از: مولانامحمد راشد ڈسکوی استاذ جامعہ فاروقیہ، کراچی

                کچھ عرصہ بعدرمضان المبارک کی آمد ہو گی ،چشمِ تصور میں ایک بار پھر آنکھیں ان مناظر سے ٹھنڈی ہونے کو بے تاب ہیں کہ پانچوں نمازوں کے وقت موٴذن کی پکار پر لبیک کہنے والے جوق درجوق خانہء خدا کی طرف لپکے چلے آتے ہیں،جہاں ایک طرف ہر نماز سے پہلے اور نماز کے بعدمساجد میں خلق خدا کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن حکیم کی تلاوت سے لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہے، تودوسری طرف بہت سے افراد نوافل کی ادائیگی میں مشغول نظر آتے ہیں،اور اس کے ساتھ ساتھ ذکر واذکار سے اپنے سینوں کو منور کرنے والے اور اپنے ربِّ عزَّوجلَّ کے حضور الحاح وزاری کے ساتھ سسکتے ہوئے مناجات میں مشغول افراد کی تعداد بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔

شعبان المعظم میں سرکار ِدو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول:

                اس برکتوں والے ماہِ مبارک کے آنے سے قبل ”شعبان المعظم“میں ہی سرکارِ دو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے استقبال کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں اضافہ ہو جاتا،نہ صرف خود بلکہ اس فکر میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو بھی شریک فرماتے تھے۔

                آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ”رمضان المبارک “کے ساتھ اُنس پیدا کرنے کے لیے ”شعبان المعظم“ کی پندرہویں رات اور اس دن کے روزے کی ترغیب دی ہے اوراس بارے میں صرف زبانی ترغیب پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا؛ بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عملی طور پر خود اس میدان میں سب سے آگے نظرآتے ہیں ؛چنانچہ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں غیر معمولی تبدیلی نظر آتی جس کا اندازہ ام الموٴمنین ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آپ فرماتی ہیں:(ما رأیتہ في شھرٍ أکثر صیاماً منہ في شعبان) کہ”میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں کثرت سے (نفلی)روزے رکھتے نہیں دیکھا“(صحیح مسلم ،رقم الحدیث: ۲۷۷۷)،حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم کے ”شعبان المعظم “میں بکثرت روزہ رکھنے کی وجہ سے اس مہینے میں روزہ رکھنے کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے مسنون قرار دیا ہے،فرماتے ہیں ”ومن المسنون صوم شعبان“(المجموع شرح المہذب:۶/۳۸۶)۔

                مذکورہ حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر بہت سی احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلاة السلام کا یہ عمل اور امت کو ترغیب دینا استقبال رمضان کے لیے ہوتا تھا،جس کی طرف حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”اب خاص اس روزہ کی حکمت بھی سمجھیے، میرے نزدیک یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے پہلے نصف شعبان کا روزہ رمضان کے نمونہ کے لیے مسنون فرمایا ہے؛ تاکہ رمضان سے وحشت وہیبت نہ ہو کہ نہ معلوم روزہ کیسا ہو گا ؟اور کیا حال ہو گا؟ اس لیے آپ نے پندرہ شعبان کا روزہ مقرر فرمادیا کہ اس دن کا روزہ رکھ کر دیکھ لو ؛چونکہ یہ ایک ہی روزہ ہے اس لیے اس کی ہمت آسانی سے ہوجاتی ہے،جب وہ پورا ہو گیا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بس رمضان کے روزے بھی ایسے ہی ہوں گے اور اس تاریخ میں رات کی عبادت بھی تراویح کا نمونہ ہے، اس سے تراویح کے لیے حوصلہ بڑھتا ہے کہ جب زیادہ رات تک جاگنا کچھ بھی معلوم نہ ہو اتو تراویح کے لیے ایک گھنٹہ زیادہ جاگنا کیا معلوم ہو گا ؟! بس یہ تو اعانت بالمثل علی المثل ہوئی۔(وعظ”الیسر مع العسر“بعنوان نظامِ شریعت:۶/۵۲۴،مکتبہ اشرف المعارف ملتان)“۔

                اب ایک نظر اس ماہ ِ مبارک کی پندرہویں شب پر بھی ڈال لی جائے جس کے بارے میں بھی بہت کچھ احادیث میں مذکور ہے،جو آگے بالتفصیل آرہی ہیں،زمانہٴ ماضی اور موجودہ زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس رات کے بارے میں لوگ اِفراط وتفریط کا شکار نظر آتے ہیں، اس لیے اس رات کے فضائل ،اس رات کے فضائل سے محروم ہونے والے افراداور اس رات کوہونے والی مروج بدعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے،سب سے پہلے اس رات کے بارے میں جناب ِرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرمودات ذکر کیے جائیں گے اس کے بعد جمہور اسلاف وفقہائے امت، اہلسنّت والجماعت کے نظریات واقوال ذکر کیے جائیں گے؛تاکہ اس رات کے بارے میں شریعت کا صحیح موقف سامنے آجائے۔

شب ِبراء ت کے بارے میں بنی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین:

                (۱) عن”أبي بکر الصّدیق“رضي اللہ عنہ عن”النبي“ صلى الله عليه وسلم قال:(ینزل اللہ إلی السماء الدنیا النصف من شعبان، فیغفر لکل شيء إلا رجل مشرک أو رجل في قلبہ شحناء)․ (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۴۶“:۵/۳۵۷،مکتبة الرشد)

                ترجمہ:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ” آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق)نزول ِاجلال فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو“۔

                (۲) فقال”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم“:(أتدرین أي لیلةھذہ؟) قلت: ”اللہ ورسولہ أعلم“ قال:(ھذہ لیلة النصف من شعبان،إن اللہ عزوجل یطلع علی عبادہ في لیلة النصف من شعبان، فیغفر للمستغفرین ویرحم المسترحمین ویوٴخر أھل الحقد کما ھم)․ (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۵۴“:۵/۳۶۱،مکتبة الرشد)․

                ترجمہ:”آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (اے عائشہ )جانتی بھی ہو یہ کونسی رات ہے؟میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، فرمایا یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے،اللہ عزوجل اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں ، اور بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں،رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں، اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کو ان کی حالت پر ہی چھوڑ دیتے ہیں“۔

                (۳)عن”أبي موسیٰ الأشعري“رضي اللہ عنہ،عن”رسول اللہ“ صلى الله عليه وسلم قال:(إن اللہ لیطلع في لیلة النصف من شعبان، فیغفر لجمیع خلقہ إلا لمشرک أو مشاحن)․ (سن ابن ماجة،رقم الحدیث”۱۳۹۰“مکتبہ أبي المعاطي)․         

                ترجمہ:حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ ”آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے“۔

                (۴) عن”عبد اللہ ابن عمرو“رضي اللہ عنہ، أن”رسول اللہ“ صلى الله عليه وسلم قال:(یطلع اللہ عزوجل إلی خلقہ لیلة النصف من شعبان، فیغفر لعبادہ إلا لاثنین: مشاحنٌ وقاتلُ نفسٍ)․(مسند أحمد بن حنبل،رقم الحدیث”۶۶۴۲“:۲/۱۷۶،عالم الکتب)․

                ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ” رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں رات اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں ، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں،ایک کینہ ور، دوسرے کسی کو ناحق قتل کرنے والا“۔

                (۵)عن”عثمان بن أبي العاص“رضي اللہ عنہ، عن ”النبي“ صلى الله عليه وسلم قال:(إذا کان لیلة النصف من الشعبان، نادیٰ منادٍ ھل من مستغفر؟ فأغفر لہ، ھل من سائل؟ فأعطیہ، فلا یسأل أحد شیئاً إلا أعطي إلا زانیة بفرجھا أو مشرک)․(شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۵۵“:۵/۳۶۲،مکتبة الرشد)․

                ترجمہ:حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو(اللہ تعالی کی طرف سے )ایک پکارنے والا پکارتا ہے ، ہے کوئی مغفرت کا طالب ؟!کہ میں اس کی مغفرت کر دوں،ہے کوئی مانگنے والا؟! کہ میں اس کو عطا کروں،اس وقت جو (سچے دل کے ساتھ)مانگتا ہے اس کو (اس کی شا ن کے مطابق )ملتا ہے،سوائے بدکار عورت اور مشرک کے(کہ یہ اپنی بد اعمالیوں کے سبب اللہ کی عطا سے محروم رہتے ہیں)۔

                (۶)عن ”عائشة“رضي اللہ عنھا عن”النبي“ صلى الله عليه وسلم قال:(ھل تدرین ما في ھذہ اللیلة یعني لیلة النصف من شعبان؟)، قالت:”ما فیھا یا رسول اللہ؟“قال:(فیھا یکتب کل مولود بني آدم في ھذہ السنة، وفیھا أن یکتب کل ھالک من بني آدم في ھذہ السنة، وفیھا ترفع أعمالھم، وفیھا تنزل أرزاقھم)․(الدعوات الکبیر للبیہقي، رقم الحدیث”۵۳۰“:۱۰ / ۱۴۶،غراس للنشر والتوزیغ،الکویت)  

                ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتی ہیں کہ” آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں رات میں کیا ہوتا ہے؟انھوں نے دریافت فرمایا کہ: یا رسول اللہ! کیا ہوتا ہے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہیں، وہ سب لکھ دئیے جاتے ہیں ،اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات لکھ دیے جاتے ہیں ،اور اس رات میں سب بندوں کے (سارے سال کے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی (مقررہ وقت)پر اترتی ہے“۔

                (۷)عن ”عطاء بن یسار“قال:(إذا کان لیلة النصف من شعبان نسخ الملک من یموت من شعبان إلی شعبان وإن الرجل لیظلم ویتجر وینکح النسوان وقد نسخ إسمہ من الأحیاء إلی الأموات ما من لیلة بعد لیلة القدر أفضل منھا، ینزل اللہ إلی السماء الدنیا، فیغفر لکل أحد إلا لمشرک أومشاحن أو قاطع رحم)․(کنز العمال:۴۴۳۱)

                ترجمہ:”حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مرنے والوں کا نام (اپنی فہرست سے) مٹا دیتا ہے اور کوئی شخص ظلم، تجارت اور کوئی عورتوں سے نکاح کر رہا ہوتا ہے اس حال میں کہ اس کا نام زندوں سے مردوں کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا ہے، شب قدر کے بعد کوئی رات اس رات سے افضل نہیں، اللہ تعالی(اپنی شان کے مطابق )آسمانِ دنیا پر نزول فرما کر ہر ایک کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک،کینہ ور اور قطع رحمی کرنے والے کے “۔

                (۸) أتاني جبرئیل علیہ السلام فقال:(ھذہ اللیلة لیلة النصف من شعبان، واللہ فیھا عتقاءُ من النار بعدد شعورغنم کلب لا ینظر اللہ فیھا إلی مشرک ولا مشاحن ولا إلی قاطع رحم ولا إلی مسبل ولا إلی عاق لوالدیہ ولا إلی مدمن خمر) (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۵۶“:۵/۳۶۳،مکتبة الرشد)

                ترجمہ:”(حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا )جبرئیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اللہ تعالی اس رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے، جن کی تعداد” قبیلہٴ کلب“ کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے؛ مگر اس رات میں اللہ تعالی مشرک، اور کینہ ور ،اور رشتے ناطے توڑنے والے(یعنی قطع تعلقی کرنے والے)اورازار(یعنی پاجامہ ،شلوار وغیرہ)ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے،(لوگوں )اور ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی لوگوں کی طرف رحمت کی نظر نہیں فرماتے“۔

                (۹)عن ”عثمان بن محمد “قال:قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم (تقطع الآجال من شعبان إلی شعبان حتیٰ أن الرجل لینکح ویولد لہ وقد خرج اسمہ في الموتیٰ)․ (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۵۸“:۵/۳۶۵،مکتبة الرشد)         

                ترجمہ:”حضرت عثمان بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (زمین پر بسنے والوں کی )عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں ،یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں؛ حالانکہ اس کا نام مردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے“۔

                (۱۰) عن”أبي الدرداء“ رضي اللہ عنہ قال:(من قام لیلتي العیدین للہ محتسباً لم یمت قلبہ حین تموت القلوب)، قال ”الشافعي“رحمہ اللہ:(وبلغنا أنہ کان یقال إن الدعاء یستجاب في خمس لیال: في لیلة الجمعة، ولیلة الأضحیٰ، ولیلة الفطر، وأول لیلة من رجب، ولیلة النصف من شعبان)․ (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۴۳۸“:۵/۲۸۷،مکتبة الرشد)

                ترجمہ:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جس شخص نے ثواب کی امید سے عیدین کی راتوں میں قیام کیا(یعنی عبادت کے ذریعے ان کو زندہ کیا) تو اس کا دل اس (وحشت والے)دن زندہ رہے گا، جس دن لوگوں کے دل (قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے)مردہ ہو جائیں گے،”امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعاوٴں کو قبول کیا جاتا ہے،جمعہ کی رات ،عید الاضحی کی رات ، عید الفطر کی رات،رجب کی پہلی رات،اور شعبان کی پندرہویں رات“۔

                مذکورہ ارشادات کے علاوہ اور بہت سی روایات میں اس رات کے فضائل وارد ہوئے ہیں اس وقت ان سب کا جمع کرنا مقصود نہیں ،بس ایک خاص جہت سے ایک نمونہ سامنے لانا مقصود ہے۔وہ خاص پہلو یہ ہے کہ مذکورہ تمام احادیث میں جہاں عظیم الشان فضائل مذکور ہیں، وہاں بہت سے ایسے (بد قسمت)افراد کا تذکرہ ہے ،جو اس مبارک رات میں بھی رب عزوجل کی رحمتوں اور بخششوں سے محروم رہتے ہیں،ذیل میں ان گناہوں کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے ؛تاکہ تھوڑا سا غور کر لیا جائے کہ کہیں ہم بھی ان رذائل میں تو مبتلا نہیں ! اللہ نہ کرے کہ ہمارے اندر ان میں سے کچھ ہو،اور اگر کچھ ہو تو اس سے بروقت چھٹکارا حاصل کر سکیں:

”شب براء ت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم افراد“:

                (۱)مسلمانوں سے کینہ،بغض رکھنے والا۔(۲)شرک کرنے والا۔(۳)ناحق قتل کرنے والا۔(۴)زنا کرنے والی عورت۔(۵)قطع تعلقی کرنے والا۔(۶)ازار(شلوار،تہبند وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔(۷)والدین کا نافرمان۔(۸)شراب پینے والا۔

(۱) کینہ،بغض :

                کسی شخص پر غصہ پیدا ہو اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے تو اس کی وجہ سے دل میں جو گرانی پیدا ہوتی ہے، اس کو ”کینہ “کہتے ہیں،اسی کا دوسرا نام ”بغض “بھی ہے،کینہ و بغض محض ایک گناہ یا عیب نہیں؛ بلکہ یہ اور بہت سارے گناہوں کا مجموعہ ہے،امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غصہ سے کینہ اور کینہ سے ”آٹھ“گناہ پیدا ہوتے ہیں ،(۱) حسد،(۲) شماتت،(۳) سلام کا جواب نہ دینا،(۴) حقارت کی نگاہ سے دیکھنا،(۵) غیبت ،جھو ٹ اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا،(۶) اس کے ساتھ مسخرا پن کرنا،(۷) موقع پاتے ہی اس کو ستانا،(۸) اس کے حقوق ادا نہ کرنا۔(کیمیائے سعادت،ص:۳۳۲) اس کے علاوہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ” کینہ ور کی بخشش نہیں کی جاتی“ (مشکاة المصابیح،ص؛۴۲۷) اس جیسی اور بہت سی احادیث سے کینہ کی برائی اور مذمت سامنے آتی ہے؛اس لیے غور کر کے اپنے آپ کو اس برائی سے بچانا از حد ضروری ہے،اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی کسی پرغصہ آئے فوراً اس کو معاف کر دیا جائے،ہر گز اس کے خلاف کسی بات کو دل میں نہ رہنے دیا جائے،اور اس سے میل جول اور سلام و کلام شروع کر دیا جائے۔

(۲) شرک :

                اللہ تعالی کی ذات یا صفات ِمختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے،شرک توحید کی ضد ہے،موجودہ دور میں شرک کی جتنی صورتیں مروج ہیں، ان سب سے بچنا ضروری ہے، مثلاً: غیر اللہ کو مختار کل ،نفع ونقصان کا مالک ، زندہ کرنے اورمارنے پر قادر، بیمار کرنے اور شفاء دینے پر قادر، روزی میں وسعت اور تنگی پیدا کرنے پر قادرسمجھنا،انبیاء کرام واولیاء عظام کے تقرب کے حصول کے لیے ان کے نام کی نذر ونیاز اور منت ماننا،ان کی قبروں پر سجدہ کرنا،ان کو عالم الغیب اورحاضرو ناظرسمجھنا سب شرک کی اقسام ہیں، پھر شرک کی دو قسمیں ہیں:شرک اکبر اور شرک اصغر،شرک اکبر کی تفصیل تو گذر چکی،شرک اصغر میں ریاکاری،بدشگونی اور غیر اللہ کے نام کی قسمیں کھاناوغیرہ شامل ہے،شرک کا انجام دوزخ بتایا گیا ہے،﴿إن اللہ لا یغفر أن یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء، ومن یشرک باللہ فقدضلّ ضلالاً بعیداً﴾ (النساء:۱۱۶) ترجمہ:”اللہ تعالی اس کو تو بے شک نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے،لیکن اس کے علاوہ جس کسی کو بھی چاہے گا بخش دے گا،اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، وہ یقینا بڑی دور کی گمراہی میں پڑ گیا“۔

(۳) ناحق قتل:

                بغیر کسی شرعی عذر کے کسی کو ناحق قتل کرنا چاہے، وہ کافر ہی کیوں نہ ہوسخت گنا ہ ہے،اور کسی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی بدترین ہے ایسے شخص کے بارے میں قرآن پاک میں بہت سخت وعید آئی ہے،ارشاد باری تعالی ہے﴿ومن یقتل موٴمناً متعمداً فجزاوٴہ جھنم خالداً فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ وأعد لہ عذاباًعظیماً﴾ (النساء:۹۳)․اس آیت میں اللہ تعالی نے قاتل کو ہمیشہ جہنم کی،اپنے غضب ،اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے،موجودہ دور میں انسانی جان کی قیمت چند ٹکوں کے برابر بھی نہیں سمجھی جاتی،ذرا ذرا سی بات پر اور دنیاوی چند سکوں کی خاطر کسی کے سہاگ کو اجاڑ دینا،معصوم بچوں کو یتیم کر دینا،بوڑھے ماں باپ کی آخری عمر کے سہاروں کو چھین لینا،اور تجارتی وکاروباری مراکز کو خاکستر کر دینا، ایک کھیل سا بن گیا ہے،اور قیامت کی علامات میں سے یہ علامت بھی سامنے آچکی ہے کہ نہ مرنے والے کو پتہ ہے کہ کس نے مارا اور کیوں مارا اور نہ ہی مارنے والے کو ۔

(۴) زنا:

                کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے،جو عورت یا مرد اس بد ترین گناہ میں مبتلا ہو، اس کے لیے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں ،اور اگر اس عمل ِبد کو پیشے کے طور پر کیا جائے ”جیسے موجودہ دور میں اس کا رواج عام ہو چکا ہے“تو یہ دوہرا گناہ ہے اور ایسی کمائی بھی حرام ہے۔”شب ِمعراج میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے(بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھی ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں“․

(۵) قطع رحمی:

                اپنے اعزہ واقرباء اور اپنے متعلقین کے حقوق ِضروریہ ادا نہ کرنا قطع رحمی ہے،مثلاً:سلام کا جواب نہ دینا،بیماری کے وقت عیادت نہ کرنا،چھینک کا جواب نہ دینا، فوت ہو جانے پر بلا عذر اس کی نمازِجنازہ نہ پڑھناوغیرہ ،یہ سب درجہ بدرجہ قطع رحمی میں شامل ہیں،ایک موقع پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”قطع رحمی کرنے والا(قانوناً،بغیر سزا کے)جنت میں نہیں جائے گا“ (بخاری ومسلم )

(۶) ازار”شلوار،پاجامہ“ٹخنوں سے نیچے لٹکانا:

                مردوں کے لیے ٹخنوں سے نیچے شلوار، تہبند،پاجامہ، پینٹ ، کرتا یاچوغہ وغیرہ لٹکاناحرام اور گناہ کبیرہ ہے،ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ:”ٹخنوں سے نیچے جو تہبند(پاجامہ وغیرہ) ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے“۔(مشکاة المصابیح:۱/۲۷۳،قدیمی)تکبر کی نیت ہو یا نہ ہو ہر حال میں یہ گناہ ہے ، اگر تکبر کی نیت ہو تو دوہرا گناہ ہے اور اگر نیت نہ بھی ہو تو اس فعل کا گناہ ہے۔

(۷) والدین کی نافرمانی:

                والدین کی نافرمانی بہت سخت گناہ ہے، کئی احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیں آ ئی ہیں،ایک حدیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”احسان جتلانے والا،والدین کا نافرمان ، اور شراب پینے والا جنت میں داخل نہ ہو گا“(نسائی،دارمی)۔قرآن پاک میں تو والدین کے سامنے ”اُف“ تک کہنے سے منع کیا گیا ہے،آج کل والدین کی نافرمانی، ان کے آگے بولنا ،ان کے حقوق ادا نہ کرناعام ہو گیا ہے، اس سے اجتناب ازحد ضروری ہے،وگرنہ دنیاو آخرت کاوبال اس کا مقدر بنے گا۔

(۸) شراب نوشی:

                 شراب نوشی کی ایک وعید پیچھے گذر چکی ، یہ صرف ایک گناہ کبیرہ ہی نہیں؛ بلکہ یہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے،اس کو ام الخبائث کہا گیا ہے،ایک حدیث پاک میں ہے کہ:”میری امت میں کچھ لوگ شراب پئیں گے،اور شراب کو دوسرا نام دیں گے، اوران کے سامنے ناچنے اور گانے والی عورتیں ہوں گی ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ زمین میں دھنسا دیں گے یا ان کو بندر اور خنزیر بنا دیں گے“۔لہذا شراب یا دیگر نشہ پیدا کرنے والی سب چیزیں مثلا:وہسکی ، ہیروئن،بھنگ،وغیرہ سب حرام ہیں۔آج موجودہ دور میں اس حدیث کے مناظر پوری طرح ہمارے سامنے ہیں،اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

                شب براء ت کے فضائل والی احادیث میں مذکور تمام محروم رہ جانے والوں کا کچھ کچھ تذکرہ ہو گیاان سب گناہوں سے جتنا جلد ہو سکے اور کم از کم شعبان کی پندرہویں رات سے پہلے پہلے توبہ کر کے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

اکابرین امت کے اقوال:

                علامہ ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور بڑی خیر والی رات ہے، اورہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے“(المدخل لابن الحاج:۱/۲۹۹)

                علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگردابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ” شام کے مشہور تابعی خالد بن لقمان رحمہ اللہ وغیرہ اس رات کی بڑی تعظیم کرتے،اوراس رات میں خوب عبادت کرتے“۔(لطائف المعارف:۱۴۴)

                علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو بیداررہنا مستحب ہے“ (البحر الرائق:۲/۵۲)

                علامہ حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو عبادت کرنا مستحب ہے“ (الدر مع الرد:۲/۲۴،۲۵)

                علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”بیشک یہ رات شب براء ت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلے میں روایات صحیح ہیں“(العرف الشذی،ص:۱۵۶)

                شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس رات بیداررہنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے ،یہی امام اوزاعی کا قول ہے“۔ (ما ثبت بالسنة،ص:۳۶۰)

                حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”شب براء ت کی اتنی اصل ہے کہ پندرہویں رات اور پندرہواں دن اس مہینے کا بزرگی اوربرکت والا ہے“۔(بہشتی زیور،چھٹا حصہ،ص:۶۰)

                کفایت المفتی میں ہے کہ”شعبان کی پندرہویں شب ایک افضل رات ہے“(۱/۲۲۵،۲۲۶)

                فتاوی محمودیہ میں ہے کہ”شب قدر وشب براء ت کے لیے شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت،ذکر، تسبیح، دعاء و استغفار کی ترغیب دی ہے “۔(۳/۲۶۳،جامعہ فاروقیہ کراچی)

                مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ”واقعہ یہ ہے کہ شب براء ت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں، جن میں اس رات کی فضیلت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے،ان میں بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں؛لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبارسے کمزور ہو، لیکن اس کی تائید میں بہت سی احادیث ہو جائیں تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے“(اصلاحی خطبات:۴/۲۶۳ تا۲۶۵ ،ملخصاً)

شب براء ت کی رسومات اور بدعات:

                اس رات میں حد سے زیادہ عبادت کرنا،مسجدوں میں اجتماعی شب بیداری کرنا، مخصوص قسم کے مختلف طریقوں سے نوافل پڑھنا، جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، نوافل وتسبیح تراویح کی جماعت کروانا،اسپیکر پر نعت خوانی وغیرہ کرنا،ہوٹلوں اور بازاروں میں گھومنا،حلوہ پکانے کو ضروری سمجھنا،خاص اس رات میں ایصال ثواب کو ضروری سمجھنا، قبرستان میں چراغ جلانا،اس رات سے ایک دن پہلے عرفہ کے نام سے ایک رسم، اس رات میں گھروں میں روحوں کے آنے کا عقیدہ، فوت شدہ شخص کے گھر جانے کو ضروری سمجھنا،کپڑوں کا لین دین، بیری کے پتوں سے غسل کرنا،گھروں میں چراغاں کرنا،گھروں اور مساجد کو سجانا،اور ان سب سے بڑھ کر اس رات میں آتش بازی کرنا ،مذکورہ تمام امور شریعت کے خلاف ہیں، ان کا کوئی ثبوت نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورسلف صالحین سے نہیں ملتا؛ اس لیے ان تما م بدعات ورسومات کا ترک اور معاشرے سے ان کو مٹانے کی کوشش کرنا ہر ہر مسلمان پر بقدرِ وسعت فرض ہے۔

شب براء ت میں کرنے کے کام:

                آخر میں اس مبارک رات میں کرنے والے کیا کیا کام ہیں ؟ ان کا ذکر کیا جاتا ہے؛تاکہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اس رات کے فضائل کو سمیٹا جا سکے:

                ۱-            نماز عشاء اور نماز فجر کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرنا۔

                ۲-           اس رات میں عبادت کی توفیق ہو یا نہ ہو ،گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا،بالخصوص ان گناہوں سے جو اس رات کے فضائل سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔

                ۳-          اس رات میں توبہ واستغفار کا خاص اہتمام کرنااور ہر قسم کی رسومات اور بدعات سے اجتناب کرنا۔

                ۴-          اپنے لیے اور پوری امت کے لیے ہر قسم کی خیرکے حصول کی دعاء کرنا۔

                ۵-           بقدر وسعت ذکر اذکار ،نوافل اور تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کرنا۔

                ۶-           اگر بآسانی ممکن ہو تو پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا۔

                واضح رہے کہ مذکورہ تمام اعمال شب براء ت کا لازمی حصہ نہیں؛بلکہ ان کا ذکر محض اس لیے ہے کہ ان میں مشغولی کی وجہ سے اس رات کی منکرات سے بچا جا سکے۔

***

———————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6 ‏، جلد: 96 ‏، رجب 1433 ہجری مطابق جون 2012ء

Related Posts