از: حکیم ظل الرحمن، دہلی

چشمہٴ ایوب

                قرآن کریم، پارہ ۲۳، رکوع ۱۲، سورہ ص، آیت۴۱: ”جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے تو ہم نے اسے حکم دیا کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو! یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے کے لیے اور پینے کے لیے اور چشمہ ابل پڑا، کہا جاتا ہے کہ حضرت ایوب عرب تھے، عرب میں ظاہر ہوئے تھے، توریت کے باب پیدائش اور باب تواریخ میں عوض کو ارم بن سام بن نوح کا بیٹا بتایاگیا ہے۔ توریت (کتاب ایوب، باب ۱، آیت۱) عوض کی سرزمین میں ایوب نامی ایک شخص تھا، وہ شخص کامل اور صادق تھا اور خدا سے ڈرتا تھا اور بدی سے دور رہتا تھا۔

عوض کی سرزمین

                ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں جو کچھ فرمایا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایوب اپنی جگہ سے اٹھو اور زمین پر ٹھوکر مارو، ایوب علیہ السلام نے ارشاد باری تعالیٰ کی تعمیل کی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک چشمہ جاری کردیا، جس میں انھوں نے غسل کیا اور جسم کا ظاہری روگ جاتا رہا، اس کے بعد انھوں نے پھر ٹھوکرماری اور دوسرا چشمہ ابل پڑا اور انھوں نے اس کا پانی پیا اور اس سے جسم کے باطنی حصہ میں جو مرض کا اثر تھا، وہ بھی ختم ہوگیا، اس طرح وہ چنگے ہوکر خدا کا شکر بجالائے (بحوالہ قصص القرآن صفحہ۱۹، جلد دوم از مولانا حفظ الرحمن صاحب مرحوم)

ترجمان القرآن مولانا ابوالکلام آزاد

                عوض کے ملک میں ایوب ایک کامل اور راست باز انسان تھے، خدانے انھیں بڑی دولت دے رکھی تھی۔ ایک وقت آیا کہ حضرت ایوب کے تمام جسم پر پھوڑے نکل آئے، پھر انھوں نے خدا کو پکارا تو حکم ملا کہ اپنے پیر زمین میں مارو، انھوں نے حکم کی تعمیل کی تو ایک چشمہ بہہ پڑا، اس سے انھوں نے غسل کیا تو تمام بیماری ختم ہوگئی۔ اس کے بعد انھوں نے دوبارہ پیر مارا تو دوسرا چشمہ برآمد ہوا جس کا پانی انھوں نے پیا تو ان کی تمام تندرستی لوٹ آئی۔

                توریت کتاب پیدائش اور تواریخ اوّل میں عوض (جس کے نام پر یہ ملک تھا) کو ارم بن سام بن نوح کا بیٹا کہا ہے۔ قبیلہ آرامی بالاتفاق عرب عاریہ کی ابتدائی جماعتوں میں سے ہے۔

                اس مقام کو ایسی جگہ ہونا جہاں سبا اور بابل کے باشندے آکر حملہ آور ہوا کرتے تھے، ایک مزید جغرافیائی روشنی ہے؛ کیونکہ ایسا مقام بجز عرب کے اور کوئی نہیں ہوسکتا، یقینا یہ عرب کا وہی مقام ہوگا، جو آگے چل کر قبیلہٴ مدین کی بستی بنا یعنی خلیج عقبہ کا مشرقی ساحل۔

                لیکن افسوس یہ ہے کہ ابھی تک اس چشمہ کے وجود اور محل وقوع کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

حضرت ایوب علیہ السلام

                اکثر مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام حضرت ابراہیم کی نسل سے تھے۔ اور عساکر کا قول ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی ماں حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔ بیوی کا نام رحمت بتایا جاتا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی دولتِ فراواں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ بے حد مخیرتھے اور غریبوں، مصیبت زدوں، مہمانوں اور اجنبیوں پر بڑی شفقت فرماتے تھے (اسرائیلی بیان ہے کہ) آپ کی اس پرہیزگاری اور خدا ترسی سے ابلیس کے سینے میں دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی اوراس نے اللہ تعالیٰ سے حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمانے کی اجازت طلب کی۔ اللہ کی جانب سے اجازت مل گئی۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کے تمام عزیزوں نے چھوڑ دیا، صرف ایک وفادار بیوی باقی رہ گئیں جو ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں، حتیٰ کہ جب آپ کو کوڑے پر پھینک دیاگیا تو اس وقت بھی بیوی نے آپ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ دوستوں کی غلط فہمی حضرت ایوب علیہ السلام کی تکالیف میں مزید اضافے کا باعث ہوئی۔ جب اس ابتلاء سے بھی آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ ہوئی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ بشارت لائے کہ آپ ایک کراماتی چشمے کے ذریعے ابتلاء سے نجات پائیں گے۔ آپ کا دور حضرت یوسف یا حضرت سلیمان یا حضرت یونس علیہما السلام کے بعد ہے۔ (تلخیص اردو دائرہ معارف اسلامیہ: 750/2، البدایة والنہایة، ص:206 تا 210، فتح الباری: 512-511/6)

