از: مولانا محمد تقی عثمانی ، کراچی، پاکستان
۲۰– انہی حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه کا معمول تھا کہ جو کھانا گھر سے آتا تھا، خود تو بہت کم خوراک کھاتے تھے باقی کھانا محلے کے بچوں کوکھلادیتے تھے جو بوٹی بچ جائے اس کو بلی کے لیے دیوار پر رکھ دیتے اور جو ٹکڑے بچ جاتے ان کو چھوٹا چھوٹا کرکے چڑیوں کے لیے اور دسترخوان کے ریزوں کو بھی ایسی جگہ جھاڑتے تھے جہاں چیونٹیوں کا بل ہو۔(۲۶)
۲۱- شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمة اللہ علیہ دارالعلوم کے ان اساتذہ میں سے ہیں جن کے عشّاق اب بھی شاید لاکھوں سے کم نہ ہوں، ان کے رُعب اور دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ طلباء ان کے نام سے تھراتے تھے حالانکہ مارنے پیٹنے کا کوئی معمول نہ تھا۔ والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم بھی ان کے شاگرد ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے ساتھ ہم چند آدمی سفر پر روانہ ہوئے، سفر کے آغاز میں مولانا رحمة الله عليه نے فرمایاکہ ”کسی کو اپنا امیر بنالو“ ہم نے عرض کیا کہ ”امیر تو متعین ہے“ مولانا رحمة الله عليه نے فرمایا: ”مجھے امیر بنانا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے لیکن امیر کی اطاعت کرنی ہوگی“۔ ہم نے عرض کیا ”انشاء اللہ ضرور“! اب جو روانگی ہوئی تو مولانا رحمة الله عليه نے اپنا اور ساتھیوں کا سامان خود اُٹھالیا۔ ہم نے دوڑ کر سامان لینا چاہاتو فرمایا ”نہیں! امیرکی اطاعت ضروری ہے“ پھر سفر کے ہر مرحلے میں مشقت کا ہر کام خود کرنے کے لیے آگے بڑھتے اور کوئی کچھ بولتا تو اطاعت امیر کا حکم سناتے۔
۲۲- حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم مہتمم دارالعلوم دیوبند کے خسر محترم جناب مولانا محمود صاحب رامپوری رحمة الله عليه رامپور کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے دینی شغف اور دنیوی وجاہت وریاست دونوں کے اعتبار سے ممتاز تھا، اور تمام اکابر دیوبند سے اس کے تعلقات تھے، جب یہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دیوبند آئے تو ان کا قیام دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد کے حجرے میں ہوا جو ”چھوٹی مسجد“ ہی کے نام سے معروف تھی۔ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ دارالعلوم سے آتے جاتے ادھرہی سے گزرا کرتے تھے ایک روز وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ وہاں مولانا محمود صاحب رامپوری کھڑے تھے، حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو ان کے دیوبند آنے کا حال معلوم نہ تھا، اس لیے ان سے پوچھا کہ کب آئے؟ کیسے آئے؟ انھوں نے تفصیل بیان کی اور بتایا کہ اسی مسجد کے ایک حجرے میں مقیم ہوں۔ حضرت رحمة الله عليه حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور ان کے رہنے کی جگہ دیکھی۔ وہاں ان کے سونے کے لیے ایک بستر فرش ہی پر بچھا ہوا تھا، اس وقت تو حضرت رحمة الله عليه یہ دیکھ کر تشریف لے آئے لیکن یہ خیال رہا کہ مولانا محمود صاحب رام پور کے رئیس زادے ہیں، انھیں زمین پر سونے کی عادت نہیں ہوگی اور یہاں تکلیف اُٹھاتے ہوں گے، چنانچہ گھر جاکر ایک چارپائی خود اُٹھائی اوراُسے لے کر چھوٹی مسجد کی طرف چلے، وہاں سے فاصلہ کافی تھا، لیکن حضرت رحمة الله عليه اسی حالت میں گلیوں اور بازار سے گزرتے ہوئے چھوٹی مسجد پہنچ گئے۔ اس وقت مولانا محمود صاحب رحمة الله عليه مسجد سے نکل رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو خیال آیا کہ یہ مجھے چارپائی اُٹھائے ہوئے دیکھیں گے تو انھیں ندامت ہوگی کہ میری خاطر شیخ الہند رحمة الله عليه نے اتنی تکلیف اٹھائی، چنانچہ انھیں دیکھتے ہی چارپائی نیچے رکھ دی اور فرمایا:
”لو میاں! یہ اپنی چارپائی خود اندر لے جاؤ، میں بھی شیخ زادہ ہوں کسی کا نوکر نہیں“(۲۷)
اِنابت وتقویٰ
۲۳- اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو انابت وتقویٰ کے ایسے سانچوں میں ڈھالا تھا کہ یہ ”سیماہم فی وجوہہم“ کی مثال بن گئے تھے، اور لوگ ان کے چہرے دیکھ کر اسلام قبول کرتے تھے۔مولانا محمد انوری رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ مظفرگڑھ کے سفر میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا، ملتان چھاؤنی کے اسٹیشن پر فجر کی نماز سے قبل حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة الله عليه گاڑی کے انتظار میں تشریف فرماتھے، اردگرد خدام کا مجمع تھا، ریلوے کے ایک ہندوبابو صاحب لیمپ ہاتھ میں لیے آرہے تھے، حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کا منور چہرہ دیکھ کر سامنے کھڑے ہوگئے اور زاروقطار رونے لگے اور پھر یہ زیارت ہی اُن کے ایمان کا ذریعہ بن گئی، وہ کہتے تھے کہ ”ان بزرگوں کا روشن چہرہ دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ اسلام سچا دین ہے۔“(۲۸)
۲۴- تمام اکابر دیوبند کا مشترک رنگ یہ تھاکہ وہ حروف ونقوش کے کتابی علم کو اس وقت تک اہمیت نہیں دیتے تھے جب تک اس کے ساتھ انابت الی اللہ اور صلاح وتقویٰ نہ ہو، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه نے جب خانقاہ تھانہ بھون میں مدرسہ امدادیہ قائم فرمایا تو حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ کو اس کی اطلاع دی، حضرت رحمة الله عليه نے جواب میں تحریر فرمایا:
”اچھا ہے بھائی، مگر خوشی تو جب ہوگی جب یہاں اللہ اللہ کرنے والے جمع ہوجاویں گے“(۲۹)
۲۵- چنانچہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ہی انابت الی اللہ پر تھی، راقم الحروف کے جد امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب قدس سرہ فرماتے تھے کہ:
”ہم نے دارالعلوم کا وہ وقت دیکھا ہے جس میں صدر مدرس سے لے کر ادنیٰ مدرس تک اور مہتمم سے لے کر دربان اور چپراسی تک سب کے سب صاحب نسبت بزرگ اور اولیاء اللہ تھے۔ دارالعلوم اس زمانہ میں دن کو دارالعلوم اور رات کو خانقاہ معلوم ہوتا تھا کہ اکثر حجروں سے آخر شب میں تلاوت اور ذکر کی آوازیں سنائی دیتی تھیں اور درحقیقت یہی اس دارالعلوم کا طغرائے امتیاز تھا۔“(۳۰)
۲۶- دارالعلوم دیوبند کے دوسرے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب قدس سرہ اگرچہ ضابطے کے عالم نہ تھے لیکن حضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی رحمة الله عليه کے خلیفہ اور اس درجے کے بزرگ تھے کہ حضرت نانوتوی رحمة الله عليه نے ایک موقع پر فرمایا:
”مولانا رفیع الدین صاحب رحمة الله عليه اور حضرت مولانا گنگوہی رحمة الله عليه میں سوائے اس کے کوئی فرق نہیں کہ مولانا گنگوہی رحمة الله عليه عالم ہیں اور وہ عالم نہیں، ورنہ نسبت باطنی کے لحاظ سے دونوں ایک درجہ کے ہیں۔“(۳۱)
ان کا واقعہ ہے کہ انھوں نے ایک گائے پال رکھی تھی جس کی دیکھ بھال ایک خادم کے سپرد تھی۔ ایک روز اتفاقاً وہ خادم کسی وجہ سے گائے کو مدرسہ کے صحن میں باندھ کر کسی کام سے چلاگیا۔ دیوبند کے باشندے کوئی صاحب ادھر آنکلے مولانا رحمة الله عليه کی گائے کو مدرسہ کے صحن میں دیکھا تو مولانا سے شکایت کی کہ ”کیامدرسہ کا صحن آپ کی گائے پالنے کے لیے ہے“؟ مولانا رحمة الله عليه نے ان سے کوئی عذر بیان کرنے کے بجائے یہ گائے دارالعلوم ہی کو دے دی اور قصہ ختم کردیا، حالانکہ مولانا رحمة الله عليه کا عذر بالکل واضح اور ظاہر تھا، مگر یہ حضرات اپنے نفس کی طرف سے مدافعت کا پہلو اختیار ہی نہ کرتے تھے۔(۳۲)
۲۷- حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی رحمة اللہ علیہ دارالعلوم دیوبند کے اس دور کے مہتمم تھے۔ جب دارالعلوم کا کام بہت زیادہ پھیل گیا تھا، طلباء کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز تھی۔ بہت سے نئے شعبے قائم ہوچکے تھے اور ان کا انتظام شبانہ روز مصروفیت کے بغیر ممکن نہ تھا لیکن احقر نے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے کہ اس دور میں بھی نماز اور تلاوت کے دیگر معمولات کے علاوہ روزانہ سوالاکھ اسم ذات کا معمول کبھی قضا نہیں ہوتا تھا اور اللہ پر توکل کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ دارالعلوم کی انتظامیہ کے خلاف ایک شدید طوفان اُٹھا اور بعض لوگ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمة الله عليه کی جان کے بھی دشمن ہوگئے، ایسے حالات میں وہ رات کو دارالعلوم کی کھلی چھت پر تن تنہا سوتے تھے، بعض بہی خواہوں نے عرض کیاکہ ایسے حالات میں آپ کو اس طرح نہ سونا چاہیے بلکہ احتیاط کے مدنظر کمرے کے اندر سونا چاہیے۔ مولانا رحمة الله عليه نے جواب میں فرمایاکہ: میں تو اس باپ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کا بیٹا ہوں جس کے جنازے کو چار اُٹھانے والے بھی میسر نہ آئے اور جسے رات کے اندھیرے میں بقیع کی نذر کیاگیا لہٰذا مجھے موت کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔“(۳۳)
یہ دیوبند کے وہ بزرگ ہیں جو خالص انتظامی کاموں میں مصروف تھے اور جیساکہ انتظامی امور کا خاصہ ہے وہ بعض مرتبہ موردِ اعتراض بھی بنے اور عموماً اولیاء اللہ کی فہرست میں ان کا شمار نہیں ہوتا ع
قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا
۲۸- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة اللہ علیہ کا معمول تھاکہ سارا دن تعلیم وتدریس کی محنت اُٹھانے کے باوجود رات کو دوبجے بیدار ہوجاتے اور فجر تک نوافل وذکر میں مشغول رہتے تھے اور رمضان المبارک میں تو تمام رات جاگنے کا معمول تھا، حضرت رحمة الله عليه کے یہاں تراویح سحری سے ذرا پہلے تک جاری رہتی تھی اورمختلف حفاظ کئی کئی پارے سناتے تھے، یہاں تک کہ حضرت رحمة الله عليه کے پاؤں پر ورم آجاتا اور حتّٰی تورمت قدماہ کی سنت نبویہ صلى الله عليه وسلم نصیب ہوتی تھی۔
ایک مرتبہ خوراک اور نیند کی کمی اور طویل قیام کے اثر سے حضرت رحمة الله عليه کا ضعف بہت زیادہ ہوگیا، اس کے باوجود رات بھر کی تراویح کا یہ معمول ترک نہیں فرمایا۔ آخر مجبور ہوکر گھر کی خواتین نے تراویح کے امام مولوی کفایت اللہ صاحب سے کہلایا کہ آج کسی بہانے سے تھوڑا سا پڑھ کر اپنی طبیعت کے کسل اور گرانی کا عذر کردیجیے حضرت رحمة الله عليه کو دوسروں کی راحت کا بہت خیال رہتا تھا اس لیے خوشی سے منظور کرلیا۔ تراویح ختم ہوگئی اور اندر حافظ صاحب لیٹ گئے اور باہر حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه لیکن تھوڑی دیر بعد حافظ صاحب نے محسوس کیا کہ کوئی شخص آہستہ آہستہ پاؤں دبارہا ہے، انھوں نے ہوشیارہوکر دیکھا تو خود حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه تھے۔ ان کی حیرت وندامت کا کچھ ٹھکانہ نہ رہا، وہ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے لیکن مولانا رحمة الله عليه فرمانے لگے کہ: ”نہیں بھائی، کیا حرج ہے؟ تمہاری طبیعت اچھی نہیں، ذرا راحت آجائے گی۔“(۳۴)
۲۹- حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه کے واقعات پہلے بھی آچکے ہیں، اُن کا علم وفضل اور حیرت انگیز حافظہ اس قدر مشہور ہوا کہ ان کی دوسری خوبیاں اس میں گم ہوگئیں ورنہ انابت وتقویٰ اور سلوک وتصوف میں بھی انھیں ممتاز مقام حاصل تھا۔ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہم سے انھوں نے خود بیان فرمایاکہ ایک مرتبہ میں کشمیر سے آرہا تھا۔ راستہ میں ایک صاحب مل گئے جو پنجاب کے ایک مشہور پیر کے مرید تھے، ان کی خواہش اور ترغیب یہ تھی کہ میں بھی اُن پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اتفاق سے وہ مقام میرے راستہ میں پڑتا تھا۔ اس لیے میں نے بھی ارادہ کرلیا۔ ہم پیر صاحب کے پاس پہنچے تو وہ بڑے اکرام سے پیش آئے، کچھ باتیں ہوئیں، پھر وہ مریدین کی طرف متوجہ ہوگئے اور اُن پر توجہ ڈالنی شروع کی جس سے وہ بے ہوش ہوہوکر لوٹنے اور تڑپنے لگے۔ میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا ”میرا جی چاہتا ہے کہ اگر مجھ پر بھی یہ حالت طاری ہوسکے تو مجھ پر آپ توجہ فرمائیں“۔ انھوں نے توجہ دینی شروع کی اور میں اللہ تعالیٰ کے ایک اسم پاک کا مراقبہ کرکے بیٹھ گیا۔ بے چاروں نے بہت زور لگایا لیکن مجھ پر کچھ اثر نہ ہوا، کچھ دیر کے بعد انھوں نے خود فرمایاکہ آپ پر اثر نہیں پرسکتا۔
حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمة الله عليه بتاتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے یہ واقعہ سناکر غیرمعمولی جوش کے ساتھ فرمایا:
”کچھ نہیں ہے، لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ایک کرشمہ ہے۔ ان باتوں کا خدا رسیدگی سے کوئی تعلق نہیں، اگر کوئی چاہے اور استعداد ہوتو انشاء اللہ تین دن میں یہ بات پیداہوسکتی ہے کہ قلب سے اللہ اللہ کی آواز سنائی دینے لگے۔ لیکن یہ بھی کچھ نہیں۔ اصل چیز تو بس احسانی کیفیت اور شریعت وسنت پر استقامت ہے۔“(۳۵)
تبلیغ ودعوت کا انداز
۳۰- اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو جہاں تبلیغ ودعوتِ دین کا جذبہ عطا فرمایا تھا وہاں اسے ”حکمت“ اور ”موعظہ حسنہ“ کے اصول پر انجام دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی تھی۔ حضرت مولانا مظفرحسین صاحب کاندھلوی رحمة الله عليه کا تذکرہ پہلے بھی آچکا ہے۔ ایک مرتبہ سفر کے دوران آپ کا گزر جلال آباد یا شاملی سے ہوا، وہاں ایک مسجد ویران پڑی تھی، آپ نے پانی کھینچ کر وضو کیا، مسجد میں جھاڑودی اور بعد میں ایک شخص سے پوچھا کہ یہاں کوئی نمازی نہیں؟ اُس نے کہا کہ سامنے خان صاحب کا مکان ہے جو شرابی ہیں اور رنڈی باز ہیں، اگر وہ نماز پڑھنے لگیں تو یہاں اور بھی دوچار نمازی ہوجائیں۔
مولانا رحمة الله عليه یہ سن کر خان صاحب کے پاس تشریف لے گئے، وہ نشہ میں مست تھے اور رنڈی پاس بیٹھی ہوئی تھی۔مولانا رحمة الله عليه نے ان سے فرمایا: ”بھائی خان صاحب! اگر تم نماز پڑھ لیا کرو تو دوچار آدمی اور جمع ہوجایا کریں اور یہ مسجد آباد ہوجائے۔“ خان صاحب نے کہا کہ مجھ سے وضو نہیں ہوتی اور نہ یہ دوبُری عادتیں چھوٹتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بے وضو ہی پڑھ لیا کرو اور شراب نہیں چھوٹتی تو وہ بھی پی لیا کرو۔اس نے عہد کیا کہ میں بغیر وضو ہی پڑھ لیا کروں گا۔ آپ وہاں سے تشریف لے گئے، کچھ فاصلہ پر نماز پڑھی اور سجدے میں خوب روئے۔ ایک شخص نے دریافت کیا کہ حضرت! آپ سے دو باتیں ایسی سرزد ہوئیں جو کبھی نہ ہوئی تھیں، ایک یہ کہ آپ نے شراب اور زنا کی اجازت دے دی۔ دوسرے یہ کہ آپ سجدے میں بہت روئے۔ فرمایاکہ: ”سجدے میں میں نے جناب باری سے التجا کی تھی کہ اے ربّ العزت! کھڑا تو میں نے کردیا، اب دل تیرے ہاتھ میں ہے۔“ چنانچہ ان خان صاحب کا یہ حال ہوا کہ جب رنڈیاں پاس سے چلی گئیں تو ظہر کا وقت تھا، اپنا عہد یاد آیا، پھر خیال آیا کہ آج پہلا دن ہے، لاؤ غسل کرلیں، کل سے بغیروضو پڑھ لیاکریں گے۔ چنانچہ غسل کیا،پاک کپڑے پہنے اور نماز پڑھی۔ نماز کے بعد باغ کو چلے گئے۔عصر اور مغرب باغ میں اسی وضو سے پڑھی، مغرب کے بعد گھر پہنچے تو ایک طوائف موجود تھی۔ پہلے کھانا کھانے گھرمیں گئے۔ وہاں جو بیوی پرنظر پڑی تو فریفتہ ہوگئے۔ باہر آکر رنڈی سے کہا کہ آئندہ میرے مکان پر نہ آنا۔(۳۶)
***
حواشی:
(۲۶) انوارِ انوری،ص:۴۰۔ (۲۷) ارواحِ ثلاثہ، ص:۲۲۴، نمبر ۳۲۷۔ (۲۸) ”میرے والد ماجد“: از حضرت مفتی محمد شفیع مدظلہم، ص:۵۲۔ (۲۹) اشرف السوانح،ج۱،ص:۱۳۹۔ (۳۰) ”میرے والد ماجد،ص:۶۰) (۳۱) یہ واقعہ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے (م ت ع)۔ (۳۲) حیات شیخ الہند رحمة الله عليه از مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمة الله عليه ص۱۸۹۔ (۳۳) حیات انور،ص:۱۵۵ تا ۱۵۷۔ (۳۴) ارواحِ ثلاثہ،ص:۱۵۰،۱۵۱،نمبر۱۹۱۔ (۳۵) ارواح ثلاثہ،ص:۱۷۴،نمبر ۲۲۶۔ (۳۶) ”میرے والد ماجد“ از حضرت مفتی محمد شفیع صاحب،ص:۵۹۔
***
—————————–
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 94 ذيقعده – ذىالحجة 1431 ھ مطابق نومبر 2010 ء