از: ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی
شعبہٴ سنی دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
اسلام نے غلاموں کے حق کو بھی تسلیم کیا ہے
اسلام نے غلامی کی رسم کو ختم کرنے کے لیے غلاموں کے حق کو بھی تسلیم کیا ہے کہ اگر وہ استطاعت رکھتا ہو کہ خود سے آزادی حاصل کرسکے تو اسے آزاد کرنے میں کوئی بندش یا قید نہ لگائی جائے؛البتہ غلاموں پر یہ شرط عائد کی جس بات پر آقا کی رضامندی ہوجائے اسے پورا کیا جائے اور آقا کو بھی چاہیے کہ اس کی آزادی کے تعلق سے جو بات طے پاجائے ، اس پر ثابت قدم رہے،اس کی مختلف شکلیں تھیں،ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
مکاتب
غلام کو آزادی حاصل کرنے کے لیے اسلام نے ایک طریقہ’ مکاتبت‘ کاتجویز کیا ہے،یعنی ایک معاہدہ کے تحت غلام اپنے آقا سے کہے کہ میں اتنی رقم اداکردوں گا،اس کے عوض مجھے آزاد کردیا جائے،یااس کی آزادی کے بارے میں ایسی ہی بات آقا اپنے غلام سے کہے ،اگر بات طے پاجاتی ہے اور غلام متعینہ رقم ادا کردیتاہے تو غلام آزادہوجائے گا، رقم کی ادائیگی میں زیادہ سختی بھی نہ ہونی چاہیے،اسی طرح غلام کی بات کوبھی آقا ماننے سے انکار نہیں کرسکتا، غلام طے شدہ رقم اپنے قوتِ بازو سے حاصل کرے یااس کے لیے کسی کا تعاون حاصل کرے،اس سے مالک کو کوئی مطلب نہیں ، قرآن کریم میں غلام کے اس حق کو بڑے ہی واضح انداز میں تسلیم کیا گیا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُونَ الْکِتَابَ مِمَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوھُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْراً وَآتُوھُم مِّن مَّالِ اللہِ الَّذِیْ آتَاکُم.‘‘(النور:۳۳)
(اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں،ان سے مکاتبت کرلو،اگر تمہیں معلوم ہوکہ ان کے اندر بھلائی ہے اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔)
مکاتبت کے بارے میں فقہائے اسلام کا اختلاف ہے کہ آقا کا مکاتبت پر راضی ہونا واجب ہے یا مستحب ،فقہا کے ایک طبقہ نے آیت کے الفاظ کاتبوھم سے دلیل اخذ کی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ،اس لیے یہ واجب ہے۔دوسرے فقہا کہتے ہیں آیت میں فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا کہا گیا ہے ،یہ بھلائی پانے کی شرط ایسی ہے، جس کا انحصار مالک کی رائے پر ہے ،جو استحباب پر دلالت کرتا ہے۔(۴۱) چوں کہ اسلام نے غلاموں کی آزاد ی پرمختلف پیرائے سے زور دیا ہے؛ اس لیے اسے واجب کے درجے میں رکھنا درست معلوم ہوتا ہے۔
اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے اور اسلام نے حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ جب تم کسی غلام کے اندر بھلائی دیکھو اور اس کی آزادی پر اطمینان ہو اور غلام اس لائق نہ ہو کہ وہ بدلِ کتابت ادا کرسکے توضروری ہے کہ اس کی الگ سے مدد کی جائے اور زکوٰة وصدقات کی رقم بھی اسے دی جائے ؛تاکہ وہ مکاتبت کی رقم ادا کرکے آزادی حاصل کرسکے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُھُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ.‘‘(التوبہ:۶۰)
(یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور ان کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو،نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔)
ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:
’’وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَاب.‘‘ (البقرہ:۱۷۷)
(اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسافروں پر،مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔)
مدبّر
اگر کوئی اپنے غلام سے کہے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے،یااسی مفہوم کو ادا کرنے والا اس نے کوئی دوسرا جملہ کہا تو اس کے انتقال کے بعدفوراہی غلام آزاد ہوجائے گا۔ آقا اُسے نہ تو فروخت کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ہبہ کرسکتا ہے،درمیان میں آقا اپنی بات سے پھرنا چاہے تو اس کی بات قابل قبول نہ ہوگی،اگر کوئی اس میں رخنہ ڈالتا ہے تو غلام عدالت سے رجوع کرے گا اور عدالت اسے آزادی دلوائے گی،اسی طرح آقا نے غلام کے کسی ایک حصہ کو ’مدبر‘ کیا تو بھی وہ کل شمار کیا جائے اور اس کے مرنے کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا،اسی طرح ایک غلام جو مختلف لوگوں میں مشترک ہے ،اگر اس میں سے کسی نے اپنا حصہ معاف کردیا تو اب کل غلام آزاد سمجھا جائے گا۔(۴۲)اب وہ اس آدمی کی ذمہ داری ہے کہ بقیہ لوگوں کے حصے کا معاوضہ اداکرے۔(۴۳)
امِّ ولد
اگر باندی سے آقا نے مجامعت کی اور اسے حمل ٹھہر گیا ،یہاں تک کہ اس نے صحیح سالم تندرست یا کم زور بچہ جنا ،یا اس کا اسقاط ہوگیا یا اس نے مردہ بچہ کو جنا تو وہ آقا کے انتقال کے بعد آزاد ہوجائے گی اور بچہ آقا کا ہی شمار کیا جائے گا اور اگر بچہ زندہ رہاتو اپنے والد کا وارث ہوگا، اب مالک نہ تو باندی کوفروخت کرسکتا ہے اور نہ ہبہ ،خلفائے اربعہ کے عہد میں بھی اس پر بہ کثرت عمل ہوتا تھا؛چنانچہ حضرت ابن عمررضى الله عنہ فرماتے ہیں:
’’امہاتِ ولد کی بیع نہیں کی جائے گی ،نہ انھیں فروخت کیا جائے گا اور نہ ہبہ کیا جائے گااور نہ وراثت میں بانٹا جائے گا ۔آقا جب تک زندہ رہے، ام ولد سے تمتع کرتا رہے اور جب مرجائے تو وہ آزاد ہے۔‘‘(۴۴)
باندی سے اس کے بچہ کو بھی الگ کرنے کی ممانعت کی گئی ہے،ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے:
’’جو ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی کرائے گا، قیامت کے دن اللہ اس کے اور اس کے محبوب کے درمیان جدائی ڈال دے گا۔‘‘(۴۵)
کچھ لوگ اپنی باندی سے مجامعت تو کرتے تھے ،مگر اس خوف سے عزل کرلیتے تھے کہ اگر اسے حمل ٹھہر گیا اور اس سے بچہ پیدا ہوگیا تو وہ آزاد ہوجائے گی ،ایسا کرنے کو اللہ کے رسول نے پسند نہیں فرمایا۔(۴۶) کیوں کہ اس سے اس کا حق آزادی سلب ہوتا ہے۔
غلاموں کے قتل پر قصاص
اگر کسی نے کسی غلام کا ناحق قتل کردیا تو اسلام کی نگاہ میں ایسا شخص بھی مجرم ہے ، اس جرم کی پاداش میں اس سے قصاص لیا جائے گا۔جس نے جیسا ظلم اپنے غلاموں کے ساتھ کیا ہے، اسی کے مطابق اس کو سزا دی جائے گی،قرآنِ کریم میں قصاص سے متعلق آیتوں میں حکم عام ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آزاد کے قتل پر قصاص کے طور پر قاتل کو قتل کیا جائے گا ،اسی طرح غلام کے قتل پر بھی قاتل کو قتل کیا جائے گا؛ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَکَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاص.‘‘ (المائدہ:۴۵)
(توراة میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان،آنکھ کے بدلے آنکھ،ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لیے برابر کادرجہ ہے۔)
ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:
’’یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّوَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ.‘‘(البقرہ:۱۷۸)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے،آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے گا اور غلام ہے تو غلام ہی کو قتل کیا جائے گا۔)
حدیثِ رسول میں بھی یہ حکم صراحت کے ساتھ موجود ہے،جیسا کہ آپ نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اس کو قتل کریں گے اور جو اپنے غلام کی ناک کاٹے گا ہم اس کی ناک کاٹیں گے۔‘‘(۴۷)
جتنا ظلم غلام کے ساتھ کیا گیا ہے، اتنا ہی مواخذہ اس سے کیا جائے گا،ایک حدیث سے اس کی بہ خوبی وضا حت ہوتی ہے:
’’ جس نے اپنے غلام کو خصی کیا ہم اس کو خصی کریں گے۔‘‘(۴۸)
اسی بنا پر فقہائے احناف کہتے ہیں کہ حر کو عبد کے بدلے میں اور عبد کو حر کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔(۴۹)
ظلم وزیادتی جہاں سے سرزد ہوئی ہے، اس کی سزا اسے ملنے ہی چاہیے ، کسی کے ساتھ امتیازی سلوک اسلام میں جائز نہیں ہے۔
بغیر تحدید کے آقا باندی سے استمتا ع کرسکتا ہے
اسلام نے بیویوں کی تعداد میں تحدید کردی ہے کہ کوئی بھی مسلمان بیک وقت چاربیویوں سے زیادہ اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا،اس کے برعکس باندیوں کے رکھنے اوراس سے استمتاع کرنے کے سلسلے میں کوئی تحدید نہیں رکھی ہے،یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے،جس کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے،یہ آزادی اسلام کی مصلحت پر مبنی ہے،ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ قیدیوں کی تعدا دایک دونہیں سیکڑوں اور ہزاروں میں ہوتی ہے،ان میں لڑکیوں اور عورتوں کی تعدا د بھی خاصی ہوتی ہے،اسلام انھیں یک لخت قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ، بہ شکلِ مجبوری اسلام انھیں لوگوں میں بانٹ دیتا ہے؛ تاکہ ان کی پرورش وپرداخت بھی ہوتی رہے اور دشمن کا غروربھی ٹوٹے،اب غورکیا جائے کہ لونڈیوں کے رکھنے یا اس سے تمتع حاصل کرنے کی تحدید کردی جاتی تو باقی لونڈیوں کا حال کیا ہوتا،وہ بھی انسان ہیں ،ان کے بھی جذبات وخواہشات ہیں،ان کی تکمیل کے لیے وہ اِدھر ُادھر تاک جھا نک کرتیں ،اس سے معاشرہ میں مزید برائی پھیلتی؛اس لیے اسلام نے معاشرہ کو پاک وصاف رکھنے کے لیے صرف ان کے مالکوں کو ہی حکم دیا کہ ان سے چاہو تو تمتع کرو،یا انھیں آزاد کرکے اپنے نکاح میں رکھ لو ،یا پھر ان کی شادی کسی دوسری جگہ کردو،اس طرح ان کی اچھے طریقے سے کفالت بھی ہوجائے گی اور برائی پھیلنے کا جو خدشہ ہے اس کا بھی انسداد ہوجائے گا۔
مالکہ اپنے غلام سے تمتع نہیں کرسکتی ہے
معاندینِ اسلام غلامی کے تعلق سے ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ آقا اپنی باندی سے تمتع کا حق رکھتا ہے ،تو پھر ما لکہ اپنے غلام سے تمتع کیوں نہیں کرسکتی،یہ سراسر ناانصافی ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ مرد کی بہ نسبت عورتوں میں عزتِ نفس کا مادہ زیادہ ہوتا ہے؛اس لیے مردوں کی بہ نسبت عورتیں کم برائی میں ملوث پائی جاتی ہیں اور پھر اس سے کوئی لغزش یا برائی ہوجاتی ہے تو اس کو بہت زیادہ ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے،اس کے منفی اثرات آگے چل کر اور بھی بھیانک ہوتے ہیں،گویا کہ وہ اپنے گھر اور خان دان والوں کے لیے ناسور بن جاتی ہے،ایسی صورت میں اسلام عورتوں کو اپنے غلام سے تعلق قائم کرنے کی اجازت دے دیتا تو معاشرہ میں عورتوں کا مقام گھٹ جاتا اوراگربالفرض اسے نکاح کی ضرورت پڑ تی تو یہ ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آتا؛کیوں کہ کفو کا فرق ہوجاتااور خود اس کے اقدام کو اس کے گھر والے اور قریبی رشتہ دار قبول نہیں کرسکتے تھے ،اس کے برعکس غلام کی آزادی کے بعد ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،اس کے علاوہ ایک دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اگر اس کی اجازت دے دی جاتی تو خان دان کا شیرازہ بکھر جاتا ؛کیوں کہ مرد کو عورتوں پر ایک گونہ فضیلت حاصل ہے ،بہ قول سید ابوالاعلیٰ مودودی:اپنے غلام سے کسی عورت کا تعلق شہوت رانی کی غرض تو پوری کرسکتا ہے ،مگر اسلامی نظامِ تمدن کے اندر ان دوسری اغراض کو پورانہیں کرسکتا،جن کو شریعت نے عورت اور مرد کے ازدواجی تعلق میں ملحوظ رکھنا ضروری سمجھتا ہے؛کیوں کہ اس صورت میں مرد غلام ہونے کی حیثیت سے عورت کا تابع فرمان ہوگا اور اسے گھر میں وہ اقتدار حاصل نہ ہوسکے گا جو اخلاق ومعاملات کی نگرانی کے لیے اور خان دانی نظام کو درست رکھنے کے لیے مرد ہونے کی حیثیت اسے حاصل ہونا چاہیے۔(۵۰)
اسلام نے غلامی پر اصرار نہیں کیا ہے
اسلام کی شان دار تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے غلامی پر کبھی اصرا رنہیں کیا ہے اور جنگی قیدیوں کو ’دائم الحبس‘(ہمیشہ ہمیش کے لیے قید) کرنے یا ان کا سرقلم کرنے سے بھی منع کیاہے ؛بلکہ حتی الامکان اس کی آزادی اور رہائی پر ہی زور دیا ہے،وہ کسی طرح سے بھی آزادی حاصل کرنے میں ناکام ہوتب ہی اسے غلام بنایا جائے،قید کے دنوں میں یا غلام بنانے کی صورت میں اس کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرنے کا حکم دیا گیا ہے،ان سے کسی قسم کی بد سلوکی نہیں کی گئی اور نہ انھیں کسی طرح کی اذیت اور تحقیر وتذلیل کا نشانہ بنایا گیا؛بلکہ اس کے بجائے ان کی کھوئی ہوئی آزادی بہ حال کرنے کی راہ نکالی گئی اور اس کے لیے شرط یہ رکھی گئی کہ وہ آزادی کے بعد اس کے تقاضوں سے عہدہ بر آ ہونے کی قابلیت رکھتے ہوں، چنانچہ ان میں سے بعض لوگ ایسے تھے جو مسلمانوں کی قید میں آنے سے قبل کئی نسلوں سے غلام درغلام چلے آرہے تھے،یہ لوگ غلاموں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے،جن کو ایرانی اور رومی سلطنتیں دوسرے ملکوں سے پکڑلاتی تھیں اور پھر انھیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے محاذِ جنگ پر بھیج دیتی تھی۔(۵۱)
اسلام نے غلامی کو بالکل ختم کیوں نہیں کیا؟
اسلام نے جاہلیت کے مذموم عناصر کو کالعدم کردیااور اس کی جگہ نیا اور آفاقی ضابطہٴ حیات نافذ کردیا،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے جاہلیت کی اس غیر منصفانہ روش کو اولِ وہلہ میں ہی کیوں نہ ختم کردیا اور ایک نیاضابطہ’’ آج کے بعد سے کوئی غلام نہیں بنایا جائے گا اور اس وقت جو غلام کسی کی ملکیت میں ہیں سب آزاد ہیں‘‘کیوں نہیں نافذ کردیا،اگر بہ غور دیکھا جائے تو یہ بات بہ خوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اسلام نے بالکل ابتدائی دنوں میں ہی اس لعنت کو ختم کردیا ،مگر چوں کہ حالات ایسے تھے کہ اس کانفا ذ اتنی جلدممکن نہ تھا، دراصل غلامی انسانیت کے جسم پر ایک پھوڑا تھا۔ اس کو دور کرنے کے دوہی طریقے ہوسکتے تھے،یا تو ایک جراح کی طرح چاقو سے اسے کاٹ کر پھینک دیا جائے ،یاا ندرونی تنقیہ سے تحلیل کرکے اسے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے،اسلام نے دونوں ہی طریقے استعمال کیے،لیکن دوسرے طریقے کی طرف زیادہ توجہ دی،یعنی لوگوں کے دل میں غلامی کے خلاف جذبہ پیدا کیا،غلامی کا رواج اس زمانے کی معاشیات سے بھی اس طرح وابستہ تھا کہ کسی فوری حکم سے ایک دم اس کو ختم نہیں کیاجاسکتا تھا،اگر ایسا ہوتا تو وہ لاکھوں انسان جو اپنے آقاوٴں کے رحم وکرم پر پل رہے تھے قوم کی حیاتِ اجتماعی پر ایک ہولناک بوجھہ بن کر رہ جاتے اور معاشی نظام کا شیرازہ درہم برہم ہونے لگتا؛اس لیے اگر ایک بے صبرے طبیب کی طرح جلد بازی کے ساتھ اس پھوڑے کو کاٹ کر پھینک دینے کی کوشش کی جاتی تو بیمار انسانیت کی جان کے لالے پڑجاتے،اس کے علاوہ فی الفور ایسا کرنے میں خود اسلام کو جو خطرہ درپیش ہوسکتا تھا وہ اس پھوڑے کے کاٹنے سے بھی زیادہ بھیانک ہوتا ۔(۵۲) چنانچہ اسلام نے اس کے وجود کو اس وقت تک برداشت کیا جب تک حالات مکمل خاتمے کے لیے سازگار نہ ہوگئے اور ساری دنیا کے لوگ جنگی قیدیوں کے متعلق ایک مشترکہ لائحہٴ عمل پر متفق نہ ہوگئے۔(۵۳)
اسلام نے غلاموں کو سماج کا معزز فرد بنادیا
اسلام نے غلاموں کے جوحقوق متعین کیے ،اس کے نتیجے میں سماج کے اس مظلوم طبقہ نے اپنی استعداد اور صلاحیتوں کو بروئے کارلاکر اور اپنے آقاکی شفقت وتوجہ سے سماج میں بڑااونچا مقام حاصل کیا،اس کی صلاحیتوں اور خدمات کو لوگوں نے نہ صرف سراہا؛ بلکہ ان سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی،ان کے سامنے علم و ہنر کے حصول کے لیے زانوئے تلمذ تہ کیا،ان کی امامت میں نمازیں اداکیں،شرعی معاملات میں ان کے فیصلے کو تسلیم کیا،جنگوں میں ان کے جھنڈے تلے ملکوں کو فتح کیا، یہاں تک کہ انہوں نے حکومت وسیادت بھی کی،انسانی زندگی کا کوئی ایساگوشہ نہیں جو غلاموں کی خدمات اور ان کے فیوض سے محروم رہا ہو،ایسے ہنر مند اور باصلاحیت غلاموں کی بڑی تعداد ہے، ان میں بہت سے صحابہ رضوان الله تعالى علیہم اجمعين بھی ہیں تو بڑی تعدا دمیں تابعی اور تبع تابعی بھی ، بہت سے محدث ہیں تو اچھے خاصے مفسرین بھی ہیں؛ اسی طرح علما ء وفقہا کی فہرست میں یہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔(۵۴)گویا کہ اسلام نے آزاد اور غلام میں کوئی فرق ہی نہ رہنے دیا۔
سماج کا یہ مظلو م اور مقہور طبقہ شروع شروع میں یقینا احساسِ کمتری کا شکاررہا ؛مگر جیسے ہی نبی اکرم صلى الله علیہ وسلم کی نگاہِ رحمت وشفقت پڑی تویہ ذلت بھری زندگی سے بہ تدریج نکلتے چلے گئے،آپ نے اپنے غلام زید بن حارثہ رضى الله تعالى عنہ کے ہاتھوں میں بعض جنگوں کی قیادت سونپی،ان کے بیٹے اسامہ بن زیدکو اپنی گود میں کھلایا اور ان کی پرورش وپرداخت میں حددرجہ تعاون کیا، بلال حبشی رضى الله تعالى عنہ کو موذنِ رسول کا خطاب ملا،سلمان فارسی ،صہیب رومی ،سالم مولی اور دوسرے بہت سے غلام صحابہ رضى الله تعالى عنہ کی آپ نے جو حوصلہ افزائی کی دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے،باندیوں کے ساتھ آپ نے حددرجہ لطف ومہربانی کا معاملہ فرمایا ،ان کی عزت و عصمت کو سماج میں محفوظ کیا ،اب کوئی اسے روپے کمانے کی مشین نہیں بنا سکتا اور نہ کوئی ان پر نگاہِ بد ڈال سکتا ہے،قرآن ،حدیث اور فقہ کی کتابوں کا بہ غائر مطالعہ کرنے سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے، اسلام نے کتنی دیانت داری اور انصاف کو ملحوظ رکھ کر ان کے حقو ق کو متعین کیاہے،بہ قول سید امیر علی:
