نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک عملی نمونہ

از: مولانا محمداللہ خلیلی قاسمی

                اسلام ، عالمی اورابدی مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کاسرمدی پیغام دنیا کے ہر گوشے میں بسے ہوئے انسانی افراد اور معاشرے کے لیے یکساںطور پر قابل عمل ہے۔ اس عالمی اور آفاقی مذہب کے پیغمبر آخر الزماں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر مرحلہ اور ہر پہلو پوری امت مسلمہ کے لیے ایک کامل اسوہ اور مکمل نمونہ ہے جیسا کہ قرآن کریم کی شہادت ہے:  لَقَدْ کَانَ لَکُم فِیْ رَسُولِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (۲۱:۳۳) آپ کی گھریلو زندگی ہویا سماجی زندگی، مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی ، عبادات ہوں یا معاملات، سیاسیات ہوں یا اخلاقیات و مذہبیات، آپ کی زندگی کا عملی نمونہ ہر شعبۂ زندگی میں تمام انسانوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔

                نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لیے جو اس ملک میں اقلیت میں ہیں،ایک مکمل عملی نمونہ موجود ہے۔ ہمارے ملک میں اکثریت غیر مسلمین کی ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلمان یہاں کی آبادی کا تقریباً پندرہ فی صد ہیں۔ یہ ملک ہم مسلمانوں کا اپنا محبوب وطن ہے اور مسلمان اس سرزمین کے ایک اٹوٹ حصہ کے طور پر صدیوں سے آباد ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد اسی خاک میں مدفون ہیں اور اس بر صغیر میں ہماری تہذیب و تمدن اور تاریخ و روایات کے کتنے ہی انمٹ نقوش اور لاثانی یادگاریں ثبت ہیں کہ اگر اس گراں قدر تہذیبی، ثقافتی و تاریخی ورثہ کو ہندوستانی تاریخ سے مٹادیا جائے تو یہاں کی تاریخ روکھی اور بے رنگ نظر آنے لگے گی۔

                حصولِ آزادی کے بعد بھی گو مسلمانوں کو اس ملک میں مسلسل گذشتہ ساٹھ برسوں سے معاشی و تعلیمی اور سیاسی و سماجی آزمائشوں کا سامنا ہے؛ لیکن ملک کے مجموعی حالات مسلمانوں کے لیے اگر ہمت افزا نہیں تو کم از کم مایوس کن اور دل شکن بھی نہیں۔ یوں تواسلام کی ساری تعلیمات پر کاربند ہونا مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری اور اسلامی تقاضا ہے۔ تاہم مسلمانوں کے لیے ملک کے موجودہ حالات میں نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ کا ’’مکی نمونہ‘‘ خاص طور پر مکمل عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔

امانت و دیانت اور پاکیزگی و شرافت

                مکی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی شناخت تھی آپ کی صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی ۔ مکی زندگی میں نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے سے پہلے اور بعد کے زمانہ میں آپ کی شناخت آپ کی صداقت و امانت، شرافت و پاکیزگی ، تواضع و انکساری اور تقوی و پاکبازی تھی؛ مکہ کا ہر باشندہ آپ کی شرافت و پاکیزگی اور اعلی اخلاق کا قائل تھا۔ آپ کو عام طور پر صادق اور امین کہا جاتا تھا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اس کے مقام تک اٹھا کر رکھنے میں قریش کے اندر جو سخت اختلاف پیدا ہوا اور جس کی وجہ سے خوںریز جنگ چھڑنے والی تھی ، وہ آپ کی جوانی کا زمانہ تھا، لیکن قریش کے سرداروں اور بڑے بوڑھوں کو جب یہ ہاشمی نوجوان دکھائی پڑا تو سب نے بیک آواز ہو کر کہا:  ھَذا مُحَمَّدُن الأَمِیْنُ رَضِیْنَا  ھَذا مُحَمَّدُن الأمِیْنُ (یعنی یہ محمد امین شخص ہیں، ہم ان سے خوش ہیں، یہ امین ہیں)۔اور سب نے اس نوجوان کے حکیمانہ فیصلے کو بخوشی قبول کیا اور اس طرح ایک خون ریز جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی۔ (سیرۃ المصطفیٰ۱۱۶:۱، بحوالہ سیرت ابن ہشام)

