بہ قلم: حضرت مولاناعبدالخالق صاحب مدراسی مدظلہ

نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند

            رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ کی پچیسویں تاریخ کی صبح کو یہ اندوہناک خبرملی کہ حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ دارفانی سے دارجاودانی کی طرف رحلت فرماگئے، (إنّا للّٰہ وإنّا إلیہ راجعون) موت کوئی انہونی چیز نہیں ، انسان کا پیدا ہونا ہی مرنے کی دلیل ہے، بس افسوس اس کا ہے کہ دنیا ایک عظیم ترین عالمِ دین سے محروم ہوگئی، علم کاایک عظیم ترین ذخیرہ ان کے ساتھ رخصت ہوگیا، دنیا سے دینی علوم کے رخصت ہونے کی صورت یہی ہوتی رہی ہے کہ علم اہلِ علم کے ساتھ دفن ہوتا رہا، اس قحط الرجال کے دور میں دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین بڑی تسلی کا سامان تھے، ان کے اندر علوم کی گہرائی وگیرائی تو تھی ہی، اسی کے ساتھ جادوبیانی کی دولت سے سرفراز تھے، مشکل سے مشکل مسئلہ کو بڑی آسانی سے سمجھا لیتے تھے، آسان سے آسان الفاظ اور سہل ممتنع تعبیرات ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی رہتیں ، بڑے پُروقار لب ولہجہ میں سامعین کے کانوں کے راستے سے ان کے دل ودماغ تک رسائی حاصل کرلیتے تھے۔

            مولانا مرحوم نے جہاں مشکل سے مشکل موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے، وہیں آسان سے آسان تصنیفات سے نسل نو کی علمی آبیاری بھی فرمائی ہے، ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ جیسی دقیق ترین کتاب کی شرح لکھ کر آپ نے علمائے دیوبند کے ذمہ تین سوسالہ قرض کی ادائیگی فرمائی، مؤقر مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے مبارک بادی کی تجویز کے ذریعہ موصوف کی حوصلہ افزائی فرمائی، صحیح بخاری، جامع ترمذی اور طحاوی شریف کی شروحات نے آپ کے علمی مقام کو خوب متعارف کرایا، اصول تفسیر میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی فارسی تصنیف ’’الفوزالکبیر‘‘ کی تعریب کی توفیق بھی نصیب ہوئی جو آج دارالعلوم دیوبند کے نصاب کاجزء ہے، اسی طرح علم منطق وفلسفہ کو مبتدی طلبۂ کرام کے ذہن سے قریب کرنے کے لیے ’’مبادیٔ الفلسفہ‘‘ اور ’’ا ٓسان منطق‘‘ کی ترتیب کی ذمہ داری بھی مجلس شوریٰ نے موصوف کے سپرد فرمائی؛ چنانچہ پندرہ بیس سال سے یہ تینوں کتابیں دارالعلوم دیوبند کے نصاب میں داخل ہیں ، مولانا مرحوم پہلے خوش نصیب مصنف ہیں جن کی تین کتابیں مادرعلمی میں پڑھائی جاتی ہیں اور دوسری تصانیف: آسان نحو، آسان صرف، آسان فارسی قواعد، مبادی الاصول (اصول فقہ) وغیرہ دیگر مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں ۔ تصانیف سے ہر ایک اندازہ کرسکتا ہے کہ موصوف کو جملہ علوم شرعیہ میں مہارتِ تامہ حاصل تھی، ایسی شخصیت کی رحلت سے کتنا بڑا خلا ہوا ہے، اس کا اندازہ کرنامشکل ہے۔

            ناچیز کو جب وفات کی اطلاع ملی تو بے ساختہ زباں پر آیا:

مَا کان قیسٌ ہُلْکُہٗ ہُلْکُ واحدٍ

ولکنَّہٗ بنـــیانُ قومٍ تَـــہدَّما

            (قیس کی وفات ایک شخص کی وفات نہیں ؛ بلکہ (اس سے) قوم کی عمارت منہدم ہوکر رہ گئی)، فوراً ہی دولت کدہ پر پہنچا اور صاحب زادوں کو تعزیتِ مسنونہ پیش کی اور کہا: ’’یہ محض آپ ہی کے والد نہیں تھے، یہ تو پوری امتِ مسلمہ کے عظیم ترین سرپرست تھے! مسلک دیوبند کی بے باک ترجمانی کی جب بھی ضرورت پیش آئی مولانا مرحوم نہایت ہی اچھے انداز میں اس کی تکمیل فرماتے تھے، موصوف کو میں نے اڑتالیس سال سے دارالعلوم میں دیکھا؛ کیوں کہ ان کا اورمیرا تقرر ایک ہی دن ہوا ہے، صبح وشام کا فرق تھا، موصوف نے ہمیشہ دارالعلوم کے مفاد کو مقدم رکھا، ہرمجلس میں ان کے خلوص نے متأثر کیا، انھوں نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا، وہ دوستوں سے کبھی منھ نہ پھیرتے تھے، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور دارالعلوم دیوبند کو نعم البدل عطا فرمائے، ان کی رحلت سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کو پُرفرمائے‘‘،  وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :7-6،    جلد:104‏،  شوال المكرم – ذی القعدہ 1441ھ مطابق جون –جولائی 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts