افادات: مفتی عمر فاروق لوہاروی
شیخ الحدیث دارالعلوم لندن- یوکے
ترتیب: الیاس لوہاروی (جامعہ اسلامیہ، ڈابھیل)
ایک اشکال اور اس کا جواب
تینوں اقوال پر ایک اشکال ہوتا ہے، کہ آدمی کا اپنا گوشت پوست کا ایک وزن ہوتا ہے، صحائف کا اپنے جرم وضخامت اور حجم کے اعتبار سے ایک وزن ہوتا ہے، تو صاحب عمل یا صحائف کے تولے جانے سے اگر کوئی پلڑا وزنی ہوگیا، یا ہلکا رہ گیا، تو یہ کیسے ثابت ہوگا، کہ اس کی حسنات کی وجہ سے پلڑا وزنی ہوگیا، یا اس کی سیئات کی وجہ سے پلڑا ہلکا رہ گیا؟ اسی طرح خود اعمال کے وزن کی صورت بھی اشکال سے خالی نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے، کہ صاحب عمل کے تولے جانے کی صورت میں اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے انسان ہلکے اور بھاری ہوں گے، حسنات والوں کا وزن زیادہ ہوگا، اور سیئات والوں کا وزن ہلکا ہوگا۔ صحائف اعمال کے وزن کی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ حسنات والے صحیفوں کو وزنی کردیں گے، اور سیئات والے کو ہلکا کردیں گے۔ اعمال کے موزون ہونے کی صورت میں بھی یہی بات ہوگی، کہ جیسا عمل ہوگا، اسی اعتبار سے اس میں بھاری یا ہلکا ہونے کی تاثیر ہوگی۔ آپ اگر ایک برتن میں ٹھنڈا پانی بھرکر وزن کریں، تووزن اور ہوگا،اور اسی میں گرم پانی بھرکر وزن کریں، تو اور وزن ہوگا۔ اسی طرح اگر عام میزان اور اسکیل (Scale) کے اعتبار سے ہم وزن انسانوں کا قیامت کی میزان میں نیکی اور بدی کے اعتبار سے وزن الگ الگ ہوجائے، یا نیکیوں اور بدیوں کے صحائف کا وزن الگ الگ ہوجائے، یا خود عمل کا وزن الگ الگ ہوجائے، کہ نیک عمل وزن دار ہو،اور بدی کے بے وزن ہو، تو کیا تعجب ہے۔ ویسے ان معاملات کی پوری حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔
اقوالِ مذکورہ میں تطبیق
قیامت کے دن وزن ہونے والی چیز کیا ہے؟ اس میں تین اقوال ذکر کیے گئے۔ بعض علماء نے ان اقوال میں تطبیق دی ہے۔ ہم دو تطبیق نقل کرتے ہیں:
(۱) علامہ نسفی رحمة اللہ علیہ نے ”بحرالکلام“ میں بعض علماء کے حوالہ سے ذکر کیا ہے، کہ اعمال کے ساتھ صاحب اعمال کا وزن کیا جائے گا۔
حضرت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ میرے نزدیک صورت یہ ہوگی، کہ اعمال کو جسم عطا کیا جائے گا، اور صاحب عمل کو اس کے اعمال حسنہ کے ساتھ ایک پلڑے میں رکھا جائے گا، یا صاحب عمل کو صحائف حسنات کے ساتھ ایک پلڑے میں رکھا جائے گا۔ دونوں کا مآل ایک ہی ہے۔
(۲) حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ ایک مرتبہ اعمال کا وزن ہوگا، دوسری مرتبہ صحائف کا وزن ہوگا، اور تیسری دفعہ صاحب عمل کا وزن ہوگا۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب مدظلہم فرماتے ہیں، کہ حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ کی تطبیق طفل تسلّی سے زیادہ کچھ نہیں، کیوں کہ جب اس قول کا مقصد اِقامةُ العدل ہے، اور ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے عدل کو ظاہر کردیا، تو بار بار اس کے اظہار کی کیا ضرورت ہے؟
اقوالِ مذکورہ میں ترجیحی صورت
اقوالِ ثلثہ میں سے قولِ اوّل کہ صاحب عمل کا وزن ہوگا، اس کی دلیل میں دو حدیثیں پیش کی گئیں، لیکن وہ موٴول ہیں۔ پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے، کہ کافر اپنے کفر کی وجہ سے بے قدر ہوگا، اور کفر کے ہوتے ہوئے اس کے کسی بھی حَسَنہ کی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔ دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے، کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے ایمان وخلوص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسی قدر ومنزلت رکھتے ہیں، کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جو سفر کیے ہیں، اگر ان کو مجسّم کردیا جائے، تو میزان میں جبل اُحد سے زیادہ وزنی ہوجائیں گے۔
اب کُل دو ہی قول رہ جاتے ہیں: (۱) صحائف اعمال کا وزن ہوگا۔ اور (۲) اعمال کا وزن ہوگا۔ ان دونوں میں سے اگر صحائف کے وزن کے قول کو ہم اختیار کریں، تو کہہ سکتے ہیں، کہ صحائف کے ضمن میں اعمال تولے جائیں گے، لہٰذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں، لیکن اس صورت میں ”حدیث البطاقة“ کو اصل ماننا اور صحیحین کی روایات کو اس پر محمول کرنا لازم آئے گا۔ اور اگر ہم یہ اختیار کریں، کہ اعمال کا وزن ہوگا، تو کہا جائے گا، کہ صحائف اعمال کی روایت کلمہ کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے تمثیل ہے، اس سے کلمہ کی عظمت کی طرف توجہ دلانا ہے، یا تو یہ کوئی استثنائی شکل ہے، اور مقصد یہ ہے، کہ لوگ ایمان کو اور توحید و رسال کے اقرار کو سمجھ لیں، کہ کتنا طاقتور ہے!!! اور درود شریف والی روایت ثبوتِ صحت کی تقدیر پر درود شریف کی عظمت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہے، یااس سے قیامت کے دن سب کے سامنے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی تعظیم کے اظہار میں مبالغہ مقصود ہے۔
ان دونوں اقوال میں راجح یہی ہے، کہ خود اعمال کا وزن ہوگا۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اسی کو اختیار فرمایا ہے، جیساکہ ماقبل میں ذکر کیاگیا۔
اعمال کا تو خارجی کوئی وجود نہیں، وہ تو اعراض ہیں، ان کا وزن کس طرح ہوگا؟ اس پر کلام پہلے ہوچکا ہے۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ”وأن أعمال بنی اٰدم وقولہم یوزن“ سے اس طرف بھی اشارہ فرمادیا، کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا، اعمال کی گنتی نہیں ہوگی۔ اور عمل میں وزن ”اخلاص“ سے پیدا ہوگا، جس کی طرف امام بخاری رحمة اللہ علیہ شروع کتاب میں پہلی حدیث میں اشارہ کرچکے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ کے خلیفہ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمة اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے، کہ صبح کو جب اٹھو، تو ایک مرتبہ یہ نیت کرلو، کہ اے اللہ! سارا دن جو عمل کروں گا، وہ آپ کو راضی کرنے کے لیے کروں گا۔ اور ظاہر ہے، کہ جب ایک مرتبہ نیت کرلی جائے، تو جب تک اس کے مُعارض نیت نہ آجائے، وہ نیت قائم رہتی ہے، لہٰذا جب صبح کو نیت کرلی، تو وہ شام تک کے اعمال کے لیے کافی رہے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ، بشرطیکہ اس کے خلاف کوئی نیت نہ پائی جائے۔ ہاں! ہر موقع پر اگر نیت کا استحضار کرلیا جائے، تو زیادہ بہتر ہے۔ عمل میں وزن پیداکرنے والی دوسری چیز ”اتباعِ سنت“ ہے؛ بلکہ یہی اصل الاصول ہے، چناں چہ ”تفسیر قرطبی“ میں منقول ہے: لایقبلُ اللّٰہُ قولاً الاّ بعمل، ولا یقبلُ قولاً وعملاً الاّ بِنیةٍ، ولا یقبلُ قولاً وعملاً ونیةً الاّ بِاصابةِ السنة. ”اللہ تعالیٰ کسی قول کو بغیر عمل کے اور کسی قول وعمل کو بغیر نیت کے اور کسی قول وعمل اور نیت کو بغیر مطابقتِ سنت کے قبول نہیں کرتے۔“ بندہ کہتا ہے، کہ اس کو امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے حدیث کے طور پر پیش کیاہے، لیکن اس کا رفع ضعیف ہے۔ درحقیقت یہ حضرت سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ کا قول ہے، جیساکہ علامہ زیلعی رحمة اللہ علیہ نے ”الاسعاف فی تخریج احادیث الکشاف“ میں اختیار کیا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
وقولہم
اکثر رُواة کے یہاں ”وقولہم“ اسی طرح بصیغہٴ مفرد ہے۔ ابوالحسن قابسی اور ایک جماعت کی روایت میں ”واقوالہم“ بصیغہٴ جمع ہے۔ اس صورت میں ”اعمال“ بصیغہٴ جمع کی مناسبت یا عاملین کا تعدد ملحوظ ہے۔ اور ”قولہم“ بصیغہٴ مفرد کی صورت میں کہا جاسکتا ہے، کہ قول کا مصدر ایک ہے، وہ صرف زبان سے صادر ہوتا ہے، اس اعتبار سے قول مفرد لایاگیا۔اور عمل کا صدور ہاتھ، پیر وغیرہ کئی اعضاء سے ہوتا ہے، تو عمل کے مصادر کے تعدد کی وجہ سے ”اعمال“ بصیغہٴ جمع لایاگیا ہے۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ”وان اعمال بنی آدم یوزن“ پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے ”وقولہم“ کا اضافہ اس لیے کیاہے، کہ حدیث الباب میں دو کلمے کے ثقیل ہونے کی تصریح ہے، اس سے ان کا تولا جانا معلوم ہوتا ہے، اور کلام زبان کا عمل ہے۔ جب انسان کے بعض اعضاء کے عمل کا تولنا ثابت ہوگیا، تو اسی سے سارے اعضاء کے عمل کے تولنے کا ثبوت ہوگیا، لیکن عرف میں چوں کہ کلام کو عمل نہیں کہتے، اس لیے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے وجہِ استدلال کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ”وان اعمال بنی آدم“ کے بعد ”وقولہم“ کا لفظ بڑھادیا۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ جاتے جاتے ہمیں اور آپ کو یہ پیغام دے رہے ہیں، کہ اپنے ہر ہر قول وفعل میں یہ دیکھیں، کہ جو کام کرنے جارہے ہیں، آیا وہ عمل اپنے اندر کوئی وزن رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر وزن رکھتا ہے، تو وہ کام کریں۔ اور اگر بے وزن ہے، تو اس سے احتراز کریں۔ جب زبان استعمال کرنے لگیں، تو سوچیں، کہ منھ سے جو بات بھی نکلے گی، وہ قیامت کے دن تولی جائے گی، لہٰذا دنیا میں زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ تُلا ہوا ہونا چاہیے۔ ناحق کسی پر الزام تراشی اور بہتان بازی سے اجتناب کریں۔ مفتیٴ اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے، کہ ”جب کوئی بات زبان سے نکالو، یا قلم سے لکھو، تو یہ سمجھ لو، کہ اس بات کو کسی عدالت میں ثابت کرنا ہے، خواہ وہ دنیا کی عدالت ہو یا آخرت کی۔“
مجاہد رحمہ اللہ سے منقول قسطاس کی تفسیر ذکر کرنے کا مقصد
آگے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ قسطاس رومی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی عربی میں عدل ہیں۔ ”القسطاس“ میں قاف کا کسرہ وضمہ دونوں جائز ہیں۔ اس تعلیق سے امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا مقصد کیا ہے؟ اس میں چنداں اقوال ہیں:
(۱) امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا معمول ہے، کہ عامتاً ترجمہ میں جب کوئی غریب لفظ آتا ہے، تو اس کی تشریح کرتے ہیں۔ کبھی اس کے لیے مفسرین کے اقوال بھی نقل کرتے ہیں۔ یہاں چوں کہ آیتِ قرآنی میں ”القسط“ غریب لفظ تھا، تو اس کی تشریح کے لیے قسط کے مادہ پر مشتمل لفظ ”القسطاس“ کی تفسیر مجاہد رحمة اللہ علیہ کے حوالہ سے نقل کردی۔
یا کہیے، کہ یہاں لفظ ”القسط“ آیا تھا،اس کی مناسبت سے آیت کریمہ ﴿وزنوا بالقسطاس المستقیم﴾. (بنی اسرائیل: ۳۵، الشعراء: ۱۸۲) میں وارد لفظ ”القسطاس“ کی تفسیر مجاہد رحمة اللہ علیہ کے حوالہ سے ذکر کردی۔
(۲) اس تفسیر سے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے، کہ قیامت کے دن اعمال کے وزن کرنے کا مقصد اظہارِ عدل ہوگا۔
(۳) امام مجاہد رحمة اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے، کہ انھوں نے نصوص میں وارد ”موازین“ و ”میزان“ کے الفاظ کو قیامت کے دن قائم ہونے والی میزان حقیقی اور آلہٴ وزن کے معنی میں نہ لیتے ہوئے عدل کے معنی پر محمول کیاہے۔ تو امام بخاری رحمة اللہ علیہ ان کا قول لاکر تاویل کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں، کہ ان کا مقصد یہ ہے، کہ یہ وزن اظہارِ عدل کے لیے ہوگا، نہ یہ کہ وہ میزان ووزن کا انکار کرتے ہیں۔
یہ غرضِ تعلیق جیسی کچھ ہے، ظاہر ہے۔اگر مجاہد رحمة اللہ علیہ نے میزان ووزن کا واقعی انکار کیا ہے، تو اس میں ان کا اتباع نہیں کیا جائے گا۔ حضرت حکیم الامت قدس سرہ فرماتے ہیں، کہ ”میزان میں تاویل ظاہر نصوص کے خلاف ہے، ایسی تاویل جو بلا ضرورت ہو، اور روایات کے مصادِم ہو، مقبول نہیں، گوکیسا ہی بڑا شخص کہے۔“
قرآن مجید میں عجمی کلمات
مجاہد رحمة اللہ علیہ کے اس قول سے معلوم ہوا، کہ قرآن مجید میں عجمی کلمات بھی واقع ہوئے ہیں۔ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے: (۱) مفسرین متقدمین میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، عکرمہ، مجاہد رحمہما اللہ وغیرہ کی تفسیرات سے معلوم ہوتا ہے، کہ قرآن مجید میں عجمی الفاظ واقع ہوئے ہیں۔ تابعی جلیل حضرت ابومَیْسَرَة رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: فِی القرآن مِن کلّ لسانٍ. ”قرآن مجید میں تمام زبانوں کے الفاظ ہیں۔“ علامہ سُیُوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہو اختیاریْ ”یہ قول میرا مختارہے۔“
علامہ سُیُوطی رحمة اللہ علیہ نے اس سلسلے میں ”المُہذَّب فیما وقع فی القرآن مِن المعرَّب“ نامی ایک کتاب لکھی ہے، جس کی تلخیص ”الاتقان فی علوم القرآن“ میں ہے۔ قاضی تاج الدین ابن السبکی رحمہ اللہ نے ایسے ستائیس (۲۷) عجمی الفاظ اشعار میں بیان کیے ہیں، جو قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں۔ حافظ ابوالفضل ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے ان پر چوبیس (۲۴) الفاظ کا اضافہ فرمایا ہے۔ کل اکاون (۵۱) الفاظ ہوئے۔ علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے ان پر انہتّر (۶۹) الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ ان کا مجموعہ ایک سو بیس(۱۲۰) ہوا۔
(۲) امام شافعی، ابن جریر طبری، ابوعبیدہ معمر بن المُثَنّٰی، قاضی ابوبکر بن الطیّب باقلاّنی، ابن فارس رحمہم اللہ وغیرہ فرماتے ہیں، کہ قرآن مجید میں عجمی کلمات نہیں ہیں، کیوں کہ قرآن مجید نے بار بار اپنی عربیت کا اعلان کیا ہے، چناں چہ چھ سورتوں میں ”قرآناً عربیا“ وارد ہوا ہے، اور تین سورتوں میں ”لسان عربی“ کی تصریح ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ولو جعلنٰہ قرآنا اعجمیا لقالوا لولا فصلت آیٰتہء اعجمی وعربی﴾. (حم السجدة:۴۴) ”اور اگر ہم اس کو (کلاًّ یا بعضًا) عجمی قرآن بناتے، تو یوں کہتے، کہ اس کی آیتیں صاف صاف کیوں نہیں بیان کی گئیں؟ یہ کیا بات ہے، اس کا کچھ حصہ عجمی اور کچھ عربی؟“
امام شافعی رحمة اللہ علیہ ”الرسالة“ میں فرماتے ہیں: لا یُحیط باللّغةِ الاّ نبیٌّ. عربی زبان اس قدر وسیع ہے، کہ نبی صلى الله عليه وسلم کے علاوہ کوئی اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ جب آپ کے علاوہ کوئی عربی کی اس وسعت سے واقف نہیں، تو اسی ناواقفیت کی وجہ سے لوگ کہہ دیتے ہیں، کہ یہ الفاظ رومی، عبرانی، سُریانی، فارسی، حبشی، نَبَطی وغیرہ ہیں، ورنہ فی الحقیقت وہ عربی زبان ہی کے الفاظ ہوتے ہیں۔
ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے قرآن مجید کے الفاظ کی تفسیر میں فارسی، حبشی وغیرہ کی تصریح منقول ہے، وہ توارُدِ لغات کے قبیل سے ہے۔ ایک لفظ کو عربوں نے استعمال کیا، اسی لفظ کو فارس والوں نے بھی استعمال کیا۔ ایک لفظ کو حبشیوں نے استعمال کیا، اسی لفظ کو عربوں نے بھی استعمال کیا۔ ابن عطیہ رحمة اللہ علیہ نے اس قول کو بعید قرار دیا ہے۔
فریق اول کہتا ہے، کہ بے شک قرآن مجید نے اپنی عربیت کا بار بار اعلان کیا ہے، لیکن اس کے معنی یہ ہیں، کہ وہ عربی الاُسلوب والنظم ہے، یعنی اُسلوب اور ترتیب عربی ہے۔اور اگر تسلیم کرلیں، کہ الفاظ وکلمات کے اعتبار سے عربی ہونا بیان کیاگیا ہے، تو یہ اعمّ واَغلب کے اعتبار سے عربی ہے، لہٰذا تھوڑے غیرعربی کلمات کا اس میں آجانا اس کو عربی ہونے سے خارج نہیں کرتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی انگلش پویم (Poem) یا فارسی قصیدہ ہو، اس میں کوئی لفظ عربی کا آجائے، اس کے باوجود وہ پویم یا قصیدہ انگلش یا فارسی کہلائے گا۔ اور دوسری دلیل کا جواب یہ ہے، کہ ﴿ء اعجمی وعربی﴾ (حم السجدة:۴۴) کے معنی سیاق کلام سے یہ ہوں گے: أکلام اعجمی مخاطبٌ عربیٌّ. کیا بات ہے، کہ عجمی کتاب اور مخاطب عربی!
ابوعبیدہ القاسم بن سلاّم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ میرے نزدیک صواب ودرست وہ مذہب ہے، جس میں دونوں اقوال کی تصدیق ہے، کہ ان الفاظ کی اصل عجمی ہے، جب یہ الفاظ عربوں کے سامنے آئے، تو ان کو عربی بنادیا، عجم کے الفاظ سے عربی الفاظ کی طرف بدل دیا، بعض میں کچھ حروف کم کیے، عُجمہ کے ثقل میں تخفیف کی، پھر جس طرح عربی کلمات کی تعریف و تنکیر وغیرہ ہوتی ہے، اسی طرح یہ احکام ان عجمی کلمات میں جاری کیے، اب وہ عربی ہوگئے۔ جیسے پیل سے فِیل۔ کپور سے کافور۔ جب قرآن مجید کا نزول ہوا، اس وقت یہ کلمات کلامِ عرب میں مختلط ہوچکے تھے۔ اس اعتبار سے جس نے کہا، کہ یہ عربی ہیں، اس کی بات بھی صحیح ہے، اس نے موجودہ صورت پرنظر کی ہے۔ اور جس نے کہا، کہ عجمی ہیں، اس کی بات بھی صحیح ہے، اس نے ان کلمات کی اصل پر نظر کی ہے۔ جو الیقی اور ابن الجوزی رحمہما اللہ وغیرہ کا میلان اسی قول کی طرف ہے۔
لفظ ”القسط“ کی لغوی وصرفی تحقیق
آگے فرماتے ہیں: ویقال: القِسطُ مَصدرُ المُقْسِطِ. اور کہا جاتا ہے کہ ”القسط“ یہ ”المقسط“ کا مصدر ہے۔“
یہ ابوعبیدہ مَعمر بن المُثنّٰی کا قول ہے، جو انھوں نے ”مَجازُ القرآن“ میں ذکر کیاہے۔ امام اسماعیلی رحمة اللہ علیہ نے یہاں یہ اعتراض کیا ہے، کہ ”مُقسِط“ کا مصدر ”قِسط“ کو قرار دیا، حالاں کہ ”مُقْسِط“ کا مصدر تو ”اِقْسَاط“ ہے۔ اس کے چند جوابات ہیں: (۱) حروفِ اصلیہ میں تناسب اور ترکیب الفاظ میں مُشارَکت کے اعتبار سے جیسے بعض مرتبہ ایک کلمہ کا اشتقاق غیر مصدر سے بیان کیا جاتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے، کہ اِسْتَنْوَقَ (اونٹنی کے مشابہ ہوا) نَاقَةٌ سے اور اِسْتَحْجَرَ (پتھرکے مانند ہوا) حَجَرَ سے مشتق ہے، اسی طرح بعض مرتبہ اس تناسب و مشارکت کے اعتبار سے مجرّد کے مصدر کو مزید فیہ کے اسم فاعل یا اسم مفعول کا مصدر کہہ دیا جاتاہے۔ یہاں یہی صورت اختیار کی گئی ہے۔
(۲) ابوالقاسم علی بن جعفر بن القَطَّاع نے ذکر کیاہے، کہ ”قِسْط“ اضداد میں سے ہے۔ یہ لفظ عدل اور ظلم دونوں معنی میں مشترک ہے۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ اس قول کو اختیار کرنے کی صورت میں ابوعبیدہ کے کلام سے یہ بتانا چاہتے ہیں، کہ یہاں عدل کے معنی مراد ہیں، لیکن ﴿ونضع الموازین القسط﴾ میں واقع یہ ”القسط“ مصدر اسمِ فاعل کے معنی میں ہے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے یہ بتانے کے لیے کہ مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے، ”القِسطُ مصدرُ القاسِطِ“ نہیں کہا، کیوں کہ جیسے ”قسط“ عدل وظلم کے معنی میں مشترک ہے، اسی طرح ”قاسط“ بھی عادل اور ظالم کے معنی میں مشترک ہے، لہٰذا اس آیت میں وارد ”القسط“ میں عدل کے معنی مراد ہونے پر کوئی دلالت نہ ہوتی۔ چوں کہ ”مقسط“ قول مشہور پر عادل ہی کے معنی میں آتا ہے، اس لیے ”القسطُ مصدرُ المقسط“ کہا، تاکہ عدل کے معنی پر بھی دلالت ہوجائے، اور اس پر بھی تنبیہ ہوجائے، کہ یہاں ”القسط“ مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے۔ اس اعتبار سے ”القسط مصدر المقسط“ کے معنی ہوئے: القسطُ مصدرٌ فی معنی المقسط.
(۳) علامہ ابن بَطّال، علامہ کرمانی وغیرہ شرّاح رحمہم اللہ فرماتے ہیں ، کہ ”قسط“ مُقسط کا مصدر ہونے کا مطلب یہ ہے، کہ مصدر بحذف الزوائد ہے۔ عرب بعض مرتبہ مصدر کے زوائد کو حذف کردیتے ہیں، تاکہ اس کی اصل کی طرف لوٹائیں،اور وہ کلام اپنی اصل پر دلالت کرے۔ ”مقسط“ کے مصدر ”اِقْساط“ میں جو زوائد تھے، ان کو حذف کردیا، تو ”قِسْط“ رہ گیا، یہ ”اِقْساط“ کی اصل ہے۔ گویا یہ ”مقسط“ کے مصدر کا مصدر ہے۔ ”مقسط“ کا مصدر ”اِقْساط“ ہے۔ اور ”اِقْساط“ کا مصدر ”قِسْط“ ہے۔
(۴) امام بخاری رحمة اللہ علیہ ﴿ونضع الموازین القسط﴾ میں وارد ”القسط“ کی مناسبت سے ابوعبیدہ کا کلام لاکر یہ بتانا چاہتے ہیں، کہ ”المقسط“ کس طرح ”العادل“ کے معنی میں ہے؟ اور ”القاسط“ کس طرح ”الجائر“ کے معنی میں ہے؟ اور اسی سے ”القسط“ کی حقیقت بھی واضح ہوجائے گی۔
”مقسط“ کے عادل کے معنی میں اور ”قاسط“ کے جائر وظالم کے معنی میں ہونے کی وضاحت میں تین طرح تقریر کی گئی ہے:
(۱) ابوعلی فارسی اور امام راغب اصبہانی فرماتے ہیں، کہ ”قسط“ کے معنی نصیب اور حصہ کے ہیں۔ قَسَطَ اس وقت بولا جاتا ہے، جب دوسرے کے حصے کو لے لے۔اور دوسرے کے حصے کو لے لینا ظلم ہے۔ ”قاسط“ اسی سے ماخوذ ہے، اس لیے اس کے معنی جائز وظالم کے ہیں۔ اور ”اَقْسَطَ“ اس وقت بولا جاتا ہے، جب غیر کو اس کا حصہ دے دے۔ اور غیر کو اس کا حصہ دے دینا عدل ہے۔ ”مُقْسِط“ اسی سے ماخوذ ہے، اس لیے اس کے معنی عادل کے ہیں۔
(۲) ”مُقْسِط“ کا مصدر ”اِقساط“ ہے۔ یہ اِقساط ”قَسَطَ“ بفتح القاف بمعنی ظلم وجور سے ماخوذ ہے۔ اسی قَسْط بفتح القاف سے ”قاسِط“ بمعنی ظالم وجائر بنا ہے۔ قَسْط بفتح القاف کو بابِ اِفعال میں لے گئے، تو اَقْسَط ہوا۔ بابِ افعال کا ایک خاصّہ سلبِ مأخذ کا ہے، تو اَقْسَط کے معنی ہوئے: وہ مسلوب الجَور ہوا۔ جب جَوْر وظلم کا سلب ہوگیا، اس کی نفی ہوگئی، تو اس کی ضد یعنی عدل کے معنی آگئے، اس اعتبار سے اَقْسَط کے معنی ہوئے: اس نے انصاف کیا، لہٰذا ”المقسط“ کے معنی عادل کے ہوئے۔
(۳) محدث العصر حضرت مولانا محمد یونس صاحب مدظلہم فرماتے ہیں، کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ابوعبیدہ کا کلام لاکر یہ اشارہ کیا، کہ ”اِقْساط“ یہ ”قِسْط“ بکسر القاف سے ماخوذ ہے، قِسْط کے معنی عدل کے ہیں، تو اِقْساط کے معنی ہوں گے: صَیْرُوْرَةُ الرّجلِ صاحبَ قِسْطٍ اَیْ عدلٍ. ”آدمی کا عدل والا ہونا۔“ اور کسی کا عدل والا ہونا یہ ہے، کہ وہ عدل کرے۔ امام اسماعیلی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اَقْسَط: کأنہ لَزِم القِسط وہو العدل. یعنی اَقْسَط کے معنی لَزِم القِسط ای العدل ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدیونس صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں، کہ اس کا حاصل بھی وہی ہے، جو میں نے بیان کیا ہے، لیکن بابِ اُِعال کے تیرہ خواص میں لزوم کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، غالباً انھوں نے صیرورة کو لزوم سے تعبیر کردیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب مدظلہم فرماتے ہیں، کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کا ذہن اس نکتہ کی طرف نہیں گیا، اور وہ یہ سمجھے، کہ اسماعیلی کا مطلب یہ ہے، کہ ہمزہ سلب ماخذ کے لیے ہے۔ فرماتے ہیں: وقولہ: کأنّہ لَزِم القِسط یُشیر الٰی أن الہمزة فیہ للسلب. لیکن یہاں یہ خیال درست نہیں، اس لیے کہ اسماعیلی تو اَقْسَط کو قِسط بکسر القاف بمعنی عدل سے مشتق مان کر کأنہ لزم القسط فرمارہے ہیں۔ اب اگر اِقْساط کا ہمزہ سلب کا تسلیم کرلیا جائے، تو یہ معنی ہوں گے، کہ قِسْط یعنی عدل سلب ہوگیا، اور سلب عدل یہ ظلم ہے۔ اس سے معلوم ہوا، کہ حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے امام اسماعیلی کے کلام کی جو تشریح فرمائی، وہ وہم ہے۔
نصوص میں ”مُقْسط“ اور ”قاسط“ کا استعمال
وہو العادل: واما القاسط: فہو الجائر. ”المُقْسِط“ عادل کے معنی میں ہے۔ رہا ”القاسط“ ، تو وہ جائر یعنی ظالم کے معنی میں ہے۔
سابقہ کلام سے اس عبارت کی وضاحت بھی ہوچکی، کہ ”مُقْسِط“ کے معنی عادل کے ہیں، اور ”قَاسِط“ جائر وظالم کے معنی میں ہے۔
امام اسماعیلی رحمة اللہ علیہ نے ”مُقْسِط“ کے عادل کے معنی میں اور ”قاسط“ کے جائر وظالم کے معنی میں ہونے پر نصوص سے استشہاد کیا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿واما القاسطون فکانوا لجہنم حطبا﴾. (الجن:۱۵) ”جو ظالم ہیں، وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے۔“ اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد: المُقْسِطون علٰی منابرَ مِن نوراخرجہ مسلم فی صحیحہ. ”انصاف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے۔“
حافظ ابن حجر عقسلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ ”مُقْسط“ بمعنی عادل کے لیے اسماعیلی دوسری آیت بطور استشہاد پیش کرسکتے تھے، وہ آیت یہ ہے: ﴿ان اللّٰہ یحب المقسطین﴾. (المائدة:۴۲، الحجرات:۹) ”صحیح بخاری“ وغیرہ میں حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں بھی ”مُقْسط“ بمعنی عادل استعمال ہوا ہے: یَنْزِلُ حَکَمًا مُقْسِطاً. ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام منصف حاکم بن کر نزول فرمائیں گے۔“ اسماءِ حسنیٰ میں بھی ”المُقْسط“ بمعنی عادل وارد ہوا ہے۔
حَجّاج بن یوسف کا واقعہ
علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ ”قاسط“ کی مناسبت سے ”اِرشادُ السَّاری“ میں فرماتے ہیں، کہ حجاج بن یوسف ثقفی نے جب حضرت سعید بن جُبیر رحمة اللہ علیہ کو بلوایا،اور پوچھا: ما تقول فِیّ؟ ”میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟“ تو حضرت سعید بن جُبیر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: قاسِطٌ عادِلٌ. ”قاسِط“ کو عادل اور ظالم کے معنی میں مشترک ماننے کی تقدیر پر ”قاسِط“ کے بعد ”عادِل“ کا لفظ ذکر کرنے سے گویا متعین ہورہاتھا، کہ یہاں پر ”قاسط“ کو ”عادِل“ کے معنی میں استعمال کیا ہے، اس لیے ان کے اس جواب نے حاضرین کو تعجب میں ڈال دیا۔ وہ سمجھے کہ آپ نے حجاج کی تعریف کی ، اس کو عادل ومنصف کہا، لیکن حجاج زبان وادب کا بڑا ماہر تھا، قرآن مجید بھی اس کو خوب یاد تھا، الفاظِ قرآنیہ کے مواقِع استعمال پر بھی گہری نظر تھی۔ جب لوگوں نے حضرت سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ کے جواب کی پسندیدگی کا اظہار کیا، تو حجاج نے لوگوں سے کہا: وَیلکم، لَم تَفْہموا، جَعَلَنِی جائِرًا کافِرًا، ألَمْ تَسْمَعُوْا قَوْلَہ تَعَالٰی: ﴿واما القاسطون فکانوا لجہنم حطبا﴾ . (الجن:۱۵) وقولہ تعالٰی: ﴿ثم الذین کفروا بربہم یعدلون﴾. (الأنعام:۱) ”تمہارا بھلا ہو، تم نہیں سمجھے، انھوں نے تو مجھے ظالم اور کافر ٹھہرایا، کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿واما القاسطون فکانوا لجہنم حطبا﴾. اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿ثم الذین کفروا بربہم یعدلون﴾. (پھر کفار اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے ہیں) نہیں سنا۔“ گویا ”قاسِط“ کہہ کر پہلی آیت کریمہ کی طرف اشارہ کیا، جس میں قاسط کا لفظ عادل ومصنف کے معنی میں نہیں؛ بلکہ جائر وظالم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور لفظ ”عادل“ کہہ کر دوسری آیت کریمہ کی طرف اشارہ کیا ہے، جس میں عدل مساوی ٹھہرانے اور شریک قرار دینے کے معنی میں آیا ہے، جو کفار کی صفت ہے۔
وَبِہ قال حدثنا احمدُ بن اِشکاب قال حدثنا محمدُ بنُ فُضَیلٍ عَنْ عُمَارَةَ بنِ القَعقاعِ عن أبی زُرْعَةَ عن أبی ہُریرةَ رضی اللّٰہ عنہ وعنہم وعَنَّابِہِم أنَّہ قال: قال النَّبِیُّ صلى الله عليه وسلم: کَلِمَتَان حَبِیْبَتَان اِلیٰ الرحمنِ، خَفِیْفَتَان علیٰ اللِّسَان، ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَان: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ.
احمد بن اِشکاب
”اِشکاب“ یہ راویٴ حدیث احمد کے والد کا لقب ہے۔ والد کا نام علیٰ اختلاف الاقوال مُجّمِع یا مَعْمَر یا عُبید اللہ ہے۔ ”اِشکاب“ بکسرِ الہمزة ہے، جیساکہ ”فتح الباری“ اور ”التقریب“ وغیرہ میں ہے۔ علامہ کرمانی رحمة اللہ علیہ نے ”الکواکب“ میں، علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ نے ”ارشاد الساری“ میں اور شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمة اللہ علیہ نے ”منحة الباری“ میں ہمزہ کا فتح بھی نقل کیاہے۔ ”اِشکاب“ کو عجمی علَم ماننے کی تقدیر پر عُجمہ اور علَمیت کی وجہ سے غیرمنصرف پڑھا گیا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے، کہ یہ عجمی نہیں؛ بلکہ عربی ہے، اس قول پر یہ منصرف ہے۔
رُواةِ حدیث میں علی بن اِشکاب اور محمد بن اِشکاب بھی ہیں، چناں چہ محمد بن اشکاب کی ”صحیح بخاری“ میں چار روایتیں آئی ہیں، اور علی بن اشکاب ”سننِ ابی داود“ اور ”سُننِ ابن ماجہ“ کے راوی ہیں۔ رُواة صحیح بخاری میں ایک راوی علی بن ابراہیم ہیں، ابواحمد بن عدی وغیرہ کے قول پر یہ علی بن حسین بن ابراہیم ہیں، جَدّ کی طرف نسبت کرتے ہوئے علی بن ابراہیم کہہ دیاگیا ہے، اس تقدیر پر تو علی بن اشکاب بھی ”صحیح بخاری“ کے راوی ہوں گے۔ علی بن اِشکاب اور محمد بن اشکاب دونوں بھائی ہیں، علی بڑے ہیں، اور محمد چھوٹے ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ ”صحیح بخاری“ کی اس آخری حدیث کے راوی احمد بن اشکاب کی کوئی قرابت نہیں ہے۔ احمد بن اشکاب، حَضْرَمی ہیں، کوفی ہیں، جب کہ علی بن اشکاب اور محمد بن اشکاب، حارثی ہیں، بغدادی ہیں۔
محمد بن فضیل
محمد بن فضَیل بن غَزْوَان پر تَشَیُّع کا اتہام ہے۔ سوال یہ ہے، کہ پھر امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ایسے مُبْتَدِع ْ راوی کی روایت اپنی صحیح میں کیوں درج فرمائی؟
درحقیقت مُبْتدع ْ یعنی بدعقیدہ راوی کی روایت کو قبول کرنے یا رد کرنے کے بارے میں یہ تفصیل ہے، کہ اگر اس کی بدعت کفر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کے عِلم بالجزئیات کا انکار، یا بعض غالِی روافض کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں الہیت کے حلول کا دعویٰ وغیرہ۔ تو اس سے روایت جائز نہیں، اور اس کی روایت غیرمعتبر اور مردود ہے، چناں چہ ایسے کسی مبتدع راوی کی روایت صحیح بخاری میں قطعاً نہیں ہے۔
اور اگر اس کی بدعت کفر کے درجہ تک نہیں پہنچی ہے؛ بلکہ فسق کے درجہ کی ہے، تو ایسے مبتدع کی روایت کا مسئلہ مختلف فیہا ہے:
(۱) امام مالک، ابن سیرین، ایوب سختیانی رحمہم اللہ وغیرہ کا مذہب یہ ہے، کہ اس کی روایت مطلقاً غیرمعتبر اور مردود ہے۔
(۲) ”ہدی الساری“ میں ایک مذہب یہ نقل کیا ہے، کہ اسکی روایت مطلقاً مقبول ومعتبر ہے۔
(۳) تیسرا مذہب داعی وغیرہ داعی کی تفصیل کا ہے، کہ مبتدع اگر غیرداعی ہو: اپنی بدعت کی طرف لوگوں کو دعوت نہ دیتا ہو، تو اس کی روایت معتبر ہوگی۔اور اگر داعی ہو: اپنی بدعت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہو، تو اس کی روایت غیرمعتبر ہوگی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے اس مذہب کو ”اَعْدل“ قرار دیا ہے۔ ابن حِبّان اور حاکم رحمہما اللہ نے اس پر اہل نقل کا اجماع نقل کیا ہے، لیکن ان کے دعوائے اجماع میں کلام کیاگیاہے۔
تیسرے مذہب کے قائلین صرف اس اصول پر اکتفاء کرنے یا کسی قید کے اضافہ کرنے میں اختلاف کرتے ہیں، چناں چہ:
(۱) امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، عبدالرحمن بن مہدی رحمہم اللہ اور جُمہور محدثین اس اصول پراکتفاء کرتے ہیں، کہ غیرداعی کی روایت مقبول اور داعی کی غیرمقبول ہوگی۔
(۲) سفیان ثوری، امام شافعی اور قاضی ابویوسف رحمہم اللہ فرماتے ہیں، کہ مبتدع اپنے مذہب کی تائید میں جھوٹ بلونے کو جائز نہ سمجھتا ہو، اس کی روایت تو معتبر ہے، لیکن اگر اپنے مذہب کی تائید میں جھوٹ بولنے کو جائز سمجھتا ہو، تو اس کی روایت غیرمعتبر ہے۔
(۳) امام ابوحنیفہ، علی بن المدینی، ابن ابی لیلیٰ رحمہم اللہ وغیرہ علماء کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے، کہ اگر مبتدع عادِل وضابط ہے، کسی فسق عملی میں مبتلا نہیں ہے، اس کا فسق تاویلی اور اعتقادی ہے، تو اس کی روایت معتبر ہوگی۔
(۴) بعض کہتے ہیں، کہ اگر مبتدع بدعت صغریٰ میں مبتلا ہے، تو اس کی روایت معتبر ہے،اور اگر بدعتِ کبریٰ میں مبتلا ہے، جیسے حضراتِ شیخین: ابوبکر وعمررضی اللہ عنہا کی تضلیل یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرنے والا ہو، تو اس کی روایت غیرمعتبر ہے۔
(۵) مبتدع غیر داعی کی وہ روایت جس سے اس کی بدعت کی تائید ہوتی ہو، غیر معتبر ہے۔اور جس سے اس کی بدعت کی تائید نہ ہو، وہ معتبر ہے۔ یہ ابواسحق جرجانی کا مذہب ہے۔
بعض کہتے ہیں، کہ اسی طرح داعی کی وہ روایت جس سے اس کی بدعت کی تردید ہوتی ہو، معتبر ہے۔اور جس روایت سے اس کی بدعت کی تردید نہ ہوتی ہو، غیر معتبر ہے۔
ابوالفتح قُشیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ مبتدع چاہے داعی ہو چاہے غیر داعی،اس کی روایت کا اگر اس کی بدعت سے تعلق نہ ہو، اور کسی غیرمبتدع کی روایت اس کی روایت کے موافق ہو، تو مبتدع کی روایت کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگرغیرمبتدع کی روایت اس کے موافق نہ ہو، وہ روایت صرف مبتدع کے پاس ہو، اور وہ مبتدع صدق سے متصف ہو، کذب سے احتراز کرتا ہو، تو اس کی روایت کا اعتبار کرنا چاہیے۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”صحیح“ میں ایسے مبتدع کی روایات لی ہیں، جو داعی نہ ہوگا۔اور اگر داعی ہو، تو اس سے توبہ کرچکا ہوگا، یااس کی روایت کی تائید کسی متابع سے ہوئی ہوگی۔ اسی لیے شیخ ابوالحسن مقدسی رحمة اللہ علیہ جس راوی کی روایت ”صحیح بخاری“ میں آگئی، اس کے متعلق فرماتے تھے، کہ ہذا جَازَ القنطرة. ”یہ پُل پار کرگیا۔“ مطلب یہ ہے، کہ اس کے متعلق اگر کوئی کلام ہو، تو اس کی طرف التفات نہیں کیاجائے گا، خصوصاً جس کی روایت بطور اصل آئی ہو، مُتابِعات، شواہد اور تعلیقات میں کچھ تفصیل ہوسکتی ہے۔ لہٰذا محمد بن فضیل جیسے راوی کی روایت کا ”صحیح بخاری“ میں آنا اس کی صحت کے لیے قادِح نہیں ہے۔
”فتح الباری“ میں ہے، کہ کوفہ کے اہل سنت کی ایک جماعت کا مذہب یہ تھا، کہ فضیلت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مقدم ہیں۔ اس نظریہ کے حامل شخص کو ”عَلَوی“ کہاجاتا تھا۔ بعض حضرات نے بطور احتمال ذکر کیا ہے، کہ ہوسکتا ہے، محمد ابن فضیل بھی عَلَوی ہوں: فضیلت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدم سمجھتے ہوں۔ اس صورت میں محمد ابن فضیل کی روایت کا ”صحیح بخاری“ میں آنا اس کی صحت کے لیے بدرجہٴ اولیٰ قادِح نہ ہوگا۔
یہاں یہ ملحوظ رہے، کہ ”شیعیت“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کو حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل سمجھنے کا نام ہے، لیکن جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شیخین: ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما پر مسئلہٴ خلافت میں ترجیح دیتا ہو، تو وہ شیعیت میں غلو کرنے والا ہے، اور اس کو ”رافضی“ کہا جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے خلافت کے مسئلہ میں راجح سمجھتا ہو، تو وہ ”شیعی“ ہے۔ مسئلہ خلافت میں اگر حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقدیم کے ساتھ سَبّ وشتم کرتا ہو، یا بغض ونفرت کا اظہار کرتا ہو، تو وہ رافضیت میں غلو کرنے والا ہے۔ اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آنے کا اعتقادرکھتا ہو، تو بقول حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ ”اَشَدُّ فِی الغُلو“ یعنی رافضیت میں غلو سے بھی آگے کی چیز ہے۔ (باقی آئندہ)
__________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 08 ، جلد: 93 شعبان 1430 ھ مطابق اگست 2009ء