حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوری کاسانحۂ ارتحال

علم  حدیث  کا  مہر  تاباں غروب ہوگیا

جو نصف صدی ایک عالم کو منور کررہا تھا

حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوری کاسانحۂ ارتحال

از: حضرت مولانا ڈاکٹرتقی الدین ندوی

            آج صبح بتاریخ ۲۶؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ بروز منگل کو اچانک ایک ایسے حادثہ فاجعہ کی اطلاع ملی جس کا اس سے پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، یعنی دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوری صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کا ممبئی میں سانحۂ اتحال پیش آیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔

            اس ناچیز سے مفتی صاحب کا پہلا تعارف ۱۹۶۷ء میں ہوا تھا، جب وہ مدرسہ اشرفیہ راندیر میں پڑھارہے تھے، خاص طور سے ابوداودشریف کا سبق ان سے متعلق ہوا، اس وقت تک اس ناچیز کی ہندوستان کے مدارس میں شہرت ہوچکی تھی، میری کتاب ’’محدثین عظام اور ان کے علمی کارنامے‘‘ منصہ شہود پر آچکی تھی، اس لیے فلاح دارین کے مہتمم مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی جو مجھے ترکیسر لائے تھے، انھوں نے ایک روز راندیر کے سفر کا پروگرام بنایا، انھوں نے بتایا کہ مدرسہ حسینہ میں مولانا شمس الدین افغانی بڑے فاضل آدمی ہیں ، انھیں آپ سے ملنے کا بڑا اشتیاق ہے، ان کے شاگردوں نے جن میں مولانا عبدالرحیم متالاؒ اور مولانا غلام محمدپٹیلؒ وغیرہ نے آپ کا ان سے بڑا ذکر خیر کیا ہے، اس کے علاوہ مولانا ہاشم بخاری اور مولانا سعیداحمد پالن پوری ہمارے گجرات کے نوجوان اچھے مدرس اور عالم ہیں ، انھوں نے اپنے یہاں آپ کو شام کے کھانے پر مدعوکیاہے، اس لیے ہم موانا کے ہمراہ راندیر گئے، وہاں مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوری کے یہاں مہمان رہے، رات کا کھانا اور قیام انھیں کے یہاں رہا، مفتی سعیداحمد سے ملاقات سے اندازہ ہوا کہ مولانا بہت ہی صاحب ذوق، کتابوں کے حریص پڑھنے لکھنے کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں ، اس طرح مفتی سعیداحمد صاحب مرحومسے تعلقات کی ابتدا ہوئی، پھر کثرت سے ترکیسر ان کی آمد ورفت رہی، مجھے بعض کتابوں کی ضرورت تھی، اس کو مفتی صاحب نے عاریتہ فراہم کیا، راندیر میں انھوں نے میرے بیانات بھی کرائے، زمانہ گزرتا گیا، وہاں سے میری سہارن پور ’’بذالمجہود‘‘ کی خدمت کے لیے ایک سالہ چھٹی لے کر حاضری ہوئی، سہارن پور کے قیام میں مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی کی جب بھی آمد ہوئی تو انھوں نے مفتی صاحب کا سلام وپیام پہنچایا، اس کے بعد میرا قاہرہ، حجاز مقدس اور پھر ابوظبی کا سفر ہوگیا۔

            حرمت مصاہرت کے بارے میں ابوظبی میں حنفیہ کے مسلک کے بارے میں مجھ سے سوالات کیے گئے، اس سلسلے میں معلوم ہواکہ مولانا کتاب ’’حرمت مصاہرت‘‘ طبع ہوچکی ہے، اس کو میں نے منگوایا اور استفادہ کیا، اس نازک مسئلہ میں جس طرح انھوں نے گفتگوکرکے اپنے مسلک کو واضح اور مدلل کیا ہے، اس کو پڑھ کر طبیعت باغ باغ ہوگئی، اس کے بعد جب وہ دارالعلوم دیوبند منتقل ہوکر آگئے، ان کا دورہ کے بڑے اساتذہ میں شمار ہونے لگا، وہاں ترمذی شریف وغیرہ اونچی کتابیں ان کے ذمہ کی گئیں ، اس زمانے میں میرا سہارن پور مظاہرعلوم شوریٰ میں جانا ہوا، دیوبند بھی حاضری ہوئی، حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ میرے میزبان تھے، مولانا بھی مہمان خانے میں تشریف لائے اور ملاقات ہوئی، انھوں نے اپنے بعض رسائل ہدیہ کیے، بعد میں بار بار سہارن پور اور دیوبند کا سفر ہوا، وہ مہمان خانہ تشریف لاتے، کبھی ان کے جائے قیام چائے کے لیے حاضری ہوتی، ان کے کتب خانہ پر نظر ڈالی، بہت ہی خوشی ہوئی، انھوں نے اپنی مؤلفات مجھے ہدیتہ عنایت فرمایا دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی اور شکرگزار ہوا۔

            ان کے اہم کارناموں میں ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کی خدمت اور اس کا حاشیہ ہے، حقیقت میں یہ علماء پر ایک فرض تھا جو انھوں نے پوری محنت کرکے پوری جماعت کی طرف سے اداکردیا، یہاں تک کہ انھوں نے مولانا عبیداللہ سندھی کی تقریر جس کو اردو سے عربی میں منتقل کیا گیا ہے اس کو بھی حاصل کرلیا اور یہ کتاب بیروت دارابن کثیر سے ۲؍جلدوں میں شائع ہوئی، ہمارے لڑکے اس کتاب کو شارقہ معرض سے خرید کرلائے دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی، مولانا سے میں نے دریافت کیا کہ اس کے حقوق بھی آپ کو دئیے یا نہیں ؟ انھوں نے فرمایامجھے معلوم نہیں ، کتاب چھپ گئی الحمدللہ یہی بڑی بات ہے، بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے کچھ حقوق ناشر نے ان کو ادا کیے۔

            مولانا مرحوم نے اپنے پیچھے تالیفات کا ذخیرہ چھوڑا ہے، جو ان کی جامعیت ورسوخ فی العلم پر بہت بڑی دلیل ہے، ایک طرف تو وہ مقاصد شریعت اور اس کے اسرار کی عظیم کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کی شرح کررہے ہیں ، دوسری طرف حدیث شریف کی بخاری شریف اور ترمذی شریف جیسی کتابوں کی تدریسی لحاظ سے بھی اور تالیفی لحاظ سے بھی خدمت کررہے ہیں ، انھوں نے اپنے پیچھے بڑا علمی سرمایہ چھوڑا ہے، ترمذی شریف کی شرح ’’تحفۃ الالمعی‘‘ ۸؍جلدوں میں شائع ہوگئی ہے جو طلبہ اور علماء کے لیے رہنمائی کا کام کرتی رہے گی۔

            مجھ سے انھوں نے فون پر بتلایاکہ آپ کی تحقیق سے جو ’’بذل المجہود‘‘ شائع ہوئی ہے اس کو میں پابندی سے اپنے مطالعہ میں رکھتا ہوں ، میں نے کہا کہ اگر کوئی ملاحظہ ہوتو بتلائیے گا تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح کردوں ، انھوں نے جواب دیا کہ اب تک تو کچھ ملا نہیں ، اخیر میں میں نے اپنی کتاب  ’’الجامع الکبیر (سنن الترمذی) ومعہ الکوکب الدری علی جامع الترمذی‘‘ کو ہدیتہ بھجوایا تو اس پر بھی بہت مسرت کا اظہار کیا کہ الحمدللہ متن کے ساتھ ہمارے اکابر کی باتیں عالم عرب میں بھی آگئیں اور صاحب تحفۃ الاحوذی کا آپ نے جابجا جواب بھی دیا ہے۔

            ان کی کتاب ’’تحفۃ القاری‘‘ جو بڑی محنت اورمشقت اور ان کی نظر ثانی کے بعد ۱۲؍جلدوں میں شائع ہوچکی ہے، وہ بھی طلبہ کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے، اس کے بعد میں نے اپنی  ’’الجامع الصحیح للإمام البخاری مع حاشیہ السہارنفوری‘‘ جو پہلے ۱۵؍جلدوں میں اور بعد میں ۶؍جلدوں میں شائع ہوئی ہے دونوں کتابیں ان کی خدمت میں بھجوائی، اس پر بھی بہت پسندیدگی کا اظہار فرمایا، ہمارے دوست محترم مولانا محمدیونس صاحب جون پوری مرحوم شیخ الحدیث مدرسہ مظاہرعلوم اسی نسخۂ بخاری میں پڑھاتے تھے، اس سے میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔

            مفتی صاحب مرحوم کو جب معلوم ہواکہ میری تحقیق سے  ’’المواہب اللطیفۃ فی شرح مسند الإمام أبی حنیفۃ‘‘ جو علامہ عابد سندھیؒ متوفی ۱۲۵۷ھ کی تالیف ہے جو شاہ عبدالغنی مجددیؒ کے بھی شیخ ہیں ، ۷؍جلدوں میں بیروت سے طبع ہوچکی ہے، جب مجھے معلوم ہوا کہ اس کتاب کے وہ بہت مشتاق ہیں اور ان کی طرف سے ایک نمائندہ اعظم گڑھ آیا، اس ناچیز نے ہدیتہ یہ کتاب ان کو بھجوائی، انھوں نے اسے دیکھ کر فون پر بہت ہی مسرت وخوشی کا اظہار کیا کہ آپ سے بڑا قیمتی اوراہم کام ہوگیا۔

            اسی طرح مولانا کی کتابوں پر نظر ڈالنے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ منطق وفلسفہ، علم کلام پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے تھے، مبادیٔ الاصول جو فقہ کی بنیادی اصطلاحات پر مشتمل ہے معین الاصول اس کی شرح، آپ فتوی کیسے دیں ، یہی نہیں بلکہ ان کی آسان صرف، آسان نحو بھی مبتدی طلبہ کے لیے شائع کی حتیٰ کہ آسان منطق، آسان فارسی قواعد اور مفتاح العوامل بھی تالیف کی، یہ وہ سارے رسائل ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی کتابوں کو پڑھاتے وقت انھوں نے طلبہ کو سامنے رکھ کر ان کو سہل بناکر ان کے سامنے پیش کیا، دوسری طرف دورہ حدیث کے طلبہ وعلماء کے لیے ایسی عظیم الشان کتابیں تالیف کیں جس کا ذکر اوپر کرچکاہوں ، تیسری طرف ان کی فتاویٰ پر بھی گہری نظر تھی، انھوں نے امدادالفتاوی میں بھی بڑا تعاون کیا ہے۔

            علامہ طاہر پٹنی کی کتاب ’’المغنی‘‘ کی بھی تحقیق وتعلیق کی ہے جو رجال کی اہم کتاب ہے، نیز فرق ضالہ کے ردمیں بھی ان کی کئی کتابیں ہیں ، ردّقادیانیت پر بھی ان کا ایک قیمتی رسالہ ہے۔

            میرا آخری سفرگذشتہ سال حضرت مولانا محمدطلحہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعزیت کے لیے سہارن پور کا ہوا، وہاں سے دارالعلوم دیوبند کی زیارت کے لیے حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب کی ضیافت میں دیوبند حاضر ہوا، حضرت مفتی سعید احمد صاحب تشریف لائے، انھوں نے تفسیر ’’ہدایت القرآن‘‘ کا نسخہ مجھے دیا، دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی، میں نے عرض کیا کہ: حضرت! اللہ تعالیٰ نے آپ سے حدیث شریف وقرآن کریم اور فقہ وفتاویٰ میں بھی بڑا کام لیا، میں نے ان کو اپنے مدرسہ جامعہ اسلامیہ مظفرپور اعظم گڑھ آنے کی دعوت بھی دی اور ان سے اپنے کتب خانہ کاذکر کیا، میں نے عرض کیا کہ ہمارے یہاں ایک لاکھ کتابیں ہیں جن میں بہت سے قلمی مخطوطات بھی ہیں ، ہمارے حضرت مولانا محمدیونس صاحبؒ جون پوری کئی مرتبہ ہمارے مدرسے میں تشریف لائے تھے اور وہ کتابوں کو دیکھتے ہی رہ گئے، مخطوطات کو بھی اور مطبوعات کو بھی، مفتی صاحب مرحوم نے بہت شوق سے سفر کرنے کا ارادہ کیا مگر مقدر سے اس کا موقع نہیں آیا۔

            اس سے پہلے بنگلور میں مولانا مفتی شعیب اللہ خان صاحب کی دعوت پر جوان کے مدرسہ میں بہت بڑا اجلاس ہوا تھا، اس میں انھوں نے بہت سے اکابر علماء کو مدعو کررکھا تھا، اس ناچیز کو بھی مدعو کیا تھا، ایک دن مغرب بعد پروگرام میں ناچیز کا بیان بخاری شریف کے افتتاح کا موضوع رکھا تھا، میں نے ۴۰؍منٹ بیان کرکے اپنی بات ختم کردی،اس کے بعد حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب کا بیان تھا، زندگی کے تجارب، طلبہ وعلماء کو نصائح، ان کا یہ بیان بہت قیمتی تھا طلبہ کے لیے بھی اور علماء کے لیے بھی اور عامۃ الناس کے لیے بھی، اس میں سب سے اہم بات یہ فرمائی کہ اپنے اکابر کے مسلک سے ہٹنا بہت خطرناک ہے، اس پر قائم رہیں ، اس سے وابستہ رہنا یہ بڑی سعادت مندی کی بات ہے۔

            اللہ تعالیٰ کی مرضی ان کا وقت آگیا؛ لیکن انھوں نے اپنی تالیفات کے ساتھ ہزاروں شاگردوں کی تعداد چھوڑی، جس سے ان کا سلسلۂ فیض قیامت تک جاری رہے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔

            حضرت مفتی صاحب مرحوم نے کثرت اولاد کے باوجود سب کو حفاظ وعلماء بنایا اور خود کفیل بنانے کی کوشش کی اور خود حضرت مفتی صاحب درس وتدریس کی خدمت للہ فی اللہ  انجام دیتے رہے، مدرسوں کی تنخواہ سے اپنے آپ کو مستغنی رکھا، یہ درحقیقت ان کے شیخ اوّل اور ہمارے استاذ وشیخ حضرت مولانا محمدزکریا صاحب شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے دامن فیض سے وابستگی کی برکت تھی۔

            امسال دہلی شاہ ولی اللہ ایوارڈ کے لیے اس ناچیز کے پاس خط آیا کہ آپ کسی کا نام اس کے لیے پیش کریں ، اس ناچیز نے حضرت مولانا ہی کا نام پیش کیا تھا، اگرچہ وہ جائزہ کے خواہشمند نہیں تھے؛ لیکن جائزہ کے لیے شرف کی بات تھی کہ ان جیسے آدمی کی طرف اس کا انتساب ہوجائے۔

            اس قحط الرجال کے دور میں ایسے عالم ربانی محدث وفقیہ واصولی ومتکلم کا اٹھ جانا بہت بڑا خسارہ ہے، خاص طور پر دارالعلوم دیوبند جو ’’ام المدارس‘‘ ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا بدل عطا فرمائے، بلاشبہ دارالعلوم دیوبند کا قیام اللہ کے غیبی نظام کے تحت ہوا اور ایسی جگہ پر ہوا کہ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ دیوبند سے گزرتے ہوئے جب اس سرزمین پر پہنچے جہاں آج دارالعلوم کی عمارت کھڑی ہے تو ٹھٹک کر فرمایاکہ مجھے یہاں سے علم کی خوشبو آرہی ہے، یہی مقولہ بزرگوں سے حضرت سیّداحمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت بھی لکھا گیاہے، جب کہ انھوں نے جہاد پر جاتے ہوئے دیوبند میں قیام فرمایا تھا، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک بیان میں فرمایا کہ یہ دارالعلوم مشرق ومغرب کے مسلمانوں کے لیے ایک عدیم النظیر درس گاہ ہے جو اس دور تجدید میں بھی اسلاف کی امانت کو سنبھالے ہوئے ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ یہاں سے ایسے افراد پیدا ہوتے رہیں گے جو اس کی روایات وخصوصیات کو باقی رکھیں گے، آمین!

            انشاء اللہ امید ہے کہ حضرت مولانا کے شاگردوں میں ان کے بھائی صاحب اور ان کی اولاد انھیں کے راستے پر چل کر روحانی وعلمی کمال حاصل کریں گے، اللہ الموفق۔

            ان کے انتقال سے ۳؍دن پیشتر اچانک اس ناچیز نے ان کی ٹیلیفون پر خیرت معلوم کرنی چاہی تو ان کے صاحبزادے نے بتلایاکہ والد صاحب بمبئی ہیں اور بیمار ہیں ، تفصیل کا ذکر نہیں کیا تھا؛ لیکن مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ شدید بیمار ہیں ، دودن کے بعد دوبارہ پھر فون کیا اس کے دوسرے روز اس حادثہ کو سن کر بہت رنج ہوا اور اپنے مدرسہ کے طلبہ واساتذہ کو خصوصی ایصال ثواب کی تاکید کی اور خود بھی ایصال ثواب کا اہتمام کیا۔

            حضرت مفتی صاحب کے لیے ایک بڑا سرمایہ ان کی اولاد ہیں ، ما شاء اللہ ۹؍بیٹے بقید حیات ہیں ، سب حافظ قرآن ہیں ، اکثر عالم ہیں ، اسی طرح ان کی سب بہویں حافظ قرآن ہیں ، یہ سن کر رشک آیا، ہمارے ۶؍اولادنرینہ ہیں افسوس کہ صرف ایک صاحب عالم ہوسکے اور ایک پوتے، ہمارے کاموں کو سنبھالنے والاکوئی نہیں نظر آرہا ہے، دیکھ کر رنج و غم ہورہا ہے، یہ بہت بڑی ابتلا ہے، بیشک جامعہ اسلامیہ مظفرپور اور مرکز ابوالحسن ندوی کی تعمیر اور ہماری مؤلفات اللہ کرے کہ یہ ہمارے لیے سرمایۂ آخرت بنے، اللہ تعالیٰ غیب سے انتظام فرمائے، آمین۔

            اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت مفتی صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ان کے علمی وروحانی فیض کو بقا و دوام عطا فرمائے اور ان کوجنت الفردوس میں جگہ دے، آمین!

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

———————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :7-6،    جلد:104‏،  شوال المكرم – ذی القعدہ 1441ھ مطابق جون –جولائی 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts