقین ہو، پھر امام جہراً قراء ت کے ساتھ دو رکعت پڑھائے، اس کے بعد دو خطبے ہوں، اس کے بعد قبلہ رو ہو کر امام اپنی چادر کو پلٹے، پھر کھڑے کھڑے اُلٹے ہاتھ اٹھا کر دعا کرے اور سب آمین کہیں، اس کے بعد حسبِ وسعت صدقہ وغیرہ بھی کیا جائے۔“(التعلیق الصبیح شرح مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب الاستسقاء، ۲/۱۸۵، رشیدیہ)
تو ایسے موقع پر حکم ہے کہ نمازِ استسقاء ادا کی جائے، اس کے بعد اس نماز کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟! اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں؛ اس لیے کہ ہمیں تو حکم تھا نمازِ استسقاء ادا کرنے کا، تو ہم نے اس حکم کی تکمیل کر لی، اس کے بعد بارش ہوتی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ہمارے پاس نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اس پر کسی کا زور نہیں ہے، اس کی مرضی، بارش دے یا نہ دے، بارش دینا اُس کا کام ہے اور نماز پڑھنا ہمارا کام، لہٰذا جب ہم نے نماز ادا کر لی تو ہم کامیاب ہو گئے، انشاء اللہ۔ ہم اس سوچ میں نہیں پڑیں گے کہ اس نماز کا کیا فائدہ ہے؟! اس نماز کی ادائیگی میں کیا حکمت ہے؟!“ (اللہ کی شان! اُس موقع پر ہم طلبہ اس میدان سے نکلنے بھی نہ پائے تھے کہ زور دار بارش شروع ہو گئی تھی)
قربانی سے متعلق ملحدین ومنکرین کے شکوک وشبہات
یہ تفصیلی قصہ ذکر کرنے کا مقصد محض قصہ گوئی نہیں ہے، جس طرح استاذِ محترم کی طرف سے ہم طلبہ کو ایک ذہنیت دے دی گئی کہ ”اللہ کے حکم کو حکم سمجھ کر پورا کردو، اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کے پیچھے نہ پڑو“، اِسی طرح اُس ذہنیت میں آپ حضرات کو بھی شریک کرتے ہوئے اس ماہِ مبارک ذوالحجہ (جو شروع ہو چکا ہے) میں ادا کی جانے والی ایک بہت ہی عظیم الشان عبادت (قربانی)کے بارے منکرین وملحدین اور مستشرقین کی طرف سے پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہات کا رد کرنا ہے، ذی الحجہ کا مبارک مہینہ شروع ہونے والا ہے، اس ماہ کے شروع ہوتے ہی جدید تہذیب کا دلدادہ اور مغربیت سے متأثر ذہنیت رکھنے والا شخص سادہ لوح اور مذہب پسند مسلمانوں کا ذہن خراب کرنا شروع کر دیتا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے، لاکھوں لوگوں کی یہ رقمیں بلا وجہ ضائع ہوتی ہیں، اس کے بجائے اگر اتنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیا جائے ، تو معاشرے کے بہت بڑے غریب اور مفلس طبقے کا بھلا ہو جائے گا، یہ افراد بھی زندگی کی ضروری سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے، وغیرہ وغیرہ، اس طرح منکرینِ قربانی اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کرتے نظر آتے ہیں۔اور اس کی وجہ سے عام مسلمان ان نام نہاد دانشوروں کے زہریلے پروپیگنڈے اور بہکاوے میں آ کر اسلام کے اس عظیم الشان حکم کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دنوں (دس ذی الحجہ)میں دائمی عمل
اس صورتِ حال میں سب سے پہلے تو غور کرنے کی یہ بات ہے کہ عید الاضحی کے اس خاص موقع پر اگر قربانی کرنے کی بہ نسبت انسانیت کی فلاح وبہبود میں مال خرچ کرنااتنا ہی افضل، موزوں ومناسب یا ضروری ہوتا توجناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اہلِ ثروت اور صاحب ِ نصاب مسلمانوں پر قربانی کے حکم کے بجائے غریب، سسکتی اور بد حال انسانیت پر مال خرچ کرنا ضروری قرار دیا جاتا؛ جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر دور میں غریب اور نادار طبقہ موجود رہا ہے، تو یقینا آپ علیہ الصلاة والسلام کے مبارک دور میں بھی یہ طبقہ موجود تھا؛ بلکہ ایسے افراد تو بکثرت موجود تھے؛ لیکن رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم (جو اپنی امت کے لیے بہت ہی زیادہ شفیق اور مہربان تھے)نے اپنے زمانہ کے اہلِ ثروت اور صاحب ِ نصاب مسلمانوں کو اس (عید الاضحی کے ) موقع پر یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کریں؛ بلکہ یہ حکم فرمایا کہ اس موقع پر اللہ کے حضور جانور کی قربانی پیش کریں۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کا ہی تھا، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے رہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ”أقَامَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہُ علیہ وسلم بالمدینة عَشْرَ سنین، یُضَحِّيْ“، سنن الترمذي، الأضاحي، باب الدلیل علی أنَّ الأضحیةَ سُنَّةٌ، رقم الحدیث: ۱۵۰۷) اور صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس عظیم حکم کو ہمیشہ قائم ودائم رکھنا، اس بات کی دلیل ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنا ہی ضروری ہے۔
ایام ِ قربانی میں قربانی افضل ہے یا نقد صدقہ؟
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”قربانی کے ایام میں بنسبت صدقہ کرنے کے قربانی کرنا افضل ہے“، امام ابو داوٴد، امام ربیعہ اور ابو الزناد رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ (المغنی لابن قدامہ: ۱۱/۶۹)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ان کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا یہی عمل تھا، اگر ان حضرات کے نزدیک اس سے بہتر کوئی عمل ہوتا تو وہ یقینا قربانی کے بجائے اسی کو اختیار کرتے، دوسری بات یہ کہ ایسا کیسے ہوسکتا تھا، جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح فرمان مبارک موجود ہے کہ ”اس دن میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا)خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے“۔(عن عائشة رضي اللہُ عنھا أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”ما عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ یومَ النَّحْرِ أَحَبُّ إِلی اللہ مِن إِھراقِ الدَّمِ“․ سنن الترمذي، فضل الأضحیة، رقم الحدیث:۱۴۹۳)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں“۔(عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”مَاأُنْفِقَتِ الْوَرَقُ فِيْ شَیْیٍٴ أَفْضَلُ مِنْ نَحِیْرَةٍ فِيْ یَوْمِ اْلعِیْدِ“․ سنن الدراقطني، کتاب الأشربة، باب الصید والذبائح والأطعمة وغیر ذالک، رقم الحدیث: ۴۳)
امام نووی رحمہ اللہ بھی اسی طرح ذکر کرتے ہیں کہ صحیح احادیثِ مشہورہ کی بنا پر شوافع کے نزدیک ان دنوں میں قربانی کرنا ہی افضل ہے، نہ کہ صدقہ کرنا؛ اس لیے کہ اس دن قربانی کرنا شعارِ اسلام ہے، یہی مسلک سلفِ صالحین کا ہے۔ (المجموع شرح المہذب: ۸/۴۲۵)؛ البتہ ! وہ افراد جن پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے، اُن کے لیے یا اُن کی طرف سے قربانی کرنے کی بجائے صدقہ کرنا افضل شمار ہو گا۔(البحر الرائق: ۸/۲۰۲)
صاحب مرقاة المفاتیح لکھتے ہیں کہ ”بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنتِ موٴکدہ ؛لیکن بہرصورت اس دن میں قربانی کرنا یعنی: خون بہانا متعین ہے، اس عمل کو چھوڑ کر جانور کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیں ہو گا؛ اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائرِ اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کا ترک لازم آتا ہے؛ چنانچہ! اہل ثروت پر قربانی کرنا ہی لازم ہے۔ “(مرعاة المفاتیح: ۵/۷۳)
کیا قربانی سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے؟
ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ انسانوں یا جانوروں کو جس چیز کی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے، حق تعالی شانہ اس کی پیدائش اور پیداوار بڑھا دیتے ہیں اور جس چیز کی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی اتنی ہی کم ہو جاتی ہے، آپ پوری دنیا کا سروے کریں اچھی طرح جائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم الشان حکم پر عمل کیا جاتا ہے، کیا ان ممالک میں قربانی والے جانور ناپید ہو چکے ہیں یا پہلے سے بھی زیادہ موجود ہیں؟!، آپ کبھی اور کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیا سے حلال جانور ختم ہو گئے ہیں یا اتنے کم ہو گئے ہیں کہ لوگوں کو قربانی کرنے کے لیے جانور ہی میسر نہیں آئے؛ جب کہ اس کے برخلاف کتے اور بلیوں کو دیکھ لیں، ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے؟! حالاں کہ تعجب والی بات یہ ہے، کتے اور بلیاں ایک ایک حمل سے چار چار پانچ پانچ بچے جنتے ہیں؛ لیکن ان کی تعداد بمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظر آتی ہے۔
حضرت مفتی محمدشفیع دیوبند صاحب رحمہ اللہ کا قول
حضرت مولانا مفتی محمدشفیع دیوبندی صاحب رحمہ اللہ قرآن پاک کی آیت﴿وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ” اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانہٴ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں، کائنات ِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے، انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں، بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں، غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں، کبھی سزا دینے کے لیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطہٴ الٰہیہ کے منافی نہیں،․․․․․ اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدا فرمائی ہیں، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے، جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں، جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے،کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں؛ حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا؛ مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بہ نسبت کتے بلی کے زیادہ ہے، جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔
عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔“ (معارف القرآن، سورة السباء:۳۹، ۷/۳۰۳)
رفاہی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے؟
ہماری اس بحث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے غرباء، مساکین اور ناداروں پر خرچ نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ ہمارا مقصود محض یہ ہے کہ دس ذوالحجہ سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے، اس کے لیے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے، ہاں! جس شخص پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے، اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحب ِ نصاب لوگوں کے ان دنوں میں قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ یا سال کے دیگر ایام میں مالی صدقہ کرنا یقینا بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے، رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکاة، صدقة الفطر، عشر، کفارات، نذور، میراث، دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کے نظام وضع کیے ہیں، ان احکامات کوپوری طرح عملی جامہ پہنا کر مطلوبہ نتائج ومقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں، نہ یہ کہ اسلام کے ایک عظیم الشان حکم کو مسخ کر کے تلبیس سے کام لیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے میں ہونے والی خرافات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے، طرح طرح کی مروج رسومات میں ضائع ہونے والی اربوں وکھربوں کی مالیت کو کنٹرول کیا جائے، نہ کہ ایک فریضے میں صرف کرنے والے لوگوں کو بھی بہکا کر اس سے روک دیا جائے۔
شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمہ اللہ کا قول
شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”منکرینِ قربانی نے اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے مضرات اور نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کیے ہیں، مثلاً: یہ کہا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے اور لوگوں کی رقمیں بلا وجہ ضائع ہوتی ہیں، اگر یہ رقوم رفاہِ عامہ کے کسی مفید کام میں صَرف کی جائیں تو کیا ہی اچھا ہو، وغیرہ وغیرہ، مگر یہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو (جو حکیم الاطلاق ہے اور اس کا کوئی حکم عقل کے خلاف اور خالی از حکمت نہیں ہوتا) محض ان طفل تسلیوں سے کیوں کر رد کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس کو قربانی کا حکم دیتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور اس کے یہ نقصانات ہیں؟ رب تعالیٰ کے صریح احکام میں معاذ اللہ کیڑے نکالنا کون سا ایمان ہے؟! اور پھر جناب خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح قول و فعل اور اُمتِ مسلمہ کے عمل کو جو تواتر سے ثابت ہوا ہے، خلاف ِ عقل یا مضر بتانا کون سا دین ہے؟!“۔ (مسئلہٴ قربانی مع رسالہ سیف یزدانی، ص: ۱۲)
مولانا مفتی محمد رضوان صاحب دامت برکاتہم کا قول
حضرت مولانا مفتی محمد رضوان صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں: ” بعض لوگ روحانیت سے غافل ہو کر یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ قوم کا اتنا روپیہ جو تین دن میں جانوروں کے ذبح پر ہر سال خرچ ہو جاتا ہے اور اس کا خاطر خواہ مفاد نظر نہیں آتا، اگر یہی پیسہ رفاہی اور قومی مفادات پر لگایا جائے تو بہت فائدہ ہو ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قربانی کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم اور اہم عبادت ہے، جیسے: حج کرنا، زکاة دینا، اور دوسری عبادات۔ تو کیا ان عبادات کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ فضول خرچی اور مال کو بے جا خرچ کرنا ہے؟! اس طرح تو دین کا بہت بڑاحصہ اور بہت سے دینی احکام کا تعلق اسلام سے ختم ہو جاتا ہے۔ پس جب شریعت میں قربانی کا حکم ہے تو اسے عقلی اعتراضوں اور ذہنی ڈھکوسلوں کا شکار بنانا کسی طرح درست نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی دوسری اور اصل فضول خرچیاں (جن کا شریعت نے حکم بھی نہیں دیا) ان لوگوں کو نظر نہیں آتیں؛ جب کہ اصل میں تو ان کے ختم کرنے اور مٹانے کی ضرورت ہے، ملک کی کتنی بڑی تعداد ایسی ہے جو سگریٹ نوشی، منشیات، کرکٹ، ہاکی اور دوسرے کھیل جوئے بازی، گھوڑ دوڑ، ناچ گانا، فحش پروگرام، انٹرنیٹ، ٹی وی، کیبل، وی سی آر، سینما، فضول تصویر سازی اور مووی بازی اور دوسرے فحش میڈیائی پروگرام، فحش اخبار ورسائل اور دیگر ناول اور ڈائجسٹ، بسنت، عید کارڈ، شادی کارڈ، گانوں اور دیگر غلط پروگراموں کی آڈیو وویڈیو کیسٹیں اور سی ڈیز، ویڈیو گیمز، آتش بازی، شادی بیاہ، مرگ وموت اور غمی خوشی کی رسومات، مختلف فیشن، غیر شرعی بیوٹی پارلر وغیرہ کی زد میں ہے۔جن کو چھوڑے اور توبہ کیے بغیر دنیا وآخرت کی فلاح اور کامیابی ملنا مشکل ہے اور یہی پیسہ اگر قومی اور رفاہی مفادات پر خرچ کیا جائے تو بہت جلد ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔“ (ذوالحجہ اور قربانی کے مسائل واحکام، ص: ۱۶۷)
ذبح کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب
منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی سامنے آتا ہے کہ زندہ جانوروں کے گلے پر چھری پھیر دینا بھی عقلِ سلیم کے خلاف ہے، یہ فعل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتا ہے، اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مولانامحمد اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعتِ اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں نہیں ہے، اور ذبحِ حیوان رحم کے خلاف نہیں؛ بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہو کر مرنا بہتر ہے؛ کیوں کہ خود مرنے میں قتل وذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے، رہا یہ سوال کہ پھر انسان کو ذبح کر دیا جایا کرے؛ تا کہ آسانی سے مر جایا کرے، اس کا جواب یہ ہے کہ حالتِ یاس سے پہلے ذبح کرنا تو دیدہ ودانستہ قتل کرنا ہے اور حالتِ یاس پتہ نہیں چل سکتی؛کیونکہ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہو گئے تھے، پھر اچھے ہو گئے اور شبہ حیوانات میں کیا جائے کہ ان کی تو یاس کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا، جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے، وہ یہ کہ انسان کا تو اِبقا (باقی رکھنا) مقصود ہے، کیونکہ خلقِ عالم سے وہی مقصود ہے؛ اس لیے ملائکہ کے موجود ہوتے ہوئے اس کو پیدا کیا گیا؛ بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا؛ کیونکہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدمات کے بعد موجود ہوا کرتا ہے؛ اس لیے انسان کے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی، ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کر دیے جائیں گے، جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امید تھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یاس کی حالت میں تھا اور جانور کا اِبقاء مقصود نہیں؛ اس لیے اس کے ذبح کی جازت اس بنا پر دے دی گئی کہ ذبح ہو جانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہو جانے کے بعدان کا گوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے، جس کا اِبقاء مقصود ہے، اس کو اگر ذبح نہ کیا جائے اور یونہی مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو وہ مردہ ہو کر اس کے گوشت میں سمّیت کا اثر پھیل جائے گا اور اس کا استعمال انسان کی صحت کے لیے مضر ہو گا، تو اِبقاء انسان کا وسیلہ نہ بنے گا اور قصاص، جہاد میں چونکہ افناء ِ بعض افرادبغرضِ اِبقاء جمیع الناس متیقن ہے؛ اس لیے وہاں قتل ِ انسانی کی اجازت دی گئی؛ مگر ساتھ ہی اس کی رعایت کی گئی کہ حتی الامکان سہولت کی صورت سے مارا جائے، یعنی: قصاص میں جو کہ قتلِ اختیاری ہے، تلوار سے۔ اور جہاد میں مُثلہ وغیرہ کی ممانعت ہے۔“ (اشرف الجواب، انیسواں اعتراض: ذبح کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب، ص: ۸۶، ۸۷مکتبہ عمر فاروق، کراچی)
قربانی کی حقیقت کیا ہے؟
اگر قربانی کی حقیقت پر نظر ہو تو بھی یہ وسوسہ پیدا نہیں ہو سکتا، قربانی تو یادگار ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنا بیٹا ذبح کرو؛ حالانکہ! دوسری طرف خود قرآن کا اعلان ہے کہ قتل کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے، نیز! بچوں کو تو جہاد کی حالت میں بھی قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، الغرض عقل کبھی بچے اور بالخصوص اپنے معصوم بچے کے قتل کو تسلیم نہیں کر سکتی؛ لیکن قربان جائیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کہ انہوں نے اللہ سے یہ نہیں پوچھا کہ اے اللہ! جو بچہ مجھے برسہا برس دعائیں مانگنے کے بعد ملا، آخر اس کا قصور کیا ہے؟! اور اگر قصور ہے بھی تو اس کو مارنے سے کیا حاصل ہو گا؟! نہیں ، اس لیے کہ جہاں اور جس کام میں اللہ کا حکم آ جاتا ہے وہاں چون وچرا کی گنجائش نہیں رہتی، چاہے نفع نظر آئے یا نقصان۔
دوسری طرف قربانی کے جانور پر آنے والے اخراجات کا جائزہ لیجیے، آج کے اس مہنگائی والے دور میں بڑے جانور میں حصہ لینے کے لیے آٹھ یا نو ہزار روپے کافی ہیں اور اگر چھوٹا جانور لینا چاہیں تو بارہ سے پندرہ ہزار روپے میں کام چل جاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد سوچیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں حکم ہو کہ تمہیں اختیار ہے کہ تم اپنا بیٹا قربانی کے لیے ذبح کرو، یا اس کی بجائے (بارہ سے پندرہ ہزار روپے کا)جانور ذبح کرو۔تو بتلائیے کہ کون کس کو ترجیح دے گا، یقینا بیٹے کے ذبح کے مقابلہ میں ہر عقل مند جانور ذبح کرنے کو ترجیح دے گا۔اب ایک نظر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ڈالیے کہ جب ان کو بیٹا ذبح کرنے کاحکم ملا (اور حکم بھی صراحتاً نہیں ملا؛ بلکہ خواب میں اشارةً بتلایا گیا) تو انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی رُک کر یہ نہ پوچھا کہ یا اللہ! اس میں میرے لیے کیا نفع ہے؟اور ایک ہم ہیں کہ معمولی سا جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور ہم پوچھتے پھرتے ہیں کہ اس میں میرا کیا نفع ہے؟اس کے بجائے یہ ہو جائے، وہ جائے، وغیرہ وغیرہ۔
ایسی باتیں قربانی کی روح کے خلاف ہے، یہ سوال کرنے والا درحقیقت قربانی کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے، قربانی کے ذریعے تو یہ جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کریں، اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ ﴿فَلَمَّا أَسْلَمَا﴾ جب انہوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا․․․․․الخ۔ تو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ قربانی محض رسم یا دل لگی نہیں ہے؛ بلکہ اس کے ذریعے ایک ذہنیت دینا مقصود ہے، جسے فلسفہٴ قربانی کا نام دیا جاتا ہے ، وہ یہی ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کریں۔
آج ضرورت ہے کہ منکرینِ قربانی ، ملحدین اور مستشرکین وکفار کے اس زہریلے پروپیگنڈے کے مقابلے میں اہلِ اسلام پُرزور طریقے سے اس حکم پر عمل پیرا ہوں، اسی میں اہلِ اسلام کی خیر وبقا کا راز اور دینِ اسلام کی حفاظت مضمر ہے۔ اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرضیٰ․
—————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 10، جلد: 98 ، ذی الحجہ 1435 ہجری مطابق اكتوبر 2014ء