از: محمد شمیم اختر قاسمی

ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ

جدیدعلوم وفنون کابانی اسلام ہی ہے

دنیامیں رائج نظام تعلیم پرغورکریں تومعلوم ہوگاکہ یورپ نے آج تک کسی نئے علم وفن کااضافہ نہیں کیا ہے، بلکہ سارے کے سارے علوم وفنون وہی ہیں جو مسلمانوں کے بتائے ہوے ہیں۔ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اس نے اس میں تخصیص پیدا کرکے اسے ایک نیے نام سے متعارف کرایااوراسے دنیاکے سامنے پیش کیا ۔علم قرآن ،حدیث ، فقہ ، میراث ، عقائد، کلام ، تصوف، اخلاق، نفس، بدائع ، عجائب، صرف، نحو، لغة، اشتقاق،الٰہیات،منطق،ریاضیات، حساب، ہندسہ، مساحة، ہیئت، نجوم، رمل، طبیعیات، کیمیا، معدن، طب، فلاحت، معاشیات، عمرانیات، خواب،فال،مقامہ، محاضرات، فروسیہ، بحریات، جمال، ادب،سیرت،سوانح وغیرہ علوم وفنون کے یہ شعبے کیا آج کی پیداوار ہیں اوریہ سب یورپ نے ایجادکیے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ وہ شعبے ہیں جن کی نشان دہی اسلام نے کی ہے اورقرآن و حدیث میں اس کاتذکرہ کسی نہ کسی صورت میں ہواہے۔ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں :

”قرآن مجید میں مختلف علوم ہیں۔اس میں تاریخ کا بھی ذکر ہے ۔اس میں ان علوم کا بھی ذکر ملتا ہے جنہیں ہم سائنس کا نام دیتے ہیں۔مثلا:علم نباتات،علم حیوانات، علم حجر،علم بحر،علم ہیئت ،یہاں تک کہ علم جنین کا بھی ذکر ملتا ہے۔قرآن شریف میں علم جنین کی اتنی مفصل تشریحات آئی ہیں کہ ان کا اس جدید ترین دورتک بھی اثر رہاہے…اسی طرح قرآن مجید میں ہمیں سمندری طوفان کا بھی ذکر ملتا ہے ۔جہاز رانی ،موتی اور مرجان کا بھی خاصا ذکر ملتا ہے۔“(۲۷)

انبیاءِ کرام کی سرگزشت سے بھی پتا چلتاہے کہ وہ لو گ امانت خداوندی کو دوسروں تک پہنچاتے اور ان کے ایمان ویقین کی دنیا کو آلائشوں سے پاک کرکے ان کا رشتہ اللہ سے مضبوط کرنے کی کو شش کرتے تھے ،نیز وقت کی ضرورت کے مطابق مختلف علوم و فنون کو ترقی دینے کی کوشش کی ،یہاں تک کہ ان میں انہیں تخصص کا درجہ حاصل تھا۔ مستدرک حاکم کی روایت ہے ،اس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت داوٴد علیہ السلام زرہ بناتے تھے،حضرت آدم علیہ السلام کاشت کاری کرتے تھے، حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے،حضرت ادریس علیہ السلام سلائی کا کام کرتے تھے،حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرانے کی خدمت انجام دیتے تھے۔

اسلام میں عورتوں کی تعلیم کامسئلہ

اسلام نے علم وحکمت کی بات کو کسی کے لیے خاص نہیں کیا ہے ،اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوے ہیں۔جس طرح مردوں کے لیے علم کاحاصل کرنا ضروری ہے، عورتوں کوبھی اس سے محروم نہیں کیاہے : طَلَب الْعِلْم فَرِیْضَة ٌعَلٰی کُلِّ مَسْلِمٍ۔ (۲۸) خوداللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کوطبقہٴ نسواں کی تعلیم کی بڑی فکررہتی تھی۔ وقت نکال کرآپ انہیں دین واسلام کی باتیں سکھاتے تھے ۔ایک حدیث سے عورتوں کی علمی دل چسپی اور حضور کی تربیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

”عَن اَبِی سَعیدٍ الخُدرِیِّ قَالَ: قَالَ النِّسَاءُ لِلنَّبیِّ صلى الله عليه وسلم غَلَبَنَا عَلَیْکَ الرِّجَالُ فَاجْعَلْ لَنَا یَوماً مِن نَفْسِکَ، فَوَعَدَھُنَّ یَوْماً لَقِیَھُنَّّ فِیْہِ فَوَعَظَہُنَّ وَاَمَرَھُنَّ، فَکَانَ فِیْما قَالَ لَھُنَّ مَامِنْکُنَّ امْرَأةٌ تُقَدِّمُ ثَلاثَةً مِنْ وَلَدِھَا اِلّا کَانَ لَھَا حِجَاباً مِنَ النَّارِ فَقَالَتِ امْرَأةٌ، وَاثْنَیْنِ؟ فَقَال: وَاثْنَیْنِ.“(۲۹)

(حضرت ابو سعید خدری رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ عورتوں نے حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں عرض کیا(آپ سے مستفید ہونے میں ) مردہم سے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے لیے (بھی) کوئی دن مقرر فرمادیں ۔ آپ نے ان سے ایک دن کا وعدہ کرلیا۔اس دن آپ عورتوں سے ملے اور انہیں نصیحت فرمائی اور کچھ احکام دیے ۔ جو کچھ آپ نے ان سے فرمایا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ جو کوئی عورت تم میں سے (اپنے )تین لڑکے آگے بھیج دے گی(یعنی ان کا انتقال ہوجائے) تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آڑ بن جائیں گے۔اس پر ایک عورت نے کہا اگر دو (لڑکے بھیج دے) آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہاں اور دو(کا بھی یہی حکم ہے۔)

 جس کسی کو اللہ نے لڑکیوں سے نوازا ہے اور وہ اس کی بہترین تربیت کرکے مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس محنت کے بدلے میں اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ کے رسول نے فرمایا:

”مَنْ عَالَ ثَلاثَ بَنَاتٍ، فَاَدَّبَھُنَّ وَزَوَّجَھُنَّ، وَاَحْسَنَ اِلَیْھِنَّ، فَلَہُ الْجَنَّةَ.“(۳۰)

(جس کسی نے اپنی تین لڑکیوں کو اچھی تعلیم وتربیت کی اور پھر اچھے طریقے سے اس کو بیاہ دیا تو اس کے عوض اللہ اسے جنت عطا کرے گا۔)

ایک اور حدیث میں اس بشارت کا مستحق اس شخص کو قرار دیا ہے جن کے پاس دو لڑکیاں ہیں۔ (۳۱) اس طرح کی اور بہت ساری حدیثیں ہیں جن میں عورتوں کی تعلیم کو ضروری قراردیا ہے اور اس کے لیے تعلیم کا انتظام کرنے کاحکم اللہ کے رسول نے دیا ہے۔

جہاں جہاں علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں مذکرکاصیغہ استعمال ہواہے ، جب مذکرصیغہ بولاجاتاہے تواس میں دونوں شامل ہوتے ہیں۔عربی میں اس کو ’تغلیب‘ کہاجاتاہے۔ یعنی غالب چوں کہ مرد ہیں اس لیے ان کوخطاب کیاجاتا ہے ۔ مگرطبقہ نسواں بھی اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کوئی قرآنی آیت نازل ہوتی یا کو ئی نیا حکم آتا تو آپ پہلے اسے مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے اور پھر اسے عورتوں کی محفل میں جاکر سناتے۔ بقول ڈاکٹر حمید اللہ:

”اسلامی تاریخ میں یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ رسو ل اللہ کو عورتوں کی تعلیم سے اتنی ہی دل چسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے ۔“(۳۲)

مسلمانوں کا علمی ذوق

کسی زمانہ میں مسلمان کے ذوق کایہ عالم تھاکہ ہروقت اورہرآن پڑھنے پڑھانے اور تحقیق وتصنیف میں لگے رہتے تھے ۔ ان کے اس ذوق کی بدولت دنیاعلم سے مالامال ہوئی۔انسانی زندگی کاکوئی ایساگوشہ نہیں جن میں مسلمانوں نے اپنی خدمات انجام نہ دی ہوں۔امام زہری (۵۰ھ- ۱۲۴ھ/۶۷۰-۷۴۲ء)بہت بڑے محدث گزرے ہیں۔ حدیث میں ان کابہت بڑامقام ہے۔ وہ ہروقت حدیث کی چھان بین اورکتابوں کے مطالعہ میں لگے رہتے تھے ۔مدینہ کے ایک ایک انصاری کے گھر جاتے ، جوان، بوڑھے، عورت،مردجو مل جاتا یہاں تک کہ پردہ نشیں عورتوں سے جاکر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے اقوال اور احادیث پوچھتے اور ان کو قلم بند کرتے۔انہیں اتناموقع نہیں ملتا تھاکہ کسی اورجانب متوجہ ہوسکیں۔ان کے شوق علم کودیکھ کران کی بیوی کہاکرتی تھیں کہ خداکی قسم! اگرزہری میرے اوپر سوسوکنیں لے آئیں تووہ میرے اوپراتنی شاق نہیں ہوں گی جتنی کہ ان کی کتابیں میرے اوپربوجھ معلوم ہوتی ہیں۔

امام ابن جوزی(۵۰۸-۵۹۷ھ/۱۱۱۴-۱۲۰۱ء) سے کون واقف نہیں ہے۔پوری زندگی انہوں نے کتابوں کے لکھنے میں گزاردی اورہزاروں سے زیادہ مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ بعض کتابیں ایسی ہیں جو ضخیم اور کئی کئی جلدوں میں ہیں۔اس زمانے میں فاؤنٹین پین کا رواج نہیں تھا،بول پین بھی نہیں تھے، ٹائپنگ مشین بھی نہیں تھی ،پورے اور لکڑی کے قلم تھے، جس کو تراش کرلکھاجاتا تھا۔ قلموں کے تراشے کوجمع کرنے کاحکم انہوں نے اپنے خادم کودے دیاتھا اور تاکیدکردی تھی کہ ایک چھلکا بھی ضائع نہ ہونے پائے ۔ وہ اکھٹے کیے جاتے رہے ، بالآخرجمع کرتے کرتے کوٹھری بھرگئی ۔ابن جوزی نے وصیت کی کہ میرے انتقال کے بعدمیرے غسل کے واسطے پانی اسی اندوختہ تراشے سے گرم کیاجائے ۔ ممکن ہے کہ اس کوشش کے طفیل میں اللہ رب العزت میری مغفرت فرمادے ۔ چنانچہ ایساہی کیاگیا،پھر بھی تراشا بچ گیا۔(۳۳)

ہمارے اسلاف نے زندگی ایسی گزاری کہ صدیاں گزرجانے کے باوجودآج بھی وہ ہمارے لیے مثل زندہ کے موجودہیں اورگھلے ملے ہوئے ہیں ۔ یہ اعزاز انہیں کیوں ملا ؟ صرف اس لیے کہ انہوں نے دنیامیں علم کووسعت دی ۔ امام ابو حنیفہ رحمة الله عليه جن کو گزرے ہوے ایک ہزارسال سے بھی زیادہ کاعرصہ ہوگیا۔مگردنیامیں ان کانام اس کثرت سے لیاجاتاہے کہ کسی زندہ آدمی کانہیں لیاجاتا۔ امام مالک رحمة الله ،امام شافعی رحمة الله امام احمدبن حنبل رحمة الله کا۲۴/ گھنٹوں میں کتنی بارنام لیاجاتاہے کوئی اندازہ کرسکتاہے ۔ امام بخاری رحمة الله عليه کانام ہروقت طالبان علوم نبوت کی زبانوں پررہتاہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه،امام غزالی رحمة الله عليه ،امام ابن تیمیہ رحمة الله عليه اوردوسرے اکابرین کولوگ بھلاسکتے ہیں؟ان کی لکھی ہوئی کتابیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

بعض علمی اداروں کی بین الاقوامی شہرت

مرور زمانہ کے ساتھ مسلمانوں نے اپنے وطن اور ملک میں تعلیم وتدریس کے بڑے بڑے علمی مراکز قائم کیے۔ یہ مراکز نہ صرف مرکزی حکومت کی توجہ اور دل چسپی کے مرہون منت تھے،بلکہ عام مسلمان بھی نجی طورپر علمی ادارے قائم کرتے تھے۔ایسے اداروں کی بڑی لمبی فہرست ہے ۔ ان میں خاص طور پر دوعلمی مراکز نے بڑی شہرت حاصل کی ،جن کی چمک دمک سے یورپ بھی منور ہوا۔ عہد عباسی میں علم وفن کی جتنی ترقی ہوئی دنیا اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔علم وفن کا کون سا ایسا گوشہ تھا جس میں مسلمان علماء اور حکما ء کی گران قدر خدمات نہ رہی ہوں۔ابراہیم عمادی ندوی لکھتے ہیں:

”عہد عباسی جہاں عدل وانصاف ،امن وامان،رواداری ،رعایا کی خبر گیری اور خوش حالی میں اپنی نظیر آپ تھا،وہیں علوم وفنون اور صنعت و حرفت میں ترقی ہوئی اور تہذیب وتمدن اپنے عروج تک پہنچا۔خلیفہ ہاروں رشید نے ایک عظیم الشان کتب خانہ بغداد میں قائم کیا۔تاریخ شاہد ہے کہ علم ریاضی ،ہندسہ ،الجبرا ،علم ہیئت، معدنیات، طب علم نفس و حیوانات و نباتات،آلات رصد اور صناعی، وغیرہ میں حیرت انگیز کارنامے انجام پذیر ہوے جو آج کی دنیا کا عظیم سرمایہ علم ودانش ہے۔ علوم عقلیہ اور دیگر زبانوں سے واقفیت کا ایک عام چلن طبقہ علم ودانش میں قائم تھا۔ سلسلہ تالیف وتراجم سے بغداد میں وراقوں اور کتب فروشوں کی کثرت ہوگئی۔ اقوام عالم سے ذی علم ودانش کھنچ کھنچ کر بغداد آئے اور ان کی قدرو منزلت ہوئی۔نہ علوم وفنون کی قدیم کتابوں کے ترجمے کرائے گئے بلکہ ان کتابوں کے پڑھنے کا شوق دلایا ۔ اس کا نتیجہ تھا کہ عہد عباسی میں علم کا بازار گرم ہوا اور سلطنت حکمت قائم ہوئی۔ خلفاءِ عباسی نے وابستگان علم وفن کو اپنا مقرب خاص بنایا اور ان کے مناظر وں اور علمی مباحث سے دل چسپی لی۔“(۳۴)

اندلس کے قرطبہ کی علمی رفعت کو کون بھلا سکتا ہے۔ یورپ کو جب اپنی کم مائیگی اور بے وقعتی کا احساس ہو اتو اس نے للچائی ہوئی نظر اس پر ڈالی اور یہاں سے علم کے موتی بٹورنے کی جو جدوجہد کی ،جس میں وہ کامیاب ہوا اور پھر اس کی وجہ سے اس نے جو ترقی کے منازل طے کیے ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔قرطبہ کی علمی مرکزیت اور رفعت کا ذکر کرتے ہوے مصنف مذکورلکھتے ہیں:

”اندلس کی طاقت ور حکومتوں نے جہاں بے شمار جنگیں فرانس سے لڑیں اور اندرونی بغاوتیں فرو کیں وہیں ملک میں امن وامان،عدلیہ کو آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔مورخ لکھتے ہیں کہ ”قانون کی ایسی حکم رانی تھی کہ اجنبی تجار سونا اچھالتے ہوے ناقابل گزاشت راستوں سے بے خوف نکل جاتے اور کوئی پوچھتا نہ تھا۔“تجارت،سائنس وحرفت وحکمت کو ایسی بلندیاں حاصل ہوئیں جو چشم فلک نے پھر نہ دیکھیں۔ بحری اور بری فوج کی قوت کی دنیا میں کوئی نظیر نہ تھی۔ شاہان اندلس جہاں بہادر اور ہوش مند سپاہی تھے جن کی ہیبت پورے یورپ پر طاری تھی وہیں علم وفن کے شیدائی بھی تھے۔ ابن خلدون کے مطابق ”حکم نے ہسپانیہ کو ایک علمی منڈی بنادیا تھا،تصنیفات پر گراں قدر انعام سے نوازتا ۔“ حکم رانوں میں یک جہتی اور یگانگت کی روح پھونکی اور ہر مذہب وملت کے عالموں اور دانش وروں کو درباروں میں عزت حاصل تھی۔“(۳۵)

مسلمان سائنس داں اور ان کے کارنامے

عہد ماضی میں مسلمانوں نے تمام علوم کو وسعت دینے کی کوشش کی۔ اس سے ان کی بڑی نیک نامی ہوئی۔ دنیا میں سب سے پہلاجغرافیہ دمشق سے لے کربغدادتک کا لکھا گیا۔یہ کام عباسی خلیفہ کے حکم سے انجام پایا۔ دنیا میں سب سے پہلا تاریخ کا مدون ابن خلدون (۷۳۲- ۸۰۸ھ/ ۱۳۳۲- ۱۴۰۶ء)تھا۔ آج تک اس کاتاریخی مقدمہ سارے مورخین کے لیے نشان راہ بناہوا ہے۔ اس سے پہلے دنیاتاریخ کے علم سے ناواقف تھی ۔اس میں عربی علوم اور تہذیب کے تمام شعبوں سے بحث کی گئی ہے ۔مصنف کے خیالات کی گہرائی،فصاحت بیان اور اصابت رائے کے لحاظ سے یقینا اپنے زمانے کی سب سے اہم تصنیف ہے اور بہ ظاہر کسی مسلمان کی کوئی بھی تصنیف اس سے سبقت نہیں لے جاسکی۔(۳۶) اس کے مقدمہ کا دنیا کی بیش تر معروف زبان میں ترجمہ ہوا اور صرف اس کے مقدمہ پر لوگ تحقیقی کام کرکے ڈگریاں حاصل کررہے ہیں۔

واسکوڈی گاماہندوستان آنے کے لیے اپنی کشتی سمندر میں دوڑاتاہے ، مگراسے راستہ نہیں ملتااوروہ اس ساحل سے اس ساحل تک بھٹکتارہتاہے ۔ اسی عالم میں اس کی ملاقات ایک عرب جہازراں احمد بن ماجدسے ہوتی ہے ، اس کے بتائے ہوے راستہ پرچل کروہ ہندوستان پہنچتا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔(۳۷)

آج لوگ کہتے ہیں کہ فضاؤں میں اڑنااورقلابازی لگانایہ تمام محیرالعقول کارنامے یورپ نے ایجاد کیے ہیں۔ یہ صوردرست نہیں ہے ۔ یہ کارنامہ صدیوں پہلے عباس ابن فرع نے انجام دیا،جوبربرخاندان سے تعلق رکھتاتھا۔یہ بہت بڑاسائنس داں تھا۔اس نے اپنی پوری زندگی تجربہ گاہ میں گزاری ۔اس کی زندگی کامشن ہی یہی تھاکہ کسی طرح انسان پرواز کے قابل ہوجائے ۔اس نے برسہابرس کی محنت اورتحقیق کے بعدیہ کامیابی حاصل کی کہ انسان پروازکرسکتاہے ۔چنانچہ اس نے دو برابر وزن کے پنکھ بنائے ،پھرتجربہ کیاکہ واقعی میری تحقیق درست ہے کہ نہیں،جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ فضاؤں میں اڑسکتاہے ۔ تو پھر اس نے خلیفہٴ وقت کودعوت دی کہ وہ فلاں میدان میں پہنچیں اوراپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ انسان کس طرح اڑسکتاہے ۔ ان کی اس نئی ایجادکودیکھنے کے لیے خلیفہ کے ساتھ ہزاروں لوگ میدان میں جمع ہوئے ، جہاں اس نے کافی دور تک فضاؤں میں اڑکردکھایا۔اس واقعہ نے سارے لوگوں کوحیرت میں ڈال دیا۔

ابونصرفارابی(۲۰۷-۳۳۹ھ/۸۲۲-۹۵۰ء) کے متعلق دل چسپ روایت یہ ملتی ہے کہ اسے ارسطوکی ایک کتاب ہاتھ لگی جس کانام’ کتاب النفس‘ ہے ، اس کا اس نے باربارمطالعہ کیااوراس پرمفیدحاشیے چڑھائے ،جب اس کاانتقال ہواتووہ کتاب لوگوں کے ہاتھ لگی، ابونصرفارابی جیسا محقق ،منطقی اورعظیم سائنس داں کتاب کے اوپرلکھ چھوڑا ہے کہ میں نے اس کتاب کاسومرتبہ مطالعہ کیاہے ۔

ابو بکرمحمد بن زکریا رازی(۲۶۷-۳۲۰ھ/۸۴۰-۹۳۲ء) نے دواوٴں کے صحیح وزن کے لیے’میزان طبی‘ایجاد کیا۔’الکحل‘ بھی اسی کی ایجاد ہے ۔اس نے ’چیچک‘ جیسی مہلک بیماری پر تحقیق کرکے اس کے علاج کی تفصیل بیان کی ،جو اس موضوع پر پہلی کتاب ہے۔عمل جراحی کا کارآمد آلہ بنایا،جس کو’ نشتر‘ کہتے۔(۳۸)

ابن سینا(۳۷۰-۴۲۸ھ/۹۸۰-۱۰۳۷ء)پہلاشخص ہے جس نے روشنی کی رفتار کو ثابت کیا ۔’ورنیر‘ پیمانے کا موجد بھی یہی ہے۔اس سے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ناپا جاتا تھا۔ اس نے فلسفہ کے موضوع پر’کتاب النجاة‘ لکھی ۔اس کے بعض خیالات پر لوگوں نے بڑا ہنگامہ کیا اور اعتراضات خط میں لکھ کر بھیج دیے۔ابن سینا نے خط پڑھا ، عشاء کی نمازکے بعد مصلیٰ پرہی اس کا جواب لکھنے بیٹھ گیا اور اس کا مفصل جواب(سو صفحات میں) بغیر کسی کتاب کودیکھے، اپنے حافظہ و مطالعہ کی روشنی میں لکھ دیا، اس کے بعد وہ سویا۔ خط لانے والے نے فجر میں دیکھا کہ جواب مصلیٰ کے نیچے رکھا ہوا ہے۔(۳۹)

ان کے علاوہ سیکڑوں حکماء،فلاسفہ اور سائنس داں ہوے ہیں جنہوں نے علم وفن کے میدان میں کمال وشہرت حاصل کی۔ان کے علمی وسائنسی کارناموں کی یہاں تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی،البتہ کچھ لوگوں کے نام یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔ خالد بن یزید،ابو اسحاق ابراہیم بن جندب،نو بخت اور فضل بن نو بخت،ماشاء اللہ ، جابر بن حیان،احمد عبداللہ حبش حاسب، عبدالمالک اصمعی، بنو موسیٰ شاکر، عطارد الکاتب، حکیم یحییٰ منصور، حجاج بن یوسف ، عباس بن سعید الجوہری، خالدبن عبدالملک المروزی،محمد بن موسیٰ خوارزمی،احمد بن موسیٰ شاکر، ابوعباس احمد بن کثیر فرغانی، ابو طیب سند بن علی،علی بن عیسیٰ اصطرلابی،ابوالحسن علی بن سہل، ابو جعفر محمد بن موسیٰ شاکر،ابو یوسف یعقوب بن اسحاق ، حسن بن موسیٰ شاکر، ثابت بن قرہ حرانی،جابر بن سنان حرانی،ابو عبداللہ محمد بن جابر البنانی،سنان بن ثابت حرانی، ابو منصور موفق بن علی ہروی،عریب بن سعد الکاتب،ابو عبداللہ محمد بن احمد خوارزمی، حکیم ابو محمد العدلی القاینی، ابوالقاسم عمار موصلی،ابوالقاسم مسلمہ بن مجریطی، ابوالقاسم ابن عباس زہراوی، ابوالحسن علی بن عبدالرحمن یونس صوفی، ابو الوفا محمد بن احمد بوزجانی، ابوعلی حسن بن الہیثم، احمد بن محمد سجستانی،ابو الحسن علی احمد نسوی،علی بن عیسی،احمد بن محمد علی مسکویہ، ابوریحان محمد بن احمد البیرونی،ابو حاتم مظفر اسفرازی،امام محمد بن احمد غزالی،ابو الفتح عمر بن ابراہیم خیام،ہبة اللہ ابوالبرکات بغدادی،ابو عبداللہ الشریف محمد بن الادریسی،علاء الدین ابوالحسن ، لسان الدین بن الخطیب ،الکندی اورابن رشدوغیرہ کے کارناموں سے دنیاواقف ہے۔(۴۰)

جدید نظام تعلیم کے بعض نقائص

علوم وفنون کے میدان میں یورپ نے جوترقی کی ہے اور اس نے جونئی نئی ایجادات دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس سے بڑی آسانیاں ہوگئی ہیں،لیکن اسی کے ساتھ بہت سی پریشانیاں بھی لاحق ہوئی ہیں،وہ صرف اس وجہ سے کہ اس نے تہذیبی قدروں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ہمارافرض ہے کہ ہم اچھی چیزوں کو حاصل کریں اوراپنے تجربات و مشاہدات اورعلم کی روشنی میں ان خرابیوں کودورکرنے کی کوشش کریں۔ یورپ نے جوکچھ بھی کیاہے اورکررہاہے اسے اس نے مسلمانوں سے سیکھاہے، اسلام سے سیکھا ہے ۔ اسے مسلمانوں کے علم کی اہمیت وافادیت کاپوری طرح اندازہ تھا،اس لیے اس نے طویل مدت تک اس کوحاصل کرنے کی کوشش کی ،اس کے بعداسے یہ مقام ملا۔ علم پرکسی کی اجارہ داری نہیں ہے ، علم و حکمت کی بات توسیکھنے ہی کی چیزہے۔

 ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔دینی تعلیم سے جڑے لوگ بھی ہیں اور خالص عصری علوم سے آراستہ افراد بھی ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو کم وبیش دونوں طرح کے علوم کے حامل ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دن بہ دن دینی تعلیم کا مزاج و رجحان کم ہوتا جارہا ہے ۔جو لوگ عصری تعلیم سے جڑے ہوے ہیں ،ان میں سے بیش تر دینی تعلیم سے وابستہ لوگوں کو جاہل محض سمجھتے ہیں اوران پر طرح طرح کی تنقید کرتے رہتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ مدارس میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اس کا کوئی حاصل نہیں ،ان کی تدریس بند کردینی چاہیے اور انہیں وہ چیز پڑھائی جانی چاہیے جس کی فی زمانہ شدید ضرورت ہے اور جس کو پڑھ کر آدمی ڈھیر ساری دولت حاصل کرسکتاہے۔تعلیم کا مقصد روپیہ اور جاہ و منصب حاصل کرنا ہرگز نہیں ہے ۔ اس کے ذریعے رضائے الٰہی حاصل کرنا اصل مقصد ہے ۔اللہ کے رسول نے فرمایا:

”مَنْ تَعَلَّمَ عِلْماً، مَمَّایُبْتَغی بِہ وَجْہُ اللّٰہِ، لا یَتَعَلَّمُہُ اِلَّا لِیُصِیْبَ بِہ عَرَضاً مِنَ الدُّنْیَا، لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ یَوْ مَ الْقِیَامَةِ، یَعْنِی رِیْحَھَا.“(۴۱)

(جو شخص اس علم کو جس کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کی جاتی ہے ، اس غرض سے حاصل کرتا ہے کہ اس سے کوئی دنیوی غرض حاصل کرے، تو قیامت کے دن ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا۔)

دینی تعلیم سے وابستہ لوگوں کو وہ دولت حاصل ہے، جس سے دین ودنیا دونوں آباد ہے ۔ مغربی مزاج میں ڈھل کر دنیا چاہے کچھ بھی کہے اس سے بہتر کوئی تعلیم اور نظام تعلیم ہو ہی نہیں سکتا۔اگر یہی صورت حال رہی ، دینی تعلیم سے لوگ بے گانہ ہوتے گئے توایسے ہی حالات کے لیے اللہ کے رسول نے فرمایا ہے:

”قالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم اِنَّ مِنْ اَشْرَاطِ السَّاعَةِ اَنْ یُرْفَعَ الْعِلْمُ، وَیَثْبُتَ الْجِھْلُ، وَیُشْرَبَ الْخَمْرُ، وَیَظْہَرَ الزِّنَا.“(۴۲)

(رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور جہل (اس کی جگہ) قائم ہوجائے گا اور (علانیہ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔)

آج کی معروف اصطلاح میں اس وقت مسلمانوں میں بھی بڑے بڑے مفکر، معلم، سماجی وسیاسی رہنما،دانش ور، فلاسفہ،حکماء اور سائنس داں موجود ہیں۔ ایسے لوگ آئندہ بھی پیدا ہوتے رہیں گے۔ ان سے ملک وملت کوجو فائدہ ہورہا ہے وہ اپنی جگہ مسلم ہے،مگر کیا وہ اسلام کے نمائندے ہیں؟مسلمان جس طرح کی تعلیم حاصل کریں اور ترقی کرکے آسمان کی بلندیوں کو چھو لیں،اگر ان کے ذریعہ اسلام کی نمائندگی نہیں ہوتی تو ایسی تعلیم پر فخر کرنا اور اسے بڑھاوادینا بے معنی ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو خیر امت کے اعزاز سے نوازا ہے ، اس کا حق اسی وقت ادا ہوگا جب اس کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کیاجائے:

”کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ.“(آل عمران:۱۱۰)

(تم بہتریں امت ہو ، لوگوں کے درمیان اس لیے بھیجی گئی ہو کہ انہیں نیکی کا حکم دو اور برائیوں سے روکو اور اللہ پر ایمان رکھو۔)

کمال پیداکرنے کے لیے محنت شرط ہے

عہد نبوی صلى الله عليه وسلم میں بعض صحابہٴ کرام غربت وافلاس کی بناپربھیک مانگنے پرمجبور تھے، مگراللہ کے رسول نے انہیں ایساکرنے نہیں دیا،ان کے لیے کسب معاش کے مواقع فراہم کیے ۔ کھیتی باڑی اور محنت ومزدوری کرنے کاحکم دیااوراس کے لیے سامان مہیاکیے ۔ ایک صحابی کواپنے ہاتھ سے کلہاڑی تیار کرکے دی اورکہا جنگل میں جاوٴ، لکڑیاں کاٹواوراسے فروخت کرو، تاکہ تمہاری غربت دور ہو۔ اللہ نے ان کی محنت کو بارآور کیا اور چنددنوں میں ہی وہ صاحب مال ہوگئے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

 ”اَنَّ رَجُلاًمِنَ الْاَنْصَارِ اَتَی النَّبیَّ صلى الله عليه وسلم یَسْأَلُہُ ،فَقَالَ: اَمَا فِیْ بَیْتِکَ شَیٴٌ؟ قَالَ: بَلٰی حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَہُ وَنبْسُطُ بَعضَہُ، وَقَعْبٌ نَشْرَبُ فِیْہِ مِنَ الْمَاءِ. قَال: اِئْتِنِی بِھِمَا، قَالَ: فَاَتَاہُ بِھِمَا. فَاَخَذَھُمَا رَسُولُ اللّٰہ بِیَدِہ، وَقَالَ: مَنْ یَشْتَرِی ھٰذَیْنِ؟ قَالَ: رَجُلٌ اَنَا اٰخُذُ ھُمَا بِدِرْھَمٍ، قَالَ: مَن یَزِیْدُ عَلٰی دِرْھَمٍ؟ مَرَّتَیْنِ اَوْثَلاثاً. قَالَ رَجُلٌ: اَنَا اٰخُذُھُمَا بِدِرْھَمَینِ فَاَعْطَاہُمَا اِیَّاہُ وَاَخَذَ الدِّرْہَمَیْنِ فَاعْطَا ھُمَا الاَنصَاریَّ، وَقَال: اشتَرِ بِاَحْدِھِمَا طَعَاماً فَانْبِذْہُ اِلیٰ اَھْلِکَ وَاشْتَرِبِالآخَرِ قُدُوماًفَاتِنِی بِہ، فَاَتَاہُ بِہ فَشَدَّ فِیْہِ رَسُولُ اللّٰہ عُوْداً بِیَدِہِ ثُمَّ قَالَ لَہ: اِذْھَبْ فَاَحْتَطِبْ وَبِعْ وَلَا اَرَیَنَّکَ خَمْسَةَ عَشَرَ یَوماً، فَذَھَبَ الرّجُلُ یَحْتَطِبُ وَیَبِیْعُ فَجَاءَ وَقَدْ اَصَابَ عَشَرَةَ دَرَاھِمَ فَاشْتَری بِبَعْضِھَا ثَوباً وَبَبَعْضِھَا طَعَاماً، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ : ھٰذَا خَیْرٌ لَکَ مِنْ اَنْ تَجِیٴَ الْمَسْأَ لَةُ نُکْبَتَةً فِی وَجْھِکَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ.“ (۴۳)

(قبیلہ انصاری میں سے ایک شخص رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس سوال کرنے کوآیا۔ آپ نے پوچھا تیرے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ وہ بولا کیوں نہیں ، ایک کمبل ہے ،کچھ حصہ اس میں سے اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:اسے لے کر آوٴ۔ وہ گیا اورلے آیا۔آپ نے دونوں کو لیا اور فرمایا:کون خریدتا ہے ان دونوں چیزوں کو؟ایک شخص نے کہاکہ میں اسے ایک درہم کے عوض خریدتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اس سے زیادہ اور کون دے گا؟ دو یا تین مرتبہ ایساہی فرمایا۔ دوسرے نے کہا میں دو درہم میں اسے لینا چاہتا ہوں۔ آپ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم اس سے لے لیے۔ صاحب سامان کو دونوں درہم دے کر فرمایا : ایک درہم کا اناج خریدلو اور اپنے گھر میں رکھ دو اور ایک درہم سے کلہاڑی لے کر آوٴ( خریدلو)۔وہ کلہاڑی لے کر آیا،آپ نے اس کا دستہ اپنے ہاتھو ں سے لگایا اور فرمایا:اسے لے کر جنگل میں جاوٴ ، لکڑیاں کاٹو اور اسے فرو خت کرو۔پندرہ دن تک میں تجھے یہاں نہ دیکھوں۔ وہ شخص گیا اور لکڑیاں کاٹتااور اسے بیچتارہا ۔ پھر وہ آیا ، اس طرح اس نے دس درہم کمالیے۔ کچھ درہموں کا اس نے کپڑا خریدا اور کچھ داموں کا غلہ ۔ آپ نے فرمایا: تیرے لیے یہ بہتر ہے اس سے کہ سوال کا تیرے منھ میں ایک داغ ہو قیامت کے دن۔)

 اسی حضرت سعدانصاری رضى الله تعالى عنه ایک دن حضور کی خدمت میں آئے اور سلام علیک کر کے مصافحہ کیا۔ آپنے ان کے ہاتھوں کی کیفیت کومحسوس کرلیا ،دیکھاتواس کا سبب پوچھا؟ حضرت سعد رضى الله تعالى عنه نے فرمایا:

”یٰا رَسُول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم ، اضْرب بِالْمَرِّ وَالمِسْحَاة فَاُنفَقَہ عَلی عَیَالِی، فَقبَّل یَدَہ رسول اللہ ، وَقَال: ھٰذِہ یَد لَاتَمَسَّھَا النَّار.“ (۴۴)

(اللہ کے رسول بیوی بچوں کاپیٹ پالنے کے لیے دن بھر کسلہ بیلچہ چلاتا ہوں، اس کے نتیجے میں میرے ہاتھوں کایہ حال ہوگیاہے ۔ حضور نے ان کے ہاتھوں کو چوم لیااورفرمایا ان ہاتھوں پر جہنم کی آگ حرام ہے ۔)

کسی چیزکوحاصل کرنے کے لیے حرکت اور محنت شرط ہے بغیراس کے کھانابھی منھ میں نہیں پہنچتا۔ حضرت مریم بے بسی کے عالم میں ایک کھجورکے درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی بھوک اور پیاس سے تڑپ رہی ہیں۔اللہ چاہتا تو کھجور سیدھا ان کے منھ میں ٹپکا دیتا، مگرایسا نہیں کیا۔ مریم سے کہااپنے ہاتھ پاوٴں کو حرکت دو اور اپنی محنت سے اپنی خوراک حاصل کرو۔قرآن کریم نے اس واقعہ کو اس انداز میں بیان کیا:

”قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیّاً. وَہُزِّیْ إِلَیْْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَیْْکِ رُطَباً جَنِیّاً. فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْْنا.“ (مریم:۲۴-۲۶)

(غم نہ کر(اے مریم) تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے اورتو اس درخت کے تنے کو ہلا ،تروتازہ کھجوریں گریں گی، اسے اٹھاکر کھا اور پانی پی کر آنکھیں ٹھنڈی کر۔)

غورکیجیے حضرت موسیٰ  عليه السلام کا فرعون تعاقب کررہاہے ۔اللہ کا برگزیدہ نبی اس کے شرسے بچنے کے لیے بھاگ رہا ہے،دریاکے کنارے پر جاکر راستہ بندنظرآتاہے ۔ عجب نہیں کہ فوج آکر گرفتار کرلے ۔ اللہ چاہتاتواپنی حکمت سے پانی کے درمیان فورا راستہ بنادیتا اور وہ بہ آسانی اس سے پار ہوجاتے،مگر ایسا نہیں کیاگیا، بلکہ موسیٰ عليه السلام سے کہا تم اپنے عصاکوپانی کی سطح پر مارو۔ عصا مارتے ہی راستہ بن گیا اور وہ اس کے ظلم سے بچ گئے ۔ (۴۵)

خواتین اسلام کی ناقابل فراموش خدمات

اسی شوق وجذبہ کانتیجہ ہے کہ عہدنبوی میں کئی خواتین نے علمی میدان میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔کسی نے تجارت ومعیشت میں شہرت حاصل کی تو کسی نے طب و جراحت میں مہارت پیدا کی تو کچھ نے دوسرے ضروری امور انجام دیے۔ام المومنین ام سلمہ رضى الله تعالى عنها اور حضرت عائشہ رضى الله تعالى عنها نے علوم نبوی کی اشاعت میں جو خدمت انجام دی ہیں اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔حضرت عائشہ  رضى الله تعالى عنها کو تو فقیہ وقت کا درجہ ملا ہوا تھا،ان کی وجہ سے بہت سے پیچیدہ مسائل کا حل نکل کر سامنے آیا۔

امام ربیعہ ر ائے رحمة الله عليه جو امام مالک رحمة الله عليه کے برگزیدہ استاد ہیں، مادر شکم ہی میں تھے کہ ان کے والد خلیفہ وقت کے حکم سے جہاد میں چلے گئے۔جاتے وقت انہوں نے ایک بڑی رقم گھر کا خرچ چلانے کے لیے بیوی کو دی۔

ستائیس سال بعد وہ گھر لوٹے،دروازے پر دستک دی، ربیعہ نکل کر آئے۔ ابو عبدالرحمن فروخ گھر میں داخل ہونا چاہتے تھے ، انجان سمجھ کر اور مصلح دیکھ کر ربیعہ گھر میں داخل ہونے نہیں دے رہے تھے۔دونوں اپنا اپنا گھر کہہ کر حق جتانے لگے۔سخت مزاحمت ہوئی اور لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ اسی اثنا میں ان کی والدہ اندرسے نکل کر آئیں، دونوں کا تعارف کرایا اور دونوں کو اندر لے کر آئیں۔کچھ دن بعد فروخ نے بیوی کو دی ہوئی رقم کا حساب مانگا۔ بیوی نے کہا جلدی کیا ہے ،پائی پائی کا حساب دے دوں گی ۔ ایک دن امام ربیعہ رائے مسجد نبوی میں درس دے رہے تھے،طالبان علم کا بڑا حلقہ لگا ہوا تھا۔فروخ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے گئے ،نماز سے فارغ ہوے تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے جو درس دے رہا ہے اور حاضرین بڑی توجہ سے ان کی باتوں کو سن رہے ہیں ،چوں کہ کافی دور تک استفادہ کرنے والے بیٹھے ہوے تھے ، دور ی کی وجہ سے ربیعہ کاچہرہ دیکھنے میں نہیں آتا تھا ، لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون آدمی درس دے رہا ہے جس کے درس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے۔ بتانے والے نے بتایا یہ ریبعہ بن عبدالرحمن فروخ ہیں۔سنتے ہی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بیوی کے پاس آئے اور کہا میرا بیٹا اتنا بڑا عالم اور اس لائق کہ لوگوں کی بھیڑاس کے گرد جمع ہے ۔ اب بیوی نے کہا تیس ہزار دینار چاہیے ،یا اپنے بیٹے کی زندگی ، انہوں کہا :نہیں یہ۔بیوی نے کہا وہ ساری رقم میں نے اس کی تعلیم وتربیت پر صرف کردی۔اس پر عبدالرحمن نے کہا بے شک تونے اس رقم کو ضائع نہیں کیا ،میری کمائی بڑی کام کی نکلی۔( ۴۶)

تاریخ میں ایسی بہت سی خواتین ہیں جن کے ذریعہ علم وعمل کے چشمے ابلے او ر بڑی تعداد میں لوگوں نے ان سے علم حاصل کیاتھا۔ابن عربی رحمة الله عليه کہتے ہیں کہ میں نے کئی عورتو ں سے علم حاصل کیااورمیں ان کاشاگردہوں۔ ابن عساکرکہتے ہیں کہ میں نے جو مختلف علوم حاصل کیے ان کے حاصل کرنے میں عورتیں بھی میری اساتذہ رہی ہیں۔ حضرت رابعہ بصری  کے دامن فیض سے نہ معلوم کتنے لوگوں نے سیرابی حاصل کی ۔ انہوں نے زہدوتقوی اور توکل کی جو مثال قائم کی ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔امام شافعی کو فقہ میں بڑا اونچا مقام حاصل ہے، انہوں نے بھی عورتوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ہندوستان کے مسلم دور حکومت میں عورتوں نے علمی میدان میں بڑی شہرت حاصل کی اور ان کی دل چسپی سے یہاں کئی علمی مراکز قائم ہوے۔ رضیہ سلطانہ کے عہدمیں دومدرسے عورتوں کی تعلیم کے لیے دہلی میں قائم تھے ۔ مدرسہ خیر المنازل ،ماہم بیگم، مدرسہ بیکا بیگم ،مدرسہ اکبری بیگم،مدرسہ فتح پور بیگم ،مدرسہ جہاں آرا بیگم،مدرسہ حیات النسا، مدرسہ والدہ غازی الدین خان ،مدرسہ راجی بیگم کو کس نے قائم کیا؟عورتوں نے۔ مکہ مکرمہ میں جومدرسہ صولتیہ چل رہاہے وہ ایک خاتون صولت النسا بیگم کلکتہ کابنوایاہواہے ۔

مادہ پرستانہ تعلیمی نظام نے عورتوں کو کیا دیا؟

آج مسلم لڑکیاں بڑی تعدادمیں تعلیم سے جڑی ہوئی ہیں مگران کی تعلیم سے معاشرہ کوکیا مل رہا ہے؟ ہم نے تعلیم میں افراط و تفریط سے کام لیناشروع کردیاہے اسلام کے بتائے ہوے طریقے پرہم انہیں تعلیم نہیں دے رہے ہیں۔اس لیے تعلیم کے نام پربے حیائی دن بہ دن عام ہوتی جارہی ہے اور برائیاں اپنی بنیادیں مستحکم کررہی ہیں۔بعض پیشہ ورانہ علم حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور نہ اسلام اس سے منع کرتاہے ،مگریہ کام انجام دیتے وقت ان کے پیش نظراللہ اوراس کے رسول کے احکام بھی ہونے چاہئیں۔عصری اداروں میں کلچرل پروگرام کے تحت جو حیاء سوز کردار لڑکیاں پیش کرتی ہیں،کیا یہی تعلیم اور تہذیب اسلام کو مطلوب ومحمودہے ؟ مادہ پرستانہ ذہنیت کایہ کیسا انصاف ہے کہ عورتوں کو گھروں کی زینت بننے کے بجائے محفلوں کی رونق بنادے اور یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ بچوں کی پرورش وپرداخت کی عظیم ذمہ داری ادا کرنے کے ساتھ انہیں معاشی تگ ودوکے لیے مجبور کردیں؟عورت کا اصل دائرہ کار اس کا گھر ہے، اسے باہر نکالیں گے تو یقینا اس کے برے نتائج برآمد ہوں گے۔ہمارے اندر یہ داعیہ بھی ہونا چاہیے کہ جس طرح ہم ان کے لیے عصری تعلیم میں اعلی سے اعلیٰ ڈگری کے حصول کے خواہاں ہیں ،تو اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم ان کے لیے دین کی تعلیم کا بھی بہتر نظم کریں۔

مسلمانوں کے لیے لمحہٴ فکریہ

گزشتہ صدیوں میں مسلمانوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جوکارہائے نمایاں انجام دیے ہیں انہیں حاصل کرکے آج دیگرقومیں کہاں سے کہاں نکل گئیں۔مگر مسلمان اس سے بے توجہ ہوتے جارہے ہیں۔اگرمسلمان ہی علم سے دوررہیں گے تواس سے بڑھ کربدنصیبی اورکیاہوسکتی ہے۔ آج علم کازمانہ ہے ، علم بہت سستااورعام ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کے پاس بھی اس کے حصول کے بہتر ذرائع موجود ہیں۔ کیاآج دوسرے لوگوں کے یہاں غربت نہیں ہے، وہاں افلاس نہیں پایاجاتا،باوجود اس کے وہ اپنے بچوں کوپڑھنے کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں بھیجتے ہیں۔ ہمارے یہاں اس پرعمل کم کیاجاتا ہے ۔ نہ دینی مدرسوں میں بھیجتے ہیں اور نہ عصری درس گاہوں میں۔ ہمارے اکابرچاندکی دھندلی اورچراغوں کی ٹمٹماتی روشنی میں رات رات بھر جاگ کر پڑھتے تھے۔ اس محنت اور خلوص کے نتیجے میں اللہ نے ان کے مقام کوبلند کیا اوروہ ہمارے لیے نمونہ بنے ۔ اللہ کے رسول نے علم کی جوتحریک چلائی اس سے ساری دنیانے روشنی حاصل کی ۔لیکن مسلمان اپنے نبی کی تعلیمات سے بے گانہ ہوتے جارہے ہیں۔یہ بد نصیبی کی بات ہے۔

***

مآخذ ومراجع

(۲۷)  ایضا،ص:۳۱۸-۳۱۹

(۲۸)  سنن ابن ماجہ ،کتاب السنة،باب ماجاء فی فضل العلماء والحث علی طلب العلم۔علامہ البانی نے حدیث کے اس حصہ کو صحیح کہا ہے۔

(۲۹)   الصحیح البخاری،کتاب العلم، باب یجعل للنساء یوما علی جدة فی العلم،کتاب الاعتصام، باب تعلیم النبی، کتاب الجنائز،باب فضل من مات لہ ولد فاحتسب

(۳۰)  سنن ابوداوٴد،کتاب الادب، باب فضل من عال یتامی۔ البانی نے اس حدیث کو ضعیف کہاہے۔

(۳۱)   سنن ابن ماجہ،ابواب الادب،باب برالوالدین والاحسان الی البنات۔علامہ البانی نے اس حدیث کوحسن قراردیاہے۔

(۳۲)  خطبات بھاول پور،ص:۲۸

(۳۳)  سید ابوالحسن علی ندوی،تاریخ دعوت وعزیمت،مجلس تحقیقات ونشریات اسلام ،لکھنو، ۱۹۹۶ء،ج:۱،ص:۲۲۶،بحوالہ؛ابن خلکان،ج:۳،ص:۳۲۱

(۳۴)  مسلمان سائنس داں اور ان کی خدمات،ص:۳۱۸-۳۱۹

(۳۵)  ایضا،ص:۲۹۷

(۳۶)  اردو دائرہ معارف اسلامیہ،دانش گاہ پنجاب،لاہو،۱۹۸۰ء،ج:۱۔ص:۵۰۶

(۳۷) سید سلیمان ندوی،عربوں کی جہاز رانی،دارالمصنّفین،اعظم گڑھ،۲۰۰۰ء،ص:۸۶

(۳۸)  مسلمان سائنس داں اور ان کی خدمات،ص:۷۳-۷۴

(۳۹)  مسلمان سائنس داں اور ان کی خدمات،ص:۱۹۰-۱۹۱

(۴۰)  تفصیلی مطالعہ کے لیے ملاحظہ کریں:مسلمان سائنس داں اور ان کی خدمات

(۴۱)   سنن ابوداوٴد، کتاب العلم،باب فی طلب العلم لغیر اللہ۔سنن ابن ماجہ،کتاب السنة،باب الانتفاع بالعلم والعمل۔مسند احمد،ج:۲،ص:۳۳۸۔ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

(۴۲)  الصحیح البخاری،کتاب العلم، باب رفع العلم وظہورالجہل،کتاب النکاح،باب یقل الرجال ویکثر النساء،کتاب الاشربہ، باب قول اللہ تعالیٰ انما الخمر والمیسر والانصاب، کتاب الحدود، باب اثم الزنا وقول اللہ تعالیٰ

(۴۳)  سنن ابوداوٴد، کتاب الزکاة،باب ماتجوز فیہ المسألة۔مسند احمد ،ج:۳،ص: ۱۱۴۔ علامہ البانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ضعیف کہا ہے۔

(۴۴)  عزالدین بن الاثیر ابی الحسن بن محمد الجزری،اسدالغابہ فی تمیز صحابہ،دارلشعب،ج:۲، ص:۳۳۷۔ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمیز صحابہ، دارالمعرفة، بیروت، لبنان، ۲۰۰۴ء ، ج:۱،ص:۷۱۸،بحوالہ ابن الجوزی فی منتظم،ج:۲،ص:۲۵۱

(۴۵)  حفظ الرحمن سیوہاروی،قصص القرآن،ندوة المصنّفین،دہلی،۱۹۸۷ء،ج:۱،ص:۴۵۷

(۴۶)  جمال الدین ابی الفرج عبدالرحمن،صفة الصفوة،دائرة المعارف الاسلامیہ، حیدر آباد، ۱۹۶۹ء،ج:۲،ص:۸۴

***

_________________________

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 08 ، جلد: 93 شعبان 1430 ھ مطابق اگست 2009ء

Related Posts