’’اسلام میں آج کا غلام کل کا وزیرِ اعظم ہوتا ہے،وہ کسی چہ می گوئیوں کے بغیر اپنے آقا کی بیٹی سے شادی کرسکتا ہے اور خان دان کا سربراہ بن سکتا ہے ، غلاموں نے سلطنتوں پر حکومت کی ہے اور شاہی خان دانوں کی بنا ڈالی ہے، محمود غزنوی غلام زادہ تھا …. قطب الدین ایبک دہلی کا پہلا مسلمان بادشاہ اور اس اعتبار سے ہندوستان میں اسلامی حکومت کا اصلی بانی ایک غلام تھا،اسلام میں جس غلامی کی اجازت تھی، وہ اس غلامی سے کوئی مشابہت نہ رکھتی تھی جو کل تک دنیائے عیسائیت میں رائج تھی یا امریکہ میں ۱۹۶۵ء تک رائج تھی، جب کہ ایک مذہبی جنگ نے اس لعنت کا خاتمہ کردیا۔‘‘(۵۵)
بعض دانش ورانِ مغرب کا اعتراف
اسلام میں غلامی کوئی دائمی چیز نہیں ؛بلکہ یہ عارضی اورمصلحت پر مبنی تھی؛لیکن اس کے باوجود اس نے غلامی میں جو غیر معمولی اصلاحات کی ہیں وہ قابل تعریف اور سراہنے کے لائق ہیں۔ مغرب چاہے جتنابھی اسے برا کہے اور اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے اپنی ساری توانائی صرف کردے، وہ کہیں نہ کہیں جاکر اسلام کے نظریہٴ غلامی کا اعتراف کرے گا؛ یہی وجہ ہے ہم جب مغرب کے مفکرین کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ حددرجہ بغض رکھنے کے باوجودوہ اسلام کی اس خصوصیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے ،ان میں چندمفکرین کے نظریا ت یہاں قلم بند کیے جاتے ہیں، ’جان ڈنبرگ‘ لکھتا ہے:
’’اسلام میں غلاموں کے لیے بہتیرے قواعد رکھے گئے ہیں،جن سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد اور ان کے پیرو کس قدر شریفانہ انسانی شعور واحساس رکھتے تھے،ان قواعد کا مطالعہ کرنے کے بعد تم دیکھو گے اسلام کی خوبیاں ان تمام طریقوں کے مناقض ہیں جن کو ہمارے زمانہ تک بڑی بڑی مدعیانِ تہذیب وتمدن قومیں اختیار کرتی رہی ہیں؛ہاں اسلام نے غلامی کے اس رواج کو فنا نہیں کیا جو دنیا میں پھیلا ہواتھا؛لیکن اس نے غلام کی حالت بہتر بنانے کی بڑی کوشش کی ہے۔‘‘ (۵۶)
اسلامی غلامی میں کتنا حسن اور کتنا قبح ہے ،اس کا مختلف الجہات سے جائزہ لینے کے بعد ’ڈاکٹر مارکس ڈاوٴس ‘جس نتیجہ پر پہنچا ،اس کا وہ برملا اظہاراس طرح کرتا ہے:
’’محمد بہت شفیق اور رحم دل شخص تھے اور بلاشبہ آپ کا یہ منشا تھا کہ غلاموں کی حالت میں اصلاح کریں،اگر آپ فی الفور غلامی کی آزادی کا خیال کرتے تب بھی اس کو عمل میں لانا غالبا ناممکن پاتے ،لیکن آپ نے ’انما ا لموٴمنون اخوہ ‘ کا اعلان کرکے بہ تدریج اس مقصد کے حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا یقینی ذریعہ سوچا، جو آپ کے اختیار کے مطابق سب سے بہتر ذریعہ تھا،اس کے ساتھ ہی آپ نے موجودہ غلاموں سے نیک برتاوٴ کی ہدایت فرمائی ،اس بارہ میں آ پ کی آخری نصیحت ایسی اہم اور وقیع ہے کہ اس سے قطع نظر نہیں کی جاسکتی،آپ نے فرمایا:’اب رہے تمہارے غلام تو دیکھو جو تم کھاتے ہو وہی ان کو کھلاوٴ،جیسا کپڑاتم پہنتے ہو ویسا ہی ان کو پہناوٴ،اگر وہ کوئی ایسا قصور کریں جو تم معاف نہیں کرسکتے تو انھیں فروخت کردو؛کیوں کہ وہ خدا کے بندے ہیں اورانھیں ایذا نہیں دینی چاہیے،لوگو میری بات سنو !اور اسے خوب سمجھ لو کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں ، تم سب مساوی ہو اور تم سب ایک برادری ہو۔’اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی تلقین کردہ انسانی مساوات کی عملی مثالیں تو بعض ممالک میں نظر آتی ہیں،لیکن افسوس ہے کہ عیسائی ملکوں میں اس پر عمل نظر نہیں آتا، حضرت عمر رضى الله تعالى عنہ اپنے اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے نکلتے ہیں اور ان کا غلام اونٹ پر سوار ہے،پیغمبرِ اسلام کی جگر گوشہ حضرت فاطمہ اپنی باندی کے ساتھ چکی پیستی نظر آتی ہیں،یہ وہ نمونے ہیں جن میں آپ کی تعلیم کی مکمل مثال ملتی ہے۔‘‘(۵۷)
غلامی کے متعلق مغرب میں ایک عام منفی رجحان پایا جاتا ہے، جو اسلامی غلامی سے بالکل مختلف ہے، اس کے برعکس اسلام غلام کو کس نظر سے دیکھتا ہے ،اس کی وضاحت کرتے ہوئے ‘موسیو لیبان ’لکھتا ہے:
’’ غلامی کا لفظ جب اس یورپین شخص کے سامنے بولاجاتا ہے جو امریکن ناولوں اور روایتوں کے پڑھنے کے عادی ہیں، جن کا سلسلہ تیس سال سے جاری ہے تو اس کے ذہن میں فورا تصور پیدا ہوتا ہے ان غریبوں کا جو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہوں اور ان کو کوڑے برسائے جارہے ہوں اور پھر ان بے چاروں کو بقائے حیات کے لیے کافی غذا نہ ملتی ہو اور رہنے کے لیے انھیں تیرہ وتار کوٹھریاں نصیب ہوئی ہوں،مجھ کو اس سے بحث نہیں کہ یورپ میں جو غلام ہیں ان پر یہ تمام باتیں صادق آتی ہیں یا نہیں ؛ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام میں غلاموں کا جو تصور ہے، وہ عیسائیوں کے غلاموں کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔‘‘(۵۸)
خلاصہٴ بحث
اسلام نے دنیا کے رائج نظام سے ہٹ کر غلاموں کے متعلق اپنی ایک الگ راہ نکالی اور اس میں اتنی لچک اور وسعت پیدا کردی کہ نام کی تو غلامی باقی رہ گئی؛ مگر ان کے سارے حقو ق آزاد انسانوں کے برابر ہوگئے،وہ اپنے آقا کی ماتحتی میں بغیر کسی فکر اور خوف کے زندگی کے شب و روز گزارتے تھے اوراپنی خدمات سے معاشرہ کے لیے کارگر ثابت ہوتے۔ مالک بھی غلام کی ضرورت اور ان کی اہمیت کو سمجھ کر ان کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرتے اور غلام بھی انھیں اپنا محسن سمجھ کر ان کی عزت کرتے،اب نہ تو انھیں تاریک کمروں میں بند کیا جاتا اور نہ ان کے پاوٴں میں بیڑیاں ڈالی جاتی تھیں،وہ جب اور جہاں چاہتے آمدورفت کرسکتے تھے،اگر ان سے کوئی غلطی ہوجاتی تو تیز اور کڑکتی دھوپ میں پتھروں پر لٹاکر زدوکوب نہیں کیاجاتا تھا اور نہ ان کی اولاد کو غلام بنایا جاتا تھا اور نہ کوئی ان کی عورتوں پر نگاہ بد ڈال سکتا تھا، غلام بھی مال وجائداد رکھنے اور اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرنے کے مجاز تھے،کوئی دوسرا اس پر اپنا حق ہرگز نہیں جتا سکتا تھا،وہ عرب کے معزز گھرانوں میں شادی کرسکتے تھے ،وہ بھی کسی دعوت اور تقریب میں شریک ہوسکتے تھے اور وہ بھی اپنے یہاں کسی کو مدعو کرسکتے تھے۔تعلیم وتربیت کے مراحل وہ طے کرنا چاہتے تو اس سے محروم رکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی،اگر کسی نے ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی کی تو وہ اسلامی عدالت سے رجوع کرسکتے تھے اور انصاف حاصل کرسکتے تھے،اگر کوئی غلام بیماری میں مبتلا ہوجاتا تو مالک اور دوسرے لوگ بھی اس کی عیادت کرنے میں ذلت محسوس نہیں کرتے تھے اور تواور خود قرآنِ کریم میں غلاموں کا تذکرہ ملتا ہے؛یہاں تک کہ حضور نے اپنی پھوپھی زاد بہن سے ایک آزاد غلام کی شادی کرائی،کوئی بھی دین اورمذہب اس سے زیادہ اپنے غلام کو اور کیا دے سکتا ،بہ حیثیت ایک انسان وہ جن چیزوں کا مستحق تھا اسے مل گیا۔باوجود اس کے معاندینِ اسلام اسلامی غلامی پر اعتراضات کرتے اور اس کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں،کتنی بد دیانتی کی بات ہے؟جب کہ خود ان کا رویہ غلاموں کے حق میں بڑا ہی اذیت ناک رہا ہے،آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی انھیں سکون سے رہنے نہیں دیاگیااور ان پر طرح طرح کی بندشیں عائد کرکے انھیں اسی مقام پر پہنچادیاگیا، جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہوں نے آزادی حاصل کی تھی، جیتے جی تو وہ انسانوں کی انسانیت سوزی کے مورد بنتے ہی تھے،مرکر بھی ان کے نصیبوں میں ابدی عذاب ہوتا تھا؛کیوں کہ جس شخص نے خود کشی کی ہو وہ ملعون ترین گناہوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اسے گز بھر زمین کا حق بھی نہ پہنچتا تھا،اتنا بھی بہت تھا کہ آدھی رات کے اندھیرے میں اس کی لاش چوری چھپے کسی ناپاک زمین میں داب دی جاتی تھی اور اس کے سینے میں ایک کھونٹا گاردیا جاتا تھا ؛تاکہ دوسروں کو تنبیہ ہو۔(۵۹)
مآخذ مراجع
(۴۱) حافظ ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم،دارالاشاعت،دیوبند،۲۰۰۲ء،ج:۳،ص:۳۸۱
(۴۲) صحیح البخاری،کتاب الشرکة،باب تقویم الأشیا بین الشرکا بصحة عدل۔کتاب العتق، باب بیع المدبر
(۴۳) ایضاً۔
(۴۴) موطا امام مالک،کتاب العتق والولاء،باب أمہات الأولاد وجامع القضافي العتاقة․
(۴۵) مسند احمد بن حنبل،ج:۵،ص:۴۱۳-۴۱۴۔جامع الترمذی،کتاب السیر،باب ماجاء فی کراہة التفریق بین السبي
(۴۶) جامع الترمذي،کتاب النکاح،باب ماجاء في العزل․
(۴۷) سنن ابو داوٴد،کتاب الدیات،باب من قتل عبدہ او مثل بہ ایقاد منہ۔جامع الترمذي، کتاب الدیات،باب ماجاء في الرجل یقتل عبدہ․
(۴۸) سنن ابو داوٴد،کتاب الدیات،باب من قتل عبدہ او مثل بہ ایقاد منہ۔سنن نسائي ،کتاب القسامة والقودة والدیات ،باب القصاص في السن․
(۴۹) ابو بکر احمد بن علی الرازي الجصاص،احکام القرآن،مطبعة البہیة ،مصر،۱۳۴۷ھ ، ج:۱، ص:۱۵۷
(۵۰) سید ابوالاعلیٰ مودودی،تفہیمات،مرکزی مکتبہ اسلامی،دہلی،ج:۲،ص:۳۷۸
(۵۱) اسلام اور جدید ذہن کے شبہات،ص:۹۶
(۵۲) ابو سعید بزمی،تاریخ انقلاب عالم،کتاب منزل،لاہور،۱۹۴۹ء،ص:۱۱۵
(۵۳) اسلام اور جدید ذہن کے شبہات،ص:۸۸-۸۹
(۵۴) تفصیلی مطالعہ کے لیے ملاحظہ کریں:مولانا سعید احمد اکبر آبادی،غلامانِ اسلام،ندوة المصنّفین،دہلی،۱۹۴۰ء
(۵۵) روحِ اسلام،ص:۴۱۳
(۵۶) مولانا سعید احمد اکبر آبادی،اسلام میں غلامی کی حقیقت،ندوة المصنّفین،دہلی ، ص:۲۰۷
(۶۷) ایضاً،ص:۲۱۳-۲۱۴
(۵۸) ایضاً،ص:۲۰۲
(۵۹) روحِ اسلام،ص:۴۲۱
***
—————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3 ، جلد: 95 ، ربیع الثانی 1432 ہجری مطابق مارچ 2011ء