از: محمدمصعب، علی گڑھی متعلّم: تدریبِ افتاء، دارالعلوم دیوبند

                اِس وقت پوری دنیا اور خصوصاً مغربی ممالک میں بہت سے افراد تبدیلیِ جنس یعنی مرد سے عورت اور عورت سے مرد بننے کے ذریعہ اپنی نامراد جنسی تسکین میں مبتلا ہیں، اور دن بہ دن یہ ناپاک اور فطرتِ الٰہی سے متصادم جذبہ، بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ اس سنگین اور بہت سے دنیوی ودینی مفاسد پر مشتمل، عمل کو نئی قسم کی ایجادات کے ذریعہ اتنا آسان بنادیاگیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی ظاہری جنس تبدیل کرانا چاہے تو ماہر ڈاکٹروں کے ذریعے بہ سہولت کراسکتا ہے؛ چوں کہ یہ عمل براہِ راست فطرتِ الٰہی سے مُتَصَادِم اور بلا واسطہ تغیر لخلق اللہ کا مصداق ہے، نیز پورے معاشرے کے لیے اور خصوصاً اس عمل کے مرتکب کے جسم وروح کے لیے ایک بہت بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے؛ اس لیے ضروری ہوا کہ اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی جائے، جس میں تبدیلیِ جنس کی حقیقت، مفاسد اور اس کو جائز کہنے والوں کے دلائل اوراس کا حقیقت پر مبنی ومنصفانہ جائزہ، پھر آخر میں حکم شرعی مع دلائل بیان کیے جائیں۔

تبدیلیِ جنس کی حقیقت:

                آپریشن کے ذریعے مرد کے ظاہری اعضاء کو عورت کے ظاہری اعضاء میں تبدیل کرنا، یا عورت کے ظاہری اعضاء کو مرد کے ظاہری اعضاء میں تبدیل کرنے کو تبدیلیِ جنس سے تعبیر کرتے ہیں۔

                اس کی تفصیل یہ ہے کہ ماہر ڈاکٹر تبدیلیِ جنس کے متمنی مرد – جو اعضاء وجوارح کے اعتبار سے مکمل ہو اور اس میں کسی طرح کا کوئی نقص نہ پایا جائے – کے آلہٴ تناسل وخصیتین کو آپریشن کے ذریعے نکال دیتا ہے اور اس کی جگہ عورت کی شرمگاہ کے مثل ایک سوراخ بنادیتا ہے، نیز دواؤں کے ذریعے وہ مرد کے جسم میں عورت کے ہارمونز – ایسی آمیزش جو دورانِ خون کے ذریعہ جسم کے سیال مادوں میں تحلیل ہوکر، افعالِ اعضاء کا سبب بنتی ہے – ڈال دیتا ہے؛ جس کی وجہ سے اس کے سینے پر ابھارپن پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی آواز، چال ڈھال عورت کی طرح ہوجاتی ہے،اور اگر عورت اپنی جنس تبدیل کرانا چاہتی ہے، تو ڈاکٹر آپریشن کے ذریعہ اس کے سینے کے ابھار، رحم وغیرہ کو ختم کردیتا ہے اور بچہ دانی کے سوراخ کو بند کردیتا ہے، اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مرد کے آلہٴ تناسل کے مماثل ایک مصنوعی آلہ عورت کی شرمگاہ کی جگہ لگادیتا ہے، جس کے ذریعے اگرچہ اس کے اندر جماع کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے؛ مگر اس سے مادہ منویہ کا خارج ہونا اوراس سے حمل ٹھہر جانا اس کا کوئی امکان نہیں رہتا، نیز وہ عورت کے اندر مرد کے ہارمونز ڈال دیتا ہے، جس سے اس کی آواز، چال ڈھال مرد کی طرح ہوجاتی ہے اوراس کے چہرے پر بال نکلنے لگتے ہیں۔

تبدیلیِ جنس کے ذریعہ کیا حقیقت میں مرد عورت اور عورت مرد بن جاتی ہے؟

                مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ تبدیلیِ جنس کے ذریعہ، اگرچہ ظاہری تبدیلی تو ہوجاتی ہے؛ مگر حقیقت میں مرد مرد ہی رہتا ہے اور عورت عورت ہی رہتی ہے؛ چنانچہ عورت بننے والے مرد کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اس کو حیض آئے یا اس کو حمل ٹھہرے، اسی طرح مرد بننے والی عورت کے لیے ناممکن ہے کہ اس کے آلہٴ تناسل سے مادئہ مَنَوِیّہ خارج ہو۔

