از: مولانا شیر محمد امینی
مہتمم مدرسہ ابی بن کعب، میوات، ہریانہ
۶/فروری ۲۰۰۶/ مطابق ۷/محرم ۱۴۲۷ھ کو شام پونے چھ بجے، دہلی کے اپولو ہسپتال میں جمعیة علماء کے صدر امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی – رحمہ اللہ رحمة واسعة – کی زندگی کا افتاب غروب ہوگیا، یہ دن ملی، قومی و دینی حوالے سے ایک عظیم سانحہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ حادثہ ایک فرد کا نہیں، ایک امت کا ہے، رونا ایک خاندان کا نہیں، پوری ملت کا ہے، لیکن موت ایسی اٹل حقیقت ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں، ہر موجود کو فناکے گھاٹ اترنا ہے، کل نفس ذائقة الموت سے ہر ایک کا سابقہ اتنا ہی یقینی ہے، جتنا ہر موجود کو ہر آنے والی سانس پر زندگی کااحساس۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
امیر الہند، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی – نور اللہ مرقدہ- کی شخصیت اس دور میں جہد مسلسل اور حق کی حمایت کے لئے شبانہ روز محنت اورجدوجہد کا عنوان تھی۔ آپ کی ۸۰/سالہ زندگی کے بیشتر لمحے قوم و ملت کے لئے وقف رہے، آپ کی مخلصانہ اور دور اندیشانہ رہنمائی سے ملت اسلامیہ برابر مستفیض ہوتی رہی۔
مولانامرحوم اپنے عظیم والد کے نقشِ قدم پر چلتے رہے، جب کبھی دین و ملت کے خلاف کوئی نازیبا بات سامنے آتی، وہ سینہ سپر ہوجاتے اور آواز اٹھاتے، تاریخ میں ایسی شخصیات کم گزری ہیں، جنھوں نے سیاست کے ساتھ اصلاحِ باطن کو بھی جمع کیا، اور عوامی و سماجی زندگی میں رہتے ہوئے بھی علمی اشغال اور تزکیہٴ نفس کی طرف توجہ کی، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے پوری ایمانی جرأت و جمعیت کے ساتھ انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا، اور متعدد بار جیل بھی گئے، وہ ایک ربانی بزرگ اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اورہندوستان کی جنگ آزادی کے عظیم رہنما تھے، دوسری طرف تربیت و تزکیہٴ نفس اور دعوت واصلاح کا کام بھی کرتے تھے، ان سب خصوصیات کو ان کے فرزند اکبر مولانا سید اسعد مدنی نے اپنے اندر جمع کرلیا تھا۔ چنانچہ وہ تعلیم و تدریس سے بھی وابستہ رہے، انھوں نے دعوت و اصلاح کے کام کے ساتھ سیاست کے میدان کو بھی اختیار کیا، جس کی انھوں نے ملت کے فلاح و بہبود کے لئے ضرورت سمجھی۔
ملی خدمت کا کوئی میدان ایسا نہیں ہے، جہاں آپ کی جدوجہد کے روشن نقوش موجود نہ ہوں، آپ نے جمعیة علماء ہند کی قیادت ایسے وقت سنبھالی، جب کہ جماعت کے صف اوّل کے قائدین دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، اور ملک کے طول و عرض میں ہولناک فسادات نے ملک کو دہشت زدہ کردیاتھا، آپ ملک میں امن وامان کے قیام اور قومی یکجہتی قائم رکھنے اور سیکولر اقدار وروایات کی حفاظت کے لئے آخری دم تک محنت کرتے رہے، اسی دوران آپ نے جمعیة علماء کو ایک ہمہ گیر، بلکہ عالم گیر تنظیم کی شکل میں تبدیل کردیا۔
جمعیة علماء ہند کے مختلف اجلاس عام کے خطباتِ صدارت اور دیگر کانفرنسوں کی صدارتی و افتتاحی کلمات مولانا مرحوم کی بیدار مغزی، ژرف نگاہی اور بصیرت افروزی کے عمدہ نمونے ہیں، ان کی قیادت میں جمعیة علماء مسلمانوں کی موثر ترجمان اور تعمیر ملت کی داعی تنظیم کی حیثیت سے ابھری، فسادات اور قدرتی آفات کے متاثرین کی باز آباد کاری میں تاریخی و مثالی رول ادا کیا ہے، انسانی حقوق کی پاسداری، اور کمزور طبقوں کی تعلیمی و اقتصادی ترقی کے لئے ان کے کام سے جمعیة کو بڑا وقار اور احترام ملا، ان کے عہد نظامت و صدارت میں ملک و ملت کا شاید کوئی مسئلہ ہو، جو جمعیة علماء ہند کا مرکز توجہ نہ بنا ہو، وقت کے تمام مسائل اس کے احاطہٴ جدوجہد میں رہے ہیں، سیکڑوں دینی، سماجی، فلاحی اداروں کی سرپرستی و رکنیت کا انھیں شرف حاصل رہا ہے، کانگریس ورکنگ کمیٹی، راجیہ سبھا کی ضوابط کمیٹی، سرکاری یقین دہانی کمیٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ، رابطہ عالم اسلامی مکة المکرمہ، مجمع البحوث الاسلامیہ قاہرہ، موٴتمر اسلامی تیونس، مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند، جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد، مرکزی وقف کونسل، اردو کونسل، ہمدرد ٹرسٹ، مرکزی حج کمیٹی کے رکن ہونے کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ، اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بانی ارکان میں سے تھے۔ مولانا مدنی کی شخصیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کو محیط اور ملک و بیرونِ ملک میں رہنے والے مسلمانوں کی دینی، ملی رہنمائی، دعوت و تبلیغ، روحانی تربیت سب ان کا محورتھیں۔
حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ نے اپنی نظر اور اپنے اثر کو، مسلمانوں کے مسائل کو جمعیة علماء ہند کی وساطت سے قومی اسٹیج تک لے جانے کی کوشش کی، جمعیة علماء ہند کی نمائندہ حیثیت منوانے کے لئے مسلمانوں کے مسائل کو مسلم محلوں کی گلیوں تک محدود نہیں رکھا، اسی احساس کے تحت جمعیة علماء ہند کے مرکزی دفتر کو گلی قاسم جان سے وہ آئی ․ ٹی ․ او کے قریب مسجد عبدالنبی میں لے گئے، یہ شہر کا مرکزی مقام ہے۔ وہ مسلمانوں کے مسائل کو مسلمانوں کی نظر سے دیکھنے اور دکھانے کے قائل نہیں تھے۔ یہی خصوصیت ان کی قیادت میں جمعیة علماء ہند کو مسلمانوں کی دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتی ہے۔ مولانا کا یہ کارنامہ معمولی نہیں کہ انھوں نے جمعیة کادفتر ایسی جگہ پر بنادیا، جس پر ساری دنیا کی نظر پڑتی ہے۔
مولانا کے دورقیادت میں، مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں جو جلسے اوراجلاس ہوئے، وہ سپر ہاؤس میں ہوئے، فکّی آڈیٹوریم میں ہوئے، رام لیلا گراؤنڈ میں ہوئے، ان جلسوں میں ہر سیاسی پارٹی کے نمائندوں کو مدعو کیاگیا، اس طرح مسلمانوں کے بارے میں ایک قومی رائے پیدا کرنے کی کوشش کی، انھوں نے اپنے کام کو جلسے جلوس تک محدود نہیں رکھا، جب ضرورت سمجھی، عوامی پُرامن احتجاجی تحریک شروع کرنے میں تکلف نہیں کیا، اس سلسلے میں ”ملک و ملت بچاؤ“ کے دو دور قابل ذکر ہیں، ان تحریکوں کو ملک کے ہر حصے سے حمایت ملی، ان تحریکوں کی بدولت ہر سیاسی پارٹی مسلمانوں کے مسائل پر غور کرنے اور ان کے حل کرنے کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہے۔ ترقی پسند اتحاد حکومت نے اپنے کم سے کم پروگرام میں اس کو جگہ دی ہے۔ تازہ ترین وزارت سازی میں اقلیتی امور کی وزارت کا قیام اس جہت میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اِس کے علاوہ اس دستخطی مہم کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے، جو مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ، اسمبلیوں، سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دلانے کے لئے چلائی گئی تھی، آزادی کے بعد اردو کے حق میں چلائی گئی وسیع دستخطی مہم کے بعد یہ دوسری بڑی مہم تھی، ان مطالبات کے حق میں میمورنڈم اکیس لاکھ افراد کے دستخطوں سے صدر جمہوریہ کو پیش کیاگیا۔ حضرت مولانا کے دور میں جن اہم کانفرنسوں کا انعقاد کیاگیا، ان میں سے چند کے نام اور عنوان ملاحظہ فرمائیں: جیسے دینی تعلیمی کنونشن، جمہوری کنونشن ۱۹۶۴/، اوقاف کانفرنس ۱۹۷۹/، تعلیمی وملی کانفرنس ۱۹۸۴/، فرقہ واریت مخالف کنونشن ۱۹۹۱/، قومی اتحاد کانفرنس ۱۹۹۲/، تحفظ شہریت کانفرنس ۱۹۹۳/، تحفظ شہریت کنونشن ۱۹۹۴/، قومی کانفرنس ۱۹۹۴/، یکساں سول کوڈ مخالف کنونشن ۱۹۹۵/، ان کے علاوہ جمعیة علماء ہند کے اجلاس عام کا ہر خطبہٴ صدارت ملک و ملت کے مسائل پر جامع تبصرہ اور مفصل تجزیہ ہوا کرتا تھا۔ ان کے دورِ صدارت میں اجلاس عام کو خاص اہمیت دی گئی، اس کو ملی مسائل کو قومی منظر پر ابھارنے کا وسیلہ بنایا گیا، یہ عنوانات ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل پر ان کی گرفت کتنی مضبوط تھی، اس کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات اور قدرتی آفات کے متاثرین کی داد رسی و بحالی کے لئے ان کی قیادت میں جو کام ہوا، وہ پوری کتاب کا مستحق ہے۔
گجرات کے مسئلے پر جمعیة نے مسلمانوں کے ساتھ ہوئے ظلم کو سختی سے ملک کے لیڈروں کے سامنے اُٹھایا،اور بڑے پیمانے پر گجرات میں متاثرین کی باز آبادکاری کا کام کیا، پچھلے چند سالوں میں جب سے امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف ایک طرح سے نفرت آمیز دشمنی کا مورچہ کھولا ہے،اور پوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے، مولانا علیہ الرحمہ نے علالت اور پیرانہ سالی کے باوجود جگہ جگہ جلسے اور کنونشن کرکے غیرمسلم عوام اورحکومت کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، اور یہ مسئلہ مولانانے مختلف ممالک میں اٹھاکر مسلمانوں کی پوزیشن صاف کرنے کی کوشش فرمائی۔
مدارس اسلامیہ کی اہمیت و مرکزیت اور افادیت کے پیش نظر، تحریک مدارس کے سرخیل، مفکر ملت مولانا سید اسعد مدنی نے دارالعلوم دیوبند اور جمعیة علماء ہند کے پلیٹ فارم سے مدارس کی ترقی و استحکام میں قابل قدر اور لائق رشک خدمات انجام دی ہیں،مدارس کے ذریعہ ملک و ملت کی خدمت کا یہ جذبہ ان کا موروثی تھا، جو حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی – نوراللہ مرقدہ – سے انہیں ملا تھا۔ دارالعلوم اور جمعیة علماء کے بنیادی اغراض و مقاصد میں علوم عربیہ و اسلامیہ کی اشاعت و ترویج اور مختلف مقامات پر مدارسِ عربیہ کا قیام شامل تھا، اس غرض کو روبہ عمل لانے کے لئے، اکابر کے نقش قدم پر، مولانا اسعد مدنی علیہ الرحمہ نے بھی مکاتب و مدارس اسلامیہ کے قیام کے سلسلے میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ جمعیة علماء ہند نے دینی تعلیم کے فروغ کے لئے ایک مستقل بورڈ قائم کررکھا تھا، مولانا مرحوم نے اس کو ترقی اور فعالیت کی راہ پر گامزن رکھا، اوراس کے لئے درج ذیل نظام تجویز فرمایا:
(۱) دینی تعلیم کو ہر گھر، ہر مکتب اورہر اسکول، کالج تک عام کرنے کے لئے جدوجہد اورہر مسجد کو دینی تعلیم کا سینٹر بنانا۔
(۲) دینی مکاتب و مدارس کے لئے تربیت یافتہ اساتذہ فراہمکرنا، اور اساتذہ کی تدریسی تربیت کے لئے سینٹر قائم کرنا۔
(۳) پسماندہ علاقوں میں دینی مکاتب قائم کرنا، دینی تعلیمی اداروں میں باہمی تعاون و اشتراک کی فضا قائم کرنا۔
(۴) دینی تعلیم کی ترویج واشاعت کے لئے عام مسلمانوں میں دینی اجتماعات منعقد کرنا، اور مشاہیر علماء کرام اور ماہرین تعلیم کا ایک بورڈ قائم کرنا، جو ملک کا دورہ کرے اور مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کے مطابق ان کی رہنمائی کرے۔
حضرت مولانا مدنی علیہ الرحمہ کے طویل دور نظامت و صدارت میں مذکورہ امور کی انجام دہی جاری رہی، اور ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی جمعیة علماء ہند کی اکائیوں کو ہدایت دی گئی کہ مجوزہ نظامِ عمل اور رہ نما اصولوں کی روشنی میں دینی تعلیم کانظم قائم کیاجائے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے چپے چپے میں دینی مکاتب اور اسلامی مدارس کاجال بچھ گیا۔ مولانا مرحوم مدارس کے مسائل بڑی توجہ سے سنتے اور ان کو حل کرنے کے لئے ہرممکن تعاون فرماتے، اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود دور دراز اورپسماندہ علاقوں کے مدارس کے تعلیمی و اصلاحی پروگراموں میں شرکت فرماتے، جمعیة کے اجتماعات میں ذمہ دارانِ مدارس کو مدعو کرتے، ملک و ملت کے حوالے سے اپنی امیدوں اوراندیشوں سے فرزندانِ توحید کو آگاہ فرماتے، درپیش خطرات سے بچنے کی موثر تدابیر پیش کرتے، حالات کی نامساعدت کے باوجود مدارس کی تعمیر و ترقی کا جامع پروگرام آپ نے جاری رکھا۔
ہوا تھی گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا تھا
وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے تھے انداز خسروانہ
فرقہ پرست عناصر نے جب امن وامان اور شرافت وانسانیت کے گہواروں یعنی مدارس کو بدنام کرنا شروع کیا، مدارس کو ملک دشمن سرگرمیوں کا مرکز اور دہشت گردی کی آماج گاہ تک کہا جانے لگا تو حضرت مولانا نے پوری پامردی کے ساتھ ان کو للکارا اوران کی بھرپور مذمت کی، مدارس اسلامیہ کو داخلی اور خارجی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے مولانا مرحوم نے مدارس کے باہمی ربط و اتحاد کے فروغ پر زور دیا، اس سلسلہ میں حضرت مولانا کی تحریک پر مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کے فیصلے کے مطابق، دارالعلوم دیوبند میں اکتوبر ۱۹۹۴/ میں پورے ملک کے مدارس عربیہ اسلامیہ کے نمائندوں کاایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں اتفاق رائے سے مدارس کی تنظیم ”رابطہ مدارس اسلامیہ“ کا قیام عمل میں آیا۔ اس رابطہ کے بڑے نتائج مرتب ہوئے، مدارس اسلامیہ کے حوالے سے مولانا مرحوم کی خدمات کا تذکرہ ادھورا رہے گا، اگر دارالعلوم دیوبند کا ذکر نہ کیا جائے۔کون نہیں جانتا کہ بحرانی دور سے دارالعلوم کو نکالنے اور تعمیر و ترقی کی وسیع شاہراہ پر گامزن رکھنے میں ان کی مساعی جمیلہ کا بڑا دخل ہے، تعلیمی اور تعمیری ہر لحاظ سے پچھلے چند سالوں میں دارالعلوم نے حیرت انگیز ترقی کی ہے، نظم و ضبط بہتر ہوا ہے، معیارِ تعلیم و تربیت بلند ہورہا ہے، پرانی عمارتوں کی مرمت اور جدید عمارتوں کی تعمیر بڑے پیمانے پر جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے درو دیوار اپنے اس عظیم معمار کے انتقال پر ماتم کناں اور سوگوار ہیں۔#
ویران ہے میکدہ ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
حضرت مولانا مدنی علیہ الرحمہ کو محبوبیت و فدائیت کا مقام حاصل تھا۔ تاحیات منصبِ رشد و ہدایت پر فائز رہے، اگرچہ انھیں اصلاً خصوصی خلافت واجازت حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمة اللہ علیہ سے حاصل تھی، تاہم حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے تمام خلفاء و خدام نے متفق ہوکر اجازت سے نوازا تھا۔ اس اعتبار سے آپ کا حلقہ بہت وسیع ہے، اس سلسلے میں آپ کے اتنے دعوتی و تبلیغی اسفار، ملک و بیرون ممالک ہوئے ہیں کہ بڑے بڑے سیاح بھی ان سے پیچھے رہ جائیں گے۔ عبادت اور ذکر و فکر کا انہماک و معمول مثالی تھا۔ مدھیہ پردیش کے مفتی مولانا عبدالرزاق اور دوسرے بہت سے حضرات یہ کہتے تھے کہ ہمیں مولانا اسعد مدنی کی نماز نے گرویدہ بنایا ہے، سیاسی حلقوں میں بھی انھیں احترام حاصل تھا، تمام سیاسی پارٹیوں کے ذمہ دار لحاظ کرتے تھے، اور ان کی شخصیت کا وزن محسوس کرتے تھے، حضرت مولانا علیہ الرحمہ کے ہم سے جدا ہوجانے سے ایک بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے، جس کا پورے ملک و ملت کو شدت سے احساس ہے، مولانا کی زندگی ہمارے لئے سراپا جدوجہد اور قوم وملت کے لئے بے مثال قربانی پیش کرنے کی ترغیب اور تحریک و عمل کا پیغام ہے۔ مولانا نے دین و سیاست،اصلاح و تربیت اور ملی جدوجہد کے پُنبہ و آتش کو جس طرح نباہ کر دکھایا، وہ غیر معمولی اور ناقابل فراموش ہے، بقول شاعر۔
بر کفے جام شریعت ، بر کفے سندانِ عشق
ہر ہوسناکے نداند جام و سنداں باختن
مولانا ملک و ملت کی گراں بار ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھاتے اُٹھاتے تھک چکے تھے، اس لئے ان کے پروردگار نے انھیں ابدی آرام کے لئے اپنے پاس بلالیا۔ خدا اس مردِ جلیل کی مغفرت فرمائے۔ آمین
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اُس گھر کی نگہبانی کرے
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد: 90 ،صفر1427 ہجری مطابق مارچ2006ء