از: مفتی رشید احمد فریدی
مدرسہ مفتاح العلوم تراج، سورت، گجرات
(۱) تعامل امت اصول کی روشنی میں
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد:
اہل علم اور عوام و خواص سب بخوبی واقف ہیں کہ ایک جگہ کی قربانی دوسری جگہ یعنی شہر کی قربانی دیہات میں اور دیہات کی قربانی شہر میں اور ایک شہر کی قربانی دوسرے شہر میں کرنے کرانے کا سلسلہ خیرالقرون سے چلا آرہا ہے۔ اس کے کلی وجزوی ضوابط وشرائط بھی ائمہ مجتہدین اور فقہاء رحمہم اللہ نے واضح لفظوں میں بیان کیا ہے جو کتب فقہ میں صراحتاً منقول ہیں۔
قربانی کے وجوب اوراداء سے متعلق اصول وشرائط کا حاصل آسان لفظوں میں صرف اتنا ہے کہ مطلق قربانی کے صحیح ہونے کے لئے ایام نحر کا ہونا ضروری ہے اور یوم النحر” دسویں ذی الحجہ“ کو شہر میں قربانی کیلئے مزید یہ شرط ہے کہ عیدالاضحی کی نماز ہوچکی ہو۔ خواہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں ہو اور جس کی طرف سے قربانی ہے اگر وہ واجب قربانی کرنا یا کرانا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ شخص شرعاً غنی یعنی مالک نصابِ فاضل ہو اس لئے کہ مالی عبادت کے لئے قدرت بالمال یعنی شرعی غنا ویسار ضروری ہے اور یہ غنا قربانی کے وجوب کے سلسلہ میں شرط فی معنی العلة ہے۔ أن لا نزاع لأحد أن علة وجوب الأضحیة علی الموسر ہی القدرة علی النصاب. (تکلمة فتح القدیر ج۹ ص ۵۰۷) وشرط الیسار لقولہ علیہ السلام من وجد سعة ولم یضح فلا یقربن مصلانا یدل علی الوجوب بالسعة ولا سعة للفقیر (بنایہ) پس اگر کوئی شخص (عاقل،بالغ، مسلمان) غنی بن گیا تو شرعاً اس کے ذمہ صدقہٴ فطر کی طرح قربانی کا بھی وجوب متعلق ہوجاتا ہے۔ اس میں کسی فقیہہ کا اختلاف نہیں ہے۔ یعنی مالک نصاب اس لائق ہوجاتا ہے کہ اس سے صدقة الفطر اور قربانی کا مطالبہ کیا جائے اور جب وہ اس قابل ہے تو پھر اس کیلئے صدقہ لینا حرام ہے۔ ویتعلق بہذا الیسار احکام ثلثة حرمة اخذ الصدقة و وجوب زکوٰة الفطر والاضحیة (مبسوط،ص:۱۰۳/۳) ونصاب تجب بہ احکام اربعة حرمة الصدقة، و وجوب الاضحیة وصدقة الفطر، ونفقة الاقارب ولا یشترط فیہ النمو بالتجارة ولا حولان الحول. (طحاوی وکذا فی العنایة) مالک نصاب کیلئے اخذ صدقہ کا حرام ہونا دلیل ہے کہ وجوب فی الذمہ متحقق ہوچکا ہے اور مطالبہ کی یہی لیاقت اور اہلیت کو مشائخ احناف کے نزدیک نفس وجوب سے تعبیر کیاگیا ہے۔
اور جس طرح غنٰی کی وجہ سے وجوب فی الذمہ ہوتا ہے اسی طرح نذر کی وجہ سے بھی ہوتا ہے اور نذر میں فقیر اور غنی دونوں برابر ہیں اور غنا ونذر کا حدوث وتحقق ایام نحر کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ والوجوب بسبب النذر یستوی فیہ الفقیر والغنی وان کان الواجب یتعلق بالمال. (بدائع) ولو قال ذلک (ای نذران یضحی بشاة وہو موسر) قبل ایام النحر یلزمہ التضحیة بشاتین بلا خلاف …. ولو قال ذلک وہو معسر ثم ایسر فی ایام النحر فعلیہ ان یضحی بشاتین (بدائع ج۵ ص ۶۳) تو وجوب فی الذمہ یعنی نفس وجوب غنا یا نذر کی وجہ سے ایام نحر سے پہلے متحقق ہوجاتا ہے۔ (دیکھئے نورالسنیٰ لمن یجب علیہ الاضحیة بالغنی)
اور فعل مامور بہ جس کو اپنے مقررہ وقت میں انجام دیا جائے تواسے ”اداء“ کہتے ہیں۔ اس کا مطالبہ خطاب الٰہی سے جس پر صیغہٴ امر دال ہے وقت مخصوص میں ہوتا ہے۔ فقہی تعبیر میں یہی ہے وجوبِ اداء جو وقت سے قبل نہیں ہوتا اور وقت اسی خطاب الٰہی مخفی کا جووجوب ادا کا حقیقی سبب ہے قائم مقام ہے اور وقت کے اندر فعل (مامور بہ) کو قضاء نہ کہا جائے اس لئے یہ وجوب (مطالبہ) اداء سے متصل مانا گیا ہے۔ پس یہ وقت مخصوص خطابِ الٰہی کی معرفت کا نشان اور سبب وجوب ادا ہے۔
لہٰذا واجب قربانی وقت کے اندر جب بھی ذبح کی جائے اداء کہلائے گی اور اداء یعنی ذبح سے متصل وقت کے جزء مقدم کو سبب وجوب قرار دیاگیا ہے۔ (جیسا کہ نماز میں) خواہ ذبح کرنے والا اصیل یعنی وہی شخص ہو جس کے ذمہ قربانی کا وجوب ہوا ہے یا وکیل ہو اس لئے کہ مالی عبادت میں شریعت نے نیابت کو درست قرار دیا ہے پس وکیل کا اپنے وقت کے اعتبار سے قربانی کرنا شرعاً ایسا ہی ہے جیسا کہ خود موٴکل کا وکیل کے مقام میں قربانی کرنا۔ گویا مطالبہٴ شارع نیابتہً وکیل کی جانب متوجہ ہے۔ جیسے مستطیع معذور کی طرف سے حج کرنے والا ارکان و واجبات کی ادائیگی میں مقاماتِ اداء کے اوقات کی رعایت کرتا ہے اور شرعاً اسی کا اعتبار ہے نہ کہ محجوج عنہ کے وقت کا۔
نیز اہلیت وجوب سے مقصود بالذات چونکہ اداء ہے یعنی قربت وعبادت کو اپنے وقت میں انجام دینا اس لئے اس کا مطالبہ یعنی وجوب اداء بھی مقصود ہے اور محققین ماوراء النہر صرف اسی ایک اداء کے وجوب کو مانتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل اہلیت اداء کو ضروری قرار دیتے ہیں اور اہلیت وجوب واداء کیلئے شرائط وجوب واداء کا ہونا ضروری ہے۔ قال اہل التحقیق من مشائخنا بما وراء النہر ان الوجوب فی الحقیقة نوع واحد وہو وجوب الاداء فکل من کان اہل الاداء کان من اہل الوجوب ومن لا فلا…. لأن الوجوب المعقول ہو وجوب الفعل کوجوب الصوم والصلوٰة وسائر العبادات. (بدائع ج۲ ص ۸۸) البتہ مشائخ احناف وجوبِ اداء کے قبل جس شیٴ کو تسلیم کرتے ہیں اس کو اصل وجوب یا نفس وجوب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جو وجوب اداء سے مقدم اور منفصل عن الاداء ہوتا ہے۔
یہ اہلیت یا نفس وجوب جن امورپر موقوف ہے۔ یعنی اسلام، عقل، بلوغ اور غناء واستطاعت وغیرہ دیکھئے وہ سب بندہ کی صفات ہیں پھر ان میں سے بعض کو فقہاء نے واجبات کے تحقق کیلئے شرط اور بعض کو سبب قرار دیا۔ نیز کسی صفت کو ایک جگہ شرط اور دوسری جگہ سبب اور کسی صفت کو ایک اعتبار سے شرط دوسرے اعتبار سے سبب کہاگیا ہے۔ بہرحال ذمہ کے مشغول بالواجب ہونے کا مدار فقط کسی چیز کو سبب کہے جانے پر نہیں ہے۔ بلکہ وصف علت پر ہے کہ علت مُوجِب ہوتی ہے۔ البتہ ادا کے وجوب کا تعدد وتکرار اور عدم تکرار کی معرفت یقینا صرف سبب کے لفظ سے وابستہ ہے۔ اسی لئے واجبات کی نسبت سبب کی طرف ہوتی ہے اور فقہاء نے نصوص کی روشنی میں جس چیز کو سبب وجوب قرار دیا ہے اس میں تکرار وعدم تکرار کا معنی مرعٰی ہوتا ہے خواہ وہ شئی وصف ہو یا وقت یا اس کے علاوہ۔
اب آپ دیکھئے کہ جس چیز کو مشائخ اصل وجوب سے تعبیر کررہے ہیں وہ وہی ہے جس کو اہلیت وجوب سے ذکر کیاگیا ہے کہ عقل وبلوغ وغیرہ کے پائے جانے پر ہی ذمہ مشغول بالواجب ہوگا اور اداء کی اہلیت پیدا ہوگی۔ مگر مطالبہ فعل (یعنی اداء) تو وقت کی آمد کے بعد ہی ہوگا۔ اور اسی کو وجوب اداء کہتے ہیں۔ پس وجوب اداء کا وقت (مخصوص) میں ہونا تمام فقہاء کے نزدیک قطعی ہے اور سببیت وقت سے متعلق فقہاء کا سارا کلام اسی وجوب متصل بالاداء ہی کے محور پر گردش کرتا ہے۔ مثلاً الاعصر یومہ عند الغروب لان السبب ہو الجزوٴ القائم من الوقت لانہ لو تعلق بالکل لوجب الاداء بعدہ ولو تعلق بالجزء الماضی فالمودی فی آخر الوقت قاضِ واذا کان کذلک فقد اداہا کما وجبت (ہدایہ ص ۸۵/۱) دیکھئے رسالہ دارالعلوم شمارہ شوال ۱۴۲۹ھ میں ”وجوب اداء وقت معین کے ساتھ خاص ہے“ ص ۳۷۔ غرض یہ کہ وجوب ادا کا وقت مخصوص میں ہونا اصولاً وفقہاً بالکل مسلّم ہے خواہ ادا بھی موقت ہو جیسے نماز روزة کے اوقات یا وجوب تو وقت معین میں ہوا اور ادا موقت نہ ہو جیسے زکوٰة وصدقة الفطر۔
ذمہ مشغول بالواجب ہونے کے بعد وقتِ وجوب اداء سے پہلے مالی عبادت زکوٰة وصدقہ الفطر میں ادائیگی درست ہے۔ یعنی مالک نصاب ہونے کے بعد حولان حول سے قبل زکوٰة اور صبح یوم الفطر سے قبل صدقہ ادا کرنا جائز ہے۔ اور قربانی میں مالی عبادت ہونے کی وجہ سے اصلاً ”تصدق“ کا وجوب ہوتا ہے۔اور تصدق بالمال موقت نہیں ہے مگر اداء بشکل اراقة الدم غیر معقولة المعنی ہونے کی وجہ سے نماز، روزہ کی طرح موقّت ہے۔ لہٰذا نفس وجوب ہونے کے بعد جب تک اداء کا وقت نہ ہو اداء صحیح نہیں ہے اور صحت اداء کے لئے شرائط وجوب کے علاوہ شرطِ ادا کا ہونا بھی ضروری ہے۔
اور ذبح اضحیہ کی ایک شرط طلوع صبح یوم النحر سے لے کر بارہویں کے غروب آفتاب تک وقت کا ہونا ہے۔ یہ شرط شہر وغیر شہر قریہ، دیہات اور بیابان سب جگہ کے لئے عام ہے۔ اور دوسری شرط خاص ہے ذبح فی المصر کے لئے عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہوجانا۔ یعنی شہر کیلئے دو شرطیں ہوئیں اور دیہات کیلئے فقط ایک۔ پس اگر کسی دیہات کے باشندہ نے اپنا اضحیہ خواہ وہ اس پر شرعاً واجب ہو یا نفل ذبح کیلئے شہر بھیج دیا اور وکیل نے نماز عید سے پہلے ذبح کردیاتو باوجود صبح یوم النحر ہوجانے کے قربانی بالاتفاق ادا ء نہیں ہوگی گویاشہر میں عیدالاضحی کے دن قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہوتا ہے اور اگر شہری نے دیہات میں اپناجانور بھیج دیا اور وکیل نے دیہات میں صبح صادق کے فوراً بعد ذبح کیاتو بالاتفاق قربانی ادا ہوجائے گی۔ حالانکہ من علیہ الاضحیہ شہری کے اعتبار سے ابھی وقت جائز نہیں ہوا ہے۔ (دیکھئے کشف الغطاء عن اعتبار الوقت لمحل الاداء، دارالعلوم شمارہ ذی الحجہ ۱۴۲۹ھ ص ۱۰۱)
اس سے معلوم ہوگیا کہ جہاں عبادت یعنی قربانی کی جارہی ہے وہیں کے وقت کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ اس شخص کے وقت کا جس کی طرف سے وہ قربت انجام دی جارہی ہے۔ اس کو اصول فقہاء نے یوں بیان کئے ہیں القربات الموقتة یعتبر وقتہا فی حق فاعلہا لا فی حق المفعول عنہ اسی کی ایک نوع ”المعتبر مکان الاضحیہ“ ہے۔ یہ بھی اصل کلی ہے اور حیلة المصری اذا اراد التعجیل الخ اسی پر متفرع ایک جزئی ہے۔
یہ اصول وکلیات جس طرح عام اور متفق علیہ ہیں اسی طرح اس کے مطابق امت کا عمل تسلسل کے ساتھ ۱۴/چودہ سوسال سے چلا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ شعبان ۱۴۲۰ھ میں مولانا مفتی عصمت اللہ صاحب زیدمجدہ دارالعلوم کراچی نے ایک جگہ کی قربانی دوسری جگہ کرنے پر ایک استفتاء کا جواب لکھا جس کا پہلا جملہ یہ ہے۔ ”الجواب حامدًا ومصلیاً قربانی کے نفس وجوب کا سبب وقت ہے جو کہ یوم النحر کے طلوع صبح صادق سے شروع ہوکر بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک ہے۔“ یعنی وقت خاص (ایام نحر) کو جوکہ وجوب ادا کا سبب ہے نفس وجوب کا سبب قرار دیا۔ یہاں سے نقطئہ اختلاف رونما ہوا اور نتیجہ تواتر اور تعامل کے خلاف برآمد ہوتا چلا گیا۔
(۲) مفتی اعظم گجرات مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمة الله عليه کا فتویٰ
فقیہہ النفس امیر شریعت گجرات مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمة الله عليه سے وفات سے کئی سال پہلے قمری تاریخ کے اختلاف کے نتیجہ میں ایک علاقہ کی قربانی دوسرے علاقے میں کرنے سے متعلق استفتاء کیاگیا اور حضرت مفتی صاحب رحمة الله عليه نے جواب مرحمت فرمایا۔ ملاحظہ ہو۔
* ذبح قربانی میں قربانی کا جانور جس جگہ ہو اس کا اعتبار ہوتاہے
سوال: (۲۵۲۳) بھائی عبدالرشید نے مدراس سے یہاں حیدرآباد میں قربانی کرنے کو لکھا ہے۔ وہاں عید پیر کو ہے اور یہاں اتوار کو۔ ان کی قربانی ہم یہاں اتوار کو کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یا پیر کو کرنا ہوگی؟ بینوا و توجروا۔
الجواب:
قربانی کا جانور جس جگہ ہو اس جگہ کا اعتبار ہوتاہے۔ قربانی کرانے والے کی جگہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔ چنانچہ اگر قربانی والا شہر میں ہو اور وہ اپنا قربانی کا جانور ایسے گاؤں میں بھیج دے جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی اور وہاں صبح صادق کے بعد اس کی قربانی کاجانور ذبح کردیا جائے تو اس شہر والے کی قربانی صحیح ہوجائے گی۔ ہدایہ آخرین میں ہے۔ والمعتبر فی ذلک مکان الاضحیہ حتی لو کانت فی السواد والمضحی فی المصر یجوز کما انشق الفجر ولو کان علی العکس لایجوز الا بعد الصلاة وحیلة المصری اذا اراد التعجیل ان یبعث بہا الی خارج المصر فیضحی بہا کما طلع الفجر الخ (ہدایہ آخرین ص ۴۳۰)
در مختار میں ہے۔ والمعتبر مکان الاضحیة لا مکان من علیہ فحیلة المصری اذا اراد التعجیل ان یخرجہا لخارج المصر فیضحی بہا اذا طلع الفجر (مجتبیٰ، درمختار)
قولہ ”والمعتبر مکان الاضحیہ“ الخ فلو کانت فی السواد والمضحی فی المصر جازت قبل الصلاة وفی العکس لم تجز. (قہستانی، درمختار وشامی ص۲۷۸/۵ کتاب الاضحیہ)
ذرا یہ بھی گوشہٴ خیال میں رکھئے۔
حضرت مفتی سیدعبدالرحیم صاحب رحمة الله عليه کے ”فتاویٰ رحیمیہ“ میں قربانی کے سلسلہ میں مذکورہ بالا فتویٰ نویں جلد میں مرقوم ہے یہ اور دوسرے فتاویٰ حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری مدظلہ العالی خلیفہ حضرت فقیہہ الامت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمة الله عليه وصدر مفتی جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کی غائر نظر ثانی اور محقق عصر حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم محشی امداد الفتاویٰ کی توجہ اور تصحیح کے مشکل ترین مرحلہ سے گذر کر صاحب فتاویٰ کی زندگی میں وفات سے کافی عرصہ قبل زیور طباعت سے آراستہ ہوکر مقبولِ خواص وعوام ہوگئے تھے۔
ان فتاویٰ کے بارے میں مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ کا یہ وقیع جملہ ذہن نشیں رہے ”مجھے اس بات کے اظہار میں ذرا بھی تامل نہیں ہے کہ فتاویٰ رحیمیہ کا ہر فتویٰ تسلی بخش اور پیاس بجھانے والا ہے۔“
قربانی کا مذکورہ فتویٰ اگر واقعتا فقہ واصول فقہ کے خلاف ہوتا (جیساکہ تسامح قرار دینے والوں کا خیال ہے) تو ترتیب ونظر ثانی وثالث کے وقت حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری مدظلہ العالی قطعاً اسے بغیر نقد کے نہ چھوڑتے اور حضرت مفتی سعید صاحب مدظلہ جیسے باریک بیں شخص سے ہرگز یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ خلافِ اصول فتویٰ کو بغیر اصلاح کے روا رکھیں۔ اس لئے یہ کہنے میں ذرا بھی تردد نہیں ہے کہ مفتی سید عبدالرحیم صاحب رحمة الله عليه کا فتویٰ متواتر اصول اور متوارث عمل کے بالکل مطابق ہے جیساکہ اب بھی اہل علم کے نزدیک یہی معلوم ومعہود ہے۔
(۳) ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کافتویٰ
شریعت محمدی جس کے عناصر اربعہ قرآن وحدیث اور اجماع وقیاس ہیں اس کے تحفظ کا نقطئہ فکر موجودہ دور میں برصغیر میں دارالعلوم دیوبند مانا جاتاہے۔ جس کا مزاج حدیث وفقہ اور احسان وکلام کے اخلاط اربعہ سے مرکب ہے۔ فقہ میں بالخصوص احناف کا ترجمان اور سلف وخلف کے طریق مستقیم اور تعامل کی راہِ معتدل پر قائم ہے۔
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے طرف سے ذی الحجہ ۱۴۲۵ھ کے آخر میں حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مدظلہ العالی نے قربانی کے اسی موضوع کے متعلق جو فتویٰ تحریر فرمایا ہے اور اس پر حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی مدظلہ وغیرہ نے دستخط فرمائے ہیں۔ وہ پیش خدمت ہے۔
تنبیہ: احقر نے ماہِ شعبان میں تعطیل سے پہلے براہِ راست حضرت مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مدظلہ سے دارالعلوم دیوبند میں ملاقات کی۔ خیریت ومزاج پُرسی کے بعد راقم نے عرض کیا کہ حضرت والا نے قربانی سے متعلق جو فتویٰ لکھا ہے وہ اصول کے بالکل مطابق اور صحیح ہے اور مفتی شبیر صاحب مراد آبادی کا فتویٰ اصول کے خلاف جارہا ہے اس لئے میں آپ کے فتویٰ کو شائع کرنا چاہتا ہوں۔ تو آپ نے بخوشی اجازت مرحمت فرمائی۔ فجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء.
السلام علیکم حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم
سوال: باہر ممالک سے قربانی کے لئے ہندوستان میں اپنے رشتہ دار اور اعزاء واقارب کے یہاں عید الاضحی کے موقع پر افریقہ، لندن، امریکہ، فرانس وغیرہ سے کاغذ اور فون کے ذریعہ کہتے ہیں کہ بکریوں یا سات حصہ والے جانوروں کی قربانی کرنا، تو اُن لوگوں کی طرف سے ہم لوگ یہاں جس دن عید الاضحی ہوتی ہے اس دن عید کی نماز کے بعد بکریوں یا سات حصہ والے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ دس، گیارہ، بارہ تین دن۔ تو شریعت کے اعتبار سے یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس کا تفصیلی جواب مع حوالہٴ کتب دیجئے۔
دوسرے ملک والے ہندوستان والوں کو قربانی کرنے کیلئے وکیل بناتے ہیں۔ تو اب قربانی کرنے میں وکیل کے ایام قربانی کا اعتبار ہوگا یا جن حضرات کی قربانی ہیں ان کے ایام قربانی کا اعتبار ہوگا۔
فقط والسلام۔ اسماعیل یوسف داؤد جی
۲۳/۱۲/۱۴۲۵ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب: ہو الموفق قربانی جہاں کی جاتی ہے اس کا اعتبار ہوتا ہے۔ لہٰذا ہندوستان میں قربانی ہوگی تو اسی ملک کی تاریخ ۱۰/۱۱/۱۲ ذی الحجہ کا اعتبار ہوگا۔ اور انہی تاریخوں میں قربانی کی جائے گی۔ افریقہ، لندن وغیرہ ملکوں کا اعتبار نہ ہوگا۔ واللہ اعلم
الجواب صحیح: حبیب الرحمن خیرآبادی محمد ظفیرالدین غفرلہ
مفتی، دارالعلوم دیوبند
جن اصول کے تحت امت کا تعامل چلا آرہا ہے اور کتب فقہ میں صراحتاً مذکور ہے اُسی اصل وضابطہ کو حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب کے سابق فتویٰ اور مفتی محمد ظفیرالدین صاحب کے لاحق جواب میں بطور دلیل ذکر کیاگیاہے۔ جس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ یہ دونوں فتاویٰ اصول فقہیہ وشرعیہ اور سلف وخلف کے صحیح موقف کے بالکل مطابق ہیں۔
(۴) مباحثِ فقہیہ کی پذیرائی
قربانی کے مسئلہ میں اختلاف ۱۴۲۵ھ کے اواخر میں جب بڑھ گیا اور بتوفیق الٰہی غور وفکر کے بعد تفتیش وتحقیق میں قدم رکھا گیا تو بفضلہ تعالیٰ امت کا چودہ سوسالہ تعامل بدر کی طرح روشن معلوم ہوا۔ مگر اختلاف کی وجہ سے متقدمین ومتاخرین کے موقف پر ایسا لطیف حجاب آگیا کہ مسئلہ کے تمام متعلقہ پہلوؤں سے تعرض کرنا ناگزیر ہوگیا تاکہ کوئی شق طلبِ تحقیق نہ رہ جائے اور اس تحقیقی مسافت کے دوران نقد وقدح کے جو نشیب و فراز سامنے آئے وہ راہ نوردی میں وقفہٴ استراحت بنتے گئے۔ بالآحر منزل مقصود پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق خاص سے پہنچادیا اور اب مسئلہ مبحوث عنہا کے مالہ وماعلیہ پر ایسی سیر حاصل بحث کردی گئی ہے کہ بلا ریب عرض کرتا ہوں کہ سلف اور خلف کا موقف صحیح کالشمس فی نصف النہار واضح ہوگیا۔ جسے اہل علم وبصیرت بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ بالخصوص یہ مضمون ،،وجوبِ اداء وقتِ معین کے ساتھ خاص ہے“ اور ”تعدّد وتکرار کی بحث“ اختلاف کا عقدہ حل کرنے میں عظیم باب ثابت ہوا ہے اور یہ محض اللہ کا فضل اور اساتذہ کرام کی عنایتیں ہیں۔ ورنہ میری استعداد کہاں کہ پہاڑ کھود کر جوئے شیرلاسکوں۔ فلیتذوق ومن لم یذق لم یدر.
