از: مولانا سید ارشد مدنی صاحب
حضرت مولانا کی تصانیف ومکتوبات
جیساکہ میں نے عرض کیا، حضرت مولانا کے علوم اور تحقیقات وتحریرات کا دائرہ، خاصا وسیع اور مختلف موضوعات ومضامین پر مشتمل ہے، اگرچہ حضرت مولانا کی تصانیف شمار میں بہت زیادہ نہیں ہیں، مگر جس قدر بھی ہیں ان میں سے ہر ایک دریا بکوزہ کی عمدہ مثال ہے۔ یہ کتابیں زیادہ تر اردو میں ہیں لیکن چند فارسی میں بھی ہیں، یہاں ان کے مفصل تعارف کا موقع نہیں، لیکن ان کے نام اور موضوعات کا مختصر تذکرہ کیاجاسکتا ہے۔ تصانیف یہ ہیں:
نمبرشمار موضوع نام کتاب مطبع ومقام طباعت سنہ طباعت
۱ قرآن مجید اور علوم القرآن تصحیح قرآن شریف (برائے طباعت) مطبع مجتبائی میرٹھ ۱۲۸۱ھ
۲ قرآن مجید اور علوم القرآن تصحیح حمائل شریف مع موضح قرآ مطبع مجتبائی میرٹھ
۳ قرآن مجید اور علوم القرآن اسرار قرآنی گلزار احمدی، مرآباد ۱۳۰۴ھ
۴ حدیث اورمتعلقات حدیث بخاری شریف، شرکت در تصحیح حواشی مطبع سیدالاخبار، دہلی ۱۲۷۰ھ
حضرت مولانا احمد علی محدث، سہارنپوری ومطبع احمدی، دہلی ۱۲۶۴ھ
۵ حدیث اور متعلقات حدیث رسالہ تقریر حدیث:فضل العالم کفضلی علی أدناکم بلاسنہ
۶ فقہ واسرار شریعت احکام الجمعة رام پریس، میرٹھ ۱۳۴۲ھ
۷ فقہ واسرار شریعت اسرار الطہارة مطبع قاسمی، دیوبند بلاسنہ
۸ عقائد وکلام تحذیر الناس مطبع صدیقی، بریلی تقریباً ۱۲۹۱ھ
۹ // // حجة الاسلام مطبع احمدی، علی گڈھ ۱۳۰۰ھ
۱۰ // // گفتگوئے مذہبی مطبع ضیائی، میرٹھ ۱۲۹۳ھ
۱۱ // // مناظرہ عجیبہ گلزارابراہیم، مرادآباد بلاسنہ
۱۲ غیرمقلدین کے نظریات ودلائل کی تردید الاجوبة الکاملة فی الأسولة الخاملة مطبع مجتبائی، دہلی ۱۳۲۲ھ
۱۳ غیرمقلدین کے نظریات ودلائل کی تردید الدلیل المحکم علی قرأة الفاتحة للموٴتم گلزاراحمدی، مرادآباد ۱۳۰۲ھ
۱۴ غیرمقلدین کے نظریات ودلائل کی تردید توثیق الکلام فی الانصات خلف الامام مطبع ہاشمی، میرٹھ ۱۳۰۲ھ
۱۵ غیرمقلدین کے نظریات ودلائل کی تردید حق الصریح فی اثبات التراویح مطبع عین الاخبار، مرادآباد بلاسنہ
۱۶ غیرمقلدین کے نظریات ودلائل کی تردید مصباح التراویح مطبع ضیائی، میرٹھ ۱۲۹۰ھ
۱۷ شیعیت کے جواب میں اجوبہٴ اربعین مطبع ضیائی، میرٹھ ۱۲۹۱ھ
۱۸ شیعیت کے جواب میں ہدیة الشیعة مطبع ہاشمی، میرٹھ ۱۲۸۴ھ
۱۹ شیعیت کے جواب میں انتباہ المومنین مطبع احمدی،میرٹھ ۱۲۸۴ھ
۲۰ عیسائیت کی حقیقت تقریر دل پذیر مطبع احمدی، دہلی ۱۲۹۹ھ
۲۱ عیسائیت کی حقیقت مباحثہ شاہجہاں پور مطبع احمدی، دہلی ۱۲۹۹ھ
۲۲ ہندوؤں کے اسلام پر اعتراضات کے جواب آب حیات مطبع مجتبائی، دہلی ۱۲۹۸ھ
۲۳ // // انتصار الاسلام اکمل المطابع، دہلی ۱۲۹۸ھ
۲۴ // // تحفہ لحمیہ مطبع صدیقی، بریلی بلاسنہ
۲۵ // // جواب ترکی بہ ترکی مطبع ہاشمی، میرٹھ ۱۲۹۶ھ
۲۶ // // قبلہ نما اکمل المطابع، دہلی ۱۲۹۸ھ
۲۷ شعروادب قصائد قاسمی مطبع مجتبائی، دہلی ۱۳۰۹ھ
۲۸ فلسفہ تقریر ابطال جزو لا یتجزی مطبع مجتبائی، دہلی بلاسنہ
۲۹ عقلیت پسندوں کا جواب تصفیہ العقائد مطبع ضیائی یا ہاشمی میرٹھ ۱۲۹۸ھ
۳۰ مکتوبات قاسم العلوم مطبع مجتبائی، دہلی ۱۲۹۲ھ
۳۱ لطائف قاسمیہ // // ۱۳۰۹ھ
۳۲ جمال قاسمی // // ۱۳۰۹ھ
۳۳ فرائد قاسمیہ ادارہ ادبیات، دہلی ۱۴۰۰ھ
۳۴ فیوض قاسمیہ مطبع ہاشمی، میرٹھ ۱۳۰۴ھ
خلافت اسلامیہ ترکی اور خلیفة المسلمین سے گہرا تعلق
خلیفة المسلمین اور بابِ عالی ترکی سے، ہندوستانی مسلمانوں کے عوام وخواص کی مغل دورحکومت سے گہری وابستگی اور خلافت اسلامیہ سے اپنی نیازمندی کا اظہار، ہندوستانی مسلمانوں کے احوال وتاریخ سے واقف اصحاب پر مخفی نہیں۔ باب عالی نے بھی ہندوستان کے جلیل القدر علماء کی قدردانی اور عزت افزائی میں کمی نہیں کی، خصوصاً آخری دور میں جب عالم اسلام پر مغرب کی یلغار ہوئی، اور مغربی طاقتوں نے ترکی حکومت کے اقتدار اعلیٰ کو نقصان پہنچانے اور اس کی سرحدوں میں مداخلت شروع کی، اس وقت ہندی مسلمانوں پر عجیب اضطرابی کیفیت طاری تھی۔ وہ کسی بھی طرح سلطان ترکی کی مدد کرنا چاہتے تھے اور خلافت اسلامیہ کو درپیش خطرات اور فوجوں سے مقابلہ کے لئے، اپنی ہر طرح کی جانی مالی قربانی پیش کرنے کی آرزو رکھتے تھے، ایسے موقعے کئی مرتبہ پیش آئے، ہر مرتبہ مسلمانوں کا اجتماعی تأثر اور رد عمل یہی ہوا۔
ایساہی ایک نازک موقع اس وقت سامنے آگیا تھا، جب ۱۸۷۴/ (۱۲۹۴ھ) میں روس نے ترکی پر حملہ شروع کردیا تھا اور بلقان کے علاقہ میں، پُرزور جنگ شروع ہوگئی تھی، اور خلافت عثمانیہ کے کئی علاقے اس کے قبضہ سے نکل کر، روس کے ہاتھ میں چلے گئے تھے۔
بلقان کی جنگ روس کی ترکی کے ساتھ، اپنے معاہدوں کی صاف خلاف ورزی کرکے، ترکی کے علاقوں پر حملہ اور فوج کشی سے شروع ہوئی تھی۔
روس کی حکومت سے خلافت ترکی کا سنہ ۱۸۵۶/ (رجب ۱۲۷۳ھ) میں پیرس میں، معاہدہ امن ہوگیاتھا، جس کی وجہ سے حکومت ترکی روس کی طرف سے کسی لڑائی سے مطمئن تھی، مگر روس کی حکومت نے کھلی معاہدہ شکنی کی اور سنہ ۱۸۷۴/ (۱۲۹۴ھ) میں خلافت عثمانیہ کی ریاستوں پر، اچانک حملہ کردیا، چونکہ حکومت ترکی اپنے معاہدہ کی وجہ سے روس کی طرف سے مطمئن تھی اوریہ حملہ نہایت بے خبری میں ہوا تھا، اس لئے ترکی حکومت کا نقصان ہوا، اور اس کے کئی علاقے ایک کے بعد ایک، اس کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے۔
یہ حادثہ اور نقصانات ایسے نہیں تھے کہ ہندوستانی مسلمان اس سے بے خبر رہتے، اور متاثر نہ ہوتے،جیسے ہی یہ خبر ہندوستان پہنچی، تمام مسلمان اور خصوصاً علمائے کرام وہ علماء جو ملّی درد رکھتے تھے، خصوصاً مدرسہ دیوبند کے بانیان کرام اور علماء پر، اس کا غیرمعمولی اثر ہوا، ان حضرات نے حکومت ترکی کے تعاون کے لئے، کئی منصوبے بنائے جس میں سب سے پہلے مالی تعاون کی فکر تھی۔اس کے لئے حضرت مولانا محمد قاسم نے کوشش فرمائی، لشکر عثمانی کے زخمیوں کیلئے، چار ہزار روپئے چندہ کرکے روانہ کئے، یہ رقم کئی قسطوں میں بمبئی میں مقیم دولت عثمانیہ کے قونصلر جنرل (Counsellor General)حسین حسیب آفندی صاحب کو بھجوائی گئی، قونصلر جنرل صاحب نے اس کی رسید بھجوائی اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور علمائے کرام کو شکریہ کا مفصل خط لکھا، جس کے الفاظ یہ تھے:
جناب فضل مآب حاجی محمد عابد صاحب، وجناب مولوی محمد یعقوب صاحب، ومولوی محمد قاسم، ومولوی محمد رفیع الدین صاحب۔ مہتممان مدرسہ عربی دیوبند سلّمہ اللہ تعالیٰ!
بعد سلام مسنون الاسلام! موضوح باد کہ مکتوب بہجت اسلوب آں حضرات مع مبلغ ایک ہزار دوصد روپیہ نوٹ بنگالی، کہ بمراد ارسال آں بہ باب عالی برائے مجروحین وایتام داراہل عساکرہ منصورہ صرف شود، مرسول بود، موصول گردید۔
حقیقتاً مساعی جمیلہ آں حضرات کہ بمقتضائے حمیت دینیہ بظہور آمدہ،مستحق ممنونیت مشکوریت ہست، وبحول اللہ تعالیٰ مبلغ مذکور حسب خواہش بہ باب عالی تبلیغ میکنم، ورسیدی کہ ازآں جامی رسد، درعقب موصول آں حضرات خواہد شد، ودرجوائب ہم نشر خواہد گردید۔ وہم چنیں ہر مبلغے کہ حسب تحریر ایشاں رسیدہ باشد، انشاء اللہ تعالیٰ مع الافتخار درتبلیغ آں دریغ نخواہد وداد۔ زیادہ والسلام!
مورخہ ۱۰/محرم الحرام ۱۲۹۴ھ
حسین حسیب
سرشہبندر، دولت عثمانیہ علیہ۔ دربمبئی
حسین حبیب آفندی کو دوسری مرتبہ رقم پہنچی، تو انھوں نے ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا:
جناب فضائل مآب مولوی محمد قاسم صاحب، ومولوی محمد یعقوب صاحب، ومولوی محمد رفیع الدین صاحب ومحمد عابد صاحب
مہتممان مدرسہ عربی دیوبند، سلمہم اللہ تعالیٰ
بعد سلام مسنون الاسلام! مشہود باد کہ مبلغ دو صد روپیہ بابت اعانت عساکر، قسط دوم کہ ارسال فرمودند موصول گردید، وروانہ کردہ شد، خاطر شریف جمع دارند۔ وانچہ از اظہار مہربانی ہاکہ بہ نسبت من فرمودہ اند، گویا بلسان حال من اظہار بزرگی وشرف خود فرمودہ اند، ایزد تعالیٰ توفیق خیر مزید گرداند۔
والسلام
سرشہبندر، دولت علیہ عثمانیہ دربمبئی
۱۶/صفر الخیر ۱۲۹۴ھ
اس کے بعد حضرت مولانا،موقع بہ موقع،رقومات اکٹھی کرکے، بمبئی عثمانی قونصل خانہ بھیجتے رہے،اور وہاں سے رسیدیں اور شکریہ کے خطوط موصول ہوتے رہے،(۱) اس طرح کے کئی اور خطوط بھی معلوم ہیں، مثلاً:
مکتوب: (۱۵/جمادی الاول ۱۲۹۴ھ )
مکتوب: یکم جمادی الاخری ۱۲۹۴ھ (۱۳/جون ۱۸۷۷/)
مکتوب: ۱۳/جون ۱۸۷۷/ مکرر
مکتوب: ۲/رجب ۱۲۹۴ھ ( )
مکتوب: ۳/رجب ۱۲۹۴ھ ( )
ان رقومات کے ملنے کی باب عالی سے بھی اطلاعات آئیں،آخر میں خلافت عثمانیہ کے وزیراعظم ابراہیم ادہم کا ذاتی خط موصول ہوا، جس میں حضرت مولانا، ان کے رفقاء اور معاونین وچندہ دینے والوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیاگیا تھا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا خط یہاں نقل کردیا جائے، تحریر فرماتے ہیں:
وزیراعظم خلافت عثمانیہ کا شکریہ کا خط
واضح ہوکہ دفتر خاص باب عالی، شاہنشاہ ظل الٰہی سلطان دوم خلد اللہ ملکہ سے بھی رسیدات آئیں، چوں کہ وہ زبان ترکی میں ہیں، ان کا تلفظ اور تفہم دشوار ہے، اس لئے انہیں نقل نہیں کیا۔ مگر شکریہ وزیراعظم سلطنت روم، باب عالی سے بعبارت فارسی عزورود دلایا، اور باعث افتخار ہندوستان ہے۔ نقل کرتے ہیں:
شکرایہ از جانب
دستور معظم، صدر اعظم، جناب ابراہیم ادہم صاحب بہادر لازال ظل کرمہ
جناب مدرسان مدرسہ دیوبند، ضلع سہارنپور۔ فضیلت مآبان صاحب۔
اعانت نقدیہ بجہت اولاد وعیال عساکر شاہانہ، کہ درجنگ سربستان شربت شہادت نوشیدہ بودند، پیش ازیں فراہم آوردہ ارسال فرمودہ بودید، بتمامی واصل گردید۔ برائے توزیع آں باب استحقاق بانجمن مخصوص تسلیم نمودہ شد، وازیں ہمت فتوت مندانہ کہ مجرداز غیرت دینیہ وحمیت اسلامیہ شما بوقوع آمدہ است، ہمہ وکلائے دولت علیہ عثمانیہ فرحناک گشتہ، وعلی الخصوص بدرجہٴ کمال ہادی خوشنودیت ایں مخلص بے ریا گردیدہ است۔
مبلغ مرسول علاوہ برآنکہ باضطراب محتاجین تخفیفے بہم رسانیدہ، کسانیکہ ازیں اعانت حصہ دارشدند بملاحظہ آنکہ درممالک بعید وہندوستان برادران دینی ہستند کہ برحال پرملال بچشم تاسف نگاہ می کنند، وبرزخم ہائے کہ از دشمنان دین خوردہ ایم، مرہم تسلیت می نہند، اظہار مزید شکرانیت کردند واشک رقت ریختہ حصہ خود شانرا گرفتند، بنا بریں از جناب رب مستعان کہ نصیر وظہیر یگانہ گویان است، التماس آں دارم کہ سعی جمیل شما عند اللہ مشکور گشتہ، دردنیا وعقبیٰ مظہر اجرجزیل باشید۔
والسلام
۹/جمادی الاول ۱۲۹۴ھ
عن دارالخلافة العلیة العثمانیہ(۲)
وزیر اعظم ابراہیم ادہم
حضرت مولانا قاسم اور ان کے رفیق علماء نے اس وقت وزیر اعظم حکومت عثمانیہ (ابراہیم ادہم) کے خط کا جو مفصل جواب لکھا تھا اور اظہار ممنونیت کیاتھا، اس کی سطر سطر سے علماء ہند، خصوصاً حضرت مولانا محمد قاسم اور ان کے ہم نوا علماء کی عثمانی حکومت اور خلافت اسلامیہ سے گہری محبت وانسیت کا اظہار ہوتا ہے، یہ خط مفصل ہے اس لئے یہاں اس کا ایک اقتباس پیش ہے اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم اور ہندوستان کے عام مسلمانوں کی نگاہوں میں خلافت اسلامیہ کا کیا بلند مرتبہ ہے اور وہ اس سے کس قدر گہری وابستگی رکھتے تھے، حضرت مولانا نے لکھا تھا:
روز جمعہ پانزدہم رجب ۱۲۹۴ ہجری علی صاحبہا الف الف صلوٰة سلام، فرمان والا شان کہ ہمچونامہ اعمال اصحاب الیمن، تسلی بخش دل ہائے اندوہ گیں بود، نزول اجلال بسروچشم ذلیلان پراگندہ حال فرمودہ۔ ذرہائے بے مقدار را از خاک ذلت بآسمان عزت رسانید، وخاک نشینان تیرہ بخت را رشک خورشید جہاں تاب گردانید۔ شکر ایں منت علیاء از زبان از کجا آریم کہ اول متاع قلیل ہماں، یگان ذلیل رازیر نگاہ قبول جاداند، وسپاس ایں عنایت عظمیٰ چگونہ گزاریم، کہ بازبارسال فرمان جلیل متضمن قبول آنمایہ قلیل، افتادگان خاک ذلت رابرچرخ نشاندند:
زقدروشوکت سلطان نگشت چیزے کم کلاہ گوشہٴ دہقان بآسمان رسید
(مسرت) عیدبایں روز مبارک نرسد، کہ طراز رشک ہلال نورافزائی دل ودیدہ ہندیان خوارگردید، وبخت ہمایوں بایں طالع نکوپہلونزند، کہ ہمارے اوجِ سعادت بال بسر بے سروسامان زارونزار کشید:
در ہر ذرہ آفتاب آمد بحر در خانہ حباب آمد
گرد بودیم رشک نور شدیم بر در قرب زرہ دور شدیم؟
قطرئہ زار شد در نایاب ذرہ خوار شد خور ومہتاب
افسوس نہ خزانہ قارون است کہ بریں سرفرازنامہ نثار سازیم، ونہ بخت ہمایوں است، تا بمددش بجائے جان درسینہ نہیم، وازجان پردازیم۔ از بے خبری قطرہ بدریا سپردیم، مگر زہے عنایت کہ ہمچودریا باغوشش کشیدند، واز بے عقلی ذرہ پیش آفتاب برویم، مگر زہے کرم کہ بنور نظر عنایت رشک ماہ وکواکب گردانیدند۔
جنگ بلقان کیلئے حضرت مولانا محمد قاسم اور ان کے رفقاء کا سفرحجاز
حضرت مولانا محمد قاسم اور ان کے اصحاب کو خلافت عثمانیہ سے جو وابستگی تھی، اس کا حق اور تقاضا تھا کہ خلافت سے وابستگی اور دینی ملّی درد رکھنے والے اصحاب چندہ مالی اور تعاون سے آگے بڑھ کر کوئی اقدام کریں، علمائے دیوبند اور حضرت مولانا محمد قاسم اس میں بھی پیچھے نہیں رہے، جب جنگ کی خبریں کثرت سے آتی رہیں، تو ان حضرات نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں خود جاکر دیکھنا ہے اور اگر ضرورت ہوتو، جہاد میں عثمانیہ لشکر کے ساتھ شریک ہونا ہے۔
اس مقصد کے لئے سب سے پہلے سفر حج (حجاز) کا ارادہ کیاگیا، اس کارواں میں جو اس مقصد کے لئے تیار ہوا تھا، علمائے کبار کی ایک بڑی جماعت شامل تھی، جس میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفیق ومعاون، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی بھی شریک تھے، اس سفر کا پورے ملک میں چرچا ہوگیا تھا اور عام طور پر یہی سمجھا جارہا تھا کہ یہ حضرات سفر حج کے پردہ میں، بلقان کی جنگ میں شرکت اور سلطان ترکی کی مدد کے لئے جارہے ہیں، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی نے لکھا ہے:
”عام اہل اسلام نے جب دیکھا کہ دفعتہ خلاصہٴ ہندوستان بجانب حجاز جارہا ہے (اس لئے) جس سے بھی ہوسکا، وہ معیت و ہمرکابی کے لئے تیارہوگیا۔ اس لئے کہ بطور خود لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیداہوگیا، کہ یہ حضرات دینی معاونت کے لئے بحیلہٴ سفرحجاز، حقیقت میں ملک روم کا سفر کررہے ہیں۔ ترکی سلطنت کی طرف سے والنٹیر جماعت میں شامل ہوکر، مجاہد فی سبیل اللہ بنیں گے اور جس کے نصیب میں مقدر ہے، جام شہادت پی کر حیات ابدی حاصل کرے گا“(۳)
حضرت مولانا محمد قاسم کے ایک بڑے شاگرد اور علمی عملی جانشین (شیخ الہند مولانا محمودحسن کے شاگرد اور سوانح نگار) مولانا سید اصغر حسین صاحب نے بھی تقریباً یہی ظاہر کیا ہے کہ:
”۱۲۴۹ھ میں بھی جب علمائے ہندوستان کا مشہور قافلہ جنگ روم وروس کے زمانہ میں روانہ ہوا، تو لوگوں نے خود بہ خود ایسی ہی توجیہات شروع کردی تھیں“(۴)
ابھی یہ حضرات مکہ مکرمہ میں تھے کہ پلونا پر روس کے قبضہ کی خبر پہنچی، جس سے سب کو بہت افسوس ہوا، مگر مکہ مکرمہ میں اخبارات کا سلسلہ بند تھا، اس خبر کی تصدیق باقی تھی اس لئے حضرت حاجی امداد اللہ کی ہدایت ومشورہ کے مطابق، مجبوراً واپسی کا ارادہ کرلیا۔ بہ ظاہر ان حضرات کے سفر کی صورت نہیں ہوئی اگرہوتی تو یہ حضرات مکہ مکرمہ سے ترکی جاتے اور وہاں سے محاذ جنگ (بلقان) پہنچنے کی کوشش فرماتے۔
سلطان عبدالحمید خاں کی شان میں مولانا محمد قاسم کا قصیدہ
حضرت مولانا محمد قاسم کی خلافت عثمانیہ سے محبت وارادت مندی کی ایک بڑا مظہر، حضرت مولانا کا ایک قصیدہ ہے، جو اس وقت لکھا گیا تھا جب بلقان کی جنگ ہورہی تھی اور یہ سب علماء ترکی حکومت کے لئے مالی تعاون اور رقوم کی فراہمی میں دل وجان سے مشغول تھے۔
یہ قصیدہ حضرت مولانا اور ہندی مسلمانوں کی خلافت عثمانیہ سے وابستگی کی ایک علامت، اور ایک بڑا خراج تحسین اور اظہار نیاز مندی بھی ہے۔ کہنا چاہئے کہ حضرت مولانا کے الفاظ میں پوری قوم کے جذبات جھلک رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
قصیدة الامام محمد قاسم النانوتوی رحمة اللہ علیہ
فی مدیح السلطان عبد الحمید خاں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نفسی وما بیدی فدی لجمالکم ان متُّ دونکم فمن لدلالکم
أنسیتم أیام حسن خصالکم أیام کان حیاتنا بوصالکم
اذا أنت دون النفس وہی بعیدة متنا مرارًا بالسرور ہنالکم
أیام تغنون العیون من الذُّکا وتراودن الطرف مذ اظلالکم
شوقی یسوق الیکم ثم یعوقنی عذلُ العواذل واحتمالُ ملالکم
ما فی غیر الاسم الا أننی لأسیر سیرَ الظل خلف جمالکم
صرنا کآثار الخطی أو دوننا أفما بلغنا منتہیٰ آمالکم
صرنا کآثار الخطی وہم لو لم نرض الی منتہٰی آمالکم
قتلتنا قتل العدو فقل لنا ہذا دلال أم جزاء خلالکم
مذ غبتَ عن عینیّ طالت لیلتی أم أظلم الأیام دون جمالکم
فسواد ظلک فاق أنواراکما عکس الذُّکاء یُریٰ کدورة خالکم
ہذا الجمال ولا جمال یفوقہ عبد الحمید أظن فی تمثالکم
سِرُّ الکرام البیض وابن صمیمہم وسلالة الأشراف زبدة آمالکم
لو کنت فیہ بمسمع أو منظر لعرضت یامن شاع صیت نوالکم
الناس أطوار ولکن أین ما بجمالکم وجلالکم وکمالکم
لاتسلون وقد فننت بہجرکم أفما فرغتم بعدُ من ادلالکم
دعنا نموت تحسّراً فالی متٰی ادلالکم والخبر عن اقبالکم
للّٰہ درکم بنی عثمان لو ہذا دلیل جمالکم وحلالکم
شمس الضحیٰ بحر الندیٰ أسد الوغی لا فضل الا وہو فی أفضالکم
قد غرّ طاغوت النصاری حلمکم ومکارم الاخلاق دون نزالکم
لولاہ ما طمع النصاری فیکم فأروا بسالتکم وحد نضالکم
فسیندمون ولات حین ندانة اذ قد تبدی ناجذا أہوالکم
ربما سبقتُم موتہم فلو أنہم ماتوا فما یغنی من استقبالکم
الخیل خیلکم اعزن وما استویٰ نقع أثارتہا الی أذیالکم
فاتت حقول جنودہم فرسانکم فوت المحال عقولکم ومثالکم
طارت الیہم خیلکم فعقولہم طارت کمثل المال من أفضالکم
قد أوقدوا نار الوغیٰ حتی اذا حمی الوطیس ولا برق نِضالکم
برود کما قتلوا بہا فاستدفوٴوا بالنار ام ہانت بجنب نکالکم
لا یہربون من المنایا ان اتت واذا اتیتم أدبروا کنبالکم
لجاوٴا الی النیران لما عاینوا بأساً شدیداً من وراء نضالکم
خذہم أمیر الموٴمنین فانہم بدأوا وقد غدرو اعلٰی امہالکم
فالی متی ہذا التلطف والأسیٰ والی متی اصلاحہم بمقالکم
یا خادم الحرمین حامی ملة بیضاء فوق وجوہکم وبخالکم
قو أعزة الحرمین شر جماعة لیس مذل لہم سری أبطالکم
قر أعزة الدین القویم وأہلہ بالہمة العلیا کذِرْوَةِ خالکم
ہذا أوان قیامکم بدفاعہم لازال عزتکم وعزة آلکم
اللّٰہ ناصرکم فبدد جمعہم شرد بہم من خلفہم لقتالہم
لولا مہالک فی مہالک دونکم من دونہا أخریٰ وہن کذالکم
وموانع وعلائق وعوائق عاقت منی عرض المنی بحیالکم
لرایتنا ونحورنا کسیوفکم من دون نحرکم عصمة لآثالکم
نعدو الیہم موجعین نقول یا أعداء أنفسکم عداة عیالکم
ان کان بغیتکم ببغیکم العلی فرما حنا تعلی روٴس رجالکم
تعصون من طاعت منایاکم لہ وتماطلون معجلی آجالکم
ہو رأسکم وبہ البقا ان یعتزل فالموت أدنی من شراک نعالکم
شمس وما شمس فہل من مظلم ہاتوا بظلمة غیکم وضلالکم
ایاکم وجنودہ فسیوفہم خطافة الأرواح من أمثالکم
یا حبذا عبدالکریم أمیرہم قد قطع الاسباب قطع حبالکم
ففررتم عن أمہاتکم وعن أبنائکم وعن ذوات حجالکم
فیکاد یبری سیفہ الأشکال من أجسامکم واللون أشکالکم
جبل اذا زاحمتم، برق اذا أجفلتم، سیلٌ لدن استقلالکم
برق وما برق فہل من دافع لیدک أرضکم وضم جبالکم
لیث وما لیث أوانَ قتالکم غیث و ما غیث لدی امحالکم
قسم السیوف بأن قوائمہا لہم وصدورہا لکم الی أجفالکم
عبدالکریم ابن الکریم ابوالکریم قاتل الکرماء من اقبالکم
أسرد الضرب انتہوا خیرالکم لاترجعون صلاحکم بخبالکم
أفلا ترون مصائبا ترب الردیٰ احللن أہو الا محل غلالکم
لا رأس فیہ حجیٰ ولا قلب بہ صبر فہل سلبا مع أموالکم
ہذی دیارکم فلا داع ولا فیہا مجیب دعائکم وسوٴالکم
قد اظلمت کوجوہکم وحظوظکم ہل سودتہا ظلمة من بالکم
أم طال لیلتکم فذاک ظلامہا أم أظلمت أیامکم بفعالکم
أم آن شدکم الرحال الی لظیٰ فاللّٰہ أخرہا لشدّ رحالکم
لی لا تضلوا عن طریق جہنم لضلالکم وظلام سوء مآلکم
بِی أظلمت من دون ظل اللّٰہ من فی ظلہ نور الہدی لمنالکم
اللّٰہ ینصرہ ویخذلکم بہ ویزید فی العز من اذلالکم(۵)
وفات: حضرت سفر حج کے بعد سے برابر بیمار چلے آرہے تھے، مگر سخت بیماری اور ضعف کے باوجود، دینی خدمات کا تسلسل جاری تھا، بیماری اور سخت کھانسی میں، ایک مشہور ہندو مبلغ اور پیشوا، سوامی دیانند سرسوتی کے اسلام پر اعتراضات اور مسلمانوں کو علی الاعلان چیلنج کرنے کی وجہ سے دیوبند سے سفر کرکے رڑکی گئے، سوامی دیانند کے اعتراضات کے جواب دئیے، اور ان پر دو کتابیں تحریر کیں۔ بیماری میں سفر اور محنت کی وجہ سے مرض بڑھتا چلاگیا، دو تین دن بہت نازک کیفیت رہی، اس میں ۴/جمادی الاول ۱۲۹۷ھ پنجشنبہ (۱۵/اپریل ۱۸۸۰/) کو دیوبند میں وفات ہوئی، وہیں دفن کئے گئے۔(۶)
٭٭٭
حواشی:
(۱) ان عطیات ورقومات کی تفصیل، خلافت ترکی کے سرکاری ترجمان، روزنامہ الجوائب میں چھپتی رہی جس کا حسین حسیب صاحب، قونصلر کے خطوط میں بھی اشارہ ہے اور ان تمام رقوم کی مفصل روداد، ترکی کی قونصل خانہ نے کتابی صورت میں بھی شائع کی تھی،جس پر ”دفتر اعانت ہندیہ“ چھپا ہوا ہے۔
(۲) یہ تمام تفصیلات اور متعلقہ خطوط، تفصیل ”روداد چندہ بلقان“ کے نام سے اسی وقت مطبع ہاشمی میرٹھ، سے ۱۲۹۴ھ میں چھپ گئی تھی،اس کا نسخہ موجود ہے۔
(۳) تذکرة الرشید (عکس طبع اوّل، میرٹھ سہارنپور: ۱۹۷۷/) (سوانح حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی) تالیف: مولانا عاشق الٰہی میرٹھی۔
(۴) حیات شیخ الہند تالیف: مولانا سید اصغرحسین دیوبندی، ص:۴۰ (مطبوعہ لاہور: ۱۹۷۷/)
(۵) یہ قصیدہ قصائد قاسمیہ ( جو حضرت مولانا محمد قاسم کے فارسی عربی کلام کا مجموعہ ہے) میں شامل ہے اوراس کی اصل، جو خود حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے قلم سے ہے (مفتی الٰہی بخش اکیڈمی) کاندھلہ ضلع مظفرنگر، یوپی میں محفوظ ہے مگر نہایت غلط چھپا ہے اور اس کی ترتیب بھی نسخہ مصنف کے مطابق نہیں ہے، (ص:۱۹ تا ص:۲۲ مطبوعہ عین الاخبار مراد آباد: بلاسنہ طباعت) اس لئے یہاں نسخہ مصنف پر اعتماد کیاگیا ہے ترتیب اسی کے مطابق ہے۔
یہاں یہ بات بھی ضروری اور قابل ذکر ہے کہ اسی مجموعہ میں سلطان عبدالحمید کی شان میں مولانا ذوالفقار علی دیوبندی (وفات: ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴/) ہندوستان کے عربی زبان کے مایہ ناز ادیب، مصنف اور شاعر، مولانا فیض الحسن سہارنپوری ، اور مولانا محمد یعقوب نانوتوی (صدر مدرس دارالعلوم دیوبند) کا ایک قصیدہ بھی شامل ہے۔ ص:۳۳ تا ۳۳۔
(۶) حضرت مولانا کے احوال وخدمات پر حضرت مولانا کے رفقاء اور شاگردوں نے کئی عمدہ کتابیں لکھیں، بعد میں کئی اور کتابیں چھپیں جن میں:
۱- احوال طیب مولانا محمد قاسم از مولانا محمد یعقوب نانوتوی
۲- سوانح قاسمی مولانا مناظر احسن گیلانی (تین جلدیں)
۳- قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی تالیف: نورالحسن راشد کاندھلوی
۴- الامام محمد قاسم النانوتوی، حیات وافکار، خدمات (مجموعہ مقالات سیمینار حضرت مولانا محمد قاسم، دہلی)
لائق مطالعہ واستفادہ ہیں۔
٭٭٭
——————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ، جلد: 94 ، محرم الحرام 1432 ہجری مطابق دسمبر 2010ء