از: مفتی محمد اسماعیل طورو ، جامعہ اسلامیہ ، کشمیر روڈ صدر راولپنڈی
بعض نوماہ کا کورس کراکر لڑکا یا لڑکی کو فارغ کردیتے ہیں۔ اگرچہ عالم سے قرآن سمجھنے کے لئے نہیں بلکہ قرآن کی تفسیروترجمہ پڑھانے اور مدرس کیلئے بنیادی علوم کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر علم چاہتے ہوتو قرآن پاک کے معانی میں غور وفکر کرو کہ اس میں اولین وآخرین کا علم ہے۔
مگر کلام پاک کے معنی کے لئے جو شرائط و آداب ہیں ان کی رعایت ضروری ہے یہ نہیں کہ ہمارے زمانہ کی طرح سے جو شخص عربی کے چند الفاظ کے معنی جان لے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بغیر کسی لفظ کے معنی جانے اردو ترجمہ دیکھ کر اپنی رائے کو اس میں داخل کردے۔ حضور اکرم صلى الله علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے کہ جو شخص قرآن پاک کی تفسیر میں اپنی رائے سے کچھ کہے اگر وہ صحیح ہو تب بھی اس نے خطا کی مگر آج کل کے ”روشن خیال“ لوگ قرآن پاک کی ہر آیت میں سلف کے اقوال کو چھوڑ کر نئی بات پیداکرتے ہیں ہمارے زمانہ میں ہر روشن خیال اس قدر جامع الاوصاف اورکامل ومکمل بننا چاہتا ہے کہ وہ معمولی سی عربی عبارت لکھنے لگے بلکہ صرف اردو عبارت دلچسپ لکھنے لگے یا تقریر برجستہ کرنے لگے تو پھر وہ تصوف جنید و شبلی کا استاد ہے فقہ میں مستقل مجتہد ہے۔ قرآن پاک کی تفسیرمیں جو نئی سے نئی بات دل چاہے گھڑے نہ اس کا پابند کہ سلف میں سے کسی کا یہ قول ہے یا نہیں، نہاس کی پروا کی نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کے ارشادات اس کی نفی تو نہیں کرتے، وہ دین میں مذہب میں جو چاہے کہے جو منہ میں آئے بکے کیا مجال ہے کہ کوئی شخص اس پر نکیرکرسکے یا اس کی گمراہی کو واضح کرسکے، جو یہ ہے کہ یہ بات اسلاف کے خلاف ہے وہ لکیر کا فقیر ہے، تنگ نظر ہے، پست خیال ہے ، تحقیقات عجیبہ سے عاری ہے۔ لیکن جو یہ کہے کہ آج تک جتنے اکابر نے اسلاف نے جو کچھ کہا وہ سب غلط ہے اور دین کے بارے میں نئی بات نکالے وہ دین کا محقق Researcher ہے۔حالانکہ اہل فن experts نے تفسیر کے لئے پندرہ علوم پر مہارت ضروری بتلائی ہے مختصراً عرض کرتا ہوں جس سے معلوم ہوجائے کہ بطن کلام پاک تک رسائی ہر شخص کو نہیں ہوسکتی۔
* اول لغت، جس سے کلام کے مفرد الفاظ کے معنی معلوم ہوجاویں، مجاہد رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ پراور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کوجائز نہیں کہ بدون معرفت لغات عرب کے کلام پاک میں کچھ لب کشائی کرے اور چند لغات کا معلوم ہوجانا کافی نہیں، اس لئے کہ بسااوقات لفظ چند معانی میں مشترک ہوتا ہے اور وہ ان میں سے ایک دو معنی جانتا ہے اور فی الواقع اس جگہ کوئی اور معنی مراد ہوتے ہیں۔
* دوسرے نحو جاننا ضروری ہے اس لئے کہ اعراب زیر زبر پیش کی تبدیلی سے معنی بالکل بدل جاتے ہیں اور اعراب کی معرفت نحو پر موقوف ہے۔
* تیسرے صرف کا جاننا ضروری ہے، اس لئے کہ بناء اور صیغوں کے اختلاف سے معانی بالکل مختلف ہوجاتے ہیں۔ ابن فارس کہتے ہیں کہ جس شخص سے علم الصرف فوت ہوگیا اس سے بہت کچھ فوت ہوتا ہے۔ علامہ زمخشری اعجوبات تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے قرآن پاک کی آیت یوم ندعو کل اناس بامامہم (جس دن کہ پکاریں گے ہم ہر شخص کو اس کے مقتدی اور پیش رو کے ساتھ) اس کی تفسیر صرف کی ناواقفیت کی وجہ سے یہ کی جس دن پکاریں گے ہر شخص کو ان کی ماؤں کے ساتھ۔ امام کالفظ جو مفرد تھااس کو ام کی جمع سمجھ لیا۔ اگر وہ صرف سے واقف ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ ام کی جمع امام نہیں آ تی۔
* چوتھے اشتقاق (کسی لفظ کا کسی لفظ سے نکلنا) کا جاننا ضروری ہے اس لیے کہ لفظ جبکہ دو مادوں سے مشتق ہوتو اس کے معنی مختلف ہوں گے جیساکہ مسیح کا لفظ ہے کہ اس کا اشتقاق مسح سے بھی ہے جس کے معنی چھونے اور تر ہاتھ کسی چیز پر پھیرنے کے ہیں اور مساحت سے بھی ہے جس کے معنی پیمائش کے ہیں۔
* علم معانی کا جاننا ضروری ہے جس سے کلام کی ترکیب معنی کے اعتبار سے معلوم ہوتی ہے۔
* چھٹے علم بیان کا جاننا ضروری ہے جس سے کلام کا ظہور و خفا، تشبیہ و کنایہ معلوم ہوتا ہے۔
* ساتویں علم بدیع کا جاننا ضروری ہے جس سے کلام کی خوبیاں تعبیر کے اعتبار سے معلوم ہوتی ہیں۔ یہ تینوں فن علم بلاغت کہلاتے ہیں مفسر کے اہم علوم میں سے ہیں اس لئے کہ کلام پاک جو سراسر اعجاز ہے اس سے اس کا اعجاز معلوم ہوتا ہے۔
* آٹھویں علم قرأت کا جاننا بھی ضروری ہے اس لئے کہ مختلف قراء توں کی وجہ سے مختلف معنی معلوم ہوتے ہیں اور بعض معنی ترجیح preference معلوم ہوجاتی ہے۔
* نویں علم عقائد کا جاننا بھی ضروری ہے۔ اس لئے کہ کلام پاک میں بعض آیات ایسی بھی ہیں جس کے ظاہری معنی کا اطلاق حق سبحانہ و تقدس پر صحیح نہیں۔ اس لیے ان میں کسی تاویل کی ضرورت پڑے گی جیسے ید اللّٰہ فوق ایدیہم.
*دسویں اصول فقہ کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ جس سے وجوہ استدلال و استنباط معلوم ہوسکیں۔
* گیارہویں، اسباب نزول کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ شان نزول سے آیت کے معنی زیادہ واضح ہوں گے اور بسا اوقات معنی کا معلوم ہونا بھی شان نزول پر موقوف ہوتا ہے۔
* بارہویں، ناسخ ومنسوخ کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ منسوخ شدہ احکام معمول بہا سے ممتاز ہوسکتے ہیں۔
* تیرہواں علم فقہ کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ جزئیات کے احاطہ سے کلیات پہچانے جاتے ہیں۔
* چودہواں علم ان احادیث کا جاننا ضروری ہے جو قرآن پاک کی مجمل آیات کی تفسیر میں واقع ہوئی ہیں۔
* ان سب کے بعد پندرہواں علم وہبی ہے جو حق سبحانہ و تقدس کا عطیہ خاص ہے اپنے مخصوص بندوں کو عطا فرماتا ہے جس کی طرف اس حدیث شریف میں اشارہ ہے۔ ”من عمل بما علم ورثة اللّٰہ علما مالم یعلم“ بندہ اس چیز پر عمل کرتا ہے جس کو جانتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ ایسی چیزوں کا علم عطا فرماتے ہیں جن کو وہ نہیں جانتا۔
اہل اصول نے لکھا ہے کہ شریعت پر عمل کرنے کے لیے اس کے اصول کا جاننا ضروری جو قرآن، حدیث اوراجماع ہے اور چوتھا قیاس جو ان سے ہی مستنبط ہے۔ پھر قرآن پاک پر عمل کرنے کے لیے چار چیزوں کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ پہلا نظم قرآنی، صیغہ اور لغت کے اعتبار سے۔ اس کی بھی چار قسمیں ہیں خاص، عام، مشترک، مئول۔
دوسری قسم وجوہ بیان،اس کی بھی چار قسمیں ہیں: ظاہر، نص، مفسر، محکم، اور چار قسمیں ان کے مقابل خفی، مشکل، مجمل، متشابہ۔
اور تیسری قسم نظم قرآن کے استعمال کو جاننا یہ بھی چار قسمیں ہیں حقیقت، مجاز، صریح، کنایہ۔ اور ان سب کے بعد بھی ایک مستقل قسم ہے جو سب کو شامل ہے یہ بھی چار ہیں۔ ماخذ اشتقاق کو جاننا ان کے مفاہیم اصطلاحیہ کو جاننا، اور ان کی ترکیب کو جانا اور ان پرمرتب ہونے والے احکام کو جاننا۔ امرکے متعلق پر جاننا ضروری ہے کہ کہاں وجوب کے لیے ہے اور کہاں جواز کیلئے اور استحباب کے لیے اور تکرار کے لیے قرآن پاک میں لفظ ”ادا“ کبھی خفاء کے معنی میں آتا ہے اورکبھی ”خفا“ ادا کے معنی میں آتا ہے نیز امر کبھی مطلق ہوتا ہے اورکبھی مقید۔ امر مقید کی چار قسمیں ہیں یہ سب امور اصول فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے ذکرکیے گئے ہیں، ہم نے یہ نورالانوار سے مختصر نقل کیے ہیں۔ ابوداؤد شریف (بذل۱۹۱) میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ تمہارے بعد فتنوں کا زمانہ آنے والا ہے کہ مال کی کثرت ہوجائے گی اور قرآن عام ہوجائے گا حتی کہ اس کو موٴمن اور منافق، مرد، عورت، بڑا، چھوٹا، غلام، آزاد سب پڑھنے لگیں گے تو ایک کہنے والا کہے گا کہ لوگ میرا اتباع کیوں نہ کرتے۔ حالانکہ میں نے قرآن پڑھا ہے۔ یہ اس وقت تک میری اتباع نہیں کریں گے کہ جب تک میں کوئی نئی بات نہ گھڑوں، حضرت معاذ رضى الله تعالى عنہ نے فرمایا کہ اپنے کو نئی نئی بدعتوں سے بچائے رکھو کیونکہ جو بدعت نکالی جائے گی وہ گمراہی ہوگی۔ فقط
جولوگ اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے دنیا میں قرآن کو پھیلادیا وہ حدیث بالا کی روشنی میں موجب ہلاکت اور فساد ہے قرآن پاک کا ترجمہ برکت کے واسطے موجب برکت، لیکن مسائل کا استنباط علوم قرآن سے واقفیت کے بغیر ہرگز جائز نہیں تاوقتیکہ ان علوم سے واقفیت نہ ہو جن کا ذکر مفصل اوپر گزرچکا کہ احکام کو مستنبط کرنا ان علوم پر موقوف ہے جو اوپر گزرے، در منثور میں حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے نقل کیاگیا ہے یوتی الحکمة من یشاء الآیة اس سے مراد ہے قرآن کی معرفت اس کے ناسخ ومنسوخ، محکم متشابہ، مقدم وموٴخر، حلال و حرام اوراس کے امثال وغیرہ کو جاننا۔
* * *
————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 02 ، جلد: 93 صفر 1430 ھ مطابق فرورى 2009ء