البتہ الفاظ کا اختصار اور اس میں اعتبارات وحیثیات کی قیدوں کو بطور خاص ملحوظ رکھا گیا ہے اور پورے جزم اور حزم کے ساتھ کلام پیش کیاگیا ہے۔ ان مقالات کے نام درج ذیل ہیں۔ (۱) تحقیق الکلام فی بیان السبب لوجوب الاحکام (۲) رفع الارتیاب من سببیة الوقت للموقتات (۳) تمیز الطرقات لتحقق الشرائط للقربات (۴) نور السنٰی لمن یجب علیہ الاضحیة بالغِنٰی (۵) تعقب الفرید علی تخصیص الوجوب بصبح العید (۶) کشف الغطاء عن اعتبار الوقت لمحل الاداء. سہولت کے لئے بہتر ہے کہ پہلے نورالسنٰی پھر کشف الغطاء اور پھر بقیہ مقالات کا مطالعہ فرمائیں۔ ان تحقیقات کی قدر کرنے والے اور اس سے موافقت کرنے والے ہند و بیرون ہند میں بے شمار اہل علم ہیں اور زبانی تائید کرنے والے بھی کثیر ہیں۔ اور تحریر سے جنھوں نے حوصلہ افزائی فرمائی ہے، ان میں سے یہاں صرف چار شخصیتوں کی تصدیق پر اکتفاء کرتا ہوں۔
(الف) از حضرت مولانا محمد انیس خاں صاحب دامت برکاتہم
استاذِ حدیث وفقہ، مدرسہ مظاہر العلوم، سلیم، تامل ناڈو
مکرم ومحترم مفتی رشید احمد صاحب فریدی زیدت مکارمکم
السلام وعلیکم ورحمة وبرکاته
جامعہ علوم القرآن جمبوسر ضلع بھروچ صوبہ گجرات میں ماہِ رمضان المبارک کے اعتکاف کے وقت آپ نے ”قربانی“ سے متعلق ایک رسالہ پیش فرمایاتھا۔ پھر بذریعہ ڈاک ملحقہ تحریر ملی۔ دونوں کو من اولہ الی آخرہ مطالعہ کیا۔ الحمد للہ ہر بات مدلل، مبرہن پیش کی گئی ہے۔ تحقیق و تدقیق خوب فرمائی ہے۔ جس سے زیربحث مسئلہ ”مضحی اور مکان اضحیہ کے وقت کا متحد ہونا یوم النحر میں لازم نہیں ہے“ ثابت ہوجاتا ہے۔
ماشاء اللہ آں محترم نے اس سلسلے میں بڑی تحقیق وجستجو فرمائی ہے۔ یہ علمی سرمایہ ہے۔ مختلف کتب کے مضامین ومواد کو یکجا فرمادیا ہے۔ اب یہ مقالہ نہیں رہا مستقل رسالہ بن گیا۔ علمی حلقہ کیلئے قیمتی سرمایا ہے۔ جزاکم اللہ خیر الجزاء.
بندہ کی طرف سے آپ ممنون ومشکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے، طاقت دے، زور قلم میں اضافہ فرمائے۔
(۱) ”تعامل“ اصول فقہ میں نہایت ہی موثر اور جاندار دلیل ہے۔ اس سے صرف نظر کیسے کرلیاگیا تعجب ہے۔ (یعنی نئے موقف کے فتاویٰ میں۔ رشید)
(۲) ”ہدی“ فی ایام الحج نیز مسافر الی الحج کے ساتھ قربانی کرنے کے لئے رقم بھیجنا ابتدائے اسلام سے چلا آرہا ہے۔ آج تک کی ہدی اور قربانی جو اس طرح کی گئی ہے اس کا ”مضحی“ کے مکان وقیام گاہ سے وقت کے موافقت نہ ہونے کی صورت میں ضائع ہوجانا یا واجب کا اداء نہ ہونا لازم آتا ہے جو بالکل غیر مناسب بات ہے۔
(۳) ”بعد ادائے صلاة عید کی شرط“ (کی وجہ سے المعتبر مکان الاضحیہ کی شرط) کو جزوی شرط قرار دینا بلا دلیل وبرہان کی بات ہے۔ حالانکہ اس کے ساتھ یہ جزئیہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے تھا کہ مصر میں بدوی کا جانور قبل الصلوٰة ذبح کردیاگیا تو واجب ادا نہیں ہوتا اور قریہ میں مصری کا جانور قبل الصلاة فی المصر ذبح کردیا تو واجب ادا ہوجاتا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ ”المعتبر مکان الذبیحة لامکان المضحی“
فقط محمد انیس ۱۴/۱۲/۱۴۲۶ھ ۱۵/۱/۲۰۰۶ء
(ب) از ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ حضرت مولانا ابراہیم صاحب پٹنی مدظلہ العالی
سابق استاذ حدیث و تفسیر جامعہ اسلامیہ، ڈابھیل وخلیفہ حضرت فقیہ الامت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
از بندہ محمد ابراہیم پٹنی عفی عنہ
بخدمت گرامی مولانا مفتی رشید احمد صاحب فریدی زیدمجدہم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
آپ کا تحقیقی مقالہ پہنچا۔ اچھا ہوا کہ اس کو مرتب اور مزید مبرہن کردیا۔ چونکہ نفس وجوب، وجوب اداء اور ان کے مابین فصل، نیز سبب، علّت اور شرط اور ان کے مابین فرق، پھر ان میں سے انعقادِ حکم میں موٴثر یامانع کون ہے؟ وغیرہ مباحث اصولی اور دقیق بھی ہیں، آپ نے ان کو کافی حد تک سہل کردیا ہے اور نفس مسئلہ ”المعتبر مکان الاضحیہ“ بے غبار کردیا ہے۔
اور اخیر میں خلاصہ الکلام بھی تحریر فرمایا ہے۔ فجزاکم اللہ خیرا۔ حق تعالیٰ شانہ اس کو مفید سے مفید تر بنائے اور اس نوع کی مزید خدمات سے نوازے جو امت کیلئے باعث سہولت ونشاطِ عمل ہو۔ شرح المواقف اور البحرالمحیط فی اصول الفقہ للامام بدرالدین الزرکشی المتوفی ۷۹۲ھ ج۳ بحث المفہوم بھی دیکھ لیتے تو اچھاہوتا۔
محمد ابراہیم پٹنی عفی عنہ
۱۲/ذی قعدہ ۱۴۲۸ھ بھٹئی
