از: ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

آر، ایل، ایس، وائی کالج، بتیا، مغربی چمپارن

            ہر زمانے میں لکھنے پڑھنے والوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد رہی ہے؛ لیکن اس ہجوم میں انفرادی حیثیت اور امتیازی مقام ایک آدھ کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ایسا نصیبہ ور روز اول سے ہی اپنی سعی پیہم، جہد مسلسل اور عزم و حوصلے کے پیٹرول سے اپنے طویل اور عظیم سفر کو جاری رکھتا ہے،قدم آگے بڑھاتا رہتا ہے،دوران سفر ٹھوکر یں کھاتا ہے،گر پڑتا ہے،گر کر اٹھتا ہے پھر اٹھ کر چلنے لگتا ہے۔منزل تک رسائی کا جذبہ خالص اس کے دل میں اس طرح موجزن رہتا ہے کہ نہ تو اسے سفر کی تکان کا احساس ہوتا ہے ،نہ ٹھوکریں اس کے قدم روک سکتی ہیں اور نہ ہی راہ کے گردو غبار اسے راہِ منزل سے بدکا سکتے ہیں ۔بالآخر علم و ہنر کا یہ مسافراپنے جسم و بدن کو نحیف و لاغر بنانے کے باوجود منزلِ مقصود پر کامیابی و کامرانی کا جھنڈا لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

            اسی طرح کے عظیم لوگوں میں ایک نمایاں نام ادیب العصر مولانا نور عالم خلیل امینی کا ہے،جن کو بجا طور پر اپنے استاذ ،اسم بامسمّیٰ مولانا وحید الزماں کیرانویؒ (پ:۱۹۳۰-ر:۱۹۹۵ء)کا حقیقی وارث اور ان کی علمی ،ادبی،فکری،تربیتی زندگی اور پہلو دار شخصیت کا آئینہ دار کہا جاسکتا ہے۔

            مولانا امینی نے۱۹۵۲ء میں ہندوستان کی مردم ساز ریاست بہارکے ضلع مظفر پور میں آنکھیں کھولیں۔اپنے وطن پھر اعظم گڑھ میں تعلیم کے ابتدائی مراحل طے کر کے ۱۹۶۵ئمیں دارالعلوم دیوبند آئے،کئی سال یہاں مقیم رہے ۔اس دوران انھوں نے روز گار زمانہ اساتذہ کی تربیت میں رہ کر اپنے علمی سفر کو جاری رکھا ۔مولانا کیرانوی ؒ کی ان پر خاص نظر رہی۔شاگردنے اپنے ذوق و شوق اور محنت و لگن کا مظاہرہ کیا اور اساتذہ کی طرف سے شفقت و عنایت کا سایہ رہا ۔

            تشنہ کام جب اپنی پیاس بجھانے کی خاطر دربدر کی خاک چھان کر کنویں کے پاس پہنچے تو کیا کنویں کے لیے تشنہ لب کو سیراب کر نے میں بخل سے کام لینے کی گنجائش رہ سکتی ہے؟ قابل رشک ہیں وہ بچے جن کے بچپن کا بہترین دوست ذوق وشوق ہوتا ہے۔ایسا ہی کچھ حال مولانا امینی کا تھا۔بچپن ہی سے لکھنے ،پڑھنے اور کچھ بننے کا جوش و جذبہ ان کے حصے میں آیا تھا؛چنانچہ اپنے ظرف کے بقدر علم و ادب کے موتیوں سے اپنے دامن کو بھرتے رہے؛بلکہ عربی ادب کے مذاق کی کونپل بھی ابتدائی دور ہی سے پھوٹنا شروع ہو گئی تھی۔

            ۱۹۶۵ء میں مولانا امینی نے دیوبند آکر درجہ چہارم عربی میں داخلہ لیا۔اگر چہ اس وقت اسباق کی درجہ بندی کا نظام نہیں تھا۔مولانا کیرانوی سے باضابطہ تلمذکا سلسلہ علامہ حریری کی شہرہ آفاق کتاب مقامات کے توسط سے ہوتا ہے۔مئے کدہ قاسمی میں اسی صہبائے حریری کے ادبی جام کو ساقی وحید کے ذریعے تشنہ لب کو وہ ساراکچھ پلادیا جاتا ہے جس کی مٹھاس،آسودگی اورلذت آج بھی باقی ہے اور آئندہ بھی باقی رہے گی۔

