از: محمد عظیم قاسمی فیض آبادی،المعہد العلمی الاسلامی دیوبند
’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ ایك خوبصورت عنوان اور دو لفظوں كی حسین ودلكش تعبیر ہے، اس لفظ كے سننے، بولنے اور پڑھنے والے كےذہن ودماغ كے دریچوں میں معاشرے كی وہ تمام برائیاں گردش كرنے لگتی ہیں،جنھوں نے مسلم معاشرے كو گندہ اور زہرآلود كردیاہے،آج یہ لفظ نہ جانے كتنے حلقوں میں بار بار پڑھا، لكھا، بولااور سناجاتا ہے اور باربار اس كا استعمال ہوتا ہے، بے شمار جماعتیں اصلاحِ معاشرہ كے مقصد سے قائم ہیں، ان گنت ادارے وانجمن موجود ہیں، نہ جانے كتنی كانفرنس اور اجلاس كا انعقاد اسی مقصد سے ہوتا ہے، تقریباً ہر بڑی تنظیم كے اندر ’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ كا مستقل شعبہ قائم ہے، غیرمسلموں نے بھی اس مقصد كے لیے اپنی علیحدہ كمیٹی تشكیل دی، اخبارات ومیڈیا بھی اس مقصد كی تكمیل میں كسی سے پیچھے نہیں، حكومتی سطح پر بھی كوششیں ہوتی رہتی ہیں؛ لیكن اتنے حلقوں وگروہوں كی ہمہ جہت كوششوں كے باوجود نتیجہ اس كہاوت سے زیادہ نہیں كہ ’’یہ تیلی كے بیلوں سے كچھ كم نہیں ہیں، جہاں سے چلے تھے وہیں كے وہیںہیں‘‘ معاشرہ آج بھی انھیں بگاڑ وفساد كے ساتھ سانس لے رہا ہے ۔
چل چل كے پھٹ چكے ہیں قدم اس كے باوجود
اب تك وہیں كھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا میں
غور كرنے كی بات یہ ہےكہ آخر یہ ساری محنتیں بے كار كیوں ہیں، ساری كوششیں اكارت كیوں ہوتی ہیں، اصلاح معاشرہ كی كوئی تدیبر كامیاب كیوں نہیںہورہی ہے، معاشرہ بجائے اصلاح كے بگاڑ وفساد كی طرف مزید كیوں بڑھ رہا ہے۔
كیا اللہ تعالیٰ نے قرآن كریم كے اندر اس وعدہ كا اعلان نہیں فرمایا: ’’وَالَّذِینَ جَاھدُوْا فِینَا لَنَھدِینَّھمْ سُبُلَنَا‘‘ كہ جو لوگ ہماری راہ میں كوشش كریں گے ہم انھیں اپنے راستوں كی ہدایت كریں گے۔ دوسری جگہ یہ وعدہ مذكور ہے ’’اِنْ تَنْصُرُاللہ ینْصُركُمْ وَیثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ‘‘ اگر تم اللہ كے دین كی مدد كروگے تو ہم تمہاری مدد كریں گے اور تمہارے قدموں كو استقامت بخش دیں گے‘‘ ظاہر ہے كہ نہ تو خدا كا فرمان غلط ہوسكتا ہے نہ ہی خدا كا كلام جھوٹ ہوسكتا ہے، نہ رب ذوالجلال سے وعدہ خلافی كا صدور ممكن ہے، لیل ونہار میں تبدیلی ہوسكتی ہے، سورج كا بجائے مشرق كے مغرب سے طلوع ہونا ممكن ہوسكتا ہے، زمین وآسمان كا اپنی جگہ سے ٹلنے كا یقین كیا جاسكتا ہے، مگر رب كریم سے وعدہ خلافی كا صدور ناممكن ہے، خدائے بزرگ وبرتر كے كلام میں شك وربیب نہیں كیا جاسكتا؛ چنانچہ ان ساری كوششوں سے ایك ہی نتیجہ نكل سكتا ہے كہ ’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ كے نام پر كی جانے والی ساری تدبیروں اور كوششوں كا رخ صحیح نہیں، دراصل یہ كوششیں ان صفات وخوبیوں سے آراستہ نہیں، جو دوسرے كو اپنی طرف متوجہ كرسكیں، جو نصرتِ خداوندی كو دعوت دے سكیں۔ اگر ’’اصلاح معاشرہ‘‘ كے سلسلے میں كی جانے والی ہماری كوششیں اور تمام تدبیریں اخلاص وللہیت سے بھرپور ہوں اور صحیح ڈگر پر چلیںتو ضرور اللہ كی مدد شامل حال ہوگی اور نصرت خداوندی متوجہ ہوگی، پھر عوام اس سے متاثر ہوں گے اور اس كے صحیح، بہتر اور خوش كن نتائج ضرور برآمد ہوں گے ؎
اگر سینے میں دل ہے اور تڑپ اسلام كی دل میں
اترسكتا ہے ابرِ رحمتِ پروردگار اب بھی
اور
فضائے بدر پیدا كر فرشتے تیری نصرت كو
اترسكتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اگر ہم غور وفكر كے دریچے كو كھولیں اور اپنے گریبان میں جھانك كر دیكھیں اور تحقیق كے دائرے كو ذرا وسیع كریں تو ہمیں اتنا تو ضرور معلوم ہوجائے گا كہ ’’اصلاح معاشرہ‘‘ كے خوب صورت عنوان پر كی جانے والی ساری كوششوں كے درپردہ اتنے اغراض پوشیدہ ہیں اور یہ جدوجہد اتنے عیوب ونقائص سے بھری اور اصلاح كے حقیقی اصول وضوابط اور اصلاح كے لوازمات سے اتنی خالی ہیں كہ صحیح معنی میں اس كو ’’اصلاح معاشرہ‘‘ كا نام دینا یا ’’اصلاح كی كوشش‘‘ كہنا ہی درست نہیں ہے، مثال كے طور پر اس كی سب سے بڑی خامی اور خرابی یہ ہے كہ ہر جگہ دوسروں كی اصلاح كی فكر ہوتی ہے اور دوسروں سے اصلاح كا آغاز كرنے كی كوشش كی جاتی ہے، اصلاح كے لیے ہماری ہر تقریر وتحریر، ہماری ہر نصیحت اور ہمارا ہر اجلاس دوسروں كے لیے ہوتا ہے، ہر وقت ہماری یہ خواہش ہوتی ہے كہ معاشرے سے تمام برائیوں كا خاتمہ دوسرے كی ذات اور دوسروں كے گھرسے شروع ہو، معاشرے كے تمام رسوم وبدعات كے خاتمہ كا آغاز دوسرا كرے اور ہر طرح كی تبدیلی كی ابتداء دوسرا كرے یہ خیال وگمان شاید ہی كسی شخص كو آتا ہو كہ رسومات كے خاتمے كا مطالبہ خود ہماری ذات سے بھی ہے، برائیوں كے خاتمے میں ہماری بھی كوئی ذمہ داری ہے، زندگی میں تبدیلی لانے كا فریضہ ہمارے اوپر بھی عائد ہوتا ہے اور شاذونادر ہی كوئی شخص یہ سوچتاہو كہ ہمیں خود بھی اپنے اخلاق وكردار بے داغ بنانا چاہیے، جب تك ہم كو یہ فكر دامن گیر نہیں ہوتی اور ہماری سوچ میں كوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ہے اور خود ہمارے اندر اخلاق وكردار كے بنانے اور سنوارنے كے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں كا احساس پیدا نہیں ہوتا، اس وقت تك ہمارے معاشرے میں اصلاحِ معاشرہ كا كام آسان نہیں ہوسكتا اور نہ ہمارا معاشرہ اصلاح كی طرف گامزن ہوسكتا اور نہ ہی ہماری زبان وقلم اور وعظ وتقریر كے اندر تاثیر پیدا ہوگی؛ كیونكہ ؎
آدمی صاحبِ كردار اگر ہوتا ہے
اس كی آواز میں، باتوں میں اثر ہوتا ہے
اصل وجہ یہی ہے كہ ہماری اصلاح كی ساری كوششیں ناكام ہیں، اصلاح كی تمام محنتوں كا نتیجہ صفر ہے اور ہمہ جہت كوششوں كے باوجود بجائے اصلاح كے ہمارا یہ پاكیزہ معاشرہ فساد كی طرف رواں دواں ہے اور اس كاانجام جوكچھ ہے ہم اور آپ روزانہ مشاہدہ كرتے ہیں كہ مغربی معاشرے كا پورا عكس ہمارے میں نظرآنے لگا، خدا حفاظت فرمائے۔
انبیاء كرام، صحابہ وتابعین اور اولیاء عظام كا اصلاح كے سلسلے كا طرزِ عمل ہمارےطریقۂ كار سے بالكل علیحدہ تھا، ان كی ہر اصلاح كا آغاز اپنی ذات سے ہوتا تھا، اپنے اہل وعیال سے ہوتا تھا، اپنے گھر خاندان كی فكر ان كو دامن گیر ہوتی تھی، وہاں اعمال وكردار كے ذریعہ دعوت كا كام ہوتا تھا، زبانی وعظ ونصیحت كا دوسرا درجہ تھا۔
قرآن كریم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام كے خصوصی اوصاف میں سے یہ بھی بیان كیا ہے وَكَانَ یأمُر اَھلَہٗ بِالصَّلوٰةِ وَالزَّكَاةِ كہ وہ اپنے اہل وعیال كو نماز اور زكوٰة كا حكم دیتے تھے۔
اور حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام كے سلسلے میں لكھا ہے وَوَصّٰی بِھآ اِبْرَاھیمُ نَبِیہ وَیعْقُوْبُ. یا بَنِی اِنَّ اللہ اصْطَفٰی لَكُمْ الدِّینَ فَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (كہ وصیت كیا اس كی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں كو اور یعقوب علیہ السلام نے بھی (اپنے بیٹوں كو) كہ اے بیٹو! بیشك اللہ نے منتخب كیا ہے تمہارے لیے دین كو لہٰذا تم مسلمان ہوكر ہی مرنا)۔
اور آگے قرآن كریم نے حضرت یعقوب علیہ السلام كے بارے میں پھر ذكر كیا ہے اِذْ حَضَرَ یعْقُوْبَ الْمَوْت اِذْ قَالَ لِبَنِیہ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِی. (كہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام كے موت قریب آئی جب اپنے بیٹوں سے كہا كہ میرے بعد تم كس كی عبادت كروگے) انبیاء علیہما السلام كے اصلاحی فریضہ كی تبلیغ كے سلسلے میں اہل وعیال سے آغاز میں حكمت ومصلحت یہ ہے كہ اصلاح كی جو ہدایت عام مخلوق كو دی جائے اس كو پہلے اپنے اہل وعیال، گھر اور خاندان سے شروع كرے، اپنے گھر كے لوگوں كو اس پر عمل كرنا اور اس كا ماننا اور منوانا نسبتاً آسان بھی ہوتا ہے،اس كی نگرانی اور كمی كوتاہی پر تنبیہ بھی ہروقت كی جاسكتی ہے اور جب وہ كسی خاص رنگ كو اختیار كرلیں اور پھر اس میں پختہ ہوجائیں تو اس سے ایك دینی ماحول پیدا ہوكر دعوت كو عام كرنے اور دوسروں كی اصلاح كرنے پھر دوسروں كو اسی ماحول میں ڈھالنے میں بڑی قوت پیدا ہوجائے گی۔ اصلاحِ خلق كے لیے سب سے زیادہ ضروری اور مؤثر ایك صحیح دینی ماحول كا وجود میں لانا ہے، تجربہ شاہد ہے كہ صحابۂ كرام اور تابعینِ عظام كا دور اس كی روشن مثال ہے كہ ہر بھلائی تعلیم وتعلم افہام و تفہیم اور وعظ وتقریر سے زیادہ ماحول ومعاشرے اور اخلاق و كردار كے سانچے میں ڈھلنے سے پھیلتی اور بڑھتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام كے اس طرزِ عمل سے ایك اصولی بات یہ معلوم ہوتی ہے جو عام انسانوں كے لیے خاص طور پر ہدایت ہے وہ یہ كہ والدین كا فرض اور اولاد كا حق ہے كہ سب سے پہلے ان كی صلاح وفلاح كی فكر كی جائے ان كے بعد دوسروں كی توجہ كی جائے جس كے اندر دوحكمتیں ہیں: اوّؔل یہ كہ طبعی اور جسمانی تعلقات كی بناء پر وہ نصیحت كا اثر زیادہ جلد اور آسانی سے قبول كرسكیں اور پھر وہ ان كی تحریك اور اصلاحی كوششوں میں ان كے دست بازو بن كر اشاعت حق میں ان كے معین ہوں گے۔
دوسرے یہ كہ اشاعتِ حق كا اس سے زیادہ سہل اور مفید راستہ كوئی نہیں كہ ہر گھر كا ذمہ دار آدمی اپنے اہل وعیال كو حق بات سكھانے اور اس پر عمل كرانے كی سعی میں دل وجان سے لگ جائے كہ اس طرح تبلیغ وتعلیم اور اصلاح وتربیت كا دائرئہ عمل سمٹ كر صرف گھروں كے ذمہ داروں تك آجاتا ہے اور ان كو سكھلانا پوری قوم كو سكھلانے كے ہم معنی ہوجاتا ہے، قرآن كریم نے اسی تنظیمی اصول كے پیش نظر یہ اعلان فرمایا: یا اَیھا الَّذِینَ اٰمَنُوا قُوا اَنْفُسَكُمْ وَاَھلِیكُمْ نَاراً (اے ایمان والو! اپنے آپ كو اور اپنے اہل وعیال كو جہنم كی آگ سے بچاؤ اور ارشاد فرمایا وامُر اَھلَكَ بِالصَّلوٰة واَصْطَبِرْ عَلَیھا (كہ اپنے اہل وعیال كو نماز كا حكم كیجیے اور خود بھی اس كے پابند رہیے) نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ساری دنیا كے رسول ہیں اور جن كی ہدایت قیامت تك آنے والی نسلوں كے لیے عام ہے، آپ كو بھی سب سے پہلے اس كا حكم دیاگیا كہ واَنْذِر عَشِیرَتَكَ الاَقْرَبِینَ (كہ اپنے رشتہ داروں كو اللہ كے عذاب سے ڈرائیے) حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے لكھا ہے ’’كہ خاندان كے لوگوں كی تخصیص كی ایك وجہ یہ بھی ہے كہ اس میں تبلیغ ودعوت كو آسان اور مؤثر بنانے كا ایك خاص طریقہ بتلایا ہے، جس كے آثار دور رس ہیں قریبی رشتہ دار جب كسی اچھی تحریك كے حامی بن جائیں تو ان كی اخوت وامداد پختہ بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور خاندانی جمعیت كے اعتبار سے بھی ان كی تائید پر مجبور ہوتے ہیں اور جب قریبی رشتہ داروں، عزیزوں كا ایك ماحول حق وصداقت كی بنیادوں پر تیار ہوگیا تو روزمرہ كی زندگی میں ہر ایك كو دین كے احكام پر عمل كرنے میں بہت سہولت ہوجاتی ہے اور پھر ایك مختصر سی طاقت تیار ہوكر دوسروں كو دعوت وتبلیغ كرنے میں مدد دیتی ہے‘‘ اس لیے قرآن كریم نے قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَاَھلِیكُمْ نَارًا كہہ كر اہل وعیال كو جہنم كی آگ سے بچانے كی ذمہ داری خاندان كے ہر ہر فرد پر ڈالی جو اصلاحِ اعمال واخلاق كا آسان اور سیدھا راستہ ہے اور غور كیا جائے تو كسی انسان كا خود اعمال واخلاقِ صالحہ كا پابند ہونا اور پھر اس پر قائم رہنا اس وقت تك عادةً ممكن نہیں ہوتا جب تك معاشرہ وماحول اس كے لیے سازگار نہ ہو سارے گھر میں ایك آدمی نماز كی پوری پابندی كرنا چاہے تو اس پكے نمازی كو بھی اپنے حق كی ادائیگی میں مشكلات حائل ہوںگی،آج كل جو حرام چیزوں سے بچنا دشوار ہوگیا ہے اس كی وجہ یہ نہیں ہے كہ حقیقتاً اس كا چھوڑنا كوئی بڑا مشكل اور دشوار كام ہے؛ بلكہ اصل وجہ یہ ہے كہ سارا ماحول ساری برادری اور خاندان جب ایك گناہ میں مبتلا ہے تو اكیلے ایك آدمی كو بچنا دشوارہوجاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے اپنے خاندان كے لوگوں كو جمع كركے دعوتِ حق سنایا، اس وقت اگرچہ لوگوں نے قبولِ حق سے انكار كیا، مگر رفتہ رفتہ خاندان كے لوگوں میں اسلام داخل ہونا شروع ہوگیا۔
خاندان واہل وعیال كی تخصیص كی اصل وجہ یہ ہے كہ جب تك كسی شخص كے اہل وعیال اور قریبی رشتہ دار وخاندان كے افراد اس كے نظریات اور عملی پروگرام میں اس كے ساتھی اور ہم رنگ نہیںہوتے، تو اس كی تعلیم وتبلیغ دوسروں پر اتنی مؤثر نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے كہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم كی دعوت وتبلیغ كے جواب میں ابتداء اسلام میں عام لوگوں كا یہ جواب ہوتا تھا كہ پہلے اپنے خاندان قریش كو تو آپ درست كرلیں، پھر ہماری خبر لیں اور جب خاندان میں اسلام پھیل گیا اور فتح مكہ كے وقت اس كی تكمیل ہوئی تو اس كا نتیجہ قرآن كریم كے الفاظ میں یہ ظاہرہوا كہ ’’یدْخُلُوْنَ فِی دِینِ اللہ اَفْوَاجاً‘‘
اگر ہمارے معاشرے میںاصلاح كا یہی طرز اپنایا جائے، ہمارے واعظین ومقررین مصلحین وقائدین (چاہے وہ حكومتی سطح كے ہوں یا عوامی سطح كے) جو ہمارے معاشرے اور معاشرے كے افراد كے لیےنمونہ ہیں وہ اس ڈگر كو اپنالیں اور ہمارا نوجوان طبقہ جو معاشرے كا اہم عنصر او رمعاشرے كی ریڑھ كی ہڈی كہاجاتا ہے، وہ اس میدان میں آگے آئے اور اصلاح كے ہر كام كو عملی جامہ پہنانے كے لیے ہمہ تن متوجہ ہوجائے اور اپنی ذات سے اصلاح كا آغاز كرنے لگے اور ہر اصلاح كو قبول كرنے لگے، تو جلدہی ان شاء اللہ ہمارے معاشرے كی كایاپلٹ جائے گی، ہمارا معاشرہ واقعی چین وسكون كا گہوارہ بن جائے گا اور حقیقی اسلامی معاشرہ كہلانے كا مصداق ہوجائے گا اور معاشرے میں صالح انقلاب آئے گا جو قرنِ اوّل كی یاد تازہ كردے گا۔
یہ حوصلہ بھی عطا كر مجھے خدائے كریم
كہ اپنے آپ كو خود آئینہ دكھاؤں میں
٭٭٭
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 11 ، جلد: 95 ، ذی الحجة 1432 ہجری مطابق نومبر 2011ء