(ج) از حضرت مفتی محمد فاروق صاحب مدظلہ العالی
جامع ومرتب فتاویٰ محمودیہ، بانی و شیخ الحدیث جامعہ محمودیہ، نوگزہ پیر، میرٹھ
حامداً ومصلیاً امابعد محترمی ومحبی مولانا مفتی رشید احمد فریدی زیدمجدہم کا رسالہ ”ذبح اضحیہ کیلئے مکان اضحیہ کا اعتبار ہے“ سے متعلق دیکھنے کی سعادت میسر آئی۔ مسرت ہوئی۔ الحمدللہ موصوف نے بڑی محنت فرمائی ہے۔ بندہ کو موصوف کی رائے اور تحقیق سے اتفاق ہے۔ زمانہ قدیم سے اسی پر تعامل بھی چلا آرہا ہے۔ اسی میں آسانی اور سہولت بھی ہے۔
حق تعالیٰ شانہ موصوف کی محنت کو قبول فرمائے، ترقیات سے نوازے اور اس نوع کے علمی کاموں کی مزید توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ فقط
محمد فاروق غفرلہ
۱۶/۹/۱۴۲۹ھ
خادم جامعہ محمودیہ، علی پور، ہاپوڑ روڈ، میرٹھ، یوپی
(د) از جامع المعقول والمنقول حضرت مفتی یوسف صاحب تاولوی دامت برکاتہم
استاذ حدیث وفقہ دارالعلوم دیوبند
مکرم ومحترم جناب مولانا مفتی رشید احمد صاحب زید معالیکم
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
آپ کا تحقیقی علمی مقالہ مع مکتوب گرامی موصول ہوا۔ فجزاکم اللہ خیر الجزاء۔ اس باب میں اصول و فروع مکانِ تضحیہ کے اعتبارکے موٴید ہیں۔ آپ نے اس باب میں کافی وافی مواد جمع فرمادیا ہے۔ گو بعض مباحث غیرضروری بھی آگئے ہیں۔مگر ایسے مواقع میں یہ طریق اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ حق تعالیٰ آپ کی محنت کو مثمرِ خیر بنائے۔ آمین۔
والسلام
محمد یوسف
خادم تدریس دارالعلوم دیوبند ۲۷/۷/۱۴۳۰ھ
(۵) وقت معین کے ساتھ وجوب اداء مختص ہے نہ کہ وجوب فی الذمہ
وجوبِ اداء یعنی مامور بہ کی ادائیگی کا مطالبہ خطابِ اِلٰہی سے اور خطاب وقت معین میں ہوتا ہے اس سے قبل نہیں یہ فقہ کا مسلّمہ اصول ہے۔
(۱) ان وجوب الاحکام متعلق باسبابہا وانما یتعلق بالخطاب وجوب الاداء (اصول بزدوی)
(۲) الثانی وجوب الاداء وہو اسقاط ما فی الذمة وتفریغہا من الواجب وانہ ثبت بالخطاب. (بدائع)
(۳) فسبب وجوب الصلوة الوقت بدلیل ان الخطاب باداء الصلاة لایتوجہ قبل دخول الوقت وانما یتوجہ بعد دخول الوقت والخطاب مثبت لوجوب الاداء ومعرف للعبد سبب الوجوب قبلہ (اصول الشاشی)
(۴) ووجہ ما تقرر فی علم الاصول من ان وجوب الاداء فی الموقتات التی یفضل الوقت عن ادائہا کالصلاة ونحوہا انما یثبت آخر الوقت اذہنا یتوجہ الخطاب حقیقةً (تکملہ فتح القدیر)
(۵) وسببہا الاصلی خطاب اللّٰہ تعالیٰ ای سبب وجوب ادائہا. (مراقی)
(۶) واسبابہا اوقاتہا وتجب ای یفترض فعلہا باول الوقت وجوباً موسعاً فلا حرج حتی یضیق عن الاداء ویتوجہ الخطاب حتماً (مراقی الفلاح)
(۷) ویخرج (ای لصلوة الجمعہ) حین تزول الشمس لان الخطاب یتوجہ بعدہ. (ہدایہ اول)
(۸) و سبب لزوم ادائہا ہذا ہو السبب الحقیقی توجہ الخطاب ای الخطاب المتوجہ الی المکلفین بالامر بالاداء (شامی)
(۹) واما وجوب الاداء الموقوف علی مطالبة الشارع فہو یتحقق بعد حولان الحول. (عمدة الرعایہ)
(۱۰) تجب علی حر مسلم مالک النصاب او قیمتہ و ان لم یحل علیہ الحول عن طلوع فجر یوم الفطر قولہ عند طلوع بیان لوقت وجوب الاداء (نورالایضاح مع حاشیہ)
(۱۱) وقد یجامع الشرط السبب مع اختلاف النسبة کوقت الصلاة فانہ شرط بالنسبة الی الاداء وسبب بالنسبة الی وجوب الاداء (تقریر وتحبیر)
(۱۲) …. ان الوجوب عند الاداء او فی آخر الوقت فاذا مات قبل الاداء مات قبل ان تجب علیہ کمن مات فی وقت الصلاة قبل ان یصلیہا انہ مات ولا صلوة علیہ (بدائع)
مذکورہ اصولی وفقہی عبارات سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وجوب اداء وقتِ معین کے ساتھ خاص ہے کیونکہ اداء کے وجوب کا ثبوت خطاب سے اور خطاب وقت سے قبل نہیں ہوتا۔ پس لامحالہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وقتِ معین کی آمد سے ثابت ہونے والا وجوب وہ وجوب الاداء ہے جو اداء یعنی مامور بہ کی ادائیگی سے متصل ہوا کرتا ہے نہ کہ وہ وجوب جو اداء سے منفصل اور وجوبِ اداء سے بھی مقدم ہوا کرتا ہے جسے اصلِ وجوب یا نفس وجوب اور اہلیت وجوب بھی کہتے ہیں۔
نیز انتقال سببیت والی دلیل جیسا کہ راقم نے اپنے پہلے مقالہ میں پیش کی ہے الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ تقریباً تمام کتب اصول اورامہات کتب فقہ میں موجود ہے وہ بالکل صاف اور صریح ہے کہ سبب کا انتقال وجوبِ اداء سے متعلق ہے۔ اس کے باوجود اگر وقت خاص کو نفس وجوب یعنی ذمہ کے مشغول بالواجب ہونے کے لئے اساس وعلّت قرار دیتے ہیں تو اس کا نتیجہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے وقتِ خاص کے گذر جانے کے بعد اداء تو کیا قضاء کا مسئلہ بھی باقی نہ رہے گا کیونکہ ما یثبت بہ الشیء کے عدم سے شئی کا نہ ہونا ظاہر ہے۔
(۱) پس وقتِ خاص کے گذرجانے سے نفس وجوب زائل ہوجائے گا۔
(الف) جیسے اسلام پر نفس وجوب موقوف ہے کوئی شخص نعوذ باللہ اگر مرتد ہوجائے گا تو نفس وجوب ہی ختم ہوجاتاہے۔
(ب) اور جیسے عقل پر نفس وجوب موقوف ہے لیکن اگر کسی کو جنون مطبق لاحق ہوگیا تو نفس وجوب باقی نہیں رہتا ہے۔ عبادات کی اداء بلکہ قضاء کا بھی مطالبہ نہیں رہ جاتا ہے۔ (مذکورہ دونوں امر شرط وجوب ہیں)
(ج) اور جیسے ملک نصاب پر زکوٰة کا نفس وجوب موقوف ہے۔ نصاب نامی فاضل عن حوائجہ الاصلیہ کا مالک بننے کے بعد حولان حول سے پہلے یا بعد میں بہرحال ادائے زکوٰة سے پہلے اگر وہ فقیر وکنگال ہوگیا تو سرے سے نفس وجوب ہی رخصت ہوجاتا ہے۔
(۲) صدقہ الفطر کے لئے وقت خاص یعنی طلوع صبح یوم الفطر شرط ہے وجوب اداء کی نہ کہ نفس وجوب کی۔ پس اگر وقت خاص کو نفس وجوب میں موثر مانیں تو لازم آئے گا کہ مالک نصاب ہونے کے باوجود طلوع فجر یوم الفطر سے پہلے صدقہ ادا کرنا صحیح نہ ہو۔ اور جب باتفاق احناف اور ظاہر الروایت کے مطابق صبح صادق سے قبل صدقہ الفطر اداکرنا صحیح ہے تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ وقت خاص کو نفس وجوب میں قطعاً دخل نہیں ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ صدقہ الفطر کا نفس وجوب رأس یمونہ ویلی علیہ کی وجہ سے ہے جس کو سبب وجوب کہا گیا ہے تویہ بھی صحیح نہیں ہے۔ ورنہ بغیر غنائے شرعی کے یوم العید سے پہلے واجب صدقہ اداء ہوجانا چاہیے اس لئے کہ وقت سے نفس وجوب کے قائلین نے غنا کو نفس وجوب کی شرط نہیں مانا ہے اور وجوب اداء کی شرط سے پہلے اداء جائز ہے جیسے حولان حول سے پہلے زکوٰة ادا کرنا۔ پس معلوم ہوا کہ رأس یمونہ کو سبب وجوب قرار دینا وجوب اداء کے تعدد و عدم تعدد کی معرفت کیلئے ہے۔
(۳) قربانی کے وقت خاص (از طلوع فجر یوم النحر تا غروب ثانی عشر) کو سبب وجوب کہا گیا ہے۔ راقم السطور نے پوری تحقیق و تدقیق سے فقہی واصولی صریح عبارتوں سے دکھادیا ہے کہ ایام نحر سبب وجوب اداء ہے۔ مگر جدید موقف کے قائلین دوسرے حقائق اورنتائج سے قطع نظر کرتے ہوئے وجوب اداء کے مقابل نفس وجوب (اصطلاحی) مراد لیتے ہیں۔
لہٰذا ایام نحر کی آمد پر ہی نفس وجوب (یعنی ذمہ مشغول بالواجب) ہوتا ہے تو…..
(الف) اگر فقیر (غیرمالک نصاب) نے ابتدائے یوم النحر میں قربانی کی اور ختم ایام سے پہلے غنی ہوگیا تو دوبارہ اس پر قربانی کرنا واجب الاعادہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بقول آپ کے قربانی نفس وجوب کے بعد وقت اداء میں کی گئی ہے۔ حالانکہ بالاتفاق وقت وجوب کے ختم سے پہلے غنا کا اگر تحقق ہوگیا تو قربانی واجب ہوگی اور پہلے والی قربانی بہرحال نفل کہلائے گی۔ اس صورت میں اگر آپ کہیں کہ شرطِ وجوب (غنا) نہیں پائی گئی اس لئے واجب اداء نہیں ہوئی تو میں کہوں گا کہ (آپ نے غنا کو محض شرطِ وجوبِ اداء کی حیثیت دی ہے اس لئے اداء مالی عبادت میں وقت وجوبِ اداء سے پہلے جائز ہے۔ جیسے زکوة حولان حول سے قبل اور صدقہ الفطر صبح یوم الفطر سے پہلے اداکرنا احناف کے نزدیک درست ہے اور یہاں فقیر کی قربانی وقت وجوبِ ادا میں ہوئی ہے۔ البتہ اداء شرطِ نفس وجوب اور شرط صحت اداء سے مقدم نہیں ہوسکتی)
(ب) اور اگر غنا کے تحقق کے بعد ذمہ مشغول بالواجب ہورہا ہے جیساکہ اوپر والے مسئلہ سے بخوبی ظاہر ہے تو بالیقین معلوم ہوا کہ وقت خاص کے دخول سے ذمہ مشغول بالواجب نہیں ہوا۔
(ج) اور اگر وقت خاص کو مع شرط غنا کے نفس وجوب کا سبب کہا جائے جیساکہ جدید موقف کا لازمی تقاضہ ہے تو پھرشرائط وجوب کا ابتدائے وقت سے ہونا ضروری ٹھہرے گا حالانکہ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ شرائط وجوب کا ابتدائے وقت سے ہونا لازم نہیں ہے۔ وقت اخیر میں ہونا معتبر ہے۔
(د) اور اگرمان لیں کہ مالدار (شرعاً غنی) پر صبح یوم النحر کی آمد سے نفس وجوب ہوگیا اب واجب قربانی صحیح ہے چاہے خود کرے یا اس کا نائب جیسا کہ کراچی کے فتویٰ میں موجود ہے تو میں عرض کروں گا:
اگر من علیہ الاضحیہ نے قربانی کرنے میں تاخیر کی یہاں تک کہ ایام نحر گذرنے سے پہلے وہ فقیر ہوگیا تو دخولِ وقت سے نفس وجوب ماننے کا مقتضاء یہ ہے کہ پھر بھی واجب قربانی ادا ہوجانی چاہیے حالانکہ بالاتفاق قربانی کا وجوب ہی ساقط ہوجائے گا کیونکہ ملک نصاب (غنا) قربانی کے وجوب میں شرط محض نہیں ہے جس کا وقت وجوب میں (صدقہ الفطر کی طرح) صرف پایا جانا کافی ہے بعد میں چاہے وہ شرط نہ رہے بلکہ زکوٰة کی طرح یہ شرط فی معنی العلة ہے جس کا ادا تک باقی رہنا وقت اداء میں ضروری ہے۔ وہذہ لانہا تشبہ الزکوة من حیث انہا تسقط بہلاک المال قبل مضی ایام النحر کالزکوة بہلاک النصاب. (ہدایہ ص ۴۴۶ کتاب الاضحیہ)
… لانہا تسقط بالہلاک قبل مضی ایام النحر کالزکوة تسقط بہلاک النصاب (ای مطلقاً) (فتح العنایہ شرح نقایہ ص ۲۶۹/۲) ودیگر کتب فقہ
(ھ) مزید براں اگر نفس وجوب وقت (خاص) سے اور وجوب اداء غنا وغیرہ سے مانیں جیساکہ خیال کیاگیا ہے اور وقت (ایام نحر) شرط اداء تو ہے ہی تو لازم آئے گا کہ شرطِ اداء نفس وجوب کے ساتھ مجتمع ہوحالانکہ شرطِ اداء کا اجتماع سبب وجوب اداء کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے یہی وجوب متصل بالاداء ہوتا ہے۔ وقد یجامع الشرطُ السبب. مع اختلاف النسبة کوقت الصلاة فانہ شرط بالنسبة الی الاداء وسبب بالنسبة الی وجوب الاداء کیونکہ وجوبِ اداء میں وجوب متصل بالاداء ہوتا ہے نفس وجوب اداء سے منفک ومقدم ہوتا ہے۔
(۴) وقت خاص للعبادات ہی کو اگر نفس وجوب (ذمہ کے مشغول بالواجب ہونے) کا ذریعہ مانا جائے تو اس سے شرعی وفقہی مسلمہ اور اصل الاصول کی مخالفت ہوگی وہ ہے القربات الموقتة یعتبر وقتہا فی حق فاعلہا لا فی حق المفعول عنہ اور یہ متفق علیہ ضابطہ ہے۔ چنانچہ حج عن الغیر میں دیکھئے ارکان وواجبات کی ادائیگی میں وقت کی رعایت فاعل یعنی حاج عن الغیر کے حق میں ضروری ہے نہ کہ محجوج عنہ کے اعتبار سے اور حج عن الغیر کا سلسلہ حضور صلى الله عليه وسلم کے زمانہ سے جاری وساری ہے۔ ہر سال ایک معتد بہ مقدار اُن حاجیوں کی بھی ہوتی ہے جو کسی صاحب استطاعت معذور کی طرف سے حج فرض اداء کرنے کیلئے بھیجے جاتے ہیں۔ وقوفِ عرفہ (مع دیگر فرائض حج کی ادائیگی) کے لئے وقت کا لحاظ حجاج کے حق میں ہے۔ حالانکہ جن کی طرف سے حج بدل کیاجارہا ہے ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو دنیا کے مختلف ایسے خطوں میں ہوتے ہیں جہاں یاتو یوم عرفہ نہیں ہے یا وقت وقوف عرفہ نہیں ہوا ہے یا پھر وقوف کا اصل وقت گذرچکا ہے۔
کیونکہ ذمہ کا مشغول بالحج ہونا استطاعت پر موقوف ہے اور استطاعت سے محجوج عنہ متصف ہے لہٰذا نفس وجوب قائم ہے۔ رہا بیت اللہ کو سبب وجوب قرار دینا سو یہ وجوبِ اداء کے توحد وعدم تکرار کی معرفت کے لئے مقرر کیاگیا ہے جو کہ سبب ظاہر ہے وانما اشکل علی الاقرع بن حابس لانہ من الجائز ان یکون سبب الحج ما یتکرر وہو وقتہ کالصوم والصلاة ومن الجائز ان یکون سببہ مالا یتکرر وہو البیت فبیّن صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان السبب ہو البیت فلہذا سأل لالکون الامر محتملاً للتکرار. (البحرالعمیق فی مناسک المعتمر والحاج الی بیت اللہ العتیق، ج۱،ص۳۵۷) اور وقت یعنی ایام حج فقط شرطِ اداء ہے۔
اسی اصل الاصول کی ایک فرع المعتبر مکان الاضحیہ ہے اور یہ بھی اصل کلی ہے جس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے یعنی وقت کا اعتبار فاعل یعنی ذابح کے حق میں ہوگا نہ کہ مذبوح عنہ (یعنی من علیہ الاضحیہ یا من منہُ الاضحیہ) کے حق میں لان الذبح ہو القربة فیعتبر مکان فعلہا لامکان المفعول عنہ (بدائع) اور اسی کلی پر متفرع وہ جزئی ہے جو حیلة المصری الخ کے عنوان سے کتب فقہ میں درج ہے اوریہ بھی مسلم اورمعمول بہ ہے۔ اس میں بھی احناف کا اختلاف نہیں ہے۔ ان اصول وقواعد کا تعلق اداء یعنی قربت کی انجام دہی سے ہے خواہ قربت (قربانی) واجب ہو کہ نفل۔ رہا قربانی کا واجب ہونا سو یہ اپنی جگہ بیان کیاگیا کہ وجوب اضحیہ کی علت غناء ہے۔
اب اگر وقت خاص ہی کو ذمہ کے مشغول بالواجب ہونے کا سبب مانیں کما زعموا تو ان کلیات ومسلّمات کا عموم ہی باطل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا دخول وقت سے نفس وجوب کے تحقق کا موقف شرعاً وفقہاً غلط ہے۔
(بقیہ آئندہ)
* * *
——————————
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 94 رمضان – ذيقعده 1431 ھ مطابق ستمبر – اكتوبر 2010 ء