            اسی گل و بوکے تعلق کا اثر تھا کہ ۱۹۶۹ئمیں مولانا امینی کے استاذ محترم کی نگاہ سے رسماًاوجھل ہوجانے کے باوجود حقیقتاً کبھی دوری نہیں ہوئی۔مدرسہ امینیہ دہلی میں داخلہ لیا اور مولانا سیدمحمد میاں مرحوم کی خدمت میں ایک ڈیڑھ سال رہ کر اپنے علم و قلم میں مزید نکھار پیدا کیا۔ پھر یہیں سے ۱۹۷۱ء میں فضیلت کی سند حاصل کی۔کچھ دنوں بعد اپنی قابل رشک استعداد اور قابلیت کی وجہ سے دارالعلوم ندوة العلما لکھنوٴ میں استاذ مقرر ہوئے اور وہاں سات آٹھ سال تک تدریسی ادبی اور صحافتی خدمات انجام دینے کے بعد۱۹۸۳ء میں اپنے معنوی باپ مولاناکیرانوی کے حکم سے دارالعلوم دیوبند آگئے۔مولانا امینی کا یہاں بحیثیت مدیرماہنامہ الداعی عربی اور استاذِ ادبِ عربی تقرر ہوا۔اس وقت سے آج تک اپنے استاذ حضرت کیرانوی کی حقیقی جانشینی فرمارہے تھے اور ان کی ہر حرکت و سکون میں مولانا کیرانوی کی شفاف تصویر دیکھی جاسکتی ہے ۔مولانا امینی کے اندر بھی وہی حوصلہ اور وہی چاق چوبندی نظر آتی ہے۔ انداز و اسلوب ،فکرو نظر اور طلباکے مستقبل کی فکر مندی کے جذبے میں بھی استاذکیرانوی کے سچے ترجمان ہیں اورشخصیت سازی و مردم سازی میں بھی ان کا مکمل نمونہ ۔ اس وقت بھی استاذ کیرانوی کی ڈگر پر چلتے ہوئے ان کی تحریک کو آگے بڑھانے میں دن و رات وہ ہمہ تن مصروف ہیں۔ جس طرح مولانا موصوف نے اپنے استاذ محترم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر نے میں اپنے جسم کو لاغر اور ہڈیوں کو پگھلادیا اسی طرح و ہ خود بھی اپنے شاگردوں کے روشن مستقبل کے لیے حسین خواب دیکھتے رہتے ہیں اور شاگردوں سے انھیں شرمندہ تعبیرکر نے کی دلی خواہش کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔

            مولانا امینی جہاں ایک طرف ممتاز عالم دین اور معروف اسلامی اسکالر ہیں تووہیں دوسری طرف ایک منجھے ہوئے مدرس اور مقبول قلم کار بھی۔ان کے نزدیک اصول کی پابندی اوروقت کی بڑی اہمیت ہے ۔اپنے ہجومِ اعذار کے باوجود ہجومِ کار کو اس خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں کہ شاید کسی معمول میں معمولی فرق آتا ہو۔ظاہر و باطن کی یکسانیت بھی انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ،اسی طرح موجودہ دور کی بد اخلاقیوں اور ناہمواریوں سے بھی وہ بڑے نالاں رہتے ہیں۔

            اپنی بے پناہ علمی مصروفیات کے باوجود گردو پیش کے احوال سے پوری طرح باخبر رہتے ہیں اور عالم اسلام کے مسائل سے بھی انھیں بڑی دل چسپی ہے بطورِ خاص فلسطین کے مسائل اور ان کا حل ان کا خاص موضوع ہے۔دیگر مشغولیات کے ساتھ وقفے وقفے سے وہ اپنی وقیع تصانیف کے ذریعے علمی،فکری و ادبی تحریروں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔چوں کہ مولانا کا ادب سے گہرا رشتہ اور فن ادب میں مکمل دسترس حاصل ہے اس لیے ان کے قلم کا آبشار ادب کی مختلف وادیوں میں بہتا ہوا نظر آتا ہے۔تاریخ ہو یا سیرو سوانح ،لسانیات کے حوالے سے لفظیات و ساختیات اور اردو املا کی نوک پلک کی درستگی کا مسئلہ ہو یا خط کے ظاہری حسن و جمال کامعاملہ ،ہر ڈگر پر مولانا امینی کا اشہبِ قلم دوڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔

            اگر حروف سے لفظ،لفظوں سے جملہ اورجملوں سے مضمون لکھنے کا ہنر جاننا ہوتو مولانا امینی کی حرف شیریں کی شیرینی سے لطف اٹھائیے اور اگر حسن خط کے حوالے سے ان کے فن کی تجلیوں کا مشاہدہ کر نا ہوتو اس کے لیے خط رقعہ ایک انمول تحفہ ہے ۔مولانا امینی نے وہ کوہ کن کی بات! جیسی البیلی کتاب لکھ کر جہاں اردو کے سوانحی ادب میں اپنی ایک شناخت قائم کی وہیں یہ کتاب ایک ہونہار،وفا شعار شاگرد کی جانب سے ایک عظیم استاذ کی شان میں عمدہ خراج بھی ہے ۔انھوں نے بچوں کی نفسیات کے پیش نظر عربی ادب میں بچوں کی دل چسپی بڑھانے کے لیے دو حصوں میں مفتاح العربیہ لکھ کر گویا نئے ذہنوں کے لیے عربی زبان کا دروازہ کھول دیا،جس سے تعلیم میں ان کی مہارت کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ایسے ہی صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان اقدس میں صحابہ کرام اسلام کی نظرمیں تحریر فرماکر جہاں بہت سی الجھنوں کو ختم کر کے کئی ایک عقدوں کو حل کیاہے وہیں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے جذبہ عشق و محبت کا شاندار نمونہ بھی پیش کیاہے۔اسلام کے خلاف تھوپی ہوئی موجودہ جنگوں کو حقائق کی روشنی میں دیکھنا ہوتوموجودہ صلیبی صہیونی جنگ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح انھوں نے عالم اسلام کی حالت زار پر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو پستیوں اورمایوسیوں کے گہرے غار سے نکالنے کی بھی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔اس کے لیے ایک عمدہ پیش کش ”کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟“ہے جس میں مولانا امینی نے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعدکا سبق دہرا کر ایک طرف اہل اسلام کو ہمت و حوصلہ دلایا تو دوسری طرف دشمنان اسلام کو چیلنج بھی۔ ربع صدی پر محیط ارض مقدس فلسطین کی سرخ تاریخ کی سرگزشت کے لیے فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں رقم کر کے ایک بار پھر نور عالم نے اپنے نور کو عالم میں پھیلایا ہے اور مسلمانوں کو اپنی عظمت رفتہ کی بازیابی کا سراغ دیا ہے۔کاش!مولاناکے قلم کی شعاع آفتابِ صبح بن کر عربوں کی بیداری کا سامان فراہم کر سکے اور ان کے قلم کی سیاہی فلسطینیوں کے زخموں کا مرہم بن سکے۔

            اس کے علاوہ مولانا امینی کی عربی زبان میں متعدد شاہکار کتابیں ،درجنوں کتابوں کے تراجم اور سیکڑوں وقیع مقالات ان کی علمی اور فنی قابلیت کی شہادت دیتے ہیں۔مولانا امینی کی ادبی تجلیوں اور افکار کے بہت سے خوب صورت پھول بے شمار رسائل و اخبارات کی کیاریوں میں بھی کھلے اور کھل رہے ہیں ۔ان پھولوں نے اپنی علمی،ادبی اور فکری خوشبو بکھیری اور بکھیر رہے ہیں اور اہل ذوق کے ذہن و دماغ کو تازگی بخش رہے ہیں۔

            مولانا نور عالم کے قلم کی روانی ،لہجے کی شگفتگی اور فکر کی بالیدگی سے ایک ایسا دلکش گلدستہ تیار ہواہے جس کے پھول نوع بہ نوع ،جس کی پنکھڑیاں رنگ بہ رنگ اور جس کی مہک شہر بہ شہرہے لیکن سب کچھ کے باوجود مولانا امینی کا عربی ادب سے حددرجے کا شغف اور اس زبان سے عشق کے درجے کا لگاؤدیگر چیزوں سے انھیں ممتاز اور فائق کردیتا ہے اور صحیح معنوں میں یہی ان کا طرئہ امتیاز بھی ہے جس کی شہادت ان کی ادار ت میں نکلنے والا عربی ماہنامہ ”الداعی“کے لفظ لفظ سے ملتی ہے بطور خاص اس کا ایک کالم ”اشراقہ“ کا حرف حرف ادب کے لعل و گہر سے بھر پور نظر آتا ہے۔مولانا امینی کی زیرِ ادارت،چالیس سال کے عرصے سے نکلنے والا یہ ماہنامہ،ماہنامہ کیا چشمہ ادب کہہ لیجیے کہ یہ اہل ادب اور صاحب ذوق کی سیرابی کا کام انجام دے رہا ہے ۔آج مولانا نور عالم کو ملک اور بیرون ملک میں جو شہرت اور مقبولیت ملی ہے ،اسے بلا شبہ اسی مبارک،آفاقی اور دائمی زبان کا نتیجہ کہا جائے گا۔خدا ہمیں بھی کامراں اور کامرانی سے پہلے اس کے لیے عملی جد وجہد کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

—————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :6-7،    جلد:105‏،  شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق   جون-جولائی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts