از: محمد عظیم فیض آبادی
قسط اوّل
انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق بلکہ ہر وقت بھینٹ ملاقات، لین دین کا سابقہ ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور اس کی خوشگواری و ناخوشگواری کا زندگی کے چین وسکون اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔
انسان اوراس کے تمدن کی بنیاد باہمی اشتراک آپسی تعاون پرقائم ہے اس دنیا کا ہر انسان ایک دوسرے کی مدد کا محتاج اور ایک دوسرے کی نصرت وحمایت پر اس کی زندگی کا انحصار ہے اگر اک بھوکا ہے تو دوسرے کا حق ہے کہ اپنے کھانے میں اسے بھی شریک کرے اگر ایک بیمار ہے تو دوسرا اس کی عیادت و تیمارداری کرے اگر ایک کسی آفت ومصیبت کا شکار ہو اور کسی رنج و غم میں مبتلاء ہوتو دوسرا اس کا شریک و سہیم بنے اور اس کے رنج وغم کا مداوا کرے اوراس اخلاقی نظام کے ساتھ حضرت انسان کی ساری آبادی باہمی اخوت ومحبت اور حقوق کی ذمہ داریوں کے اٹوٹ بندھن میں بندھ کر اتحاد ویکجہتی کا مظہر اور ”یُوٴثِرُونَ علی اَنْفُسِہم وَلَو کَاْنَ بِہِمْ خَصَاصَہ“ کا حقیقی مصداق بن جائیں۔
ہر انسان بظاہر جسمانی روحانی حیثیت سے ایک دوسرے سے جتنا علاحدہ ہے اخلاقی و روحانی حیثیت سے ضروری ہے کہ وہ اتنا ہی زیادہ ایک دوسرے سے گھلاملا ہو، ایک کا وجود دوسرے کے وجود سے اتنا ہی پیوستہ ہو۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ اس کو جزو ایمان اور داخلہٴ جنت کی شرط اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا معیار قرار دیا ہے۔
حبیب کبریا صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مَازَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِی بِالْجَارِ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّہ سَیُوَرِّثُہ “ (بخاری ومسلم) کہ جبریل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت و امداد کی اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسیوں کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کردیا جائے گا پڑوسیوں کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا اور اچھا رویہ پیش کرنا اللہ اوراس کے رسول کی محبت کی شرط اور اس کا معیار قرار دیاگیا ۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے وضوء فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے آپ کے وضوء کا پانی لے کر اپنے بدن اور چہرے وغیرہ پر ملنے لگے جب سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس عمل پر تمھیں کون سی چیز آمادہ و برانگیختہ کررہی ہے تو ایسا کیوں کررہے ہو تو صحابہ کرام کا جواب تھا کہ بس اللہ اور اس کے رسول کی محبت تب آپ نے ارشاد فرمایا سنو جو شخص یہ پسند کرتا ہو اور جس کی یہ خواہش ہو کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول کی محبت نصیب ہوجائے یا یہ کہ اللہ و رسول کو اس سے محبت ہوتو اسے تین باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے: جب بات کرے تو سچ بولے جب کوئی امانت اس کے پاس رکھی جائے توامانت داری کے ساتھ اس کو ادا کرے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
ایک موقع پر سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرے۔
ترمذی اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کسی محلے کے لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور بہتر وہ شخص ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو۔
مسند احمد کی ایک روایت میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے کہ ایک پڑوسی کو پیٹ بھر کر کھانا جائز نہیں جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔
کسی شخص کا نیکوکار یا بدکار ہونا اس کے پڑوسی کی گواہی کے ذریعہ معلوم ہوگا۔ ایک شخص نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اپنی نیکوکاری و بدکاری کو کس طرح معلوم کرسکتاہوں؟ حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جب تم کسی کام کے بارے میں اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو تم نے اچھا کام کیا تو تمہارا کام اچھا ہے، اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے برا کیا ہے تو تمہارا وہ کام برا ہے۔ (ابن ماجہ)
برا کہے جسے عالَم اسے برا سمجھو
زبان خلق کو نقارئہ خدا سمجھو
ظاہر ہے کہ ان ارشادات وواقعات کا مقصد صرف واقعہ کا بیان نہیں بلکہ پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کے اظہار کے لیے یہ نہایت موٴثر اور بلیغ ترین عنوانات ہیں جن کا مدعا اور پیغام یہی ہے کہ اہل ایمان کے لیے لازم ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اور رویہ شریفانہ رہے کہ ان کی طرف سے بالکل مطمئن اور بے خوف و خطر رہیں، دل ودماغ کے کسی گوشے میں بھی ان کے بارے میں کوئی اندیشہ کسی طرح کی کوئی فکر دامن گیر نہ رہے۔
اگر کسی مسلمان کا یہ حال نہیں ہے اس کے پڑوسی اس سے بے خوف اور مطمئن نہیں ہیں تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ اسے ایمان کا مقام نصیب نہیں ہے ”لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لاَ یَأمَنُ جَارُہ بَوَائقَہ “ جنت میں اس شخص کا داخلہ ممنوع ہے جس کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے اس کے پڑوسی مامون نہ ہوں۔ (مسلم شریف)
ایک حدیث میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تین مرتبہ قسم کھاکر فرمایا خدا کی قسم وہ موٴمن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ موٴمن نہیں۔ صحابہ نے دریافت کیا کون یا رسول اللہ تو آپ نے فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔ (مسلم)
پڑوسیوں سے محبت و تعلقات کی استواری کا بہترین ذریعہ باہم ہدیوں و تحفوں کا لین دین ہے ، سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم خود اپنی بیوی کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اسی بناء پر ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کس کو پہلے یا زیادہ ہدیہ بھیجوں آپ نے فرمایا جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔ (مشکوٰة)
ایک ”توکل“ پیشہ صحابی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جب تم سالن بناؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے ہمسایوں کی خبر گیری کرو، یعنی صرف اپنی لذت کے پیش نظر سالن نہ بناؤ بلکہ ضرورت مند ہمسایوں کا بھی خیال رکھو اور ان کے گھر بھی سالن بھیجو۔
ہمسائیگی ۔ ہمسائیگی کے تعلق کو مستحکم و خوشگوار رکھنے کے لیے پڑوسیوں کے درمیان کچھ نہ کچھ صدقہ و تحفہ دینے لینے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور اس کے لیے بڑی اور اعلیٰ چیزوں کو مد نظر نہ رکھنا چاہیے بلکہ کوئی تھوڑی وقلیل چیز ہوتو اس کو دینے لینے میں حقارت محسوس نہ کرے حضور صلى الله عليه وسلم نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے مسلمان عورتوں کوئی ہمسائی اپنے ہمسائی کے لیے ہدیہ و صدقہ حقیر نہ سمجھے اگرچہ بکری کا ایک کھڑہی ہو (بخاری ومسلم)
ایک مسلمان کی مروت و شرافت کا یہ تقاضہ نہیں کہ خود راحت اور عیش و آرام سے زندگی بسر کرے اور اپنے ہمسائے کے رنج و تکلیف اور گھریلو ضروریات کی پرواہ نہ کرے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ارشاد کے مطابق موٴمن وہ نہیں جو خودشکم سیرہو اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے اور وہ اس کے بھوکے ہونے سے باخبر بھی ہو ۔ (رواہ البزار والطبرانی فی الکبیر)
پیغمبر اسلام کی زبان حکمت کی ان تعلیم و ہدایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا کیا مقام و مرتبہ ہے مگرافسوس کہ محبت رسول کا دم بھرنے والے ہم مسلمانوں کی زندگی و طرز عمل اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات میں اتنا بعد ہوگیا کہ کسی نا آشنا کو اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ تعلیم و ہدایت مسلمانوں کے پیغمبر کی ہوسکتی ہے۔
غور کیجیے کہ سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم کے ان مبارک ارشادات میں اپنے ہمسایوں کے بھوک و پیاس کے مسئلوں سے بے پرواہ اور ان کی دیگر ضروریات سے بے فکر ہوکر زندگی گزارنے والوں کے لیے کتنی سخت وعید سنائی ہے لیکن افسوس کہ اس طرح کی حدیثیں ہمارے علمی و درسی حلقوں میں اب کلامی بحثوں اور علمی موشگافیوں کے اندرہوکر رہ جاتی ہیں۔ اگر ان حدیثوں کو پڑھ یا سن کر حیات انسانی کے ان تشنہ شعبوں کو درست کرنے کی فکر دامن گیر ہوجائے تو انشاء اللہ ضرور وہ خوش گوار و پرسکون معاشرہ تشکیل پائے گا دنیا کو جس معاشرے کی تلاش ہے ورنہ۔
لطف تو جب ہے کہ کردار بھی کروٹ بدلے
ورنہ جذبے تو لیا کرتے ہیں انگڑائی بہت
طبرانی کی معجم کبیر میں حضرت معاویہ رضى الله تعالى عنه بن حیدہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے پڑوسیوں کے حقوق کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ پڑوسی کا تم پر یہ حق ہے کہ اگر پڑوسی کسی بیماری میں مبتلاء ہوجائے تو اس کی عیادت و خبر گیری کرو، اگر اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو اوراگر کسی ضرورت وغیرہ سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو اور اگر کوئی برا کام کربیٹھے تو پردہ پوشی کرو اور اگر اس کو کوئی نعمت ملے تو مبارک باد دو اور اگر کسی مصیبت کا شکار ہوجائے تو تعزیت کرو اور اپنی عمارت کو اس کی عمارت سے اس قدر بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجائے اور تمہارے ہانڈی کی مہک اس کے لیے تکلیف کا باعث ہو اوراس میں سے تھوڑا سا کچھ سالن اس کے گھر بھی بھیج دو یعنی اگر گھر میں کوئی لزیز وخوش ذائقہ چیز بنے اس صورت میں یا تو اس کے گھر بھی کچھ سالن پہنچاؤ یا پھر اس کی خوشبو پڑوس کے گھر تک نہ جائے۔
غور وفکر کا دائرہ وسیع کیجیے اور دل و دماغ کے دریچے وا کیجیے کہ کتنے لطیف پیرائے میں پڑوس میں بسنے والے انسانوں کو متنبہ کیا ہے، کہ گھر کی دیوار اتنا بلند کرنا جو ہمسائے کی ہوا کو روکنے کا سبب بن جائے، اور گھرمیں پکنے والی مرغوب چیز کی مہک نہ جانے پائے کہ اس وجہ سے پھول جیسے ناسمجھ بچوں کے دل میں اس کی طمع ولالچ پیداہوگی جو ان کے لیے باعث تکلیف ہے یا پھر ان کے گھر بھی پہنچانے کا اہتمام کیاجائے۔
مذہب اسلام کے اس اصولی نقطئہ نظر سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام نے پڑوسیوں کے بارے میں کتنے نازک و باریک پہلوؤں کی رعایت کو بھی ملحوظ رکھ کر اس کو ضروری قرار دیا۔
امام غزالی علیہ الرحمة نے احیاء العلوم کے اندر ایک عجیب و غریب واقعہ ذکر کیا ہے کہ کسی کے گھر میں چوہوں کی کثرت ہوگئی تو کسی نے بلی پالنے کا مشورہ دیا کہ اس طرح چوہے تمہارے گھر سے فرار ہوجائیں گے توگھر والے نے کہا کہ ”مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے میرے گھر سے نکل کر میرے پڑوس کے گھر میں چلے جائیں گے اور میں جو چیز اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہی چیز اپنے پڑوسی کے لیے پسند کرنے لگوں؟ یہ موٴمن کی شان کے خلاف ہے۔
کہنے کو تو یہ مختصر سی بات ہے لیکن اس پر عمل کی توفیق اس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک کہ انسان کا ایمان کامل نہ ہوجائے یہ صفت انسانی کمال کی ایک معراج ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا نفس پورے طور پر مدارجِ تہذیب طے کرچکا۔
* * *
——————————-
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 04 ، جلد: 93 ربيع الثانى 1430 ھ مطابق اپریل 2009ء