از: عزیز بلگامی
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بیت المقدس کا قضیہ یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان چھ سو سال سے چلا آرہا تھا۔یہودیوں کی تاریخ کے تعلق سے قرآن شریف میں سورة بنی اسرائیل اور دیگر جگہ آئی آیتوں سے پتہ لگتا ہے کہ تاریخ میں دوبار ان پر اللہ تعالیٰ کاعمومی غضب نازل ہوا۔ حضرت سلیمان عليه السلام کے دور میں ملک اسرائیل دنیا کا سپر پاور مانا جاتا تھا اور قوم بنی اسرائیل دنیا کی ترقی یافتہ قوم۔ حضرت سلیمان عليه السلام کے انتقال کے بعد عظیم ترین اسرائیلی ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوئی ۔ پھر تقسیم در تقسیم اور قومی اور وطنی دین داری نے ان کا شیرازہ بکھیر دیا۔ دوسری بار ان پر جو عذاب آیا، اسے دو ہزار سال ہو گئے ہیں جس کے اثرات موجودہ دور تک زائل نہیں ہوئے۔ آج سے دو ہزار سال قبل حضرت عیسیٰ عليه السلام کے دور میں اس ملک کی عظیم اکثریت پر مشرک رومن اور بازنطینی حکمرانوں کو اللہ نے مسلط کردیا۔حضرت زکریا عليه السلام ، حضرت یحیٰ عليه السلام اور حضرت عیسیٰ عليه السلام کی دعوت کے جواب میں یہودیوں نے اپنی رسومات اور اپنے خود ساختہ قومی اور وطنی دین کو نہ چھوڑا۔ حضرت عیسیٰ عليه السلام کے تعلق سے انکا دعویٰ ہے کو ہم نے انہیں صولی پر لٹکا دیا۔ نعوذ باللہ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ ”نہ تو یہودی حضرت عیسیٰ کو قتل کرسکے اور نہ انہیں صولی دے سکے ، بلکہ ہم نے انہیں شبہ میں ڈال دیا․․․ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف رفعت دی․․․“
اس واقعے کے بعدجو عذاب آیا تو اللہ نے کروڑوں یہودیوں کا غیروں سے اور مشرکین سے اتنا قتل عام کروایا کہ آج ساری دنیا میں ایک کروڑ بھی یہودی نہیں بچے ۔ قتل عام کے علاوہ بیت المقدس جیسی عظیم اور مقدس مسجد کو مکمل طور پر آگ لگاکر تباہ اور تاراج کروایا۔یہودیوں سے فلسطین خالی کروالیا گیا۔ بچے کھچے یہودی دنیا کے کونے کونے میں لاوارث زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے۔ دنیا میں انہیں کہیں چین سے آباد ہونے کی جگہ نہیں ملی۔ اس درجہ بدحالی ہوئی کہ یہودیوں کے ایک قبیلے کے بچے کھچے لوگ ہمارے ملک کے دور دراز کے حصے آسام میں بھی گم نامی کی زندگی گذاررہے تھے۔ اخبار بین طبقہ کو یاد ہوگا کہ ابھی دوسال پہلے ہی انہیں اسرائیل جانا نصیب ہوا۔
پھر دنیا نے یہ نقشہ بھی دیکھا کہ حضرت عیسیٰ کے حوارین کی محنت کے نتیجے میں صرف چالیس سال کے اندر اندر آدھی دنیا حضرت عیسیٰ عليه السلام کے دین کو قبول کرچکی تھی اور عظیم سلطنت روما نے اسے اپنی مملکت کا ہی دین تسلیم کیا۔یہ بات الگ ہے کہ پھر دو سو سال کے اندر اندر ان میں حضرت عیسیٰ کے خدا کے بیٹے ہونے کے عقیدے نے جگہ بنالی۔ عیسائیوں کے دلوں سے یہ بات کبھی گئی نہیں کہ یہ یہودی تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ عليه السلام اور انکی والدہ حضرت مریم عليها السلام کے ساتھ برا سلوک کیاتھا۔ عیسائیوں کا جب دور آیا تو انہوں نے یہودیوں کا بھی جینا دوبھر کردیا۔لیکن اسی دوران ساتویں صدی عیسوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی اور عیسائیوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی مسلم دنیا میں عزت اور امن کا مقام ملا۔آج بھی یہودیوں کی تاریخی کتابوں میں یہ بات درج ہے اور انٹرنیٹ پر مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ پچھلے دو ہزار سالوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور انکے بعد کے دو سو سال ہمارے لیے سنہری گذرے ہیں۔ پوری مملکت اسلامی میں ہمیں امن اور امان اور آزادی کی زندگی میسر ہوئی۔
یہودیوں پر جگہ جگہ عیسائی مظالم کم زیادہ جاری ہی تھے کہ بیسویں صدی کے آتے آتے یوروپ کے عیسائیوں نے اپنے یہاں پناہ لیے ہوئے یہودیوں پرظلم و ستم کی حد کردی۔ عیسائی جرمنی کے عیسائی ہٹلر نے یہودیوں پرانسانیت سو ز ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے اور قتل عام کا وہ منظر اُبھرا کہ تاریخ کے جسم پر آج تک کپکپی طاری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں عیسائیوں نے اس کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اپنی جیب سے نہیں۔ بلکہ یہودیوں کو فلسطین میں ایک ریاست کی شکل میں لا بسایا۔تاکہ ان کے ظلموں کا کفارہ فلسطین، عرب اور دنیا کے سارے مسلمان ادا کریں۔ اس میں وہ کامیاب رہے۔ جب کہ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہودیوں کو یوروپ ہی میں کہیں ایک خوشگوار اور سر سبز و شاداب علاقے میں ایک بڑا ملک بنا کر دے دیاجاتا۔یہی چیز قرین انصاف ہوتی۔جرمنی کی ہی کی کچھ ایسی تقسیم کی جاتی جس میں یہودیوں کو Accommodate کیا جاتا۔ مگر یوروپ نے اپنے اس ناجائز حمل کو فلسطین میں جاکر وضع کرنا پسند کیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ایک بچہ ہے جو پیدا ہو چکا ہے، خواہ اس کی پیدائش کتنی ہی غیر قانونی کیوں نہ ہو۔اب یہ ایک زمینی حقیقت ہے جس کا انکار اُسی طرح ناممکن ہے جیسے کوئی دن میں سورج کا انکار کر دے۔اب جب یہ بچہ پیدا ہی ہوچکا ہے تو اس کا محض غیر قانونی طور پر پیدا ہونا اس بات کو تو لازم نہیں کرتا کہ اس کا قتل کر دیا جائے۔اس نوع کے کئی اور واقعات بھی تو ہوتے رہتے ہیں بلکہ ہو چکے ہیں۔جیسے اسی بیسویں صدی میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی تھی اور پاکستان وجود میں آیاتھا ۔پھر اسی پاکستان سے بنگلہ دیش کی ولادت ہوئی تھی۔ اب جبکہ یہ دونوں ولادتیں ہو چکی ہیں تو کیا وقت اور زمانے کے پہیہ کو اُلٹا گھمایا جائے گااوراسے ایک اصول ٹھہرا کر ، ہندوستان کے ہندوؤں کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ پاکستان یا بنگلہ دیش کے نام ونشان کو زمین کے نقشے سے مٹا ڈالیں؟ کیا اس میں ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ لگے گا؟ حالات کو قبول کرنا ہی فطرت سے ہم آہنگی کا دوسرا نام ہے۔ اِسی طرح اب یہ تحریک فضول ہوگی کہ اسرائیل کے وجود کو مٹادیا جائے۔ مسلمانوں کے بعض سرکردہ نادان اِس پر پانی کی بالٹیاں اُنڈیل کر اِسے بہادینے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں جبکہ وہ مشرق وسطیٰ کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ملک اور سائنس و ٹکنالوجی کے ماہرین کی فوج کے ساتھ ایک زبردست عسکری طاقت بن چکا ہے جس کے پاس ایٹم بم بھی ہے۔
اہلِ کتاب سے اور خصوصاً عیسائیوں سے تعلقات کا مسئلہ تاریخ میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قبل از ہجرت ہی حبش میں پیش آیا تھا جو آج ایتھوپیا کہلاتا ہے۔ دوسرا قابلِ ذکر واقعہ وہ جو دربار نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں نجران کے عیسائیوں کے وفد کی ملاقات کے موقع پر پیش آیا تھا۔ ہم یہاں احادیث کی کتابوں سے وہ مشہور تاریخی دستاویز نقل کر نا چاہیں گے،جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نجران کے عیسائیوں کو خود ہی عنایت فرمایا تھا اور یہی قیامت تک عیسائیوں سے معاملات طے کرنے کے لیے ہمارے لیے مشعل راہ ہوگی۔ اس سے انحراف نہ صرف مسائل میں شدت پیدا کرنے اور عظیم تباہی و ذلت کا باعث بنے گا، بلکہ دینی اعتبار سے آخرت کو بھی داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا، کیونکہ یہ انحراف، سنتِ نبوی سے انحراف ہوگا۔
” نجران کے عیسائیوں اور ان کے ہمسایوں کے لئے اللہ کی پناہ اور اللہ رب العالمین کے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذمہ داری ہے۔ ان کی جانوں کے لیے، ان کے مذہب کے لیے، ان کی زمین کے لیے، ان کے اموال کے لیے، ان کے حاضر و غائب کے لیے، ان کے اونٹوں کے لیے، ان کے قاصدوں کے لیے اور ان کے مذہبی نشانات کے لیے، سب کے لیے۔ جس حالت پر وہ سب اب تک ہیں، اسی پر بحال رہیں گے۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق اور نشانات میں سے کوئی نشان نہ بدلا جائے گا۔ ان کے کسی اسقف کو (مذہبی بڑی شخصیت کو) اس کی اسقفیت سے، اور کسی راہب کو اس کی رہبانیت سے اور کسی خادم کلیسا کو اس کی خدمت سے نہ ہٹایا جائے گا۔ خواہ اس کے ہاتھ کے نیچے جوکچھ ہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ ان پر عہد جاہلیت کے کسی خون یا عہد کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ان کو فوجی خدمت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ اور ان کی زمین کو کوئی لشکر پامال نہ کرے گا۔ اگر کوئی شخص ان کے خلاف کسی حق کا دعویٰ کرے گا، تو فریقین کے درمیان انصاف کیا جائے گا۔ نہ اہلِ نجران ظالم بن سکیں گے اور نہ اُن پر ظلم ہوگا۔مگر جس شخص نے اس سے پہلے سود کھایا ہو، اُس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں۔ان میں سے کسی شخص کو دوسرے کے گناہ میں نہ پکڑا جائے گا۔اس صفحہ میں جو کچھ درج ہے اُس کے لیے اللہ کی پناہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ذمہ داری ہے ہمیشہ۔یہاں تک کہ حکم آئے اللہ کا جب تک وہ خیر خواہ رہیں گے اور اپنے حقوق کو ادا کرتے رہیں گے جو اُس معاہدے کی رو سے اُن پر عائد ہوتے ہیں۔‘ ‘ (سیرت طیبہ اور احادیث شریف کی مختلف کتابوں سے)۔
آثار صحابہ کو دیکھا جائے کہ معاملہ کس طرح اہمیت کا حامل بنتا ہے۔ قدس کا مسئلہ تاریخ میں سب سے پہلے حضرت عمر بن خطاب رضى الله تعالى عنه کو ۱۶ھء میں پیش آیا تھا۔ انہوں نے جس ایمانی بصیرت سے اس معاملے کو ہینڈل کیا تھا وہ تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔ بیت المقدس کے عظیم چرچ کے نسطوری راہب سے کئے ہوئے حضرت عمررضى الله تعالى عنه ا بن خطاب کے عہد و پیماں کو اگردوبارہ لاگو نہیں کیا گیا توفلسطین میں امن و امان قائم ہونا ناممکن ہے۔ قدس کی مقدس سرزمین انسانی خون سے رنگین ہوتی رہے گی۔ہم تاریخ کی کتابوں سے اِس عظیم معاہدے کو یہاں دیدہٴ عبرت نگاہ کے لیے نقل کر رہے ہیں :
”یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المومنین عمر ابنِ خطاب نے ایلیا (اس زمانے میں فلسطین کا نام)کے باشندوں کو دی۔ یہ امان اُن کی جان، مال ، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہبی فرقوں کے لئے ہے۔اس طرح کہ نہ ان کے گرجاؤں پر قبضہ کیا جائے گا۔ نہ وہ ڈھائے جائیں گے۔ نہ اُن کو یا اُن کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔نہ اُن کی صلیبوں اور نہ اُن کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں اُن پر جبر نہ کیا جائے گا۔ نہ اُن میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیا میں اُن کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے۔ ایلیا والوں پر یہ فرض ہے کہ اور شہریوں کی طرح جزیہ دیں اور یونانیوں کو وہاں سے جانے دیں۔ ان یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گااُس کی بھی جان اور مال کو امن ہے۔تا آنکہ وہ اپنے محفوظ جائے پناہ میں پہنچ جائیں۔ اور جو ایلیا ہی میں رہنا چاہے، تو اس کو بھی امن ہے اور جزیہ دینا ہوگا۔اور ایلیا والوں میں سے جو شخص اپنی جان اور مال لے کر یونانیوں کے ساتھ چلا جانا چاہے، تو ان کو اور ان کی گرجاؤں کو اور صلیبوں کو امن ہے یہاں تک کہ وہ اپنی محفوظ جائے پناہ تک پہنچ جائے ۔اور جو کچھ اس معاہدے میں تحریر ہے اس پر خدا کا ، رسول خدا کا، خلفاء کا اور تمام مسلمانوں کا ذمہ ہے، بشرطیکہ یہ لوگ جزیہ مقررہ ادا کرتے رہیں۔اس تحریر پر گواہ ہیں خالد رضى الله تعالى عنه بن الولید، عمرو رضى الله تعالى عنه بن العاص ، عبد الرحمٰن رضى الله تعالى عنه بن عوف اور معاویہ رضى الله تعالى عنه بن ابی سفیان، اور اِسے ۱۵ھء میں لکھا گیا۔“
یہاں پر ہم وہ مشہور واقعہ نقل کریں گے اور اُس گفتگو کا بھی حوالہ دیں گے جوبیت المقدس کے عظیم چرچ میں نسطوری راہب اور حضرت عمر ابنِ خطاب کے درمیان ہوئی تھی۔ معاملہ اِس قدر نازک تھا اور انسانی تاریخ پر اس کے اس قدر گہرے اثرات مرتب ہونے والے تھے کہ اس کے لیے حضرت عمررضى الله تعالى عنه نے بنفسِ نفیس مدینہ طیبہ سے اتنی دور کا سفر کرکے تشریف لاکراِس معاہدہ سے خود کو وابستہ کرنا ضروری سمجھا تھا۔حضرت عمررضى الله تعالى عنه کی سیر ت پر لکھی جانے والی تمام کتابوں میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے۔کہتے ہیں کہ چرچ میں خود حضرت عمررضى الله تعالى عنه تشریف رکھتے ہیں۔ نمازِ عصر کا وقت ہوا۔ بشپ نے عرض کیا کہ آپ یہیں چرچ میں نماز ادا کرلیجیے۔حضرت عمر رضى الله تعالى عنه نے فرمایا کہ، نہیں۔اگر میں اس طرح کرتا ہوں تومسلمان کسی دن اِسی کو بہانہ بنا کر چرچ کو تم لوگوں سے خالی کرالیں گے۔ پھر آپ نے بشپ کو یہ تحریر بھی دی کہ یہاں کوئی نماز باجماعت ادا نہیں کی جائے گی اور نہ ہی یہاں اذان دی جائے گی۔البتہ انہوں نے اس کامپلکس میں ایک علیحدہ مسجد کے خیال کا اظہار فرمایاجو چرچ سے کچھ فاصلے پر ہو۔خود بشپ نے مشورہ دیا کہ اس ”صخرہ“ پر یعنی اُس ٹیلے پر بنالی جائے۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ ٹیلے کی صفائی کی جائے اور خود بھی وہاں مزدوروں کے ساتھ ایک مزدور کی طرح کام کیا۔الحمد للہ، آج بھی اِسی جگہ پر ” مسجدِ عمر“ موجود ہے۔واضح رہے کہ اس واقعہ کے چھ سو سال قبل عیسائیوں کا غلبہ ہونے کے بعدسے یہودیوں کا یہاں داخلہ بند تھا۔حضرت عمررضى الله تعالى عنه کی تشریف آوری کی برکت سے یہودیوں کو بھی یہاں داخلہ ملنے لگا جس کاتذکرہ یہودیوں کی تاریخی کتب میں ملتا ہے۔ ( پروفیسرفضل احمد کی حضرت عمرکی حیات پر لکھی کتاب اور نجیب اکبرآبادی کی تاریخ اسلام سے ماخوذ)۔
بطورِ حاصلِ کلام ہماری گزارش یہ ہے کہ بیت المقدس کے کامپلکس کو حضرت عمر کے مذکورہ معاہدے کے اعتبار سے تین الگ الگ حصوں میں بانٹ دیا جائے۔اس کا مکمل نظم و انصرام ادارہٴ اقوام متحدہ اپنے ہاتھ میں لے کر تینوں حصوں میں تینوں ہی مذاہب کے عملے کے ذریعہ اس کا انتظام چلائے۔ بیت المقدس کے علاقہ کو اقوام متحدہ کے زیر نگرانی دیا جائے،کسی خاص ملک کے تحت نہیں۔ رہا مسئلہ یروشلم شہر کا ، تواِس شہر کو بھی اگر اقوام متحدہ کیTerritory بنادی جائے اور اِسی کے زیر انتظام لایا جائے تو انشاء اللہ پھر یروشلم کو لے کرکسی مسئلہ کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔
تیسرامسئلہ” فلسطین “ کا مسئلہ ہے۔ ہر مسئلے کا حل ایمانداری ہے جو فریقین کے ساتھ ساتھ ثالثوں میں بھی ہو۔اِس کا حل یہ ہے کہ ایمانداری کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی تجویز نمبر ۲۴۲ کو لاگو کرتے ہوئے ۱۹۶۷ء کے پہلے کی پوزیشن کو بحال کیا جائے۔ ہر ملک کی فوج کے ذریعہ غصب کیے گیے علاقے کو خالی کرا لیا جائے۔ اقوامِ متحدہ ، یوروپی ممالک اور امریکہ کے دباؤ کے نتیجے میں فلسطین کی جو آزاد یا نیم آزاد ریاست عالمِ وجود میں آئی ہے، وہاں سیاسی استحکام کی کوششیں تیز تر کی جائیں۔ہاں، یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی ضد سے اسرائیل دنیا سے غائب ہونے والا نہیں ہے۔اِس کے وجود کو، جو ایک Ground Reality ہے، تسلیم کرتے ہوئے ایک ”نا جنگ معاہدے“ کی فریقین سے پابندی کروائی جائے۔ اِسرائیل کو بھی اِس بات کا پابند بنایا جائے کہ اِس کے علاقے میں بسنے والی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو مکمل آزادی، مساوی شہری اورجمہوری حقوق دے اور اس کی سختی سے پابندی کرے۔اِن معاہدات کی پابندی کی نگرانی کے لیے ایک بااِختیار عالمی کمیٹی، جس کے پاس اپنے فیصلے نافذ کرنے کی قوت بھی ہو، تشکیل دی جائے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی یکساں نمائندگی کرنے والی ہو اور مستقبل میں رونما ہونے والے تمام مسائل و اُموراسی کمیٹی سے رجوع کیے جائیں۔ ان گزارشات پر عالمی سطح پر مذاکرات مفید ہوں گے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ ایمانداری سے اپنے فرائض نبھائے اور امریکہ اور یوروپی ممالک اپنے رویے میں لچک لائیں۔ اسرائیل کو بے انصافی سے روکیں۔ ساتھ ہی مسلم ممالک ، خصوصا عرب اور ایران بھی اب فلسطین کے معاملے میں اپنی سیاست نہ کھیل کر امت کو مزید نقصان سے بچائیں۔
ہمیں امید تو نہیں کہ مسلمان جو کربلا کے واقعات کے بعد سے کسی بھی مسئلے پر متحد نہیں ہو سکے ہیں، اِس تجویز کو مان لینگے۔ مگر ہم کو بہر حال حق گوئی کا اپنا فریضہ ادا کرنا ہے۔ہماری گزارشات اجر و ثواب کی خاطر ہیں۔ اِسرائیلی و فلسطینی شورش ہو یا ٹیررزم کا منظر نامہ، ہمارا یہ غیر متزلزل یقین ہے کہ قرآن و سنت پر حضرت عمر رضى الله تعالى عنه کے فیصلوں سے روشنی حاصل کیے بغیر کبھی پائیدارامن کے حصول میں دنیا کامیاب نہیں ہو سکے گی۔وما توفیقی الا با اللہ۔حضرت عمررضى الله تعالى عنه ابن خطاب سے مخاصمت والے گروپ کے اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیزبیانات اور تقاریر کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں جذباتیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اقوام عالم میں جگ ہنسائی ہوتی ہے اور اسرائیل کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ امن کی کوششوں کو دھکا پہنچتا ہے۔
ہمارا اصرار ہوتا ہے کہ دنیا اسرائیل سے ناطہ توڑ لے۔ بیشتر مسلم ممالک نے بظاہر تواسرائیل سے ناطہ توڑ رکھا ہے۔لیکن حقیقت حال کچھ اور ہی ہے۔ اردو میڈیا پر حق ہے کہ وہ اپنے قارئین کو صحیح صورت حال سے واقف کرائے۔ دراصل پچھلی صدی میں یوروپ میں ظلم و ستم سہنے کے باوجود یہودیوں نے جدید علوم ، سائنس اور ٹکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کی۔ جرمنی کے ظلم و ستم کے دوران امریکہ ہی ان کی واحد پناہ گاہ تھی جہاں وہ سارے یوروپ سے آتے رہے۔ پچھلی صدی کے سائنسدانوں میں یہودیوں کی تعداد پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ باقی پچاس فیصد میں یوروپ و امریکہ اور ساری دنیا کے سائنسدان شمار ہوتے ہیں۔ مشہور نوبل انعام میں شعبہ سائنس میں خدمات کے لئے پچھلی صدی سے جو انعام دئے جارہے ہیں اس میں یہودی سائنس دانوں کا ساٹھ فیصد حصہ ہے۔ کاشت کاری اور مصنوعی طور سے فصل اگانے اور کسی بھی طرح کی زمین میں مطلوب پیداوار کس طرح سے لی جائے، اس کا علم یہودیوں نے دنیا کو دیا۔ ہائی بریڈ فصلیں، مرغیاں، دو دو سو لیٹر دودھ ایک وقت میں دینے والے مویشیوں کی نسل کی سائنس بھی انہی کی مرہون منت ہے۔ملک اسرائیل کے قیام کے بعد چاروں طرف سے اپنے سے کئی گنا زیادہ حریف ملکوں کے درمیان کس طرح اپنا دفاع کیا جائے، کس طرح اپنے ہوائی جہازوں کو ہائی جیک ہونے سے بچایاجائے، کس طرح فوجی تیاریاں کی جائیں، کس طرح پولیس کو منظم کیا جائے ، کس طرح پوری آبادی کو ہی جنگ کے فن سے بہرہ ور کردیاجائے، دنیا ان سے ہی سیکھ رہی ہے۔ جن ممالک کے بظاہر اسرائیل سے تعلقات نہیں ہیں، انکے بھی اسرائیل سے کئی امورپر معاہدے ہیں۔
ذاتی طور سے بھی ہم لاکھ بچنے کی کوشش کریں، لیکن جب ہمیں صرف اپنے دشمن کی ہی دوکان میں ہماری ضرورت کا مال مناسب دام میں مل رہا ہوگا، تو کیا وجہ ہے کہ ہم نہیں خریدیں گے۔یہی معاملہ ملکوں کے درمیان ہے۔ ایران اور چند عرب ممالک کے پاس تیل کی دولت ضرور ہے لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس زمین کے خالق نے دنیا کے ہر کونے میں زیر زمین تیل کے ذخیرے رکھے ہیں۔ روس میں سائبیریا کے برفیلے علاقے میں زیر زمین تیل اور گیس کے عربوں سے بھی زیادہ بڑے ذخیرے ہیں۔کینیڈا اور امریکہ کی زمین کے نیچے بھی تیل بھرپور مقدار میں موجود ہے۔ ہمارے ملک میں آسام اور گجرات میں بہت ذخیرہ پڑا ہوا ہے۔ بمبئی ہائی میں بحر ہند کے پانی کے نیچے سارے ہندوستان کی ضرورت کی گیس موجود ہے۔پھر سوال یہ ہے کہ لوگ کیوں عربوں سے تیل خرید رہے ہیں؟ دراصل تیل ایک قدرتی چیز ہے جس کے ذخیرے ایک نہ ایک دن ختم ہونے ہی ہیں۔ عربوں کے پاس تیل کے سوا کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جسے وہ دنیا میں بیچ سکیں۔اسی پر ان ممالک کی معیشت کا انحصار ہے۔ انہیں تیل فروخت کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ عرب دنیا میں تیل نکالنے پر خرچ کم آتا ہے اور اپنے ملک کے تیل کو نکالنے کے بجائے عربوں سے تیل خریدنا سستا پڑتا ہے۔ دوسرے یہ کہ عربوں کے تیل پر چار امریکی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ تیسرے یہ کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمت امریکی کمپنیاں طے کرتی ہیں۔ عرب اپنے ذخیروں پر ملنے والی رائلٹی پر ہی مطمئن ہیں۔ حد یہ کہ ایران دنیا میں کچاتیل برآمد کرنے والے ملکوں میں صفِ اول میں ہے۔ لیکن یہی ایران تیل کے معاملے میں اتنی بھی ترقی نہ کرسکا کہ اپنے تیل کو ریفائن کرسکے۔ چنانچہ مشرق وسطیٰ میں پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات کا سب سے بڑا درآمد کرنے والا ملک بھی یہی ایران ہے۔ بار بار امریکی اور یہودی سامان کے بائیکاٹ کی اپیل کی جاتی ہے اور بار بار یہ نسخہ فیل ہوجاتا ہے۔اس طرح ہمارے دشمنوں کو مسکرانے کا موقع ملتا ہے۔
ایک میڈیم درجہ آمدنی والا شخص بھی اپنی زندگی میں تقریباً چھ سو برانڈ کی چیزوں کا استعمال کرتا ہے۔ مثلاً فلاں برانڈ کے جوتے، فلاں برانڈ کی دوائیاں، فلاں برانڈ کی غذائی اجناس وغیرہ۔ ان تمام برانڈز میں ایک بھی برانڈ مسلم برانڈ نہیں ہے اور ان برانڈز کی ساٹھ فیصد فیکٹریاں یہودیوں کی ہیں یا انکے سرمائے سے چلتی ہیں۔انہی فیکٹریوں میں بڑی تعداد میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور فلسطین کے علاوہ یمن اور میلشیاء کے مسلم ورکرس جاب بھی کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے حالات حاضرہ سے بھی روشناس رہتے ہوئے لیڈروں کے بیانات، اخباروں کی سرخیاں اور تحریکوں کی ہلچل ہو، تاکہ ہماری اپنی عوام حالات سے باخبر رہے اور اپنے شعور کے ساتھ آئندہ کا نقشہ تیار کرے تاکہ حالات بدلیں۔
حیراں ہوں دل کو رووٴں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
————————-
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 04 ، جلد: 93 ربيع الثانى 1430 ھ مطابق اپریل 2009ء