از: محمد شاہ نواز عالم قاسمی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کر قابل بن جائے؛ مگر کیاہر بچہ ماں باپ کی خواہش پر پورا اترتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے، بعض بچے تو ذراسی توجہ سے اچھے اچھے نتائج حاصل کرلیتے ہیں؛ مگر کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اچھے اسکول میں پڑھنے اور ٹیوشن حاصل کرنے کے باوجود بھی پڑھنے لکھنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، ایسے بچوں پر اگر خصوصی توجہ دی جائے تو وہ دوسرے ذہین بچوں کی طرح بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ کند ذہن بچوں پر خصوصی توجہ دینے کے بجائے، اُن کے والدین یا اُن کے اساتذہ اُنھیں مختلف قسم کے القاب سے نوازتے رہتے ہیں، مثلاً یہ بچہ تو لاپرواہ ہے، نہ جانے اُس کا دھیان ہروقت کدھر رہتا ہے، ویسے تو یہ خوب تر ہے، دوسروں کی شکایتیں بھی خوب کرتا ہے، کھیل کود میں بھی کسی سے پیچھے نہیں، لڑتا بھڑتا بھی رہتا ہے؛ مگر پڑھائی کے وقت نہ جانے اُسے کیا ہوجاتا ہے۔
کبھی ماں اپنے دیگر رشتے داروں یا بچے کے دوستوں کے سامنے یہ فقرے بھی دہراتی نظر آتی ہے کہ اُس نے ہماری ناک کٹوادی ہے، اب اگر تم فیل ہوگئے تو یاد رکھنا میں تمھیں آنٹی کے ہاں لے کر نہیں جاؤں گی، دیکھو شرم کرو، تمھارا فلاں دوست کتنے اچھے نمبر لے کر پاس ہواہے اور ایک تم ہو، نکمّے ، نکور، آخر تم کو کب عقل آئے گی․․․․ وغیرہ وغیرہ۔
ایسی باتیں کرنے والے اساتذہ یا والدین کا شاید یہ خیال ہوتا ہے کہ اس طرح ڈانٹ ڈپٹ سے اُن کا بچہ کچھ اثر لے گا اور پڑھائی کی طرف دھیان دے گا؛ مگر یہ سب ان کی خام خیالی ہے، اِن باتوں کا تو بچے کی شخصیت پر منفی اثر ہی پڑتا ہے۔ وہ جذباتی اور عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے، اس کے اندر منفی صلاحیتیں مختلف پہلوؤں سے اجاگر ہونا شروع ہوجاتی ہیں وہ تنہائی پسند ہوجاتا ہے اس میں چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا ہے۔ اکثر ایسے بچوں کو ایسے الفاظ دہراتے ہوئے پایاگیا کہ ”ہاں ہاں! میں بُرا ہوں، اللہ کرے، میں مرجاؤں۔“
اگر آپ کے بچے میں مذکورہ بالا خصلتیں پائی جاتی ہیں تو آپ اپنے بچے کو قصور وار مت ٹھہرائیں، اس کی اِس کیفیت میں عقلی شعور کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ تمام سوچ اور کوششوں کے باوجود کچھ نہیں کرپاتا جو آپ کی خواہش ہے، ایسے بچے میں سیکھنے کی عدم صلاحیت قدرتی طور پر رکاوٹ بنتی ہے اور جو چیز بچے میں قدرتی طور پر کم پائی جاتی ہو اس کا نعم البدل مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
۱۹۶۳/ میں نیویارک میں بچوں کے والدین کا ایک اجلاس ہوا جس میں ”آموزشی دشواریاں“ کی اصطلاح سامنے آئی جس کا تعلق ان بچوں سے تھا جن کی ذہنی استعداد تھی تو عام بچوں کی طرح؛ مگر ان کو اپنا سبق یاد کرنے میں عارضی ومعمولی دشواری محسوس ہوتی تھی۔
بچوں میں پائی جانے والی آموزشی دشواریوں کی چند اقسام یہ ہیں: (۱) یاد کرنے میں دشواری (۲) سمجھنے میں دشواری (۳) املا لکھنے میں دشواری (۴) ازخود کسی تعلیمی مسئلے کو حل کرنے میں دشواری (۵) بار بار پڑھنے یا کتاب لے کر بیٹھنے کے باوجود صحیح طریقے پر نہ سمجھنے میں دشواری۔
اگر یہ علامتیں بہ ظاہر ایک صحت مند اور نارمل بچے میں پائی جائیں تو ایسے والدین کو چاہیے کہ ان بچوں کے ساتھ اپنے رویہ میں مندرجہ ذیل احتیاط برتیں:
(۱) ایسے بچوں کا کسی دوسرے بچے سے موازنہ نہ کریں۔
(۲) بچے کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں۔
(۳) ان کے بارے میں طنزیہ یا نفرت کالہجہ اختیار نہ کریں اور خاص طور پر اُن کی شخصیت کو ہرگز نظر انداز نہ کریں۔
تھوڑی سی توجہ سے آپ کا وہ بچہ جسے آپ کند ذہن سمجھتے ہیں، دوسرے بچوں کی طرح اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے؛ لہٰذا آپ کو چاہیے کہ آپ وقت ضائع کیے بغیراسے کسی اچھے ماہر نفسیّات کو دکھائیں اور دین دار تجربہ کار بزرگ یا عالم و مفتی سے مشورہ کریں؛ تاکہ مناسب تشخیص کے بعد بچے میں موجود آموزش کی دشواریوں کو خصوصی تراکیب کی مدد سے اگر ختم نہیں تو کم کیا جاسکے اور آپ کا بچہ بھی تعلیمی مراحل بھرپور طریقے سے طے کرے۔ یا درکھیے! ایسا بچہ جس کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں خصوصی توجہ کا طالب ہوتا ہے، اگر آپ مصروف ہیں تو مصروفیات ترک کرکے اس کو خصوصی توجہ دیں یہ آپ کا دینی اور معاشرتی فریضہ ہے۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ بچہ کے کند ذہن ہونے کی کوئی دوسری وجہ نہیں ہوتی؛ بلکہ گھر کے افراد لاڈ پیار میں اس کم عمر کو کچھ نہ کچھ ہر وقت کھلاتے رہتے ہیں، بزرگوں نے لکھا ہے کہ کم عمر بچہ زیادہ کھائے تو اس کا حافظہ خراب ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔
ہم لوگ ڈانٹ ڈپٹ تو کرلیتے ہیں اسے غذا یا مرغوب چیزیں دینے میں تناسب کا خیال نہیں رکھتے، حالانکہ ذراسی اپنے نظام کی تبدیلی سے ساری شکایت دور ہوسکتی تھی؛ مگر اِس کی خاطر خواہ مخواہ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا چکر لگانے میں اپنا نظام درست نہیں کرتے۔
کند ذہن بچوں کی تعلیم
جو بچہ کند ذہن اور کمزور دماغ کا ہو اس کا علاج علم ہے، عقل پر لگے ہوئے زنگ کو علم ہی دور کرتا ہے، اس کی تعلیم کی طرف سے ہرگز غفلت نہ برتی جائے؛ بلکہ کوشش کرکے حکمتِ عملی سے کام لے کر اُس کو اس میں لگادے۔ اِس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے سامنے مختلف قسم کی چیزیں پیش کرے، ان کے متعلق سوالات کرکے اس کی خوبیاں اور کمزوریاں بیان کرے، تھوڑا سبق دے اور اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرادے اور جب تک پختہ نہ ہوجائے آگے نہ بڑھائے۔ اس میں اتنی بات ضرور ہے کہ تعلیم دینے والے کو محنت اور دماغ پاشی زیادہ کرنی پڑے گی اور وہ ایک سیر علم سکھائے گا تو پاؤبھر جتنا فائدہ ہوگا؛ لیکن ہوگا ضرور اور ایسی امید بھی کی جاسکتی ہے کہ آگے چل کر اس کا دماغ کھل جائے اور وہ ایک ذہین بچہ بن جائے۔
بچوں کی حالتیں وقتاً فوقتاً بدلتی رہتی ہیں، ممکن ہے کہ جو بچہ بچپن میں کند ذہن ہو وہ آگے چل کر بے حد ذہین بن جائے اور ذہین بچہ ایک دم کند ذہن بن جائے لہٰذا ناامید ہوکر بچے کی تعلیم کو موقوف نہیں کرنا چاہیے۔
* * *
—————————-
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 04 ، جلد: 93 ربيع الثانى 1430 ھ مطابق اپریل 2009ء