قرآن حکیم کے ترجمے کے اصول و قوانین اور ترجمہ نگاری کی روایت کا تسلسل (۲/۲)

از: مفتی عبدالخالق آزاد شیخ الحدیث والتفسیر ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ، لاہور، پاکستان

ترجمہ نگاری کے بنیادی اصول و قوانین:

                حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے ترجمہ نگاری کے اسالیب کا تحلیل و تجزیہ کرکے جس جامع اسلوب اور بامحاورہ سلیس ترجمہ نگاری کی نشان دہی کی ہے، اس کے بنیادی نکات اور اصول و قوانین درجِ ذیل ہیں:

                ۱-            اصل متن کے الفاظ میں جس قدر جامعیت اور جملوں کی ترتیب و ترکیب میں جیسا نظم و ضبط پایا جاتا ہو، ترجمہ کی جانے والی زبان میں الفاظ کی اُسی قدر جامعیت اور جملوں کی نظم و ترتیب ہونی چاہیے۔

                ۲-           ہر زبان میں فعل کے متعلقات و صلات مختلف منہج رکھتے ہیں۔ ترجمے کے وقت افعال کے ایسے متعلقات و صلات کو صحیح طور پر سمجھا جائے۔ اور جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے، اس کے جملوں میں ان متعلقات و صلات کا پورا اِستعمال کیا جانا چاہیے۔

                ۳-          اگر کسی زبان میں استعمال کیے جانے والے جملے اور اس کی ترکیب کی، دوسری زبان میں کوئی مثال اور نظیر موجود نہ ہو یا مثال تو موجو ہو؛ لیکن اس سے لفظی پیچیدگی پیدا ہوتی ہو یا فصاحت و بلاغت کا خون ہوتا ہو تو پھر ایسے مقامات پر اصل زبان میں استعمال ہونے والے الفاظ کے کسی مترادف لفظ کو پیش نظر رکھا جائے اور اس مترادف لفظ کا ترجمہ کردیا جائے۔

                ۴-          ترجمے میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ زبان کی ساخت کے اعتبار سے جس لفظ یا جملے کا پہلے ذکر کیا جانا ضروری ہے، اسے پہلے ذکر کیا جائے۔ اُسے بعد میں ہرگز نہ لایا جائے۔

                ۵-           جس لفظ کو بعد میں لکھا جانا ضروری ہے، اسے بعد میں لایا جائے، پہلے نہ لکھا جائے۔

                ۶-           اصل متن کی عبارت میں اگر کوئی لفظ محذوف ہے اور اس کے بغیر ترجمہ ممکن نہیں، تو ترجمے میں اس کو ظاہر کردینا ضروری ہے۔

                ۷-          ترجمے میں ضرورت سے زائد الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے۔

                ۸-          ترجمہ نگاری میں نحوی ترکیب اور گرامر کے اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے۔

                ۹-           ترجمہ نگاری میں اگر کسی جگہ متکلم کی مراد سمجھانے میں دشواری پیش آئے تو ہر ممکن حد تک اس کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خواہ درجِ ذیل تبدیلیاں کیوں نہ کرنی پڑیں:

                (الف)                     الفاظ کی تقدیم و تاخیر

                (ب)                        کسی حرف کا زیادہ کرنا

                (ج)                         کسی محذوف کو ظاہر کرنا

                (د)                           معطوف کے عامل کو دوبارہ ذکر کرنا

                (ھ)                          کسی ضمیر کو ظاہر کرنا

                ۱۰-         اگر جملے کی ساخت ایسی ہو کہ مذکورہ بالا طریقوں سے مفہوم کا سمجھانا، گرامر کے اصول پر درست نہ ہو تو پھر الفاظ کا ترجمہ بیان کرنے کے بعد اس کے معنی کا مفہوم بیان کرنے کے لیے ”یعنی“ یا ”مراد یہ ہے کہ“ کا لفظ لا کر اس کی وضاحت کردی جائے۔

                ۱۱-          ترجمہ نگاری کرتے ہوئے اگر جملے میں موجود کسی قید کا ذکر کیا جائے یا کسی جملے کے مفہوم میں جو افراد شامل ہیں، ان کی وضاحت کی جائے، یا کسی رَمز و کنایہ کی وضاحت کی جائے یا کسی تعریض و اشارے کو کھول کر بیان کیا جائے یا کسی مبہم لفظ کی وضاحت کی جائے تو ایسی صورت میں اِسے بیان کرنے کے لیے، لفظ ”یعنی“ یا ”مراد یہ ہے کہ“ استعمال کیا جائے؛ تاکہ پتا چلے کہ یہ وضاحت و توضیح اصل کلام کا حصہ نہیں ہے؛ بلکہ اسے مذکورہ بالا طریقوں کے مطابق سمجھایا گیا ہے۔

                ۱۲-         دونوں زبانوں کی ساخت کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اندازِ گفتگو اور طرزِ کلام میں موجود اسلوب کے اختلاف کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔

                ۱۳-         دونوں زبانوں میں موجود مختلف انداز و اسلوب کی وجہ سے ترجمہ کرتے وقت اگر مجبوراً ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف لانا پڑے تو کوئی حرج نہیں؛ اس لیے کہ ضرورت ایجاد کے ماں ہے۔

                مندرجہ بالا اصول و قوانین ہیں، جنھیں شاہ صاحب نے ترجمہ نگاری کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ ترجمہ نگاری کے حوالے سے یہ جو گفتگو کی گئی ہے، انتہائی اجمالی ہے۔ یہ تفصیلات کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر تھوڑی سی توجہ دے کر ان اصولوں پر غور کرلیا جائے تو بات واضح ہو کر سامنے آجائے گی؛ چناں چہ شاہ صاحب ان اصولوں کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

”کلمہ است مجملہ، بسطے مے طلبد، اندکے خاطر را بآں متوجہ باید ساخت۔“

                ”یہ کلمات اجمالی طور پر بیان کیے گئے ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کی طرف تھوڑی سی توجہ کرنا چاہیے۔“

فارسی زبان کے الفاظ و تراکیب کے استعمال کے قوانین:

                ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کی دوسری فصل میں ترجمہ نگاری کے مندرجہ بالا اسلوب اور اس کے قوانین کی روشنی میں فارسی زبان کی ترکیبی ساخت اور اس میں استعمال ہونے والے جملہ اسمیہ اور فعلیہ کے ارکان: علاماتِ اسناد، مفعول بہ، مفعول مطلق، مفعول لہ، مفعول فیہ، مفعول معہ، حال، تمیز وغیرہ کی بنیادی ساخت اور ان کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ کی نشان دہی کی ہے۔ اور اس سلسلے میں بہت سے نئے نکات بیان کیے ہیں اور ترجمہ کرنے والوں کی بہت سی الجھنوں کو دور کیا ہے۔

ان اصول و قوانین کی روشنی میں فارسی ترجمہ ”فتح الرحمن“ کی تکمیل:

                شاہ صاحب نے ترجمہ نگاری کے مذکورہ بالا جامع اسلوب اور اس کے اصول و قوانین کی روشنی میں فارسی زبان میں قرآن حکیم کا ترجمہ ”فتح الرحمن بترجمة الرحمن“ لکھنا شروع کیا۔ اور حرمین شریفین کے سفر سے پہلے انھیں اصولوں پر سورة البقرہ اور آلِ عمران کا ترجمہ مکمل کیا۔ حج سے واپس تشریف لانے کے بعد مختلف وقفوں سے ترجمہٴ قرآن کا یہ سلسلہ چلتا رہا حتیٰ کہ شروع شعبان 1151ھ میں اس کا مسودہ مکمل ہوا۔ اور پھر ایک ماہ میں شروع رمضان 1151ھ / دسمبر 1738ء میں ترجمے کے اصل مسودے کو صاف کرکے اس کے مبیّضے کی تکمیل ہوگئی، اس کے بعد بھی ترجمہ تقریباً پانچ سال تک عام لوگوں کے سامنے نہیں آیا۔ 1156ھ / 1743ء میں حضرت شاہ صاحب کے خاص شاگرد خواجہ محمد امین کشمیری ولی اللّٰہی کی کوشش سے اس ترجمے کی اشاعت کا سلسلہ آگے بڑھا۔ اور اس کی نقلیں عام لوگوں تک پہنچیں؛ چناں چہ امام شاہ ولی اللہ دہلوی ”فتح “ کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں:

                ”کَانَ خَتْمُ التَّسْوِیدِ أوائلِ شَعْبَانَ وَخَتْمُ التَّبْیِیْضِ فِي أوائلِ رَمَضَانَ ۱۱۵۱ھ (دسمبر 1738ء) بعد ازاں در سنہ ستّ و خمسین بإہتمامِ برادرِ دینی عزیزالقدر خواجہ محمّد امین (کشمیری) اکرمہ اللہ تعالٰی بشہودہ، آں کتاب را رواجے پیدا شد․ و در حیّز مداولت آمد و نسخ متعددة گشت و اہل عصر بآں اقبال نمودند․ نظم:

للہ الحمد کہ آں نقش کہ خاطر مے بست

آمد آخر پسِ پردہٴ تقدیر پدید

                ”فتح الرحمن کے مسودے کی تکمیل شروع شعبان (1151ء) میں ہوئی۔ اور مسودے کو صاف کرکے اس کا مبیّضہ شروع رمضان 1151ھ (دسمبر 1738ء) میں تیار ہوا۔ اس کے بعد 1156ھ (1743ء) میں دینی بھائی عزیزالقدر خواجہ محمد امین (کشمیری)  اللہ تعالیٰ ان کو اپنے شہود کی نعمت سے عزت بخشے! کے اہتمام اور جدوجہد سے اس کتاب کا رواج پیدا ہوا اور یہ پڑھنے پڑھانے میں آئی۔ اور اس کے متعدد نسخے اطراف میں پھیل گئے۔ اور اس زمانے کے لوگوں نے اس کی طرف اپنی توجہ کی۔ نظم:

                اللہ کی حمد و ثنا ہے کہ ترجمے کا جو نقشہ اور معیار ذہن میں قائم ہوا تھا، بالآخر وہ پردہٴ تقدیر کے پیچھے سے ظاہر ہوگیا۔“ (22)

                اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نے ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کی تصنیف کے 15 سال بعد، غالباً 1156ھ / 1743ء ”فتح الرّحمٰن“ کا یہ مقدمہ اور اس کا دیباچہ لکھا ہے۔ اس رسالے کی دوسری فصل کے اصول و قوانین کو ”فتح الرّحمٰن“ کے مقدمے کے آخر میں شامل کردیا۔

شاہ صاحب کے نزدیک اسلوبِ ترجمہ کے اصول و قوانین کی اہمیت:

                شاہ صاحب کے نزدیک ترجمہ نگاری کے اس اسلوب اور ان اصول و قوانین کی اتنی اہمیت رہی ہے کہ اگرچہ آپ نے بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے ذہن میں قائم شدہ معیار کے مطابق قرآن حکیم کا ترجمہ کیا؛ لیکن اپنی گوناگوں مصروفیات کے سبب شاہ صاحب ان اصولوں کی روشنی میں خود اپنے ترجمہٴ قرآن حکیم پر مکمل طور پر نظرثانی کا کام نہیں کرسکے۔ اس لیے ترجمہ قرآن کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے شاہ صاحب نے اپنے شاگردوں اور متعلقین کو حکم دیا کہ اگر کہیں کسی مقام پر ان اصولوں کی روشنی میں ترجمہ نہ ہوسکا ہو تو ”یارانِ سعادت مند“ کو چاہیے کہ وہ اس کی اصلاح میں کوشش کریں؛ چناں چہ شاہ صاحب ”فتح الرّحمٰن“ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

                ”چوں ایں فقیر خوض در ترجمہ بدوں معاونت کسے و بدوں رجوع کتابے کردہ است، و در اوقاتِ مختلفہ باوجود اشتغالِ بال بسائر ِعلوم محرر نمودہ، احتمال دارد کہ در بعض مواضع وفا بایں التزامات متحقق نہ شدہ باشد۔ یارانِ سعادت مند کہ آں قواعد را مستحضر داشتہ باشند بحکمِ اخوتِ دینی نصیحت را منظورِ نظر دارم و در اصلاحِ آں کوشند۔“ (23)

                ”چوں کہ اس فقیر نے کسی دوسرے کے تعاون اور کسی کتاب کی طرف رجوع کیے بغیر، قرآن کے اس ترجمے میں غور و خوض کیا ہے، نیز یہ ترجمہ باقی دیگر علوم میں مشغولیت کے ہوتے ہوئے، مختلف اوقات میں تحریر کیا گیا ہے؛ اس لیے بہت ممکن ہے کہ بعض مقامات میں ترجمہ نگاری کے ان قوانین کی پابندی نہ کی جاسکی ہو۔ سعادت مند دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان قواعد اور قوانین کو اچھی طرح یاد کرلیں اور ان قوانین کی روشنی میں اخوتِ دینی کا تقاضا سمجھتے ہوئے ترجمے کی اصلاح کی کوشش کریں۔“

ترجمہٴ قرآن کے سلسلے میں چند مزید اصول:

                قرآن حکیم کے ترجمے کو عام فہم بنانے اور اس سلسلے میں احتیاط کے پیش نظر شاہ صاحب نے ”فتح الرّحمٰن“ کے مقدمے میں چند ایک اصولوں کی مزید نشان دہی بھی کی ہے:

                ۱-             قرآن حکیم کا ترجمہ لکھنے والے کاتبوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن حکیم کی عبارت نمایاں خط اور پورے اعراب کے ساتھ لکھیں۔ اور ترجمے کو سرخ روشنائی سے الگ اور ممتاز کرکے لکھیں۔ اور اس بات کی احتیاط کریں کہ ترجمہ کے الفاظ اصل قرآن کا حصہ بن کر تحریف کی صورت اختیار نہ کرسکیں۔

                ۲-            جہاں کہیں ایسا اشتباہ پیدا ہونے کا احتمال ہو، تو پورے جملے اور کلام کو سرخ نقطے کے ذریعے بعد میں آنے والی عبارت سے الگ کرکے لکھیں۔

                ۳-          مرکب اضافی اور مرکب توصیفی کو مضاف اور موصوف کے نیچے زیر لگا کر نمایاں کریں؛ تاکہ ابتدائی پڑھنے والے لوگوں کو سمجھنے میں دُشواری نہ ہو۔

                ۴-          اگر ابتدائی پڑھنے والوں کے لیے لفظی ترجمہ نامانوس لگے، یا بچوں کے ذہنوں کو اس کے سمجھنے میں مشکل پیش آئے تو ان قوانین کو یاد رکھنے والے سعادت مند دوست ایسے الفاظ کے معنی حاشیے میں لکھ دیں؛ تاکہ کسی بھی فرد کو بات سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

                اس طرح شاہ صاحب نے اس رسالے میں ترجمہ نگاری کے تمام پہلووٴں کا احاطہ کرتے ہوئے اس کا بھرپور تحلیل و تجزیہ کیا ہے۔ اور ترجمے کے ایک نئے اور جامع اسلوبِ نگارش کی طرح ڈالی ہے۔

ترجمہ نگاری کے حوالے سے شاہ صاحب کے بیان کردہ اصولوں کی جامعیت:

                ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ کا مطالعہ اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی نے ترجمے سے متعلقہ امور پر حقائق کے تناظر میں غور و فکر کیا ہے۔ اور اس حوالے سے معروضی اندازِ فکر اپنایا ہے۔ شاہ صاحب کا یہ عمومی طرزِ فکر و عمل ہے کہ کسی بھی موضوع پر کام کرتے ہوئے اُس موضوع سے متعلق بنیادی حقائق کا معروضی انداز میں مطالعہ و مشاہدہ کرتے ہیں۔ متعلقہ موضوع کے بنیادی پہلووٴں کو قطعاً نظرانداز نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں چھوٹے سے چھوٹا پہلو آپ کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ معاملات اور امور کو محض تصوراتی اور نظریاتی انداز کے بجائے عملی حقائق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور ان کا حل بھی اسی معروضی انداز میں سوچتے ہیں۔ عملی مشکلات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اور انھیں حل کرنے کے عملی اصول و قوانین اور طریقے وضع کرتے ہیں۔ ترجمے سے متعلقہ امور پر بھی شاہ صاحب نے جامعیت کے ساتھ نظردوڑائی ہے۔ اور ترجمے کا ایک ایسا اسلوب متعارف کرایا ہے، جو اس سے متعلقہ تمام امور کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کوئی پہلو شاہ صاحب کی نظر سے اوجھل نہیں رہا۔ ہر پہلو کے حوالے سے بنیادی اصول و ضوابط متعین کردیے ہیں۔ باقی جہاں تک تفصیلات کا تعلق ہے، وہ آپ کے صاحبزادگان اور ولی اللّٰہی سلسلے کے خوشہ چین حضرات نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کردی ہیں۔ ولی اللّٰہی سلسلے کے علماء کے بعد کے اردو تراجم انھیں اصولوں کی تفصیلات و تشریحات پر مشتمل ہیں۔

اس اسلوب اور قوانین پر ترجمہ نگاری کی روایت کا تسلسل:

                حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی نے ترجمہ نگاری کے جس جامع اسلوب کی نشان دہی کی اور اس کے اصول و قوانین بیان فرمائے، ان کو سامنے رکھتے ہوئے ولی اللّٰہی مکتبہٴ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے ربانیّین نے قرآن حکیم کے ترجمے کیے۔ فارسی زبان میں تو خود حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی نے انھی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے 1151ھ / 1738ء میں ترجمہ کردیا تھا۔ اور جب پچاس سال بعد اردو زبان رائج ہوگئی تو انھیں قوانین اور ضوابط کو سامنے رکھتے ہوئے ترجمہ نگاری کی اس روایت کو آپ کے صاحبزادگان نے آگے بڑھایا۔

شاہ عبدالقادر دہلوی کا بامحاورہ اردو ترجمہ ”مُوضحِ قرآن“:

                حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی کی متعین کردہ ترجمہ نگاری کی اس روایت اور اسلوب کی روشنی میں حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی نے سلیس اردو زبان میں ”بامحاورہ ترجمہ“ کیا۔ اور اس کا تاریخی نام سن تالیف 1205ھ کی بنیاد پر ”مُوضحِ قرآن“ رکھا۔ اردو زبان میں یہ ایسا ہی جامع ترجمہ ہے، جیسا کہ فارسی زبان میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی کا ترجمہ تھا؛ چناں چہ حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی ”مُوضحِ قرآن“ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

                ”اس بندہٴ عاجز عبدالقادر کو خیال آیا کہ جس طرح ہمارے والد بزرگوار حضرت شیخ ولی اللہ بن عبدالرحیم محدث دہلوی ترجمہ فارسی کر گئے ہیں، سہل اور آسان، اب ہندی (اردو) زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرے۔ الحمدللہ! کہ بارہ سو پانچ 1205ھ میں یہ میسر ہوا۔ ․․․․․․ اور اس کتاب کا نام ”موضح قرآن“ ہے۔ یہی اس کی صفت ہے۔ اور یہی اس کی ”1205“ تاریخ ہے۔“ (24)

                حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی اور حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کے اِن تراجم کے بارے میں سب سے بہترین تبصرہ وہ ہے، جو حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن نے کیا ہے۔ ان تراجم کی روشنی میں حضرت شیخ الہند ترجمہ نگاری کی اس روایت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

                ”حضرت مولانا شاہ ولی اللہ اور مولانا شاہ رفیع الدین اور مولانا شاہ عبدالقادر قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے تراجم کو جب غور سے دیکھا تو یہ امر تو بے تأمّل معلوم ہوگیا کہ اگر یہ مقدسین اکابر قرآن شریف کی اس ضروری خدمات کو انجام نہ دے جاتے تو اس شدتِ ضرورت کے وقت میں ترجمہ کرنا بہت دشوار ہوتا۔ علماء کو صحیح اور معتبر ترجمہ کرنے کے لیے متعدد تفاسیر کا مطالعہ کرنا پڑتا۔ اور بہت ہی فکر کرنا ہوتا۔ اور ان دقتوں کے بعد بھی شاید ایسا ترجمہ نہ کرسکتے،جیسا اب کرسکتے ہیں۔ ․․․ حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ کو دیکھیے کہ اس بے نظیر علمی اور عملی کمالات پر جو انھوں نے اپنے اوپر حق سبحانہ و تعالیٰ کے انعامات متعدد رسالوں میں بیان فرمائے، ان انعاماتِ عظیمہ میں یہ ترجمہ مسمی بہ ”فتح الرحمٰن“ بھی داخل ہے۔ اور عاجز نے اپنے بعض مرحوم بزرگواروں سے سنا ہے کہ مولانا شاہ عبدالقادر رحمة اللہ علیہ جب ”مُوضح قرآن“ لکھ چکے تو فارسی کا اِک شعر تھوڑا سا تصرف کرکے اس طرح پڑھتے تھے (25):

روزِ قیامت ہر کسے باخویش دارد نامہ

من نیز حاضر مے شوم تفسیر قرآں در بغل

                ”قیامت کے دن ہر کوئی اپنا نامہٴ اعمال لے کر آئے گا۔ میں بھی اپنے بغل میں تفسیر قرآن لے کر حاضر ہوں گا۔“

اردو ترجمہ نگاری کے اصول و قوانین:

                حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی نے نہ صرف اردو زبان میں بامحاورہ ترجمہ کیا؛ بلکہ اس حوالے سے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی کے بتلائے ہوئے اصول و قوانین کی روشنی میں اردو زبان کے قوانینِ ترجمہ کی نشان دہی کی۔ اس حوالے سے کچھ امور کی نشان دہی خود حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی نے ”موضحِ قرآن“ کے مقدمے میں کی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی لکھتے ہیں:

                ”اب کئی باتیں معلوم رکھیے:

                ۱-            اول: یہ کہ اس جگہ ترجمہ لفظ بہ لفظ ضروری نہیں؛ کیوں کہ ترکیب ہندی (اردو) ترکیب عربی سے بہت بعید ہے، اگر بعینہ وہ ترکیب رہے تو معنی مفہوم نہ ہوں۔

                ۲-           دوسرے: یہ کہ اس میں زبانِ ریختہ نہیں بولی؛ بلکہ ہندی (اردو) متعارف تا عوام کو بے تکلف دریافت ہو۔

                ۳-          تیسرے: یہ کہ ہر چند ہندوستانیوں کو معنی قرآن اس سے آسان ہوئے؛ لیکن ابی (ابھی) استاد سے سند کرنا لازم ہے۔ (اس لیے کہ:)

                (الف) اوّل: معنیٴ قرآن بغیر سند معتبر نہیں۔

                (ب)        دوسرے: ربط ِکلام ماقبل و مابعد (بات کا آگے پیچھے سے ربط) پہچاننا اور قطعِ کلام (بات کو غلط جگہ پر توڑنے) سے بچنا بغیر استاد نہیں آتا؛ چناں چہ قرآن زبانِ عربی ہے۔ اور عرب بی (بھی) محتاجِ استاد تھے۔

                ۴-          چوتھے: یہ کہ اول فقط قرآن ترجمہ ہوا تھا، بعد اس کے لوگوں نے خواہش کی تو بعضے فوائد بی (بھی) متعلق تفسیر داخل کیے، اس فائدے کے امتیاز کو صرف ”ف“ نشان رکھا۔ اگر کوئی مختصر چاہے، صرف ترجمہ لکھے۔ اگر مفصل چاہے، فوائد بی (بھی) داخل کرے۔

                باقی قواعد خط ِہندی (اردو) کہنے میں طول (بات لمبی ہوجانے کا ڈر) ہے۔ استاد سے معلوم ہوں گے؛ البتہ ہندی (اردو) میں بعضی چیز (اس طرح) لکھتے ہیں کہ فارسی میں نہیں (لکھتے۔) اس سبب سے فارسی خوان اول (شروع میں) اٹکتا ہے۔ دو جزو (سپارے ترجمہ) دیکھے تو ماہر ہوجاوے۔“ (26)

                ”موضحِ قرآن“ کے عمیق مطالعے کے بعد حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن نے اس ترجمے میں پیش نظر رکھے گئے ترجمہ نگاری کے بنیادی اصول و قوانین کی نشان دہی کی ہے۔ حضرت شیخ الہند اپنے ترجمے ”موضحِ فرقانِ حمید“ کے مقدمے میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان اصول و قوانین کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ”المقدمہ فی قوانین الترجمہ“ میں بیان کردہ اسلوب و قوانین کی صدائے بازگشت اور اس کی تشریح و تفصیل ہے۔ حضرت شیخ الہند کے اَخذ کردہ ان اصولوں کی تلخیص درجِ ذیل ہے:

                (۱)          حضرت شاہ صاحب ترتیب ِقرآنی کا بہت خیال رکھتے ہیں اور اصل اور ترجمے کی مطابقت میں بہت زیادہ سعی فرماتے ہیں، مگر چوں کہ ترجمہ بامحاورہ کا اِلتزام کیا ہے؛ اس لیے بضرورت توضیح وتسہیل اور بعض مواقع میں تقدیم و تاخیر لازم ہے؛ مگر جیسا کہ آٹے میں نمک۔ یہ نہیں کہ آخر کا ترجمہ اول اور اول کا آخر ہوجائے۔ ․․․ دیکھیے عربی زبان میں مضاف کو مقدم ذکر کرتے ہیں۔ اور اردو کا محاورہ یہ ہے کہ مضاف الیہ کو مقدم کرتے ہیں۔ وہ (عرب) ”غلامُ زیدٍ“ کہتے ہیں۔ تو ان (اردو زبان بولنے والوں) کے محاورے میں ”زید کا غلام“ کہیں گے۔ تو ترتیب تو بدل گئی؛ مگر دونوں کلمے متصل ہی رہے۔ ․․․ حضرت شاہ صاحب کی احتیاط قابلِ تحسین اور لائقِ قدر ہے کہ اس پر بھی ہر جگہ مضاف الیہ کو مقدم نہیں کرتے؛ بلکہ جہاں ترجمے میں ذرا سی گنجائش مل جاتی ہے، وہاں اتنے قلیل تغیر کو بھی پسند نہیں کرتے، ترتیب ِقرآنی ہی کو اختیار فرماتے ہیں۔ جیسے ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن“ میں ”رَبِّ العالمین“ مضاف مضاف الیہ مل کر صفت واقع ہوئے ہیں۔ اس کے ترجمے میں یہ گنجائش نکل آئی کہ ترجمہ محاورے کے خلاف بھی نہ ہو، اور کلامِ الٰہی کی ترتیب بھی باقی رہے؛ اس لیے ”رب العالمین“ کا ترجمہ ”جو پالنے والا سارے جہاں کا“ اصلی ترتیب پر رکھا۔

                (۲)         بعینہ یہی حال ہے فعل، فاعل، مفعول اور جمیع متعلقاتِ فعل کا۔ اور صفت، موصوف، حال اور تمیز وغیرہ کا بھی یہی حال ہے کہ اکثر مواقع میں ترتیب کی موافقت فرماتے ہیں۔ اور بہت سے مواقع میں مذکورہ بالا طریقے پر اسی تغیر لطیف (چھوٹی سی تبدیلی) سے کام لیتے ہیں۔

                (۳)         اور سنیے! حروفِ روابط، جن کو ”حروفِ جر“ بھی کہتے ہیں، جیسے ل، ب، علٰی، إلٰی، مِن، فِی بہت کثرت سے مستعمل ہیں؛ مگر کلامِ عرب میں یہ حروف ہمیشہ اپنے معمول پر مقدم ہوتے ہیں۔ اور محاورے میں علی العموم موٴخر بولے جاتے ہیں؛ مگر شاذ و نادر؛ لیکن ان میں بعض تو ایسے ہیں کہ ان کا موٴخر ہونا ضروری ہے۔ ہماری زبان میں ان کو مقدم لانے کی کوئی صورت ہی نہیں، جیسے ”مِن“ اور ”عَن“ سب کو معلوم ہے کہ ”ممّا رزقناہم“ کے ترجمے میں اردو زبان کے اندر ممکن نہیں کہ ”مِن“ کا ترجمہ مقدم ہوسکے۔ اور ترتیب ِقرآنی کی موافقت کی جاسکے۔

                (۴)         حضرت شاہ صاحب جگہ جگہ ترتیب میں تصرف کرتے ہیں؛ مگر جچا تُلا بقدرِ ضرورت اور عندالحاجت (مجبوری میں) نہایت غور اور احتیاط کے ساتھ جس کی وجہ سے حضرت ممدوح علیہ الرحمة کا ترجمہ جیسے استعمالاتِ محاورات میں بے نظیر سمجھا جاتا ہے، ویسے ہی باوجود پابندیِ محاورہ قلت ِتغیر اور خفت ِتبدل (بہت کم تبدیلی) میں بھی بے مثل ہے۔

                (۵)         شاہ صاحب اس کے سوا بعض تصرفاتِ خفیفہ مفیدہ (مختصر اور مفید تبدیلیاں) اور بھی کر جاتے ہیں۔ مثلاً ترجمے میں کوئی لفظ بڑھا دیتے ہیں۔ جس سے مطلب واضح ہوجائے، یا مرادِ خداوندی معین ہوجائے۔

                (۶)          ایسے ہی ترجمے میں بعض الفاظ کو چھوڑ بھی جاتے ہیں۔ مثلاً بعض مواقع میں لفظ ”إنّ“ کا ترجمہ نہیں کرتے۔ ”یاأبتِ“ کے ترجمے میں ”اے میرے باپ“ نہیں کہتے، صرف ”اے باپ“ پر قناعت کرتے ہیں۔ ”یا بُنیّ“ کا ترجمہ ”اے میرے چھوٹے بیٹے“ کی جگہ فقط ”اے بیٹے“ فرمایا ہے۔

                (۷)         شاہ صاحب ترجمے میں اختصار و سہولت اور الفاظِ قرآنی کی لفظی اور معنوی موافقت اور صرف لغوی معنی پر بس نہیں؛ بلکہ معنیٴ مرادی اور غرضِ اصلی کا ہر موقع میں بہت لحاظ رکھتے ہیں۔ اور ترجمے میں کبھی ایسا لفظ لاتے ہیں، جس کی وجہ سے اگر کسی قسم کا اِجمال اور اِشکال ہو تو زائل ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات ایک لفظ کا ترجمہ ایک جگہ کچھ فرماتے ہیں، دوسری جگہ کچھ اور؛ حال آں کہ معنی لغوی اس لفظ کے ایک ہی ہیں؛ مگر ہر مقام کے مناسب جدا جدا عنوان سے بیان فرماتے ہیں۔ جس سے قرآن کی غرض اور مراد سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اسی سہولت اور وضاحت کی رعایت سے کبھی مضمون ایجابی کو عنوان سلبی میں ادا کرتے ہیں۔

                (۸)         اکثر مواقع میں نفی اور استثنا کا جدا جدا ترجمہ نہیں کرتے؛ بلکہ حصر، جو اس سے مقصود ہے، اس کو مختصر ہلکے لفظوں میں محاورے کے موافق بیان کر جاتے ہیں۔

                (۹)          حال، تمیز، بدل وغیرہ حتیٰ کہ مفعولِ مطلق کے عنوانات کی رعایت رکھتے ہیں اور خوبی یہ ہے کہ ارود کے محاورے کے موافق بالجملہ الفاظ اور معانی دونوں کے متعلق بوجوہِ متعدد بہت غور اور رعایت سے کام لیا گیا ہے۔ اور مطالب و مقاصد کی تسہیل اور توضیح میں پورے خوض اور احتیاط کو ملحوظ رکھا ہے۔ (27)

بعد کے اردو تراجم پر اس اسلوبِ ترجمہ نگاری کے اثرات:

                حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی نے اپنا ترجمہ قرآن 1205ھ / 1791ء میں کیا۔ اس کے بعد جب اردو زبان 1252ھ / 1836ء میں ہندوستان کی سرکاری عدالتی زبان بنی اور اردو زبان میں لکھنے پڑھنے اور بولنے کا رواج عام ہوا تو اسی زمانے میں شاہ عبدالقادر دہلوی کا اردو ترجمہ چھپا۔ اس سے اردو ترجمہ نگاری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دور میں اہم علمی کتابوں اور قرآن حکیم کے صحیح تراجم میں ترجمہ نگاری کے اسی اسلوب کو آگے بڑھایا گیا۔ خاص طور پر ولی اللّٰہی سلسلے کے علماء نے علمی کتابوں کے تراجم اسی اسلوب پر کیے اور ترجمہ نگاری کی اس روایت کو آگے بڑھایا۔ اہم علمی کتابوں کے تراجم اور شروحات کے حوالے سے امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی لکھتے ہیں:

                ”دیوبندی جماعت کے اماموں نے اردو زبان میں کافی کتابوں کے ترجمے اور شروحات لکھیں؛ چناں چہ شیخ قطب الدین دہلوی نے ”مشکٰوة“ کی شرح (إظہار الحق) لکھی۔ اور اس میں ”مشکٰوة“ کا ترجمہ صدرالحمید مولانا محمداسحاق دہلوی کا ہے۔ مولانا خرم علی نے ”مشارق الأنوار“ کی شرح لکھی۔ ”الدرّالمختار“ کی شرح مولانا محمداحسن نانوتوی نے لکھی۔ جب کہ انھوں نے ”احیاء العلوم“ اور ”کیمیائے سعادت“ کا ترجمہ بھی کیا۔ مولانا محمدیعقوب دیوبندی نے ”منہاج العابدین“ کا ترجمہ کیا۔ اور ”القول الجمیل“ کا ترجمہ شیخ خرم علی بلہوری نے کیا۔ پس لوگوں نے ان حضرات کی اتباع کی۔ اور اب تک دین کے فنون میں سے کوئی فن ایسا نہیں اور اماموں کی کتابوں میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں، جس کا اردو زبان میں ترجمہ نہ ہوچکا ہو۔“ (28)

                اس طرح ترجمہ نگاری کی یہ روایت قرآن حکیم کے تراجم سے شروع ہوکر تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف اور دیگر علوم کی کتابوں کے بامحاورہ اردو ترجمے تک پہنچی۔ اور آج تک اس کا تسلسل جاری ہے؛ یہاں تک کہ بعض وہ حضرات، جنھوں نے قرآن حکیم کے ترجمے کیے اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے بیان کردہ اس اسلوبِ ترجمہ نگاری اور اس کے اصول و قوانین کی پوری پابندی اگرچہ نہیں کی، لیکن پھر بھی بامحاورہ ترجمے کے سلسلے میں انھوں نے ولی اللّٰہی خانوادے کی ترجمہ نگاری کی اس روایت کا اعتراف کیا۔ اور اپنے ترجمے کی مقبولیت کے لیے یہ لکھنا پڑا کہ:

                ”جب ایک خاندان کے ایک چھوڑ تین تین ترجمے لوگوں کو مل گئے، ایک فارسی مولانا شاہ ولی اللہ صاحب کا، اکٹھے دو دو اردو، ایک شاہ عبدالقادر صاحب کا اور ایک شاہ رفیع الدین صاحب کا تو اب ہر ایک کو ترجمے کا حوصلہ ہوگیا؛ مگر خاندانِ شاہ ولی اللہ کے سوا کوئی شخص مترجم ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ․․․

                ․․․ وہ ہر گز مترجم نہیں؛ بلکہ مولانا شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کے بیٹوں کے ترجموں کا مترجم ہے کہ انھیں ترجموں میں اس نے ردو بدل، تقدیم و تاخیر کرکے جدید ترجمے کا نام کردیا ہے۔“ (29)

ترجمہ نگاری کا مذکورہ اسلوب اور حضرت شیخ الہند کا ترجمہٴ قرآن:

                حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کے بعد حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن قدس سرہ نے ترجمہ نگاری کے اس اسلوب کی روایت کو اپنی تمام تر جامعیت کے ساتھ مزید آگے بڑھایا ہے۔ زمانے کے تغیر و تبدل کی وجہ سے اردو زبان میں جو نیا ارتقا سامنے آیا تھا، اور اس کے محاورات میں جو تبدیلی پیدا ہوگئی تھی، اس کے پیش نظر حضرت شیخ الہند نے حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کے ترجمہ ”مُوضحِ قرآن“ کو ضروری تغیر و تبدل کے ساتھ نئے انداز میں پیش کیا۔ اس سلسلے میں حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی کے بیان کردہ مذکورہ بالا اصول وقوانین کو اپنے پیش نظر رکھ کر ایک نیا ترجمہ ”موضحِ فرقانِ حمید“ کے نام سے کیا۔ اور اس کے شروع میں ترجمہ نگاری کے حوالے سے ایک مقدمہ بھی لکھا۔ اس میں ”مُوضحِ قرآن“ پر اپنے کام کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت شیخ الہند لکھتے ہیں:

                ”اصل ترجمہ (مُوضحِ قرآن) کی کیفیت بیان کرنے کے بعد (اس میں) اپنی ترمیم کے متعلق عرض ہے کہ یہ تو پہلے معلوم ہوچکا کہ ترمیم صرف دو امر کے متعلق ہے:

                (الف) لفظ ِمتروک کو بدل دینا

                (ب)        کہیں کہیں حسب ِضرورت اِجمال کو کھول دینا۔

اس کے بعد اتنا اور عرض ہے کہ جس موقع پر ہم کو لفظ بدلنے کی نوبت آئی ہے، وہاں ہم نے یہ نہیں کیا کہ اپنی طرف سے جو مناسب سمجھا بڑھا دیا، نہیں! بلکہ حضراتِ اکابر کے تراجم میں سے لینے کی کوشش کی ہے۔ خود ”موضحِ قرآن“ میں دوسری جگہ کوئی لفظ مل گیا یا حضرت شاہ عبدالقادر صاحب کی اردو تفسیر میں، یا حضرت مولانا رفیع الدین کے ترجمے میں، یا ”فتح الرحمن“ میں، حتی الوسع ان میں سے لینے کو پسند کیا ہے؛ البتہ کچھ مواقع ایسے بھی نکلیں گے، جہاں کسی وجہ سے ہم نے اپنے خیال کے موافق کوئی لفظ داخل کردیا ہے اور جہاں ہم نے کوئی لفظ بدلا ہے، وہاں دونوں باتوں کا خیال رکھا ہے۔ یعنی:

(الف)     لفظ ہلکا، سہل، محاورے کے موافق ہو اور مطابقِ غرض اور موافقِ مقام بھی پورا ہو۔

(ب)        جس جگہ ایسا لفظ ہم کو نہیں ملا، وہاں جانب ِمعنی کو ترجیح دی ہے۔ یعنی لفظ موافق مراد اور مناسب مقام کو اختیار کیا ہے، گو اس میں کسی قدر طول ہو یا لفظ بہت مشہور نہ ہو۔

ہم نے جس جگہ کسی مصلحت سے ترتیب کو بدلا ہے یا کوئی تغیر کیا ہے، تو یہ ضرور لحاظ رکھا ہے کہ اس کی نظیر حضرات اکابر کے تراجم میں موجود ہونی چاہیے۔ ایسا تغیر، جس کی نظیر مقدس حضرات کے تراجم میں نہ ہو، ہم نے کل ترجمے میں جائز نہیں رکھا۔ اتفاق سے اگر کوئی موقع اس غرض کے خلاف ہو تو وہ یقینا ہمارا سہو ہے، یا خطا بالقصد، جان بوجھ کر ہم نے ایسا کہیں نہیں کیا۔ حضرات علماء میں بعض کلماتِ قرآنی کے ترجمے میں باہم کچھ اختلاف ہوا ہے اور بعض آیات کے مطلب میں بھی کچھ نزاع ہے۔ سو ایسے مواقع میں ہم نے حضرت شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ ہی کا اتباع کیا ہے۔ اِلا ماشاء اللہ! کہ کسی موقع پر حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی متابعت اختیار کی ہے۔“ (30)

                حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن نے اپنا یہ ترجمہ 1336ھ میں مکمل کیا۔ اور اس کا نام ”موضحِ فرقانِ حمید“ رکھا۔ چناں چہ حضرت شیخ الہند لکھتے ہیں:

                ”اس (حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کے ترجمے) کا نام ”موضحِ قرآن“ ہے۔ اس کا نام ”موضحِ فرقان“ بہت مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک کے ہیں ایک، اور ہیں دو کے دو، کہنے کو دو اور حقیقت میں ہیں ایک؛ مگر ”موضحِ قرآن“ میں یہ خوبی ہے کہ تاریخی بھی ہے۔ ”موضحِ فرقان“ تاریخی نہیں۔ ہاں گھٹا بڑھا کر کچھ تکلّف کے بعد تاریخی بھی ہوسکتا ہے۔ قطعہ۔# (31)

یاد گارِ عبد القادر                          ترجمہ موضحِ قرآن مجید

وہ کہ آں معدنِ صد خوبی را                           کرد ترمیم اقل العبید

بے شش و پنج بگفتہ محمود               سالِ(32) اُو ”موضحِ فرقانِ حمید“

                ”شاہ عبدالقادر کی یاد گار ترجمہ موضحِ قرآنِ مجید ایسا ہے کہ جو سو خوبیوں کا ایک خزانہ ہے۔ اس میں ایک حقیر بندے نے ترمیم کی ہے۔ محمود نے زیادہ سوچ و بچار کے بغیر اس کا نام موضحِ فرقانِ حمید رکھا۔“

ترجمہ نگاری کے اس اسلوب پر امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کا تجزیہ:

                ترجمہ نگاری کے اس جامع اسلوب اور اس کے بنیادی اصول و قوانین کا صحیح تجزیہ امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے کیا ہے۔ آپ نے تینوں ترجموں یعنی: حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی کے فارسی ترجمہ ”فتح الرّحمٰن“ حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کے اردو ترجمہ ”موضحِ قرآن“ اور شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن کے ترجمہ ”موضحِ فرقانِ حمید“ کی جامع خصوصیات کی نشاندہی کی ہے۔ مولانا سندھی نے ان کی تاریخی حیثیت ، حکیمانہ اُسلوب اور ان کے ترجمہ نگاری کے پس منظر کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے؛ چناں چہ حضرت سندھی بیان فرماتے ہیں:

                ”ہندوستان کی زبان مسلمانی دور میں فارسی تھی، علمی اور سرکاری۔ شاہ (ولی اللہ) صاحب نے قرآنِ حکیم کا فارسی میں ترجمہ کیا؛ جب کہ ہندوستانی سلطنت ختم ہونے پر تھی۔ اور وہ ترجمہ عجمی زبانوں میں جتنے ترجمے ہوئے، ان سب میں بے نظیر تھا۔ میں عربی کافی جانتا ہوں؛ مگر قرآن شریف کا مطلب جو مجھے فارسی ترجمہ پڑھنے سے آتا ہے، وہ عربی تلاوت سے ذہن اخذ نہیں کرتا۔ ہم نے فارسی بچپن میں پڑھی۔ وہ ہماری مادری زبان کے قریب قریب ہوگئی۔ عربی کی ہم نے بڑی عمر میں تحصیل شروع کی۔ اور اسے ہم نے اجنبی زبان کی حیثیت سے سیکھا۔

                اس کے بعد شاہ ولی اللہ صاحب کے بیٹوں نے اردو میں ترجمے شروع کیے؛ اس لیے کہ زمانہ بدلا اور سرکاری زبان بدلی۔ اس میں سب سے اچھا ترجمہ ”موضحِ قرآن“ شاہ عبد القادر (دہلوی) کا ہے۔ اس کی اردو آج بعض حیثیتوں سے متروک ہو رہی تھی۔ میرے استاذ مولانا شیخ الہند (محمود حسن) نے آج کے (دور کے) موافق اس کی اردو درست کردی۔ یہ میرا دوسرا ترجمہ ہے کہ خالی یہ ترجمہ پڑھنے سے جو مطلب سمجھ آتاہے، وہ فارسی میں بھی نہیں آتا؛ اس لیے کہ اس میں جو حکمت کے کلمے ہیں، وہ ٹھیک ٹھیک ترجمہ کردیے گئے ہیں۔ اور حکمت کو حکیم ہی کا دماغ سمجھتا ہے۔

ہمیں اس ترجمہ کے چند اَوراق (شیخ الہند نے) دیوبند میں سنائے ، اصل میں تو آپ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری کو یہ ترجمہ سنارہے تھے، اس طرح ہم کو بھی سننے کا شرف حاصل ہوگیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سنانے میں لگا ،جس میں آپ نے شاہ عبد القادر دہلوی کے ترجمے میں تبدیلیاں کر کے بتائیں، اور بتایا کہ ان کی کیا ضرورت ہے۔

                ایک آیت ہے: ”وَقَالَ مُوْسٰٓی اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّایُوٴْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ“(27:40) جس میں حضرت موسیٰ کہتے ہیں کہ: ”ایسے متکبر سے، جو ”لَایُوٴْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ“(حساب کے دن پر ایمان نہیں رکھتا) ہے، پناہ مانگتا ہوں۔“ اس پر شاہ عبدالقادر ایک فقرہ بڑھاتے ہیں: ”اگر حساب مانتا تو ظلم کیوں کرتا۔“ (33) اس بات کو سمجھنے کے لیے عقل اور حکمت کی ضرورت ہے۔

                ”سورہٴ قٓ“ میں (مشرکین کا اعتراض) ہے: ”ذٰلِکَ رَجْعٌ بَعِیْدٌ“ (3:50) (کیا جب ہم مرچکیں اور ہو جائیں مٹی، یہ پھر آنا بہت دور ہے۔) اس کے جواب میں ہے: ”عِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌ“ (4:50) (ہمارے پاس کتاب ہے، جس میں سب کچھ محفوظ ہے۔) اس پر شاہ صاحب لکھتے ہیں: ”سارا انسان نہیں مرتا۔ بدن مٹی ہوتا ہے۔ جان سلامت رہتی ہے۔ (کتاب حفیظ) جو شخص شاہ ولی اللہ (دہلوی) کی حکمت جانتا ہے، وہ اِسے بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ یعنی جو حصہ جان اور نسمے کا ہے، وہ باقی رہتا ہے۔ پس مٹی کے مٹی میں مل جانے پر قیامت کا انکار کس طرح کیا جاسکتا ہے۔اگر ہم یہ نہ سمجھا سکیں کہ نسمے میں اعمال محفوظ رہتے ہیں اور اس کے ہوتے ہوئے حشرنشر سب ہوسکتا ہے، اس وقت تک اس آیت کا مطلب نہیں سمجھایا جاسکتا۔ اس کا تعلق تو حشر کے ساتھ ہے۔ لیکن جو لوگ کتاب سے مراد ”لوحِ محفوظ“ لیتے ہیں، وہ کس طرح اس کا تعلق حشر کے ساتھ کرسکتے ہیں۔“ (34)

                اس طرح امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے ولی اللّٰہی خانوادے کی ترجمہ نگاری کے بہترین اسلوب اور تفسیری فوائد کی اہمیت، حکمت اور جامعیت کی نشان دہی کی ہے۔ اور اس حقیقت کی وضاحت بھی کی ہے کہ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی سے لے کر شیخ الہند مولانا محمودحسن تک علمائے ربانیّین نے حکمت پر مبنی ترجمہ نگاری کا بہترین اسلوب اختیار کیا ہے۔ اور اس کے ذریعے سے برعظیم پاک و ہند میں رہنے والوں کو قرآنی حکمت و شعور سے سے آگاہ کرنے کے لیے بڑی خدمات سرانجام دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حضرات کی قرآنی خدمات کو صحیح تناظر میں سمجھنے اور قرآن حکیم کا صحیح فہم و شعور نصیب فرمائے۔ اور دنیا اور آخرت کی بھلائی اور فلاح و بہبود عطا فرمائے۔ آمین!

*****

حوالہ جات و حواشی

22-         مقدمہ فتح الرّحمٰن۔ ص:ب۔ مطبوعہ: تاج کمپنی لمیٹڈ، لاہور۔

23-         ایضاً۔ ص:و۔

24-         محاسن موضح قرآن، از مولانا اَخلاق حسین قاسمی دہلوی۔ ص:72-73۔ طبع: ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی۔

25-         مقدمہ موضحِ فرقانِ حمید، از ترجمہ شیخ الہند مولانا محمودحسن۔ ص:809۔ طبع: دارالقرآن، اردو بازار، لاہور۔

26-         محاسن موضح قرآن، از مولانا اَخلاق حسین قاسمی دہلوی۔ ص:72-73۔ طبع: ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی۔

27-         مقدمہ موضحِ فرقانِ حمید، از ترجمہ شیخ الہند مولانا محمودحسن۔ ص:812-13۔ طبع: دارالقرآن، اردو بازار، لاہور۔

28-         التمہید لتعریف ائمّة التجدید، باب: 11۔ فصل نمبر:08۔ از امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی۔ ص:84۔ طبع: حیدرآباد۔

29-         مقدمہ اردو ترجمہ قرآن حکیم، از ڈپٹی نذیراحمد۔ ص:09۔ مطبوعہ: 1314ھ۔

30-         مقدمہ موضحِ فرقانِ حمید، از ترجمہ شیخ الہند مولانا محمودحسن۔ ص:816۔ طبع: دارالقرآن، اردو بازار، لاہور۔

31-         ایضاً۔ ص:817۔

32-         حضرت شیخ الہند کے مطبوعہ مقدمے میں ”سالِ اُو“ چھپا ہوا ہے۔ جب کہ ”موضحِ فرقانِ حمید“ کے عدد 1336 نہیں ہیں۔ جس کی وضاحت چند سطر پہلے خود حضرت نے بھی کی ہے۔ اس لیے ہمارا اندازہ ہے کہ یہاں ”سالِ اُو“ کے بجائے ”نامِ اُو“ تھا۔ جو غالباً کتابت کرنے والوں نے تبدیل کیا ہے۔ (آزاد)

33-         حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کا اصل جملہ یہ ہے، جسے حضرت شیخ الہند نے اپنے فوائد میں نقل کیا ہے: ”جس کو حساب کا یقین ہو، وہ ظلم کاہے کو کرے گا۔“ (دیکھیے! ترجمہ موضح فرقانِ حمید، از حضرت شیخ الہند۔ سورة المومن آیت نمبر 27 پر حاشیہ نمبر04۔

34-         امالی عبیدیہ (قلمی)، از امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی۔ ص:194۔ مکتوبہ مولانا بشیر احمدلدھیانوی۔ ص:206-7۔ مطبوعہ: رتن پبلیکیشنز، اسلام آباد۔

*****

———————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10-11 ‏، جلد: 96 ‏، ذی الحجہ 1433 ہجری‏، محرم 1434 ہجری مطابق اکتوبر – نومبر 2012ء

Related Posts