از: ڈاکٹر مفتی محمد شمیم اختر قاسمی
سلاطین ہندکا عدل وانصاف اشاعت دین کا سبب بنا:
یہ بات درست ہے کہ سلاطین ہند علما، صوفیاء اور مشائخ کی طرح دین اسلام کے نمائندے نہ تھے ،مگر اس سے بھی مفرنہیں کہ ان کاہر اقدام دین کے منافی نہ تھا،یا ان کا فکرکلی طور پر اسلام کے اصول ومبادی سے متضاد ومتصادم تھا۔اگر ان سلاطین میں بہت سے نااہل تھے تو بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو دینی روح سے مزین اور عدل پرور تھے۔چنانچہ ان دونوں قسم کے حکمرانوں کے کارناموں ،ان کی دینی خدمات ، عدل پروری اور رعایاپروری کا موازنہ کرتے ہوئے سید صباح الدین عبد الرحمن نے لکھتے ہیں:
”فخرمدبر کابیان ہے کہ قطب الدین ایبک نے سخاوت میں حضرت ابوبکر کی اور عدل میں حضرت عمر کی تقلید کرنے کی کوشش کی ،حضرت بختیار کاکی کے ملفوظات فوائد السالکین میں ہے کہ التمش کی طرف سے عام اجازت تھی کہ جولوگ بھی فاقہ کرتے ہوں اس کے پاس لائے جائیں اور جب وہ آتے تو ان میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دیتا اور ان کو قسمیں دے کرتلقین کرتا کہ جب ان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ رہے یا ان پر کوئی ظلم کرے تو وہ یہاں آکر عدل وانصاف کی زنجیر جوباہر لٹکی ہوئی ہے ہلائیں تاکہ وہ ان کے ساتھ انصاف کرسکے،ورنہ قیامت کے روز ان کی فریاد کا بار اس کی طاقت برداشت نہ کرسکے گی ۔غیاث الدین کے بارے میں مولانا ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے کہ وہ اپنی داد دہی اور انصاف پروری میں بھائیوں،لڑکوں اور مقربوں کامطلق لحاظ نہ کرتااور جب تک مظلوم کے ساتھ انصاف نہ کرلیتا،اس کے دل کو آرام نہ پہونچتا ۔انصاف کرتے وقت اس کی نظر اس پر نہ ہوتی کہ ظلم کرنے والا اس کاحامی و مددگارہے ۔اس کے لڑکے، اعزہ مخصوصین ،والی اور مقطع اس کی عدل پروری سے واقف تھے ،اس لیے کسی کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ کسی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کریں،اس کے عدل وانصاف کے قصے بہت مشہور ہیں، خود اس زمانہ کے ہندوؤں نے اس کی حکومت کو دل کھول کر سراہاہے ۔۱۳۳۷بکرمی مطابق ۱۲۸۰ء کا ایک سنسکرت کتبہ پالم میں ملا ہے جس میں لکھا ہے کہ بلبن کی سلطنت میں آسودہ حالی ہے۔اس کی بڑی اور اچھی حکومت میں غور سے غزنہ اوردراوڈسے رامیشورم تک ہرجگہ زمین پربہار ہی بہار کی دل آویزی ہے ،اس کی فوجوں نے ایساامن و امان قائم کیا ہے جوہر شخص کو حاصل ہے ، سلطان اپنی رعایا کی خبر گیری ایسی اچھی طرح کرتاہے کہ خود و شنو دنیا کی فکر میں آزاد ہوکر دودھ کے سمندر میں جاکرسورہے ہیں۔امیرخسرو علاء الدین خلجی کے بارے میں خزائن الفتوح میں لکھتے ہیں کہ اس نے حضرت عمر کے ایساعدل قائم کررکھا ہے اور عوام کے معاملات میں وہ المستنصر باللہ اور المستعصم بناہوہے ۔محمد بن تغلق کے بارے میں سلاطین دہلی اور مغل بادشاہوں کے د ورکے موٴرخین لکھتے ہیں کہ وہ عدل نوازی کے سلسلہ میں مشائخ اور علماء کی بھی رورعایت نہ کرتا ،وہ اگر مجرم ہوتے تو ان کو بھی بلاتامل سزائیں دیتا۔مسالک الابصار میں ہے کہ سلطان ہفتہ میں شنبہ کو دربارعام منعقد کرتا اور اس کے افتتاح کے موقعہ پر ایک نقیب بلند آوازسے پکارتا تاکہ مظلومین اپنی فریادسنائیں،اہل حاجت اپنی ضرورتیں پیش کریں ،جس کو کوئی شکایت ہو یاجوحاجت مندہووہ حاضرہوجائے ،نقیب کے خاموش ہوتے ہی اہل غرض بلاتکلف سامنے آجاتے اور سامنے کھڑے ہوکر نہایت صفائی سے حالات بیان کرتے ،اثنائے بیان میں کسی کوکسی کے روکنے کی مجال نہ تھی۔تاریخ مبارک شاہی اور ملا عبد القادر بدایونی کی منتخب التواریخ دونوں میں ہے کہ سلطان نے اپنے شاہی محل کے اندر چار مفتی مامور کر رکھے تھے، جب کوئی فریادی آتاتو سلطان ان مفتیوں سے مشورے کرتااور ان کو تنبیہ کررکھی تھی کہ اگرکوئی معصوم ان کی فیصلہ کی بدولت تہ تیغ ہواتواس کاخون ناحق ان کے گردن پر ہوگا۔اس لیے مفتیوں سے کوئی فروگزاشت نہ ہوتی۔موجودہ دور کے ہندو موٴرخین بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ فیروز شاہ کی حکومت عدل وانصاف کی حکومت تھی،کسی شخص کو بھی دوسرے پر ظلم وتعدی کرنے کاحق نہ تھا،تمام ملک میں امن وسکون تھا ،چیزوں کی فراوانی تھی،اعلیٰ وادنیٰ ہرطبقہ کے لوگ مطمئن تھے،عام رعایاقانع اوردولت مندہوگئی تھی۔
سلاطین دہلی کی حکومت میں عدل پروری کی جو روایت قائم ہوئی اس کو مغل بادشاہوں نے بھی اوربھی شاندار طریقے پر برقرار رکھا ۔بابرنے اپنی تزک میں خود لکھا ہے کہ اس کی فوج بھیرہ سے گزررہی تھی تو اس کو معلوم ہوا کہ سپاہیوں نے بھیرہ والوں کوستایاہے اور ان پر ہاتھ ڈالاہے ،تو فوراًان سپاہیوں کو گرفتار کرکے بعض کو سزائے موت کا حکم دیا اور بعض کی ناکیں کٹواکر تشہیر کرایا۔ ابوالفضل کابیان ہے کہ اکبر نے روزانہ ڈیڑھ پہر عدل و انصاف کے لیے مقرر کر رکھاتھا۔ جہاں گیر اور بھی سخت تھا،وہ دو گھنٹے روزانہ عوام کی شکایتیں سنتا،اس نے تو اپنے محل میں ایک زنجیر لگارکھی تھی تاکہ ہرشخص کسی روک ٹوک کے بغیر براہ راست اس سے فریاد کرسکے ،وہ سفر میں بھی ہوتاتو روزانہ تین گھنٹے بیٹھ کر فریادسنتا اور ظالموں کو سزادیتا تھا،علالت کے زمانہ میں بھی اس کایہ معمول جاری رہتا ۔اس نے اپنی تزک میں لکھا ہے کہ ”مخلوق خداکی نگہبانی کے لیے میں رات کوبھی جاگتاہوں اور سب کے لیے اپنے آپ کو تکلیف دیتاہوں ۔
وہ تو نور جہاں کوبھی ایک عورت کے شوہر کو ہلاک کرنے پر موت کی سزا دینے کے لیے تیار ہوگیا تھا۔جیساکہ مولانا شبلی کی نظم”عدل جہاں گیری“سے ظاہر ہوگا۔
مغل بادشاہوں کایہ دستورتھاکہ وہ دیوان عام میں عوام کی شکایتیں سنتے جہاں ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی ان کے پاس آسانی سے پہونچ سکتاتھا۔جوبھی چاہتا دربارعام کے سامنے حاضر ہوکر خود اپنا استغاثہ پیش کردیتا ،دربار کے عہدے دار اس کولے کر بادشاہ کے سامنے پیش کردیتے، بادشاہ اس کو پڑھواکر سنتا،مدعی سے جرح کرتااور پھر مناسب کاروائی کے لیے فیصلہ صادر کردیتا، اگر مجرم کوئی بڑاعہدیدار یاشاہی خاندان کا بھی ہوتاتواس کوسزائیں دینے میں تامل نہ کیاجاتا۔شاہ جہاں نے گجرات کے ناظم حافظ محمدنصیر کوحبس دوام کی سزااس لیے دی کہ وہاں کے تاجروں کے ساتھ وہ ظالمانہ طریقہ پرپیش آتاتھا،اسی طرح ایک بار بنگال کے ناظم فدائی خاں کو اس کے عہدہ سے برطرف محض اس لیے کردیاکہ عوام اس کے شاکی تھے ۔اورنگ زیب کے ناقدین بھی اس پر یہ الزام نہیں رکھ سکتے کہ وہ عدل پرور نہیں تھا،اس نے شاہ جہاں کواس کی معزولی کے بعد ایک رقعہ میں لکھا کہ خدا وندتعالیٰ اس کوکچھ عطا کرتاہے جس میں رعایا کی حالت سدھارنے اور ان کی حفاظت کی صلاحیت ہوتی ہے ، حکمرانی کے معنی لوگوں کی نگہبانی ہے نہ کہ تن پروری اور عیاشی۔
اوراسی عدل پروری کا نتیجہ تھا کہ جوسلاطین مذہبی ہوتے انہوں نے جزیہ یا نئے مندر کے بننے اور نہ بننے کاسوال تو اٹھایا لیکن یہاں کہ غیر مسلموں پر اپنا مذہب زبردستی لادنے کی کوشش نہیں کی ،وہ خود تو اسلام کے محافظ اور نگہبان ضرور ہے اور مسلمانوں کو بھی اوامرونواہی کی پابندی کرانے کی کوشش کی لیکن کبھی اپنی غیر مسلم رعایا کے مذہبی عقائد میں مداخلت نہیں کی اور ان کی معاشرتی زندگی کو درہم برہم نہیں کیا۔اکبر نے انسان دوستی کے جذبہ سے ستی کے رسم کو روکنے کی کوشش کی،کمسن بیواؤں کے رواج کو بھی ختم کردینا چاہا ،بچپن کی شادی کے خلاف بھی کچھ عملی کار وائی کی، لیکن اپنی ہمدردانہ خواہشوں کو کبھی تلوار کی نوک سے عمل میں نہیں لایا ۔بعض فرماں رواؤں پر جبری تبلیغ کاالزام عائد کیا جاتاہے ، لیکن تحقیقات سے یہ الزامات زیادہ تر بے بنیادثابت ہورہے ہیں۔ ہندوموٴرخین لکھتے ہیں کہ یوپی چھ سوسال تک مسلمانوں کے زیر نگیں رہا،لیکن یہاں مسلمان صرف چودہ فیصدی ہیں ،اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو مذہب محفوظ رہا اورجبری اشاعت اسلام نہیں ہوئی،اور ہندوؤں کوزبوں حال نہیں بنایاگیا ،تمام سلاطین اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ ان کاسیاسی مفاد اسی میں ہے کہ یہاں کے لوگوں کے مذہبی اور معاشرتی نظام میں مداخلت نہ کریں،اس رواداری کے بغیر ان کی حکومت زیادہ دنوں تک قائم بھی نہیں رہ سکتی تھی۔صوفیاء کرام نے خدمت خلق اللہ اور عدل پروری کی جو تعلیم دی اور خود یہاں کے غیر مسلموں کے ساتھ ان کاجو کریمانہ اور روادارانہ اخلاق رہا اس سے سلاطین کو مزید تقویت پہونچی ۔ … لیکن یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جس سلاطین کا ذکر اوپر کی سطروں میں کیا گیا ہے،وہ مسلمانوں کے دور عروج کے اچھے حکمراں تھے،اگر ان میں واقعی یہ خوبیاں نہ ہوتیں تو خون سے ہولی کھیلنے والے ،ہتھیلی پرسررکھ کرلڑنے والے ، اپنے سینوں کو نوک شمشیر اور نوک سنان سے چھلنی کرنے والے راجپوتوں کی سرزمین میں ان کا اور ان کے ہم مذہبوں کا قدم جمنا آسان نہ تھا۔اس لیے یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ مسلمانوں کی حکومت کے دور عروج میں زیادہ تر اچھے حکمراں گزرے۔
غلام سلاطین میں آرام شاہ،رکن الدین فیروز شاہ،معزالدین بہرام شاہ،علاء الدین مسعود شاہ اور کیقبادجیسے بے جان حکمراں بھی گزرے۔لیکن اسی خاندان میں التمش کی نیک نفسی اور انتظامی کاکردگی ،بلبن کے جاہ وجلال اور عدل گستری کی بدولت حکومت کو غیر معمولی قوت حاصل ہوئی ۔خلجی سلاطین کے عہد میں قطب الدین مبارک شاہ جیسارند اور ناصرالدین خسروجیسا مفسد حکمراں بھی ہوا، لیکن ان کے عہد کی بدعنوانیاں اور کمزوریاں ان کے پیش رو سلطان علاء الدین خلجی کی نبرد آزمائی اور رعایا پروری سے دب کررہ گئیں،ان کے خاندان کوتو ان سے نقصان پہونچا لیکن حکومت برقرار رہی ۔ غیاث الدین کی مردانگی اور فرزانگی ، محمد تغلق کی بلندحوصلگی اور اولو العزمی اور فیروز شاہ کی غیرمعمولی رحم دلی اورعیت نوازی سے جوقوت بنی اس کے سہارے ان کے کمزور جانشیں کچھ عرصہ تک حکومت کرتے رہے ۔ابراہیم لودھی کو اپنی کمزوریوں کانتیجہ بھگتنا پڑا۔ان میں سے اچھے سلاطین کی اچھائیوں کاذکر کرنے میں جس طرح منہاج سراج(مولف طبقات ناصری) مولانا ضیاء الدین برنی (صاحب تاریخ فیروز شاہی)اور شمس سراج عفیف (کاتب تاریخ فیروز شاہی)نے فیاضی سے کام لیاہے، اسی طرح موجودہ دور کے ہندو موٴرخین میں کے۔ایس۔ لعل۔ نے اپنی تاریخ ہسٹری آف دی خلجیز،ڈاکٹر ایشوری پرشاد نے ہسٹری آف قرونہ ٹرکس اور ڈاکٹر ایشورٹوپا نے پولی ٹکس ان پری مغل ٹائمس میں قابل قدر سلاطین کی خوبیاں بیان کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔
مغل خاندان کے پہلے چھ بادشاہوں کے حربی،سیاسی،اقتصادی اور تمدنی کارنامے اتنے شاندارہیں کہ اس خاندان کے آخری ۱۳/نااہل اور نالائق حکمراں انہیں شاندار کارناموں کی بدولت ڈیڑھ سو برس تک تخت وتاج کے مالک بنے رہے،اور جس طرح نظام الدین بخشی نے طبقات اکبری ، ابوالفضل نے اکبرنامہ،مستعد خان نے اقبال نامہ جہانگیری،ملا عبد الحمید لاہوری نے بادشاہ نامہ لکھ کر مغل بادشاہوں کے قابل قدر حکمرانوں کی مدح سرائی کی ہے،اسی طرح موجودہ دور کے ہندو موٴرخوں میں ڈاکٹر رام پرشادترپاٹھی نے رائیز آف دی مغل ایمپائر،ڈاکٹر بینی پرشاد نے ہسٹری آف جہانگیراور بنارسی پرشاد نے ہسٹری آف شاہ جہاں لکھ کر اپنے اپنے نقطہ نظر سے ان حکمرانوں کوخراج تحسین اداکیاہے۔البتہ عالم گیر کی تعریف وتوصیف میں جس طرح عالمگیر نامہ کے مصنف کاظم شیرازی کا قلم چلا ہے اس طرح سرجادو ناتھ سرکارجیسے دیدہ ورموٴرخ نے اس بادشاہ کی تاریخ لکھنے میں بیس برس کی مدت گزاری اوربڑی کدوکاوش کے بعد اس کی تاریخ ۵/جلدوں میں مرتب کی آج تک کسی ”نااہل بادشاہ“ کی تاریخ اتنی جلدوں میں نہیں لکھی گئی۔“(۶۳)
بدقسمتی سے ہندوستان کی وسطیٰ اور جدید تاریخ کے واقعات وکردار کو اس طرح سے مسخ کردیا اور جھوٹ سے بھر دیاگیا ہے کہ غلط اور دروغ بیانی کو الوہی صداقت کی طرح قبول کرلیاگیاہے ،اور جولوگ حقیقت اور فسانہ میں اصلیت اور بناوٹ میں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے انہیں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس طرح سے فرقہ واریت سے ناجائز فائدہ اٹھانیوالوں کا تاریخ کو مسخ کرنے اور دروغ آمیز بنانے کاکام جاری ہے ،اور بالعموم اس طرح کے منافقانہ اور سیاسی رہنماؤں کی سرپرستی وقیادت ہی میں انجام پاتے ہیں ،چنانچہ اس سیاسی متعصبانہ نظریہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی نے آل انڈیا ہسٹری کانگریس اجلاس منعقدہ مدارس(دسمبر۹۴۴اء ) کے خطبہ صدارت میں کہا تھاکہ:
”پالٹیکس کے کھیل سے اس ملک کا علم تاریخ بھی بچا ہوا نہیں ،بلکہ صاف صاف کہنا چاہیے کہ یہی وہ بیج ہے جس سے ہندوستان کا مشہور پھل پھوٹ پیدا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی حکومت کی برائی اور اچھائی کی بھی بہت سی باتیں کہی جاسکتی تھیں،مگر ان کے بعد اس ملک میں جو حکومت آئی اس کے زمانہ میں تعلیم کاسررشتہ پوراکاپورا غیر ملکیوں کے ہاتھ میں تھا،ان لوگوں کے ہر جتھے کی ہر طرف سے یہ کوشش تھی کہ اپنے راج کی بڑائی کو ہر ہندو ستانی کے دل میں بٹھادے اور ساتھ ہی ایک ایسا کرتب کرے جس سے ان کے دل کے شیشے ٹوٹ کر پھرجٹنے نہ پائیں۔تعلیم کے سارے مضمونوں میں اس کام کے لیے تاریخ کے سوا کوئی اور چیز مناسب نہ تھی، چنانچہ انہوں نے ملک کے لیے تاریخ کی جو کتابیں شروع سے آخر تک لکھیں اور پڑھائیں ان میں یہی باتیں سو سو طرح سے الٹ پلٹ کر سمجھائیں کہ جو دل ان سے ٹوٹے تھے وہ پھر اب تک جٹ نہ سکے… ہندوستانی ہی کورس کی کتابیں بتاتے ہیں اور تاریخ کے مختلف دور کے بادشاہوں کے حالات کی تحقیق پر کتابیں لکھاتے ہیں۔لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ان کے چلنے کا راستہ ابھی تک وہی ہے جو ان کے پہلے پرانی بدیسی بناکر چھوڑ گئے ۔“(۶۴)
خلاصہٴ بحث:
عام رجحان یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں سلاطین نے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا،متعصب موٴرخوں نے اس کے برعکس یہ باور کرایا ہے کہ انہوں نے جبراًاسلام کوپھیلایا۔ دعوت اسلام کے مصنف آرنلڈنے اشاعت اسلام کا پورا سہرا صوفیاء کے سر ڈالا ۔ (۶۵) اسی رائے کو زیادہ تر لوگوں نے قبول کرکے ان کی خدمات کوسراہاہے ۔عصر حاضر کے کچھ محتاط موٴرخوں نے اپنی تمام بحث اس بات پر مرکوز کردی ہے کہ اسلام کی اشاعت صوفیائے کرام کی ترجیحات یا عمومی ذمہ داریوں سے خارج تھی اور انہوں نے کوئی عملی جدوجہد نہ کی۔(۶۶) اسی طرح ایک اور موٴرخ نے اپنے ایک طویل مضمون میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ اسلام کی اشاعت میں علماء قدیم نے کوئی نمایاں سرگرمی نہیں دکھائی ،ان کادائرہ کار صرف تعلیم وتعلم اور کتاب لکھنا رہاہے ۔دین کی تبلیغ کم از کم قرون وسطی کے بر صغیر کی حدتک ان کے فرائض اورکاموں میں شامل دکھائی نہیں دیتی، البتہ کہیں کہیں چندمثالیں مل جاتی ہیں جوانگلیوں کی پوروں پر گنی جاسکتی ہیں۔(۶۷)
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر اس نیک کام کو ہندوستان کی حد تک کس نے انجام دیا،عوام نے یاصرف تجارنے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں سلاطین،صوفیاء،علماء،عرب تجاراور کسی حدتک عام مسلمان بھی شامل ہیں اور سبھوں نے اپنے اپنے دائرہ میں رہ کراس کام کوانجام دیاہے ۔سلاطین نے ملک فتح کرکے یہاں کے باشندوں کو ایک مرکز سے جوڑااور مسلمانوں کو ا ن کے درمیان رہنے کاموقع فراہم کیاجن کی معاشرت ،تہذیب اور عادات واطوار سے مقامی باشندے متأثر ہوئے اور اس طرح گاہے بہ گاہے وہ مسلمان معاشرہ میں اسلام قبول کرکے ضم ہوگئے۔دوسری طرف ان بادشاہوں نے جب کسی علاقہ پر فتح حاصل کی توان کے سامنے قبول اسلام کی پیش کش رکھی جس کو بہت سے ہندوؤں نے قبول کیا۔اس کے بعد پھر یہی سلاطین مقامی باشندوں کواعزازواکرام سے نوازتے جس کے اچھے اثرات پڑے جس کی آخری شکل حلقہ اسلام میں شمولیت تھی۔اگر مسلمان ہندوستان میں سیاسی افق پر کمزور ہوتے تو بقول ایک ہندودانشور کہ یہ بھی امکان تھا کہ ہندی ادیان کے گھنے جنگل میں اسلام کی شخصیت ہی گم ہوجاتی قطع نظر اس کے مسلمانون کی تعداد کتنی ہوتی؟(۶۸)
اگر یہ تمام باتیں نہ ہوتیں تو پھر صوفیائے کرام جو سلاطین وقت سے الگ تھلگ ہوکر دین کی دعوت کو عام کیے ہوئے تھے کیسے اور کیوں کر یہاں آتے اور کون انہیں اپنے کفرستان میں قال اللہ وقال الرسول کی آواز بلند کرنے کی اجازت دیتے،جسے سن کر دیکھ کراور ان کے کشف وکرامات سے متاثر ہورکربہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا جس کی تعداد کاکوئی حتمی ریکارڈ تو نہیں ملتا البتہ تاریخ اور تذکرہ کی کتابوں میں ایسے واقعات بکھرے پڑے ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتاہے کہ ان پاک نفوس کی برکت اور ان کی مساعی سے بے شمارلوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔سید عابد حسین نے صوفیائے کرام اور مبلغین عظام کے تبلیغی مشن کے سلسلے میں جونقطہ نظر پیش کیا ہے وہ بجا معلوم ہوتا ہے :
”حضرات صوفیانے اپنے طور پر اس کام کا بیڑااٹھایا،مگر ان کی راہ میں بڑی مشکلیں حائل تھیں ،ملک کانہایت وسیع اور زیادہ تر چھوٹے چھوٹے قریوں پر مشتمل ہوناجوبعض علاقوں میں ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر واقع تھے ،آمدورفت کی دشواریاں،بدامنی،جنگ وجدل،اس کے علاوہ ہندو مذہب کی جڑیں مضبوطی سے لوگوں کے دلوں میں قائم تھیں،اگر چہ مسلمانوں کامعاشرتی نظام جس میں ابھی تک اخوت ومساوات کاکچھ رنگ باقی تھا، ہندوؤں کے نچلے طبقے کو اپنی طرف کھینچتاتھا،لیکن ان کی قدامت پسندی اور وہ وحشت جواجنبی فاتح قوم سے ہواکرتی ہے انہیں روکتی تھی۔اونچے طبقے عموماًاپنے مذہب سے مطمئن تھے اور اپنی سماجی حالت سے بھی۔اس میں شک نہیں کہ صوفیوں کی جماعت نے ان ناسازگار حالات میں عام طور پر بغیر حکومت کی مددکے محض اپنے جوش ایمانی سے تبلیغ کے میدان میں حیرت انگیز کام کیااور زبردست کامیابی حاصل کی،لاکھوں کروڑوں ہندو جن میں اونچے طبقے کے بھی بہت سے لوگ شامل تھے مسلمان ہوگئے ۔پھر بھی مسلمانوں کی تعداد غیر مسلموں کے مقابلے میں اس قدر کم رہی کہ ریاست کے لیے یک جہتی اور ہم آہنگی کی جوفضادرکار ہے وہ پیدانہ ہوسکی۔“ (۶۹)
علمائے کرام نے بھی یقینا خالص دینی جذبے کے تحت ہی اسلامی تعلیمات کو ہندوستان کے کونے کونے میں عام کیا۔دراصل یہ علماء ایک ایسی کڑی کاکام انجام دے رہے تھے جس کے تانے بانے ایک طرف سلاطین وقت سے ملتے تھے تو دوسری طرف صوفیاء اور مشائخ کی خانقاہوں سے۔ مسئلہ صرف قبول اسلام تک محدود نہیں بلکہ ان کی تعلیم وتربیت اور دینی فہم کی بھی ضرورت تھی جس کے لیے یہ علماء کرام تھے ۔ ان کی تعلیم وتدریس کے ذریعہ پرورش وپرداخت کرتے تھے ۔ اسی طرح مناظرے کی گرم بازاری نے بھی اسلام کو وسعت دینے میں کافی تقویت پہونچائی ہے۔
اسی طرح عرب تجار نے بھی ملک کے ایک حصے میں اپنے اخلاق وکردار اورصفائی معاملات کی وجہ سے اسلام کی اشاعت میں کوشاں تھے۔ اگر صرف انہیں لوگوں کواسلا م کی اشاعت کا ذمہ دار ٹھہرایاجائے تو پھر شمالی ہند کے لوگوں کو کس بات نے مجبور کیا کہ وہ اسلام قبول کریں۔
دراصل یہ کام ہندوستانی تناظر میں کسی ایک اہم آدمی کے ذریعہ ہرگز انجام نہیں پاسکتاتھا۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اسلام کی اشاعت میں مذکورہ تمام لوگوں نے حصہ لیا، جن کی بے لوث خدمات اور مساعی کو تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئی ہے ۔ضرورت ہے کہ ہم ان تمام لوگوں کی خدمات کاغیر جانبدارانہ طریقے سے مطالعہ کریں اور جن لوگوں نے اس کام کو سلاطین کے خانے سے بالکل خارج کردیاہے ان سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد دواہم سلطنت اموی اور عباسی وجود میں آئی کیاوہ دین کے نمائندہ تھے اور انہوں نے اپنی ذاتی دلچسپی سے کتنے غیرمسلموں کو مسلمان بنایا ۔ انہوں نے اقتدار کے حصول کے لیے جو جھگڑے اور مناقشے کیے کیاوہ بھی دینی جذبہ کے تحت تھے؟سیاست اورمذہب کوالگ رکھ کر ہی ان خلفاء کی دینی مساعی کو سمجھاجاسکتاہے ،دیکھنا یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام واستحکام کے بعد ان سلاطین نے مذہب سے بیزاری یادلچسپی کاکس حد تک مظاہرہ کیا اور اسلامی اقداروتہذیب کوفروغ دینے میں کوتاہی یالاپرواہی تو نہیں کی ۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سلاطین ہند نے اپنے اپنے عہد میں اسلامی اقدارو تہذیب کو بڑی حدتک فروغ دیا۔چند رسومات ہند کواپنا کر انہوں نے رواداری کے اصول پرہی عمل کیا۔
رہی بات جبری اشاعت اسلام کی تو اس پورے بحث میں اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام کی اشاعت جبراًہرگز نہیں ہوئی ۔جبر سے لوگوں پر قابو تو پایا جاسکتا ہے مگر دلوں کو ہرگزفتح نہیں کیاجاسکتا اور اگر معاملہ ایسا ہی ہوتاتو تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی کہ جب جب مسلمانوں کااقتدار کمزور پڑا یہاں کے نومسلم اسلام سے پھر جاتے ،دوچند واقعات کے استثنا کے ساتھ تاریخ میں مزید کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ انگریزی عہد میں مسلمان بالکل مغلوب ہوگئے تھے اور اسلام کو دبانے کی ہرممکن کوشش کی جارہی تھی باوجود اس کے اس عہد میں مسلمانوں کی تعداد میں جواضافہ ہوا وہ آسمان سے ٹپک کر آنے والے نہ تھے ،بلکہ ہندوستان کے ہی باشندے تھے اور غیر مسلم تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان فرمارواؤں نے بڑی حدتک کوشش کی کہ مذہبی رواداری سے قطع نظر نہ کیاجائے ۔ان کے عہد میں مندر توڑے جانے کی شہادت کاپس منظر بس اتنا ہے کہ وہ عموماًجنگ کے دوران توڑے گئے جن میں بہت سے منادر کی بعد میں دوبارہ تعمیر بھی کردی گئی ۔
مجموعی طور پر مسلمان حکمراں امن وامان قائم رکھتے تھے ،انصاف کے ساتھ حکومت کرتے تھے اور انہوں نے ہندورعایا کو مذہبی اور تہذیبی آزادی دے رکھی تھی ،یہ ضرور ہے کہ انہوں نے ریاست کا قانون بدل کر اسلامی قانون رائج کردیاتھا ،لیکن ہندوستان میں یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کہ حکمران طبقہ اپنامذہبی قانون جاری کرے ۔ہندو اوربدھ فرماں روابھی یہی کرتے آرہے تھے ۔ بلکہ سلاطین دہلی نے تو اتنی رواداری برتی کہ صرف قانون عام جاری کیا اور شخصی ومذہبی امور میں ہندووٴں کے دھرم شاشتروں کے اصول کو جاری رکھا اور اس کے نفاذ میں مدد دینے کے لیے ملک کی مرکزی عدالت اور صوبوں کی عدالتوں میں پنڈت مقر کیے۔اگرکوئی بادشاہ ہندو رعایا پر بے جاسختیاں کرتا تو وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی تھی جو عموماًخود حکمراں یا اس کے خاندان کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوتا تھا۔(۷۰)
ماخذومراجع
(۶۳) ہندوستان کے سلاطین،علمااور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر،ص:۱۰۹-۱۱۴۔اسلام ،مسلمان اور غیر مسلم، ص: ۲۹-۳۳
(۶۴) مقالات سلیمانی،ص:۳۸۱-۳۸۷،ج:۱
(۶۵) ٹی ،ڈبلو،آرنلڈ،دعوت اسلا(مترجم اردو:محمد عنایت اللہ)ص:۲۷۱-۳۱۴،مطبع فیض عام،آگرہ،۱۸۹۸ء
(۶۶) سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ،جولائی-ستمبر۱۹۸۵ء،ص:۱۹-۴۶،مضمون:بر صغیر میں اسلام کی توسیع و اشاعت میں صوفیائے کرام کاحصہ،مضمون نگار:ڈاکٹراشتیاق احمد ظلی
(۶۷) سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ،جنوری-مارچ۱۹۸۷ء،ص:۴۵-۶۸،مضمون:برصغیر میں اشاعت اسلام،مضمون نگار : پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی
(۶۸) این۔سی۔مہتا،ہندوستانی تہذیب میں اسلام کا حصہ،ص:۱۰،نظامی پریس ،بدایوں،۱۹۳۵ء
(۶۹) سید عابد حسین،قومی تہذیب کا مسئلہ،ص:۷۲-۷۳،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی،۱۹۹۸ء
(۷۰) ایضاً،ص:۷۶-۷۷
* * *
—————————-
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 02 ، جلد: 93 صفر 1430 ھ مطابق فرورى 2009ء