از: مولاناسہیل اختر قاسمی
دینی مدارس نے ہر دور میں امت کا فکری احیاء کیا ہے اور اسلامی آثار وعلامات کی محافظت کی ہے، جس سرمائے کو دنیا اور زمانے نے مجہول بنادیا، اسے معروف ومشہور کرنا اور عملی طور پر امت میں اسے زندہ کرنے کی کوشش ہمیشہ مدارس کی جانب سے کی گئی؛ خصوصاً اسلامی ثقافت کی نشانیوں کو زندہ وجاوید کرنے میں مدارس کے کردار کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ غور وتجزیہ کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے جتنے اہم تہذیبی علائم اور شعائر ہیں ان کی صحیح تر صورت اور زندہ شبیہ کے مشاہدہ کے لیے مدارسِ دینیہ کا رخ کیا جاسکتا ہے، اسلامی اخلاقیات، معاشرت، لباس، گفتگو، نشست و برخاست، رکھ رکاؤ، وضع قطع اور اسلامی تہذیب کی ہر وہ علامت جس پر اسلامی تشخص نشان زد ہے؛ وہ سب دینی مدارس میں زندہ ہیں۔
دینی مدارس کے اس احیائی عمل سے جہاں ان مدارس کو اسلامی کمین گاہوں کے نام سے موسوم کیاگیا، وہیں انھیں اسلام کی حفاظت کا آخری مورچہ بھی کہا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں احساس ثقافت ختم ہونے کے باوجود اس آخری قلعہ کی حفاظت دل وجان سے کی جارہی ہے۔ دراصل دینی مدارس فقط اسلامی ثقافت کی محافظت پر ہی مامور نہیں ہیں؛ بلکہ اس کی اشاعت و فروغ کی ذمہ داری بھی بہ خوبی انجام دے رہی ہیں، جس کا عملی نمونہ علماء وطلبہ کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے، واقعی ہر جہت اور ہر پہلو سے دینی مدارس کی خدمات قابلِ تحسین اور مبارک باد ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اسلامی ثقافت کے اس عمل احیاء کی ذمہ داری فقط علماء دین اور مدارس دینیہ کی ہے، یااس میں عام مسلمانوں کو شریک وسہیم ہونا چاہیے؟ حالانکہ مشاہدہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ عوام مدارس کی حمایت میں جان ومال فدا کررہے ہیں؛ مگر ان کی طرف سے تہذیبی وتشخصی رفعت کے لیے کوئی بھی والہانہ رجوع نہیں ہوتا، جو یقینا افسوسناک ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلم اُمّہ دینی مدارس کی مالی اپیلوں پر امداد اور تعاون کرتی ہے؛ مگر افسوس ان کی دعوتی وثقافتی گذارشوں پر کان نہیں دھرتے۔ افسوس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن علامتوں کو اسلامی ثقافت کہا جاتا ہے، آج یہ پروپیگنڈہ کرکے اس کا ثبوت حدیث وقرآن میں مذکور نہیں ہے اسے دیوار ذہول میں چننے کی سازش خود امت مسلمہ کے ہاتھوں انجام پارہی ہے۔ مثلاً لباس اس کی شرعی حیثیت سے قطع نظر اس کی ثقافتی وتہذیبی حیثیت مسلم ہے۔ تیرہ صدیاں گذرگئیں اور علماء وصالحین اور عام مسلمانوں کا لباس کرتا، پائجامہ، جبہ، ٹوپی اور عمامہ پر مشتمل رہا ہے؛ مگر آج جب کہ اسلامی ثقافت کے زوال کی آخری کڑیاں جوڑی جارہی ہیں،اس دور میں اسلامی تہذیب کا بول بالا کیا ایک مسلمان کی شناخت بھی مشکل ہوگئی ہے، یقینا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
ٹوپی اور عمامہ:
اسلامی ثقافت کا یہ حصہ تو معدوم ہونے کے قریب ہے، اب صرف اسے نمازوں تک محدود کردیاگیا ہے؛ بلکہ اب تو نمازوں میں بھی اس کی اہمیت جواز کی شکل میں ختم کی جارہی ہے اور جہاں تک بات ہے عمامہ کی تو اس کا استعمال بھی انھیں مراکز میں موجود ہے۔
اسلامی طرز گفتگو:
یہ بھی اسلامی ثقافت کا اہم تر حصہ ہے، صحیح جملہ، مناسب طرزِ تکلم، میانہ روی، عدمِ تشدد، شیریں کلامی، خیر وبھلائی پر مبنی مجلس اور اسی طرح رواداری کے ساتھ محادثہ، یہ اسلامی تہذیب کی خاص شناخت ہے؛ مگر افسوس کہ آج ہماری امت ان تمام چیزوں سے محروم ہے، انھیں آداب گفتگو سے ذرا بھی واقفیت نہیں، اگرہے تو اس کا استعمال ان کے لیے ناگوار ہے۔ تجارت، زراعت، قرابت اور سماجی زندگی کی ہر جہت میں ان کے غلط طرز کلام سے جہاں غیرتکلیف محسوس کرتے ہیں، وہیں خود مسلم عوام بھی، مگر دینی مدارس میں صحیح تر آدابِ گفتگو آج بھی اپنی زندہ اور وجیہہ شکل میں باقی ہے۔
وضع قطع:
یہ اسلامی شناخت کی سب سے خاص علامت ہے، جس کی طرف امت مسلمہ توجہ کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان کی شناخت مشکل ہوگئی ہے۔ افسوس ہے کہ امت مسلمہ نے اپنی صحیح شناخت کھودی ہے، آج ہمارے مسلم ہونے کا ثبوت اس بات سے کبھی نہیں ملتا کہ اس میں اسلامی ثقافت کی جھلک ہے یا وہ اسلامی وضع قطع کا حامل ہے؛ البتہ گندگی، غلاظت، بھونڈا طرزِ تکلم، اعتماد شکنی کی عادت،قبیح اور غیرسماجی حرکات کا ارتکاب اور خفیف وثقیل منشیات کے استعمال سے مسلم شناخت مکمل ہورہی ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا بحران ہے، اس بحران کے زمانے میں دینی مدارس نے اسلامی ثقافت کے احیاء کا بیڑہ اٹھایا اور الحمدللہ وہ اس میں کامیاب ہے،اور اس راہ میں ہزاروں رکاوٹوں کے باوجود وہ اپنے مقاصد کی طرف پورے وثوق اور برداشت سے رواں دواں ہے۔ دعاء ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ دینی مدارس کی حفاظت فرمائے اور اس کے مقاصد کی تکمیل کی توفیق عنایت فرمائے۔
***
———————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 10-11 ، جلد: 96 ، ذی الحجہ 1433 ہجری، محرم 1434 ہجری مطابق اکتوبر – نومبر 2012ء