از: مولانا سعید احمد سرونج قاسمی
سلام اے عالمِ دیں واقف اسرارِ ربّانی سلام اے عارفِ علمِ حدیث وعلمِ قرآنی
مُدیرِ محترم ، جامع کتابِ ’’بابری مسجد‘‘ کھلا عُقدہ جو دیکھی یہ کتابِ بابری مسجد
جو گذری بابری مسجد مراحل در مراحل سے لکھا ہے خوب تاریخی شواہد اور دلائل سے
حقائق پر ہے مبنی درحقیقت داستاں ساری اُجاگر ہوگئی جس سے چھپی وہ داستاں ساری
شکستِ گنبد و در سے ہوا جذبات کا عالم دکھانے پر تُلی ہے چشمِ نم برسات کا عالم
ابھی تو شاد ہیں دل میں عدالت کی عنایت سے بہت پچھتائیں گے جب فیصلہ ہوگا بغاوت سے
بغاوت ہم نہیں کرتے نہ حامی ہیں بغاوت کے عقیدوں کی بناء پرفیصلے ہوں گے بغاوت کے
مگر جب آستھاؤں سے گھرا ہندوستان ہوگا تو پھر ٹکڑے ہی ٹکڑوں میں بٹا ہندوستاں ہوگا
نہ یہ جمہوریت ہوگی نہ باقی سلطنت ہوگی جدھر دیکھو اُدھر بس شورشوں کی شیطنت ہوگی
نہ کوئی منتری ہوگا، نہ یہ سنسدبھون ہوگا الگ ڈکٹیٹری ہوگی، الگ سنسد بھون ہوگا
جو چاہو کہ رہے امن واماں، جمہوریت باقی تو مل جل کر رہو تاکہ رہے انسانیت باقی
عقیدہ یہ تمہارا ہے عقیدہ یہ ہمارا ہے عقیدوں پر نہیں لڑتے کہ لڑنے میں خسارا ہے
مقولہ حضرتِ اقبال کا مدِّ نظر رکھو کہا تھا جو بہت پہلے اُسے پیشِ نظر رکھو
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
***
———————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3 ، جلد: 95 ، ربیع الثانی 1432 ہجری مطابق مارچ 2011ء