مولاناؒ کی کتاب

” کیا اسلام پسپا ہورہا ہے ؟“

(ایک تجزیہ)

از: مولانا عمرفاروق قاسمی

              مولانا نورعالم خلیل امینیؒ بیک وقت اردو اور عربی دونوں زبانوں پر فنی مہارت رکھتے ہیں، اپنے منفرد اسلوب اور لازوال طرزتحریر کی بنیاد پر وہ دونوں حلقوں میں مقبول اور معروف ہیں ۔ اسلامی دنیا کے خلاف صلیبی وصہیونی سازشوں کی نقاب کشائی اور مغرب کی مکاری کا پردہ چاک کرنا ان کا پسندیدہ موضوع رہاہے ۔وہ عالم اسلام کی سیاسی،سماجی اور فکری صورت حا ل پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ عالم اسلام کے حوالے سے ان کی جتنی بھی تحریریں ہیں، اپنے دل کش اسلوب اور گہر بار طرز تحریر کی وجہ کر، تارِ دل کو چھیڑتے ہوئے دامن ِدل کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں ۔جہانِ اسلامی کے معاصر مسائل کو ہر دو زبانوں میں انھوں نے جس انداز میں پیش کیا ہے،وہ ذہنوں کو جھنجھوڑتے اور ضمیروں کو بیدار کرتے ہیں، اس حوالے سے وہ بے لاگ تبصرے اور تجزیئے بھی کرتے ہیں ۔اردو زباب وادب کے معروف نقاد حقانی القاسمی اس ضمن میں اپنی کتاب ” دارلعلوم دیوبند ادبی شناخت نامہ “ میں لکھتے ہیں :

            ”مسلم دنیا کے تعلق سے جو مثبت اور عمدہ تجزئیے فضلائے دیوبند نے لکھے ہیں وہ عالم اسلام پر لکھنے والے نام نہاد، سیاسی مبصروں اور تجزیہ نگاروں کے مضمحل مضامین کے مقابلے میں زیادہ معنی خیز،فکر انگیز اور مبنی بر حقائق ہوتے ہیں ۔ اس تعلق سے مولانا نور عالم خلیل الامینی کا ذکر بطور خاص کیا جاسکتاہے کہ انھوں نے مشرق وسطی اور مسلم دنیا کے مسائل پر جو سیاسی تجزئیے کیے ہیں وہ طرز احساس اور اظہار کے اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہیں ۔ ان کے تجزئیے عمدہ اور مبنی برحقیقت ہوتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں حقائق کی عکاسی ہی نہیں؛ بلکہ ملت اسلامیہ کے لیے بیداری کا پیغام بھی ہوتا ہے ۔ ان کی تحریریں ذہن کو جھنجھوڑتی ہیں اور ضمیر کو بیدار کرتی ہیں ۔“ (حقانی القاسمی،دارالعلوم دیوبند ادبی شناخت نامہ ص ۹۲،ناشر:آل انڈیا تنظیم علمائے حق ۲۵ کیو الصمد روڈ بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی ۲۵ )

              اس حوالے سے تو ان کے مضامین کے کئی مجموعے منظرعام پرآچکے ہیں،جیسے ”فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں،عالم اسلام کے خلاف موجودہ صلیبی صہیونی جنگ اور کیا اسلام پسپا ہورہا ہے ؟“ سردست میرے زیر مطالعہ یہی موٴخرالذکر مجموعہ ہے۔

            اس کتاب کے کل ۲۱۹صفحات ہیں۔یہ کتاب ان کے ان مضامین کا مجموعہ ہے،جووقتا ً فوقتاً ہندوستان وپاکستان،سعودی عرب،مصروغیرہ کے اردو وعربی اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ خیروشر کی معرکہ آرائی جیت آخرکس کی ہوگی؟،اتحادواشتراک،ہماری تمام مشکلوں کے حل کی شاہ کلید،عراق میں شکست ؛مگر کس کی؟،فتح وشکست اور قانون الٰہی،ہاں سنو اللہ کی مدد آیاچاہتی ہے، فکری یلغار:مسلمانوں کو مذہب بیزار کرنے کی ہمہ گیر سازش کاحصہ،ظالموں کا ظلم بھی خداکے وجود کی گواہی دیتاہے،وقت کے فتنے اور راہ صواب،حالات حاضرہ اور حضو ر…کی تعلیمات،اہانت آمیز کارٹون اور مغرب کارویہ،حق کے خلاف باطل کی دیرینہ فتنہ سامانی، اسلام مسلمانوں کے خلاف دشمنانِ وقت کی طرف سے محاذوں کی تکثیر اور اسوئہ نبی اکرم… وغیرہ عناوین پر انھوں نے مسلمانوں کے عالمی مسائل پر بڑی تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔پوری دنیا میں مسلمانوں نے عراق وافغانستان میں امریکہ کی ناکامی اور مسلمانوں کی فتح مندی کی دعائیں مانگی؛ لیکن بہ ظاہر ان کی دعائیں قبول نہیں ہوئیں، جس کی وجہ کر مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ اللہ رب العزت نے موجودہ زمانے میں مظلوموں کی مدداور ظالموں کی سرکوبی کی سنت سے منہ موڑلیا ہے اور یہ طے کرلیا ہے کہ مادیت ووسائل سے مالامال کافر وفاجر ہی اس دنیا کے مالک ہوں گے اور اللہ اور اس کے رسول …پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کو اس دنیاسے بے دخل کردیا گیا ہے ۔اس کتاب میں اسی خلجان کو دور کیاگیاہے؛چناں چہ مولانا امینی اپنی اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :

            ”اس کتاب کے مضامین میں عام مسلمانوں کے اسی خلجان کے علاج کی دوا فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بتایاگیاہے کہ حاضرکی موجو دہ صورتِ حال، ماضی میں نہ صرف عام مسلمانوں کو؛بل کہ خود نبی اعظم محمد …کو بھی پیش آچکی ہے ۔آپ کے کرداروعمل اور قول وفعل میں اس سے نمٹنے کا کامیاب تجربہ و نمونہ موجودہے،ہم مسلمانوں کو زندگی کے سارے ان گنت مسائل کی طرح صلح وجنگ اور دوست ودشمن سے مقابلے کے تعلق سے بھی آپ …ہی کے اسوئہ حسنہ کو اپناناہے ۔ آپ…کو، آپکے ساتھیوں کو اور آپ کے ساتھیوں کے دیکھنے والوں کو اور ان کے بعد کی ساری نسلوں کو، ہمیشہ حالات کی دھوپ چھاؤں سے اسی لیے گزاراگیا تھا؛تاکہ بعدکی نسلوں کو ان کے حال وقال کی روشنی میں راہ ِعمل تلاش کرنے میں آسانی ہو ۔نقشہٴ عمل اور زندگی کا روزنامچہ،اللہ کے آخری اور پایندہ دین میں آیندہ مسلمانوں کے لیے بھی وہی رہے گا، جو ماضی کے مسلمانوں کے لیے رہاہے ۔ اگرانھوں نے اپنے وقت کے نمرود کی آتشِ فروزاں سے بچنے کی راہ ڈھونڈلی تھی اور صبر و توکل اور جہدوعمل کے ذریعہ اس کو’ ’ گل زار“ میں تبدیل کرلیاتھا،تو آج کے مسلمانوں کو بھی نمرودانِ وقت کی آتشِ تیزوتند سے بھی اسی طرح نمٹناہوگا“ ۔(مولانانورعالم خلیل امینی،کیااسلام پسپاہورہا ہے؟ ص۱۳ ناشر:ادارہ علم وادب افریقی منزل قدیم دیوبند یوپی انڈیا،اشاعت مارچ،اپریل ۲۰۱۵، جمادی الاخری ۱۴۳۶،تیسرا اڈیشن )

            عالم اسلام کا سمت سفر متعین کرتے ہوئے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

            ”ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ حق کے متلاشی رہیں باطل خواہ کتنا بھی سر چڑھ کر بولے،پیچ وتاب کھائے،شیر کی طرح گرجے،چیتے کی طرح چنگھاڑے،خوف ووحشت کا ماحول پیدا کرے،سائنس اور ہتھیاروں سے لیس ہو،زمان ومکان ہم پر مصائب کی بارش برسائیں،پیمانہ الٹ پلٹ جائے، باطل حق اور حق باطل کا روپ دھارلے،دوست دشمن بن جائے،قریب دورہو جائے اور آشنا ناآشنائی کا مظاہرہ کرے اور اپنے بے گانے بن جائیں؛آپ …نے اپنے تمام مواقف میں ہمارے لیے شان دار اورقابلِ تقلید نمونہ چھوڑا ہے ۔“(حوالہ سابق ص ۲۰۸)

            ا س کتاب میں کل بارہ مضامین شامل ہیں ۔تینمضامین براہ راست اردو میں لکھے گئے،بقیہ نومضامین عربی میں لکھے گئے اور ماہنامہ الداعی میں شائع ہونے کے بعد ان میں سے سات مضامین کا ترجمہ مصنف کے خود اپنے قلم سے ہواٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍہے۔دومضمون کا ترجمہ ڈاکٹر ابراراحمد اجراوی نے کیاہے۔ اس کتاب کی زبان بھی مصنف کی دگرتحریروں کی طرح کوثروتسنیم سے دھلی ہوئی ہے اور اردو ادب کی الماریوں میں چار چاندلگاسکتی ہے ۔کتاب کے مصنف خودلکھتے ہیں:

            ”یقین ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف قارئین کی مذکورہ الجھنیں کافور ہوں گی ؛بل کہ موجودہ حالات اور آیندہ پیش آنے والے ان جیسے حالات سے ایمان وعقیدے کی پختگی کاسامان مُیَسّرآئے گا۔تعبیر کی لذت،اندازتکلم کی بہت سی جگہ ندرت اور تلمیحات واستعارات کی نفاست سے باذوق قاری کو دل کی غذا،روح کی شفا،یقین کی روشنی اور خیالات کی صیقل گری کی تد بیر بھی ہم دست ہوگی ؛کیوں کہ جوکچھ لکھاگیا ہے،وہ روح کے تقاضے، غیرت اِیمانی کی طلب اور جذبہ دل کی تڑپ کی وجہ سے ہی لکھاگیا ہے؛اس لیے خدائے علیم وخبیرنے اس حرف ناتواں کو اپنی قدرت سے غیر معمولی جاذبیت سے نوازہے ۔یہ مضامین عربی سے بہ قلم مضمون نگار اردو میں ترجمہ ہو کر، اپنے وقت پر شائع ہوئے اور شوق وجذبے کے ساتھ پڑھے گئے ۔توقع ہے کہ کتابی شکل میں یہ زیادہ لائق پذیرائی ثابت ہوں گے ؛کیوں کہ اب یہ مربوط ومسلسل صورت میں زیادہ مفید ہوگئے ہیں۔“(حوالہ سابق ص ۱۴ حرف پیشیں)

            مولانا کی تحریروں میں خوف و ڈر،پستی و ہمت شکنی نہیں،وہ امت مسلمہ کی پسماندگی،زبوں حالی اور کمزوریوں کا تذکرہ ضرورکرتے ہیں لیکن بلند ہمتی کے ساتھ ۔ان کی سطرسطر میں عزم و حوصلہ کا پیغام موجودہے،ان کے یہاں رونا دھونا اور نوحہ گری کی جگہ عظمت رفتہ کی بازیافت کے امکان کی تلاش ہے ۔ وہ حالات کے تحت بامقصد پس روی کو بھی پیش رفتی کا ذریعہ مانتے ہیں؛چناں چہ وہ لکھتے ہیں:

            ”امت مسلمہ کا سورج بالکلیہ غروب ہوجائے،ایسانہیں ہوسکتا۔اس کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ زخم کھاکے پھر مسکرائی ہے،کچل جانے کے بعد پھراٹھ کھڑی ہوئی ہے،اس کا جھنڈا اگر کبھی ذراسا جھکتا ہوا نظر آیا،توپھربلندی پر پھہرانے لگا،وہ اگر پیچھے ہٹی ہے،تو مزید تازہ دم ہوکر آگے بڑھی ہے۔وہ خدا کے آخری پیغام کی نمایندہ ہے ؛اس لیے اسی کی طرح جاوداں ہے۔“(حوالہ سابق ص ۹۱)

            مولانا امینی نے عالم اسلام پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں مغرب بالخصوص امریکہ کی مکاری،فریب،دوغلاپن اور عالم اسلام کے حوالے سے اس کے دوہرے رویہ کو اجاگر کیا ہے اور دنیا کے سامنے امریکہ اور اقوام متحدہ کی منافقت پر کھل کر بحث کی ہے ۔ حقانی القاسمی اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

            ” مولاناامینی نے مغرب کی مکاری اور عیاری کا پردہ چاک کیا ہے اور اپنے مضامین کے ذریعے صحیح صورت حال دنیا کے سامنے پیش کی ہے ۔ہرلمحہ آتش نمرود میں کود نے والے مسلمان کی وہ تصویر دکھائی ہے،جو حقیقی ہے،معشوق کی موہوم کمر کی طرح خیالی نہیں کہ خیالی تصویر جو مغرب نے بنائی،وہ کذب وریا،بغض و عداوت پر مبنی ہے۔“(حقانی القاسمی ہفت روزہ عالمی سہارا،۲۳ جون ۲۰۰۷ ص۲۰)

            البتہ حقانی القاسمی نے یہ بھی لکھا کہ مولانا کے بعض خیالات سے اختلاف بھی کیاجاسکتا ہے؛ لیکن اس کے باوجود مولانانے اتحادواتفاق کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے اس سے انکار نہیں:

            ”مولانا کے بعض خیالات سے اختلاف بھی ممکن ہے جو ان کے مخصوص دینی نظام کی زائیدہ ہیں،بالخصوص جمال عبدالناصر اور صدام حسین کے متعلق ان کی منفی رائے جمہور کے لیے ناقابل قبول ہوسکتی ہے؛مگر ان کے اس خیال سے ہر کوئی اتفاق کرے گا کہ ہم صرف اتحاد کے ہتھیار سے پوری دنیا پر چھاسکتے ہیں اور بڑی سے بڑی طاقت سے لوہا لے سکتے ہیں؛اسی لیے دشمنان اسلام ہمیشہ ہمیں آپس میں دست وگریباں بنائے رکھنا چاہتے ہیں ۔“(حوالہ سابق )

            اس جزوی اخٰتلاف کے باوجود وہ کتاب کی افادیت کے معترف ہیں چناں چہ وہ لکھتے ہیں:

            ”معاصر عالمی سیاسی صورت حال کی تفہیم میں یہ مضامین بہت مفید ثابت ہوں گے ۔ خاص طورپرخرمن کے خوشہ چینوں کے لیے ان مضامین میں بہت کچھ ہے،جن سے وہ اپنے صحافتی سفر میں فکرونظر کے نئے چراغ جلا سکتے ہیں ۔“(حوالہ سابق)

            کتاب کے اسلوب نگارش کا انھوں نے بہت خوبصورت اوروالہانہ انداز میں استقبال کیاہے :

            ”مولانانورعالم خلیل امینی عالم اسلام کی مجموعی صورت حال سے باخبر ہیں اور امت اسلامیہ کی زبوں حالی پر فکر مند بھی ۔ان مضامین میں نورعالم امینی کا انداز فکراور اندازنظر نمایاں ہے ۔گوکہ یہ مضامین عصری،سیاسی مسائل سے متعلق ہیں؛مگریہ عوامی یا عامیانہ نہیں ہیں۔ممتازمحقق رشیدحسن خان مرحوم نے مولانا آزادکے تعلق سے بہت اچھی بات لکھی تھی کہ ”مولاناآزاد کا انداز نظر صحافیانہ نہیں تھا اور اسی چیز نے ان کی تحریروں کو دوامی اعتبار عطا کیا ہے “۔نور عالم خلیل امینی کے تعلق سے بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ ان پر باطن ایام روشن ہے؛اس لیے ان کے سیاسی تجزئیے بھی عمدہ اور بہترین ہیں۔ طرزِاحساس اور طرزِاظہار کے اعتبار سے منفرد وممتاز۔

            مشرق وسطی کی سیاسی،سماجی،ثقافتی صورتِ حال سے براہ راست،بغیر کسی وسیلہ کے آگاہ ہیں؛اسی لیے ان کا تجزیاتی انداز بھی الگ ہے ۔مغربی ذرائع ابلاغ اور متعصبانہ تجزیوں پر مبنی مضامین سے مختلف ہیں ۔یہ تجزیئے ان کے گہر بار اسلوب کی وجہ سے دامن دل کو کھینچتے ہیں۔

            مولانا کا اسلوب بھی نرالا ہے ۔آنکھیں لفظوں کو جذبے کی جس شدت سے چھوتی ہیں،اسی قوت سے لفظ قندیل کی طرح ذہن میں روشن ہوئے جاتے ہیں ۔“(حوالہ سابق )

            مولانا نور عالم صاحب کا اسلوب طرز تحریر کے البیلا پن،انداز بیان کی ندرت،جملوں کی حسنِ ترتیب،الفاظ کی ساخت وبناوٹ،دل کش پیرایہٴ بیان کی بنیاد پر اپنے ہم عصروں میں ممتاز رہاہے ۔ ان کی یہ خوبیاں اس کتاب کے اندر بھی سطر سطر میں نمایاں ہے ۔اس کتاب کے انداز بیان اور طرز تحریر پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی تنظیم عالم قاسمی لکھتے ہیں :

            ”تحریر کے رموز ونکات اور اصول و قواعد کی بھرپور رعایت،جملوں کی حسن تریب، لہرآفریں تعبیر، انداز تکلم کی ندرت،تلمیحات واستعارات کی نفاست اور اس طرح کی دوسری درجنوں خوبیاں اس میں موجود ہیں،جن سے کتاب کی اہمیت اور قدر ومنزلت غیرمعمولی ہو گئی ہے ۔میرے خیال میں یہ کتاب نہ صرف موجودہ حالات،مسائل ومشکلات کا حل اور غیرت ایمانی کو ابھارنے والی ہے،بلکہ اردو زبان کے باذوق قاریوں،ادبا،اور ماہرین فن کو روحانی غذا اور تسکین قلب کا سامان بھی فراہم کرتی ہے،“(مفتی تنظیم عالم قا سمی،روزنامہ منصف حیدرآباد )

            خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب اپنے تمام مشمولات اور انداز نگارش کی بنیاد پر لائق مطالعہ ہے،اس کے مطالعہ سے جہاں عالم اسلامی کے حوالے سے نمرودانِ وقت اور فراعنہٴ زماں کی سازشوں اور اس کے سدباب کے طریقوں سے آگاہی ہوتی ہے، وہیں اپنے اسلوب اور انداز نگارش کی بنیاد پر صحافت اور ادب کے طالب علموں کے لیے دلچسپی کا سامان بھی فراہم کرتی ہے ۔

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :6-7،    جلد:105‏،  شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق   جون-جولائی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts