از: حضرت مولانامفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم

مہتمم دارالعلوم دیوبند

            دارالعلوم دیوبندکے لیے گذشتہ تین چار سال اس اعتبار سے بڑے خسارے کے گذرے ہیں کہ اس درمیان یہاں کے متعدد قدیم اور اہم اساتذئہ کرام رخصت ہوگئے، جس کا سلسلہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب بستویؒ کے انتقال سے شروع ہوا، پھر حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ رخصت ہوے، اس کے بعد حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمۃ اللہ علیہ نے داغِ مفارقت دیا، پھر مولانا جمیل احمد صاحب سکروڈویؒ اور مولانا محمد جمال صاحب میرٹھیؒ رخصت ہوگئے، اور اب دارالعلوم کے صدرالمدرسین اور قدیم ومقبول ترین استاذ وشیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری بھی داغ مفارقت دے گئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔

            حضرت مفتی صاحبؒ، دارالعلوم کے قدیم ترین اساتذہ میں سے تھے، ان کا تقرر ۱۳۹۳ھ میں ہوا، اس طرح ۴۸؍سال دارالعلوم میں بحیثیت مدرس انھوں نے گزارے اور ترقی کرتے کرتے آخر کے بارہ سال دارالعلوم کے صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے، بخاری شریف کا درس ان کا نمایاں درس تھا، عام طور پر مدارس میں حدیث کی کتابوں اور خاص طور پر بخاری شریف کے درس کا یہ طریقہ رہتا ہے کہ ابتدائی مہینوں میں تفصیل زیادہ ہوتی ہے اور آخر میں جب کتاب ختم کرنے کا نمبر آتا ہے تو روایتاً سرداًکتاب پوری کرادی جاتی ہے؛ لیکن حضرت مفتی سعید صاحبؒ کا طریقۂ درس پورے سال ایک جیسا رہتا تھا، مختصر تشریح کے ساتھ یکساں انداز سے پوری کتاب پڑھاتے تھے، انھوں نے متعدد کتابیں لکھیں ، بخاری و ترمذی کی ان کی درسی تقریریں چھپیں ، اسی طرح حجۃ اللہ البالغہ کی شرح رحمۃ اللہ الواسعہ انھوں نے لکھی اور پھر تفسیر ہدایت القرآن کی تکمیل فرمائی اوراس کے علاوہ بھی متعدد کتابیں ان کے قلم سے وجود پذیر ہوئیں ؛ بلاشبہ ان کو کثیر التصانیف علماء میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

            چند خصوصیات جوحضرت مفتی صاحب کے اندر عام طور پر محسوس کی جاتی تھیں اور جن کا ہر ایک تذکرہ کرتا ہے: ایک بات تو یہ تھی کہ وقت کی قدردانی ان کے یہاں بہت تھی، صرف عصر کی نماز کے بعد طلبہ کو حاضری کی اجازت تھی اورمہمانوں کو ملاقات کی۔ باقی پورا وقت  وہ مطالعہ، تصنیف وتالیف اور اپنے علمی مشاغل میں صرف کرتے تھے، ہمیشہ کسی نہ کسی علمی کام میں مشغول رہتے تھے، ایک سے فارغ ہوتے تھے اور دوسرے کام میں لگ جاتے تھے۔ اسی طرح اپنی رائے کی پختگی میں وہ بہت معروف تھے جو رائے قائم کرلیتے تھے دلائل سے مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہتے، ہوسکتا ہے کہ ان کی رائے سے ہر ایک کو اتفاق نہ ہو؛ لیکن یہ عالم دین کی خوبی ہے کہ سوچ سمجھ کر اور غور وفکر کرکے کوئی رائے قائم کرے اور اگر اس کے خیال میں وہ رائے صحیح ہے تو مضبوطی کے ساتھ اس پر جمارہے۔ مفتی صاحب کی نظر فقہ وفتاویٰ، حدیث، تفسیر اور اس کے علاوہ علوم عقلیہ پر بھی تھی؛ چناں چہ انھوں نے فلسفہ کی کتاب میبذی سے پہلے بچوں کو پڑھانے کے لیے مبادیٔ الفلسفہ اور اسی طرح کے کچھ رسائل (آسان صرف، آسان نحو، آسان منطق، آسان فارسی قواعد) لکھے کہ جو ابتدائی طلبہ کو ان فنون سے روشناس کرانے اور مناسبت پیدا کرنے کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔

            مفتی صاحب سے میرا تعارف زمانۂ طالب علمی سے تھا، میں جب دارالعلوم میں ۱۹۶۲ئ، شوال۱۳۸۲ھ میں داخلہ کے لیے حاضر ہوا تو وہ مفتی صاحب کی فراغت کا سال تھا اور اس سے اگلے سال جب کہ میرا قیام کمرہ(۴)  احاطۂ دفتر میں تھا (جو موجودہ کمرہ(۲۴) مسجد قدیم کہلاتا ہے) تو نیچے جو آج کل ’’شعبۂ صفائی‘‘ کا دفتر ہے اس میں مفتی صاحب قیام  پذیر تھے، یہ ان کا دارالافتاء کا سال تھا جو غالباً ۸۴-۱۳۸۳ھ کا سال ہے۔ بڑی یکسوئی کے ساتھ وہ اپنے مطالعے میں مشغول رہتے تھے اور رات کو عشاء کے کافی دیر بعد تقریباً بارہ ایک بجے (جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے) اپنے کمرے کے باہر چبوترے پر بیٹھ جاتے اور قرآن پاک یاد کرنا شروع کرتے، جہاں تک میرا خیال ہے، اسی طرح رات میں پورا قرآن پاک انھوں نے یاد کیا اور ان کے چھوٹے بھائی (مفتی امین صاحب دامت برکاتہم جو اس وقت دارالعلوم میں علیا کے مدرس ہیں ) بھی ان کے ساتھ تھے۔ بڑی یکسوئی کے ساتھ وہ اپنے کام میں لگے رہتے تھے، کسی دوسرے مشغلے سے کوئی تعلق نہیں تھا، مطالعہ، مذاکرہ اور درس گاہ کی حاضری اور اس صفت سے وہ اساتذہ کے درمیان بھی مقبول تھے۔

            مجھے یاد ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر ایک دن احاطۂ مولسری میں ان سے ملاقات ہوئی اور وہ دارجدید کی طرف جارہے تھے، کہنے لگے: جی چاہتا ہے آج دارجدید کو دیکھ لوں ، کئی مہینے ہوگئے ادھر نظر نہیں پڑی۔ دارلعلوم کے اندر رہتے ہوئے صرف بیچ میں ایک عمارت ہے نودرے اور دارالحدیث کی۔ ان کا قیام صدردروازے کے قریب تھا، پڑھنے کے لیے دارالافتاء جاتے تھے جو مسجد کی مشرقی جانب ہے، نماز مسجد قدیم میں پڑھتے تھے، مطبخ بھی اسی علاقے میں ہے، اس لیے دارجدید جانے کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی۔ اس طرح اتنی لمبی مدت ہوگئی؛ لیکن ادھر جانے کی نوبت نہیں آئی یہ ان کی انتہائی یکسوئی اور علمی انہماک کا ثبوت ہے۔

            مفتی صاحب کے ساتھ یہ میرا ابتدائی تعارف تھا اور پھر وہ جہاں بھی رہے، ان کے ساتھ شناسائی رہی؛ تاآں کہ وہ ۱۳۹۳ھ میں دارالعلوم میں وسطیٰ الف کے مدرس کی حیثیت سے آگئے اور چوں کہ دارالعلوم میرا بھی آنا جانا رہتا تھا اور دیگر اساتذہ سے بھی ملاقات رہتی تھی تو مفتی سعید صاحب سے بھی ملاقات ہوتی تھی۔ اور پھر ۱۹۹۱ء میں جب میں مجلس شوریٰ میں آیا تو مفتی صاحب سے اور قریبی تعارف ہوا، غالباً آج سے تقریباً ۱۲؍سال پہلے جب حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب رحمہ اللہ نے اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے بخاری شریف پڑھانے سے معذرت کرلی تو حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ، جو ایک جہاں دیدہ، تجربے کار،  بڑے سنجیدہ اور باوقار مہتمم تھے جنھوں نے ۳۲؍سال تک اس منصب کو زینت بخشی، انھوں نے مفتی صاحب کو اپنے پاس بلاکر بخاری شریف کی تدریس ان کے حوالے کی اور اتفاق سے میں اس وقت اسی جگہ موجود تھا کسی ضرورت سے حضرت مہتمم صاحب نے مشورہ کے لیے مجھے بنارس سے بلوایا تھا۔ میری موجودگی میں انھوں نے مفتی سعیدصاحبؒ کو بلوایا اور ان سے کہا کہ مولانا نصیراحمد خاں صاحب نے بخاری شریف پڑھانے سے معذرت کرلی ہے بخاری شریف کا سبق آپ کو پڑھانا ہے، پھر اس کے بعد شوریٰ میں باقاعدہ اس کو منظوری حاصل ہوئی اور اُن کو دارالعلوم کا صدرالمدرسین بھی بنایاگیا، یہ ان کا آئینی عہدہ تھا۔

            ان کا سارا مشغلہ درس وتدریس، تصنیف وتالیف، مطالعہ اور کتب بینی کے ساتھ وابستہ رہا۔ ایام تعلیم میں اسفار نہیں کرتے تھے، ہاں ! تعلیم کا وقت مکمل ہوجاتا اور اسباق پورے ہوجاتے توسفر میں جاتے، عموماً امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں ان کا پورا رمضان گذرتا، وہاں بیانات ہوتے، لوگ ان سے مستفید ہوتے۔ اسی طرح بقر عید کے موقع پر کوئی ضرورت ہوتی تو سفر کرتے؛ لیکن ایام تعلیم میں عام طور پر سفر نہیں کرتے تھے اور اب جب ان کا انتقال ہوچکا ہے تو بہت بڑا خلا محسوس ہورہاہے۔

            جانے والے چلے جاتے ہیں اورجوان کے پیچھے رہ جاتے ہیں ان کی بھی کوئی ذمے داری بنتی ہے، اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ عرض کرنی ہے کہ ہمارے اندر اور خاص طور سے طبقۂ علماء میں منافست کا ایک ماحول رہتا ہے کبھی کبھی اس منافست میں نامناسب باتیں بھی زبان سے نکل جاتی ہیں جن کو جائز اور درست نہیں کہا جاسکتا۔ جانے والاتو چلا گیا ہم اللہ سے دعا کریں کہ اگر ہماری زبان سے ان کی شان میں کوئی غلط بات نکلی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمادے اور ان کے حق میں اپنی قربت اور رضا وخوش نودی کا ذریعہ بنائے اور پھر ہم سے جتنا ہوسکے ان کے لیے دعائے مغفرت اورایصال ثواب کریں اوریہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بزرگوں کی امانت دارالعلوم دیوبند کی حفاظت فرمائے اور دارالعلوم کو حضرت مفتی صاحبؒ کا نعم البدل عطا فرمائیں ؛ تاکہ تعلیم وتربیت کا یہ کارواں اسی طرح چلتا رہے اور ہم جولوگ ان کے پیچھے رہ گئے ہیں ، ہمارا بھی اب وقت قریب ہے، عمر کے اعتبار سے ان سے چند سال کا فاصلہ تھا، ستَّر سال سے عمر متجاوز ہوچکی ہے، اللہ ہمارا بھی خاتمہ بالخیر فرمائے اور جب تک دارالعلوم کی خدمت مقدر میں لکھی ہے اخلاص کے ساتھ صحیح طریقے پرکام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :7-6،    جلد:104‏،  شوال المكرم – ذی القعدہ 1441ھ مطابق جون –جولائی 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts