حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
ثبت است بر جریدئہ عالم دوام ما
۱۸/صفر ۱۴۳۱ھ = ۴/فروری ۲۰۱۰ء پنجشنبہ کو برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش کا علمی ودینی حلقہ ایک جلیل القدر صاحب درس عالم دین کے فیوض وبرکات سے محروم ہوگیا، یعنی ایشیاء کی مشہور و بے مثال اسلامی دانش گاہ ”دارالعلوم دیوبند“ کے قدیم نائب مہتمم، صدرالمدرسین، اور شیخ الحدیث استاذ الاساتذہ حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب دارفنا سے ملک بقاء کو سدھار گئے انَّا لِلّٰہِ واِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون – اللہم اغفرلہ، واکرم نزلہ، والحقہ بسلف الصالحین، آمین
حضرت مولانا قدس سرہ بزرگوں کی روایات کے محافظ،اور دارالعلوم دیوبند کے مخصوص مزاج ومذاق کے امین تھے، قدرت کے دستِ فیاض نے انھیں حسن صورت اور حسن سیرت دونوں سے آراستہ ومزین کیاتھا، انھیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ کَأنّ الملک نزل من السماء گویا فرشتہ آسمان سے اترآیا ہے، چوڑی چکلی روشن پیشانی، آہ سحرگاہی سے دمکتا ہوا چہرہ، سفید ونظیف لباس، جس پر سلیقے وقرینے کی گلکاری، مسند درس پر بیٹھتے تو لگتا کہ ایک مرقعہٴ نور جلوہ افروز ہے، پرکشش بلند آواز، لہجے کی تمکنت، اور بیان و ادا کی وضاحت سے درس کی تقریر ایسی لگتی جیسے عندلیب تیز لے میں نغمہ سنج ہے، وہ میدان علم وفن کے شہ سوار اور تدریسی تجربات کے بحر ذخار تھے، ان کا شمار درس نظامی کے ماہرترین اساتذہ میں ہوتا تھا، منقولات ومعقولات ہر دونوں میں انھیں یکساں دسترس حاصل تھی بالخصوص علم ہیئت میں تو اس وقت ان کا کوئی ہمسر وہم پلہ نہیں تھا، دارالعلوم دیوبند کی لگ بھگ ڈیڑھ صدی کی طویل تاریخ میں وہ اپنی اس خصوصیت میں منفرد ویگانہ تھے کہ انھوں نے اپنی تدریسی سفر کی ابتداء میزان ومنشعب سے کی اور اختتام اصح الکتب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری پر کیا۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوتِیْہِ مَنْ یَشَاءُ“.
خدائے رحیم وکریم نے حضرت مولانا کو اپنی رحمت کا مظہر بنایا تھا وہ رحمت ورأفت اور شفقت ومحبت کے پیکر مجسم تھے، جس کسی کو بھی آپ سے تعلق اور وابستگی نصیب ہوئی چاہے وہ مختصر مدت ہی کی ہو وہ آپ کی اس مخلصانہ ادا کا گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا ہر شخص سے ایسا مشفقانہ برتاؤ کرتے تھے کہ سب یہی باور کرتے کہ حضرت کی شفقت وعنایت مجھ پر سب سے زیادہ ہے۔
کسی عالم دین اور صاحب درس فاضل کو اس عالم رنگ وبو میں جو عزت وعظمت اور برتری وبڑائی میسر ہوسکتی ہے وہ بفضل رب عزیز حضرت مولانا کو حاصل تھی، دارالعلوم دیوبند جیسی باعظمت و تاریخ ساز دینی درسگاہ کے صدر مدرس وشیخ الحدیث تھے، ہزاروں عالم ان کے شاگرد اور نیازمند ہیں، اس عظمت ووجاہت کے باوجود ان میں تواضع اور فروتنی اس قدر تھی کہ جن لوگوں کو ان کے قریب رہنے اور برتنے کا موقع نہیں ملا ہے وہ اس کا اندازہ نہیں لگاسکتے ہیں بس یوں سمجھئے کہ ہم عصر علماء میں وہ اپنے اس وصف میں سب سے ممتاز تھے۔
خالقِ کائنات نے ان کے قلب وزبان کو سلیم بنایا تھا، ان کی عام مجلسیں ہی نہیں بلکہ خاص مجالس بھی شکوئہ وشکایت اور غیبت سے پاک و صاف رہتی تھیں وہ نہ خود کسی کے بارے میں حرف شکایت زبان پر لاتے تھے نہ دوسروں سے اس کا سننا پسند کرتے تھے، تحمل و برداشت ان کی عادت، اور خوش اخلاقی ان کا شیوہ تھی، وہ ایک ایسے قابل ستائش مرد مومن تھے جس کی ذات سب کے لئے سایہٴ عاطفت وسکینت تھی، سخت سے بڑے سخت جذباتی حالات میں بھی وقار وتمکنت کا دامن ان کے ہاتھوں سے چھوٹنے نہیں پاتا تھا، کہاں تک ان کے حسنات و برکات کو بیان کیاجائے وہ تو اک خزانہٴ خوبی تھے جس کا احساس ان کے بچھڑنے کے بعد ہورہا ہے۔
خدا بخشے بہت ہی خوبیاں تھیں جانے والے میں
سوانحی خاکہ: حضرت مولانا نسبی طور پر افغان بازید خیل داؤد زئی سے تعلق رکھتے ہیں شجرئہ نسب ”یادگار سلف“ نامی کتاب میں یوں ہے: حضرت مولانا نصیراحمد خاں بن عبدالشکور خاں بن حقداد خاں بن بنیاد خاں بن سردار خاں بن عمر خاں بن غیاث خاں بن شہباز خاں بن سلیم خاں بن دیوان دولت خاں بن شیخ داؤد خاں بن شیخ عیسیٰ خاں افغان بازیدخیل داؤد زئی۔غالباً شہباز خاں ان کے پہلے مورث اعلیٰ ہیں جنھوں نے موضع ”بسی“ ضلع بلند شہر کو اپنا مسکن اور وطن بنایا۔
تاریخ ولادت: اسی موضع ”بسی“ میں ۲۱/ربیع الاوّل ۱۳۳۷ھ =۲۳/دسمبر ۱۹۱۸ء کو آپ کی پیدائش ہوئی، آپ کے والد گرامی جناب عبدالشکور خاں سرکاری فوج میں ملازم تھے، ساتھ ہی زمیندار بھی تھے، جب حضرت شیخ الہندنے ترک موالات کی تحریک شروع کی تو اس وقت کے علماء کے فتویٰ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فوج کی ملازمت سے مستعفی ہوگئے اور ذریعہ معاش کیلئے کاشت کاری کرنے لگے۔
تعلیم وتربیت: تعلیم وتحصیل کے مراحل آپ نے اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا بشیراحمد خاں متوفی ۱۹۶۶ء رحمہ اللہ سابق استاذ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی زیرنگرانی مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی ضلع بلند شہر میں طے کئے جہاں حضرت مولانا بشیراحمد خاں صاحب مدرس اعلیٰ کے منصب پر فائز تھے۔
منبع العلوم گلاوٹھی ملک کے ان قدیم تاریخی مدارس میں سے ایک ہے جو حضرت حجة الاسلام مولانا نانوتوی قدس سرہ اور ان کے رفقاء کی تحریک قیام مدارس کے تحت قائم کیاگیا تھا، جس میں ایک زمانہ تک حضرت گنگوہی، حضرت شیخ الہند وغیرہ اکابر دارالعلوم کے ساختہ پرداختہ علماء وفضلاء تدریسی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔
حضرت مولانا اسی مدرسہ میں حفظ قرآن اور اردو فارسی کی تعلیم کے ساتھ اپنے بڑے بھائی مولانا بشیراحمد خاں صاحب سے مع دورئہ حدیث درس نظامی کی تحصیل وتکمیل کی ۱۳۶۱ھ میں بعض اختلافات کی بناء پر جب حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، حضرت مولانا ظہوراحمد دیوبندی رحمہم اللہ وغیرہ اساتذہ دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہوگئے تو ان کی جگہوں کو پر کرنے کے لئے مولانا بشیراحمد خاں صاحب، مولانافخرالحسن صاحب اور مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک رحمہم اللہ کو دارالعلوم میں تدریس پر مقرر کیاگیا تو برادر کبیر مولانا بشیراحمد صاحب کے ساتھ حضرت مولانا بھی دیوبند آگئے اور دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے کر دوبارہ دورئہ حدیث کی تحصیل وتکمیل کی، اور ۱۳۶۴ھ تک دارالعلوم میں زیرتعلیم رہ کر دورئہ حدیث کے ساتھ ہدایہ آخرین، مسلم الثبوت، توضیح وتلویح، بیضاوی سورئہ بقرہ، سراجی، دیوان متنبی، شرح چغمینی، ملاجلال، قاضی، صدرا، حمداللہ، میرزاہد وغیرہ معقولات وغیرہ کی اہم کتابوں کی تحصیل کی، ساتھ ہی فن طب میں نفیسی، حمیات قانون، قانونچہ، شرح اسباب کامل کا بھی درس لیا، اور فن قرأت وتجوید کی بھی مع اجرائے سبعہ تکمیل کی۔
آپ کے دارالعلوم کے اساتذہ میں حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی، حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی، حضرت مولانا حافظ عبدالرحمن امروہوی، حضرت مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، حضرت مولانا قاضی شمس الدین گجرانوالہ، حضرت مولانا قاری حفظ الرحمن پرتاب گڑھی، حضرت مولانا حکیم محمد عمر دیوبندی وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
دارالعلوم میں خدمت تدریس: ۶۴ھ میں دارالعلوم دیوبند میں فنون کی تکمیل کے بعد ذی قعدہ ۱۳۶۵ھ میں درجہ ابتدائی عربی میں بحیثیت استاذ آپ کا تقرر عمل میںآ یا، اور میزان الصرف، منشعب، نحومیر وغیرہ نحو وصرف کی بالکل ابتدائی کتابوں سے آپ نے تدریس کا آغاز کیا، سات سال تک ابتدائی کتابیں کامیابی کے ساتھ پڑھالینے کے بعد ۲۴/ذی قعدہ ۱۳۷۲ھ میں درجہ وسطیٰ ب میں ترقی ہوئی، نیز شعبان ۱۳۸۶ھ میں درجہ وسطیٰ الف میں ترقی دی گئی، بعد ازاں ۶/صفر ۱۳۹۱ھ میں آپ ترقی پاکر درجہٴ علیا میں پہنچ گئے اور ساتھ ہی نیابت اہتمام کا منصب بھی تفویض ہوا، اور ۱۳۹۷ھ میں بحیثیت شیخ الحدیث دارالعلوم صحیح بخاری کا درس آپ سے متعلق ہوا، اس سے پہلے طحاوی، موطاء اور صحیح مسلم وغیرہ کتب حدیث کا درس دے چکے تھے۔ اس کے نو سال بعد قائمقام صدرمدرس کے عہدہ پر فائز ہوئے، اور بارہ سال تک بحیثیت قائمقام صدر مدرسی کی خدمات انجام دینے کے بعد ربیع الاوّل ۱۴۰۰ھ میں مجلس شوریٰ نے آپ کو مستقل صدرمدرس مقرر کردیا اور ۱۴۲۹ھ تک ان دونوں منصبوں پر فائز رہے پھر ضعف پیری اور امراض کی کثرت کی بناء پر از خود مجلس شوریٰ میں تحریر دے کر مفوضہ ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوگئے۔
تدریس کی اس پینسٹھ سالہ مدت میں ہر فن کی کتابوں کا درس دیا اور کامیاب درس دیا۔ آپ کا قلب سلیم، علم راسخ اور مزاج شگفتہ تھا اس لئے بغیر کسی خارجی سہاروں کے ترقی، نیک نامی اور قبولیت کے اس بلند وبالا مقام پر پہنچے جہاں ان کے معاصر علماء میں کوئی نہیں پہنچ پایا۔
یہ رتبہٴ بلند ملا جس کو مل گیا ہر اک کا یہ نصیب یہ بخت رسا کہاں
تزکیہٴ نفس: حضرت مولانا اپنے اساتذہ میں سب سے زیادہ حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ سے متاثر تھے، درس اور دیگر مجالس میں ان کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا کرتے تھے اور بسا اوقات ان کے ذکر پر گلوگیر ہوجاتے اور آنکھیں بھر آتیں، تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد انھیں سے بیعت بھی ہوگئے تھے، اور ان کے بتائے ہوئے اوراد و وظائف پر پابندی سے عمل پیرا تھے، حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کی وفات کے بعد اصلاحی تعلق حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ سے قائم کرلیا تھا اور انھیں کی رہنمائی میں سلوک کی منزلیں طے کرکے خلافت پائی۔
شب خیزی آپ کا دائمی معمول تھا بالعموم تین بجے اٹھ جاتے تھے، جب تک ٹانگوں میں طاقت رہی تہجد میں ایک منزل قرأتِ قرآن کا معمول رہا، تہجداداکرنے کے بعد نماز فجر تک ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے، نماز باجماعت کی پابندی اور جمعہ کے دن اذان سے پہلے مسجد میں پہنچ کر نوافل وتلاوت میں مشغول رہنا ایک ایسا عمل تھا جس میں شاذ ونادر ہی تخلف ہوتا تھا۔ حق تعالیٰ مولانا مرحوم کو ان کی علمی ودینی عظمتوں کی طرح وہاں بھی ارفع واعلیٰ درجات سے نوازے۔
اللہم افض علیہ شآبیب رحمتک وعفوک وادخلہ الجنة، واستقمنا من علومہ وبرکاتہ، آمین