از: جناب مولانا محمد عثمان صاحب مولیپوری پالن پوری
استاذ حدیث دارالعلوم، چھاپی (گجرات)
میری زندگی یہی ہے کہ ہر ایک کے کام آؤں
میں چراغِ شبِ رہ گذر ہوں مجھے شوق سے جلاؤ
نام ونسب: (حضرت مولانا) غلام رسول (صاحب) بن الحاج حبیب اللہ (صاحب) بن الحاج وزیرالدین (صاحب) خاموش رحمہم اللہ رحمةً واسعة۔
تاریخ ولادت: ۹/جمادی الأخری ۱۳۵۹ھ مطابق ۱۶/جون ۱۹۴۰ء بروز شنبہ آپ عالم رنگ وبو میںآ ئے۔ جائے پیدائش ”میتا“ ضلع بناس کانٹھا شمالی گجرات ہے۔
تعلیم: شعور سنبھالتے ہی گجراتی زبان کا ایک درجہ ممبئی شہر میں پڑھا، اور دینیات کی ابتدائی تعلیم اپنے وطن ”میتا“ (Meta)میں حاصل کی، دینیات کی باقی تعلیم ممبئی سینٹرل کے قریب محلہ لال چمنی میں پوری کی۔ دینیات کی تکمیل کے بعد درس نظامی کی فارسی وعربی تعلیم کے لئے اپنے وطن کے قریب قصبہ چھاپی میں واقع نوخیز مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم چھاپی میں بہ عمر ۹/سال فارسی اوّل میں داخلہ لیا، دارالعلوم چھاپی کا قیام اسی سال عمل میںآ یا تھا، گویا حضرت مولانا مرحوم کا شمار مدرسہ کے اوّلین طلبہ میں ہوا، اور مشکوٰة شریف تک پوری محنت وجانفشانی کے ساتھ اسی دارالعلوم میں حصول علم میں منہمک رہے، آپ رات دیر گئے تک مطالعہ میں مشغول رہتے تھے، علمی شغف اور صلاح وتقویٰ کی بناء پر دور طالب علمی میں اساتذہ کے منظور نظر رہے، بعض اساتذہ شروحات اور دیگر کتابیں لاکر مولانا مرحوم کو دیتے، اور علمی سفر میں مکمل رہبری فرماتے۔
مشکوٰة شریف کی تکمیل کے بعد آپ اپنی والدہ کے ساتھ کراچی (پاکستان) تشریف لے گئے، وہاں اپنے ماموں شریف بھائی چودھری کی تشکیل پر دورئہ حدیث کی کتابیں پڑھیں، بخاری وترمذی حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة الله عليه کے تلمیذ رشید حضرت مولانا یوسف صاحب بنوری رحمة الله عليه سے پڑھیں، مسلم شریف حضرت مولانا لطف اللہ صاحب پشاوری رحمة الله عليه سے، ابوداؤد حضرت مولانا فضل حق صاحب رحمة الله عليه سے اور طحاوی شریف حضرت مولانا عبدالرشید صاحب رحمة الله عليه نعمانی صاحب لغات القرآن سے پڑھیں۔
حضرت مولانا عبداللہ صاحب رحمة الله عليه سیندھنی والے گجراتی بانی ومہتمم مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم چھاپی، حضرت مولانا ابراہیم صاحب رحمة الله عليه کالیڑوی گجراتی، حضرت مولانا آدم صاحب رحمة الله عليه طالع پوری گجراتی، حضرت مولانا ابوالحسن صاحب مدظلہ بھاگلپوری (بہار) حضرت مولانا معاذ الاسلام صاحب مدظلہ سنبھلی، حضرت مولانا نعیم الرحمن صاحب اعظمی، حضرت مولانا انعام اللہ صاحب مدظلہ شاہجہاں پوری، آپ کے اساتذہ ہیں، قراء ت کے استاذ حضرت قاری امین صاحب جونپوری اور پارئہ عم کی مشق کے اُستاذ حضرت مولانا غلام رسول صاحب بخاری حیدرپوری ہیں۔
حضرت مولانا مرحوم نے ۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۵۷ء میں ۱۷/سال کی عمر میں سند فراغت حاصل کی، فراغت کے بعد حصولِ معاش کے لئے ممبئی کے لئے رخت سفر باندھا، جب چھاپی ریلوے اسٹیشن پر پہنچے اورحضرت مولانا عبداللہ صاحب رحمة الله عليه بانی ومہتمم دارالعلوم چھاپی کو اس کی خبر ہوئی تو وہ ریلوے اسٹیشن پر گئے، اور مولانا مرحوم کے ماموں حاجی عبداللہ صاحب چودھری رحمة الله عليه سے جو ساتھ میں تھے سے درخواست کی کہ اِن کو (مولانا مرحوم) کو یہیں دارالعلوم چھاپی میں پڑھانے دو، ماموں نے جواب دیا میں ان کو پڑھانے کا موقع بھی فراہم کروں گا، چنانچہ ممبئی پہنچ کر ماہانہ ۶۰ روپئے تنخواہ پر ماموں کے یہاں ملازمت شروع کی، ماموں نے وعدہ کے مطابق تدریس کی لائن سے خدمت دین کا موقع فراہم کیا، آپ رحمة الله عليه ظہر سے عصر تک مدرسہ دارالعلوم امدادیہ ممبئی میں بلامعاوضہ تدریسی خدمت انجام دینے لگے۔
والد محترم: حضرت مولانا مرحوم کے والد محترم نیک صالح، صوم وصلوٰة کے پابند تھے، قرآن کی تلاوت کے ساتھ خاص شغف تھا، لوگ اُن کے عقیدت مند تھے، اپنے بچوں پر اور پانی پر اُن سے دم کراتے تھے، اُن کا لقب خاموش تھا، مغل قوم کے یہاں ہوٹل میں ملازمت کیا کرتے تھے، پھر باقاعدہ کاروبار میں لگ گئے، پھر کچھ عوارض کی بناء پر شرکت سے علاحدگی اختیار کرلی، اپنے حصہ کی نقد رقم موجود تھی، ممبئی میں تجارت کے اچھے مواقع مہیا تھے، لیکن مرحوم نے حج کا ارادہ کرلیا انھوں نے سوچا کہ حج سے فراغت کے بعد تجارت کی فکر کریں گے، مگر حج کے دوران ہی منیٰ میں غش کھاکر گرگئے، اور مکہ مکرمہ میں ۹/جون ۱۹۶۰ء بروز جمعرات بوقت تہجد داعیٴ اجل کو لبیک کہا، اور جنت المعلّٰی میں ہمیشہ کے لئے محو خواب ہوگئے، اور اچھی نفع والی تجارت کرگئے۔
والد صاحب کی اچانک رحلت کی بناء پر چھوٹے بھائی بہن اور بیوہ والدہ کا سارا بوجھ مولانا کے کندھے پر آپڑا، ذمہ دارانہ زندگی کا آغاز ملازمت سے ہوا، سخت حالات سے دوچار ہوئے، حالات میں اُفتاں وخیزاں چائے کی تجارت شروع کی اور اللہ نے خوب برکت دی، بھائی بہنوں کی کفالت کی، اپنے تمام کاروبار میں بھائیوں کو برابر کا شریک رکھا، بھائیوں کی اولاد جب شعور کی عمر کو پہنچی تو اپنے کاروبار اور املاک کو تقسیم کیا، تجارت کے ساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ سے بھی مضبوط رشتہ قائم رکھا، اپنی اولاد کے ساتھ بھائیوں اور اُن کی اولاد کو بھی دینی سانچوں میں ڈھالنے کی برابر کوشش فرماتے رہے، مسائل شریعہ کے استحضار کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھاتے رہے، اور رفتہ رفتہ ایک بڑے تاجر بن گئے۔
فراغت کے بعد کے کارنامے
فراغت کے بعد حضرت مولانا مرحوم کے دینی ودعوتی کارناموں کی ابتداء کچھ یوں ہوئی کہ ملازمت کے ساتھ مدرسہ دارالعلوم امدادیہ ممبئی میں ۹/سال بلا معاوضہ کنزالدقائق، مقامات حریری، شرح عقائد اور دیگر فارسی وعربی کتابوں کا درس دیتے رہے، اور اسی کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا بھی فکر فرماتے رہے، چناں چہ اپنی برادری کے چند نوجوانوں کی بے راہ روی کو دیکھ کر ایک مرتبہ ایک ہی شب میں ”قوم کے نوجوانوں سے خطاب“ نامی کتابچہ تحریر فرمادیا، جب کتابچہ چھپ کر آیاتو کچھ لوگوں نے اپنی اصلاح کے بجائے شور وہنگامہ برپا کردیا، پھر ایک خواب دیکھا جس سے تسلی ہوئی، اسی عرصہ میں اُمت کے مبلغ عظیم، لسان التبلیغ حضرت مولانا محمد عمر صاحب پالن پوری رحمة الله عليه سال بھر کے بیرونی سفر سے ممبئی لوٹے تو اِس واقعہ کا علم حضرت مولانا پالن پوری کو ہوا، حضرت مولانا عمر صاحب رحمة الله عليه نے حضرت مولانا مرحوم کو بلایا اور حوصلہ افزائی کے بعد فرمایا: ”طریق کار حکمت کے ساتھ ہونا چاہئے“ اور یہیں سے حضرت مولانا محمد عمر صاحب رحمة الله عليه کے ساتھ روابط بڑھنے شروع ہوگئے، اور پھر دعوت وتبلیغ کی طرف دن بدن رُجحان بڑھتا گیا، مہینے کے تین دن لگاتے رہے، ۱۹۶۸ء میں پہلی مرتبہ اس مبارک کام میں ایک چلہ لگایا، تین چار مرتبہ دعوت و تبلیغ کی نسبت سے چار چار ماہ کے لئے اندرون وبیرون ملک تشریف لے گئے، مصر، تونس، الجزائر، سعودی عربیہ، امریکہ، کنیڈا، فیجی، جنوبی افریقہ، جاپان، انگلینڈ، برما، تھائی لینڈ، فلپائن، کویت، آسٹریلیا وغیرہ ممالک کے طویل دعوتی اسفار کئے۔
دارالعلوم چھاپی کی مجلس تعلیمی کی رکنیت
حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ ممبئی سے اپنے وطن ”میتا“ گجرات اپنے اور بھائیوں کے مکانات کی تعمیر کی غرض سے کچھ ایام کے لئے تشریف لائے، اُن ایام میں دارالعلوم چھاپی کی مجلس تعلیمی کی رُکنیت کے لئے پیش کش ہوئی، مولانا نے دین کی خدمت سمجھ کر اسے قبول فرمالیا، پھر مسلسل پابندی کے ساتھ اُمور تعلیم پر توجہ فرماتے رہے، اور امتحانات کی نگرانی فرماتے رہے، پھر اہل شوریٰ نے باقاعدہ رُکن شوریٰ کے لئے انتخاب کیا، پھر ٹرسٹ کے لئے بھی نامزدگی عمل میں آئی، تعلیمی اُمور کے ساتھ مدرسہ کی تعمیرات پر بھی خصوصی توجہ مبذول کی، اس سلسلہ کا ایک مکتوب گجراتی زبان میں مدرسہ کے خزانچی مرحوم ماسٹر عبدالستار صاحب کے نام بوسیدہ اوراق میں پایا گیا ہے، جس میں تعمیرات کے متعلق ہدایات ہیں۔
آخر میں سارا بوجھ آپ کے سر آگیا
۱۹۸۵ء میں حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب رحمة الله عليه فیروز پوری سابق مہتمم دارالعلوم چھاپی متعدد اسباب وعوامل کی بناء پر اچانک مدرسہ سے شعبان میں مستعفی ہوگئے، تو انتظام وانصرام کا مسئلہ پیش آیا، ارباب شوریٰ جس میں مفکر قوم صائب الرائے حاجی علاء الدین صاحب رحمة الله عليه جیسے افراد تھے، ان اہل شوریٰ نے چند اشخاص (حاجی عبدالخالق صاحب ”میتا“ حضرت مولانا غلام رسول صاحب خاموش ”میتا“ حاجی اسماعیل صاحب بالوا ”فیروز پورہ“ حاجی عبداللہ صاحب ”ڈونگر یاسنا“ اور حاجی علاء الدین صاحب ”میتا“) کو عارضی انتظام سپرد کیا تاکہ بعد تعطیلاتِ رمضان مدرسہ حسب معمول جاری ہوجائے، اور ضرورت کے وقت مولانا اسماعیل صاحب سانگروی اور مولانا سلیمان صاحب مجادری سے بھی مدد لی گئی، اور حضرت مولانا سلیمان صاحب کاکوسی نوراللہ مرقدہ نے انتظامی اُمور میں مکمل رہبری فرمائی، اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔
یہ عارضی انتظامی کمیٹی مدرسہ کا نظم ونسق سنبھالتی رہی، لیکن رفتہ رفتہ سارا بوجھ حضرت مولانا غلام رسول صاحب رحمة اللہ علیہ کے سر آگیا، امور تعلیم، مالی فراہمی اور داخلی انتظام مولانا سنبھالتے رہے، اور حاجی عبدالخالق صاحب زیدمجدہ ان اُمور میں مولانا کے معین کاررہے، اور تعمیرات کا نظام جناب حاجی عبدالخالق صاحب زیدمجدہ سنبھالتے رہے، اور مولانا مرحوم حاجی صاحب کے معین کار اور مشیر رہے، گویا مدرسہ کا نظم تعلیمات وتعمیرات ان دو حضرات پر منقسم ہوگیا۔ ۱۵/سال تک کسی عہدہ کے بغیر عارضی انتظامی کمیٹی کے مشورہ سے مولانا رحمة اللہ علیہ اور حاجی صاحب کام کرتے رہے، اور مدرسہ کے لئے منتظم تلاش کرتے رہے، اور علاقہ کے ذمہ داروں سے صلاح ومشورہ کرتے رہے۔
دارالعلوم دیوبند کے کارگذار مہتمم
جون ۲۰۰۳ء میں مولانا رحمة اللہ علیہ کو دارالعلوم دیوبند کے ارباب شوریٰ نے باتفاق رائے کارگذار مہتمم کی حیثیت سے انتخاب فرمایا، اس کے بعد دارالعلوم چھاپی کے اصحاب شوریٰ نے بھی متفقہ طور پر حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کو منصب اہتمام کے لئے نامزد فرمایا، مولانا رحمة اللہ نام نہیں کام پسند فرماتے تھے۔ آپ رحمة الله عليه انکار فرماتے رہے کہ نام کی کیا ضرورت ہے کام ہونا چاہئے، لیکن اربابِ شوریٰ نے آپ کو نامزد کرہی دیا۔
دارالعلوم چھاپی میں آپ کی خدمات
حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کے کندھے پر جب سے دارالعلوم چھاپی کا بار ڈالا گیا اُس وقت سے آج تک بہت سی مفید، گرانقدر خدمات اور اہم اور قابل ذکر کارنامے انجام دئے، جن میں ۱۹۴۲ء سے قائم مسجد کی بڑے پیمانے پر توسیع، مطبخ کی توسیع، کتب خانہ اور کتب خانہ کے نیچے درسگاہیں اور مجرد اساتذہ کیلئے کمرے،اساتذہ کے رہائشی مکانات میں اضافہ اورشمال وجنوب میں فیملی روم کی از سر نو تعمیر، پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے بورنگ کا انتظام، جگہ جگہ پر آرسی سی کی بڑی بڑی پانی کی ٹنکیوں کا انتظام، کافی تعداد میں استنجاء خانوں اور غسل خانوں کی تعمیر اور اس کے علاوہ اور بھی قابل قدر خدمات ہیں۔
اسی طرح تعلیمی اور تربیتی اُمور پر حضرت رحمة اللہ علیہ کی خصوصی توجہ رہی، اس سلسلے میں بڑے متفکر رہا کرتے تھے، طلبہ عزیز کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو اور اساتذہ کی علمی ترقی ہو اس کی طرف توجہ مبذول رہتی تھی۔ چنانچہ دوران تکرار نگرانی کا ایسا نظام بنایاکہ بارِ خاطر بھی نہ ہو اور اساتذہ وطلبہ علمی نقصان سے بچ جائیں، کتب خانہ میں طلبہ عزیز کے مطالعہ کی ترتیب قائم کی اور نگراں کا تعین کیا اور طلبہ عزیز اپنی پنہاں صلاحیتوں اور مافی الضمیر کو حسین پیرایہ میں بیان کرسکیں اس کے لئے انجمن کا شعبہ وار اساتذہ کی نگرانی میں وقت اور موضوع کی تعیین کے ساتھ منظم خاکہ بنایا۔ بیمار طلبہ کی خبرگیری فرماتے اور طلبہ کی رخصت اور اُن کی تربیت کا پورا خیال رکھتے تھے اور یہ مثالی انتظام کئی مدارس کے لئے مشعل راہ ثابت ہوا، حالانکہ مدارس کی داخلی وخارجی نزاکتیں اپنی منفردانہ حیثیات رکھتی ہیں، اور تعجب تو اس پر ہے کہ نظم ونسق کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا، بس اللہ ہی کا انعام تھا۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
حضرت مولانا رحمة الله عليه نے آہِ سحرگاہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے خوب اور خوب مدد حاصل کی اور جو کچھ پایا وہ دعاء نیم شبی کا کرشمہ تھا۔
عطار ہو رومی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
منتظمانہ صلاحیتوں اور مخلصانہ کوششوں سے، اور فکر وجدوجہد سے حضرت رحمة اللہ علیہ کی پرواز بہت اونچی ہوگئی تھی، جس نے اکابر کی سرزمین دیوبند آپ کو لااُتارا، اور دارالعلوم دیوبند کی خدمات کے لئے آپ رحمة الله عليه کا انتخاب غیبی طور پر عمل میں آیا۔
دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت رکن شویٰ
اس کے اسباب ومحرکات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین حضرت حاجی علاء الدین صاحب رحمة الله عليه کی وفات ۱۰/جون ۱۹۸۸ء بروز جمعہ کو ہوگئی، حاجی صاحب مرحوم باصلاحیت، دور اندیش اور بقول حضرت مولانا معراج الحق صاحب رحمة الله عليه صائب الرائے تھے۔ ایسی بھاری بھرکم شخصیت کے قائم مقام کی تلاش میں ہندوستان کے نامور اکابر میں سے حضرت مولانا محمد منظور صاحب رحمة الله عليه نعمانی متفکر تھے، حضرت مولانا نعمانی رحمة الله عليه نے لسان التبلیغ حضرت مولانا محمد عمر صاحب رحمة الله عليه سے مراجعت کی کہ حاجی صاحب کا نعم البدل دارالعلوم کی شوریٰ کی رکنیت کیلئے مطلوب ہے۔ حضرت مولانا محمد عمر صاحب رحمة الله عليه نے علاقہ پالن پور کے ارباب حل وعقد کو متوجہ کیا کہ دارالعلوم کی خدمات کے لئے کسی صاحب دل کو تلاش کریں، ابھی اہل علاقہ مشورہ کررہی رہے تھے کہ خود حضرت مولانا نعمانی رحمة الله عليه نے کسی سے معلومات حاصل کرکے حضرت مولانا غلام رسول صاحب کا نام شوریٰ کی رکنیت کیلئے پیش کردیا، ارباب شوریٰ نے مولانا کی شخصیت پر اطمینان کا اظہار کیا، اور صفر ۱۴۰۹ھ مطابق ۱۹۸۹ء میں دارالعلوم کی شوریٰ کی رکنیت کے لئے آپ کا انتخاب عمل میںآ یا، چنانچہ دارالعلوم کے مفاد کے پیش نظر مسلسل پابندی کے ساتھ شوریٰ کی تمام مجالس میں شرکت فرماتے رہے، اور حسب موقع مناسب مشورہ دیتے رہے، مولانا رحمة الله عليه کے تدین، تقویٰ، صلاحیت واستعداد کی وجہ سے اہل شوریٰ میں دن بہ دن مقبولیت بڑھتی رہی۔
دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت کارگذار مہتمم
پھر ہوا یہ کہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مدظلہ العالی مہتمم دارالعلوم دیوبند سخت علیل ہوگئے، آپ اپنے اعذار وامراض اور پیرانہ سالی کی وجہ سے مجلس شوریٰ سے درخواست کی کہ میرے ذمہ جو کام ہے اُس میں کچھ تخفیف کی جائے، مہتمم صاحب مدظلہ کی اس درخواست پر ۶/ربیع الثانی ۱۴۲۴ھ مطابق ۷/جون ۲۰۰۳ء کو اہل شوریٰ نے حضرت مولانا خاموش صاحب کو کارگذار مہتمم طے کیا، مولانا نے غور کرنے کے لئے ۲۴/گھنٹے کی مہلت مانگی، اِس دوران بہت سے ارکان شوریٰ نے آپ رحمة الله عليه سے انفرادی ملاقات کی اور باصرار یہ ذمہ داری قبول کرنے کی درخواست کی، حضرت مولانا رحمة الله عليه نے غور وفکر کے بعد عارضی طورپر اس منصب کو قبول فرمالیا، اہل شوریٰ نے اس ذمہ داری کو قبول فرمانے پر مولانا رحمة اللہ علیہ کا شکریہ ادا کیا۔
حضرت مولانا رحمہ اللہ پر دوہری ذمہ داری
مولانا رحمة الله عليه پر دارالعلوم چھاپی کے ساتھ جب سے دارالعلوم دیوبند کے اہتمام کی ذمہ داری عائد ہوئی آپ اہل خانہ کی نظر میں گویا دنیا میں تھے ہی نہیں مولانا کے شب وروز کا مشغلہ مدارس اور ان کی فکریں تھیں، مدرسہ دارالعلوم چھاپی اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے علاوہ گجرات کے کئی مدارس کے یاتو رکن رکین تھے یا سرپرست، ان مدارس میں مندرجہ ذیل مدارس شامل ہیں: (۱) مدرسہ جامعہ نذیریہ کاکوسی ضلع پٹن، (۲) مدرسہ امداد العلوم وڈالی ضلع سابرکانٹھا، (۳) مدرسہ سلم العلوم کالیڑہ ضلع بناس کانٹھا، (۴) مدرسہ نورالعلوم گھٹا من ضلع بناس کانٹھا، (۵) مدرسہ انوارالعلوم وانکانیر کاٹھیاواڑ گجرات، (۶) مدرسہ عظمت الاسلام نوگاواں میوات ضلع الور، (۷) مدنی مرکز جوگیشوری ممبئی، (۸) مدرسہ حنفیہ مرغاگرین ممبئی، (۹) مدرسہ تربیت الاطفال بوستاں بلڈنگ ممبئی وغیرہ۔
نیز آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن بھی تھے، اور برائے نام رکنیت نہیں تھی بلکہ جس مدرسہ کے بھی رکن تھے اسے ترقی کی طرف گامزن کرنے کی مکمل فکر فرماتے تھے اور پورے عملہ کو حرکت میں رکھتے تھے اور کثرتِ مشاغل کے باوجود مکمل توجہ رکھتے تھے۔
مولانا کی خدماتِ جلیلہ
علاوہ ازیں راجوسی،اجمیر، جے پور، ٹونک، جودھپور، جیسلمیر، باڈمیر،میوات کے اطراف میں چارسو پندرہ مکاتیب کا جال پھیلایا تھا۔ مولانا مرحوم اپنے بھائیوں نیز دیگر رفقاء کے جزوی مالی تعاون سے ان کی کفالت فرماتے تھے ، اور پوری نگرانی رکھتے تھے۔ مولانا دیکھنے میں ایک سیدھے سادے فرد نظر آتے تھے لیکن وہ فرد نہیں تھے پوری انجمن تھے۔ من جملہ مساعی جمیلہ کے مدرسہ امدادیہ چونابھٹی ممبئی میں نظام مطبخ کا قیام بھی ہے اس مدرسہ کے طلباء متفرق ہوٹلوں میں غرباء کی طرح مفت کھانے جاتے تھے یہ ترتیب مہمانانِ رسول صلى الله عليه وسلم کی شان کے خلاف تھی۔ مدرسہ کے بانی حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب بہاری کو مولانا رحمة الله عليه نے ہی مدرسہ میں نظام مطبخ جاری کرنے کا مشورہ دیا، جو آج تک جاری ہے۔
ممبئی میں جوگیشوری میں مومن برادری کی منفرد کالونی مومن نگر کی تعمیر کے وقت سودی لون پر تعمیر کا خاکہ تیار ہوچکا تھا۔ مولانا رحمة الله عليه نے مع رفقاء انتھک کوشش کرکے اور مولانا محمد عمر صاحب رحمة الله عليه کی دعاء نیز مفید مشوروں سے پوری قوم کو سود سے بچالیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے بغیرسودی لون کے اس تعمیر کو پایہٴ تکمیل تک پہنچادیا۔
امت کے احوال کی درستگی خصوصاً مومن قوم کی خصوصیات (سادگی، علم کاشوق، جذبہٴ اطاعت، انفاق فی سبیل اللہ) کی رات دن فکر فرماتے تھے۔ اس سلسلہ میں پورے علاقہ کے چیدہ افراد کو، بمقام چھاپی جمع کرکے سب کو ماضی کا سبق یاد دلاکر مستقبل کے خطرات سے آگاہ کیا، اور پورے علاقہ میں اصلاح معاشرہ کی ایک تحریک چلادی جو مفید وبارآور ثابت ہوئی، آپ خاص خاص ذمہ داروں سے وقتاً فوقتا صلاح ومشورہ کرتے تھے اور حسب مشورہ دو دو ماہ پر اصلاح معاشرہ کا چھاپی میں پروگرام رکھتے تھے۔
حضرت مولانا رحمة الله عليه نے ۳ حج کئے اور ۸ عمروں سے مشرف ہوئے۔
اصلاحی تعلق
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
آپ اولاً شیخ المشائخ حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رحمة الله عليه سے بیعت ہوئے پھر حضرت کی وفات کے بعد حضرت جی ثالث حضرت مولاا انعام الحسن صاحب رحمة الله عليه کاندھلوی سے رجوع کیا پھر حضرت جی کے انتقال کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری مدظلہ العالی سے اصلاحی تعلق قائم کیا، آپ اوراد ووظائف کے پابند تھے۔ طبیعت وفطرت پہلے سے سلیم تھی، ۵/جمادی الاولی ۱۴۲۲ھ مطابق ۲۷/جولائی ۲۰۰۱ء بعد نمازِ جمعہ مسجد دارجدید مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں آپ اجازت سے نوازے گئے، مگر اخفاء حال کی وجہ سے کسی کو اطلاع نہیں دی۔
آپ کے اوصاف جمیلہ
آپ اوصاف واخلاق کے مالک تھے، ہمت کے دھنی اور صاحب علم وبصیرت تھے ابتداءً نوسالہ تدریسی دور کے بعد باقاعدہ تدریس کا موقع تو نہیں ملا لیکن کہنہ مشق مدرس کا سا تجربہ رکھتے تھے۔ اپنے زیر اتنظام تدریسی خدمات انجام دینے والے مدرسین کو اپنی خداداد فراست ایمانی سے پہچان لیتے تھے اگر مدرس میں علیا کا استاذ بننے کی صلاحیت ہوتی تو ابتدائی درجات کی کتب سے مشق کراتے ہوئے آخری درجات تک بڑھاتے جاتے تھے، تاکہ مدرس کسی فن سے تشنہ نہ رہ جائے اور پوری معلومات رکھتے تھے کہ کس مدرس سے کون سا فن یا عربی کا کون سا درجہ بغیر پڑھائے رہ گیا ہے اورمقامی علماء کو باصلاحیت اور استاذ حدیث بنانے پر خاص توجہ رہتی تھی مدرسین کی ہمت افزائی فرماتے تھے تاکہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں قوت فیصلہ کے مالک تھے لیکن اپنی رائے پر اصرار نہیں کرتے تھے، جب کسی چیز کے متعلق غور وفکر کے بعدبھلائی سمجھ میں آتی تو بلا حجت مان لیتے تھے۔
طلباء کی تعلیم وتربیت کی طرف خصوصی توجہ
مولانا طلباء کی تعلیم وتربیت کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے تھے جب آپ مدرسہ کے باقاعدہ ذمہ دار نہیں تھے اس وقت بھی مدرسہ دارالعلوم چھاپی کی تعلیم کا جائزہ لینے کیلئے تشریف لاتے تھے اس وقت کے مہتمم صاحب رحمة الله عليه کو تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلاتے تھے، قدیم روئیدادوں میں اس کا تذکرہ ہے، تعلیم وتربیت مولانا کا خاص مشن تھا اس سلسلہ میں آپ کسی بھی ماتحت کی مفید رائے کو فوراً قبول فرمالیتے تھے۔ چنانچہ چند اساتذہ پر مشتمل مجلس تعلیمی بنائی تھی،جس کے مشورے سے ہر کام انجام دیتے تھے۔
فکرمندی کا ایک واقعہ
آپ کے جواں سال داماد کی کار حادثہ میں شہادت ہوگئی چند بچوں کی ماں جوان بیٹی بیوہ ہوگئی، مگر آپ نماز جنازہ کے بعد دوسرے ہی دن مدرسہ پہنچ گئے،اسی دن مدرسہ کھل رہا تھا اور تعلیمی سال کا آغاز تھا ، ہوائی جہاز سے سارا صدمہ ساتھ لے کر ممبئی سے مدرسہ وقت پر ہم سے پہلے پہنچ گئے۔ بیٹی کی تسلی کے لئے رکنے کا موقع بھی نہیں ملا کوہِ الم سرپر اُٹھاکر اپنے کام میں مشغول ہوگئے۔
مصائب میں اُلجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے ناکامیوں پر اشک بہانا نہیں آتا
اس کا مشاہدہ اساتذہ نے کیا، اس حادثہ فاجعہ کے بعد جب آپ دارالعلوم چھاپی تشریف لائے تو چہرے سے غم کا اظہار تک نہ ہونے دیا حسب معمول امورِ داخلہ میں مشغول ہوگئے، اللہ اس صبر پر پورے گھرانے کو اپنے خزانہٴ غیب سے بے شمار بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرماوے، آمین!
مزاج: آپ نرم خو ونرم مزاج تھے اپنے لئے انتقام کو گویا جانتے ہی نہیں تھے ہاں دینی غیرت میں مزاج فاروقی کی ضرور جھلک نظر آتی تھی أَیَنْقُصُ الدِّیْنُ وَأَنَا حَیٌّ کا جذبہ دیکھنے کو ملتا تھا صاحب علم ومال ہونے کے باوجود طبیعت البَذَاذَةُ مِنَ الْاِیْمَان کا نمونہ تھی تواضع ان کا خاص وصف تھا۔ حضرت مولانا حنیف صاحب رحمة الله عليه ملّی شیخ الحدیث مدرسہ معہد ملت مالیگاؤں ختم بخاری کے موقع پر جب دارالعلوم چھاپی تشریف لائے تو مجمع میں (مدرسہ کے متعلق مولانا مدظلہ کی ابتدائی تقریر سن کر) اپنے تاثرات کچھ اس طرح بیان فرمائے۔
”مولانا مدظلہ نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ ہم دین کے خدمت گار ہیں اور دین کے نام پر ہر اچھی بات اوراصلاحی ترمیم کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہیں مولانا کے اس انداز میں بلا کی سادگی اور مسکنت کارفرما ہے جو مدارس کی ترقی کیلئے خشت اوّل ہے موصوف کی خصوصی اور غیرمعمولی توجہ سے طلبہ اور اساتذہ میں جو ڈسپلن دیکھا وہ قابل رشک ہے طلبہ کی وضع قطع اور لباس انتہائی شرعی ہے“۔
مزاج میں جود وسخاوت تھی انفاق فی سبیل اللہ کی غرض سے اپنی تجارت میں ایک مخصوص حصہ طے کرلیا تھا، صدقہٴ جاریہ کے جذبہ نے احیاءِ مکاتب ، اجراء درجات حفظ، تعمیرات مساجد میں اپنے مال کو خرچ کرنے پر آمادہ کیاتھا وسیع الظرف تھے اپنی فکریں ماتحتوں میں منتقل کرنے کا جذبہ رکھتے تھے تاکہ عارضی یادائمی عدم موجودگی کا خلاء محسوس نہ ہو اس وسعت ظرفی اور انتقالِ فکری کا ہر کوئی مشاہدہ کرتا تھا۔ چنانچہ سب کو متفکر کرنے کی غرض سے مدرسہ کے امور کو چند شعبوں پر تقسیم کیا ہے اور ہر شعبہ کا ایک ذمہ دار طے کیاہے اور سرپرستی بنفس نفیس تعمق نظر سے فرماتے تھے۔ باریک نظری تو مثالی تھی چھوٹی سی چھوٹی چیز پر باریکی سے نظر رکھتے تھے مصلحتاً گرفت کبھی نہ ہو وہ دیگر بات ہے اتحاد فکر کے قائل تھے اوراس کیلئے اپنی ذات کو مٹانا پڑے تو آمادہ نظر آتے تھے کام کے قائل تھے باتوں کے نہیں کسی چیز کو سوچ کر طے کرنے کے بعد جب تک اس پر عمل شروع نہ ہوجائے تب تک سکون کا سانس نہ خود لیتے تھے نہ لینے دیتے تھے۔ حرص علی المال والامل کی عمر میں عیش وآرام کے نقشوں کے باوجود اپنے آپ کو مدرسہ کے روکھے سوکھے کھانے پر لاڈالا تھا، اپنے مال میں خوب سخاوت اور مدرسہ اور اوقاف کے مال میں اقتصاد وکفایت شعاری خوب دیکھنے کو ملتی تھی تنگی بھی نہیں اور مقدار سے زائد خرچ بھی نہیں مدرسہ سے آج تک نہ تنخواہ لی نہ قیام وطعام کا مدرسہ پر بوجھ ڈالا، حتی کہ بجلی خرچ وسفر خرچ دارالعلوم چھاپی ودارالعلوم دیوبند میں بھی اپنے جیب خاص سے دیتے تھے مدارس کے مالیات میں احتیاط، اکابر کی یاد تازہ کرتی ہے زندگی جہد مسلسل تھی پیرانہ سالی میں ہر کوئی اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تاکہ زندگی بھر کے تکان سے کچھ آرام مل جاوے مگر مدارس کا فکر ادھر سے ادھر گھماتا پھراتا تھا، سفر پر سفر کھانا ملا تو شکر ورنہ صبر آرام مل گیا تو کرلیا ورنہ چلتے رہے، سفر کی تکان محسوس نہیں ہوتی بلکہ فرماتے تھے کہ مجھے حضر کے مقابلہ میں سفر میں کچھ آرام مل جاتا ہے۔ خلاصہ اینکہ مدارس، طلبہ واساتذہ، علاقہ اور امت کے لئے درمندانہ دل رکھتے تھے بقول بعض ذمہ دار ”حضرت مولانا محمد عمر صاحب رحمة الله عليه کے بعد برادری مولانا کی شخصیت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے“ واقعی حضرت مولانا محمد عمر صاحب رحمة الله عليه کے بعد علاقہ میں مولانا مرجع الخاص والعام تھے۔ یہ چند باتیں میں نے اپنے علم کے مطابق لکھی ہیں، باقی جن لوگوں نے مولانا کو قریب سے دیکھا ہے وہ زیادہ جانتے ہیں۔
علالت
رمضان شریف میںآ پ رحمة الله عليه کی طبیعت علیل ہوئی۔ علاج ومعالجہ کے بعد – الحمدللہ- صحت بحال ہوگئی، بعد رمضان ۳/شوال سے اصلاح معاشرہ کے ممبئی پروگرام ہوئے جس کی چھ نشستیں ہوئیں، ہر نشست میں پوری بشاشت کے ساتھ شرکت فرمائی۔
۹/شوال ۱۴۳۱ھ آپ رحمة الله عليه اپنے محبوب ادارہ دارالعلوم چھاپی میں تشریف لائے۔ ۱۰/شوال ۱۴۳۱ھ داخلے شروع ہوئے، داخلے کی جملہ کارروائی صحت میں کچھ تغیر کے باوجود احسن طریقے پر اپنے کمرے میں بیٹھ کر انجام دی۔ داخلے مکمل ہوئے حضرت والا رحمة الله عليه اپنی صحت میں کچھ فرق محسوس کرنے لگے۔ سانس گھٹنے کی شکایت کچھ زیادہ ہوتی چلی گئی، چلنا پھرنا زینے سے اُترنا چڑھنا آپ رحمة الله عليه کے لئے مشکل ہوگیا، نماز بھی اپنے کمرے میں ادا فرماتے تھے، اپنے رفقاء کار کے مشورہ سے مہسانہ تشریف لے گئے، ڈاکٹر شیخ جاوید سے معائنہ کرایا، رپورٹیں تسلی بخش تھیں۔ قدرے خون کی کمی پائی گئی، خون کو مطلوب مقدار میں لانے کے لئے دوائیں انجکشن شروع ہوگئے۔ اور جو ہدایات ڈاکٹر صاحب نے دی تھی اُس پر عمل بھی پوری مضبوطی کے ساتھ شروع فرمادیا۔ آپ چونکہ دیوبند کے کارگزار مہتمم تھے، وہاں کے تعلیمی وتربیتی معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی فکر آپ رحمة الله عليه پر ہروقت سوار رہتی تھی۔ دارالعلوم دیوبند ایک عالمی ادارہ اور ملت اسلامیہ کا قلب ہے۔ آپ رحمة الله عليه کی دلی خواہش تھی کہ اس عالمی ادارہ کو صحیح نہج پر چلایا جائے تاکہ عالم کے سارے مدارس کا نظام ونہج بہتر ہوجائے۔ اسی علالت کے دوران آپ رحمة الله عليه اپنے رفقاء کار سے دیوبند جانے کے لئے مشورہ کرتے رہے۔ دیوبند جانے سے ایک روز قبل اساتذئہ مدرسہ کو جمع فرمایا، جیسا کہ آپ رحمة الله عليه کا سال کے آغاز میں معمول تھا۔ مدرسہ کے اُمور تعلیم و تربیت پر اساتذہ کے سامنے گفتگو فرمائی۔ اس مرتبہ کی مجلس گزشتہ کی مجالس سے بالکل مختلف تھی۔ آپ کی گفتگو کا بیشتر حصہ قضاء وقدر پر راضی رہنے کا اشارہ دے رہا تھا۔ اس موقعہ پر آپ نے ایک بات یہ بھی بیان فرمائی کہ میں آج ہوں کل نہیں، شوریٰ نے مجھے آج کان پکڑکر نکال دیا تو میں چلا جاؤں گا مگر آپ کو یہاں رہ کر کام کرنا ہے، ہر ہر شعبہ کے ذمہ دار مقرر فرمائے کہ آپ کو شعبہ کی پوری نگرانی کرنی ہے، اور اس کے نشیب وفراز کو سمجھ کر کام کرنا ہے ۔ مدرسہ کے ایک استاذ جناب مولانا طلحہ صاحب جو تدریس کے ساتھ کتب خانہ کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں اُن سے آخری ملاقات کے وقت فرمایا کہ میں دنیا سے جارہا ہوں آپ کتب خانہ کی ذمہ داری کو امانت داری کے ساتھ سنبھالتے رہنا جیسے کہ ابھی تک سنبھالتے رہے ہیں، کتب خانہ تمہارے حوالے ہے۔ گفتگو کے آخر میں فرمایا وما علینا الا العمل۔ اور تاکید کے طور پر پھر فرمایا وما علینا الا البلاغ نہیں کہتا بلکہ وما علینا الا العمل کہہ رہا ہوں۔ اور دوسرے دن دیوبند کے لئے روانہ ہوگئے۔
وفات
نہایت افسوس کے ساتھ تحریر ہے کہ ۲۸/شوال ۱۴۳۱ھ مطابق ۸/اکتوبر۲۰۱۰ء بروز جمعہ بوقت عصر حضرت نے داعیٴ اجل کو لبیک کہا اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے اور ہم کو صبر جمیل عطا فرمائے،آمین یا رب العالمین۔
***
——————————–
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 94 ذيقعده – ذىالحجة 1431 ھ مطابق نومبر 2010 ء