از: مولانا اشرف عباس قاسمی

 استاذ دارالعلوم دیوبند      

خدائی تعلیم وہدایت کا جو قیمتی سرمایہ خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو ملا، اس کے دو حصے ہیں: ایک کتاب اللہ جو لفظاً ومعنیً کلام اللہ ہے، دوسرے آپ کے وہ ارشادات اور آپ کی وہ تمام قولی وعملی ہدایات وتعلیمات، جو آپ نے اللہ کے نبی ورسول، اس کی کتاب کے معلم وشارح اور اس کی مرضی کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے امت کے سامنے پیش کی ہیں، جن کو صحابہٴ کرام نے بلاکم وکاست بعد والوں کو پہنچایا اور بعد والوں نے اس کو پورے سلسلہٴ روایت کے ساتھ کتابوں میں محفوظ کردیا۔ آپ کی تعلیمات وہدایات اور فرمودات وارشادات کے اس حصے کا عنوان حدیث اور سنت ہے۔

                قرآن کریم کے بعد شریعت کا سب سے بڑا اور اہم ماخذ حدیث پاک ہے۔ حدیث کو اسلام میں ہمیشہ اساسی اور بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے اور ہرزمانے میں علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس کی چھان پھٹک، ترتیب وتہذیب اور نشرواشاعت میں خصوصیت سے حصہ لیا؛ کیوں کہ قرآن کریم کی تفہیم وتفصیل حدیث پاک ہی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ عقائد کی گرہیں بھی اسی سے کھولی جاتی ہیں، فقہ کی سند بھی اسی سے لی جاتی ہے۔ بہ قول علامہ سید سلیمان ندوی ”اسلامی علوم میں قرآن کریم دل کی حیثیت رکھتا ہے تو حدیث پاک شہِ رگ کی۔ یہ شہ رگ اسلامی علوم کے تمام اعضاء وجوارح تک خون پہنچاکر ہر آن ان کے لیے تازہ زندگی کا سامان پہنچاتی رہتی ہے۔“ (مقدمہ تدوین حدیث)

                خلاصہ یہ کہ حدیث کے بغیر اسلام کا کوئی موضوع مکمل نہیں ہوسکتا؛ اس لیے محدثین نے حددرجہ حفاظت حدیث کا اہتمام کیا اوراس کے لیے نہایت قیمتی اصول وضع کیے اور اپنی پوری محنت، قابلیت اور اخلاص وعقیدت کے ساتھ اس کی ایسی خدمت کی کہ دنیا کی کوئی قوم اپنی قدیم روایات واسناد اور مذہبی سرمایہ کی حفاظت کی مثال نہیں پیش کرسکتی۔

                ابومحمد ابن حزم فرماتے ہیں: ”رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم تک اتصالِ سند کے ساتھ ثقات کا ثقات سے نقل، ایسی خصوصیت ہے جس سے اللہ پاک نے صرف اہل اسلام کو سرفراز فرمایا ہے، دیگر اقوام وملل اس سے تہی دست ہیں۔“ (الفصل فی الملل والاہواء والنحل ۲/۸۲)

                حافظ ابو علی جیانی فرماتے ہیں: تین چیزیں ایسی ہیں جو اللہ پاک نے خصوصیت کے ساتھ اس امت کو عطا کی ہیں۔ اس سے پہلے کسی کو یہ نہیں دی گئی ہیں: (۱) اِسناد (۲) اَنساب (۳) اِعراب“ (منہج النقد ص۳۶)

                محدثین کی گراں قدر کوششوں اور حدیث کی حفاظت واشاعت کی خاطر اپنے آپ کو گھلادینے کا نتیجہ ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وفرمودات کے قابلِ قدر مجموعے اپنی اصل اورحقیقی شکل میں امت کے ہاتھ میں موجود ہیں۔

