قرآن وحدیث کے تناظر میں حقوقِ انسانی کی تشریح

از: ابواللیث الحسنی کھگڑیاوی ‏، دارجدید، دارالعلوم دیوبند

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے وہ خونچکاں حالات، جہاں جان ومال، عزت وآبرو ہر چیز خطرے میں تھی، اس کا تصور ذہن میں آتے ہی ایک روح فرسا کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اخوت ومحبت ، ہمدردی وغم گساری، نامانوس بلکہ ناپید تھی، معمولی معمولی سی باتوں پر جنگ چھڑ جاتی اور ایسی بھیانک شکل اختیار کرلیتی، جس کا تذکرہ تو کجا تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے، غرض ہر طرف ظلم وبربریت کا دور دورہ تھا، ایسے مہیب سائے میں فاران کی چوٹی سے ایک آفتاب عالمتاب نمودار ہوا جس کی ضیاء پاش کرنوں سے ایک نئی صبح کا آغاز ہوا، دم توڑتی اور جاں بلب انسانیت کو آبِ حیات ملا، اور انسانیت پہلی بار اپنے حقوق سے آشنا ہوئی۔

حقوق انسانی کے معنی: یہ دو کلموں سے مرکب ہے حقوق جو حق کی جمع ہے: وہ چیز جو ثابت ہو (کسی فرد یا جماعت کیلئے) انسانی: انسان کی طرف منسوب ہے، انسان کی تعریف وہ جاندار یعنی جسم و روح والاجو قادرالکلام ہو۔

حقوق انسانی کا مفہوم: انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا، وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور آفات ومصائب کے ازالہ کے سلسلہ میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس قضیہ کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرااس کی مدد کرے،اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے۔

حقوق انسانی کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ: حقوق انسانی پر کتاب وسنت کی روشنی میں تفصیلی بحث کرنے سے قبل ان حقوق کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا بے محل نہ ہوگا تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے، اور آج کی مہذب دنیا (امریکہ) جو انسانی حقوق کی رٹ لگاتے نہیں تھکتا، یہ جان جائے کہ انسانی حقوق کے جس کھوکھلے تصور تک وہ اب پہنچا ہے اس سے کہیں زیادہ جامع اور واضح تصور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سوسال قبل پیش کردیا تھا۔ خطبہٴ حجة الوداع کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدومد اور تاکید کے ساتھ حقوق انسانی ہی کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

حقوق انسانی کے شعور وارتقاء کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک ندوی فاضل جناب مولانا سید احمد ومیض ندوی اپنے وقیع مضمون میں رقمطراز ہیں ”صنعتی انقلاب کے آغاز سے مغرب میں حقوق انسانی کا شعور پیدا ہوا کہ انسان کے بھی بحیثیت انسان ہونے کے چند فطری حقوق ہوتے ہیں جن سے کسی بھی فرد کو محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کا شعور بیسویں صدی کے شروع میں نمودار ہوا اور انقلابِ فرانس کا اہم جزو قرار پایا، اس میں قوم کی حاکمیت، آزادی، مساوات اور ملکیت جیسی فطری حقوق وغیرہ کا اثبات کیاگیا تھا، تدریجاً حقوق انسانی کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا، اور اخیر میں حقوقِ انسانی کا عالمی منشور سامنے آیا، دسمبر ۱۹۴۶/ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ریزرویشن پاس کیا جس میں انسانوں کی نسل کشی کو ایک بین الاقوامی جرم قرار دیاگیا۔ ۱۹۴۸/ میں نسل کشی کے انسداد کیلئے ایک قرار داد پاس کی گئی اور ۱۲/جنوری ۱۹۸۱/ میں نفاذ ہوا۔

حقیقی انسانی حقوق: انسان کے بنیادی اور فطری حقوق کے تحت جن جن امور کو شامل کیاجاتا ہے ان میں حقوق اِنسانی کا جامع ترین تصور، انسانی مساوات کا حق، انسانی عزت وآبرو کی حفاظت، انسانی جان ومال اورجائداد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا حق، آزادیٴ ضمیر کا حق ضروریات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق میں فرد ومعاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق کی حفاظت،اسی طرح انسانوں کے معاشی وثقافتی اور تعلیمی حقوق نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔

حقوقِ انسانی کی صحیح تشریح: سطور بالا میں دور حاضر کے انسانی حقوق کے ارتقاء کا جو سرسری جائزہ لیاگیا ہے اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب میں حقوق انسانی کے تصور کی دو تین صدیوں قبل کوئی تاریخ نہیں ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی حقوق انسانی کا ایک جامع تصور انسانیت کے سامنے پیش کرکے بذاتِ خود اسے عملی جامہ پہناکر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کی۔

فاضل مضمون نگار مولانا ندوی حقوقِ انسانی کے اس مغربی منشور کی عدم تاثیر اور فرسودگی کے اسباب ومحرکات متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”جن مغربی ممالک نے منشور حقوقِ انسانی کی داغ بیل ڈالی تھی، آج وہی ممالک حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں، چنانچہ آئے دن ان ممالک میں جرائم پیشہ افراد کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مفکرین و مدبرین نے اس کے بہت سے اسباب متعین کیئے ہیں، لیکن حقوق انسانی پر ڈاکہ زنی کا بنیادی سبب ان انسانی حقوق کے نفاذ کیلئے کسی داخلی قوتِ نافذہ کا فقدان ہے، علاوہ ازیں مغرب کے حقوق انسانی کا فلسفہ صرف اس کے مفادات کے اردگرد گھومتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقوقِ انسانی ایک نظریہ بن کر رہ گیا، جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوقِ انسانی کے صحیح نفاذ اور ان کو عملی زندگی سے مربوط کرنے کے لیے فکر آخرت سے جوڑدیا جس کے باعث بندوں کے اندر حقوقِ انسانی کی رعایت وحفاظت کی ایسی اسپرٹ پیدا ہوگئی کہ بندہ از خود حقوق انسانی کا محافظ بن جاتا ہے۔

حقوقِ انسانی کا جامع ترین تصور اسلام نے دیا: مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے، اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی، حتیٰ کہ جانوروں کے آپسی ظلم وستم کا انتقام بھی لیا جائے گا۔ اللہ کے رسول نے فرمایا: حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے، حتیٰ کہ بے سنگھے بکرے کو سینگھ والی بکری سے بدلہ دیا جائے گا۔

زکوٰة اور حقوق انسانی: یہ ایک بدیہی امر ہے کہ ایک مخصوص طبقہ کے پاس مال ودولت کے منجمد رہنے سے کمزور طبقے بیروزگاری کے شکار ہوجاتے ہیں، اور انسانی معاشرہ کی ایک معتد بہ تعداد خط افلاس کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اسلامی قوانین نے زکوٰة کو فرض قرار دے کر سالانہ آمدنی کا ڈھائی فیصد حصہ غریبوں کیلئے خاص کیا کہ دولت ایک ہاتھ میں سمٹ کر نہ رہ جائے، صدقہ وخیرات کی اہمیت اجاگر کرکے غرباء ومساکین کا بھرپور خیال رکھا، ارشاد ربانی ہے: وَفِیْ أمْوَالِہِم حَقٌ للسَّائِلِ وَالمَحْرُومِ اور ان کے مالوں میں غرباء ومساکین کا حق ہے۔

اسلام میں انسانیت کی میزبانی: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر دنیا کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ اعزاز بخشا، اس کے احترام واکرام کی تعلیم دی، اس کو خوبصورت سانچہ میں ڈھال کر اسے دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کیا، ارشاد ربانی ہے: ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور خشکی ودریا میں ان کو سواری دی، اور پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ہم نے آدمی کو اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ہے۔ تیسری جگہ فرمایا: اللہ نے تمہارے نفع کیلئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔ چوتھی جگہ یوں فرمایا: میں سب جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح اسلام نے انسانی حرمت وشرافت کی اتنی پاسداری کی کہ انسان کا احترام پس مرگ تک باقی رکھا، چنانچہ آپ کے زمانے میں ایک عورت کا جنازہ گذررہا تھا، اللہ کے رسول کھڑے ہوگئے، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو یہودی ہے، اللہ کے رسول نے فرمایا ألیسَتْ نفسًا: یعنی کیا وہ انسان نہیں؟ اسی طرح نبوت وشریعت کی دولت بھی صرف اور صرف انسان ہی کو عطا کیاگیا ہے، اسی طرح اسلام نے علوم وعقل اور خرد جیسی گرانقدر انعام سے نوازا، ارشاد ہے: اللہ کی تمام پیداکردہ چیزوں میں عقل اللہ کے نزدیک سب سے باعزت ہے۔

انسانی اخوت ومساوات: محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ ونسل، قومیت ووطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا، اور ببانگ دُہل یہ اعلان کردیا کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں، لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے، حجة الوداع کے موقع پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبہ میں جن بنیادی انسانی حقوق سے وصیت وہدایت فرمائی ان میں انسانی وحدت ومساوات کا مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، ارشاد نبوی ہے:

اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یقینا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اورپاک باز ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر، اور فتح مکہ کے موقع پر ایک اہم خطبہ میں اسی طرح کا حکم ارشاد فرمایا۔ اسی طرح ارشاد ربانی ہے: لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلادئیے، دوسری جگہ ارشاد ہے: لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، اور خدا کے نزدیک تم میں سے قابل اکرام اور عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔

انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت: یہ انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے، اس کے اردگرد زندگی کی سرگرمیاں گھومتی ہیں، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان کا احترام سکھایا، اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن پاک میں بھی اس کی تائید کی گئی چنانچہ ارشاد باری ہے: جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا، اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ اسی طرح ارشاد نبوی ہے: رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔ دوسری حدیث میں ارشاد ہے: اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہ کرے۔ اور مال کے تحفظ کو یوں موکد کیاگیا ہے، ارشاد ربانی: اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، واضح رہے کہ انسانی زندگی کی بقاء کے لیے مال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

جس طرح حق زندگی اور تحفظ مال، انسان کے بنیادی حقوق ہیں، اسی طرح عزت وآبرو کا تحفظ بھی انسان کا بنیادی حق ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، ممکن ہے کہ وہ اس سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ، اور ایک دوسرے کو برے نام سے مت پکارو۔

تحفظ آزادی (شخصی ومذہبی): اسلامی معاشرہ میں چونکہ ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں کسی کا کسی پر بیجا دباؤ نہیں، ہر ایک آزاد اور خود مختار ہے اس لیے اسلام نے انسان کی شخصی آزادی کی بقاء کے لیے انسان کی نجی اور پرائیویٹ زندگی میں مداخلت سے دوسروں کو روکا ہے اور خواہ مخواہ کی دخل اندازی ٹوہ بازی اور بلا اجازت کسی کے گھر میں دخول سے منع کیا ہے۔ ارشاد حق ہے: مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں) کے گھروں میں گھروالوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہواکرو۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ (بعض) گمان گناہ ہے اور ایک دوسرے کے حال کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ اسی طرح اسلام میں مذہب اور ضمیر واعتقاد کے تحفظ کی گارنٹی یوں دی گئی: دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے، ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ ایک دانشور مفکر لکھتے ہیں ”صبر واعتقاد کی آزادی ہی کا قیمتی حق تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ کے سیزدہ سالہ دور ابتلاء میں مسلمانوں نے ماریں کھاکھا کر کلمہ حق کہااور بالآخر یہ حق ثابت ہوکر رہا۔ اسلامی تاریخ اس بات سے عاری ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیرمسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے پرمجبور کیا ہو، یا کسی قوم کو مارمار کر کلمہ پڑھوایا ہو۔

عورتوں، بچوں، غلاموں، یتیموں اور حاجتمندوں کے حقوق: اعلان نبوت سے قبل عورتوں کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی، معاشرہ میں اس کی حیثیت سامان لذت سے کچھ زیادہ نہ تھی، معاشی، سماجی ہرلحاظ سے بے بس تھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سسکتی، بلکتی عورت کی فریاد رسی کی اس کے حقیقی مقام کومتعین فرمایا: چنانچہ حجة الوداع کے موقع پر ان کے حقوق کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا۔ اسی طرح قبل از اسلام اسقاط حمل اور دختر کشی کی رسم عروج پر تھی، اسلام نے سختی کے ساتھ اس گھناؤنے فعل سے منع کیا۔ ارشاد ہے: اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے نہ قتل کرو، ان کو اور تم کو روزی ہم ہی دیتے ہیں۔ یقینا یہ بڑا گناہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں غلاموں اور غریبوں کے حقوق بھی روندے، پامال کیے جاتے انہیں حقارت وذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اسلام نے انہیں بھی اتنے حقوق دئیے کہ ان کی سطح زندگی بلند کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ چنانچہ ایسے ایسے اصول وقوانین طے کیے جن سے لوگ زیادہ سے زیادہ غلامی کی طوق سے نکل سکے بریں بنا بہت سے گناہوں اور حکم عدولیوں کا کفارہ غلاموں کی آزادی رکھی، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا۔

٭٭٭

————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 94 ‏، محرم الحرام 1432 ہجری مطابق دسمبر 2010ء

Related Posts