جنس کو تبدیل کرانے کے اسباب:

                مغربیت سے متاثر نام نہاد مُفَکِّرِین ومُحَقِّقِیْن نے، تبدیلیِ جنس کے بہت سے اسباب بیان کیے ہیں، جس میں سب سے قوی سبب انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ بعض انسانوں کا ندرونی شعور واحساس اپنے جنسی وجود کا اباء کرتا ہے اور وہ نفسیاتی طورپر اپنی جنسی شناخت سے مطمئن نہیں ہوپاتے، گویا کہ بعض انسانوں کے شعور ومیلان اور جنسی شناخت کے درمیان مغایرت پائی جاتی ہے؛ جس کی وجہ سے وہ اپنی جنس ہی کو تبدیل کراکر جنسی تسکین چاہتے ہیں۔

                حقیقت یہ ہے کہ صحیح تربیت کا فقدان، ماحول کا فساد جنس کو بھڑکانے والی اشیاء کی کثرت، فطرت کے مطابق جنسی تسکین سے بے راہ روی اور اس میں حد سے تجاوز کرنا؛ یہی حقیقت میں وہ اسباب ہیں جس نے انسان کو آج یہاں تک پہنچادیا کہ وہ صرف اپنی جنسی تسکین کے لیے اپنے وجود ہی کو بدلنے پر آمادہ ہوگیا۔

تبدیلیِ جنس اور جنسی تسکین:

                جنسی تسکین کے حوالے سے انسان جب حد سے تجاوز کرتا ہے اور فطری طریقہ کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ اب مردوں سے نہیں؛ بل کہ جانوروں سے بھی اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کی نامراد کوشش کرتا ہے، آج مغربی ممالک میں ہر اس عمل کو جائز قرار دیا جارہا ہے جس کا تعلق جنس کی تسکین سے ہو، چاہے مردوں کا مردوں سے یا عورتوں کا عورتوں سے نکاح کا مسئلہ ہو، یا جانوروں سے جماع کرنے کا مسئلہ ہو، یا تبدیلیِ جنس کا مسئلہ ہو اور نہ صرف اس کو جائز قرار دیا جاتا ہے؛ بل کہ اس کو قانونی سطح پر منظوری بھی دے دی جاتی ہے۔

                یہ بات بغیر کسی شک وتردّد کے کہی جاسکتی ہے کہ فطرتِ الٰہی سے ہٹ کر نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے جتنے بھی طریقے اختیار کرلیے جائیں وہ تسکین کا ذریعہ بننے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ خواہش کو بھڑکادیتے ہیں؛ چنانچہ جب عورت پر اکتفا نہیں کیاگیا تو مردوں تک نوبت پہنچی، پھر جانوروں کی باری آئی اور اب مردوں کو عورت بننے اور عورتوں کو مرد بننے کا شوق وجذبہ پیدا ہوگیا۔

                افسوس اس پر نہیں کہ دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی پیداہوگئے جو اس عمل کا ارتکاب کرتے ہیں؛ بل کہ افسوس اس پر ہے کہ اب مغربیت سے متاثر مسلمانوں میں سے بھی کچھ نام نہاد محققین فطرتِ الٰہی کے خلاف اور عذابِ خداوندی کو نازل کرانے والے اس عمل کو شریعت کے نقطئہ نظر سے جائز قرار دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، الأمان والحفیظ!

تبدیلیِ جنس وتبیین جنس میں فرق:

                فقہاء کرام نے ایسے شخص کے بارے میں جس کے اعضاء پورے طور پر ظاہر نہ ہوں اس بات کی اجازت دی ہے کہ آپریشن کے ذریعے اس کے اعضاء مکمل کرلیے جائیں؛ تاکہ اس کا مذکر یا موٴنث ہونا واضح ہوجائے؛ لہٰذا یہاں جنس کو تبدیل نہیں کیا جاتا؛ بل کہ اس کی اصلی جنس کو واضح اور ظاہر کیا جاتا ہے، جس کی شریعت میں گنجائش ہے۔(۱)

تبدیلیِ جنس کے جواز کے دلائل:

                ۲۴/۴/۲۰۰۴/ کو کویت میں منعقدہ ایک مجلس میں تبدیلیِ جنس کے جواز کے حوالے سے، ایک عدالتی فیصلہ سنایا گیا اور اس پر دلائل بھی دیے گئے، جو درج ذیل ہیں:

                (۱) جنس کو تبدیل کرانے والا شخص مجبور محض ہوتا ہے، وہ نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہوتا ہے حتیٰ کہ بعض دفعہ خودکشی کرنے پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے؛ لہٰذا اس کو معذور قرار دیا جائے گا۔