                نبی اکرم ﷺ پر نبوت کے ابتدائی مراحل میں جب اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ نبوت کے پیغام اور توحید کی دعوت کو علی الاعلان اپنے قبیلہ والوں تک پہنچا یا جائے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر تشریف لاتے ہیں اور قریش کے قبائل کو آواز دیتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں : اے قریش! اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج حملہ آور ہونے کو تیار ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟ پوری قوم یک زبان ہو کر کہتی ہے: نَعَمْ! مَا جَرَّبْنَا عَلَیْكَ اِلَّا صِدْقاً  (ہاں! ہم نے آپ میں سوائے صدق اور سچائی کے کچھ نہیں پایا)۔(صحیح بخاری ، حدیث نمبر 4397)

                آپ کی امانت و دیانت کا عالم تھا کہ مکہ کے بڑے بڑے تاجر خواہش مند ہوتے تھے کہ آپ ان کے تجارتی سامان لے کر شام و یمن وغیرہ کی عالمی منڈیوں میں جائیں تاکہ آپ کے ذریعہ ان کی تجارت کو فروغ حاصل ہو۔ نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے کے بعد بھی مکہ کے وہ لوگ جو آپ کی دعوتِ اسلام کو نہیں مانتے تھے، وہ بھی آپ کے پاس اپنی امانتیں بغرض حفاظت رکھ جاتے تھے؛ انھیں اس بات کا اطمینان تھا کہ ان کی امانت اس امین کے علاوہ کسی اور کے ہاتھوں میں اتنی محفوظ نہیں ہے۔

صبر و استقامت

                نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا دوسرا سب سے واضح عنصر آپ کا بے پناہ جذبۂ صبر و استقامت، اولو العزمی اور اپنے صحیح موقف پر پہاڑ کی طرح قائم رہنے کی قوت تھی۔ تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے بعد مکہ کی اکثریت آپ کے خلاف تھی۔ وہ ہمیشہ آپ کے اور مٹھی بھر مسلمانوں کے در پئے آزار رہتے، انھیں تکلیفیں پہنچاتے، ایذائیں دیتے اور دن رات اسلام، پیغمبر اسلام اور متبعینِ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے اس برتائو کا جواب صبر و خاموشی اور ہمت و استقامت سے دیا۔ آپ نے دعوتِ حق کے اپنے موقف سے ذرہ برابر پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا، حتی کہ آپ کو پورے عرب کی بادشاہت، مال و دولت، حسین ترین عورتوں اور ہر خواہش کی چیز پیش کیے جانے کی پیش کش بھی کی گئی ، لیکن آپ نے اس دعوت حق کے سامنے ہر کسی پیش کش کو حقارت سے ٹھکرادیا۔ آپ نے خواجہ ابو طالب کی فہمائش کے جواب میں فرمایا کہ چچا اگر میرے ایک ہاتھ میں چاند دوسرے میں سورج رکھ دیا جائے اور کہا جائے کہ اس کام سے باز رہو، تو بھی میں ایسا نہیں کرسکتا۔

تصادم سے گریز اور دعوت و تبلیغ کا تسلسل

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صبر آزما اور مخالف ماحول میں اہلِ مکہ کے سامنے اعلی اخلاقی نمونہ پیش کیا ۔گالیوں کا جواب دعائوں سے، پتھر کا جواب نرم کلامی سے ، دل آزاری کا جواب ہمدردی و غم گساری سے دیا۔ آپ نے اس ماحول میں تصادم سے گریز کیا اور حکمت و بصیرت کے ساتھ کام کرتے رہے۔ لوگوں کی بھلائی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے ان کو خدائے واحد اور اللہ کے پسندیدہ دین کی طرف بلاتے رہے۔ دعوت و تبلیغ کا جو فرضِ منصبی آپ نے اٹھایا تھا، اس پر پوری دلجمعی، استقامت اور سختی سے قائم رہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی دعوت دلوں کے قلعوں کو تسخیر کرتی چلی گئی اور مکہ کی ایک بڑی تعداد نے مخالف ماحول میں بھی اسلام میں کشش محسوس کی ۔جو لوگ کل تک آپ کے مشن کے شدید ترین دشمن تھے، وہ آپ کے اخلاق عالیہ اور دعوت حق کی گرمی سے پگھل کر پانی پانی ہوجاتے اور اہل ایمان کے حلقے میں شامل ہوجاتے۔

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے یہ چند خاص سبق ملتے ہیں کہ اہل ایمان کو اپنے حق و صداقت کے موقف پر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ جمنا چاہیے اور اس کی طرف پورے وثوق کے ساتھ دعوت دینی چاہیے ۔ جہاں تک ہوسکے اپنے پڑوسیوں، اہل خاندان ، اہل وطن سے خواہ وہ کسی کبھی فکر و خیال اور مذہب کے ماننے والے ہوں ، ان سے اخلاق و محبت، خیر خواہی و ہمدردی اور بہتری و بھلائی کا برتائو کرنا چاہیے۔ نیز، معاشرے کے سامنے ہمیشہ اپنے اعلی کردار و عمل ، تقوی و طہارت، امانت و دیانت اور اخلاص و خیر خواہی کے ذریعہ بلند پایہ اخلاقی اقدار و آداب کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ہجرت حبشہ سے چند سبق

نبوت کے پانچویں برس دو مرحلوں میں تقریباً سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر حبشہ (موجودہ ایتھوپیا ، افریقہ) کی طرف ہجرت فرمائی۔ گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہجرت میں حصہ نہیں لیا، لیکن چوں کہ آپ کے اصحاب (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے آپ کے مشورہ سے ہجرت اختیار کی تھی اور آپ کی تعلیمات کی روشنی میں انھوں نے وہاں زندگی گزاری ؛ اس لیے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا ہی ایک حصہ تصور کیا جاتا ہے۔

                حبشہ ایک غیر مسلم ملک تھا، وہاں کا حکم راں نجاشی اس وقت نصرانی تھا۔ سو کے قریب مسلمانوں کی جمعیت وہاں کی قلیل ترین اقلیت تھی؛ لیکن حبشہ کی زندگی میں حضرات صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں جو لائحہ عمل اختیار کیا، وہ ہندوستان جیسے ملک میں رہنے والی مسلم اقلیت کے لیے ایک بہترین اسوہ ہے۔

                حبشہ پہنچنے کے بعد مسلمانوں نے وہاں اپنی کالونی بنالی اور اس عادل بادشاہ کي رعایا بن کر رہنے لگے۔ ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ کفار مکہ کے دو نمائندوں عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص نے حبشہ کی سرزمین بھی مسلمانوں پر تنگ کرنی چاہی اور بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا نا چاہا۔ اس موقع پر حبشہ کے مسلمانوں نے جو طریقۂ کار اختیار کیا، وہ ہمارے لیے روشن نمونہ کا درجہ رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے سب سے پہلے اجتماعیت اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے، حضرت جعفرطیار رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر منتخب کیا۔ پھر انھوں نے باہمی مشورہ اور اتفاقِ رائے سے یہ طے کیا کہ جس دین حق کی خاطر ہم نے اپنا وطن چھوڑا ہے، اس کے خلاف ہم کچھ نہیں کہیں گے اور جو کچھ حق ہوگا ، حکمت و بصیرت کے ساتھ معقول و مدلل انداز میں اس کو سامنے رکھیں گے۔ نیز، اپنے جائز مقصد کے حصول اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے عادل بادشاہ کے عدل و انصاف اور قانون کا سہارا لیں گے؛ چنانچہ جب قریشی نمائندوں نے نجاشی کے سامنے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ یہ بد دین ہوكر اپنے ملک سے بھاگ آئے ہیں ، ان کو واپس کیا جائے، تو نجاشی نے مسلمانوں سے صفائی پیش کرنے کو کہا۔ ان روشن اصولوں کی رہ نمائی میں حضرت جعفرِ طیار رضی اللہ عنہ نے نہایت معقول انداز میں کہا کہ: کیا ہم غلام ہیں جو تمہارے یہاں سے بھاگ آئے ہیں، یا ہم نے کسی کا قتل کیا ہے یا ہم کسی کا مال ہڑپ کرکے آئے ہیں۔اس بر محل اور معقول سوال کا جواب ان قریشی نمائندوں کے پاس نہیں تھا۔

                پھر نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ آخر وہ کون سا دین ہے جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ اس کے جواب میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے حضرت رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات کا جو خلاصہ پیش کیا، وہ ایک بہترین دینی اور سماجی نمونہ تھا۔ حضرت جعفرؓ نے اسلام کے تعارف پر مشتمل جو تقریر نجاشی کے دربار میں کی تھی، اس میں رسول پاک ﷺ کی چودہ تعلیمات کا ذکر تھا:  (۱) توحید (۲) سچائی (۳) امانت داری (۴) صلہ رحمی (۵) پڑوسیوں سے اچھا سلوک (۶) حرام کاموں سے پرہیز (۷) خوںریزی سے گریز (۸) بدکاری سے پرہیز (۹) جھوٹی بات سے پرہیز (۱۰) مالِ یتیم سے پرہیز (۱۱) عورتوں پر الزام تراشی سے گریز (۱۲) نماز قائم کرنا (۱۳) زکوٰۃ دینا (۱۴) روزہ رکھنا۔ان تعلیمات میں، مذہب، اخلاق اور سماج سب کچھ کی رہنمائی موجود ہے۔

                دوسرے دن قریشی نمائندوں نے ایک دوسری چال چلی اور حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق عبدیت کے اسلامی عقیدہ کے خلاف نجاشی عیسائی بادشاہ کو بھڑکانا چاہا کہ یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مشکل وقت تھا؛ لیکن حق پرستی اور صداقت شعاری کے روشن اصولوں کی روشنی میں جو اسلامی عقیدہ تھا، وہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے بلاکم و کاست پیش کردیا اور بالآخر حق کا بول بالا ہوا اور باطل رسوا و ذلیل ہو کر واپس ہوا۔

                کتبِ سیرت و احادیث میں حبشہ میں مسلمانوں کی عام زندگی کی تفصیلات نہیں ملتیں، لیکن جو کچھ جابجا روایات میں ملتا ہے، اس سے بھی ان کے طرزِ معاشرت کی ایک جھلک دکھائی دیتی محسوس ہوتی ہے۔ حضرات نے صحابہؓ نے اپنی چھوٹی سے بستی بنا کر تجارت وغیرہ کا پیشہ اختیار کیا اور مقامی غیر مسلم آبادی کے ساتھ معاملات کیا۔اس سے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں بھی رہیں محنت و مشقت اور امانت و دیانت کے ساتھ حلال روزی کے ذرائع اختیار کریں۔

                 مسلمانوں نے ملک کی خیر خواہی اور اہل ملک کے ساتھ وفاداری کا برتائو کیا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں دنوں نجاشی بادشاہ کو ایک بغاوت کا سامنا کرنا پڑا؛ چناں چہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی کامیابی کے لیے دعا کی۔ اس سے یہ اصول ماخوذ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ملک اور عادل رہ نما کے ساتھ وفاداری اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

                ہم مسلمانوں کو ہجرتِ حبشہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ نازک اور اہم مواقع پر اجتماعیت اختیار کرکے باہمی مشورہ سے کام لینا اور اپنا امیر منتخب کرلینا چاہیے۔ مسلمانوں کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ کسی حال میں بھی حق و صداقت کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور اپنے ایمان و یقین کا سودا کسی صورت میں نہیں کریں گے، یہی ان کی مذہبی اور تہذیبی زندگی کی اساس ہے۔ نیز، جذباتیت سے گریز کرتے ہوئے حکمت و بصیرت سے کام لینا چاہیے اور مخالف حالات کا صبر و استقامت سے سامنا کرنا چاہیے ۔ دین کی دعوت، حکمت،معقولیت اور مدلل طریقہ سے اپنے ہم وطنوں کو دینی چاہیے اور ہمیشہ طاقت کا مقابلہ حکمت و دانائی سے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ملک کے نظامِ عدل سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے اور اسے اپنے تحفظ کے لیے اوراپنا حق حاصل کرنے كے ليے استعمال کرنا چاہیے۔

                نیز ، مسلمانوں کو جس ملک میں وہ رہیں، وہاں امن پسند شہری کی حیثیت سے رہنا چاہیے اور تخریبی کارروائیوں سے گریز کرنا چاہیے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے موقف، مقصدِ حیات اور طرزِ زندگی سے ہم وطنوں کو واقف کرائیں؛ تاکہ وہ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں اور تحفظ کے مسائل پیدا نہ کریں اور اسلام سے اجنبیت کی وجہ سے اس کو حریف نہ سمجھیں۔ نیز، مسلمانوں کو ہم وطنوں کے مذہب، مزاج اور تہذیبی شعار سے ضروری واقفیت حاصل کرنی چاہیے؛ تاکہ امن و سکون اور بقائے باہم کی راہ ہموار ہو۔ ہجرتِ حبشہ سے قبل سورہٴ مریم کا نزول، نجاشی کی عدالت میں حضرت جعفرؓکی تلاوت ، اور نجاشی کے دربار میں آپ کی پوری تقریر کاخلاصہ یہی ہے۔

٭٭٭

————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11 ، جلد: 95 ‏، ذي الحجة 1432 ہجری مطابق نومبر 2011ء

Related Posts