از: مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی
استاذ حدیث جامعہ عربیہ امدادیہ مراد آباد
محرم الحرام کی ساتویں تاریخ ہے، افق آسمانی پر چمکتے سورج کی تابانی ماند پڑتی جارہی ہے، سورج غروب ہوا چاہتا ہے، مگر اس سے پہلے ہی ملت اسلامیہ کا آفتابِ فضل وکمال نصف صدی سے زائد عرصے تک اپنی جرأت، عزیمت، اخلاص، دردمندی اور جاں سوزی کے ذریعے اپنی تابانیاں بکھیرنے کے بعد دنیائے دُوں سے رخصت اور غروب ہوکر آخرت کے ابدی سفر پر روانہ ہوجاتاہے، اس طرح اسی(۸۰) سال کی قربانیوں، جاں فشانیوں، ملت کے مسائل و مشاکل کو حل کرنے اورالجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کے عظیم کاموں سے مالا مال مجاہدانہ زندگی گذار کر ملت اسلامیہ کا قائد جلیل، مردِ کوہ کن، ذکر الٰہی سے سرشاری کی والہانہ کیفیت میں اپنے مالکِ حقیقی سے جاملتا ہے۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تاروں سے بھی تیرا سفر
امیرالہند فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کا سانحہٴ وفات پورے عالمِ اسلام کا ناقابل تلافی نقصان ہے، یہ صرف ایک فرد کی وفات نہیں بلکہ پورے ایک عہد کا، اوراس کی دل آویز خصوصیات کا خاتمہ ہے، ان کی شخصیت بلا شبہ اسلامی تاریخ کی ان جلیل القدر اور عظیم المرتبت شخصیات میں نمایاں ہے جن کے پائے ثبات و استقامت میں نہ حکمرانوں کا رعب و جلال لغزش پیداکرپاتا ہے، اور نہ سیم و زر کی زنجیریں قصر سلطانی کے گنبد پر اپنا نشیمن بنانے پر اُنھیں آمادہ کرسکتی ہیں، بلکہ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ۔
باسلاطین و رفتد مردِ فقیر
از شکوہِ بوریا لرزد سریر
مردِ فقیر بادشاہوں سے پنجہ آزما ہوجاتا ہے، اس کے بوریا کے جلال و شکوہ سے تخت و تاج لرزاں و ترساں رہتے ہیں، وہ ان خوش نصیب بندگانِ خدا میں تھے جنھیں قسّامِ ازل نے بے شمار کمالات، امتیازات اور خوبیوں سے بہرہ مند فرمایاتھا، ان کی ذات میں جو مکارم و محاسن اورحسنات و فضائل کا اجتماع اللہ کی توفیق سے تھا ان کا احاطہ بے حد دشوار ہے بقول شاعر۔
من کثرة الأخبار من مَکْرُماتِہ
یمرّ بہ صنف ویأتی بہ – صنفُ
یعنی اُن کے مکارم اتنے گونا گوں ہیں کہ ایک کا ذکر چھڑتا ہے تو دوسرا سامنے آجاتا ہے، مرحوم کی چند نمایاں امتیازی خصوصیات کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے:
عظمت و عبقریت
حضرت امیرالہند علیہ الرحمہ کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی عظمت ہے، اللہ نے ان کو ہمہ جہتی عظمت عطا فرمائی تھی وہ محض خاندانی ورثہ نہیں تھی، بلکہ عظمتوں اور رفعتوں کے منارئہ بلند تک پہنچنے کے لئے انھوں نے اپنا خونِ جگر جلایا تھا، ملت کے مسائل کے لئے ایوان پارلیمنٹ میں، ارباب اقتدار کے سامنے، پبلک اسٹیجوں پر، شہر شہر، قریہ قریہ، ملک و بیرون ملک، سفر و حضر، راحت و کلفت، ہر وقت اور ہر حال میں اپنے ذاتی اور خاندانی غموم و ہموم سے بے پروا ہوکر ان کی شب و روز کی پیہم مجاہدانہ مساعی، جہد مسلسل، لگن، ملت کا دردِ بے پناہ، سوزِ دروں اور ۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
کے مطابق فکرمندی اور کڑھن – یہ سب ان کی عظمت بنیادی روشن عناوین ومظاہرہیں، ان کو خاندانی عظمت بھی حاصل تھی اور وہ چاہتے تو اسی پر بس کربیٹھتے، مگر ان کا طائرِ بلند پرواز محض خاندانی عظمت کو آشیانہ بنانے پرآمادہ نہ ہوا بلکہ انھوں نے اپنے جہاد مسلسل سے ذاتی عظمت کی رفعتیں حاصل کیں، اور ان کی فکر عربی شاعرکی اِس فکر سے ہم آہنگ رہی۔#
ان الفتٰی من یقول ہا أنا ذا
لیس الفتٰی من یقول : کان أبي
صاحب عزم جوان وہ ہے جو خود مردِ میدان ہو اور کسی دوسرے کے بھروسے پر نہ رہے، وہ کسی کا دستِ نگر نہ ہو، بلکہ اسے اپنے زورِ بازو پر یقین محکم ہو اور وہ للکار کر کہے کہ لو! میں سامنے موجود ہوں، صاحب عزم وہ نہیں جو صرف اپنے آباء و اجداد اور خاندان کی عظمت پر ناز کرتا پھرے اور خودمیدانِ عمل میں کوئی جوہر نہ دِکھاسکے، حضرت امیرالہند اپنی دنیاآپ بنانے والے اصحاب عزیمت میں سے تھے اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ع
راہ میں حائل ہوں اگر کوہ تو ٹھکرا کے نکل
چنانچہ ان کے مشن کی راہ میں بڑے بڑے طوفان آئے، اپنوں اور غیروں کی ریشہ دوانیاں آئیں، رکاوٹوں اور مخالفتوں کی ہوائے تندو تیز آئی، مگر کوئی چیز ان کی رفتارِ کار اور عزم و ہمت کے آڑے نہ آسکی اور وہ زبانِ حال سے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے رہے کہ ۔#
میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ہے بہت اونچا – حدِ پرواز سے
قائدانہ جوہر
اللہ نے ان میں کوٹ کوٹ کر قائدانہ صلاحیت بھر دی تھی، دور اندیشی، عقابی روح، اصابتِ فکر، جرأت و عزیمت، حق گوئی، بے باکی، بصیرت و فراستِ ایمانی، بلند نگاہی اور عالی حوصلگی کی جو خوبیاں ان کے خمیر میں پیوست تھیں، قیادتِ ملت کے پُرخار اور نازک سفر میں یہی ان کا رختِ سفر اور زادِ راہ تھیں، بقولِ اقبال ۔
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے
کہا جاتاہے کہ ”قیادت اطاعت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے“ ملت کے غم میں اونچے بول بولنے اورجھوٹے آنسو بہانے والے قائدین ملت کے انتشار اور جذبہٴ اطاعت سے محرومی کا واویلا کرتے ہیں مگرامیر الہند مرحوم کی قیادتِ ملت کی پچاس سالہ تاریخ اطاعت و اجتماعیت کی آئیڈیل تاریخ ہے، اور مفاد پرست و مصلحت کوش کرگس صفت قائدین کی قیادت اور امیر الہند کی جرأت مندانہ اور شاہین صفت قیادت میں جو واضح فرق ہے وہ یہی ہے کہ۔#
مرے ہم ضمیر بلبل ترا مرا ساتھ ہی کیا
ترا درد دردِ تنہا ، مرا غم غمِ زمانہ
ہندوستان میں سرمایہٴ ملت کی پاسبانی و نگہ بان تنظیم ”جمعیة علمائے ہند“ کے وسیع اور عوامی بے نظیر پلیٹ فارم سے نصف صدی سے زائد عرصے تک انھوں نے اسلامیانِ ہند کی قیادت کی، اور احساسِ محرومی و کمتری سے دو چار ملت کو حوصلہ بخشا، ان کے سینوں میں دبی آگ کو شعلہٴ جوالہ بنایا، انھوں نے مصلحت اندیشیوں کے بجائے جرأت مندانہ اقدامات کی تحریک یہ کہتے ہوئے پیدا کی کہ۔
مصلحت اندیشیوں ہی کا تو یہ انجام ہے
اتحادِ دین و ملت پارہ پارہ ہوگیا
انھوں نے امت کو یہ ہمت دی کہ امت اپنے مسائل پوری قوت سے اٹھائے، اسے اپنے وجود اور تحفظ کی فکر کے بجائے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا ہے، اس کے وجود پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے، اصل چیز اپنے حقوق کا جرأت مندانہ مطالبہ ہے، انھوں نے ملت میں یہ روح بھری کہ وہ اپنے مسائل اٹھائے اور اس میں ذرا بھی لچک، نرم روی اور سہل انگاری سے کام نہ لے، اسلئے کہ ۔
مسئلے زندہ قوموں کی پہچان ہیں
مردہ قوموں کے کوئی مسائل نہیں
ناعاقبت اندیش اور کوتاہ بیں افراد کو کبھی کبھی ان کی قیادت میں ضرورت سے زیادہ عاجلانہ اقدامات، اور تدریج کے بجائے، منزل بہ منزل سفر کے بجائے یک بیک آخری منزل اور مقصود پالینے کا مزاج نظر آتا تھا، مگر امیر الہند کی فراست اور دوراندیشی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا تھا، اور ان کی رفتارِ کار گو یا یہ پیغام دیتی تھی کہ۔
بڑھ جنوں کچھ اور آگے ، منزلیں ہیں اور بھی
اس سے کیا حاصل کہ ٹکرائیں درو دیوار سے ہم
دنیا نے یہ منظر بار بار دیکھا کہ جمعیة علماء (جسکی تاریخ عزیمت کی روشن ترین تاریخ ہے) کے پلیٹ فارم سے امیرالہند کی ایک صدا پر خلقِ خدا کا وہ ہجوم اکٹھا ہوتا ہے جس سے ایوانِ باطل میں لرزش پیدا ہوجاتی ہے، جمعیة کی تاریخ میں امیر الہند کی قیادت کا دور اسکا عہد زریں ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ۔
تاریخ جنوں یہ ہے کہ ہر دورِ خرد میں
اک سلسلہٴ دار و رسن ہم نے بنایا
مسلک دیوبند کا تحفظ
امیرالہند کی ایک نمایاں خصوصیت مسلک دیوبند کا تحفظ، اور اکابرِ دارالعلوم کے مزاج و مذاق اور اقدار کی ترویج و اشاعت کی فکر و اہتمام ہے، اوراس کے لئے انھوں نے جو قابل قدر خدمات انجام دیں ان سے ان کی بیدار مغزی اور ہوش مندی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، گذشتہ مارچ ۲۰۰۵/ میں میں نے دہلی میں حضرت سے ملاقات کے دوران اپنی ایک تصنیفی کاوش ”مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی : جامعِ کمالات شخصیت کے چند اہم گوشے“ پیش کی، آپ نے اس کا سرسری مطالعہ فرمایا اور پوچھا کہ اس کتاب میں دارالعلوم دیوبند کا ذکر نہیں ہے، میں نے عرض کیا کہ جی ہاں: دیوبند کاذکر ہے، پھر وہ باب کھول کر پیش کیا جس میں مفکر اسلام، دارالعلوم دیوبند اور شیخ الاسلام حضرت مدنی کا مفصل ذکر ہے، حضرت نے وہ پورا مضمون پڑھا، اپنی مسرت کا اظہار کیااور دعائیں دیں، اس معمولی واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دارالعلوم، مسلک دارالعلوم اور اکابر دارالعلوم سے ان کا تعلق کس درجہ والہانہ اور عاشقانہ تھا، اوراکابر کا مزاج و مذاق ان کے رگ و پے میں کس درجہ پیوست تھا۔
ملت کی بدقسمتی ہے کہ چند سالوں سے ایک جماعت مسلسل مسلک احناف و دیوبند اور اکابر دیوبند کے خلاف طوفانِ بدتمیزی میں مشغول ہے، اور کچھ بے توفیق تکفیر و تضلیل یا کم سے کم تفسیق و تشنیع کی حدوں تک جا پہنچے ہیں، امیرالہند نے اس نازک موقعے پر تحفظ سنت کانفرنس بلائی، اور ملت اسلامیہ کے تمام روشن دماغ، سلیم الفکر افراد، عقیدت مندان و خوشہ چینانِ دارالعلوم کو اکٹھا کیا اور یہ ثابت کردیا کہ مسلکِ دیوبند اور عظمتِ اکابر کے تحفظ کے لئے ذہنی، دماغی، قلمی، لسانی، علمی وعملی ہر طرح کی کوشش جاری رہے گی اور مسلکِ دیوبند پر کوئی آنچ آئے اسے گوارا نہ کیاجائیگا۔
اتحادِ ملت کی سعیِ محمود
حضرت کی زندگی کا یہ پہلو عام طور پر نگاہوں سے اوجھل ہے، یا غلط فہمیاں حائل ہیں۔ اصحابِ بصیرت واقف ہیں کہ جمعیة علماء اور دارالعلوم دیوبند کے پلیٹ فارم سے حضرت نے اتحادِ ملت کی کوشش مستقل جاری رکھی، اتحادِ ملت کا سرا براہ راست اصلاح معاشرہ سے جڑا ہوا ہے، تحریک اصلاح معاشرہ جو آج ہندوستان کے ہر گوشے میں جاری ہے اوراس کے اثرات نمایاں ہیں، وہ جمعیة علماء کی دَین اور امیر الہند کا فیض ہے، سابق فرقہ پرست حکومت ہند نے مدارس اسلامیہ کے خلاف دہشت گردی پھیلانے کا جو ڈھونگ رچا تھا، اور مدارس کی تفتیش اور اہل مدارس کو ٹارچر کرنے کی جو منظم مہم اورکوشش جاری تھی اوراس کے لئے جو سیاہ بل نافذ کرنے کا پروگرام تھا حضرت نے اس کے مقابلے کے لئے کانفرنس بلائی، اور پھر سب نے دیکھا کہ ان کی آواز پر لاکھوں مسلمانانِ ہند نے لبیک کہا، تاریخ نے یہ منظر بھی ریکارڈ کیا کہ مختلف الخیال افراد اور مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندے حضرت کے قدم بہ قدم اس مہم میں شریک ہیں، اتحاد واجتماعیت کا یہ حسین و دل نواز مظاہرہ حضرت کے جذبہٴ اتحاد کا ایک نمونہ تھا۔
تدین و تقویٰ اور خشوع
حضرت کی زندگی کا مشاہدہ کرنے والا انکے تدین، تقویٰ اور خشوع کا شاہد ہے، حقوق کی ادائیگی کا اہتمام، توازن، معاملات کی صفائی، معاشرتی زندگی کی پاکیزگی، نماز باجماعت کا بے نظیر اہتمام، خاشعانہ کیفیت، شب بیداری، آہ سحرگاہی، تلاوت و مناجات، دعا وانابت اور حسنِ اخلاق حضرت کی عملی زندگی کے روشن عناوین ہیں، اور ان کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ یہاں اس کا احاطہ نہیں ہوسکتا۔
جمعیة علماء کی عملی قیادت میں قدم رکھنے کے دن سے لے کر یومِ وفات تک – شاید کوئی دن طلوع ہوا ہو جب ایک خاص حلقے میں ان کی تحقیر اورملامت نہ کی گئی ہو، ان کے لئے کلماتِ اہانت استعمال نہ کئے گئے ہوں اور ان کو ملت کا دشمن ثابت نہ کیاگیا ہو اور ان کے خلوص پر حملے نہ کئے گئے ہوں، مگر یہ حرکت ان لوگوں نے کی جن کے جسم نازک میں ملت کی خدمت کی راہ میں ایک پھانس بھی نہیں چبھی، جن کے پیروں میں اسلام کے لئے کوئی کانٹا نہیں گڑا، اور خون تو بڑی چیز ہے اسلام کی صحیح خدمت میں انھیں پسینہ کا ایک قطرہ بہانے کی سعادت بھی حاصل نہیں ہوئی۔
جس وقت ملت محرومی اور مایوسی کے دور سے گذر رہی تھی، علاقے کے علاقے خونِ مسلم سے لالہ زار ہورہے تھے، لاشے بے گور و کفن تھے، مساجد و مدارس کی حرمت اور وقار داؤ پر لگے ہوئے تھے، اس وقت ملت کے اِس مرحوم و مجاہد قائد عظیم کے بارے میں زبانِ ملامت دراز کرنے والے کہاں تھے؟ ۸/محرم الحرام ۱۴۲۷ھ کی صبح احاطہٴ دارالعلوم دیوبند میں پورے ملک سے اپنے قائد عظیم کی تدفین میں کشاں کشاں آیا ہوا انسانی سمندر زبان حال سے کہہ رہاتھا ”ہٰکذا تکون جنائز ائمة السنة“ ائمہ دین اور رہبرانِ امت کا جنازہ اسی شان سے اٹھتا ہے۔ جنازے میں شریک انسانی ہجومِ بے پناہ رخصت ہونے والے کی مقبولیت اور محبوبیت کا نشان تھا، اور ہر صاحب بصیرت یہ تأثر ظاہر کرنے پرمجبور تھا کہ قیادتِ ملت کی صف میں ایسا خلا اور سناٹا در آیا ہے کہ ع
دور تک قافلہٴ صبح کے آثار نہیں
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد: 90 ،صفر1427 ہجری مطابق مارچ2006ء