                (۲) ضرورت کی وجہ سے بھی یہ عمل جائز ہونا چاہیے؛ کیوں کہ قاعدہ ہے: الضّروراتُ تُبیحُ المَحظورات․

                (۳) تبدیلیِ جنس یہ تَشَبُّہ بالجنس الآخر میں داخل نہیں؛ کیوں کہ اس میں تَشَبُّہ سے مراد لباس، زینت، بات چیت، چال ڈھال میں مشابہت اختیار کرنا ہے۔

                (۴) تبدیلیِ جنس یہ تغیر لخلق اللہ نہیں؛ بل کہ یہ مریض کی حالت کو بدلنا ہے۔

                (۵) انسان کی جنس صرف ظاہری اعضاء کا نام نہیں؛ بل کہ ظاہر وباطن دونوں کا نام ہے۔

                (۶) شریعت کے مقاصد وعلل کی طرف نظر کرتے ہوئے بھی یہ عمل جائز ہونا چاہیے؛ کیوں کہ شریعت میں مریض کو علاج کرانے کی اجازت دی گئی ہے۔

مذکورہ دلائل کا حقیقت پر مبنی ومنصفانہ جائزہ:

                (۱) پہلی دلیل کا حاصل یہ ہے کہ انسان اپنے اختیار سے نکل جاتا ہے اوراس کا داخلی دباؤ اِس درجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ اس عمل کے حوالے سے مجبورِ محض بن جاتا ہے، اس سلسلے میں عرض ہے کہ اگر اس بنیاد پر تبدیلیِ جنس کو جائز قرار دے دیا جائے تو یہ علت بہت سے جرائم کے جواز کی دلیل بن جائے گی؛ چنانچہ قاتل ہو یا سارق یا کوئی اور مرتکبِ جرم، وہ بطور جواز کے یہی دلیل پیش کرے گا کہ وہ اِس جرم کے حوالے سے مجبور محض اور داخلی دباؤ کا شکار تھا۔

                (۲) ”الضروراتُ تُبِیْحُ المَحْظُوراتِ“ کی بنیاد پر تبدیلیِ جنس کو جائز قرار دینا اور قاعدے کو اپنے محل میں استعمال نہ کرنا یہ فقہ واصول فقہ سے نا آشنائی کی دلیل ہے؛ کیوں کہ یہ بات واضح ہوچکی کہ جنس کو تبدیل کرانے کی ضرورت ہی نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس کے ذریعہ انسانی خواہش کی تسکین اور جنسی اضطراب وبے چینی ختم نہیں ہوتی؛ بل کہ اس میں اور اضافہ ہوجاتا ہے، چنانچہ جولوگ بھی اپنی جنس تبدیل کراتے ہیں، وہ پہلے سے بھی زیادہ جنسی اضطراب و پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔

                اور اگر بالفرض ضرورت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی ہر ضرورت، سے ممنوع چیز مباح نہیں ہوجاتی؛ بل کہ ضرورت سے ایسی ضرورت مراد ہے جو محظور وممنوع سے بڑھی ہوئی ہو؛ چنانچہ علامہ ”سبکی“ نے اس کی صراحت کی ہے: ”الضروراتُ تُبِیْحُ المحظورات بشرطِ عدمِ نُقْصَانِھا عنھا“(۲) اور مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ تبدیلیِ جنس کے ذریعے تخلیقِ الٰہی کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور دوسری جنس سے مشابہت اختیار کرنا، یہ ایسے بڑے گناہ ہیں، جن پر قرآن وحدیث میں لعنت کی گئی ہے؛ لہٰذا اس عمل کے جواز کے لیے اس قاعدہ کو جاری کرنا صحیح نہیں ہے۔

                نیز جیسے یہ قاعدہ ہے ”الضرورات تبیح المحظورات“ تو دوسری طرف یہ بھی قاعدہ ہے: ”الضررُ لا یزال بالضّرر“ (۳) یعنی ایک ضرر کو ختم کرنے میں اگر دوسرا ضرر ہورہا ہے تو اب اس ضرر کو ختم نہیں کیا جائے گا اور تبدیلیِ جنس کے ذریعہ انسانی شعور واِحساس اور اندرونی میلان کی وجہ سے ظاہر ہونے والے نقصان کی بظاہر تلافی کی جاتی ہے؛ مگر اِس کی وجہ سے دیگر کیا کیا خرابیاں ونقصانات پیدا ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، خود انسان کی ذات تک یہ نقصان محدود نہیں رہتاکہ زندگی بھر وہ اپنی صحت وتندرستی سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے؛ بل کہ پورے معاشرے پر اس کے نقصانات ظاہر ہوتے ہیں۔

                (۳) تیسری دلیل بھی بہ چند وجوہ باطل ہے (۴) یہ دعوی کرنا کہ ”تشبّہ بالجنس الآخر“ کی حرمت کا تعلق لباس، زینت، چال ڈھال، بات چیت میں مشابہت سے ہے، تو یہ دعویٰ بلادلیل ہے؛ کیوں کہ فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ ”تشبّہ“ سے مراد ایک جنس کا دوسری جنس سے ایسی چیز میں مشابہت اختیار کرنا ہے جو اس جنس کے ساتھ خاص ہو؛ چنانچہ علامہ ابن حجر الہیثمی نے فرمایا: ”تشبہ الرجال بالنساء فیما یختص بہ عرفاً“  نیز مرد کی قبر کو دفن کے وقت چھپانے کی ممانعت صراحتاً عورتوں کے ساتھ مشابہت ہی کی وجہ سے ہے؛ اس سے معلوم ہوا کہ مشابہت کا انحصار مذکورہ چار چیزوں میں ہی نہیں(۵)، عورتوں سے مشابہت کی ممانعت مطلق ہے جیساکہ بخاری کی روایت ہے: عن ابن عباس رضی اللہ عنہ أنہ قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال، لہٰذا مذکورہ چار چیزوں کے ساتھ مشابہت کو مقید کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔

                (۴) یہ کہنا کہ تبدیلیِ جنس یہ تخلیقِ الٰہی کی تبدیلی نہیں؛ بل کہ مریض کی حالت کو بدلنا ہے، انتہائی نا سمجھی کی بات ہے جس کے پاس بھی تھوڑی سی عقل ہوگی، وہ سمجھ سکتا ہے کہ جب مرد کی مخصوص چیزوں کی جگہ عورتوں کی مخصوص چیزیں لگادی جائیں تو یہ یقینا تغیر لخلق اللہ ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے مذکر وموٴنث دونوں کو الگ الگ کچھ کام اور ذمہ داریاں دے رکھی ہیں، مرد کی ذمہ داریاں الگ ہیں اور عورت کی الگ، اب اگر کوئی مرد سے عورت بنتا ہے یا اس کے برعکس تو یہ بلاشک وتردد تخلیق الٰہی میں تبدیلی ہے جو حرام وناجائز ہے۔

                (۵) پانچویں دلیل کا حاصل یہ ہے کہ انسان کی جنس کا تعلق صرف ظاہر سے نہیں؛ بل کہ باطن سے بھی ہے یعنی جنس کی تحدید وتعیین ظاہر وباطن دونوں پر موقوف ہے یہ بات بھی شرعاً وعقلاً ممنوع ہے جیساکہ گذشتہ صفحات میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا، نیز اگر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ جنس کی تعیین احساسات کے ذریعے ہوتی ہے تو کیا یہ صحیح ہے کہ اگر کسی کے دل میں یہ احساس اور خیال آرہا ہے کہ وہ ”بندر“ یا ”چوہا“ ہے تو اس پر اسی کے احکام لگائے جائیں، اسی طرح جس کی ولادت مردہ ہونے کی حالت میں ہوئی یا کوئی بہرہ اور گونگا ہے تو اس کی جنس کے سلسلے میں ہمیں کوئی رائے دینے کا حق نہیں؛ جب تک کہ اس کے احساسات اور طبعی میلان کے ذریعے معلوم نہ ہوجائے کہ وہ مرد ہے یا عورت اور ظاہر ہے کہ یہ ناممکن ہے، الحاصل اگر جنس کی تعیین وتحدید میں شعور واحساس کو معیار بنایا جائے گا تو یہ سب فاسد اور باطل صورتیں لازم آئیں گی۔ نیز نفسیاتی مرض کے علاج کے لیے دوسرے بہت سے جائز طریقے ہیں، جن کے ذریعے اس کے صحیح شعور واحساس کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔

                (۶) آخر میں اُن کی یہ دلیل کہ جنس تبدیل کرانے والا شخص نفسیاتی مریض ہوتا ہے اور شریعت میں علاج ومعالجہ کے حوالے سے وسعت سے کام لیاگیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ تبدیلیِ جنس یہ نفسیاتی مرض کا علاج ہے یا یہ خود بہت سے امراض ومفاسد کا مجموعہ ہے، اس کے بارے میں ماقبل میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا اوراگر نفسیاتی مرض کے علاج کے سلسلے میں اِس جیسی فطرت سے متصادم اور دینی ودنیوی مفاسد پر مشتمل صورت کو جائز قرار دے دیا جائے تو ایک زانی بھی نفسیاتی مریض ہوتا ہے،اور شرابی بھی نفسیاتی مریض ہوتا ہے، ان کے علاج کے لیے زنا اور شراب کو بھی جائز قرار دینا چاہیے۔

                خلاصہ یہ کہ تبدیلیِ جنس، کسی مرض کا علاج، ضرورت، داخلی دباؤ، طبعی میلان نہیں؛ بل کہ فطرتِ الٰہی سے ہٹ کر دوسرے راستے سے اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے جس کا ارتکاب کرنا سراسر گمراہی، حد سے تجاوز اور نقل کے مقابلے میں عقل کو ترجیح دینا ہے۔

تبدیلیِ جنس کے عدمِ جواز کی دلیلیں:

                ماقبل میں ہم نے اس عمل کو جائز قرار دینے والوں کے دلائل اور اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ قلم بند کیا، اب ہم یہ بیان کریں گے کہ جنس کو تبدیل کرانے والا شخص کتنے جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور محض اپنی جنسی تسکین کی خاطر کتنے احکام خداوندی کو توڑتا ہے۔

                (۱) تبدیلیِ جنس تخلیقِ الٰہی کو بدلنا ہے جس کو شیطانی زندگی، اللہ تعالیٰ اور رسول … کی طرف سے لعنت، اور دنیا وآخرت میں خسارے سے تعبیر کیاگیا ہے وَلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَلَآمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ وَمَنْ یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَاناً مُّبِیْنًا(۶) وأخرج البخاری حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ: لعن اللہ الواشمات والمستوشمات والنّامصات والمتنمّصات للحسن المغیرات لخلق اللہ․(۷) قال أبو جعفر الطبری: في حدیث ابن مسعود دلیل علی أنہ لایجوز تغییر شيء من خلقھا الذي خلقھا اللہ علیہ بزیادة أو نقصان التماسَ الحسن للزوج أو غیرہ(۸) وعن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: لعن النبي صلی اللہ علیہ وسلم المخنثین من الرجال المترجلات النساء وقال: أخرجوھم من بیوتکم(۹) وفي المرقاة: لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم المخنثین أي المشتبھین بالنساء من الرجال في الزي واللباس والخضاب والصوت والصورة والتکلم وسائر الحرکات والسکنات، فھذا المعنی منی؛ لأنہ تغییر لخلق اللہ․

                (۲) تبدیلیِ جنس مردوں کا عورتوں سے اور عورتوں کا مردوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے جو لعنتِ الٰہی کا موجب ہے أخرج البخاري حدیث ابن عباس: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال(۱۰)․ وأبی ھریرة رضي اللہ عنہ لعن اللہ الرجل یلبس لُبسة المرأةِ والمرأة تلبس لُبسة الرجل(۱۱)․

                (۳) تبدیلیِ جنس جسم کا مثلہ کرنا ہے جو حرام ہے۔ أخرج البخاري عن عبد اللہ بن یزید أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن الھنبة والمثلة(۱۲)․ فاذا کان جدع الأنف، وقطع الأذن من المثلة فکیف بقطع الثدیین وجب الذکر والخصیتین․

                (۴) تبدیلی جنس زمین پر فساد برپا کرنے اور نسل انسانی کو ختم کرنے کا خطرناک ذریعہ ہے، جو قطعاً حرام ہے․ قال اللہ تعالیٰ: وَاذَا تَوَلّیٰ سَعٰی فِی الأَرْضِ لِیُفسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللہُ لاَیُحِبُّ الفَسَادَ الآیة․

جنس تبدیل کرانے والے شخص پر کس کے احکام جاری ہوں گے؟

                تبدیلیِ جنس کے حرام ہونے کے سلسلے میں تو تمام اہلِ حق متفق ہیں؛ لیکن اب یہ مسئلہ زیر غور ہے کہ جنس تبدیل کرانے والے شخص پر کس کے احکام جاری ہوں گے، جنس بدلنے کے بعد کے احکام جاری کیے جائیں گے یا اس کو پرانی حالت پر برقرار مانتے ہوئے اسی کے مطابق احکام جاری کریں گے، اس سلسلے میں جب تبدیلیِ جنس کی حقیقت معتبر ماہر ڈاکٹروں سے براہ راست معلوم کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ تبدیلیِ جنس میں حقیقتاً جنس تبدیل نہیں کرائی جاتی؛ بل کہ ظاہری طور پر تبدیلی ہوتی ہے، چنانچہ ہم ذیل میں ”عمر عبداللہ حسن الشہابی“ کی ایک عبارت پیش کرتے ہیں جس سے تبدیلیِ جنس کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے: عملیةُ تبدیل الجنس ھی عملیة جراحیة یتم فیھا تغییرَ الأعضاء الظاھریة للذکر لنسبہ الأعضاء الظاھریة للأنثی أو العکس حیث یقوم الجراح ازاء الشخص المراد تبدیل جنسہ ان کان رجلاً کلامل الذکورة من الناحیة الخلقیة والجنسیة بقطع القضیب والخصیتین واحداث شقّ بفرج المرأة ویعطی الھرمونات للأنوثة، لینمو الصدر وبتأثیر الھرمونات یتحول الصوت لیشبہ صوت الأنثی․ وان کان الشخص المراد تبدیل جنسہ امرأةً کاملة الأنوثة من الناحیة الخلقیة والجنسیة، فان الجراحَ یقوم باستئصال الثدیین والرحم، والمبیض ویقفل المبھل، ویصنع لھا قضیباً اصطناعیاً، وتعطي المرأة ہرمونات الذکورة بکمیة کبیرة لتغیر الصوت الی طابع الخشونة ونتیجة ذلک ینبت شعر الوجہ واللّحیة․ والتغییر ھنا تغییر ظاھري بحت في الأعضاء، لایحصل معہ أي في الوظائف، فالرجل اذا تمّ تبدیلُ بعض أعضائہ الی أعضاء الأنثی، فانہ لایمکن أن یحیض أو یحمل لعدم وجود مبیض أو رحم، وبقطع ذکرہ وخصیتیہ یکون قد فقد الانجاب الی الأبد، والمرأة اذا تمّ تبدیل بعض أعضائھا ذکراً، الظاھر فانّھا لا تقذف منیاً ولا یکون لھا ولد من صلبھا(۱۳)․ اب مسئلے کا حکم یہ ہوگا کہ تبدیل جنس کے بعد جس شخص میں جو علامتیں زیادہ پائی جائیں گی اس کا شمار اسی جنس سے ہوگا، اور کلی طور پرہم قطعیت کے ساتھ پہلے ہی حکم نہیں لگاسکتے کہ اس پر مرد کے احکام جاری ہوں گے یا عورت کے یا خنثی مشکل کے، تبدیلیِ جنس کرانے والے شخص کا جائزہ لینے یا اس کے بیان کے بعد ہی اس کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ہم دارالعلوم دیوبند اور شاہی مرادآباد کا فتویٰ منسلک کرتے ہیں:

                ۴۱۰/فائل․د           باسمہ تعالیٰ الجواب وباللہ التوفیق: فقہاء نے چار اصناف ذکر کی ہیں مرد، عورت، خنثیٰ ، خنثیٰ مشکل اورہر ایک کے احکام ہر باب سے متعلق الگ الگ بیان کیے ہیں مرد کے عورت یا عورت کے مرد بننے کی صورت میں کیا احکام اس سے متعلق ہوں گے یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے؛ اس لیے کہ اولاً یہ متعین کرنا ضروری ہوگا کہ وہ مذکورہ چار صنف میں سے کس صنف میں داخل ہے اوراس کے انطباق کے لیے دقت نظری سے اس تبدیلی کی حقیقت کا جائزہ لینا ہوگا جو جنس تبدیل کرانے والے کے اندر پیدا ہوئی ہے، پھر صنف متعین ہوجانے کے بعد ہر باب سے متعلق جو احکام ہیں وہ اس پر لاگو ہوں گے تمام صُوَرِ مُحْتَملہ کو فرض کرکے اس کے احکام مختلف ابواب کے تحت تحریر کرنا بہت تفصیل طلب مسئلہ ہے؛ اس لیے فرض کردہ صورتوں کے مُحْتَمِلہ شقوں کے احکام معلوم کرنے کے درپے ہونے کے بجائے، جو خاص صورت پیش آئی ہو یعنی مرد تھا عورت بن گیا یا عورت تھی مرد بن گئی کو متعین کرکے سوال کریں اور مبتلی بہ کے احوال خاصہ تبدیلی سے قبل اور بعد کے تحریر کریں آپ نے لکھا ہے کہ تبدیلیِ جنس کے بعد مکمل عورت یا مرد ظاہر کرنے کی کوشش حتی الامکان کی جاتی ہے حقیقت جنس کا تبدیل ہونا الگ مسئلہ ہے اور ظاہر کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنا الگ مسئلہ ہے جو صورت حال ہو مبتلی بہ کے بیان اور مسلمان ڈاکٹر کی رپورٹ اور تصدیق کے ساتھ منسلک کرکے استفتاکریں پھر جس تنقیح کی ضرورت ہوگی کرلی جائے گی یا حکم شریعت سے آگاہ کردیا جائے گا، فقط۔ واللہ تعالیٰ اعلم

الجواب صحیح                              الجواب صحیح                              الجواب صحیح                              کتبہ الاحقر: زین الاسلام قاسمی

وقار علی غفرلہ                           حبیب الرحمن عفا اللہ                 محمودحسن غفرلہ                        نائب مفتی دارالعلوم دیوبند

۲۰/۱۱/۱۴۳۲ھ

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

                الجواب وباللہ التوفیق: کسی مرد یا عورت کا اپنی جنس تبدیل کرنے کی کوشش کرنا قطعاً حرام اور قابل لعنت عمل ہے، احادیث شریفہ میں ایسے مردوں اور عورتوں پر سخت لعنت آئی ہے جو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے والے ہوں، یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ معتبر اور ماہر ڈاکٹروں سے تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ مکمل طور پر مرد یا عورت کی جنس کی تبدیلی قطعاً ناممکن ہے، یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ جنس کی تبدیلی سے مرد میں قوتِ ولادت ورضاعت پیدا ہوجائے یا عورت میں قوت رجولیت پیدا ہوجائے، اسی طرح اعضاء جنسیہ میں بھی حقیقتاً تبدیلی ناممکن ہے؛ البتہ بعض آثار میں تبدیلی ہوسکتی ہے، مثلاً عورت کے چہرے پر بال نکل آئیں یا مرد کے سینے میں ابھار آجائے یا آواز میں لزوجت آجائے وغیرہ؛ بریں بناء تبدیلی سے متعلق جو سوالات آپ نے قائم کیے ہیں وہ سب فرضی اور مہمل ہیں۔ مسئلہ کا اصل حکم یہ ہے کہ تبدیل جنس کے بعد جس شخص میں جو صفات غالب ہوں؛ اس کا شمار اسی جنس سے ہوگا یعنی مرد کی علامتیں ہیں تو مرد رہے گا اور عورت کی علامتیں ہیں تو عورت رہے گی اوراگر ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہوکہ یہ مرد ہے یا عورت تو اس کا حکم خنثیٰ مشکل کے درجہ میں ہوگا، اس کو عام نمازیوں کے ساتھ کھڑا نہیں کیا جائیگا؛ بل کہ بچوں کی صف کے بعد اور عورتوں کی صف سے پہلے الگ صف میں کھڑا کیا جائے گا۔ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال (بخاری۲/۸۷۴) فان بلغ وخرجت لہ لحیة أو وصل الَی النساء فرجل، وکذا اذا احتلم من الذکر؛ لأنّ ھذہ من علامة الذکر، وان ظھر لہ ثدي أولبن أو أمکن وطوٴہ فامرأة؛ لأن ھذہ من علامات النساء وان لم تظھر لہ علامة، أو تعارضت فمشکل لعدم ما یوجب الترجیح، فیقف بین صفّ الرجال والنساء (البحر کوئٹہ ۸/۴۷۲) فان بلغ وجامع بذکرہ، فھو رجل وکذا اذا لم یجامع بذکرہ؛ ولکن خرجت لحیتہ فھو رجل وکذا اذا احتلم الرجل أو کان لہ ثدي مستو، ولو ظھر لہ ثدي کثدي المرأة أو نزل لہ لبن في ثدییہ أو حاض أو حبل أو أمکن الوصول الیہ من الفرج فھو امرأة، وان لم تظھر احدی ھذہ العلامات فھو خنثی مشکل، وکذا اذا تعارضت ھذہ المعالم (ھندیہ۶/۴۳۸، ھکذا في الدّر المختار مع رد المحتار، زکریا ۱۰/۴۴۶) انما یعرف ذلک بالعلامة، وعلامة الذکورة بعد البلوغ نبات اللحیة وامکان الوصول الی النساء وعلامة الأنوثة في الکبیر، فھو ثدیین کثدیي المرأة ونزول اللّبن في ثدییہ والحیض والحمل وامکان الوصول الیہ من فرجھا․․․ فکانت علامةً صالحةً للفصل بین الذکر والأنثی․․․․ وأما حکمُ الوقوف في الصفوف في الصَّلاة فانہ یقف بعد صفّ الرجال والصبیان قبل صف النساء احتیاطاً (بدائع الصنائع ۶/۴۱۸ – ھکذا فی الطحطاوی علی الدر ۴/۳۵۰) وفي الصلٰوة یقدم قدام النساء وخلف الرجال، فاِن قام في صف النساء قال أحب الي أن یعید صلوتہ الخ فان قام في صف الرجال فان صلوتہ تامة، ویعید الذي عن یمینہ وعن یسارہ والذي خلفہ بحذائہ الخ (تاتارخانیہ ۲۰/۱۹۷ برقم۳۳۰۲۳) فقط واللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ أعلم․