                فنی طور پر حفاظتِ حدیث کا آغاز عہدِ صحابہ میں ہی ہوگیا تھا؛ چنانچہ صحابہٴ کرام روایت حدیث میں کئی قوانین اوراصول کا لحاظ رکھتے تھے؛ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق اور عامة الصحابہ تقلیلِ روایت پر ہی کاربند تھے، جدہ کی میراث کے سلسلے میں حضرت مغیرہ بن شعبہ نے جب رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے چھٹاحصہ دینے کو نقل کیاتو حضرت ابوبکر نے فرمایا: ھَلْ مَعَکَ أحَدٌ“؟ جس پر محمد بن مسلمہ نے کھڑے ہوکر حضرت مغیرہ کی تائید فرمائی (بخاری، باب قصہ فاطمہ بنت قیس) اس سے عہدِ صحابہ میں روایت کے سلسلے میں احتیاط کا پتہ چلتا ہے؛ بلکہ حافظ دہبی نے تو بعض کبارِ صحابہ کے بارے میں شواہد کے ساتھ یہ بات نقل کی ہے؛ چناں چہ ذہبی حضرت ابوبکر کے ترجمے میں کہتے ہیں: ”وکان أول من احتاط فی قبول الأخبار“ حضرت عمر بن الخطاب کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وھو الذی سن للمحدثین التثبت فی النقل وربما کان یتوقف فی خبر الواحد اذا ارتاب“ اور حضرت علی کے سلسلے میں رقم طراز ہیں: ”کان اماما عالما متحریا في الأخذ بحیث أنہ یستحلف من یحدثہ بالحدیث“ (تذکرة الحفاظ ص۱۰)

                دورِ صحابہ کے بعد قرن ثانی کے آغاز میں احادیث کو باضابطہ مدون کرنے کی سرکاری اور غیرسرکاری کوششیں ہوئیں۔ جرح وتعدیل اور نقد رِجال کے قوانین پر احادیث کو پرکھاجانے لگا۔ تیسری صدی تدوینِ حدیث کا سنہرا دور ہے، جس میں امیرالمومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری نے صحیح احادیث کا عظیم مجموعہ مرتب کیا اور باقی اصحابِ ستہ نے بھی اسی نہج پر کتابیں مرتب کیں۔ ان کے علاوہ بھی مختلف معاجم، مسانید، سنن اور مستخرجات وموٴلفات وجود میں آئیں؛ لیکن ان تمام کتب روایت میں شہرت وقبولیت کے اعتبار سے جو مقام ومرتبہ اصولِ ستہ کے حصے میں آ یا وہ اور کتابوں کو نصیب نہ ہوسکا، ان ہی اصولِ ستہ کو علماء ہند کی اصطلاح میں ”صحاح ستہ“ سے تعبیر کیاجاتا ہے۔(وَلاَ مُشَاحَةَ فِی الْاِصْطِلَاحِ)

                آئندہ صفحات میں مختلف جہتوں سے اصولِ ستہ پر روشنی ڈالتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ مشترکہ خصوصیات کو واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

صحاحِ ستہ کی تحقیق

                ”صحاح“ صحیح کی جمع ہے۔ بروزن فعیل سقیم کی ضد ہے۔ اجسام یعنی محسوسات میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے اور معنویات میں بھی۔ اگر محسوسات میں استعمال ہوتو لغةً اس کا معنی ہوگا ”الشیء السلیم من الأمراض والعیوب“ یعنی وہ چیز جو امراض وعیوب سے صحیح سالم ہو، اس سے معلوم ہوا کہ واضعِ لغت نے اس لفظ کو سلامت من العیوب ہی کے لیے وضع کیا ہے؛ لہٰذا یہی اس کا معنی حقیقی ہے اور معنویات میں یہ جس معنی کے لیے مستعمل ہے، وہ اس کا معنی مجازی ہے۔ مثلاً قول وحدیث کی صفت صحیح آتی ہے تواس وقت ترجمہ ہوگا ”مَا اعتُمد علیہ“ یعنی قول صحیح وہ ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔ (تیسیر مصطلح الحدیث ص۴۴) اور اصطلاح میں صحیح خبرواحد کی ایک قسم ہے۔

صحاحِ ستہ کا مصداق

                صحاحِ ستہ سے مراد حدیث پاک کی چھ مشہور ومعروف کتابیں ہیں: (۱) صحیح بخاری (۲) صحیح مسلم (۳) سنن نسائی (۴) سنن ابی داؤد (۵) جامع ترمذی (۶) سنن ابن ماجہ۔ ان چھ کتابوں کو ”اصولِ ستہ، صحاحِ ستہ، کتبِ ستہ اور امہاتِ ست“ بھی کہتے ہیں (مسک الختام ۱/۱۷)

صحاح ستہ کا مطلب اور غلط فہمی کا ازالہ

                صحاح ستہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان چھ کتابوں میں جتنی روایات ہیں، سب صحیح ہیں اور نہ یہ نظریہ درست ہے کہ صرف ان ہی کتبِ ستہ کی روایات صحیح ہیں۔ باقی کتب حدیث کی روایات درجہٴ صحت تک نہیں پہنچتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کی روایات زیادہ تر صحیح ہیں، اس لیے انھیں تغلیباً صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

                ”کتب ستہ کہ مشہور اند دراسلام گفتہ اند صحیح بخاری وصحیح مسلم وجامع ترمذی وسنن ابی داؤد وسنن نسائی وسنن ابن ماجہ است۔ ودریں کتب آنچہ اقسامِ حدیث است از صحاح وحِسان وضِعاف ہمہ موجود است، وتسمیہ آں بصحاح بطریقِ تغلیب است“ (اشعة اللمعات)

                ”چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“

                حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

                ”صحاحِ ستہ“ کے نام سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں ہر حدیث صحیح ہے، اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی حدیث صحیح نہیں؛ لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے؛ بلکہ صحاح ستہ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان چھ کتابوں کو پڑھ لے اس کے سامنے اصولِ دین سے متعلق صحیح روایات کا ایک بڑا ذخیرہ آجاتا ہے، جو دین کے معاملات میں کافی ہے۔ (درسِ ترمذی، مقدمہ ۱/۱۲۶)

اصحاب صحاح ستہ

نمبرشمار  اسماء گرامی  سن ولادت  سن وفات  
۱محمد بن اسماعیل بخاری۱۹۴ھ۲۵۶ھ
۲مسلم بن حجاج نیشاپوری۲۰۴ھ۲۶۱ھ
۳ابوداؤد سلیمان بن اشعث۲۰۲ھ۲۷۵ھ
۴ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی۲۰۹ھ۲۷۹ھ
۵ابوعبداللہ احمد بن شعیب نسائی۲۱۴ھ۳۰۰ھ
۶محمد بن یزید بن عبداللہ ابن ماجہ۲۰۷ھ۲۷۳ھ

”صحاحِ ستہ“ کی اصطلاح، عہد بہ عہد

                محدثین کے یہاں صحاحِ ستہ کی اصطلاح کو بہ تدریج فروغ ملاہے؛ چنانچہ حافظ سعید بن سکن (م ۳۵۳ھ) چار کتبِ حدیث کو ہی اسلام کی بنیاد خیال کرتے تھے؛ چنانچہ ایک موقع پر انھوں نے فرمایاتھا: ”ھٰذہ قواعد الاسلام، کتاب مسلم وکتاب البخاری وکتاب ابی داوٴد وکتاب النسائی“ (شروط الائمہ الستہ ص۱۶، امام ابن ماجہ اور علم حدیث ص۲۳۳)

                ”یہ اسلام کی بنیادیں ہیں، امام مسلم کی کتاب، امام بخاری کی کتاب، ابوداؤد کی کتاب اور نسائی کی کتاب“

                اسی طرح حافظ ابو عبداللہ بن مندہ نے بھی مخرجین صحاح میں انہی ائمہٴ اربعہ کے ذکر پر اکتفا کیا تھا، گویا وہ بھی صحاحِ اربعہ کے قائل نظر آتے ہیں۔

                بعد میں حافظ احمد بن محمد ابوالطاہر السِّلَفی (م ۵۷۶ھ) نے جامع ترمذی کو بھی مذکورہ بالا چاروں کتابوں کے ساتھ شمار کرکے تصریح کی کہ ان پانچوں کتابوں کی صحت پر علماء شرق وغرب کا اتفاق ہے۔

                ان کے بعد بہت سے علماء وحفاظ حدیث بالخصوص حافظ ابن الصلاح اور امام نووی بھی انہی پانچ کتابوں کے کتبِ اصول میں ہونے کے قائل رہے اور اسی پس منظر میں امام ابوبکر حازمی نے ”شروط الائمہ الخمسة“ تالیف فرمائی۔

                لیکن بعض حضرات نے ابن ماجہ کی جودتِ ترتیب، فقہی اعتبار سے کثیر النفع اور دیگر کتب کے مقابلے میں زائد روایات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سنن ابن ماجہ کو بھی کتبِ اصول میں شمار کرکے چھ کتابوں کو امہاتِ کتب قرار دیا۔ اور اس وقت بھی کتبِ ستہ یا صحاحِ ستہ کی مصداق یہی چھ کتابیں ہیں۔

                علامہ ابوالفضل مقدسی پہلے محدث ہیں جنھوں نے ابن ماجہ کو سابقہ کتب خمسہ کے ساتھ لاحق کیا؛ چنانچہ علامہ محمد بن جعفرالکتانی (م۱۳۴۵ھ) لکھتے ہیں:

                ”وأول من أضافہ الی الخمسة مکملا بہ الستة ابوالفضل محمد بن طاہر بن علي المقدسي فی أطراف الکتب الستة لہ، وکذا في شروط الائمة الستة لہ، ثم الحافظ عبدالغنی بن عبدالواحد بن علي بن سرود المقدسی في الکمال في أسماء الرجال فتبعھما علی ذلک أصحاب الأطراف والرجال والناس“ (الرسالة المستطرفة ص۱۲، دارالبشائر الاسلامیة)

                پہلے شخص جنھوں نے ابن ماجہ کو پانچ کے ساتھ ملاکر چھ کا عدد پورا کیا، وہ ابوالفضل محمد بن طاہر بن علی المقدسی ہیں، انھوں نے اپنی کتاب ”اطراف الکتب الستہ“ اور” شروط الائمہ الستة“ میں ایسا کیا۔ پھر حافظ عبدالغنی بن عبدالواحد بن علی بن سرور المقدسی نے اپنی کتاب ”الکمال فی اسماء الرجال“ میں ایسا کیا۔ پھر کتب اطراف ورجال کے مصنّفین اور دیگر حضرات اس سلسلے میں ان دونوں حضرات کے نقش قدم پر چل پڑے“۔

سادسِ ستہ کی تعیین میں اختلاف

                جب کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ حافظ ابوالفضل مقدسی (م۵۰۷ھ) پہلے شخص ہیں جنھوں نے کتبِ خمسہ کے پہلو بہ پہلو سنن ابن ماجہ کو جگہ دی۔ اسی عہد میں مقدسی کے معاصر محدث رزین بن معاویہ عبدری مالکی (م۵۲۵ھ) نے اپنی کتاب ”التجرید للصحاح والسنن“ میں کتب خمسہ کے ساتھ سنن ابن ماجہ کے بجائے موطا امام مالک کی حدیثوں کو درج کیاہے۔ اس بنا پر بعد کے علماء میں اختلاف ہوا کہ صحاحِ ستہ کی چھٹی کتاب موطا کو قرار دیا جائے یا اس کی جگہ سنن ابن ماجہ کو رکھا جائے؟

                محدث مبارک بن محمد المعروف بابن الاثیر الجزری (م۶۰۶ھ) نے اپنی مشہور ومقبول عام کتاب ”جامع الاصول“ میں محدث رزین ہی کی رائے کو راجح خیال کیا ہے؛ اسی لیے اس کتاب میں ابن ماجہ کے حوالے سے کوئی روایت درج نہیں ہے۔ اسی طرح حافظ ابو جعفر بن زبیر غرناطی کی تصریح ہے۔

                ”أولی ما أرشد الیہ ما اتفق المسلمون علی اعتمادہ وذلک الکتب الخمسة والموطا الذي تقدمھا وضعا ولم یتأخر عنھا رتبة“ (تدریب الراوی ص۵۶)

                ”جو کچھ بتایاگیا ہے ان سب میں اولیٰ وہ کتابیں ہیں جن کے اعتماد پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ وہی کتبِ خمسہ ہیں اور موطا ہے جو تصنیف میں ان سے مقدم ہے اور رتبہ میں کم نہیں ہے“

                اور علامہ محدث عبدالغنی نابلسی حنفی (م ۱۱۴۳ھ) اپنی مشہور کتاب ”ذخائر المواریث فی الدلالة علی مواضع الحدیث“ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

                ”وقد اختلف فی السادس فعند المشارقة ھو کتاب السنن لابی عبد اللہ محمد بن ماجہ القزوینی وعند المغاربة کتاب الموطا للامام مالک بن أنس الأصبحی“

                ”چھٹی کتاب کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل مشرق کے نزدیک وہ ابوعبداللہ محمد بن ماجہ قزوینی کی کتاب السنن ہے اور اہل مغرب کے نزدیک امام مالک بن انس اصبحی کی کتاب موطا“

                لیکن عام متاخرین کا فیصلہ ابن ماجہ ہی کے حق میں ہے۔ محدث ابوالحسن سندھی لکھتے ہیں:

                ”غالب المتأخرین علی أنہ سادس الستة“ اکثر متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ کتب ستہ میں چھٹی کتاب ابن ماجہ ہی ہے“ (امام ابن ماجہ اور علم حدیث ص۲۳۳-۲۳۴)

                غرضیکہ کتبِ ستہ میں چھٹی کتاب ابنِ ماجہ ہے یا موطا مالک یا مسند دارمی؟ اس حوالے سے ابتدائی مصنّفین میں خاص اختلاف رہا اور مجموعی اعتبار سے تین اقوال ملتے ہیں:

                ۱- مشارقہ اور اکثر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ سادسِ ستہ سنن ابن ماجہ ہی ہے۔

                ۲- رزین بن معاویہ عبدری، ابن اثیر جزری اور مغاربہ کی رائے یہ ہے کہ کتبِ ستہ میں چھٹی کتاب موطا امام مالک ہے۔

                ۳- حافظ ابن الصلاح، امام نووی، صلاح الدین علائی اور ابن حجر عسقلانی وغیرہ کی رائے میں سادسِ ستہ، مسند دارمی کو قرار دینا اولیٰ ہے۔

                علامہ کتانی فرماتے ہیں:

                ومنھم من جعل السادس الموطا کرزین بن معاویة العبدری فی التجرید، وأثیر الدین ابی السعادات المبارک بن محمد المعروف بابن الأثیر الجزری الشافعی فی جامع الأصول، وقال قوم من الحفاظ؛ منھم ابن الصلاح والنووی وصلاح الدین العلائی والحافظ ابن حجر: لو جعل مسند الدارمی سادسا لکان أولیٰ؛ (الرسالة المستطرفة ص۱۳)

                ”بعض حضرات نے چھٹی کتاب موطا کو قرار دیا ہے، جیسے رزین بن معاویہ عبدری نے التجرید میں اور اثیرالدین ابوالسعادات ابن الاثیر الجزری الشافعی نے جامع الاصول میں اورحفاظ کی ایک جماعت جس میں ابن الصلاح، نووی، صلاح الدین علائی اور حافظ ابن حجر شامل ہیں، کا خیال یہ ہے کہ اگر مسند دارمی کو چھٹی کتاب قرار دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔“

                علامہ کتانی نے مزید ایک قول نقل کیاہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حضرات صحاحِ ستہ ہی نہیں؛ بلکہ صحاحِ سبعہ کے کتبِ اصول ہونے کے قائل ہیں۔ یعنی (۱) صحیح بخاری (۲) صحیح مسلم (۳) سنن نسائی (۴) سنن ابی داؤد (۵) جامع ترمذی (۶) ابن ماجہ (۷) موطا امام مالک، بعض حضرات نے اس فہرست میں موطا کی جگہ سنن دارمی کو رکھا ہے۔ کتانی کہتے ہیں:

                ”ومنھم من جعل الأصول سبعة، فعدّ منھا زیادة علی الخمسة کلا من الموطا وابن ماجہ، ومنھم من اسقط الموطا وجعل بدلہ سنن الدارمی“ (الرسالة ص۱۳)

                ”بعض حضرات نے سات کتابوں کو اصول قرار دیاہے۔ ان سات کتابوں میں کتبِ خمسہ کے علاوہ ابن ماجہ اور موطا دونوں کو شمار کیا ہے۔ اور بعض نے موطا کو ساقط کرکے اس کی جگہ مسند دارمی کو رکھا ہے۔“

                غرضیکہ شروع میں ایک عرصے تک اس طرح کا جزوی اختلاف رہا؛ لیکن بالآخر صحاحِ ستہ کی اصطلاح رائج ہوئی اور سادسِ ستہ کا سہرا ”سنن ابن ماجہ“ ہی کے سر بندھا۔

***

————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 98 ‏، جمادی الاولی 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ء

Related Posts