                المسعودی نے لکھا ہے کہ دمشق کے نزدیک نویٰ میں آ پ کا مقبرہ زیارت گاہ خاص وعام تھا۔ یہاں وہ چٹان اب تک دیکھی جاسکتی ہے، جہاں بیٹھ کر آپ نے زمانہٴ ابتلاء بسر کیاتھا اور وہ چشمہ بھی، جس میں غسل کرکے آپ نے شفا پائی تھی۔ (مروج الذہب:91/1) سید حامد عبدالرحمن الکاف اپنے مضمون ”ارض سبا کا سفرنامہ“ میں لکھتے ہیں کہ ”سبا سے مآرب جاتے ہوئے راستے میں ہم سے کہا گیا کہ یہ جبل ایوب (علیہ السلام) ہے اور یہ کہ پہاڑ کی چوٹی پر ساری علامتیں اب تک محفوظ ہیں۔“

                یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جب محمد بن قاسم نے ملتان کو فتح کیا تو اس وقت وہاں کے بڑے مندرکا بت حضرت ایوب علیہ السلام کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا۔ (البلاذری: فتوح، 440واردو دائرہ معارف اسلامیہ: 750/3)

                نویٰ: اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق ”نوا (نویٰ) دمشق کے جنوب میں علاقہ جولان میں واقع ہے۔“ مشہور محدث امام یحییٰ بن شرف نووی یہیں پیدا ہوئے تھے۔

چشمہٴ مریم

                اس چشمہ کا تعلق حضرت مریم کے واقعہ سے ہے، جب حضرت مریم پیداہوئیں تو وہ آغاز سے ہی اپنی خالہ کی آغوشِ شفقت میں پرورش پانے لگیں، ان کی خالہ حضرت زکریا کی زوجہ محترمہ تھیں، بچپن سے ہی حضرت مریم کو عبادت بہت مرغوب تھی، جب وہ سنِ شعور کو پہنچیں تو اپنے خالو زکریا علیہ السلام سے کہہ کر بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے کنارے اپنے لیے ایک حجرہ حاصل کرلیا، دن بھر عبادت کرتیں اور رات کو خالہ کے گھر آجاتی تھیں، حضرت زکریا جب کبھی ان کے حجرے میں جاتے تو ان کے پاس بے موسم کے پھل نظر آتے تو وہ جواب دیتیں اللہ کی قدرت سے یہ سب کچھ مجھے مل رہا ہے۔

                ایک دن وہ عبادت میں مشغول تھیں کہ اچانک حضرت جبریل علیہ السلام اللہ کے حکم سے انسانی شکل میں نمودار ہوئے اور بشارت دی کہ تمہارے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا، کہنے لگیں میں غیرشادی شدہ ہوں اور کسی مرد نے مجھے چھوا بھی نہیں ہے، تو لڑکا کیسے پیدا ہوگا؟ حضرت جبرئیل پھونک مارکر واپس ہوگئے، کچھ عرصہ کے بعد ان کو حمل پڑگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہاں ایک کھجور کے خشک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں۔ بیٹھتے ہی دردِ زہ شروع ہوگیا۔ یکایک کھجور کا سوکھا درخت سرسبز وشاداب ہوگیا، اس کی ڈالیاں کھجوروں سے لدیں اور بالکل سامنے نشیبی حصہ میں ایک چشمہ جاری ہوگیا۔

چشمہ مریم کے بارے میں جناب مولانا ابوالبیان حماد عمری کی چشم دید شہادت

                چشمہ ایوب اور چشمہ مریم کے تعلق سے مضمون میں عرض کیاگیا تھا کہ ان دونوں چشموں کی بابت قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ موجود ہیں یا کالعدم ہوگئے۔ اگر موجود ہیں تو کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ البتہ جہاں تک ان کی تاریخی حیثیت کا تعلق ہے، اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے؛ کیونکہ دونوں چشموں کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔

                 مسجد اقصیٰ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک مقام ہے، جہاں ایک کھجور کا درخت ہے جو کسی کی ملکیت میں نہیں ہے اور ایک چشمہ موجود ہے جسے ”چشمہٴ مریم“ کہا جاتاہے۔ لوگ وہاں سیر وتفریح کے لیے پہنچتے ہیں اور کھجور کا موسم ہوتا ہے تو درخت سرسبز وشاداب ہی نہیں ہوجاتا؛ بلکہ پھلوں سے لدا ہوا ہوتا ہے۔ لوگ کھجوریں کھاتے ہیں اور چشمہٴ مریم سے پانی پی کر سیراب ہوجاتے ہیں۔(راہِ اعتدال)

چشمہٴ زمزم

                جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت ورسالت کا یادگار اور تاریخ ساز دورآیاتو مشیت کی رضا ہوئی کہ خانہ کعبہ کی ”تعمیرِ جدید“ عمل میں لائی جائے۔ اس وقت خانہٴ کعبہ کی بنیادیں مٹی میں دبی ہوئی تھیں اور سرزمینِ حجاز کی وہ وادی غیرذی زرع تھی، جہاں کوئی پرندہ بھی موجود نہیں تھا۔ اس جنگل اور بیابان کو آباد کرنا محال نہیں تو انتہائی دشوار ہوگیا تھا۔ کسی درجے میں بھی بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں تھا کہ وہاں آبادی کی کوئی شکل نکالی جاتی۔ اللہ نے اپنی غیرمعمولی قدرت کی کرشمہ سازی سے کام لے کر ”وادیِ غیرذی زرع“ کو بسانے کا انتظام کردیا۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا مرکز شام وفلسطین کا علاقہ تھا، اپنی زوجہ کے ساتھ وہیں رہ کر آپ فریضہٴ دعوت وارشاد انجام دے رہے تھے۔ پیرانہ سالی کے سبب نہ ان کی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ سے کوئی اولاد ہوئی اور نہ دوسری اہلیہ حضرت ہاجرہ کی گود ہری ہوئی، بندہ اللہ کے دل دردمند سے فرزندِ ارجمند کے لیے یہ فریاد لب ہائے مقدس پر آتی رہی اور بابِ الٰہی پر دستک دیتی رہی ”رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْن“ (میرے پروردگار مجھے صالح اولاد عطا فرما) اور خدا کے بندے خلیل کی دعا کو شرفِ قبولیت حاصل ہوئی اور حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل کی ولادت ہوئی۔ ابراہیم علیہ السلام کو نور نظر اور ماؤں کو لختِ جگر مل گیا۔ اسماعیل علیہ السلام کی ولادت پر ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام کی ابتلاء وآزمائش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیاگیا کہ ماں اور بچہ دونوں کواس بیابان میں لے جاکر چھوڑ دیا جائے، جہاں خانہٴ کعبہ کی صرف بنیادیں تھیں۔ خلیل اللہ بے چون وچرا ہاجرہ علیہ السلام اور نومولود کو ساتھ لے کر گھر سے روانہ ہوگئے، ساتھ کھجوریں اور تھوڑا سا پانی لیتے گئے۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد منزلِ مقصود پر پہنچ گئے، جہاں تعمیرِ جدید ہونے والی تھی، وہاں ہاجرہ کو بٹھادیا اور معصوم بچے کو اپنی آغوشِ شفقت سے ماں کی گود میں رکھ دیا اور بغیر کچھ کہے واپس جانے لگے۔ ہاجرہ کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا کہ یہ سب کچھ کیا ہونے جارہا ہے، نومولود کو ”سبزئہ نورُس“ کے فرش پر لٹاکر کھڑی ہوگئیں اور دامن تھام کر پوچھنے لگیں کہ مجھے اوراس ننھے بچے کو یہاں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام پر ایسی رقت طاری ہوگئی تھی کہ زبان یاری نہیں کررہی تھی، کچھ بھی بول نہیں پارہے تھے، خودہی پوچھنے لگی کہ کیا ہمارے رب کے حکم سے آپ ہم کو یہاں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ سرمبارک کے اشارے سے اثبات میں جواب دیا، اس پر ”پیکرِ تسلیم کی زبان سے وہ کلمہ نکلا، جسے صبر وضبط اور توکل وتحمل کی تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ رکھا ہے اذاً لاَ یُضِیْعُنَا“ اب آپ تشریف لے جایے ہمارا پروردگار ہمیں برباد نہیں کرے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی واپسی کے بعد جلد ہی کھجور اور پانی دونوں ختم ہوگئے۔

                جس کے نتیجے میں حضرت ہاجرہ علیہ السلام کا دودھ بھی خشک ہوگیا اور وہ بے چین وبے قرار ہوگئیں؛ مگر ان کی پریشانی، ان کی اپنی ذات کے لیے نہیں؛ بلکہ اپنے لعل کے لیے تھی۔ معصوم بچہ دودھ کے لیے تڑپ رہا تھا اور بلک رہا تھا۔ قریب میں ”صفا اور مروہ“ کی پہاڑیاں تھیں ”قدرتِ الٰہی کی کرشمہ سازی سے کبھی چٹانوں سے بھی جھرنے پھوٹ جاتے ہیں“۔ یہی سوچ کر ہاجرہ پہلے صفا کی پہاڑی کے پاس پہنچیں اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔ پانی کا کوئی قطرہ اس کی سطح پر نظر نہ آیاتو اوپر چڑھ کر چاروں طرف دیکھنے لگیں کہ شاید کہیں پانی نظر آجائے پھر ”صفا“ سے نیچے اتریں اور دوڑتی ہوئی ”مروہ“ کے پاس پہنچ گئیں اور اس کے بھی اوپر چڑھ کر ہر طرف پانی کو تلاش کرنے لگیں امید وبیم کی اس کشمش میں نیچے اتریں تو معصوم بچے کی فکر لاحق ہوئی۔ بچے کے پاس پہنچیں تو اس کی گریہ وزاری تھی جو بڑھتی جارہی تھی۔ پھول جیسے ہونٹوں کی پنکھڑیاں سوکھی جارہی تھیں۔ ماہیِ بے آب کی طرح بے تاب ہوکر ہاجرہ پھر صفا ومروہ کے درمیا چکر لگانے لگیں، اس طرح سات چکر مکمل کرنے کے بعد اپنے لخت جگر کے پاس پہنچتی ہیں تو یہ دل نواز منظر دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں کہ جہاں بچہ بھوک اور پیاس کی شدت سے ایڑیاں پٹک رہا تھا وہاں ایک چشمہ ابل رہا ہے۔ ہاجرہ علیہ السلام کو اندیشہ لاحق ہوا کہ پانی کہیں ادھر ادھر پھیل کر ختم نہ ہوجائے؛ اس لیے پانی کے چاروں طرف بند باندھنے لگیں اور پانی سے کہتی جارہی تھیں ”زمزم زمزم“ جس کا معنی اردو میں یوں ہے ”تھم تھم تھم تھم“ بند باندھنے پر پانی تھم گیا اور اس کی شکل ایک کنویں جیسی بن گئی جسے ”چاہِ زمزم“ کہا جاتاہے۔ نبی کریم … حضرت ہاجرہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ ہماری ماں پر رحم فرمائے، اپنے خیال میں یہ سمجھ کر وہ پانی پر بند باندھنے لگیں کہ پانی ہر طرف بہہ کر کہیں ختم نہ ہوجائے۔ اگر وہ ”چشمہٴ زمزم“ پر بند نہ باندھی ہوتیں تو اللہ ہی بہتر جاتنا ہے کہ وہ پانی کس قدر دور تک چلاجاتا؛ لیکن بند کی وجہ سے وہ آگے پھیل نہ سکا۔ محدود ہوکر رہ گیا اور ”جوئے زمزم“ کے بجائے ”چاہ زمزم“ بن گیا۔ شاید اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت رہی ہوگی۔ یہ تھا پہلا قدرتی چشمہ جو حرم کعبہ میں موجود ہے۔ پوری دنیا سے حج وزیارت اور عمرے کے لیے جو مسلمان مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں، آب زمزم پی کر آسودہ سیراب ہوجاتے ہیں۔ نیز حج کے ارکان میں ایک رکن یہ بھی ہے کہ خانہٴ کعبہ کا طواف کرنے کے بعد ہاجرہ کے شیوئہ تسلیم ورضا کی یاد تازہ کرتے ہوئے، صفا ومروہ کے درمیان سات چکر بھی لگائیں؛ کیونکہ اس کے بغیر حج وعمرہ کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ آج اس پانی کی فیضیابی مکہ سے مدینہ تک پہنچی ہوئی ہے اور مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی میں اتنے وافر مقدار میں زمزم کا پانی ہوتا ہے کہ تمام حاجی اور عمرہ والے حضرات کی کفالت کرتاہے؛ بلکہ وہ اپنے اپنے وطنوں کو بھربھر لے بھی جاتے ہیں۔ (تلخیص از: راہِ اعتدال)

***

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 98 ‏، جمادی الاولی 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ء

Related Posts