الجواب صحیح                                              أملاہ: احقر محمد سلمان منصور پوری

شبیر احمد عفا اللہ عنہ                                     دارُالافتاء جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد

۲۵/ذیقعدہ ۱۴۳۲ھ                                ۲۵/۱۱/۱۴۳۲ھ

***

حواشی:

(۱)          چنانچہ رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت قائم اسلامی فقہ اکیڈمی کے گیارہویں اجلاس منعقدہ ”مکہ مکرمہ“ بہ روز: اتوار، ۱۳/رجب تا بہ روز: اتوار: ۲۰/رجب ۱۴۰۹ھ = ۱۹/فروری تا ۲۶/فروری ۱۹۸۹ء میں اس موضوع پر غور وخوض کیاگیا اور درج ذیل فیصلہ کیاگیا، ہم بعینہ اکیڈمی کے فیصلے کو نقل کرتے ہیں۔

                قرار المجمع الفقھي الاسلامي التابع لرابطة العالم الاسلامي:

          أما بعد:

          فان مجلس المجمع الفقھي الاسلامي في دورتھا الحادیة عشرة المنعقدة ب”مکة المکرمة“ في الفترة من یوم الأحد: ۱۳/رجب ۱۴۰۹ھ = فبرایر ۱۹۸۹م الی یوم الأحد: ۲۰/رجب ۱۴۰۹ھ = ۱۹/فبرایر ۱۹۸۹م

          قد نظر موضوع تحویل الذکر الی أنثی وبالعکس، وبعد البحث والمناقشة بین أعضائہ قرّر ما یلي:

          أولاً: الذکر الذي کملت أعضاء ذکورتہ والأنثی التي کملت أعضاء أنوئتھا، لایجوز تحویل أحدھما الی النوع الآخر، ومحاولة التحویل جریمة لیستحقّ فاعلھا العقوبة؛ لأنہ تغییر لخلق اللہ، وقد حرم سبحانہ ھذا التغییر بقولہ تعالیٰ مخبراً عن قول الشیطان: وَلَآمُرَنَّھُمْ فَلیُغَیّرنّ خَلق اللہ․ النساء:۱۱۹․ فقد جاء في صحیح مسلم عن ابن مسعود أنہ قال: لعن اللہ الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللہ عز وجل الخ

                پورا فیصلہ پڑھنے کے لیے دیکھیے: (رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت قائم اسلامی فقہ اکیڈمی، ”مکہ مکرمہ“ کے فقہی فیصلے ص:۳۲۲، ط: ایفا پبلی کیشنز)

(۲)     الأشباہ والنظائر، للسبکی: ۱/۱۶۲، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت․

(۳)     الأشباہ والنظائر: ۱/۱۶۲، دارالکتب العلمیة، بیروت۔

(۴)     في المعنی: کراھز تخمیر قبر الرجل حال دفنہ لما فیہ من التشبہ بالنساء مما رُوي في ذلک عن علي وجاء نحوَہ عن أنس رضي اللہ عنہ أنھم عدّوہ تشبّھاً بالنساء․ المغنی․ وکذا في کشف القناح۔

(۵)     النساء: ۱۱۸-۱۱۹۔

(۶)     البخاری، باب المستوشمة، رقم حدیث: ۵۹۴۸، دارابن کثیر، بیروت۔

(۷)     القرطبی: ۵/۲۵۲۔

(۸)     البخاري، باب اخراج المتشبھین بالنساء من البیوت․ رقم: ۵۸۸۶۔

(۹)     البخاري، باب المتشبھون بالنساء والمتشبھات بالرّجال․ رقم: ۸۵۸۵۔

(۱۰)   مسند أحمد، رقم: ۸۱۱۰۔

(۱۱)   البخاري، باب ما یکرہ من المثلة، رقم: ۵۵۱۶۔

(۱۲)   (مقالة للشیخ عمر عبداللہ حسن الشھابی: تبدیل الجنس ضرورة طبیّة أم انتکاسیة فطریة)

***

———————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6 ‏، جلد: 96 ‏، رجب 1433 ہجری مطابق جون 2012ء

Related Posts