از: ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی، شعبہٴ سنی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذرائع علم کیا تھے ؟خاص طور پرمغرب کے نزدیک یہ مسئلہ ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ اگروحی کوذریعہ ابلاغ تسلیم کرلیاجائے توسارامسئلہ ہی ختم ہوجاتاہے ۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ محمد کونبی تسلیم نہیں کرنا ہے ،اس لیے وحی کے ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بڑی مشکل سے انہیں بشریت کامقام دیاگیاتوعیسائی کلیساکارکن سمجھاگیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ نبی کے معلّمین کارکنان کلیساتھے ۔ اتفاق سے شام کے تجارتی اسفارکاواقعہ مستشرقین کی نظرسے گزرا،توپھران کے لیے راہبوں کومعلم ثابت کرنے میں کوئی کلام نہیں رہ گیا۔ لیکن دقت یہ تھی کہ مختصروقت کی ملاقات تعلیم وتعلم کے لیے کافی نہیں۔ لہٰذااس قسم کے معلّمین کوعرب میں تلاش کیاگیا۔ مستشرقین کی نظرورقہ بن نوفل پرپڑی۔ بڑے وثوق سے کہاگیاکہ یہی آپ کی تعلیم پرمامور ہوئے ۔ ان لوگوں نے معلّمین کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی تو یہ بھی کہاکہ زیدبن حارثہ رضى الله تعالى عنه چوں کہ ہروقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور ان کا تعلق عیسائیت سے تھا ، اس لیے مذہب کی تشکیل وتفہیم میں ان سے مدد لی ہوگی ۔ یہ بھی کہا گیاکہ حضرت بلال حبشی رضى الله تعالى عنه اورماریہ قبطیہ رضى الله تعالى عنها کاتعلق بھی عیسائیت سے تھا،کوئی بعید نہیں کہ ان لوگوں سے بھی آپ نے عیسائیت سے واقفیت حاصل کی ہوگی۔ ان سارے لوگوں کامعلّمین ہونامستشرقین نے ناکافی سمجھاتوان اہل کتاب عالموں کوبھی اس فہرست میں شامل کردیا،جومکہ کے قرب وجوارمیں رہتے تھے۔ بیش تر مستشرقین مثلا:سرولیم میور،بلاشیر،ڈریپر،باڈلے،فلیپ ایر لنگی اور گولڈ زیہر وغیرہ نے اسی بات پر زور دیا ہے۔ ’ڈریپر‘لکھتا ہے:
”بحیراراہب نے بصری کی خانقاہ میں محمدکونسطوری عقائد کی تعلیم دی ….آپ کے ناتربیت یافتہ اخَّاذ دماغ نے نہ صرف اپنے اتالیق کے مذہبی بلکہ فلسفیانہ خیالات کاگہرااثرقبول کیا … بعدمیںآ پ کے طرزعمل سے اس امرکی شہادت ملتی ہے کہ نسطوریوں(عیسائیوں کے ایک فرقہ کانام ہے) کے مذہبی عقائد نے آپ پر کہاں تک قابولیا تھا۔ “(۱)
’فلیپ ایرلنگی‘ اپنے ایک مضمون میں متضاد اور ناقابل تسلیم رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتاہے :
”محمد کی مکہ میں اکثریہودیوں سے ملاقات ہوتی رہتی تھیں… محمداپنے خادم زیدسے جوعیسائیوں کاغلام رہ چکاتھا یہودیوں اورمسیحی مذاہب کے بارے میں استفادہ کی غرض سے سوالات کیاکرتے تھے وہ اپنے خادم سے زیادہ سمجھ دار تھے… مدینہ میں محمدیہودیوں کے شاگردرہے ، یہودیوں ہی نے آپ کی شخصیت سازی کی تھی یہودیوں اور مسیحیوں میں جو داستانیں مشہور تھیں جبرئیل ان سب کومحمدکے سامنے بیان کردیاکرتے تھے۔ “(۲)
مکہ کے ماحول میں تعلیم کاحصول ممکن نہ تھا
قریش مکہ کو اپنی زبان دانی پر ضرورناز تھا۔ مگران کے اندرنوشت وخواندسے دل چسپی نہیں تھی۔ یہ صورت اس وقت تک برقراررہی جب تک کہ محمد صلى الله عليه وسلم نے نبوت سے سرفرازکیے جانے کے بعدان لوگوں کے اندرپڑھنے لکھنے کا داعیہ نہ پیداکردیا۔ حضورصلى الله عليه وسلم کے ابتدائی حالات سے بھی پتا چلتاہے کہ آپ کی پرورش جس ماحول اورمعاشرہ میں ہوئی اس میں حصول علم کے ذرائع اورمواقع مفقود تھے ۔ خاص کراس بچہ کے لیے جس کے سرسے والدین کاسایہ اٹھ چکاہو،علم حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ ابوطالب کوئی اتنے بڑے مال دار اورفارغ البال بھی نہ تھے کہ اپنے بچوں سے توجہ ہٹاکرصرف حضورصلى الله عليه وسلم کی تعلیم پرتوجہ دیتے ۔ اس لیے یہ بات سرے سے بے بنیاد ہے کہ آپ نے حصول علم کے لیے معلّمین کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیاتھا،جس کے اثرا ت نبوت کے بعدظاہرہوئے ،یااس سے قبل آپ صلى الله عليه وسلم نے جس سنجیدگی اورفرزانگی کا مظا ہرہ کیاوہ اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا ۔ بلکہ آپ کاطریقہ زندگی ٹھیک اسی نہج پرپروان چڑھا جس طرح حضرت ابراہیم عليه السلام کی زندگی۔ وہ کم عمری میں بتوں کے مخالف ہوگئے اورجستجوئے حق میں سرگرداں رہتے۔ (الانبیاء: ۵۱-۵۲)
حضورصلى الله عليه وسلم کی امیت کے دلائل
یہ بات تو طے ہے کہ آپ امی تھے ۔ قرآن نے باربارآپ کواسی لقب سے یادکیا اور متعارف کرایاہے ۔ چنانچہ کفارومشرکین کے شکوک وشبہات کا ازالہ اور ان کے اعتراضات کاجواب دیتے ہوئے قرآن میں فرمایا گیاہے :
”فَاَمِنُوْابِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیّ ِالْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُوٴْمِنُ بِاللّہِ وَکَلِمٰتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْن۔ “ (الاعراف :۱۵۸)
(پس ایمان لاؤاللہ پراوراس کے بھیجے ہوئے نبی امی پرجواللہ اوراس کے ارشادات کومانتاہے اورپیروی اختیارکرواس کی ، امیدکہ تم راہ راست پالوگے۔ )
ایک اور مقام پر حضورصلى الله عليه وسلم کو امی محض کے طور پر تعارف کراتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
”وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ.“ (العنکبوت:۴۸)
(اے نبی) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے،اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑجاتے۔ )
نبی امی کی پیروی کرنے کی تائیدکرتے ہوئے فرمایاگیاہے :
”وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا إِنْ ہَذَا إِلَّا إِفْکٌ افْتَرَاہُ وَأَعَانَہُ عَلَیْْہِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاؤُوا ظُلْماً وَزُوراً. وَقَالُوا أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَی عَلَیْْہِ بُکْرَةً وَأَصِیْلاً. قُلْ أَنزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّہُ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً.“ (الفرقان:۴-۶)
(جن لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکارکردیاہے ،وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیزہے جسے اس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے۔ ان منکرین نے خلاف واقع من گھڑت بات کہی اورکہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں۔ جنہیں یہ شخص نقل کرلیتاہے اوروہی صبح وشام اس کے پاس لکھی جاتی ہیں۔ اے نبیان سے کہوکہ اسے نازل کیاہے اس نے جوزمین اورآسمانوں کابھیدجانتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑاغفورورحیم ہے ۔ )
چالیس سال کی عمرمیں غارحراکے اندرجبرئیل امین وحی لے کرآئے اورآپ سے کہاکہ اے محمدپڑھیے۔ آپ بار باریہی کہتے رہے کہ میں پڑھاہوا نہیں ہوں ۔ فرشتہ وحی نے جب آپ کوسینہ سے لگاکربھینچاتوآپ پڑھنے لگے ۔ (۳) یہ اوربعض دوسرے واقعات سے یہ بات مزیدواضح ہوجاتی ہے کہ آپ پڑھنے لکھنے سے واقف نہ تھے ۔ نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد تبلیغ دین کے لیے آپ نے بہت سے حکم رانوں کے نام خطوط اورفرامین لکھواکربھیجے ۔ اگرآپ نوشت وخواندسے واقف ہوتے توایساکرنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پرکفارکے قابل اعتراض لفظ کومٹاکرمحمدبن عبداللہ لکھنے کوحضورنے حضرت علی سے کہا۔ انہوں نے احترام نبوی کا لحاظ کرتے ہوئے جواب دیا یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ اس پرحضورنے علی سے فرمایابتاؤوہ لفظ کہاں ہے ۔ حضرت علی نے انگلی رکھ کربتادیا ۔ حضورنے اپنے ہاتھ سے اسے مٹایااوراس کی جگہ محمدبن عبداللہ لکھوا دیا۔ (۴)برسوں علمی ماحول میں رہنے کی وجہ سے بعض لوگ کم ازکم اپنے نام کااملاکرہی لیتے ہیں۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں اورنہ اس سے پڑھے لکھے ہونے پراستدلال نہیں کیاجاسکتاہے ۔ بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ تک آپ کے اندر لکھنے پڑھنے کی شد بد پیدا ہوگئی تھی۔ مگر یہ تمام روایتیں موضوع اور کم زور ہیں۔ (۵)
کفار مکہ نے راہبوں سے علمی استفادہ کاالزام نہیں لگایا
بتوں کی مذمت اورعقائدواعمال کے مفاسد کی باتیں سنناکفار ومشرکین کے نزدیک دل شکن بات توتھی، مگران کے لیے زیادہ اچنبھے والی بات یہ تھی کہ سابقہ انبیاء اوران کے پیروکاروں کی اطلاع آخر نبی کو کہاں سے مل رہی ہے ۔ وہ توپڑھے لکھے نہیں ہیں کہ سابقہ کتابوں سے معلومات اخذکرسکیں۔ ہونہ ہویہ فلاں فلاں عجمی غلاموں سے جنہیں آسمانی کتابوں کا علم ہے ، معلومات حاصل کرتے ہوں۔ ان کے نزدیک معلومات کے ذرائع ان کے علاوہ شام کے راہب ہوتے تووہ ضروراس کی تشہیر کرتے اور کہتے یہ باتیں انہیں سے سیکھی تھیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی کے ہم عصردشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہاکہ تم بچپن میں بحیراراہب سے جب ملے تھے ،اس وقت یہ سارے مضامین ان سے سیکھ لیے تھے اورنہ یہ کہاکہ جوانی میں جب تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہرجایاکرتے تھے ،اس زمانے میں تم نے عیسائی اوریہودی علماسے یہ معلومات حاصل کی تھیں۔ یہ سفراکیلے نہیں قافلے کے ساتھ ہوئے تھے اوروہ جانتے تھے کہ ان میں کسی سے کچھ سیکھ کرآنے کاالزام لگائیں گے تو اپنے ہی شہر والے جھٹلائیں گے ۔ اس کے علاوہ مکے کا ہر عام آدمی پوچھے گاکہ اگریہ معلومات اس شخص کوبارہ تیرہ برس کی عمرہی میں بحیراسے حاصل ہوگئی تھیں توآخریہ شخص کہیں باہرتو نہیں رہتاتھا،ہمارے ہی درمیان رہتا،بستاتھا۔ کیاوجہ ہے کہ چالیس برس کی عمرتک اس کایہ ساراعلم چھپارہااورکبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسانہ نکلاجواس کے علم ودانش کی غمازی کرتا؟(۶)
علامہ سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آں حضرت کی پیغمبرانہ زندگی پورے ۲۳/برس تک قائم رہی ،اگرآں حضرت صلى الله عليه وسلم کسی انسانی معلم سے فیض پاتے رہتے تو ضرور تھاکہ وہ اس پورے زمانہ تک یابڑی حدتک خلوت وجلوت میںآ پ کے ساتھ رہتاکہ وقت ضرورت (نعوذباللہ )آپ اس سے قرآن بنواتے ،احکام ومواعظ سیکھتے، اسرارونکات معلوم کرتے اوریہ شخص یقینا مسلمان نہ ہوتا،کیوں کہ جوشخص خودمدعی نبوت کوتعلیم دے رہاہو،وہ کیوں کراس کی نبوت کوتسلیم کرسکتاتھااورپھراس شہرت عام، ذکرجمیل، رفعت مقام کو دیکھ کرجومدعی نبوت کوحاصل ہورہی تھی ،وہ خودپردہ کے پیچھے گم نامی پسندکرتااورصحابہ کرام کی نگاہوں سے اس کا وجودہمیشہ مستور رہتا،جس عجمی کی نسبت قریش کوشبہ تھا،اگرحقیقت میں آپ اس سے تعلیم حاصل کیا کرتے توقریش جوآپ کی تکذیب ،تذلیل اورآپ کوخاموش کرنے کی تدبیرپرعمل پیراہورہے تھے ،ان کے لیے آسان تھاکہ اس غلام عجمی کوالگ کردیتے کہ محمدرسول اللہ کا وحی اورقرآن کاتمام کاروباردفعتاًدرہم برہم ہوجاتا، علاوہ ازیں زیادہ سے زیادہ اس کاوجودمکہ میں تھا،پھرمدینہ میں۱۳/برس تک سینہٴ نبوت سے فیضان الٰہی کاسرچشمہ کیوں کر ابلتا رہا،قر آن شریعت اسلام اوراحکام کابڑاحصہ یہیں وحی ہواہے ،مکہ میں تونسبتابہت کم سورتیں نازل ہوئیں۔ “(۷)
شام کے تجارتی سفر کا تفصیلی پس منظر
حضور کے تجارتی سفرجو بچپن میں ہوئے اس کی تفصیل جامع الترمذی میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں:
” ابوطالب رؤسائے قریش کے ہمراہ (ملک )شام کی طرف (تجارت کے لیے) چلے ۔ آپ کے ہمراہ رسول اللہ بھی اس سفرمیں تھے ۔ جب (بحیرا) راہب کے مکان( یاصومعہ)کے قریب پہنچے توابوطالب اترے اورلوگوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ پادری(راہب )ان کے پاس آیا،اس سے پہلے بھی یہ لوگ یہاں سے گذراکرتے تھے ،مگر راہب ان کے پاس نہ آتاتھابلکہ التفات بھی نہ کرتاتھا۔ (اب کی دفعہ خلاف معمول خودچل کرآیا)یہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ ان کے درمیان گھس کرچلنے لگا،یہاں تک کہ اس نے آکررسول اللہ کاہاتھ پکڑ لیا اوراس نے (لوگوں کومخاطب کر کے )کہا:یہ تمام جہانوں کے پروردگارکی طرف سے رسول ہیں۔ اللہ تعالی ان کوعالم کے لیے رحمت بناکرمبعوث کرے گااوریہ تمام عالم کے سردارہیں۔ رؤسائے قریش نے پوچھایہ آپ کوکیسے معلوم ہوا۔ پادری نے کہاجس وقت تم لوگ عقبہ سے چلے ہوتوجتنے پتھراوردرخت تھے ،سب سجدہ میں گرپڑے ۔ ایک پتھراورایک درخت بھی ایسانہ رہاجس نے سجدہ نہ کیاہوا۔ درخت اورپتھرسوائے پیغمبر کے کسی کوسجدہ نہیں کرتے اورمیں ان کی مہرنبوت بھی پہچانتاہوں جو آپ کے مونڈھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانندہے ،پھروہ پادر ی واپس چلاگیااوران لوگوں کے لیے کھاناتیارکرنے لگاجس وقت وہ کھانالے کران کے پاس آیاتوآپ اونٹوں کے چرانے میں مصروف تھے ۔ اس نے آپ کوبلابھیجا،جس وقت حضور وہاں سے چلے توایک بدلی آپ کے سرپرسایہ کیے ہوئے تھی، جب آپ لوگوں کے پاس پہنچے توکیادیکھتے ہیں کہ یہ لوگ مجھ سے پہلے درختوں کے سایوں کی جگہ قبضہ کرچکے ہیں۔ جب آپ بیٹھے تودرخت کاسایہ آپ پرجھک گیا،پادری نے لوگوں سے کہا۔ دیکھواس درخت کاسایہ آپ پرجھک گیاہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ پادری ان کے پاس کھڑا ہوا قسمیں کھاکھاکران کوسمجھارہاتھاکہ ان کوروم کی طرف نہ لے جاؤ،کیوں کہ رومی لوگ اگران کودیکھیں گے توصفت و علامات سے ان کوپہچان لیں گے (کہ یہ اللہ تعالی کے برگزیدہ نبی ہیں) اورآپ کوقتل کرڈالیں گے ۔ اتنے میں اس نے منھ موڑ کر کیا دیکھا کہ سات آدمی روم کی طرف سے چلے آرہے ہیں پادری نے ان کااستقبال کیا اور ان سے پوچھاکہ تم کیوں آئے ؟انہوں نے کہاہم اس لیے آئے ہیں کہ ایک نبی اس مہینہ میں نکلنے والے ہیں۔ پس کوئی راستہ ایسا نہیں جہاں چندآدمی نہ بھیجے گئے ہوں اورہمیں ان کی خبرملی ہے تو ہمیں اس راستہ کی طرف بھیجاگیاہے۔ پادری نے پوچھاکیاتم لوگوں کے پیچھے کوئی تم سے بہترآدمی بھی ہے ؟انہوں نے کہا ہمیں توآپ کے اسی راستہ کی خبر دی گئی ہے (اورکچھ نہیں بتایا گیا ) پادری نے کہا اچھا تو یہ بتاؤکہ اگراللہ تعالی نے کسی امرکاارادہ کیاہوتوکیاانسان کی طاقت ہے کہ اسے روک دے ؟انہوں نے کہانہیں۔ الغرض انہوں نے آپ سے بیعت کرلی اور آپ کے ساتھ مقیم رہے ۔ پادری نے قریش سے کہاتمہیں خداکی قسم یہ بتاؤکہ تم میں اس کا ولی (سرپرست)کون ہے ؟انہوں نے کہاابوطالب (آپ کے چچا اور سرپرست ہیں) پادری نے قسمیں دے کرابوطالب سے کہاکہ انہیں واپس لے جاؤ۔ آخر ابوطالب نے آپ کومکہ واپس بھیج دیااورحضرت ابوبکرصدیق رضى الله تعالى عنهنے آپ کے ہمراہ بلال کوبھیجا اور اس پادری نے آپ کوزادراہ کے لیے روٹیاں اورروغن دیا۔ “(۸)
حضورصلى الله عليه وسلم کے تجارتی اسفارصحیح تناظرمیں
حضورکے تجارتی اسفارجوملک شام کے لیے ہوئے ،اس سے متعلق جوتفصیلات بعض کتب احادیث وسیراورتاریخ میں ملتی ہیں اور جیسا کہ ابھی اوپرتفصیلی روایت گزری ہے۔ اس میں سے ناقابل فہم باتوں کونکال دیاجائے تواس کاسیدھاسادامطلب یہی نکل کرسامنے آتاہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ شام کاسفراس وقت کیا،جب کہ آپ کی عمر مشہور روایت کے مطابق ۱۲/سال کی تھی ۔ یہ سفر آپ کااپنے چچاابوطالب کے ساتھ ہواتھا۔ جب یہ تجارتی قافلہ منزل بہ منزل کوچ کرتاہوا، شام کے علاقہ بصری کے مقام پرپہنچاتوایک جگہ قیام کیا۔ یہاں سے کچھ فاصلہ پرعیسائیوں کی ایک خانقاہ تھی ۔ اس میں بحیرانام کا ایک راہب رہتا تھا۔ خلاف معمول یہ راہب اپنے صومعے سے نکلااورقافلہ والوں کودیکھنے لگا۔ اسے اس قافلہ والوں میں سے کسی ایک آدمی کے متعلق غیرمعمولی باتیں نظرآنے لگیں۔ صحیح صورت حال جاننے کے لیے اس نے اس تجارتی قافلہ کی دعوت کی۔ وقت مقررہ پرسارے لوگ کھانے کے لیے پہنچے اوردسترخوان پربیٹھ گئے ۔ راہب کی نظراس کم سن بچہ پرپڑی ۔ وہ اسے بغوردیکھتارہا۔ اسے اس بچہ کے چہرہ بشرہ سے غیرمعمولی بلندی کے آثارنظرآرہے تھے اوروہ علامات بھی نظرآرہی تھیں جونبی آخرالزماں کے متعلق وہ اپنی آسمانی کتابوں میں پڑھ چکاتھا۔ چنانچہ وہ حضورکے قریب ہوااورآپ سے مخاطب ہوکرکچھ پوچھنے لگا۔ آپ نے کم عمرہونے کے باوجوداس کے سارے سوالوں کاصحیح صحیح جواب دے دیا۔ اس سے اسے اتنااندازہ توہوگیاکہ ہونہ ہویہی بچہ آگے چل کر آخری نبی مقرر ہو، مگراس نے یقین سے کچھ کہنے کے بجائے ابوطالب سے کہا کہ یہ بچہ بلنداقبال والاہے، تم اس کی اچھی طرح نگہ داشت اورپرورش و پرداخت کرنا۔ ابن اسحاق کے بہ قول بحیراراہب نے ابوطالب سے یہ بھی کہا:
”آپ اپنے بھتیجے کووطن واپس لے جائیں اوریہودسے اس کوبچائیں۔ اللہ کی قسم اگرانہوں نے دیکھ لیااوروہ علامتیں پہچان لیں جومیں نے پہچانی ہیں تووہ اسے ضرر پہنچائیں گے ۔ آپ کابھتیجابڑی عظمت والاہے ۔ “(۹)
حافظ ابن کثیرنے اپنی تاریخ میں اس واقعہ کو تفصیل سے نقل کیاہے ۔ بحث کے شروع میں انہوں نے اس کے متعلق جو باتیں تحریرکی ہیں،اس سے معلوم ہوتاہے کہ راہب نے ان کے چچاسے حضورکی حفاظت اوراچھی طرح پرورش وپرداخت کرنے کی بات کہی تھی ، نہ کہ یہ کہاتھاکہ یہ بچہ نبی آخرالزماں بننے والاہے ۔ (۱۰)ابن جریرطبری نے اس واقعہ سے متعلق تمام رطب ویابس باتوں کوحذف کردیا ہے ،البتہ انہوں نے ابوموسی اشعری کے حوالے سے وہی روایت نقل کی ہے جسے ترمذی نے نقل کیاہے۔ (۱۱)
شام کا دوسرا واقعہ اور نسطوراسے ملاقات کی اصلیت
اسی نوعیت کادوسراواقعہ بھی ملک شام میں اس وقت پیش آیاجب کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر۲۵سال کی تھی۔ آپ کایہ سفربھی تجارت کی غرض سے ہواتھا۔ حضرت خدیجہ کامال لے کرجارہے تھے۔ آپ کے معاون کے طورپرحضرت خدیجہ نے اپنے غلام میسرہ کوساتھ کردیاتھا۔ (۱۲)جب یہ تجارتی قافلہ شام کے علاقہ بصری میں پہنچاتوسب لوگوں نے پڑاؤ ڈالا۔ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے آپ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے لگے ۔ اب کی بارنسطوراراہب اپنے خیمہ سے نکل کرقافلہ والوں کے پاس آیا۔ یہاں تک کہ اس نے میسرہ سے پوچھاکہ اس درخت کے نیچے آرام کرنے والاشخص کون ہے؟ اس نے کہاکہ مکہ کے قریش کاایک فرزند ہے۔ راہب نے کہاکہ آج تک اس درخت کے نیچے حضرت عیسی عليه السلام کے بعد کوئی دوسراآدمی نہیں بیٹھا،یہ کوئی غیرمعمولی آدمی نظرآتاہے۔ پھروہ حضورسے ملااورگفت و شنیدکی ۔ راہب آپ سے غیرمعمولی طورپر متاثر ہوا۔ بعض نشانیوں کودیکھ کر اورحضورکے عادات واطوارکوملاحظہ کرنے کے بعداسے یہ نتیجہ اخذکرنے میں دقت نہ ہوئی کہ یہ نبی آخرالزماں ہیں۔ مگریقینی بات کہنے کے لیے اس کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہ تھی ۔ یہاں تک کہ حضوراپنی تجارت سے فارغ ہوئے اوروطن لوٹے۔ چوں کہ میسرہ ہروقت آپ کے ساتھ رہتے تھے،اس لیے وہ حضورکے افعال و گفتاراوراخلاق وکردارسے بہت متاثر ہوے۔ اس کا ذکرانہوں نے حضرت خدیجہ رضى الله تعالى عنها سے کیاتووہ بھی آپ کی قدرداں ہوگئیں۔ یہاں تک کہ حضرت خدیجہ نے آپ سے نکاح کی پیش کش کردی ۔
ابن جریرطبری نے اس دوسرے سفرکے متعلق زیادہ تفصیلات بیان نہیں کی ہیں ۔ انہوں نے بس اتنالکھاہے کہ میسرہ سے راہب نے پوچھاکون یہ شخص ہے ۔ میسرہ نے مذکورہ باتیں بیان کردیں،اس پرراہب نے کہاکہ مانزل تحت ھذہ الشجرہ قط الانبی(۱۳) اس کے بعدانہوں نے تجارت سے واپسی اورمکہ پہنچنے کاذکرکیاہے ۔
ان واقعات کاکم زور پہلو
ان واقعات کے متعلق ایسی بہت سی باتیں بعض دوسری کتابوں میں جگہ پاگئیں ہیں جودرست معلوم نہیں ہوتیں۔ ان میں سے بعض باتیں یہ ہیں۔ ایک یہ کہ قافلے والے حضور کو سامان کی حفاظت کے لیے خیمہ میں چھوڑ کرراہب کی دعوت کھانے چلے گئے۔ لاکھوں کاسامان تجارت ایک بچہ کی نگرانی میں چھوڑکرجاناخلاف قیاس معلوم ہوتاہے۔ جب حضرت ابوطالب سفرکے لیے نکل رہے تھے تو حضور نے اپنے چچا کا دامن تھام لیا اور سفر میں ساتھ جانے پراصرار کرتے رہے ،بہ مشکل تمام ابوطالب اپنے ساتھ لے جانے پر راضی ہوئے۔ جب قافلہ والوں کی دعوت راہب نے کی توحضرت ابوطالب اپنے بھتیجہ کو غیرمامون جگہ پرتنہاچھوڑکرہرگزنہیں جاسکتے تھے ،وہ آپ کوضرور اپنے ساتھ لے کرجاتے۔ راہب نے لات وعزی کی قسم دے کر حضور سے کچھ معلومات حاصل کرناچاہاحضورنے کہا،لات و عزی کی قسم مجھے نہ دومجھے اس سے نفرت ہے ۔ تب اس نے کہاکہ اچھااللہ کے واسطے سے بتاؤ۔ پھرآپ نے راہب کے تما م سوالات کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا۔ راہب نے آپ کی مہرنبوت کو ملاحظہ کیااورپہچان لیا کہ آپ ہی نبی آخرالزماں ہیں۔ اس کا اظہارراہب نے ابوطالب سے کیااور کہاکہ اس کی حفاظت کرنا، مبادا یہودپہچان لیں گے توانہیں قتل کرڈالیں گے۔ جیسے ہی ابوطالب نے بچہ کووہاں سے رخصت کیا سات شرپسندرومی حضور کوتلاش کرتے ہوئے خانقاہ میں پہنچ گئے اوراپناارادہ ظاہرکیاکہ ہم محمدکاقتل کرنے آئے ہیں۔ مگرراہب کے سمجھانے پروہ اپنے فعل سے بازآگئے۔ یہ اوراس طرح کی دوسری باتیں جواس واقعہ کے متعلق بیان کی جاتی ہیں بے بنیاداورمن گھڑت معلوم ہوتی ہیں۔
اس سے یہ بھی پتا چلتاہے کہ ۱۲/سال کی عمرمیں خود حضورکومعلوم ہوگیاتھاکہ آپ عنقریب نبی بنائے جانے والے ہیں۔ اسی طرح مکہ والے بھی جان گئے تھے کہ آپ ہی آخری نبی ہیں اوراس کی شہرت دوردورتک پھیل جانی چاہیے تھی ۔ اگرراہب کی باتوں کااعتبارکرلیاجائے توکم ازکم اس سفرکے بعدلوگوں نے آپ پرقاتلانہ حملہ کیوں نہیں کیا۔
اس سفرکے بعدآپ نے یقینا کئی اسفاربغرض تجارت کیے ہوں گے جس کی تفصیلات نہیں ملتیں ۔ لیکن بالکل اسی نوعیت کادوسراواقعہ بغرض تجارت جاتے ہوئے بصری کے مقام پر ظاہرہوااوراس وقت بھی اسی خانقاہ کے ایک راہب جونسطورا کہلاتاتھاکاواسطہ آپ سے پڑا اور اس نے بھی آپ کے نبی بنائے جانے کی تصدیق کی ۔ یہ بات توتسلیم کی جاسکتی ہے کہ اگریہ سفریقینی ہے توآپ نے ایک درخت کے نیچے آرام کیاہوگااورراہب نے کہاہوگاکہ حضرت عیسیٰ کے بعدسے لے کرآج تک کوئی دوسراآدمی اس درخت کے نیچے نہیں بیٹھا۔ مگریہ کہناصحیح نہیں معلوم ہوتاکہ اس کے نیچے بیٹھنے والاشخص ہی نبی آخرالزماں ہے ۔ علامہ زرقانی نے شرف المصطفی کے حوالے سے یہ بھی تحریرکیاہے کہ پھرنسطوراآپ کے قریب ہوااورآپ کے قدم چومے اورکہاکہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول اورنبی امی ہیں،جس کی بشارت عیسی نے دی تھی اورکہاتھاکہ میرے بعداس درخت کے نیچے آپ کے سواکوئی نہ بیٹھے گا۔ (۱۴)واقعہ کی تفصیل میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ میسرہ نے پورے راستے میںآ تے جاتے دیکھاکہ دو فرشتے مستقل آپ پرسایہ کیے رہتے ہیں۔ یہ کوئی غیرمعمولی واقعہ نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتاتوآپخودتعجب کرتے اورقافلہ میں موجودلوگ حیرت میں پڑجاتے کہ آخر ماجرا کیا ہے؟
غیر معمولی باتوں کا اثرآپ صلى الله عليه وسلم پرکیوں نہیں ہوا؟
اگراس واقعہ میں صداقت ہوتی تویہ بات مکہ سے لے کرشام تک اورشام سے لے کے مکہ تک تومشہورہو ہی جاتی ،مگر روایات سے بس اتناپتاچلتاہے کہ میسرہ نے پورے راستہ اس منظرکوملاحظہ کیا۔ رہی بات راہب کے اس علامت کے ملاحظہ کرنے کی تویہ کوئی بعید بات نہیں ہے، کیوں کہ بعض لوگ اپنے علم اورریاضت کی وجہ سے بعض وقت اللہ کی نشانیوں کوملاحظہ کرلیتے ہیں۔ مگر پہلے تویہ ثابت ہوجائے کہ ایساہوابھی کہ نہیں۔ پھرجب حضورتجارتی سفرسے لوٹ کرمکہ میںآ ئے توخدیجہ نے اپنے بالاخانے سے دیکھاکہ حضوراونٹ پرسوارہیں اوردوفرشتے آپ پرسایہ کیے ہوئے ہیں اس منظرکوخدیجہ نے اپنی سہیلیوں کودکھایاجواس وقت موجودتھیں۔ اس پران لوگوں کوتعجب ہوا۔ میسرہ نے راستے کے عجائبات اورآپ کی کرامت وبزرگی کاتفصیل سے ذکرکیااورراہب کی بات بیان کی کہ آپ نبی آخرالزماں ہیں جس کی بشارت کتب سابقہ میں دی گئی ہے۔ ان باتوں کوسننے اورآپ کی کرامت وبزرگی کودیکھ کرحضرت خدیجہ نے اپنے آپ کوآپ سے منسوب کرنے کاپیغام بھیج دیاجسے آپ نے قبول بھی کرلیا۔ (۱۵)اس طرح کی باتوں سے توبالکل یہی معلوم ہوتاہے کہ اس باربھی آپ کو۱۵/ سال پہلے معلوم ہوگیاکہ آپ نبی بننے والے ہیں،جوصحیح نہیں ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ آپ شروع سے ہی نیک ،شریف اوراعلی اخلاق کے مالک تھے، لیکن خودآپ پر اپنا مقصد زندگی واضح نہیں تھا اور نہ آپ نے مسقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کیا تھا۔ ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے تھے ۔ مگربنیادی فرق یہ تھاکہ آپ کائنات کی ہرچیز پر غور وفکر کرتے تھے اوروحدانیت کے تصورسے آپ کاسینہ سرشارتھا۔ اس لیے یہ بات کس طرح درست ہوسکتی ہے کہ جیساکہ علامہ زرقانی اورحافظ ابن حجرنے ابوسعید کے حوالے سے کہاکہ راہب آپ پرایمان لے آیاتھا۔ (۱۶)نبوت ملی نہیں ایمان لانے کا عمل کیسے واقع ہوگیا۔
آیات قرآنی سے واقعہ کی تغلیط
مذکورہ دونوں اسفارمیں راہب سے علمی استفادہ کو درست ماناجائے توپھرقرآن کی مندرجہ ذیل آیتوں کاکیاجواب ہوگا،جس میں کہاگیاہے کہ آپ نبوت کی امیدلگائے ہرگزنہ بیٹھے تھے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
”وَمَا کُنتَ تَرْجُو أَن یُلْقَی إِلَیْْکَ الْکِتَاب.“ (القصص:۸۶)
(اورآپ ہرگزاس کے امیدوارنہ تھے کہ آپ پرکتاب نازل کی جائے گی۔ )
ایک اورمقام پرآپ کی امیت کوواضح کرنے کے ساتھ فرمایاگیاہے کہ آپ کوکیامعلوم کہ کتاب اورایمان کیاچیزہوتی ہے ،اگراس بات کاپہلے سے علم ہوتاکہ آپ نبی بنائے جانے والے ہیں تویہ بڑی بات ہوتی ۔ ارشادباری تعالی ہے :
”مَا کُنتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیْمَانُ.“(الشوری:۵۲)
(تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیاہوتی ہے اورنہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیاہوتاہے)
آئندہ کے لیے اس طرح کی باتیں وہی شخص سوچ سکتاہے جوسماج کاسب سے اعلی فردہو۔ جیساکہ کفارو مشرکین کی گفتگو قرآن نے نقل کی ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو اور دوسرا معزز آدمی نہیں ملا تھا کہ وہ اسے نبی بناتا۔ (زخرف:۳۰)پھردومرتبہ جب آپ پریہ بات واضح ہوگئی کہ آپ عنقریب نبی بنائے جانے والے ہیں،تو آپ کے دل میں اس کی امنگ پیدانہ ہوئی ناقابل فہم بات ہے۔ اگرایساہواتونعوذباللہ قرآن کی تصریحات غلط ہیں ۔ یاپھرقرآن نے جوکچھ کہاہے تواسے ہی صحیح ماناجائے اورماننابھی چاہیے تواس سفرمیں جوخرق عادات باتیں سامنے آتی ہیں وہ لغو ہیں ۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی لکھتے ہیں:
”یہ واقعہ جس پرمستشرقین نے بہت سے قیاسات کی عمارت اٹھائی ہے اوران علوم کوجورسول ہونے کے بعدآپ سے ظاہرہوئے ،عیسائی را ہبوں سے حاصل کردہ معلومات قراردیاہے ۔ اس پرمزیدخودہمارے ہاں کی بعض روایات بھی ایسی ہیں جوایک حدتک ان قیاسات کوتقویت پہنچاتی ہیں۔ دراصل یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ ایک زاہدمرتاض آدمی جس نے مجاہدوں سے اپنی روحانی قوتوں کو نشوونما دیاہو،کچھ غیرمعمولی برکات کے آثاردیکھ کرمحسوس کرلے کہ اس قافلہ میں کوئی عظیم شخصیت موجودہے ، اورآپ کودیکھ کراسے اپنے اندازوں کی تصدیق ہوگئی ہو۔ نیزاس نے اس خیال سے کہ یہودی ایک حاسدقوم ہیں اوروہ عرب کے امیوں میں کسی عظیم شخصیت کے ظہورکواپنے لیے خطرہ سمجھ کراس کے درپے آزار ہوسکتے ہیں،ابوطالب کوان سے بچانے کامشورہ دیاہو۔ لیکن یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ اس نے یہ سمجھ لیاکہ آپ ہی وہ ہونے والے نبی ہیں جن کے آنے کی خبرپچھلی کتابوں میں دی گئی ہے ،کیوں کہ پیشین گوئیوں سے یہ ضرورمعلوم ہوتا تھا کہ ایک نبی آنے والے ہیں اوران کانام محمدہوگا،لیکن تعیین کے ساتھ یہ معلوم کرلیناممکن نہ تھاکہ حضورہی وہ نبی ہیں“۔ (۱۷)
اسی واقعہ کے تناظرمیں شیخ محمدغزالی لکھتے ہیں:
”خواہ یہ واقعہ صحیح ہویاغلط،لیکن بعدمیں اس کاکوئی اثرنظرنہیںآ تا۔ نہ حضرت محمدنے نبوت کی توقع یااس کے لیے تیاری شروع کی ،نہ اہل قافلہ نے بعدمیں اس واقعہ کو پھیلایااو راس طرح بھول گئے جیسے کوئی واقعہ ہواہی نہیں تھا۔ “(۱۸)
علماء ومحدثین کے نزدیک تجارتی اسفاراورحدیث کی حقیقت
محدثین کی بیان کردہ روایات میں دیگرباتوں کے ساتھ ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ان میں بیان کیاگیاہے کہ بحیرا راہب کے کہنے پرابوطالب نے اپنے بھتیجے کوحضرت ابوبکر اورحضرت بلال کی معرفت مکہ روانہ کردیا۔ اس وقت حضرت ابوبکرخودچھوٹے تھے اورحضرت بلال کاکوئی وجودنہیں تھا۔ اس بناپرعلامہ ذہبی نے لکھاہے کہ یہ واقعہ باطل ہے ۔ علامہ مبارک پوری تحریرکرتے ہیں علامہ ذہبی نے حدیث کے مذکورہ جملے کی وجہ سے اسے ضعیف قراردیاہے ،کیوں کہ ابوبکرنے بلال کواس وقت خریدابھی نہ تھا۔ امام ابن تیمیہ فر ما تے ہیں کہ اس وقت تک بلال کاوجودہی نہ تھا اوراگرتھاتواس وقت تک ابوبکریاابوطالب کے ساتھ نہیں تھے ۔ حافظ ابن کثیرفرماتے ہیں کہ اس حدیث کوترمذی ، حاکم ، بیہقی اور ابن عساکرنے بیان کیاہے اس میں بعض عجیب باتیں ہیں،یہ مرسلات صحابہ میں سے ہے اس لیے کہ حضرت ابوموسی اشعری جواس کے راوی ہیں غزوہ خیبرکے سال تشریف لائے تھے۔ اصطلاحات حدیث کی روسے یہ حدیث معلل ہے۔ (۱۹)اس کے برعکس حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔ اس میں اس جملے کے علاوہ کوئی نقص نہیں۔ اس بات کااحتمال ہے کہ یہ جملہ مدرج ہو۔ یعنی کسی دوسری منقطع روایت سے اس میں شامل ہوگیاہواوریہ کسی راوی کاوہم ہو۔ جب کہ علامہ شبلی نعمانی حافظ ابن حجر پرسخت تنقیدکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حافظ ابن حجررواة پرستی کی بناپراس حدیث کوصحیح تسلیم کرتے ہیں،لیکن چوں کہ حضرت ابوبکراوربلال کی شرکت بداہتاًغلط ہے ،اس لیے مجبوراً اقرارکرتے ہیں کہ اس قدرحصہ غلطی سے روایت میں شامل ہوگیاہے ، لیکن حافظ ابن حجرکایہ ادعابھی صحیح نہیں کہ اس روایت کے تمام روات قابل سندہیں۔ عبدالرحمن بن غزوان کی نسبت خودہی حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب میں لکھاہے کہ” وہ خطاکرتاتھا،اس کی طرف سے اس وجہ سے شبہ پیداہوتاہے کہ اس نے ممالیک کی روایت نقل کی ہے “ ممالیک کی ایک روایت ہے ،جس کومحدثین جھوٹ اورموضوع خیال کرتے ہیں۔ “(۲۰)
واقعات میں جوخامی ہے اس کے علاوہ بھی اس روایت میں سندکے اعتبارسے کم زوری ہے،اس کی صراحت کرتے ہوئے علامہ شبلی لکھتے ہیں:
”اس حدیث کے آخیرراوی ابوموسی اشعری ہیں، وہ شریک واقعہ نہ تھے اوراوپرکے راوی کانام نہیں بتاتے۔ ترمذی کے علاوہ طبقات ابن سعدمیں جوسلسلہ سند مذکور ہے (وہ مرسل یامعضل ہے ۔ یعنی جوروایت مرسل ہے اس میں تابعی جوظاہرہے کہ شریک واقعہ نہیں ہے ،کسی صحابی کانام نہیں لیتاہے اورجوروایت معضل ہے ،اس میں راوی اپنے اوپر کے دوراوی جوتابعی اورصحابی ہیں دونوں کانام نہیں لیتا ہے)“(۲۱)
ان کے علاوہ اس حدیث میں جومزیدخامیاں ہیں اس پرعلامہ شبلی نے سخت کلام کیاہے ،جس کی روسے یہ حدیث قابل توجہ نہیں رہتی۔ اس صورت میں سفرشام میں راہب کی ملاقات اوراس کی نشان دہی بہ سلسلہ نبوت مشکوک ہوکررہ جاتی ہے۔ ترمذی کی مذکورہ روایت میں کئی اعتبارسے سقم پایاجاتاہے۔ اس میں بعض باتیں ایسی ہیں جوعقل وفہم کے خلاف نظرآتی ہیں۔ نیزاس میں واقعہ کے تسلسل اورترتیب کافقدان ہے۔ اس لئے بیش ترعلماء نے اس روایت پراعتمادنہیں کیاہے۔ شیخ محمد الغزالی لکھتے ہیں:
”محققین کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے ،اس میں اس واقعہ سے مشابہت ہے جسے اہل انجیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسی کی ولادت کے فورابعدکچھ لوگ انہیں قتل کرنے لیے تلاش کررہے تھے اورعیسائیوں کے یہاں پایاجانے والایہ واقعہ اس واقعہ سے مشابہت رکھتاہے جسے بدھ مت کے پیروکاربیان کرتے ہیں کہ گوتم بدھ کی جب ولادت ہوئی تودشمنوں نے انہیں قتل کرنے کے لیے تلاش کیا۔ “(۲۲)
اس طرح کی روایات کوقبول کیوں نہیں کیاجاناچاہئے ،اس کی وجہ بتاتے ہوئے شیخ غزالی یہ بھی تحریرکرتے ہیں:
”علمائے سنت روایات کی تحقیق متن اور سند دونوں پہلو ؤ ں سے کرتے ہیں۔ اگر ان سے پختہ علم اورظن غالب حاصل نہ ہوتوان کی پرواہ نہیں کرتے ،پیغمبروں کی جانب بہت سی خرافات منسوب کردی گئی ہیں، اگر انہیں فن حدیث کے مقررہ قواعدکی کسوٹی پرپرکھاجائے توان کاکھوٹ ظاہرہوتاہے اوران کی بنا پر انہیں رد کرنا مناسب ہوتاہے ۔ “(۲۳)
اس حدیث کے الفاظ سے کسی سے مشابہت ہویانہ ہو، زیادہ اہم بات نہیں ہے ۔ بحث اس سے ہے کہ کیاچھوٹی عمرمیں خود حضور کو اپنے بارے میں اوراہل مکہ کوآپ کے نبی ہونے کاعلم ہوچکا؟ اگرہواتویہ معمولی بات نہیں تھی ،اس کی تیاری پہلے سے شروع ہوجانی چاہیے تھی اور پھر چالیس سال کے بعدنبی کی مخالفت کاجوبازارگرم ہواوہ نہ ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ اہل مکہ کو دوسروں کی زبانی پہلے ہی آپ کی نبوت کاعلم ہوچکاتھااورآئندہ چل کر نبی کے ذریعہ کون کون سے کام انجام پائیں گے اس کی بھی وضاحت ہوگئی تھی ،توپھر حضور نے جس چیزکی دعوت دی اس کی مخالفت کرنے کے بجائے قبول کرنا چاہیے تھا۔ اگراس واقعہ کو صحیح سمجھ لیا جائے جیساکہ کچھ لوگوں نے صحیح سمجھاہے تومستشرقین کے اس اعتراض کاکیاجواب ہوگاجویہ کہتے ہیں کہ نبی کے ذہن میں توحیدپرستی اورواحدمطلق ہستی کی طرف میلان کا جو رجحان پیداہواوہ اسی راہب کی تعلیم کانتیجہ ہے ، اورحضورپہلے سے ہی نبوت کی امیدلگائے بیٹھے تھے ۔ کیا اس قسم کی باتیں حضور کی سیرت اور نبوت کے منافی نہیں ہیں۔ اس قسم کی روایت کی عدم صحت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی لکھتے ہیں:
”سیرت ابن ہشام(۱/۱۸۰)باختصار،اس روایت کوطبری نے اپنی تاریخ (۲/۲۸۷) میں، بیہقی نے سنن میں اورابونعیم نے حلیہ میں روایت کیاہے ، ان کی تفصیل میں بعض وجوہ سے کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس روایت کوامام ترمذی نے دوسرے اندازسے تفصیل سے نقل کیاہے ،لیکن شایدان کی سندمیں کچھ ضعف ہے ۔ اسی لیے انہوں نے خودبھی لکھاہے یہ حدیث حسن غریب ہے ،ہم اسے صرف اسی سندسے جانتے ہیں۔ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن غزوان ہے ، اس کے بارے میں’المیزان‘ میں صراحت ہے کہ اس سے بعض منکراحادیث مروی ہیں۔ ان میں سب سے منکرحدیث وہ ہے جواس نے یونس بن اسحاق سے روایت کی ہے اورجس میں نبی کی نوعمری میں ابوطالب کے ساتھ شام کے سفرکا بیان ہے اورابن سیدالناس نے لکھاہے کہ اس روایت کے متن میں بعض منکر باتیں ہیں۔ (دیکھئے عیون الاثر۱/۴۳) عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجودشیخ ناصرالدین البانی نے (جنہوں نے شیخ محمدغزالی کی کتاب فقہ السیرة کی تخریج کی ہے )اس حدیث کے بارے میں لکھاہے :اس کی سندصحیح ہے ۔ انہوں نے امام ترمذی کاتبصرہ بھی مکمل نقل نہیں کیاہے ،بلکہ اس کاصرف اتناحصہ دیاہے ”یہ حدیث حسن ہے “حالاں کہ ان کی عادت ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ صحیح حدیث کوبھی بسااوقات ضعیف قراردیدیتے ہیں۔ جہاں تک قدر مشترک کاتعلق ہے وہ بہت سے طرق سے ثابت ہے اوراس میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔ “(۲۴)
مستشرقین کے دعویٰ کی کم زوری
روایتوں سے جونتیجہ اخذکیاجاسکتاہے وہ یہ کہ آپ نے متعدداسفارتجارت کی غرض سے کئے۔ انہیں اسفار میں آپ کی ملاقات اہل کتاب کے عالموں سے ہوئی۔ جہاں تک ان کی صحبت اختیارکرنے اوران سے علمی وروحانی استفادہ کی بات ہے ، ناقابل تسلیم ہے ۔ اگراس کومان بھی لیا جائے توپھرسوال پیداہوگاآپ نے اسی بات کی تعلیم دی جسے آپنے راہبوں سے سیکھا تھا تو پھر اس پرعیسائی عمل کیوں نہیں کرتے اوراس کی تکذیب کیوں کرتے اور کہتے ہیں کہ آپ نبی برحق نہیں تھے اور آپ نعوذباللہ عیوب کامجموعہ ہیں۔ قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری لکھتے ہیں:
”پادری صاحبان نے اتنی بات پر”بحیرا نصرانی ملاتھا“یہ شاخ وبرگ اوربھی لگادئے کہ ۴۰سال کی عمرکے بعدجوتعلیم آں حضرت نے ظاہرکی تھی ،وہ اس راہب کی تعلیم کااثرتھا۔ میں کہتاہوں کہ اگرآں حضرت نے تثلیث اورکفارہ کارد،مسیح کے صلیب پرجان دینے کابطلان اس راہب کی تعلیم ہی سے کیاتھاتواب عیسائی اپنے اس بزرگ کی تعلیم کوقبول کیوں نہیں کرتے ۔ “(۲۵)
خاص طورپریہودی آخری نبی کی آمدکے منتظرتھے ۔ تاکہ ان کی رہنمائی اور تعاون سے ان عیسائیوں کو جن کے ظلم کی چکی میں وہ برسوں سے پس رہے تھے ،کیفرکردارتک پہنچاسکیں ۔ جیساکہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ جب ۱۲/سالہ بچے کوبحیراکے کہنے پرواپس مکہ بھیج دیاگیاتوٹھیک انہی دنوں ۷ رومی حضورکوتلاش کرتے ہوئے بحیراکی خانقاہ میں پہنچے تاکہ نبی آخرالزماں کاقتل کردیں۔ مگر انہوں نے ان کونہ پایااورراہب نے بھی ان لوگوں سے کہاکہ تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے، کیوں کہ اللہ کایہی فیصلہ ہے ۔ اس کے بعدوہ اپنے ارادے سے پھرگئے ۔ اب قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:
”وَکَانُواْ مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَلَمَّا جَاء ہُم مَّا عَرَفُواْ کَفَرُواْ بِہِ.“(البقرہ :۸۹)
(باوجودکہ اس کی آمدسے پہلے وہ خودکفارکے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگاکرتے تھے ،مگرجب وہ چیزآگئی جسے وہ پہچان بھی گئے توانہوں نے اسے ماننے سے انکارکردیا۔ )
اس آیت کے حوالے سے قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری لکھتے ہیں کہ :
”اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیاکہ بحیراراہب کاقول غلط تھا،کیوں کہ یہودی لڑکپن میںآ ں حضرت کوپہچان لیتے تواپنے اعتقادکے مطابق حضور کو اپنی فتح ونصرت کادیوتاسمجھ کر،نہایت خدمت گزاری کرتے “۔ (۲۵)
پہلی بارجب آپ نے شام کاسفرکیا،اس وقت آپ کی عمرزیادہ سے زیادہ ۱۲/سال کی تھی۔ (بعض روایت کے مطابق اس وقت آپ ۹/سال کے تھے۔ )اتنی چھوٹی عمرمیں ایک راہب سے علم وحکمت کی وہ ساری باتیں کیسے سیکھ لیں جن کا روئے زمین میں کوئی ثانی نہیں۔ وہ بھی چندمنٹوں یاگھنٹوں کی ملاقات میں۔ اس لیے مستشرقین کے یہ اعتراضات بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں کہ آپ نے راہبوں سے علمی فیض حاصل کیاتھا۔ جب کہ قرآن اورسابقہ کتابیں باربارکہتی ہیں کہ آپ امی تھے ۔ یہی نہیں بلکہ بعض مستشرقین نے تویہاں تک لکھا ہے کہ قرآن کااصل مصنف بحیراہے جس سے حضورنے اخذکیاہے ۔ چنانچہ اس ذہنی خرافات کے متعلق ڈاکٹرمحمدحمیداللہ لکھتے ہیں:
”کیایہ معجزہ رونماہوسکتاہے کہ نوسال کی عمرکاایک بچہ قرآن پاک کی ۱۱۴/سورتیں چندمنٹ میں حفظ کرلے اورپھرایک نسل کے بعدان قرآنی سورتوں کویہ کہہ کراپنی امت کے روبروپیش کرے کہ یہ اللہ کاکلام ہے ؟۔ “(۲۷)
شام کے سفرسے متعلق جورطب ویابس باتیں روایات میں داخل ہوگئیں ہیں ان کی تردید کرنے کے بعد ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ کسی غیبی آثارکودیکھ کرراہب نے قافلہ والوں کی دعوت نہیں کی تھی بلکہ ان کے اچھے رویے اوربرتاؤسے متاثرہوکرراہب نے کھانے پرمدعو کیا تھا۔ اس کے بعدوہ اپنے شبہ کااظہاراس طرح کرتے ہیں کہ ”شایدوہ مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے نیک ارادہ رکھتاہو۔ “(۲۸)
علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”ہمارے عیسائی احباب اس ضعیف روایت پر اپنے شکوک وشبہات کی عظیم الشان عمارت قائم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبراسلام نے اسی راہب کی صحبت سے فیض حاصل کیا ۔ اگر یہ صحیح ہے تو دنیا کے لیے اس سے بڑا معجزہ محمد رسول اللہ کا اور کیا چاہیے کہ ایک ابجد ناآشنا طفل دوازدہ سالہ نے چند گھنٹوں میں حقائق واسرار دین،اصول عقائد ،نکات اخلاق، مہمات قانون اور ایک شریعت عظمی کی تکمیل وتاسیس کے طریقے سب کچھ سیکھ لیے۔ کیا ہمارے عیسائی دوست اس معجزہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ “(۲۹)
حاصل بحث
مستشرقین نے حصول علم اورمعلومات کے ذرائع جن نصرانی عالموں کو قرار دیا ہے ۔ ورقہ بن نوفل بھی انہی میں سے ایک تھے جو مکہ میں رہتے تھے۔ اگربحیراراہب سے حضورکے تعلیمی سلسلہ کوجوڑاجاتاہے توورقہ کوخاص طورپراس بات کاعلم ہوتاکہ آپ نبی برحق ہیں،کیوں کہ وہ آپ کوحضرت خدیجہ سے شادی سے قبل سے ہی جانتے تھے ۔ پھرخدیجہ سے رشتہ داری کی بناپران سے بڑی حدتک قربت ہوگئی، لیکن جب حضورپرپہلی وحی کے نازل ہونے کے وقت جوکیفیت طاری ہوئی ،اسے خدیجہ رضى الله تعالى عنها کی وساطت سے ورقہ کے سامنے بیان کیا گیا۔ جسے سننے کے بعدانہوں نے کہاآپ نبی برحق ہیں اوریہ وہی ناموس ہے جوموسی پروحی لایاکرتاتھا۔ ورقہ نے اپنی سابقہ آسمانی کتابوں کی روشنی میںآ پ کے نبی ہونے کی تصدیق کی نہ کہ خبروں کوسن کر۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ ورقہ کودونوںآ سمانی کتابوں کاعلم تھا۔ پہلے وہ یہودی تھے ،بعدمیں عیسائی ہوگئے تھے اوریہ عربی اور عبرانی زبان میں انجیل لکھتے تھے ۔ ان کتابوں کاگہراعلم رکھنے کے باوجودحضورکی علامات وکیفیات کوسن کراگروہ اس کے خلاف کوئی دوسری بات کہتے تو گو یا کہ وہ ایک حقیقت کوچھپانے کی کوشش کرتے اوراس سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ حضورنے علمی فیض حاصل کیا۔ رہے بعض دوسرے اہل کتاب علماء وربیین ان سے آپ کی ملاقات برائے نام تھی اور خود حضور اتنے اعلی اخلاق کے مالک تھے کہ اپنے شدیددشمن سے بھی ملتے توخندہ پیشانی کامظاہرہ کرتے ۔ اسی طرح اہل کتاب کے بعض عالموں سے چاہے وہ غلام ہی کیوں نہ ہوں ملاقات ہوجاتی تو ان کی عظمت کابھی آپ پوراخیال کرتے تھے۔ لہذایہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شروع سے ہی اللہ تبارک وتعالی خصوصی نہج پر آپ کی تربیت کررہاتھا اور آلائشوں سے آپ کے قلب ونظر اور فکر وخیال کومصفی کردیاتھا،اس لیے باطل افکارکے جذب کرنے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھرجب آپ نبوت سے سرفرازکیے گئے توگوآپ امی تھے ،مگرآپ کوجو معلومات حاصل ہورہی تھیں وہ بواسطہ وحی ہورہی تھیں جسے فرشتہ وحی لے کرآتا اور بعض وقت براہ راست آ پ کے قلب اطہرمیں کوئی بات ڈال دی جاتی تھی ۔ جب یہ صورت ہوتولامحالہ یہ کہناپڑے گاکہ اللہ تعالی نے ایک امی پرہی نبوت کے سلسلہ کوختم کردیاتاکہ دنیایہ تسلیم کرلے کہ اللہ کی قدرت دنیاکی ساری چیزوں پرمحیط ہے اورجوکچھ دنیامیں ہوتاہے اورہوتارہے گاوہ سب اسی کے ایمااوراشارے سے ہوگا۔ رہے آپ کے بعض رفیق جوپہلے عیسائی تھے او ر بعد میں مسلمان ہوگئے یاآپ کا اپنی زوجہ مطہرہ ماریہ قبطیہ سے علم حاصل کرنامحض الزام اورتعصب ہے۔ ان میں کوئی اس لائق نہ تھاکہ وہ حضورصلى الله عليه وسلم کوعلمی فیض پہنچاسکے ۔
***
مآخذو مراجع
(۱) شبلی نعمانی،سیرة النبی،ندوة المصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،۲۰۰۳ء،ج:۱،ص:۱۲۶
(۲) ڈاکٹر التہامی نقرہ،مستشرقین اور قرآن،(عربی اسلامی علوم اور مستشرقین(مجموعہ مقالات عربی)مترجم:ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی)توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ،کشن گنج،بہار، ۲۰۰۴ء، ص:۱۲،
(۳) ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری،کتاب الوحی،باب کیف کان بدء الوحی
(۴) ایضا،کتاب المناقب،باب عمرة القضا
(۵) سید سلیمان ندوی،سیرة النبی،ندوة المصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،۲۰۰۳ء، ج:۳، ص:
(۶) سید ابوالاعلیٰ مودودی،سیرت سرورعالم ،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی،۲۰۰۵ء، ج:۱، ص:۴۲۵ اورص:۶۵۰
(۷) سیرة النبی،ج:۳،ص:۳۶۲
(۸) محمد بن عیسیٰ الترمذی،جامع الترمذی،کتاب الماقب،باب ماجاء فی بدء نبوة النبی
(۹) محمد بن اسحاق بن یسار،سیرت ابن اسحاق،ملی پبلیکیشنز،نئی دہلی،۲۰۰۹ء،ص:۸۶
(۱۰) ابوالفداء اسماعیل بن کثیر،البدایہ والنہایة،دارالریان للتراث،قاہرہ،۱۹۸۸ء، ج:۱، جزو:۲،ص:۲۶۳-۲۶۴
(۱۱) ابی جعفر محمد بن جریر الطبری،تاریخ طبری(تاریخ الرسل والملوک)دارالمعارف، قاہرہ، ۱۹۷۷/، ج:۲، ص:۲۷۸-۲۷۹۔
(۱۲) ایضا،ص:۲۸۰
(۱۳) محمد بن الباقی الزرقانی،شرح مواہب اللدنیہ،مطبعة الازہریة، مصر،۱۳۲۵ھ، ج:۱، ص:۱۹۵
(۱۴) سیرت ابن اسحاق،ص:۶۸
(۱۵) شرح مواہب اللدنیہ،ص:۱۹۵
(۱۶) سیرت سرورعالم،ج:۲،ص:۸۵
(۱۷) شیخ محمد الغزالی،فقہ السیرة،مطبعة حسان،قاہرہ،۱۹۷۶ء،ص:۶۸
(۱۸) ایضا،ص:۶۹
(۱۹) سیرة النبی،ج:۱،ص:۱۲۸
(۲۰) ۱ایضا
(۲۱) فقہ السیرة،ص:۶۹
(۲۲) ایضا
(۲۳) ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی،فقہ السیرة النبویة،دارالفکر المعاصر،بیروت لبنان، ۱۹۹۱ء، ص:۴۸
(۲۴) قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری،رحمة للعالمین،فرید بک ڈپو،دہلی،۱۹۹۹ء، ج:۱، ص:۴۲
(۲۵) ایضا
(۲۶) ڈاکٹر محمد حمیداللہ،محمد رسول اللہ،فرید بک ڈپو،دہلی،۲۰۰۳ء،ص:۱۴-۱۵
(۲۷) ڈاکٹر محمد حمیداللہ، پیغمبر اسلام،ملی پبلیکیسنز ،نئی دہلی،۲۰۰۹ء،ص:۵۹-۶۰
(۲۸) سیرة النبی،ج:۳،ص:۳۶۲
* * *
—————————–
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 94 رمضان – ذيقعده 1431 ھ مطابق ستمبر – اكتوبر 2010 ء