حبیب الرحمن اعظمی
عام نمازوں میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع میں رفع یدین کے متعلق حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے اقوال وافعال مختلف منقول ہوئے ہیں اس لیے یہ مسئلہ ہر دور میں زیر بحث رہا ہے، اور علمائے سلف و خلف نے دیگر مسائل اجتہادیہ کی طرح اس مسئلہ پر بھی اپنے اپنے علم وفہم اور مقررہ اصول وقواعد کے تحت گفتگو کی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جس باب میں خود صاحب شریعت علی صاحبہا الصلوٰة والسلام اور ان کی ساختہ و پرداختہ جماعت یعنی صحابہٴ کرام کے عہد میں تنوع اور مختلف صورتیں رہی ہوں، اس میں وحدت ویکسانیت پیدا نہیں کی جاسکتی اور نہ کسی ایک صورت کو سنت وہدایت اور دوسری کو بدعت وضلالت کہا جاسکتا ہے۔ مسئلہ رفع یدین کی اصل حقیقت یہی ہے۔
مگر افسوس کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ مسئلہ رفع یدین کو حق کی علامت اور اہل سنت والجماعت کی پہچان کے طور پر پیش کررہا ہے اور رفع یدین نہ کرنے والوں کو تارک سنت، مخالف رسول اور ان کی نمازوں کو ناقص بلکہ باطل تک کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا۔ جبکہ ان کا یہ رویہ علم ونظر عدل وانصاف اور حقیقت پسندی کے یکسر منافی اور دین کی فہم رکھنے والوں کے طریقہ کے بالکل خلاف ہے۔ چنانچہ حافظ ابن عبدالبر ایک مشہور مالکی عالم احمد بن خالد رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ ہمارے زمانہ میں مالکی علماء کی ایک جماعت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول حدیث کی بناء پر رفع یدین کرتی تھی، اور ایک دوسری جماعت امام مالک رحمة اللہ علیہ کے تلمیذ ابن القاسم کی روایت کے مطابق رفع یدین نہیں کرتی تھی، مگر کوئی کسی پر کسی طرح کانقد نہیں کرتا تھا۔“ (الاستذکار، ج:۴،ص:۱۰۴)
حافظ ابن عبدالبر رحمة اللہ علیہ اپنے ایک استاذ ابوعمر عبدالملک بن ہاشم کا یہ بیان بھی نقل کرتے ہیں کہ ایک دن استاذ محترم نے فرمایا کہ ہمارے شیخ ابوابراہیم اسحاق بن ابراہیم رحمة اللہ علیہ جو اپنے معاصر علماء میں علم وفقہ میں فائق تھے رفع یدین کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن عبدالبر رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ استاذ محترم کے اس بیان پر میں نے ان سے عرض کیا کہ تو آپ رفع یدین کیوں نہیں کرتے کہ ہم آپ کی اقتداء کرتے۔ استاذ محترم نے میرے اس استفسار کے جواب میں فرمایا: ”لا اخالف روایة ابن القاسم لان الجماعة عندنا الیوم علیہا ومخالفة الجماعة فیما ابیح لنا لیست من شیم الائمة “ میں ابن القاسم کی روایت کے خلاف عمل نہیں کرسکتا کیوں کہ اس وقت ہماری جماعت کا عمل انھیں کی روایت پر ہے اور از روئے شرع جو امور ہمارے لیے مباح ہیں ان میں جماعت کی مخالفت ائمہ، دین کی عادت و طریقہ کے خلاف ہے۔ (الاستذکار، ج:۴،ص:۱۰۳)
اور عقل و دین دونوں کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جن امور میں توسع پایا جائے کہ ان میں کسی ایک نوع و طریقہ کو لازم کرنے کے بجائے دوسرے طریقہ ونوع کو بھی شریعت جائز ومباح قرار دیتی ہو اور جماعت مسلمین پہلے سے کسی ایک طریقہ پر عمل پیرا ہو تو جماعت کی وحدت اور یک جہتی کو باقی وقائم رکھنے کے لیے عام مسلمانوں کے طریق عمل کی موافقت کی جائے اور بلا وجہ دوسرے طریقہ کو اختیار کرکے انتشار واختلاف نہ پیدا کیا جائے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
”فان الاعتصام بالجماعة والائتلاف من اصول الدین، والفرع المتنازع فیہ من الفروع الخفیہ، فکیف یقدح فی الاصل بحفظ الفرع وجمہور المتعصبین لا یعرفون من الکتاب والسنة الا ما شاء اللّٰہ“۔ (مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ج:۲۲،ص:۲۵۴)
جماعت مسلمین سے مستحکم رابطہ اور پیوستگی دین کے اصول میں سے ہے اور جس مسئلہ میں اختلاف کیا جارہا ہے وہ ایک غیر واضح فرعی مسئلہ ہے تو فرع و شاخ کی حفاظت میں اصل اور جڑ کو کیونکر مجروح کیا جاسکتا ہے لیکن عام متعصبین کتاب وسنت کی فہم معرفت سے عاری ہیں الا ماشاء اللہ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ اپنے فتاویٰ میں ”بسم اللہ“ کے بارے میں کہ یہ ہر سورة کی ابتداء میں ایک آیت ہے یا نہیں اور کیا بسم اللہ کو نماز میں جہراً پڑھا جائے گا یا نہیں فقہاء کا اختلاف ذکر کرنے کے بعد متصلاً لکھتے ہیں۔
ویستحب للرجل ان یقصد الی تالیف القلوب بترک ہذہ المستحبات لان مصلحة التالیف فی الدین اعظم من مصلحة فعل مثل ہذا، کما ترک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تغییر بناء البیت لما فی ابقائہ من تالیف القلوب، الخ،ج:۲۲،ص:۴۰۷
آدمی کے لیے پسندیدہ یہ ہے کہ وہ ان مستحبات کے مقابلہ میں (باہم مسلمانوں میں) تالیف قلب کا لحاظ کرے کیونکہ دین میں تالیف قلب کی مصلحت ان مستحبات پر عمل کی مصلحت سے عظیم تر ہے، جیساکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی عمارت میں تغیر کو تالیف قلب کی بناء پر (اس تغیر کو پسند کرنے کے باوجود) ترک کردیا۔
مگر علماء وصلحاء کی اس محبوب ومطلوب راہ اعتدال کو چھوڑ کر عصر حاضر کے اہل ظواہر مجتہدین مسئلہ رفع یدین اور اسی نوع کے دیگر اجتہادی مسائل میں اپنے مختارات اور پسندیدہ مسائل کی تبلیغ وتشہیر اس جارحانہ انداز سے کررہے ہیں کہ نہ تو ائمہ دین کے علمی ودینی مقام ومرتبہ کا انھیں پاس ولحاظ ہے اور نہ ہی جماعت مسلمین کی اسلامی اخوت اور دینی وحدت کی ادنیٰ فکر ہے۔
ان کے اس بیجارویہ سے خود مسلمانوں میں باہم بحث وتکرار کا بازار گرم ہے اور عام مجالس کا تو ذکر کیا۔ مساجد تک فساد وجدال کا مرکز بنتی جارہی ہیں، جس سے نہ صرف معاندین اسلام کو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں زبان طعن دراز کرنے کا موقع مل رہا ہے بلکہ خود مسلمانوں کے ایک طبقہ میں سلف صالحین وائمہ مجتہدین سے بے اعتمادی اور دین وشریعت سے بیزاری کا رجحان پیدا ہورہا ہے اور بالخصوص برصغیر میں فقہائے احناف کی تفسیر ،نصوص و تشریحات کے مطابق شرعی احکام ومسائل پر عمل پیرا عوام اپنے طریقہ عمل کے بارے میں خواہ مخواہ تردد و تذبذب کے شکار ہورہے ہیں۔اور اس پر طرہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی مجلسوں ہی میں نہیں بلکہ عام اجتماعات اور اخبار و رسائل کے ذریعہ بیجا طور پر یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ علمائے دیوبند ان مسائل کو مورد بحث بناکر مسلمانوں میں افتراق و انتشار پیدا کررہے ہیں فالی اللّٰہ المشتکیٰ۔
—————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ، جلد: 94 ، محرم الحرام 1432 ہجری مطابق دسمبر 2010ء